Aabgeenay article by Bint e Ubaid


موضوع:آبگینے
اونٹوں کا قافلہ چلتا جا رہا ہے، چلانے والا عجلت میں اونٹوں کو تیزی سے چلانے لگتا ہے، صدا آتی ہے اے انجشہ ذرا دھیرے سے چلو آبگینے ہیں۔ انجشہ اونٹوں کی رفتار آہستہ کر لیتے ہیں۔ آبگینوں کے حقوق کیلیے سب سے زیادہ احساس رکھنے کی اس سے بہتر مثال تاریخِ انسانی میں شاید نہ ملے کہ سواری آہستہ چلانے کو باقاعدہ حکم دیا گیا۔
ہماری جانیں اور ماں باپ آپ پر قربان ہوں۔۔۔ ﷺ۔۔۔!
حجاز کے میلوں ٹھیلوں میں بعضے مختص خیموں پر بے حیائی کے جھنڈے نصب ہوا کرتے تھے جہاں بنتِ حوا کیساتھ درندگی اس قدر برتی جاتی کہ اولاد کا فیصلہ قرعہ اندازی پر ہوتا تھا، بیٹی پیدا ہونے پر وہ صفِ ماتم بچھ جاتی جیسے کوئی قیامت آن پہنچی ہو اور زعماء عقل راتوں کے اندھیرے میں اس ننھی جان کو زندہ ہی دھرتی کے نیچے اتار دیتے۔ اس بے حیا معاشرے میں صدا لگتی ہے دو انگلیوں کی قرابت کی مظل جنت میں میری رفاقت میسر آئے گی۔
کس کو ؟ جسے اللہ نے دو بیٹیاں دیں اور انکی جوانی تک اچھی تربیت و پرورش کر لے جنت میں میرے اتنے قریب ہو گا جیسے یہ دو انگلیاں۔۔۔۔!
ہماری جانیں اور ماں باپ آپ پر قربان ہوں۔۔۔ ﷺ۔۔۔!
جنت تلاشنے کو عورت (ماں) کے قدم بتلا دیئے اور لوگوں میں سے بہترین بیوی کیساتھ حسنِ سلوک والا قرار پایا۔ انڈسٹری یا آفس میں نائن ٹو فائیو، دکان پر سارا دن یا کھیت میں محنت مزدوری باپ، شوہر و بھائی پر لازم قرار دی اور آبگینوں کو عزت کیساتھ مستور رکھ کے گھر کے کام کاج میں مشغول رہنے کا حکم دیا۔
ہماری جانیں اور ماں باپ آپ پر قربان ہوں۔۔۔ ﷺ۔۔۔!
عورت کے ایامِ تکلیف میں دین کے اہم ترین احکام میں سے فرض نماز کی معافی ملی جو عاقل بالغ مرد کو کسی صورت بھی معاف نہیں۔ فرض روزے کی بآسانی قضا کا حکم بھی دینِ فطرت، دینِ لطیف، احساس والے دین کا درخشندہ و روشن پہلو ہے بشرطیکہ آنکھوں پر معصیت، نافرمانی و ضلالت کی پٹی نہ بندھی ہو۔
جب تک دینِ حق غالب رہا صدیوں ایسا ہی چلتا رہا، عورت نے عزت کی وہ رفعتیں و بلندیاں دیکھیں جس کا تصور شاید کسی اور تہذیب میں ممکن ہی نہ ہو پھر یوں ہوا کہ رفتہ رفتہ انسان دین، اخلاق اور روایات کے بندھن سے آزاد ہو گیا۔ غالب فلسفہ ڈارون کی حیوانی تعبیر اور غالب مسلک سگمڈ فرائیڈ کی جنسیت قرار پائی۔ مرد کی بے حمیتی و سرمایہ دارانہ تہذیب کے جبر نے بے حس و بے غیرت مرد کا ہاتھ عورت کی کفالت سے اٹھا لیا اور عورت ایک جنس بن کر گلیوں کوچوں میں نکل آئی۔
عورت بےچاری نے اس بات کو محسوس کیا کہ گھر سے باہر ترقی واسطے اسے اخلاقی حدود و قیود سے آزاد ہونا پڑے گا کیونکہ حیوانی سرشت والے جاہل انسان جس کیساتھ اسے مزدوری کرنا تھی وہ اس وقت تک مزدوری نہ کرنے دے گا جب تک عورت اسکی حیوانی خواہشات کی تسکین کا سامان نہ کرے۔
اس کوشش میں لباس معدوم سے معدوم تر ہوتا چلا گیا، اخلاقی بندشیں مساوات کے لالی پاپ کے نام پر ٹوٹ گئیں اور وجودِ عورت میں اباحیت پسندی و بے راہروی کو جبرا شامل کر دیا گیا وہ وجود جسے خیر البشر ﷺ نے آبگینہ کی مانند نازک قرار دیا۔!!
حرام نے معاشرے کی چولیں ہلا کر تمام معاشرتی بندھن توڑ دیے، خاندانی روابط منقطع کیے، لفظ محبت، احساس، ذمہ داری سرمائے و مادیت تلے دب گیا اور نفسانی شہوانیت ہی اصل الاصول قرار پائی۔
گھر کی مقدس دہلیز چھوڑ کر عورت پراڈکٹ بن گئی، اپنی مصنوعات بیچنے کیلیے عورت کو نیلام کیا گیا، پانچ روپے والے شیمپو کے پیکٹ پر برہنہ نمائشی ایڈورٹائزمنٹ سے لے کر کسی جہاز میں لوگوں کو کھانے پیش کرنے تک بہر صورت عورت کا استحصال کیا گیا،
مارکس، فرائیڈ اور ڈرکایم نصیحت کر رہے تھے
"اخلاق ایک بے معنی قید ہے، انسانی وجود سراپا جنس ہے اور جنسی اختلاط ہی صحیح راہِ عمل ہے"
سرمائے کے سامنے مداہنت کا شکار، مادیت پرستی میں ڈوبی اور تعلیماتِ محمدی ﷺ سے  نا آشنا غلامی کی زنجیروں میں جکڑی امتِ مرحومہ کو یہی پٹی کبھی تعلیم اور کبھی مساوات کے نام پر پڑھائی گئی، ہماری عورت سے بھی حیا کا زیور چھیننے کیلیے فکری و میڈیائی یلغار پر پیسہ پانی کی طرح بہایا گیا۔ کبھی تعلیم کے نام پر اختلاط کے گڑھ میں گرایا گیا، کبھی مساوات کے نام پر گلیوں کوچوں میں رسوا کیا گیا، عصمت و عواطف کو مذاق بنا کر رکھ دیا گیا جس پر مستزاد یہ زعم کہ ہم ترقی کی جانب بڑھ رہے ہیں۔
جس ماں بہن بیٹی کیلیے حقوق مصحف قرآنی میں بیان ہوں، کائنات کی بہترین ہستی ﷺ ان حقوق کو اپنی زبان مبارک سے ادا فرمائیں، اپنے عمل سے ان حقوق پر مہر ثبت کر کے عورت کی جان مال عزت آبرو کا تحفظ یقینی بنائیں، بھلا وہ عورت بازار میں رسوا کیونکر ہو، خدیجہ، عائشہ، حفصہ، خنسا و خولہ رضی اللہ عنھا کی بیٹیاں اپنے حقوق سگمڈ فرائیڈ و کارل مارکس کے حیا باختہ لٹریچیر سے حقوق کیوں سیکھیں
کیا محمد عربی ﷺ کی غلامی سے بڑھ کر عزت رفعت بلندی بھی کوئی ہے ؟
کیا ہر زہر کا تریاق محمد ﷺ کی غلامی میں نہیں ؟
کاش کاش کاش۔۔۔۔۔!!
اس بات کا احساس ہماری ماؤں بہنوں اور بیٹیوں کو ہو جائے اور ان کے سرپرستوں میں ایمانی حمیت (ہندوانہ حمیت نہیں جس میں بات بات پر عورت قتل ہو جاتی ہے یا ظلم کے پہاڑ توڑے جاتے ہیں) بیدار ہو جائے۔
اے میری ماؤں بہنوں، اٹھیے اور عمل کی جانب بڑھیے، یہ قرآن اور اسوہ رسول ﷺ ہمارے لیے حجت ہے اس کے سامنے خدارا اندھا مت بنیے۔۔۔۔!
*********************

Comments