ازقلم:" فرشتے"
ہمیشہ جب بھی کسی عورت پر دوسری عورت کو
ترجیح دی جاتی ہے یا اس پر کسی عورت کو لا کر مسلط کر دیا جاتا ہے یقینی طور پر اس
میں کہیں نا کہیں غلطی اس پہلی عورت کی ہوتی ہے وہ اپنے پاؤں زمین پر سے اٹھاتی ہے
تو فورا اس جگہ پر کو ئی اور قبضہ کر لیتا ہے عورت اپنی جگہ چھوڑتی ہے تو کوئی اور
اس جگہ کو پُرکر لیتا ہے ہمارے معاشرے میں مرد کی مثال اُس اتھرے گھوڑے جیسی ہے جس
کی لگام اَگر ذرا ڈھیلی کر دو تو ایک منٹ میں سوار کو زمین پر پٹخ دیتا ہے اسی طرح
مرد کو توجہ میں ذرا کمی نظر آئے تو فورأباہر اپنے لیے دلچسپیاں ڈھونڈ لیتا ہے جس
میں سراسر قصورعورت کا ہوتا ہے اُور نقصان
بھی اُسی کے حصّے میں آتا ہے ۔جیسےہی وہ دروازہ کھول کر اندر داخل ہویٔ کچھ غیر معمولی
ہونے کا احساس ہوا تھا ۔
کیوں کے غیر معمولی تو تھاباہر کے دروازے
کا لاک کھلا ہوا تھا جب کے احمد اس وقت آفس میں ہوتے ہیں اَگر احمد آفس میں تھے تو
گھر پر کون تھا لیکن ایک خیال آیا کے کیا پتا طبعیت خراب ہو اُور اس بات کی تصدیق بھی
ہو گیٔ تھی ۔کیوں کے کچن سے کھٹ پٹ کی آوازیں آرہی تھیں ۔اپنی سوچوں کو جھٹکتے ہوئے
کچن کی طرف قدم بڑھا دیۓ۔لیکن اُسے یہ دیکھ کر حیرت کا شدید جھٹکا لگا تھا کیوں کےوہاں
احمد نہیں بلکے نوری تھی جو اطراف سے بے خبر کھانا پکانے میں مصروف تھی ۔
نوری. وہ اپنا پورا زور لگا کر دھاڑی تھی
۔
تم اس وقت یہاں کیا کر رہی ہو ۔
وہ بے چاری ایک دن ہڑبڑا کر پلٹی تھی۔جیسے
موت کا فرشتہ آگیا ہولٹھے کی مانند اُس کا رنگ سفید پڑ گیا تھا۔جب ہی وہ ایک دم ہکلا
کر بولی تھی ۔
مم مم مم مم۔۔۔۔بی بی بی ۔۔۔۔بی جی آآآآآآآپ
کا کا کا۔۔۔کب آئیں۔
بے ربط الفاظ اور نوری کی گھبراہٹ نے مناہل
کو شک میں مبتلا کر دیا تھا۔
جب ہی وہ بولی تھی.
یہ میرا گھر ہے میں جب چاہوں آؤں جب چاہہے جاؤں ۔لیکن تو مجھے یہ بتا تو
اس وقت یہاں کیا کر رہی ہے اور یہ کھانا کس کے لیے پک رہا ہے ۔جب کے میں اور احمد دونوں
گھر پر نہیں ہیں اور تو گھر کے اندر کیسے آئی .وہ نوری پر برس پڑی تھی۔
نوری بے چاری سہم کر ایک دم دور ہوئی تھی.
بی بی جی آپ غلط سمجھ رہی ہیں ۔میں خود نہیں آئی مجھے صاحب جی نے بلایا
تھا۔وہ گھر پر ہی ہیں ۔نوری نے ڈرتے ڈرتے سچ بتا ہی دیا کیوں کے اس کے سوا اب کوئی
چارہ نہیں تھا۔
احمد اور اس وقت گھر پے. طبعت تو ٹھیک
ہے نا اُس کی. اچھا تم اپنا کام کرو میں خود دیکھ لیتی ہوں ۔یہ کہ کر وہ ایک دم پلٹ
گئی اب اُس کا رخ کمرے کی طرف تھا ۔
اور جیسے ہی وہ کمرے میں داخل ہوئی اُسے
لگا کے پورے گھر کا ملبا اس پر آ گراہو ۔وہ جو کوئی بھی تھی پورے استحقاق کے ساتھ ڈریسنگ
ٹیبل کے سامنے بیٹھی ہوئی تھی ۔اور احمد پورا کا پورا اُس پر جھکا ہوا تھا ۔سچوئیشن
اتنی شرمناک تھی کہ مناہل کا دل کر رہا تھا کے زمین پھٹے اور وہ اُس میں سما جائے
۔ وہ ایک دم چلائی تھی.
احمد کیا ہو رہا ہے یہ وہ اپنے اندر کا سارا زور لگا کر بولی تھی۔وہ دونوں
اس بات سے بے خبر تھے کے دروازے میں کوئی کھڑا ہے ۔جب ہی احمد کرنٹ کھا کر سیدھا ہوا
تھاوہ لڑکی بھی ایک دن بوکھلا گئی تھی ۔
ارے مناہل تم کب آئی احمد نے اپی خجالت
پر قابو پاتے ہوئے کہا تھا ۔کیوں کے دونوں کی پوزیشن کافی آکورڈ ہو چکی تھی۔میں وہ
ایک دم آگے بڑھی تھی ۔اور استہِزئیہ لہجے میں بولی تھی۔
میں تب آئی جب تم اپنی اس رکھیل کے ساتھ
رنگ رلیاں منانے میں مصروف تھے. مناہل نے ایک ایک لفظ پیس پیس کر کہا تھا اُس کا بس
چلتا تو وہ دونوں کو ابھی مار دیتی ۔میں دو دن امی کے گھر کیا گئی تم اپنے لئے عیاشی
کا سامان اُٹھا کر لے آئے.
لیکن شاہد آج احمد کے صبر کا پیمانہ لبریزہو گیا تھا ۔
بس ایک لفظ اور نہیں بہت بکواس کر لی تم
نے اور بہت سن لی میں نے ۔
لیکن آگے بھی مناہل تھی.
کیوں میں کیوں نہ بولوں میں کیوں چپ رہوں میں بولوں گی ۔میں چپ ہو جاؤں
تاکہ دنیا کو تمہارے کرتوت پتہ نہ چلیں ۔کے
بیوی کی غیر موجودگی میں تم اپنی رکھ۔۔۔۔ی۔۔۔اُس کی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی احمد
نے ایک زناٹے دار تھپڑ اُس کے منہ پے رسید کیا تھا ۔تھپڑ اتنا بھرپور تھا کے مناہل
کی بولتی ایک دم بند ہو گئی تھی۔اور اب وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے احمد کو دیکھ رہی تھی
جیسے کہے رہی ہو کے تم نے اس دو ٹکے کی لڑکی کے لئے مجھے تھپڑ مارا۔حمد اس لڑکی سے
مخاطب ہوا تھا ۔
حوریہ تم کچن میں جا کر دیکھو کے نوری
نے کھانا تیار کیا کے نہیں اور وہ لڑکی جی اچھا کہتے ہوئے چلی گئی۔
ہاں تو مناہل بیگم اب بولو کیا بول رہی
تھی تم اور ہاں ایک بات میں تمہں بتا دوں کے جہاں تک تعلق ہے حوریہ کا تو تمہاری اطلاع
کے لئے عرض ہے کے حوریہ میری بیوی ہے احمد نے انتہائی تحمل سے ایک بم بلاسٹ کیا تھا۔
اتنا بڑا دھماکا ہونے کے بعد بھی ہر طرف
موت جیسی خاموشی تھی۔احمد کچھ اور بھی بول رہا تھا ۔
تم یہ بھی حانناچاہو گی کے میں نے ایسا
کیوں کیا۔احمد نے استہزائیہ انداز میں کہا تھا. اور یہ جانناتمہارا حق بھی بنتا ہے
کے اتنی خوبصورت بیوی کے ہوتے ہوئے مجھے کیا آن پڑی کے میں نے ایک معمولی شکلُ صورت
کی عورت سے شادی کر لی۔ تو سنو وہ ایک دم چیخ اٹھا۔تم جیسی عورت کو میں پانچ سالوں
سے برداشت کرتا آرہا ہوں جب کے تمہیں ایک دن بھی برداشت کرنا عذاب ہے ۔وہ بھی صرف اس
لیے کے تم سے شادی کرنے کا فیصلہ میرا اپنا تھا ۔تم سے شادی میں نے اپنی مرضی سے کی
پورے خاندان کی مخالفت لے کر لیکن میں نے تم
سے شادی نہیں کی بلکے ایک عذاب اپنے سر پر مسلط کر لیا ۔تم جیسی عورت کے لیے شادی صرف
سونے اور تفریح کا نام ہے تمہاری بلا سے شوہر نے کھانا کھایا یا بھوکا سو گیا۔اُس کے
کپڑے دُھلے ہوئے ہیں یا میلے ہی پہن کر چلا گیا ہے ۔ناشتہ کیا یا نہیں تمہیں کوئی فرق
نہیں پڑتا تمہارے جیسی مڈل کلاس عورت کے لئے کوئی چیزاہم ہے تو وہ تمہاری اپنی ذات
ہے۔تمہارے جیسی پھوہڑ عورت کو تو ایک دن برداشت نہیں کیا جا سکتا میں نے تو پھر بھی
پانچ سال برداشت کر لیا ۔حوریہ میری بیوی ہے اور اب وہ یہیں رہے گی اگر تمہں اُس کے
ساتھ رہنا منظور نہیں ہے تو تم اپنی ماں کے گھر جا سکتی ہو طلاق تمہیں مل جائے گی.
احمد نے اپنے لہجے کو انتہائی سخت رکھتے ہوئے بات مکمل کی تھی آج وہ کوئی بھی رعائیت
دینے کے موڈ میں نہیں تھا۔ جیسے ہی وہ جانے کے لئے مڑا کچھ یاد آنے پر رُک گیا ۔
اور ہاں میں اور حوریہ کھانا کھانے باہر
جا رہے ہیں نوری نے کھانا بنا دیا ہے بھوک ہو تو کھا لینا اور اگر نہیں کھانا تو وہ
بھی تمہاری مرضی. ویسے بھی تم اپنی مرضی کی مالک ہو. چلتا ہوں. ۔وہ ایک دم مڑا اور
دروازہ پار کر گیا ۔
مناہل اس کے جانے کے بعد پھوٹ پھوٹ کر
رو دی تھی ۔کیوں کے وقت کا سکہ اُلٹ چکا تھا ۔بادشاہت اپنی کم عقلی کی وجہ سے چھن گئی
تھی ۔اس کا شوہر اس کاعاشق کسی اور کی زلفوں کا اسیر ہو گیا تھا۔غلطی بھی تو اپنی تھی
نہ شوہر کی قدر کی نا اس کی محبت کی تو پانی تو سر سے گزرنا ہی تھا نا غلطی اس دوسری
عورت کی نہیں تھی جس نے اُس کے گھر اور شوہر پر قبضہ کر لیا تھا۔غلطی اُس کی اپنی تھی
کے اُس نے شوہر اور گھر کو چھوڑا کیوں وہ نہ چھوڑتی تو کوئی کیسے اس کی جگہ لے سکتا
تھا۔وہ بھی ایک غریب گھر سے تھی ۔جب بہت ساری دولت اور عیش ملا تو اس کا بھرپور فاہدہ
اُٹھایا اور ساری زندگی کا نقصان اپنے کھاتے میں ڈال لیا۔کیوں کے وہ سچ کہا ہے کسی
سیانے نے کے بھوکے کو پیٹ بھر کر کھانا مل جا ئے اور پاگل کی شادی کر دی جائے تو دونوں
کام نقصان ہی کرتے ہیں لیکن ہم نصیحت نہیں پکڑتے۔
******************
The End
Comments
Post a Comment