وجود زن
از قلم۔ عمران اشرف
رب
کائنات نے انسان کی خاطر اس خوبصورت دنیا کو بسایا۔ ہر طرح کی آسائشات مہیا کیں۔
دنیا کو رنگ دیے، خوبصورت بنا دیا۔ خوشبو دی، معطر کر دیا۔ سورج دیا، روشن کردیا۔
چاند دیا، پر نور کر دیا۔ الغرض انسان کو اللہ تعالی نے بیش بہا نعمتیں عطا کیں
اور جب اس دنیا کے رنگ، خوبصورتی، خوشبو، روشنی اور نور کو ملایا گیا تو ایک بہت
ہی پیاری چیز وجود میں آئی جس کا نام ہے
"عورت"
ایک
عورت سے اللہ تعالی نے انسان کے کیا کیا رشتے بنائے۔ کتنے خوبصورت اور کتنے پیار
بھرے رشتے۔
کبھی
اپنی محبت کی جھلک دکھلائی تو عورت کو ماں کے روپ میں ظاہر کردیا، وفا اور قربانی
کی بات آئی تو یہ عورت بیوی کے روپ میں سامنے آئی۔ بات ایثار کی آئی تو اتنا
خوبصورت رشتہ بہن کی شکل میں ان آنکھوں نے دیکھا اور بات جب رحمت کی آئی تو اللہ
تعالی کی ذات نے اپنی رحمت کی جھلک بیٹی کے روپ میں دنیا کو عطا کردی۔
الغرض
کوئی ایسی خوبصورتی اور ایسا مہک و نور باقی نہیں بچا جو اللہ تعالی نے انسان کو
عورت کے رشتے کے روپ میں عطا نہیں کیا۔
اس
پاک پروردگار نے تو اپنی بے پایاں رحمت اور شفقت کی انتہا کرتے ہوئے اتنے پیارے
رشتے ہمیں عطا کردیئے مگر آگے سے ہماری بدقسمتی دیکھیں اس انسان نے ان رشتوں کے
ساتھ کیا سلوک کیا۔
ماں
نے انسان کو عقل اور شعور عطا کیا اور اس کو انگلی پکڑ کر چلنا سکھایا، اس کو دنیا
میں رہنے کے قابل بنایا اور اس بیٹے کی خاطر پوری دنیا سے ٹکر لی اور اسی بیٹے نے
تھوڑا سا بڑا ہو کر جب شعور کی منزل میں قدم رکھا تو اپنی اسی ماں کو ہر بات میں
کم عقل جانا اور یہی کہا کہ امی آپ کو سمجھ نہیں آنی، امی آپ کو نہیں پتا۔
وہ
بیوی جس نے شوہر کی خاطر اپنا گھر بار چھوڑا، ہر اچھے برے حالات میں اس کا ساتھ
دیا، اپنے شوہر کی خاطر ہر بات پر سمجھوتا کیا مگر جب اس کی باری آئی تو اس کو
ہمیشہ ناقص العقل سمجھا گیا اور پاؤں کی جوتی کہا گیا۔
وہ
بہن جس نے بھائی کی خاطر صرف ایثار ہی ایثار کیا، اپنے حصے کا بھی اپنے بھائی کو
کھلایا، گھر میں مالی تنگی کی وجہ سے اپنی تعلیم ادھوری چھوڑ کر بھائی کو پڑھایا
اور پھر اسی بھائی نے اپنی باری پر اس بہن کے احسانوں کا بدلہ اس کے حصے پر ناجائز
قبضے اور بے وجہ قطع تعلقی سے دیا۔
وہ
بیٹی جس کی سانس ہی اس کے باپ کے سانسں سے چلتی ہے اس بیٹی پر تو ظلم کی انتہا
ہوئی کہ اس کو زندہ دفنایا جانے لگا۔
معاشرے
کے اندر عورت ہمیشہ قربانی دینے کا ہی نام رہا مگر اس کے بدلے میں اس کو وہ مقام
کبھی نہیں ملا جس کی کہ وہ حقدار تھی۔ اسکو وہ عزت نہیں دی گئی جو اس کا حصہ بنتی
تھی۔
کبھی اپنا پیسہ اور زمین بچانے کی خاطر بیٹی کی سورج
اور چاند سے شادی کروا کر اس کی زندگی کو تاریک کیا گیا اور کبھی اپنوں کی زندگی
بچانے کے لئے ستی بننے پر مجبور کیا گیا۔ کبھی یہ بھائی کی جان بچانے کے لئے تاوان
کے طور پر دی گئی اور کبھی شوہر کے مرنے پر منحوس اور ڈائن کا لیبل اس کے حصے میں
آیا۔ کبھی اس کو بازاروں میں برہنہ کر کے رسوا کیا گیا تو کبھی دو وقت کی روٹی کی
خاطر اس کی عزت و حرمت سے کھلواڑ کیا گیا۔ کبھی اس کو اپنی ہوس بھری برماتی نظروں
سے چھیدا گیا تو کبھی اس پر بیہودہ فقرے اچھالے گئے۔
الغرض
کونسا ایسا ظلم نہیں ہے جو کہ اس پاک معاشرے نے اپنی گندی سوچ کی وجہ سے اس عورت
پر نہیں کیا۔
عورت
ایک پھول کی مانند ہے اور پھول کو مسلا نہیں جاتا۔ پھول کو مسلا جائے تو وہ اپنے
رنگ کھو دیتا ہے اور تبھی تک اچھا لگتا ہے جب تک شاخ پر رہتا ہے اور اس وقت تک ہی
گلشن میں بہار رہتی ہے۔
وطن
عزیز کے اندر عورت کو آہستہ آہستہ ایک اچھوت کی طرح بنایا جارہا ہے۔ اس کی عزت و
اہمیت کو آہستہ آہستہ ختم کیا جا رہا ہے۔ اور یہ سب کام ایک سوچے سمجھے منصوبے کے
تحت ہو رہا ہے۔ اس وقت ہمیں بہت ضرورت ہے کہ اس ظلم کے خلاف اپنی آواز بلند کریں۔
عورت کو ذلت کے اس عمیق گھڑے سے نکالیں۔ اور جس مرتبہ و مقام کی عورت حقدار ہے وہ
اس کو دیں۔ ورنہ معاشرے میں وہ بگاڑ آئے گا کہ جس سے ہماری آنے والی نسلیں تک تباہ
ہو جائیں گی۔
**************
از قلم۔ عمران اشرف
imranashraf444@gmail.com
whatsapp- 00966581576372
Comments
Post a Comment