غلطی
از_بنتِ_نذیر
_______________
شادی کے اٹھارہ سال بعد اسے اپنی غلطی
کا احساس ہوا تھا۔ اس نے ماں باپ کی مرضی کے خلاف شادی کی تھی یعنی بھاگ کر۔ اسکے شوہر
اظہر ملک نے اسے کبھی احساس ہونے بھی نہ دیا۔ اس نے جو وعدہ اسکے ساتھ کیا تھا وہ پورا
بھی کیا۔
زندگی کی ہر خوشی دی اسے رانی بنا کر رکھا
اسکی ہر خواہش پوری کی یہاں تک کے اسکے ماں باپ کو بھی راضی کر کے معاملات پہلے جیسے
ہی کر دیے
مگر آج وہ پچھتاوے کی آگ میں جل رہی تھی
اسے احساس ہو گیا تھا
ہو کچھ یوں کہ
اسکا شوہر اظہر ملک اپنی بیٹی جو کہ سترہ
سال کی تھی اسکی شادی کرنا چاہتا تھا مگر وہ اپنے شوہر کے فیصلے کے خلاف تھی۔اسکا خیال
تھا جیا اظہر ابھی چھوٹی ہے اسے آگے پڑھنا ہے تب اظہر ملک کے جواب پر اسکی بولتی بند
ہو گئی۔
"جب ہماری دوستی ہوئی تھی تب تم تمہاری عمر
بھی سترہ سال تھی اور میں نہیں چاہتا میری بیٹی نامحرم رشتے میں بندھ کر مجھے چھوڑ
جاۓ"
ان الفاظ نے اسے عرش سے فرش پر لا پٹخا
تھا۔وہ پچھتاوے کے گہرے کنویں میں جا گری تھی۔اس کی خاموشی پر اظہر ملک نے بہت سی وضاحتیں
دی تھی مگر اسکا دل ویران ہو گیا تھا۔ٹھیک ہی تو کہہ رہا تھا وہ۔
آج کیا کر رہی ہے بنتِ حوا؟
نامحرم کی خاطر اپنے ماں باپ کا برسوں
کا پیار بھلا رہی ہے،جھوٹ بھول رہی ہے،ماں باپ سے تلخ کلامی کر رہی ہے اور آخر کار
ان کی محبتوں کا صلہ ان کے ماتھے پر کالک مل دے جاتی ہے۔ تاکہ ان کے جانے کے بعد وہ
کبھی سر اٹھا کر نہ جی سکیں۔
کسی والدین کو بھی بیٹی بری نہیں لگتی
مگر آۓ
دن بنتِ حوا کے بارے میں ایسی خبریں سن کر وہ بیٹی سے ڈرنے لگتے ہیں اس کے مقدر سے
ڈرنے لگتے ہیں۔
اے بنتِ حوا! اپنے کردار کو مضبوط بنا
کسی کے چند پیار بھرے وعدوں کی خاطر ماں باپ کی برسوں کی محبت کو مت بھلا یہ وعدے صرف
تمہیں پھنسانے کے جال ہیں۔
۔ماں باپ اگر تم پر بھروسہ کر کے تمہیں ڈھیل دیتے
ہیں تو انکے بھروسے کو ٹھیس مت پہنچا کہ کل کو تمہیں بھی تو ماں بننا ہے۔
یاد رہے مرد کالی چادر کی طرح ہوتا ہے
اس پر دھبہ لگ جاۓ
تب بھی نظر نہیں آۓ
گا اور عورت سفید چادر جس پر ذرا سا داغ بھی لگ جاۓ
تو سب کو صاف نظر آتا ہے۔اور سب لوگ مل کر اسے اور بدنما بنا دیتے ہیں۔
_________________
Comments
Post a Comment