Ek ghalati afsana by Marha Zainab


افسانہ:ایک غلطی
مصنفہ: مرہازینب.
ہاسٹل کے چھوٹے سےحبس زدہ کمرے کے تیسرے بیڈ پر بیٹھے ہوئے اسے اپنا گھر یاد آرہا تھا. اپنے گھر کا سکون یاد آرہا تھاجو وہ اپنی باتوں کی وجہ سے خود خراب کرتی تھی. جس چھوٹی سی تکلیف کو بنیاد بنا کر وہ اپنا گھر چھوڑ آئی تھی اسے  سہی معنوں میں اب معلوم ہوا تھا کہ تکلیف ہو تی کیا ہے اذیت کس چیز کا نام ہے. اپنے گھروں میں سکون سے بیٹھے ہوئے ہم چھوٹی چھوٹی باتوں اور تکلیف کو پہاڑ بنا لیتے ہیں. اور اپنے گھر کا سکون اپنے ہاتھوں تباہ و برباد کردیتے ہیں.اس کے ساتھ بھی یہی ہوا تھا. وہ اپنے گھر میں سکون سے رہ رہی تھی. اسے ہر چیز میسر تھی. ڈھیر ساری خوشیاں تھی. چھوٹے بڑے مسئلے ہر گھر میں ہوتے ہیں. اس کے گھر میں بھی ایک چھوٹا  مسئلہ تھا مگر اس نے اس چھوٹے سے مسئلے کو خود پر اتنا سوار کر لیا کہ ہر چیز ہر خوشی ہر نعمت پس پشت چلی گئی. مسئلہ اس کے بابا تھے. انھیں اپنے بہن بھائیوں سے بہت محبت تھی.ان کے  سامنے ان کے بچے کچھ بھی نھیں تھے. ہر روز انھیں دعو تیں ہوتی تھیں.وہ ان سب کے سا منے خود کو بہت کمتر محسوس کرتی تھی. اور یہ چیز اسے زیادہ تکلیف دیتی جب اس کی امی کچھ پیسے مانگتی تو بابا کا یہی جواب ہوتا کہ میرے پاس نہیں ہیں. سودا سلف  کے لیے  بھی  وہ ایسے کرتے کے ابھی کل تو لیا تھا. ہر وقت  یہی طعنہ ملتا کہ میں تمہیں بٹھا کر کھلا رہا ہوں. اتنا جلدی ختم ہوگیا. اور جب دعوت ہوتی تو  بابا اتنا سارا سامان لے آتے.  پیسہ پانی کی طرح بہا دیتے تو اسے تکلیف ہوتی کہ اب کہاں سے آئے. وہ سخت ذہنی اذیت میں مبتلا ہو جا تی. اس کا دل کرتا وہ یہ گھر چھوڑ  کے چلی جائے.اور خود کمائے. وہ سوچتی کہ کاش اس کے بابا ایسے نہ ہو تے. ہر کسی کو اپنی اولاد سے محبت ہوتی ہے. ہر کوئی اپنی اولاد کے لیے کما تا ہے.اس کا دل کرتااس کے بابا بہت محبت کرنے والے ہوتے. جس طرح وہ اپنے بہن بھائیوں کے بچوں سے محبت کرتے ہیں اس سے بھی ایسی محبت کریں. جب وہ دوسرے بچوں کو ان کے والدین سے لاڈ اٹھواتے دیکھتی تو اسے بہت تکلیف ہوتی. اس نے جذبات میں آکر اپنا گھر چھوڑ دیا. راستوں میں بھٹکتے خود کو بچاتے وہ ہاسٹل پناہ لینے میں کامیاب ہو گئی. یہاں آکر اسے معلوم ہوا کہ اس نے کیا کیا ہے. اب اسے اپنے گھر کی قدر معلوم ہوئی. جن طعنوں سے تنگ آکر اس نے گھر چھوڑ آئی تھی تو اب یہاں سنگسار کر دینے والی باتوں کا سامنا کرنا پڑا. تو اب یہاں سے فرار ہو کر وہ کہاں جائے گی. لوگوں کی ہوس بھری نگاہوں کا سامنا کرتے اسے اپنے گھر کی چھت اور چاردیواری کا تحفظ یاد آتا. اس نے جب خود کمانا شروع کیا تو اسے معلوم ہواکہ گھر میں بیٹھ کے کھانا کتنا آسان ہے. کام کرتے اسے اپنا باپ یاد آتا جس نے واقعے انہیں بیٹھا کر کھلایا تھا. کبھی نہیں کہاکہ خود جا کر کماؤ. اسے اپنی بہنیں یاد آتیں. خود کے ساتھ اس نے اپنی بہنوںکا مستقبل بھی تباہ کر دیا تھا. قصور وار نہ ہوتے بھی اس کی بہنیں مجرم بن گئی تھی. ایک بہن کے چلے جانے کے بعد ان کا کردار بھی مشکوک ہو گیا تھا. چھوٹی سی بات کی وجہ سے اس نے سب کی زندگیاں تباہ کر دی تھی. اس نے اپنے آپ کو ایسے کنوئیں میں ڈال دیا تھا جہاں سے اب نکلنےکا کو ئی راستہ نہ تھا. آج جس مقام پر وہ تھی وہ اپنی وجہ سے تھی. اس نے اللہ کی اتنی نعمتوں کو ٹھکرا کہ ایک تکلیف کو سینے سے لگایا تھا. اپنی زندگی کو وہ اندھیروں کے سپرد کر چکی تھی. نہ پیچھے کو ئی در کھلا تھا نہ آگے کوئی راستہ تھا. اس نے اپنی زندگی کو خود تاریک کیا تھااور اب اسے تمام عمر ان تاریکیوں میں ہی رہنا تھا.  
***************************

Comments