Atiya afsana by Ensha Haya

Atiya afsana by Ensha Haya

"عطیہ"
از قلم: عنشاءحیا....
ہلکی ہلکی بارش شروع ہوگئی تھی کھڑکی سے ٹیک لگائے وہ ابھی بھی باہر کے منظر کو دیکھ رہی تھی..  ہوا کے جھونکوں میں آتی ہوئی بوچھار کھڑکی کے پٹوں پر مدہم لے میں گنگنا رہی تھی.. آج نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی پر ماضی کی یادیں اس کی رات کٹوانے کیلئے آبیٹھی تھیں...
سردیوں کی ٹھٹھرتی ہوئی بارش میں بھیگی سنسان سرد شام کھلی سڑک... پتوں پہ گرنے والی بارش کا مدہم ساز اور خاموشی....
وہ کھلے بالوں کے ساتھ سوجھی ہوئی لال انگارہ آنکھیں اور سردی سے لرزتے نیلے ہونٹ لیے حیران آنکھوں سے ادھر اُدھر دیکھ رہی تھی... جہاں سے وہ بھاگی تھی وہاں کسی صورت واپس نہیں جانا تھا اور آگے کہاں جائے یہ بھی معلوم نہ تھا...
وہ اپنی ماں جہاں آراء جیسی ذلت امیز زندگی نہیں گزارنا چاہتی تھی.. ہاں میں کوئی حرام کام نہیں کروں گی مجھے نہیں بننا محفلوں کی ذینت میں کسی غیر مرد کو لبھانے کا سامان نہیں ہوں.. خود سے ہمکلام خالی آنکھوں سے وسیع سڑک کو دیکھ رہی تھی...آسمان کی طرف سوالیہ آنکھیں اُٹھیں.. مدد کی طلب گار ہوں مولا اس دلدل سے بچا لے روشنی کی طرف کھینچ لے.. مولا اپنی رسی کو تھامنے کی توفیق بخش دے نیکی کی طرف میرا رُخ موڑ دے.... سردی سے کپکپاتے گیلے بدن کو بازؤں میں لپیٹے وہ ہنوز کھڑی آسمان کو دیکھ رہی تھی...کہ دماغ میں وہ نورانی چہرہ ابھرا اور وہ رحم دل آواز کانوں میں گونجنے لگی... چہرے پر امید کے آثار پیدا ہوئے اور مسکرا کے راستے کی طرف چل پڑی.. وہی تو راستہ تھا بھلائی کا نیکی کا راستہ...
اسکی ماں ایک طوائف ذادی تھی اور اپنی اولاد کو بھی اپنے نقشِ قدم پہ چلا رہی تھی مگر انمول واقعی انمول تھی.. زندگی سے بھرپور روشن سوچ کی مالک اپنے حق کے لئے اپنے مقصدِ حیات کے لئے کچھ بھی کرسکتی تھی... ضدکر کے پڑھائی شروع کی کہ اس گندے ماحول سے خود کو دور رکھ سکے... سروں کی تال پہ رقص کرتے تھرکتے بدن اور چھن چھن کرتے پیروں کی بدنما آواز سے اسکو شدید نفرت تھی... نانی نے آنکھوں میں بغاوت دیکھی تو پیار سے قابو کرنے کو سوچا اور حمایت کرتے ہوئے پڑھائی مکمل کرنے میں بھرپور ساتھ دیا... مگر اس دوآتشہ حسن کی ملکہ کو وہ ایسے آزاد پنچھی کی طرح کہاں چھوڑنے والی تھیں بہانے بہانے سے اُسے رقص سیکھنے کی طرف مائل کرنے کی بےثود کوشش کرتیں مگر انمول اس گندگی سے دور جانا چاہتی تھی...کالج کے میلاد کی تقریب میں ایک عالمہ سے ملاقات کے بعد وہ خود کو مزید گندگی میں ڈوبا محسوس کرتی نمازوں کی آدائیگی کے ساتھ ساتھ پردے پہ بھی دھیان دینے لگی...جہاں آراء نے اسکے بدلتے تیور بھانپ لیے تو اسکی ناک میں کیل ڈالنے کی سوچی گھر سے نکلنا بند کردیا اور زبردستی محفلوں میں شریک کرنے کی کوشش کی... جیسے تیسے وہ اس دلدل سے بھاگنے میں کامیاب ہو ہی گئی تھی اسکے نیک ارادوں میں بےشک خدا نے ہی وسیلہ پیدا کیا تھا... وہ اس گندگی سے بھاگ آئی تھی جہاں پر ناجانے کتنی عزتیں محفلوں کی نظر ہوچکیں تھی اور مزید ہونے والی تھیں مگر اپنی کچی عمر میں اپنے مستحکم فیصلے پر اسے ناز تھا....
دین کی اشاعت کیلئے خواتین کے مدرسے سے اسی عالمہ کی بدولت آج وہ منسلک مطمئن دل کے ساتھ دین کا کام آگے بڑھا رہی تھی....آج وہ جس مقام پر تھی جیسی زندگی بسر کر رہی تھی وہ قدرت کا حسین عطیہ تھی جو اسکی نیک نیتی اور استقامت کی بدولت اسے عطا کیا گیا تھا... رب کی اس رحمت پہ وہ شکر گزار تھی... لمبی سانس خارج کرتے وہ کھڑکی بند کرتی اٹھی اور تہجد کی غرض سے وضو کرنے چل دی..... بارش ابھی بھی جاری تھی.... خدا کی رحمت برس رہی تھی.....اور دل قربِ الٰہی کو مچل رہا تھا..... عشق کی ترپ نے جو رمز بخشی تھی دل میں عشقِ حقیقی کی جو آگ دہک رہی تھی وہ بہت پُر لطف تھی.... بےشک یہ دنیا میں عطا کردہ خوبصورت عطیہ تھا.....
******************

Comments