افسانہ""" بدعا
از قلم:اقراء
امی
امی!! آج باجی پھر حسب توقع روتی ہوئی گھر میں داخل ہوئیں اور امی سےلپٹ کر زاروقطار
رونے لگیں یہ تو اب روزانہ کا معمول تھا......
امی
کی آنکھیں بھی نم ہو گئیں آج پھر تمہاری نند آئی ہو گی تبھی میری بچی رورو کے ہلکان
ہو رہی ہے تمہیں یوں دیکھ کر مجھے دکھ ہوتا ہے امی نے بھی اپنا مخصوص جملہ جو اس مخصوص
صورتحال میں ہی ادا کرتی تھیں ادا کیا...
پتہ نہیں آپا کو کیا مسئلہ ہے میرا گھر خراب کرنے پر تلی ہیں ان کی وجہ سے آج پھر واجد سے لڑائی ہو گئ. باجی سسک سسک کے رو دیں......
پتہ نہیں آپا کو کیا مسئلہ ہے میرا گھر خراب کرنے پر تلی ہیں ان کی وجہ سے آج پھر واجد سے لڑائی ہو گئ. باجی سسک سسک کے رو دیں......
اس
بار امی کے ساتھ ساتھ میری آنکھیں بھی بھیگ گئیں ان روز روز کی لڑائیوں کی وجہ سے
مجھے بھی باجی کی نند بقول امی کے ڈائن, چڑیل رضیہ آپا سے نفرت ہونے لگی بے اختیار
میرے دل سے اس کے لئے موت کی بدعا نکلی شاید اس طرح اسے کسی کی اولاد کو دئیے جانے
والے دکھ کا احساس ہو......
امی
آج رضیہ آپا کا آپریشن ہے میں اور اماں ہاسپٹل ہیں آپ بھی جلدی آ جائیں. امی نے فون
کا ریسیور رکھا چادر لپیٹی اور ہاسپٹل روانہ ہو گئیں......
کام
میں مگن اقصی کے تسلسل کو فون کی گھنٹی نے توڑا.
"ہیلو اقصی "
" کیا ہوا باجی آپ رو کیوں رہی ہیں کیا ہوا کچھ تو بولیں...
"اقصی وہ رضیہ آپا کا بیٹا ہوا تھا وہ فوت ہو گیا... "
"ہیلو اقصی "
" کیا ہوا باجی آپ رو کیوں رہی ہیں کیا ہوا کچھ تو بولیں...
"اقصی وہ رضیہ آپا کا بیٹا ہوا تھا وہ فوت ہو گیا...
دوسری
جانب سے شاید لائن کٹ گئی تھی لیکن اقصی کو ہوش ہی کب تھا.....
"جس کی دعاؤں میں اثر نہ
تھا
اس کی بدعا میں اثر آ گیا
تھا
یا سب دعاؤں میں اثر ہوتا ہے
جو
دل سے نکلتی ہیں بس ہم بے صبرے
ہو
جاتے ہیں ""
اقصی
کے ذہن میں کچھ تھا تو صرف الفاظ کہ کاش وہ مر جائے کاش وہ مر جائے اور وہ بے قصور
مر گیا وہ بے گناہ مر گیا......
****************************
Comments
Post a Comment