Anjan rasta afsana by Sadaqat Mehmood

Anjan rasta afsana by Sadaqat Mehmood


افسانہ :انجان راستہ
از صداقت محمود
ابا اب آپ کی جگہ نہیں ہے میں آپ کو کھانا نہیں کھلا سکتا ۔آپ کو کھلاتا رہا تو میرے بچے بھوکے مر جائیں ۔آپ گھر چھوڑ کر چلے جائیں ۔
اور ساتھ فائزہ کو بھی لے جائیں ۔
فائزہ سلمان کی بہن تھی اور فائزہ کی عمر اٹھارہ سال تھی ۔
جبکہ سلمان چالیس سال کا جوان بیٹا تھا اس سفید بزرگ کا جن کی عمر اسی سال تھی ۔
یہ الفاظ سنتے ہیں وہ بزرگ بولے کوئی بات نہیں بیٹا ہم چلے جاتے ہیں اور فائزہ کو ساتھ لیا اور انجان راستے کی طرف چل پڑے۔
اس راستے میں بزرگ کو آندھیوں طوفانوں کا مقابلہ کرنا تھا جو ان کے لیے بہت مشکل کام تھا ۔
بدرزمان صاحب فائزہ کو اس کی خالہ کے گھر چھوڑ کر ایک اور سفر پر چل پڑے ۔
اسی سال کا بوڑھا شحص دمے کا مریض جس کے لیے چلنا بھی مشکل ہو رہا تھا ۔
چلتا جا رہا تھا۔
یہ اسی سالہ سفید داڑھی والا بابا جس کو خود نہیں پتا تھا کہ اس کی منزل کونسی ہے ۔
اس بزرگ کے زہن میں بہت خیال گردش کر رہے تھے ۔
بزرگ کے اپنے بچپن سے لے کر اس بزرگی تک کا سفر کیسے اور کن کن حالات میں سے گزر کر کیا ۔یہ صرف بابا بدرزمان صاحب ہی کو معلوم تھا ۔
اٹھارا سال کی بیٹی فائزہ کی شادی بھی اپنی آنکھوں سے دیکھنا چاہتا تھا پر نصیب کی بات پر خاموشی سے چلتا جا رہا ۔
اپنے بیٹے سلمان کے گھر سے نکلنے سے پہلے والے الفاظ بار بار کانوں میں گونج رہے تھے ۔لیکن وہ کیا کر سکتے تھے ۔ چپ کر کے گھر چھوڑ کر آ چکے تھے اب ان کو بھی خبر نہیں تھی کہاں جا رہے ہیں کہاں نہیں۔
لاہور کے ایک پارک میں جا کر بیٹھے اور ادھر ہی آنکھ لگ گی اور نیند کی آغوش میں اپنی جوانی کے خواب دیکھنے لگے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔
سلمی بیگم آج ہماےمرے بیٹے سلمان کی پہلی سالگرہ ہے ۔ہر دوست ہر رشتہ دار کو دعوت ہر مدو کیا ہے ۔کسی چیز کی کمی نہیں ہونی چاہیے۔
بدرزمان نے اپنے بیگم سلمی سے کہا۔
او جی آپ اتنا خرچہ کیوں کر رہے ہیں آگے مکان کا کرایہ بھی ابھی ادا نہیں کیا تین دن میں دو دفعہ چکر لگا کر چلا گیا ہے ۔پیسے ہیں اور آپ نے ادھار لے کر اپنے سر پر اور قرضہ چڑھا دیا۔
سلمی بیگم کی اس بات پر بھی بدرزمان کو کوئی فرق نہیں پڑا۔
ایک ہی ہمارا پیارا سا بیٹا ہے سب کچھ اسی کے لیے ہی کر رہا ہوں ۔ہمارے بڑھاپے میں سہارا بنے گا۔
سلمان کی پہلی سالگرہ میں کوئی کثر نا چھوڑی ۔
پھر کچھ سال بعد اچھے سکول میں داخلہ کروایا اور دن رات ایک کر کے اپنے اس اکلوتے بیٹے کے لیے محنت کرتے رہے ۔اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے کام کر کے تعلیم دلوائی۔
بچپن میں اپنے بیٹے کی ہر خواہش کو پورا کیا گیا۔
آج بیتے کی شادی کا تھا ایک ہی بیٹا تھا تمام جمع پونجی شادی پر لگا دی اور کوئی کمی نا ہونے دی ۔
پہلے ایک باپ پانچ بچوں کو کھلاتا تھا اب پانچ بیٹے ایک باپ کو نہیں کھلا سکتے۔
آج بیٹے نے یہ کہ کر گھر سے نکال دیا کہ میرے پاس پیسے نہیں تمہیں کھلانے کے لیے۔
اتنے میں اسرار اس پارک کا مالی آیا اور بولا بابا جی اٹھو گھر جاؤ پارک کو بند کرنے کا ٹائم ہو گیا ہے ۔
میرا کوئی گھر نہیں ہے ۔
اسرار بابا کو اپنے گھر لے گیا اور بولا بابا یہ آپ ہی کا گھر ہے ۔
اس کہانی کو بیان کرنے کا مقصد یقینن سب کو سمجھ آ گیا ہو گا ۔
اللہ پاک ہمیں اپنے والدین کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائیں ۔
یہ کہانی ایک سوشل ویب پر ایک سچی رپورٹ دیکھنے کے بعد میں نے لکھی ۔اس کہانی میں کچھ الفاظ کا اضافہ کیا گیا ۔اس کہانی کو آپ ایک سچی حقیقت پر مبنی کہانی بھی کہ سکتے ہیں ۔یہ ہمارے معاشرے میں عام بات ہو گی ہے ۔۔
اللہ پاک ہمیں سیدھے راستے پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین۔
******************
The End

Comments