Adhoori baten article by Eman Mehmood

Adhoori baten article by Eman Mehmood



آج بہت خوشی خوشی وہ کالج گئی تھی ۔۔ ہاں اپنی تمام تر ماضی کی تلخ یادیں وہ اب بھول رہی تھی اب وہ کافی حد تک ریکوور بھی ہو رہی تھی ۔یہ ھی وجہ تھی کے آج وہ پہلے سے کافی فریش لگ رہی تھی ۔ یونی میں داخل ھی ہوئی تھی کے اسکی دوست گیٹ پر اسکا انتظار کر رہی تھی۔
"کیسی ہو آمنہ " وہ گرم جوشی سے اپنی دوست کے گلے لگی
"رابعہ تم سے ضروری بات کرنی ہے جلدی چلو " اسکی دوست نے بنا جواب دیئے کہا
"یار چلو تو " وہ اسے اپنے ساتھ کینٹین کی طرف لے گئی رابعہ جان چکی تھی کے اسکی دوست پریشان ہے۔۔ چیئر پر بیٹھتے ھی آمنہ نے اسکا ہاتھ پکڑا
"دیکھو رابعہ جو میں تمھیں بتانا چاہ رہی ہوں پلیز غور سے سننا" آمنہ نے کہا
"بولو آمنہ " اب وہ بھی پریشان ہو گئی تھی
"علی بھائی کا آج نکاح ہے انکی کزن کے ساتھ " آمنہ کی بات پر رابعہ کو ایک زور دار جھٹکا لگا
"کک۔۔۔کس کے ساتھ " رابعہ لفظ ادا نہیں کر پائی تھی
"میں زیادہ نہیں جانتی بس کوئی کزن ہے مجھے بھی آج ھی یونی آ کر پتا چلا "۔۔ رابعہ کو لگا تھا کسی نے اس کے سارے زخم تازہ کر دئے ہیں اسے آج اسی مقام پر کھڑا کر دیا گیا تھا جہاں سے وہ دو سال پہلے نکلی تھی ۔۔ جس قصے کو اسنے ختم کیا تھا آج وہ پھر چھڑ گیا تھا جس بارے میں وہ جانتی تھی کے کبھی ایسا بھی ہوگا مگر وہ اس بارے میں بات نہیں کرنا چاہتی تھی آج اسکو بولنے پے مجبور کر دیا گیا تھا ۔۔ وہ نہیں جانتی تھی کے وہ کہاں بیٹھی ہے بس ماضی کی باتیں اسکے سامنے گردش کر رہی تھیں
ایک لڑکی فون پر بات کرتی ہوئی ہاں وہ ۔۔وہ ھی تو تھی
"میں تمہارے بغیر نہیں رہ سکتی "چنچل سی گڑیا جیسی رابعہ فون کان سے لگا کر بول رہی تھی
"میں بھی نہیں رہ سکتا۔ تم ھی تو میری پہلی اور آخری محبت ہو "دوسری طرف سے علی نے جو کہا تھا ان الفاظ پر رابعہ کھل اٹھی تھی ۔۔۔
ماضی کی یادیں رفتہ رفتہ اسکے سامنے آ رہیں تھیں
"علی اگر ہماری فمیلیز نا مانی تو مجھے چھوڑ دو گے کیا "رابعہ تھوڑی پریشانی سے بولی
"کبھی سوچنا بھی مت ۔۔ یہ ہاتھ چھوڑنے کے لئے نہیں پکڑا " پارک میں وہ دونوں آمنے سامنے بیٹھے تھے۔۔
رابعہ ماضی میں کھوئی ہوئی تھی
"علی اگر ہمارے گھر والے نا مانے تو تم شادی ضرور کر لینا کسی اور سے مگر تب تک نا کرنا جب تک میں تمھیں بھول نا جاؤں پلیز اور جب تک میں تم سے دور بہت دور نا چلی جاؤں کیوں کے میرے سامنے جب تم کسی اور کے ساتھ ہو گے تو میں برداش نہیں کر پاؤں گی "
"رابعہ میں شادی کروں گا ھی نہیں یر ایسا کبھی نہیں ہوگا کے تم میری زندگی سے جاؤ سمجھی "۔۔
اب ماضی کی یادوں نے اسکی آنکھیں بھیگا دیں تھیں ۔۔ رابعہ نے آنکھیں بند کیں مگر ماضی کی سی ڈی اب بھی چل رہی تھی
"علی میرے گھر والے نہیں مان رہے میں نے کہا تھا نا ابھی رشتہ مت بھیجنا تم سمجھتے کیوں نہیں ہو ابھی حالات ویسے نہیں تھے کے رشتہ بھیجتے تم ۔۔ سب کو شک ہو گیا ہے " رابعہ فون پر اسے ڈانٹ رہی تھی
" تو کیا کروں تم ھی پیچھے پڑی تھی نا اب بھیجھا ہے تو بھی مسلہ ہو گیا ہے "علی بھی غصہ ہوا
"علی میری فیملی نہیں مان رہی " رابعہ نے بےبسی سے کہا
"تو ٹھیک ہے رابعہ تم مجھے چھوڑ دو " ۔ رابعہ نے یک دم آنکھیں کھولیں اور حال میں لوٹی ۔۔ اس کا چہرہ آنسوؤں سے بھر گیا تھا
"رابعہ پلیز یار ایسا ہونا تو تھا کبھی نا کبھی " آمنہ نے اسکا ہاتھ پکڑا
"کبھی نا کبھی کیا مطلب آمنہ ۔۔ کبھی نا کبھی ابھی تو نہیں نا ۔۔ آج کیوں ۔۔ کیوں اتنی جلدی وو بھول گیا سب کیوں یار ۔۔ کیوں ؟ کیا اسکے وعدے سارے جھوٹے تھے ۔نہیں یار کوئی تین سال جھوٹ کیسے بول سکتا ہے نہیں نہیں۔ اور کیوں کیا وہ مجھے بھول گیا ۔ آمنہ وہ اتنا خاص تھا کے میں دو سال میں بھول نہیں پائی اور میں اتنی عام کے وہ بھول بھی گیا " وہ لگاتار روتی جا رہی تھی
"You Are hurting me Rabia please enough " آمنہ نے کہا
*آمنہ مجھے لگ رہا ہے سب ختم ہو گیا ہے میری زندگی ختم ہو گئی ہے ۔ میری محبت اتنی عام تھی اس شحص نے کیسا روندا ہے میری محبت کو۔ ہم نے بہت سوچا تھا شادی کے ڈریس ڈیکوریشن سب کچھ کیا اب جب وہ ڈریس لے گا ڈیکوریشن کرے گا تو کیا اسے میں یاد بھی نہیں آؤں گی " رابعہ کو چپ کروانا آمنہ کے لئے مشکل ہو گیا تھا
"جب اسنے تمہارے ساتھ رشتے ختم کر دیئے تھے تو کیوں دکھ ہو رہا ہے آج تمھیں ۔ "آمنہ نےکہا
"رشتے ختم کیے تھے اسنے پر محبت تو تھی نا وعدے تو جھوٹےنہیں تھے نا۔ محبت نا سہی اسے عادت تو تھی نا میری اور عادت تو محبت سے بھی زیادہ جان لیوا ہوتی ہے اسے تو عادت بھی نہیں ہوئی " وہ بس رو رہی تھی اور کر بھی کیا سکتی تھی۔ سب مان جو اب تک اسے اس شحص پر تھے وہ تو ختم ہو چکے تھے۔۔ کون سوچ سکتا تھا رابعہ اور علی کی جوڑی بھی ٹوٹ سکتی ہے پر ایسے رشتے کامیابی کی منازل طے بھی کیسے کر سکتے ہیں ۔ گھنٹہ رونے کے بعد وہ خود چپ ہو گئی جیسے غبار نکال لیا ہو آمنہ نے بھی اسی لئے چپ نہیں کروایا تھا کے وہ رو کر ہلکا فیل کرے گی ۔
ٹائم کافی ہو گیا تھا آمنہ اسے سمجھانا چھوڑ چکی تھی
"آمنہ علی سے پوچھو نکاح ہو گیا ہے کیا "اسنے کہا آمنہ نے اسکے دوست کو فون کیا۔۔ اور فون کان سے لگاے ھی رابعہ سے مخاطب ہو کر بولی
"ہاں ہو گیا ہے " آمنہ کی بات پر رابعہ نے اس سے فون لیا ۔۔ آنسوؤں کا کڑوا گھونٹ اسنے اپنے اندر اتارا ۔۔
"علی ۔۔نکاح کی بہت بہت مبارک ہو " وہ بولی تو آنسوؤں کی بے شمار لڑیای اسکی پلکوں کا حصار توڑ کر اسکے گالوں پر گریں اور اسنے فورًا فون رکھ دیا
**********************

Comments