افسانہ : "بانو زلیخا "
تحریر : طلحہ کھرل شرقپور شریف
اکثر اوقات آپ کے
چہرے کی کشش ڈھلتی عمر کے ساتھ ساتھ کم پڑنے لگتی ہے لیکن بہت سے چہرے اس قدر پر کشش
ہوتے ہیں کے ان پر ڈھلتی عمر کا کوئ واضح فرق نمایاں نہیں ہوتا_____
دسمبر کا مہینہ ہے _دسمبر سے یاد آیا جب میں دس برس کا تھا.
میری نانی ماں کو مجھ سے بہت دلی لگاؤ تھا. ان کی اسی بے پناہ محبت کی بنا پر میرے
ماں باپ نے مجھے میری نانی ماں کو سونپ دیا. میں اپنے ماں باپ کا اکلوتا ہی وارث تھا
پھر جانے کیوں وہ مجھے نانی ماں کے پاس چھوڑنے پر آمادہ ہو گئے….. شاید اس لیے کے میری
بہتر پرورش ہو سکے ____
جی تو میں پرکشش چہروں کے حوالے سے بات کر رہا تھا…….
یہ ان دنوں کی بات ہے جب دسمبر کے مہینے کی تازہ تازہ آمد
تھی…… دسمبر کی اس صبح موسم بے تحاشہ سرد……… فضا میں شدید خنکی اور ہر طرف دھند نے
ہر چیز کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا………
نانی ماں کے بارہا اصرار پر میں نے اپنا گرم گرم اور نرم
نرم بستر چھوڑا اور صبح کے ناشتے کے لیے غسل کی غرض سے ڈگمگاتے قدموں کے ساتھ پاخانے
کی عور چل دیا……………
دروازے پر دستک ہوی!!
"ارے
طلحہ بیٹا”!
"دروازے
پر دیکھو تو کون آیا ہے”
بائیں جانب کے کمرے میں شدید ٹھنڈ کی وجہ سے لحاف میں لپٹی
نانی ماں کی بوکھلائ ہوی آواز آی ___
"جی
نانی ماں "!
یہ کہہ کر میں اب انگڑایئاں بھرتا ہوا پاخانے کی بجاے دروازے
کی طرف چل دیا ____
دروازے کی دہلیز پر ایک ادھیڑ عمر آدمی جسے میں بڈھا ہی
کہہ دوں تو بجا ہو گا ہاتھ میں لاٹھی کا سہارا لیے کھڑا ہانپ رہا تھا __قدم ڈگمگا رہے
تھے اور ہاتھوں میں فقط ایک لچکدار لاٹھی کا سہارا تھا __عمر یہی کوئی تقریباً 65 برس
کے قریب, چہرے کی کھال لٹکی ہوئ, سر کے بال بلکل سفید نمایاں تھے, منہ میں سے چھ سات
دانت گرے ہوے اور انکھوں کے گرد گہرے اور بڑے بڑے سیاہ حلقے واضح طور پر نمایاں تھے…………………
"جی
بابا جی! آپ کو کس سے ملنا ہے "؟؟
میں نے تفتیشی
انداز میں مخاطب ہوتے ہوے پوچھا__
ان کے موٹے موٹے ہونٹ کچھ کہنے کی غرض سے تھوڑی دیر کے لیے
اک مختصر سی جنبش میں مبتلا رہے لیکن ایک دم خاموش ہو گئے
___
"آپ
کو کس سے ملنا ہے بابا جی "؟؟؟
میں نے ایک بار پھر سے اپنا سوال دہرایا
"بیٹا
خدا کے واسطے ہمارا مدد کرو …..ہمارا اس دنیا میں کوئ نہیں…….. ہم کافی دنوں سے بھوکا
ہے اور یونہی ویران راستوں پر دربدر بھٹک رہا تھا کے ہم کو تم لوگوں کا گھر دکھائ دیا ____
"بیٹا
خدا کے لیے ہمارا مدد کرو "!!
یہ کہہ کر بڈھا اپنے لڑکھڑاتے قدموں کے ساتھ دروازے کی دہلیز
پر ماتھے کے بل جا گرا اور لاٹھی بھی پرے جا گری
___
اس سے پہلے کے میں مزید کوئ تفسیشی سوالات کرتا میں نے آو
دیکھا نہ تاؤ اور ان کو اپنے کاندھوں کا سہارا دیتے ہوے قدموں کے وزن پر کھڑا کر دیا _
"میری
لاٹھی "؟؟؟
"یہ
لیجیے بابا جی "!!!
خدا تم پر مہربان ہو بیٹا جیتے رہو "___
میں نے بڈھے کا ہاتھ تھاما اور انہیں دروازے کے نزدیک پڑی
ایک گنبد نما کرسی پر بیٹھا دیا………. کرسی کے بلکل سامنے ایک جالی دار کھڑکی تھی جس سے باہر کا منظر با آسانی
سے دیکھا جا سکتا تھا…………………
باہر تو اللہ اللہ ____موسم اپنی حالت مزید بگاڑتا چلا جا
رہا تھا…. سورج اپنی ہلکی سی جھلک دکھاتا اور پھر سے بلند و بالا بادلوں کی آغوش میں
چھپ جاتا
جونہی سورج کی ہلکی سی کرن جالی دار کھڑکی سے اندر آتی تو
بڈھے کے چہرے پر ایک مانوس سی مسکراہٹ کھیلنے لگتی جسے با آسانی محسوس کیا جا سکتا
تھا ___
لیکن سورج بھی آنکھ مچولی کا کھیل کھیل رہا تھا……… اپنی
ہلکی سی جھلک دکھاتا اور پھر پانچ دس منٹ کے لیے اللہ حافظ ہی رہتا_____
بڈھا ابھی تک میرا ہاتھ تھامے ہوے تھا اور میں بھی کھڑا
سورج کے اس تماشے کو دیکھنے میں اس قدر مشغول تھا کے نانی ماں نے جانے مجھے کتنی آوازیں
دیں ___لیکن میرے کان ان کی سماعت سے محروم ہی رہے
_____
آخر نانی ماں نے اپنا لحاف ہٹاتے ہوے مجھے نہایت وحشیانہ
اور غضب ناک لہجے میں متوجہ کیا!!
"ارے
طلحہ! او طلحہ”!
"کہاں
مر گیا تو "؟؟
"کون
ہے دروازے پر "؟؟؟؟
اس وحشیانہ انداز میں تو نانی ماں بلکل جھانسی کی رانی کا
عکس دکھائ دیتی تھی واللہ ___
اس سے پہلے میں نانی ماں کو اس بڈھے کا تعارف اور اس کی
آمد کے بارے میں آگاہ کرتا __کمرے کی طرف آتے ہوے کسی کے منحوس قدموں کی آہٹ آنے لگی ____
"یہ
شور کیسا ہے "؟؟؟
"رکو
طلحہ "!!
"یہ
آہٹ! یہ آہٹ تو کسی کے قدموں کی معلوم ہوتی ہے”__ نانی ماں نے یہ الفاظ ادا ہی کیے
تھے کے بڈھا کھانستے ہوے آگے بڑھا اور کمرے کی دہلیز پر آ کھڑا ہوا_تھؤڑی بہت سمجھ
میں بھی رکھتا تھا ___
جیسے ہی بڈھے کی پہلی نظر نانی ماں کے پر کشش چہرے پر پڑی
بڈھا تو جانے کہیں کھو کر ہی رہ گیا __
نانی ماں کی عمر قریباً پچپن کے لگ بھگ _سر کے بال ہلقے ہلقے سفید یہ سب
بالوں کو کلر لگانے کا کمال تھا کیونکہ اکثر میں نے نانی ماں کو کلر لگاتے دیکھا تھا
_دانت بھی ابھی تک سلامت تھے…….. چہرے پر کوی جھری یا کوئ دھاگ دھبہ نہیں تھا…… غرض
وہ اپنی عمر کی دوسری مایوں کی نسبت ابھی جوان معلوم ہوتی تھیں ___
میں نے بڈھے کو ہلکی سی تھپکی دی
"بابا
جی او بابا جی "!!
بڈھا دھیمی آواز میں کچھ بڑابڑایا جو الفاظ یہ تھے….
"کیا
معصوم نگاہیں اور چاند کی مانند روشن چہرہ”!
"ہاے
انتہائ دل فریب آواز "!!
یہ کہہ کر بڈھا خاموش ہو گیا اور کمرے میں ایک لمحے کے لیے
خاموشی چھا گئ ___لمحے کی خاموشی کے بعد بڈھے نے لاٹھی کو پرے دھکیلا اور بنا لاٹھی
کے ہی کھسکتا ہوا آخر نانی ماں کے پلنگ پر جا بیھٹا
___
"ویسے
عزیز محترمہ آپ کا نام کیا ہے "؟؟؟؟
"براے
کرم نوازش فرمایے "!!!
"جی
میرا نام __میرا نام "بانو زلیخا ” ہے
"!!!!
نانی ماں نے اپنے ڈوپٹے
کے گھونگھٹ کو اوڑتے ہوے معصومیت سے جواب دیا
_
طلحہ
کھرل!
میں لکھاری ٹیم کا تہ دل سے شکر گزار ہوں کے انہوں نے مجھے اس قابل سمحھا اور میرا افسانہ شایع کیاخدا سلامت رکھیں
ReplyDeleteآمین!!!!
ڈھیروں دعایں