"جیت"
"زندگی اور موت تو اللہ کے ہاتھ میں ہوتی ہے آپ مایوس نا ہوں۔
اللہ سب بہتر کریں گے-"ہسپتال کے کوریڈور میں زمین پر بے یارو مدد گار بیٹھے
ایک جوڑے کو پانی کی بوتل پکڑاتے ہوے اس نے انھیں تسلی دی۔
"اور اگر بہتر نا کیا تو ؟ " خالی آنکھوں سے ادا کے گئے
ایک جملے میں صدیوں کا درد چھپا تھا۔
"تو بہترین کرے گا "- جواب ایک ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ
آیا تھا-
یہ
ایک گورنمنٹ ہسپتال کا کینسر وارڈ تھا جہاں مریضوں کے اٹینڈنٹس نیچے زمین پر بیٹھے
اپنوں کے لئے دعا گو تھے۔وہیں ایک شخص انھیں پانی پلاتا اور تسلی دیتا نظر آ رہا
تھا۔ وہ نا تو ہسپتال کے اسٹاف سے تھا نا کوئی اور اسے جانتا تھا۔وہ کون تھا پھر ؟
------------------------
"اور ابو بکرؓ تو بس ایک ہی ہوتا ہے پہلوں میں پہل کرنے
والا۔۔ کس چیز میں پہل کرنا ؟ ایمان لانے میں ؟ تو پھر تو وہ تو ایک ہی ہوئے
نا۔ہمیں کیا فائدہ اس سے؟ ہم تو ایمان لے آئے۔ "
وہ
سانس لینے کو رکی ۔نظر بھر کے سامنے بیٹھے اپنے سرتاج کو دیکھا جو پوری توجہ سے
اسے سن رہا تھا ۔دل نے چپکے سے الحمدللہ کہا۔
یہ
ایک عالیشان بنگلہ نما گھر تھا۔جس کی دیواروں اور فرش کو ماربل سے سجایا گیا تھا اور چھت چینی درز پر
مبنی گھروں جیسی تھی۔دروازے اور کھڑکیوں میں شمالی علاقہ جات کی جھلک نظر آتی
تھی۔ایسا لگتا تھا کسی نے اسے بہت چاہ سے بنایا ہے۔ اور کیا خوب ہی بنایا ہے۔
"ہاں اب ہمیں اسکی کیا ضرورت ؟" وہ الجھا تھا ۔ اریبہ
اسکی بات پہ ہلکی سی ہنسی تھی۔ اسے خوشی ہوتی تھی جب وہ الجھ کر اس کے پاس آتا
تھا۔
"یہ تھوڑی نا کہا ہے ایمان میں پہل کرنے والا ؟ وہ تو ہر کام
میں پہل کرتے تھے۔بھلے بات ایمان کی ہوتی یا ایمان والوں کو کافروں کے شر سے بچانے
کی۔ اسی طرح ابھی بھی بات ہر اچھی چیز کو کر لینے اور ہر بری چیز کو چھوڑ دینے میں
پہل کرنے کی ہو رہی ہے۔" وہ مسکرائی۔ اتنے بڑے گھر کے ہوتے ہوے بھی وہ دونوں
کارپٹ پر بیٹھے تھے اور تبھی اچانک علی نے اسکی گود میں سر رکھا۔
"اچھا وہ کیسے ؟ یہ بھی بتا دو۔" اس نے سکون سے آنکھیں
بند کر لیں۔ کتنا سکون تھا نا۔
"وہ ایسے کہ کسی سے لڑائی ہو رہی ہو تو پہلے معافی مانگ کر
لڑائی چھوڑ دو بھلے آپ ٹھیک بھی ہو۔یا اگر نماز کا وقت ہے تو پہلے ادا کرنے کی
کوشش کریں۔" اس نے پیار سے علی کے بالوں میں ہاتھ پھیرا ۔
سورج
کا عروج ختم ہونے کو تھا اور انکی ابدی محبّت کی دنیاوی زندگی کا بھی۔لیکن وقت کس
نے دیکھا ہے۔
------------------------------
"ضروری نہیں کہ آپکو ہی پہلے موت آے۔کسی کو بھی کسی بھی وقت آ
سکتی ہے۔"اریبہ نے نم آنکھوں سے مسکرا کر اسے دیکھا جو اسکا ہاتھ تھامے
ہسپتال کے وارڈ میں بیڈ پہ لیٹے اپنے دن گن رہا تھا۔
"تم ٹھیک کہتی تھی۔یہ سگريٹ تمہاری سوتن نکلی ۔مجھے تم سے
چھین کے لے جا رہی ہے۔" وہ بچوں کی طرح بلک بلک کر رو رہا تھا۔
"خود ہی اسے حق دیا تھا اتنا۔ورنہ کسی کی کیا مجال کہ میری
چیز کی طرف دیکھے بھی۔" اس نے اسے گلے سے لگاتے ہوئے اسکے آنسو پونچھے۔ لیکن
اپنے آنسو گرنے دیے ۔ اور پھر کتنی ہی دیر وہ ایسے ہی اسے خود میں چھپا کر روتی
رہی۔
"آپ کو ڈاکٹر صاحب بلا رہے ہیں ۔" نرس نے آ کر اسے اطلاع
دی۔ علی تو کب سے ویسے ہی روتے روتے سو گیا تھا۔ اس نے اسے سیدھا کیا۔اور حجاب
ٹھیک کرتے ہوے انجام کی پرواہ کیے بنا ڈاکٹر کے کمرے کی طرف چل دی۔
"دیکھیں ہم آپ کو کوئی جھوٹی امید نہیں دے سکتے۔ آپ انہیں گھر
لے کر جا سکتے ہیں۔جتنا بھی وقت ہے اسے اچھے سے گزاریں، انہیں خوش رکھیں اور کوشش
کریں کہ انکے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گزاریں۔" ڈاکٹر کے خاموش ہوتے ہی وہ چپ
چاپ وہاں سے اٹھ کر باہر آ گئی۔
"اللہ اکبر کبیرا "۔ آنسو اسکی آنکھوں سے جاری ہو گئے
اور وہ
کوریڈور
کی دیوار کے ساتھ بیٹھتی چلی گئی۔
--------------------------
"بہترین کیا ہوتا ہے ؟ ایک کینسر کے مریض کے لئے بہترین کچھ
نہیں ہوتا بھائی صاحب۔ آ جاتے ہیں پتہ نہیں کہاں کہاں سے۔" اگلے بندے نے پانی کا گلاس پکڑتے ہوے اسے کہا۔ وہ مسکرایا۔
"کینسر کے مریض سے پانی کا گلاس لے رہے ہو اس سے بہترین کیا
ہو گا ؟" وہ شخص چونکا۔ اور اسکے ساتھ ہی سب نے اسے حیرت سے دیکھا۔ وہ وہاں
پچھلے ایک مہینے سے آ رہا تھا لیکن کوئی اسے جانتا نہیں تھا۔ اور جان بھی رہا تھا
تو کیسے؟
"ہاں جی۔ چھے مہینے پہلے مجھے تو ڈاکٹرز نے گھر تک بھیج دیا
تھا کہ آپ لا علاج ہیں۔" وہ کوریڈور میں داخل ہوئی۔علی اسے دیکھ کر مسکرایا۔
"لیکن مجھے کسی نے کہا تھا کہ ابو بکرؓ صرف ایک ہی ہوتا ہے پہلوں میں پہل کرنے
والا۔اور اللہ پر یقین کامل اور محنت میں پہل کرنے والا بھی ایک ہی ہوتا ہے اور
مشکل حالات میں سب سے پہلے ہمّت اور اثاثے جمع کرنے والا بھی ابو بکر ؓ ہی ہوتا ہے
۔ ضروری نہیں کہ سب ابو بکرؓ بن جائیں ، کچھ میری طرح انکے نقش قدم پر چل کر ان
جیسے بهی بن سکتے ہیں -" اریبہ کے ہاتھ سے لیبارٹری رپورٹس چھوٹ کر زمین پر
جا گریں ۔ دو موتی اسکی جھیل جیسی آنکھوں سے گالوں پر جھلکے ۔
"میں ٹھیک ہوں اریبہ ۔بلکل ٹھیک ۔" وہ مسکراتا ہوا آگے
بڑھا۔اسکے قریب آ کر وہ آگے کو ہوا ۔ اریبہ نے آنکھیں بند کر لیں۔
"لیکن کیا ہے نا کچھ لوگوں کے لئے دنیا نہیں ہوتی اریبہ
"۔ ایک وقفے کے بعد وہ گویا ہوا تو اس نے آنکھیں کھولیں ۔ علی کے ہاتھ میں
رپورٹس تھیں وہ جن میں اسکی سانسوں کی تعداد چند دن بھی نہیں لکھی تھی۔ اسے سمجھ آ
گئی کہ وہ رپورٹس کے لیے جھکا تھا۔
"انکے لئے آخرت ہوتی ہے۔جنّت ہوتی ہے۔میرے رب کی جنّت۔ابو بکر
ؓ کی جنّت۔" وہ رپورٹس پھاڑتے ہوئے مسکرا رہا تھا۔ اریبہ اسکی اس بات پر نم
آنکھوں سے مسکرا دی تھی کیوں کہ وہ سمجھ گئی تھی کہ اسکا کینسر ٹھیک نہیں ہو سکتا تھا لیکن اسکی
موت مایوسی یا نا امیدی پہ نہیں ہو گی۔اور اس سے بڑی جیت اور کیا ہو سکتی تھی۔
-----------------------------
Comments
Post a Comment