ایٹم بم اور ہم
تحریر ملک اسلم ہمشیرا
آجکل
سوشل میڈیا پر جنگ کی تیاریاں عروج پر ھیں اور ستم ظریفی دیکھییے کہ جنگ کے وقوع پزیر
ہونے کیلیے دونوں طرف کے عوام ایسے جوش خروش دکھا رھے ھیں جیسے عید کا تہوار آنے والا
ھے، اس جوش وخروش کے برعکس اگر کوٸی
انسانیت دوست سیاسی شخیت جنگ بندی کیلیے کوٸ
بیان دے بھی دیتی ھے تو اُسے بزدل ڈرپوک کے القابات سے نوازا جاتا ھے،وزیرِاعظم عمران
خان کے بیانات اس بات کا ثبوت ھیں
کچھ
”فیس بُکی جہادی “حضرات تو ایٹم بم سے نیچے بات ہی نہیں کرتے،حالانکہ حقیقی زندگی میں
اگر ان کے ساتھ کوٸ
بچہ جوس والا ڈبہ بھی پھٹا دے تو دو گھنٹے سر پکڑ کر بیٹھے رہتے ھیں
یہاں
پر اکیس توپوں کی نہیں بلکہ اکیس جے ایف تھنڈر کی سلامی اُن فیس بُکی دانشوروں اور
سانٸیسدانوں کو پیش کرتا ھوں جنہوں
نے ایٹمی حملے سے بچاٶ
کے طریقے بھی بتا دیےہیں
کہ
کس طرح نیچے لیٹ جانا ھے؟،کس طرح ٹانگیں کراس کر لینی ھے؟ ،کیا کیا وظاٸف
ورد فرمانے ہیں کس طرح ریڈیو ساتھ رکھنا ھے،؟ کس طرح زیر زمین چلے جاناھے وغیرہ وغیرہ
یعنی
ایک طرح سے ایٹمی حملے سے بچاٶ
کے ناقابل عمل طریقے بتا کر یہ راکٹ سانٸینس
ھمارے دماغوں میں انڈیلنے کی کوشیش کی ھے کہ اب ہم نے ایٹمی حملے کے بچاٶ
کے طریقے سیکھ لیے ھیں اب بے شک جنگ کرا دو٠٠٠٠،ہمیں کوٸی
اعتراض نہیں حالانکہ تاریخ کے اوراک بتاتے ھیں
کہ ایسے فیس بُکی ایٹمی ساٸنسدان کٸ
دفعہ اپنے گھر گیس سلنڈر جلاتے ھوۓ
اپنی پلکوں اور بھوٶں
کی چِتا جلا بیٹھتے ھیں
جنگی
حالات کو ہوا دینے میں دونوں ملکوں کے میڈیا کا کردار بڑا خطرناک ھے،جو یہ کسی طرح
نہیں چاہتا کہ جنگ کا خطرہ ٹل جاٸے
اور ان کے پاس خبریں ختم ھو جاٸیں،رہی
سہی کسر ہمارے سیاستدانوں نے پوری کی ھوٸ
ھے،جو اپنے ذاتی مفادات کیلیے پوری دنیا کو آگ میں جھونکنا چاھتے ھیں کیونکہ ایٹمی
جنگ سے پہلے انہوں نے جہاز میں بیٹھ کر رفو چکر ھو جانا ھے،پیچھے رہ جاٸیں
گے ہم جیسے گلوبٹ
بہر
حال اب آتے ھیں اصل بات کی طرف ، ایٹم بم ھے کیا بلا؟
ایٹمی جنگ انسان کے بس کی بات نہیں
ھے اس بچنے کا واحد حل صرف اعلی انسانی اقدار کو اپنانا ھے بصورت دیگر،قدرت کے اس شاہکار
کے آگے انسان کتنا حقیر ھے،درج زیل عبارت آپ کی آنکھیں کھولنے کیلیے کافی ھو گی
جب
ایٹمی دھماکہ ھوتا ھے تو کیا ھوتا ھے؟
جب
6اگست1945 کو امریکہ نے جاپان کے شہر ھیروشیما اور 9اگست کو ناگاساقی پر لٹل بواٸے
اور فیٹ بواٸے
نامی دو ایٹم بم گراۓ
جو کہ سطح زمین سے 600میٹر بلندی پر پھٹ گیٸے
پھر
کیا تھا ایک زور دار کڑک ٠٠٠ پھر چکا چوند کر دینے والی روشنی اور سورج کے گرم ترین
حصے یعنی پندرہ کروڑ ڈگری سینٹی گریٹ درجہ حرارت ،الاآمان الحفیظ تمام جانداروں کے
دل پھٹ گٸے،لوھا
پگھل کر پانی ھوا٠٠٠آگ اور دھوٸیں
کا ایک مہیب سا گولہ آسمان کی طرف اٹھا، عمارتوں میں آگ لگ گٸ،اور
لاکھوں انسان پل بھر میں لقمہ اجل بن گٸے
ایٹمی
حملے کے وقت جس عفریت کا سامنا انسان کو پہلی دفعہ کرنا پڑا تھا وہ تھیں الفا،بیٹا
اور گیما شعاٸیں،گیما
شعاٸیں اتنی طاقت ور ھوتی ھیں
کہ اگر انسان مورچے میں گھس جاٸے
یا پانی میں چھلانگ لگا لے تب بھی یہ پیچھا نہیں چھوڑتیں
اس
کے علاوہ نیوٹران انسانی جسم میں داخل ھو کر ھاٸیڈروجن
اور ناٸٹروجن
کے خلیوں کو تحلیل کر دیتے ھیں جس سے انسانی جسم کٸ
لا علاج بیماریوں کا شکار ھو جاتا ھے،
اس
کے علاوہ تابکار شعاعیں جنسیات پر بھی اثر انداز ھوتی ھیں جس سے اگلی نسلیں ابنارمل
پیدا ھوتی ھیں،
یہ
تو ھو گیا تقریباً 80سال پُرانا ایٹم بم ٠٠٠٠مگر اب پیش ِخدمت ھیں ھاٸیڈروجن
اور نیوٹران بم
جو جدید اور قسم قسم کے فلیور میں
دستیاب ھے جن میں کوبالٹ دھات،لیتھیم فلوراٸیڈ،میگنیشم
کے آٸسوٹوپ
جو ہر زی شٸے
کو زھر ناک بنانے کیلیے اپنی خدمات انجام دینے کیلیے ہمہ وقت تیار ھیں،اللہ کے فضل
و کرم سے ہم نے اس معاملے میں اتنی ترقی کر لی ھے کہ جتنے ایٹمی ھتھیار انسان نے بناٸے
ھوٸے ھیں وہ پوری دنیا کو کٸ
دفعہ صفحہ ہستی سے مٹانے کیلیے کافی ھیں،
انسان کتنا بے وقوف ھے؟اسکا اندازہ
اس بات سے لگاٸیں٠٠٠٠فرض
کریں کہ اگر مریخ یا کسی اور سیارے سے کوٸی
مخلوق اگر ہماری زمین پر اُترے اور ہم سے پوچھے کہ یہ اتنی خوفناک شٸے
کس کے لیے بناٸی
ھے؟ تو ہمارا جواب کیا ھوا؟
کیا
ہمارے سر شرم سے جُھک نہیں جاٸیں
گے؟
انڈیا
اور پاکستان دونوں ممالک جو کہ جدید ایٹمی ہتھیاروں کی دولت سے مالا مال ہیں صبح و
شام پرمانڑوں بم چلانے کا راگ آلاپتے ھوٸے
ممکنہ ایٹمی حملے کا شکار ھونے والے ممالک میں پہلی دوسری پوزیشن پر فاٸز
ھو چکے ھیں، ایک منٹ میں بندوقوں سے ڈاریکٹ ایٹم بم پر آ جاتے ھیں اور گنیں رکھ کر
اگنی ،پرتھوی،نصر،غوری کندھوں پر اُٹھا لیتے
ھیں ،ہندوستان جیسی بڑی مملکت کی قیادت کا
جنگی معاملے میں غیر زمہ دارانہ بیان وزیر اعظم کے اس بیان کا مظہر ھے جس میں کہا تھا
کہ ”جب چھوٹے لوگ بڑے عہدوں پر بیٹھ جاتے ہیں تو اس طرح کی حرکتیں کرتے ھیں،“
کیا
پاکستان اور انڈیا کی ایٹمی جنگ ہو سکتی ھے؟تو اس کا جواب میرے خیال میں ”ھاں“ میں
ھو گا،
کیونکہ
مثل مشہور ھے کہ جنگ اور محبت میں سب کچھ جاٸز
ہوتا ھے،کیونکہ ایک متحاط اندازے کے مطابق جنرل وار کی صورت میں انڈیا کے پاس صرف دس
بارہ دنوں کی جنگ کا اسلحہ موجود ھے اس کے بعد ظاہر ھے وہ کچھ بھی کر گزرے گا
جبکہ
دوسری طرف معاشی تزبزب کا شکار ملک پاکستان بھی جنگ کا متحمل نہیں ھو سکتا مگر جب بات جینے مرنے پر آگٸ
تو پاکستان کے پاس سواٸے
ایٹم بم کے اور کوٸی
حل نہیں ھو گا کیونکہ پاکستان بھی ایک طویل جنگ نہیں لڑ سکتا، میرے خیال میں اکیلا
انڈیا حملہ کرنے کی حماقت نہیں کرے گا کیونکہ بھارت کے کانوں میں جنرل ضیاالحق کے اُس
جملے کی بازگشت ابھی تک گونج رہی ھے کہ
”اگر ہندوستان نے پاکستان پر ایٹمی حملہ کیا تو شاٸد
مسلمان باقی پوری دنیا میں موجود ھوں گے اور اگر پاکستان نے ہیندوستان پر ایٹمی حملہ
کیا تو ہندو پوری دنیا سے مٹ جاٸیں
گے“
پہلے
تو اللہ تعالی کرم کے فیصلے فرماٸے
اور ایٹمی جنگ نہ ھو اگر خدانخواستہ ایسا ھو بھی گیا تو آج کے جدید ترین ہاٸیڈروجن
بم اتنے خطرناک ھیں کہ اگر ان کو سمندر میں بلاسٹ کر دیا جاٸے
تو ایک تا دو کلومیٹر اونچی لہریں اُٹھ سکتی ھیں جو ناصرف دشمن کے بحری بیڑے کو کسی
کھلونے کی طرح اٹھا کر بلند و بالا عمارتوں پر دے ماریں گی بلکہ سمندر کو بھی زہرناک
کر دیں گی،گو کہ ایٹم بم کا اس طرح کا مظاہرہ کہیں دیکھنے کو نہیں ملا مگر روس اور
امریکہ اس طرح کی مشقیں بھی کر چکے ھیں
اب
لگتا ھےپوری دنیا صرف تماشا دیکھ رہی ھے یا اصل تماشہ دیکھنا چاھتے ھیں ،کیونکہ ان
دونوں ایٹمی ممالک کی جھڑپو ں کر سنجیدہ نہیں لیا جا رھا،بادل ِنخواستہ اتنا بیان داغ
دیا جاتا ھے کہ ایٹمی حملے کی صورت میں یورپ کو اناج چاول اور خام مال نہیں ملے گا
مگر
دنیا یاد رکھے آج کے نیوکلیاٸ
بم پوری دُنیا کے لیے موت کے پیامبر ھیں کیونکہ اب جو بھی ایٹمی دھماکہ ھوگا وہ کرہ
ہواٸ بھی کراس کر جاٸے
گا اس طرح ایک تابکاری بادل موت کا سایہ بن کر منڈلاتا رھے گا اور ھوا کی مرضی اسے
جہاں لے جاٸے
کیونکہ
پھر
٠٠٠٠٠٠چرغ سبھی کے بجھیں گے
٠٠٠٠٠یہ ظالم ھوا کسی کی نہیں٠٠٠٠
**********************
،
Comments
Post a Comment