"ساتھی
تیرا ساتھ"
ازقلم:"سحر
ِ دعا"
"مومل
میری بچی ادھر آو میرے پاس۔۔۔" جھُریوں سے بھرے چہرے پر ہاتھ رکھے سکینہ بی بی
نے اپنی پوتی کو بلند آواز دی تھی۔
"جی
دادی آ رہی ہوں۔۔"اپنی دادی کی آواز پر مومل نے کمرے سے جواب دیا اور دوپٹہ جو
کُرسی پہ پڑا تھا اُسے گلے میں ڈال کر برآمدے کی جانب بڑھنے لگی جہاں سکینہ وہیل چیئر
پر بیھٹئ چشمہ صاف کر رہی تھی۔
"اچھا
بی بی میں چلتی ہوں۔۔کل پرسوں تک جواب دے دینا،میں انتظار کروں گی۔۔۔ "وہ عمر
رسیدہ خاتون فرخندہ آپا تھیں جو لوگوں کے رشتے کرواتی تھی آج وہ تیسری مرتبہ مومل کے
لیے رشتہ لے کر آئی تھی۔اس سے پہلے کہ مومل برآمدے میں آتی وہ اجازت طلب کر کے گیٹ
سے پار جا چکی تھی جبکہ سکینہ سر ہلاتی رہ گئ۔
"جی
دادی جان آپ نے بلایا۔۔۔"مومل تیزی سے دادی کے قدموں میں بیٹھ گئ۔
"دیکھو
بیٹا۔۔میر ی زندگی کا کیا بھروسہ آج ہے اور کل ختم۔۔ آپ اپنی ماں کو جانتی ہو وہ لالچی
تیرے لیے کبھی نہیں سوچ سکتی باپ سوچنے کے قابل نہیں ہے ،تیرے بھائی بھی کل کو اپنی
اپنی زندگیوں میں مگن ہو جائیں گے،آپ دوسروں کی ضرورت بن چکی ہو۔۔۔کل کو آپ کی ضرورت
نہ رہی تو کیا کرو گی؟میری بچی شادی کے لیے مان جا میں خود تیرے لیے سب سے لڑ لوں گی
تم بس اپنی زندگی جی"۔سکینہ نے مومل کے کندھے پہ ہاتھ رکھ دیااور جواب کی منتظر
اس کے چہرےپہ نظریں جما دیں،جبکہ مومل نظریں جھکاۓ
بیٹھے تھی۔
"دادی
جان مجھے شادی نہیں کرنی۔۔آپ جانتی ہیں گھر کے حالات کیا ہیں،ایسے حالات میں اگر میں
چلی گئ تو مُسفر اور مُرتضیٰ کی تعلیم رک جائے گی۔۔۔آبا کی دوائیں اور گھر کے اخراجات
سب۔۔۔نہیں میں ایسے نہیں کر سکتی۔۔"مومل نے نچلا ہونٹ منہ میں دبا لیا۔
"میری
ضرورت دوسروں کو نہیں بلکہ میرے اپنوں کو ہے اور اپنوں کے لیے کچھ بھی کر سکتی ہوں
اماں بھلے لالچی ہوں پر میرے ویر مجھے یقین ہے وہ مجھے کبھی تنہا نہیں چھوڑیں گےمیرا
مان ہیں میرے ویر ۔۔۔اگر میں شادی کے لیے مان بھی جاؤں تو کیا وہ لوگ مجھے آپ سب کو
سپورٹ کرنے کے لیے راضی ہونگے' اگر ہوۓ
بھی سہی تو کب تک۔۔؟" مومل نے نظر اُٹھا کر دادی کو دیکھا،دادی تو پہلے ہی اُسے
ہی دیکھ رہی تھی۔
اُس
نے سرنفی میں ہلاتے ہوے دوبارہ بولنے کے لیے لب کھولے تھے۔
"دادی
کتنا بھی اچھا سسرال ہو پر ا تنا کوئی برداشت نہیں کرتا ا تنا واسیع ظرف نہیں ہوتا
کسی کا۔۔۔"مومل انگلیوں میں انگلیاں پھنسا کر بولے جا رہی۔
"بیٹا
عبدالرحمٰن اچھا لڑکا ہے تیرے ساتھ پڑھتا رہا ہے تم تو جانتی ہو کتنا نیک بچہ ہے ۔۔
جہاں تک بات مُسفر اور مُرتضیٰ کی ہے وہ اب اتنے چھوٹے نہیں ہیں کہ پڑھائی کےساتھ کوئی
کام نہ کرسکتے ہوں۔۔۔ساری ذمہ داری اُٹھا لیں گے۔۔۔وہ گھر بھی تو ہیں جن کے کمانے والے
مر جاتے ہیں تو کیا اُن کو رز ق نہیں ملتا۔۔؟ وہ راز ق تو سب کو نوازنے والا ہے "
دادی نے آسمان کی طرف انگلی اُٹھائی تھی۔
مومل
کی ماں شیداں جو کچن میں کھڑی دادی پوتی کی گُفتگو سن رہی تھی،جوں ہی اُسے محسوس ہوا
کہ دادی کا پلڑا بھاری ہو رہا ہے تو اُس نے غصے سے منہ میں دبائی ماچس کی تیلی توڑ
کر زمین پہ تھوک دی۔
"اماں
اگر مومل شادی نہیں کرنا چاہتی تو کیوں زبردستی کر رہی ہیں ،عمر ہی کیا ہے ابھی اسکی
؟اور مُسفر مُرتضیٰ کوئی خودغرض، احسان فراموش تھوڑی ہیں۔۔جو کل کو اپنی اپنی زندگیوں
میں مگن ہو کر اسے چھوڑ دیں گے۔۔۔بڑی بہن ہے۔۔دیکھنا پڑھ لکھ کر دونوں مل کر سہارہ
بنیں گے،پلکوں پہ بیٹھا کر رکھیں گے اپنی لاڈو کو،آپ اپنے لوکل رشتے اپنے پاس رکھیں،
ہم توبھئ اپنی گڑیا رانی کی اچھی جگہ دھوم دھام سے شادی کریں گے۔۔۔" شیداں نے
نہایت پیار سے مومل کے بالوں میں ہاتھ پھیرا جس پہ مومل ہلکی سی مسکراہٹ سجاۓ
کمرے میں چلی گئ۔ شیداں نے بڑے نفرت آمیز تاثرات کے ساتھ سکینہ بی بی کو گُھورا پھر
کمرے میں چل دی جہاں مُسفر اور مُرتضیٰ بیٹھے پڑھ رہے تھے جبکہ سکینہ بی بی سر جھٹکتی
رہ گئ۔
"کیا۔۔!!
دادی بھی ناں۔۔۔مومل آپا اگر شادی نہیں کرنا چاہتی تو کیوں فورس کیا جا رہا ہے؟۔۔"
شیداں کے کان بھرنے سے مُرتضیٰ تعیش میں کرسی سےاُٹھ کھڑا جبکہ مُسفر گردن جھٹکے بیٹھا
رہا۔
٭۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔٭
شام
رات میں ڈھل چُکی تھی معمول کے مطابق کچن سے فارغ ہوکر مومل کپڑے سلائی کرنے کے لیے
کمرے کی جانب بڑھ گئی،جو اُس نے صبح سی کر واپس کرنے تھے،وہ کپڑوں کا انبار لگا کر
کھڑی سوچ رہی تھی کہ کونسی مشین پہ سلائی کرے،تھوڑی دیر سوچنے کے بعد الیکٹرک مشین
کا انتخاب کیا گیا۔وہ جلدازجلد سلائی کرکےسونا چاہ رہے تھی۔اسے صبح سکول بھی تو جانا
تھا،اگر نیند پوری نہ کر پائی تو سکول کے بچوں پہ کیسے کھپتی،لہٰذا وہ جلدی سے سلائی
کرنےبیٹھ گئ۔کافی دیر بعد د روازے میں آہٹ محسوس ہوئی اور اچانک د روازے کا ایک پٹ
کُھلا،مومل نےگردن اُٹھا کر دیکھا۔
"
آپا پلیز بندکریں ناں۔۔۔ شور کی وجہ سے نیند خراب ہورہی ہے۔۔۔صبح
کالج بھی جانا ہے۔۔۔" مُرتضیٰ آ نکھ مسلتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔
"اچھا
ویرے۔۔۔"مومل محض کہہ کر قینچی سے دھاگہ کاٹنے لگی،تسلی بخش جواب ملنے پر مُرتضیٰ
وہاں سے چل دیا جبکہ بہت سارے کپڑے ابھی بھی سلائی کے لیے پڑے تھے۔سکول سے چُھٹی بھی
نہیں کر سکتی تھی،تنخواہ جوکٹتی تھی۔اُس نے تمام کپڑے اکھٹے کیے ان سلے ایک تھیلے میں
ڈال کر چھت پہ چلی گئ پھر دوبارہ سیڑھیو ں سے نیچے آئی اور ہاتھ والی مشین اُٹھا کر
بہت ہی مُشکل سے سیڑھیاں سر کرنے لگی۔ سردی کے موسم میں وہ برساتی نما بِنا دروازے
والے کمرے میں زمین پہ کپڑا بچھا کر بیٹھ گئ۔بلب کی روشنی میں بغیر سردی کی پرواہ کیے
کپڑے سینے میں مگن ہوگئ۔ الیکٹرک مشین سے وہ جو ایک سوٹ آدھہ گھنٹے میں سی کر پرے رکھتی
تھی،اب ہاتھ والی مشین سے ایک گھنٹہ سے بھی زیادہ وقت لگ رہا تھا ،مشین کو چلاتے چلاتے
کندھوں میں کھچاؤ محسوس ہونے لگا۔۔۔اُسے گھر کا کرایہ،مُسفر کی ٹیوشن فی،سکول فی،مُرتضٰی
کی کالج فی اور گھر کا راشن، ابا کی دوائیاں وغیرہ۔۔۔۔جب دھیان ان اخراجات پہ جاتا
تو ہاتھ مشین پہ پُھرتی سے چلنے لگتے،وہ تھک چُکی تھی،وقت بھی تو کافی ہوچُکا تھا۔،وہ
آٹھ بجےبیٹھی تھی،اب گھڑی دو بجنےکا پیغام دے رہی تھی،وہ تھکن سے چُور چُور تھی پر
ابھی بھی ایک سوٹ سلائی کرنا باقی تھا۔ٹھنڈ کی وجہ سے ہاتھ پاؤں برف ہو چکے تھے۔
٭۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔٭
"مومل
اُٹھو مُسفر اور مُرتضیٰ ناشتے پہ تمھارا انتظار کر رہے ہیں۔۔۔۔اور تم نے بھی تو سکول
جانا ہے بیٹا۔۔۔اُٹھو جلدی۔۔۔تمھاری ماں بھی باہر بُلا رہی ہے،اُٹھو شاباش۔۔"
سکینہ بی بی نے تھپک کہ اُٹھایا تھا۔وہ آنکھیں مسلتی اُٹھ کھڑی ہوئی اور دادی کے گلے
لگ گئ۔
سب
ناشنے کے لیے چٹائی پہ اکھٹے ہوۓ
تھے ماسواۓ
ابراہیم جو کہ شیداں کا شوہر اور مومل، مُسفر اور مُرتضیٰ کا باپ تھا ایک عرصہ سے فالج
کے باعث چارپائی پہ تھا۔اُسے کھانا پینا سب اُس کے کمرے میں مہیا کیا جاتا تھا۔
مومل
ناشتے کے لیےآن بیٹھی جبکہ شیداں ،مُسفر اور مُرتضیٰ کھانا شروع کر چکے تھے۔
"
آپا پانچ سو روپے کی ضرورت تھی آج مل جاتے تو۔۔۔" مُرتضیٰ نے
بات کر تے ہوۓ
روٹی کا نوالہ منہ میں ڈالا جبکہ مومل کا ہاتھ جو نوالہ بنانے میں مصروف تھا مُرتضیٰ
کی بات پہ ساکن ہو گیا۔
"کس
لیے چاہیں ویرے۔۔۔مطلب مہینے کا آخر چل رہا اور یوں اچانک ضرورت؟؟حالات بھی ناسازگار۔۔۔"مومل
اچانک پھُٹنے والے بم پہ ہڑبڑا گئی تھی۔
"بس
کریں آپا مُسفر سے تو کبھی نہیں پوچھا جب وہ چھپ چھپ کر مہینے کے خرچ کے علاوہ ضرورت
پڑنے پہ مانگتا ہےاُسے تو دےدیتی ہیں۔۔۔آج مجھے ضرورت ہے مجھےنہیں دینے تو اور بات
ہے بہانے نہ بنائیں ۔" مُرتضیٰ کھانا ادھورا چھوڑ کر خائف سا باہر جانے کے لیے
اُٹھ کھڑا ۔ مُرتضیٰ کے طنز پہ مُسفر آگ بگولہ ہوگیا،جبکہ مومل یقین دلانے کی بارہا
جسارت کر رہی تھی۔خود کو ناکام پا کر اُس نے کمر ے کی جانب دوڑ لگائی،مومل کو یوں جاتا
دیکھ کر سکینہ بی بی وہیل چیئر کے وہیل گھوماتی اُسکے پیچھے چل دی۔
"بھائی
میں مہینے کی خرچی کے علاوہ نہیں لیتا۔۔۔۔ہاں پچھلے مہینے ہزار روپیے لیے تھے۔۔۔وہ
بھی کالج پارٹی کے لیے دینے پڑے ۔۔۔" مُسفر نے صفائی دینا چاہی جس پہ مُرتضیٰ
مزید تیعش میں آگیا۔
"پتا
ہے مجھے کونسی پارٹی تھی۔۔۔حارث نے بتا یا تھا مجھے کہ جو ثمن نے نیو جیولری لی ہے
وہ کہاں سے آئی ہے،بتاؤں آپا کو؟؟ ۔۔۔۔" مُرتضیٰ جتا رہا تھا کہ اُس کے دوست حارث
نے اُ سے سب بتادیا ہے کہ مُسفر نے اپنی کزن کو گفٹ دیا اور وہ بھی آپا سے جھوٹ بول
کر،شیداں نے مُسفر کو گھورا جس پہ وہ تلملا اُٹھا۔
"
حارث تو جھوٹا ہے اماں۔۔۔۔میں نے کوئی گفٹ وفٹ نہیں دیا کسی کو۔۔۔یقین
کریں جب سےآپ نے منع کیا ہے تب سے میں خالہ کے گھر ہی نہیں گیا تو گفٹ دینے کا سوال
ہی پیدا نہیں ہوتا اور کوئی ضرورت نہیں ہے اس احسان فراموش سانپ کو پیسے دینے کی۔۔۔آوارہ
گردی میں ہی اُڑاۓ
گا۔۔آپا کو ابھی بتاتا ہوں تمھارا تو " مُسفر کے جھوٹ پہ مُرتضیٰ نے اُس کا گرایباں
پکڑ لیا ،جس پہ شیداں نے دونوں کو ایک ایک زوردار تھپڑ مار کر الگ کیا۔ مُرتضیٰ زہرانگیز
نظروں سے مُسفر کو دیکھ رہا تھا۔
"بڑے
ہوگۓ ہو پر کُتوں کی طرح لڑ نا
نہ چھوڑ نا۔۔۔اُلو کے پٹھے" شیداں شدید غصے میں تھی۔
"اماں
مجھے کیوں مارا میں نے کیا کیا۔۔۔؟؟" مُسفر منہ میں بڑبڑایا، جس پہ شیداں نے اُسے
ایک اور زوردار طمانچہ رسید کیا۔
"بتاؤں
کیا کیا ؟ ۔۔۔ دیکھ توں میری اولاد ہے تیری رگ رگ سے واقف ہوں ۔۔ آگے سے زبان درازی
کرتا ہے کمینہ جھوٹا کہیں کا " شیداں کی جھاڑ پہ مُسفر منہ پہ ہاتھ رکھے ساکن
ہوگیا اور واپس چٹائی پہ بیٹھ گیا۔
"اب
سنو میری بات تم دونوں کان کھول کر۔۔۔۔۔" مُسفر پہ کوئی تبدیلی نہ پا کر وہ بھی
نیچے بیٹھ گئ۔
"سُن
رہاہے یا کان پہ بھی سلامی کی ضرورت ہے؟"
"ہاں
اماں سُن رہا ہوں "شیداں کے سخت لہجہ پہ اس نے جھنجھلا کر جواب دیا۔
"
تم دونوں مومل کو اپنی اصلیت کیوں دکھاتے پھرتے ہو زبان کو گانٹھ
نہیں دے سکتے۔۔۔ایک دوسرے کے کرتوت بتاؤ گے تو وہ بُڑھیا کے کہنے میں آہی جاۓ
گی۔۔۔۔اگر وہ شادی کے لیے مان گئی تو پھر ہوگیا کام۔۔۔۔پھر یہ جو اُس کی کمائی پہ عیاشی
کرتے ہو پھر ضروریات کے لیے بھی ترسو گے اور مجھے بھی ترساؤ گے۔۔۔اُوپر سے نخرے دیکھاتے
ہیں کمبخت کہیں کے۔۔۔۔" شیداں نے دونوں کی طرف نظر گُھمائی پھر سر پہ ہاتھ رکھ
کہ بیٹھ گئی۔
"
کہاں جا رہا ہے اب۔۔۔؟" شیداں کی بات سمجھنے کے بعد مُرتضیٰ
اُٹھ کھڑا ہوا تو شیداں نے سوال دھر دیا۔
"سونے
کی مُرغی میرا مطلب۔۔ آپا سے معافی مانگنے۔۔۔" مُرتضیٰ نے منہ بناتے ہوے جواب
دیا جس پہ شیداں سر ہلاتی رہ گئ۔
٭۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔٭
مومل
کے لیے مہینہ کے آخری دن بہت مُشکل ہوتے تھےپھر یوں اچانک پھٹنے والے بم یعنی چھوٹے
موٹے اخراجات کسی قیامت سے کم نہ تھے۔وہ اپنے بیگ میں سے تمام کچرا میل کر بیڈ پہ بیٹھی
گن رہی تھی،جبکہ دادی بیرونی کھڑکی سے اُسے ترس بھری نظروں سے دیکھ رہی تھی۔
"یہ
تو صرف چار سو آٹھ روپے ہیں۔۔۔۔باقی کہاں سے لاؤں گی۔۔۔؟"وہ منہ میں بُڑبڑائی
تھی۔وہ پھر سے بیگ ٹٹولنے لگی۔
"یہ
لو بیٹا ہزار روپے تمھیں کام آئیں گے۔۔۔۔" مومل کے لیے سکینہ بی بی فرشتے کی طرح
کمرے میں نازل ہوئی تھی۔
"نہیں
دادی یہ تو آپکی پینشن والے ہیں۔۔۔نہیں میں یہ نہیں لے سکتی۔۔۔"مومل پھر سے بیگ
کی جیبیں چیک کرنے لگی۔
"لے
لو بیٹا اگرتُمھاری نظر میں میری کوئی اہمیت ہے تو۔۔۔اگر نہیں ہے تو ٹھیک ہے پھر۔۔۔"
سکینہ بی بی نے جانے کے لیے رُخ پھیر لیا۔دادی کے یوں ایموشنل بلیک میل کرنے پہ اُس
نے پیسے لے لیے،اس شرط کے ساتھ کہ وہ یہ پیسے واپس کرے گی اور دادی کو لینے پڑیں گے۔
مُرتضیٰ کے معافی مانگنے پر اُسے پوری دل اسلوبی کے ساتھ معاف کر دیا اور پانچ سو اُسے
دیا اور پانچ سو شیداں کو دے دیا تاکہ شام کو کوئی سبزی خرید کر بنا لے اور خود بیگ
سمیٹتی سکول روانہ ہو گئ۔
٭۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔٭
معمول
کے مطابق وہ سکول سے سیدھا اکیڈمی چلی گئ، رات کو سات بجے تھکی ماندی گھر لوٹی تو سب
کے منہ بنے ہوے تھے چارپائیوں پہ بیٹھ کر اسی کا انتظار کر رہے تھے۔ مُسفر موبائل پہ
گیم کھیل رہا تھا جبکہ دادی تسبیح کر رہی اور مُرتضیٰ شیداں کے سامنے چارپائی پہ بیٹھا
شیداں پہ برہم ہورہا تھا ۔
"مومل۔۔ماں
صدقے شکر ہے توں آگئ بھوک سے جان نکل رہی ہے ۔۔" شیداں نے مومل کو جیسے اندر آتے
دیکھا بے ساختہ پُکار اُٹھی مُسفر نے ایک نظر اُٹھائی پھر گیم کھیلنے میں مگن ہوگیا
جبکہ مُرتضیٰ اور سکینہ بی بی نے غصہ سے شیداں کو گُھورا۔
"پانچ
سو روپے دو۔۔۔اس وقت سبزی تو نہیں ملے گی ہوٹل سے دال ماش منگوا لیتے ہیں۔۔۔۔"
شیداں ہاتھ ہلاتے ہوے بول رہی تھی۔
"پر
میں صبح سبزی کے لیے پیسے دے کر گئ تھی۔۔۔۔آپ نے کچھ نہیں بنایا۔۔۔؟" وہ سارے
دن کی مار سے تھکی ہوئی تھی۔صبح بھی ڈھنگ سے نہ کھایا تھا اسلیئے بھوک بھی زوروں پہ
تھی اُوپر سے یہ ہمیشہ والا ڈرامہ جاری تھا۔
"ہاں
موٹر خراب ہوگئ تھی۔۔ڈرم میں پانی نہیں جا رہا تھا۔۔۔تیرا ماما آیا تھا تو جانتی ہے
وہ ماہر ہے ان کاموں میں۔۔۔میں نے سوچا دو سو میں ٹھیک ہو جائے گی۔۔۔۔پر کمبخت موٹر
نے پانچ سو کھا لیے۔۔۔"وہ شیداں کے ان مخصوص فقروں کی عادی تھی۔کبھی ٹی وی خراب
تو کھانا نہیں بنا تو کبھی فریج خراب تو پیسے وہاں لگ گئے یا پھر فلاں سے لیے تھے وہاں
دینے پڑ گئے۔وہ عاجز تھی ان حرکتوں سے۔۔۔۔اور واقف بھی تھی کہ جب اماں کے میکے سے کوئی
آتا ہے تب ہی کوئی نا کوئی چیز خراب ہوتی ہے۔ سکینہ بی بی نے حقیقت سے واقف کروایا
ہوا تھا اور وہ خود بھی کئ بار دیکھ چُکی تھی اماں کو جو چھپکے سے مامو کو پورے مہینے
کے راشن میں سے ڈھیر سارا سودا سلف اور کُچھ پیسے دیتے ہوئے۔ پر وہ کیا کر سکتی تھی
کچھ کہتی تو گھر میں جھگڑا،فساد برپا ہوجاتا،اس خوف سے ہی وہ خاموش رہنا پسند کرتی۔وہ
امن پسند تھی اسےبس اس دن کا انتظار تھا جب اُس کے ویر اپنے پیروں پہ کھڑے ہونگے۔۔اور
تب ہی وہ کامیاب ہوگی،یہ اُس کی ضد تھی یا زندگی کا مقصد جو بھی تھا اس پہ ڈٹی ہوئی
تھی۔۔اسی جستجو میں وہ اپنے لیے سوچناہی بھول چکی تھی کہ کل اگر ویسا نہ ہوا جیسا سوچا
ہوا تو کیا کرے گی کہاں جائے گی۔سوچنے سمجھنے کی صلاحیت تو جیسے ختم ہوچکی تھی بس ایک
ہی دھن تھی،ایک ہی لگن جو اُسے خود سے دُور کیے ہوے تھی۔
"جلدی
دو کہیں ہوٹل بھی بند نہ ہوجائے۔۔۔" شیداں نے پرس پہ نظریں گاڑھ دیں۔
نہ
چاہتے ہوے بھی اُسنے جو اکیڈمی میں جو نیو سٹوڈنٹ سے ایڈوانس فی لی تھی اُس میں سے
پانچ سو نکال کر دے کر بوجھل قدموں کے ساتھ کمرے کا رُخ کر لیا۔
"یہ
لے ساتھ والے ہوٹل سے دال معاش اور دس روٹیاں لے آ۔۔۔" شیداں نے پیسے مُرتضیٰ
کو تھما دیے۔
"اماں
جو پیسے بچ گئے وہ میرے۔۔۔" مُرتضیٰ نے پیسے گنتے ہوئے کہا۔
"ٹھیک
ہے ۔۔۔چل نکل اور ہاں جلدی آئیو۔۔۔۔۔" شیداں نے اُسے ہلکا سا دھکہ دیا،وہ مُسکراتا
ہوا وہاں سے چل دیا۔
"ش۔۔ی۔۔شیداں
۔۔۔۔" ابراہیم کی آواز آئی تو شیداں کے تیور منٹ میں بدل گئے۔
"او
آئی۔۔۔۔" شیداں نے سخت لہجہ میں جواب دیا۔
"
ایک تو نہ یہ کمبخت مرتا ہے اور نہ جان چھوڑتا ہے۔۔۔جینا محال کر
کہ رکھ دیا ہے۔۔۔" وہ منہ میں بڑبڑاتی کمرے کی جانب پلٹ گئ۔
٭۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔٭
"بیٹا۔۔۔۔!"
سکینہ بی بی وہیل چیئر کے وہیل گھماتی کمرے میں پہنچی نہایت نرمی اور محبت سے مومل
کو پُکارا جو پیپر چیک کر رہی تھی۔
"
جی دادی جان۔۔۔کیا ہوا۔۔؟" مومل نے دادی کی آ نکھ میں آنسو دیکھے
تو گھبرا گئ۔
"تیرا
آج د یکھ کر تیرے کل سے ڈر لگتا ہے۔۔۔مجھے ڈر ہے کہ وہ اس بد سے بھی زیادہ بدتر ثابت
نہ ہو، کیوں خود کو اتنا تنگ کر کے رکھا ہوا ہے ہاں؟۔۔" سکینہ بی بی نے نرمی سے
مومل سے سوال کیا پھر اُس کے ہاتھ کو چوما۔
"بیٹا
شادی کے لیے مان جا۔۔۔۔کرلے شادی۔۔۔"وہ بوڑھی عورت کانپتے ہوئے ہاتھوں سے آنسو
صاف کرتے ہوئے منت کر نے لگی۔
"ٹھیک
ہے دادی ۔۔۔پر آپ پلیز مت روئیں۔۔۔"مومل پریشان سی دادی کے گلے لگ گئ۔ دادی کی
ہچکی بندھی محسوس ہوئی تو وہ پانی لینے چلی گئ۔ سکینہ بی بی نے ابھی پُرسکون مُسکراہٹ
سجائی ہی تھی کہ شیداں آ ٹپکی۔
"اماں۔۔شاباش
لگی ہوئی ہیں آپ اپنے کام پہ بازنہیں آنا اپنے کرتوتوں سے۔۔۔کان کھول کر سُن لیں مومل
کی شادی ہرگز اُس خربوزے کے رنگ والے سےنہیں ہونے دوں گی اور نہ ہی کسی اور سے۔۔۔۔اور
ویسے بھی کمانے والا اسکے علاوہ کوئی نہیں ہے جب مُرتضیٰ ، مُسفر کمائیں گے تو بیاہ
دوں گی اسے۔۔۔۔اُسکی دادی ہو دادی بن کر رہو زیادہ ماں بننے کی ضرورت نہیں ہے"
شیداں نے اُنگلی کھڑی کر کے سخت لہجہ میں باور کرایا تھا۔
"کیسی
ماں ہے رے توں؟؟۔۔ایسا سلوک تو کوئی سوتیلی کے ساتھ نہیں کرتا جو توں سگی کے ساتھ کر
رہی ہے۔۔۔اکلوتی بیٹی ہے تیری کچھ تو شرم کر۔۔۔۔" آج وہ بھی خوب سنانے کے موڈ
میں تھی۔
"ایسی
ہی ماں ہوں میں۔۔۔" شیداں نے دونوں ہاتھ خود پہ لہراتے ہوے کہا۔
"دیکھ
دوبارہ اُسکے کان بھرنے کی کوشش کی تو مجھ سے بُرا کوئی نہیں ہوگا بتائے دیتی ہوں۔"
شیداں
نے اُنگلی اُٹھائے دھمکی دی اور چل دی۔
"تجھ
سےبُرا کوئی ہو بھی نہیں سکتا۔۔۔۔" وہ من ہی من بُڑبڑائی تھی۔
"میری
تو دعاہے اللہ پاک سے کہ وہ بے قدروں کو بیٹی جیسی نعمت سے نہ ہی نوازا کرے ۔۔۔"دونوں
ہاتھ کی اُنگلیوں کو آپس میں پھنسائے وہ من ہی من خود سے ہم کلام تھی۔
٭۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔٭
چند
سال بعد۔۔۔۔۔
مومل
چارپائی پہ بیٹھی شیداں کے سر میں تیل لگا رہی تھی، شیداں آنکھیں موندے سکون محسوس
کر رہی تھی۔
"اماں
گھر کتنا خالی ہو گیا ہے،پہلے ابا،پھر دادی جان دنیا سے چلی گئیں، مُسفر ڈکٹری کے لیے
باہر چلا گیا اور مُرتضیٰ تو لاہور کا ہو کر رہ گیا بریسٹر جو ٹھہرا ۔۔۔"وہ تھوڑا
سا مُسکرائی تھی۔ تھوڑے توقف کے بعد
وہ پھر بولی۔
"مجھے
بڑی خوشی ہے اماں میرے ویروں نے میری دن رات محنت کا مان رکھ دیا ۔۔۔وہ مُقام حاصل
کر لیا جہاں میں انہیں دیکھنا چاہتی تھی۔۔"مومل کی باتوں پہ شیداں محض سر ہلا
رہی تھی۔اس خوشی میں ایک بوجھ سا تھا دل پہ جسے مومل بار بار نظر انداز کر رہی تھی۔
"اماں۔۔۔۔"
مومل نے شیداں کے بالوں میں اُنگلیاں گُھماتے ہوئے کہا۔
"ہاں۔۔۔"شیداں
نے ہمیشہ کی طرح سردمہری کا مظاہرہ کیا۔
"اماں
کیوں نہ ہم اس ہفتہ ہی مُرتضیٰ کے پاس چلے جائیں۔۔۔ویسے بھی میں کل جاب چھوڑ رہی ہوں۔۔۔
مُرتضیٰ کے ساتھ رہیں گے۔۔۔۔"مومل کی آنکھوں میں خوشی سے تتلیاں جگ مگ کر رہیں
تھیں۔
"ہوں
ٹھیک ہے۔۔۔۔" شیداں نے اپنے سفید بالوں کو سمیٹنا شروع کر دیا۔
شیداں
جتنی بوڑھی ہوچکی تھی اُسکی لالچ ا تنی جوان تھی،وہ سٹینڈ کی مدد سے بامشکل کھڑی ہوئی
تھی جبکہ مومل کو اب ز ندگی بہت آسان اور آرام دہ ہوتی دیکھائی دے رہی تھی۔
٭۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔٭
"
ارے آپ دونوں کون ہو۔۔؟؟۔۔ایسے کیسے گُھسے جا رہے ہو۔۔رکو۔۔"
"میں
مُرتضیٰ کی بہن اور یہ اُن کی ماں ہیں۔۔۔"مومل نے بیگ کندھے پہ اُٹھا رکھا تھا،وہیل
چئیر پہ شیداں کو لیے عالی شان محل کے گیٹ پہ کھڑی تھی جہاں سکیورٹی گارڈ نے اُسے روکا
ہوا تھا۔
"حالت
سے لگتا تو نہیں ہے۔۔۔خیرمحترمہ آپ یہاں رکیں میں بیگم صاحبہ سے بات کر لوں۔۔۔۔اگر
انکی اجازت ہوگی تو آپ اندر جاسکتی ہو۔۔۔"
سکیورٹی
گارڈ فون کرنے لگا۔
"کون
بیگم صاحبہ۔۔؟" دونوں ماں بیٹی ایک دوسرے کا منہ تکے جا رہیں تھیں۔
چند
لمحات بات کرنے کے بعد وہ واپس پلٹا تھا۔
"دیکھیں
آپ لوگ یہاں سے جائیں۔۔ بیگم صاحبہ نے کہا ہے کہ بڑے صاحب کی کوئی ماں بہن حیات نہیں
ہے۔۔۔آپ کی وجہ سے بیگم صاحبہ نے مجھے خوب سنائی ہیں۔۔۔جائیں یہاں سے۔۔۔۔"
"کون
بیگم صاحبہ۔۔۔یہ تو مُرتضیٰ ابراہیم کا گھر ہے ناں۔۔؟" مومل مزید پریشان ہوگئی۔
"ہاں
مُرتضیٰ ابراہیم صاحب کا گھر ہے۔وہ گھر پہ نہیں ہیں۔۔۔انکی بیوی فاطمہ جو ہماری بیگم
صاحبہ ہیں اور وہ آپ کو نہیں جانتی۔۔۔اب آپ لوگ میرا دماغ خراب نہ کرو جاؤ یہاں سے۔۔۔۔۔"
گارڈ نے گیٹ کھول کر باہر کی طرف اشارہ کیا۔وہ چُپ چاپ باہر درخت کے نیچے بیٹھی مُرتضیٰ
کا انتظار کرنے لگیں۔
"
مُرتضیٰ نے شادی کر لی بُلانا تو دُور بتانا بھی گوارا نہیں کیا۔۔۔"
شیداں حیران ہو رہی تھی جبکہ مومل پتھر کی طرح ساکت کھڑی تھی۔
٭۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔٭
گاڑی
کا ہارن بجتے ہی گارڈ نے جلدی سے گیٹ کھول دیا۔بلیک نیو ماڈل کرولا کی ڈرائیونگ سیٹ
پہ سوٹڈ بوٹڈ چشمہ لگائے مُرتضیٰ تھا جو ڈرائیو کرتا گیٹ پار کر رہا تھا۔
"ارے
رکو۔۔۔آپ پھر اندر آ گئیں۔۔۔۔رکو۔۔۔" مومل تیزی سے گیٹ پار کرتی گاڑی کے پاس آ
رُکی۔۔۔جبکہ گارڈ روکتا رہ گیا۔
"
مُرتضیٰ۔۔۔ویرے۔۔۔"مومل کا سانس پھولا ہوا تھا۔
"مومل
آپا۔۔۔۔؟؟" مُرتضیٰ چشمہ اُتار کر گاڑی سے باہر آگیا۔
مومل
اور اماں سے ملنے کے بعد وہ انھیں گھر کے اندر لے گیا۔۔۔سب سے مُتعارف کروانے کے بعد
انھیں گیسٹ روم میں چھوڑ آیا۔
٭۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔٭
Oh!
My God really..??? ”
"
کیا واقع ہی یہ تمھاری فیملی ہے۔۔۔؟؟"
“How
much poor people….un believable……..”
فاطمہ
مُرتضیٰ پہ برس رہی تھی۔
"یو
نو بے بی تمھاری ماں اور بہن سے تو ہماری نوکرانی شگفتہ کے کپڑے اچھے اور صاف لگ رہے
تھے،اگر ان لوگوں نے آنا بھی تھا تو کوئی اچھے حلیے میں آتے۔۔۔۔ناک کٹوا کہ رکھ دی
ہے۔۔۔ہمارے ملازمین کیا سوچتے ہونگے۔۔۔۔ہنستے ہونگے ہم پہ۔۔۔۔"فاطمہ شدید غصہ
میں تھی۔
"مجھے
کہاں پتا تھا کہ یوں اچانک آٹپکیں گئیں۔۔۔" مُرتضیٰ بھی خوب تیعش میں تھا۔
"جو
بھی ہو بےبی ایک دو دن میں رخصت کرو ان دونوں کو۔۔۔۔مزید برداشت نہیں کروں گی۔۔۔"فاطمہ
آگ برساتی کمرے سے باہر چلی گئی۔۔۔جبکہ مُرتضیٰ دانتوں میں انگلی دبائے سوچ میں گُم
تھا۔
٭۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔٭
"اماں
مُرتضیٰ نے شادی کرلی بہت خوشی ہوئی کیا ہوا جو نہیں بتایا۔۔۔نہیں بلایا۔۔۔دیکھو کتنا
خوبصورت گھر۔۔۔ایک خشحال گھرانہ میاں بیوی اور پیارے پیارے دو بچے جو میں خواب میں
اپنے ویروں کے لیے دیکھتی تھی۔۔۔۔"مومل پہلے روہنسی پھر خود کو سنبھالا تھا،جبکہ
شیداں اسکی کسی بات پہ دھیان نہیں دے رہی تھی، پہلی بار اتنے خوبصورت گھر میں جو آئی
تھی ہر شئے کو آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھ رہی تھی اُسے تو سب خواب سا لگ رہا تھا۔
"ہائے
کتنا نرم ہے یہ پلنگ۔۔۔" شیداں نے بیڈ پہ ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا جبکہ مومل احساسات
اور جذبات کی وادیوں میں گُم تھی۔
رات
کے کھانے سے میز سج گئی تھی۔۔۔ مُرتضیٰ سڑھیاں اُترتے ہوئے ڈائینگ ٹیبل کے پاس رُک
گیا،بچوں کو پیار دیا پھر کرسی پہ بیٹھ گیا،فاطمہ بھی ساتھ والی کُرسی پہ بیٹھ گئی۔
"رکیئے
بےبی پہلے اپنے اہل وعیا ل کو تو انویٹیشن دے آئیں کہ کھانے پہ تشریف لے آئیں۔۔۔۔"
فاطمہ نے طنز کیا۔
"شگفتہ
گیسٹ روم جا کر مہمانوں کو کھانے کا کہہ دو۔۔۔" مُرتضیٰ تو جیسے اجنبی سا ہوگیا
تھا۔
"پاپا
کیا وہ آپکی ماما اور سسٹر ہیں؟۔۔" مُرتضیٰ کے چھوٹے بیٹےعفان نے بڑی معصومیت
سے سوال پوچھا تھا۔
"جی
بیٹا بد قسمتی سے۔۔۔۔
“Any ways… come on let’s Start
مُرتضیٰ
نے چمچ اُٹھا کر کھانا شروع کردیا۔
تھوڑی
دیر میں مومل بھی آگئی تھی، شیداں چل نہیں سکتی تو اُ س نے شگفتہ کو کھا نا کمرے میں
لانے کا کہہ دیا اورخود ٹی وی دیکھنے میں مگن ہوگئی۔
"آپا
بیٹھیں کھانا کھائیں۔۔۔" مُرتضیٰ کے کہنے پہ وہ کرسی پہ بیٹھ گئی اور پلیٹ میں
کھانا ڈال کر ہاتھ سے کھانے لگی، مُرتضیٰ کے علاوہ وہاں موجود سب مومل کو عجیب نظروں
سے دیکھ رہے تھے۔
"چھی
پاپا آپکی سسٹر کو تو کھانا بھی نہیں آتا۔۔۔۔دیکھیں ہاتھ سے کیسے کھا رہی ہیں۔۔۔۔"
مُرتضیٰ کی بیٹی اریشہ نے سخت ناگواری سے کہا تو مُرتضیٰ نے ایک نظر مومل کو دیکھا
جو شرمندہ ہو رہی تھی۔
"شٹ
اپ بیٹا کھانا کھاؤ اپنا۔۔۔" مُرتضیٰ نے اریشہ کو آنکھیں نکالیں جس پہ وہ خاموش
کھانا کھانے لگی۔
"بے
بی۔۔۔بچے بڑوں سے ہی مینرز سیکھتے ہیں۔۔۔"فاطمہ کی بات نے اُسے سوچنے پہ مجبور
کر دیا تھا۔
"آپا
پلیز چمچ سےکھائیں۔۔۔۔میں نہیں چاہتا کہ بچوں کی عادتیں خراب ہوں۔۔۔سو پلیز۔۔"
مُرتضیٰ نے مومل کو بلآخر ٹوک ہی دیا تھا۔
"جی
ویرے۔۔۔"وہ شرمندہ سی ہوگئ تھی۔"وہ وقت بھی تھا جب مُرتضیٰ میرے ہاتھ سے
چاول کھاتا تھا ،اگر نہیں کھلاتی تو کھاتا ہی نہ تھا۔۔۔آج اُسی مُرتضیٰ کو میرا ہاتھ
سے کھانا بُرا لگ رہا ہے۔۔"وہ من ہی من سوچ کر رو رہی تھی۔
"اور
ایک بات۔۔۔پلیز آپ مجھے ویرے نہ کہا کریں ہاؤ اولڈ۔۔۔۔ایسا کریں آپ مجھے میرے نام سے
ہی پُکار لیا کریں۔۔۔۔" مُرتضیٰ ضرب پہ ضرب لگا کر اس کانچ سے دل والی مومل پہ
وار کر رہا تھا اور وہ ٹوٹ رہی تھی۔پھر یوہی دن گزرتے گئے اور روز نیا تماشہ لگتا جو
فاطمہ اور ملازموں کی ملی بھگت سے انجام پاتا اور مُرتضیٰ مومل اور ماں پہ برس کر چلا
جاتا۔
٭۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔٭
"دیکھو
مُسفر ۔۔۔۔میرےگھر کا سکون برباد کر کے رکھ دیا ہے دونوں ماں بیٹی نے۔۔۔خود تو جان
چُھڑواے پھرتےہو۔۔۔مصیبت میرے گلے پڑ گئی ہے گھر کا ماحول خراب کیا ہوا ہے۔۔ چلو ایک اماں ہوتی تو برداشت تھا اوپر
سے بن بیاہی آپا بھی سر پہ سوار ہے۔۔۔شادی کے بعد ذمہ داریاں ویسے ہی بڑھ جاتی ہیں۔۔۔۔یار
دیکھو ۔۔میرے بچوں کے مُستقبل کا سوال ہے تیرے کون سا ابھی بچے ہیں ۔۔۔بس میں صبح آپا
کو تمھاری طرف بھیج رہا ہوں آخر تمھارا بھی تو کوئی رشتہ ہے ان سے بھئی میں اکیلا ہی
کیوں دونوں عذاب بُھگتوں؟؟ اماں کو میں رکھتا ہوں آپا کو آپ ہی رکھو۔۔۔میں کچھ نہیں
سُن رہا بس طے ہے آپا کو صبح ہی آپکی طرف بھیج رہا ہوں۔۔۔خُداحافظ۔۔۔" مُرتضیٰ
نے کال کاٹ دی اور قدم گیسٹ روم کی جانب بڑھا دیے۔
آپا
ابھی میری مُسفر سے بات ہوئی ہے،اماں میرے ساتھ رہیں گی اور آپ اپنا سامان پیک کرلیں
آپ صبح کراچی جا رہی ہیں مُسفر کے پاس۔۔۔۔" مُرتضیٰ نے ماتھے پہ شکن ڈالے بات
تمام کی۔۔ مُسفر کا سن کہ وہ ایک لمحہ خوش ہوئی پر دوسرے ہی لمحے اُداس ہوگئی۔
"
آپ مجھ سے تنگ آگئے ہیں۔۔۔ ویرے آپ کو بھی مجھ پہ یقین نہیں ہے ؟۔۔۔آپکو
بھی لگتا ہے میں نے چوری کی ہے؟۔۔۔یقین کریں مجھے خود نہیں معلوم بھابھی کی جیولری
میرے بیگ میں کیسے آگئی۔۔۔۔میں نے چوری نہیں کی ویرے۔۔۔"مومل صفائی دے رہی تھی
پر مُرتضیٰ مانے تب ناں۔۔وہ تو بس جلد از جلد جان چھڑوانا چاہتا تھا اُس بوجھ سے جو
اُسے مومل کی صورت میں خود پہ محسوس ہوتا تھا۔
"آپا
ایک تو آپ مجھے ویرے نہ کہا کریں۔۔۔۔کتنی بار کہوں؟" وہ تلملا اُٹھا تھا۔
"اور
دوسرا مجھے کوئی صفائی پیش نہ کریں۔۔۔آپ کی وجہ سے میں اپنے گھر میں ہی ذلیل ہو کر
رہ گیا ہوں۔۔۔۔بچوں پہ روز روز کے لڑائی جھگڑوں کا کیا اثر پڑے گاکبھی سوچا آپ نے ؟۔۔۔آج
تو حد ہوگئی ہے فاطمہ گھر چھوڑ کر بچوں کو لیے میکے جا رہی تھی بہت مُشکل سے روکا ہے
اُسے۔۔۔دیکھیں آپا خُدا کا واسطہ ہے میرا گھر بسنے دیں۔۔۔پیکنگ کر لیں۔۔۔" وہ
فیصلہ سنا کر چلا گیا۔مومل گُم صُم زمین پہ ڈھہ گئی، شیداں آنکھوں میں نمی لیے اُس
موم کی گڑیا کو پتھر بنتے دیکھ رہی تھی۔ شیداں وہیل چیئر کے وہیل گھماتی اُسکے پاس
آ رُکی اور مومل کے سامنے ہاتھ جوڑ دیے۔
"مجھے
معاف کر دے۔۔۔آج جو کچھ تیرے ساتھ ہورہا ہےمیری لالچ اور خودغرضی کی وجہ سے ہو رہا
ہے۔۔۔۔تیری شادی کر دیتی تو یوں توُں دربدر نہ ہوتی۔۔۔۔تیری زندگی تباہ کر دی میں نے۔۔۔
تیری گنہگار ہوں میں۔۔۔۔" شیداں روئے جارہی تھی اُسے آج اپنے کیے پہ سخت شرمندگی
ہو رہی تھی اُسے احساس ہوا تھا جو اُس کے لیے موت سے کم نہ تھا جبکہ مومل تو جیسے بت
بنی ہوئی تھی یا شاید کوما میں تھی جو بھی تھا وہ زندہ لاش بنی ہوئی تھی۔۔۔
٭۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔٭
صبح
سورج طلوع ہونے سے پہلے وہ اُداس سی ماں سے ملتی بیگ لیے بوجھل قدموں سے گیسٹ روم سے
باہر آئی۔۔ٹرؤزر شرٹ میں ملبوس مُرتضیٰ ڈرائیور کو کُچھ سمجھا رہا تھا مومل کو آتے
دیکھا تو اُسکا بیگ لے کر گاڑی میں رکھا۔
"آپ
نے میری بات مانی شکریہ آپا ۔۔۔اپنا خیال رکھیئے گا۔۔" مُرتضیٰ کی بات پہ مومل
نے اُسکے سر پہ ہاتھ رکھا پھر دُکھی سی گاڑی میں بیٹھ کر روانہ ہوگئی۔
مُرتضیٰ
نےگھڑی پہ ٹائم دیکھا پھر جلدی سے نہانے کےلیے دوڑ لگائی۔
فاطمہ
بال سمیٹتی کچن میں داخل ہوئی ،شگفتہ سے مومل کےکراچی جانے کی خبر ملی تو خوشی سے کُرسی
پہ بیٹھ گئی۔
"چلو
ایک مُصیبت سے تو جان چھُوٹی دو مہینے سے سر پہ سوار تھی۔۔۔۔۔اُن کی اماں کی خیر ہے
میرے ہوتے ہوئے چار دن بھی بمشکل جیئے گی۔۔۔۔دیکھنا کرتی کیا ہوں اس بُڑھیا کے ساتھ۔۔۔"
فاطمہ بڑے مزے سے سلاد کھا رہی تھی جبکہ ساتھ کھڑی شگفتہ جو ناشتہ بنا رہی تھی فاطمہ
کی باتوں سے لطف اندوز ہو کر ہاں میں ہاں ملا رہی تھی ۔اب شیداں کی باری تھی جو سلوک
اس نے ابراہیم کے ساتھ کیا تھا جو تکالیف اُسے پہنچائی تھیں وہ اب اس پہ پلٹنی تھیں۔۔۔بُراسلوک
بلکل اُس گیند کی طرح ہوتا ہے جسے جتنی زور سے دیوار پہ مارو پلٹ کر اتنی زور سے خود
کے منہ پہ آلگتی ہے۔
٭۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔٭
"سلام
آپا۔۔کیسی ہیں۔۔؟؟"
"یہ
ارم ۔۔۔میری وائف۔۔۔یہ بھی ڈاکٹر ہیں۔۔۔" مُسفر نے سلام کیاپر مومل کی نظریں ڈاکٹر
ارم پہ محسوس کیں تو جھٹ سے مُتعارف کرا دیا۔مومل بے یقینی کی کیفیت میں مُبتلا تھی
خیر ایک بار پھر اُس نے خود کو سنبھالا تھا اور ہلکی مسکراہٹ سجانے میں کامیاب رہی
پھر مُسفر اور ارم کے گلے لگی۔ہر بہن کی طرح بھائیوں کی شادی کے بڑے ارمان تھے مومل
کو جو اب چُور چُور ہوچُکے تھے، اُس نے توکبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ زندگی کا وہ فیصلہ
جو اس نے اپنے ویروں کے مستقبل کی خاطر رد کر دیا تھا،وہی ویر بنا بتائے شادی شدہ زندگی
گزار رہے تھے۔
"
ارم آپا تھکی ہونگی۔۔۔انہیں ان کا کمرہ دیکھا دیں۔۔۔" مُسفر
کی بات مکمل ہونے کے بعد ارم مومل کو لیے وہاں سے
چل دی۔
گھنٹے
بعد مُسفر مومل کے کمرے میں داخل ہوا مومل خاموش سی دیوار پہ نظر ٹکائے سوچوں میں گُم
تھی۔
"
آپا ۔۔"وہ دروازے پہ دستک دے کر داخل ہوا تھا،مومل جھٹ سے ہوش
میں آئی تھی۔
"
دراصل میں یہ کہنے آیا تھا کہ ہمارا کام ایسا ہے نہ میں فری ہو پاتا
ہوں نہ ارم۔۔۔۔۔سو ساتھ ہی کچن ہے جو چاہے بنا لیجیۓ
گا۔۔۔پورے ہفتہ کی سبزیاں لا کر رکھ دیا کرتا ہوں سو کوئی دقت نہیں ہوگی آپکو۔۔۔اس
کے علاوہ کچھ چاہیے ہو تو پاس ہی مارکیٹ ہے لے لیجیۓ
گا۔۔۔۔پیسے تو نہیں ہونگے آپ کے پاس ؟ چلیں یہ لیں کچھ پیسے ہیں کام آئیں گے۔۔۔"
مُسفر بالوں میں ہاتھ پھیرتا چلا گیا جبکہ مومل خود کو حقیر اور بے بس محسوس کر رہی
تھی،اسے مُسفر کا یوں پیسوں کا پوچھنا بُرا لگا تھا۔آخر جو کما یا تھا وہ سب تو اپنے
ویروں پہ لُٹا چُکی تھی۔۔۔اب تو طویل عرصے کی محنت کا پھل کھانے کا وقت تھا پر یہ سب
کیا تھا ۔۔۔کیا کوئی بُرا خواب تھا یا واقع ہی اُس نے بنجر زمین پہ محنت کی تھی یا
پھر نیم کے درخت سے آم کی اُمید کر بیٹھی تھی جو بھی تھا بہت تکلیف دہ تھا۔
پورا ایک مہینہ گزر گیا تھا معمول
کے مطابق مُسفر سبزیاں لاتا اور فریج میں رکھ دیتا، مومل جہاں سب کے لیے کھانا بناتی،گھر
کی تمام ذمہ داریاں ،سب کے کپڑے دھو کر پریس کرنےوہاں کام میں تاخیر یا غلطی پہ ارم
کی جلی کٹی بھی سُن لیتی۔کھانے میں کوئی کمی رہ جاتی تو مُسفربھی سنا دیتا۔۔۔اب سُسنا
ہی تومقدر تھا اُسکا۔۔کوئی ٹھکانہ، کوئی آسرا جو نہیں تھا ۔۔۔۔
٭۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔٭
مومل
چائے کا کپ لیے مُسفر کے کمرے میں داخل ہونے لگی اس سے پہلے کہ وہ اندر قدم رکھتی مُسفر
کی آواز نے اُس کے قدم روک دیے۔
"دیکھو
بھائی! آپ تو جانتے ہو میں نے اور ارم نے ہسپتال بنانے میں دن رات محنت کی ہے،اسی وجہ
سے ہم نے ابھی تک فیملی پلینیگ نہیں کی۔۔۔اس سوچ کے ساتھ کہ ایک دفعہ ہسپتال بن جائے
تب ہی فیملی پلین کریں گے۔۔۔اس ہفتے وہاں کام مکمل ہوگیا ہے سو اب ہم نے فیصلہ کیا
ہے کہ ہم اسی ہفتے وہاں انگلینڈ میں شیفٹ ہوجائیں۔۔۔" موبائیل کو اوپن پہ کیے
مُسفر نے سامنے میز پہ رکھا ہوا تھا،وہ جھُک کر موزے چڑھا رہا تھا اور ساتھ ساتھ مُرتضیٰ
سے بات کر رہا تھا۔
"یہ
تو بہت اچھی بات ہے،تو تم پریشان کیوں ہورہے ہو۔۔۔؟؟؟" مُرتضیٰ کے سوال پہ اس
نے موزے کو پُھرتی سے چڑھایا اور جھٹ سے سیدھا ہوا تھا۔
"آپا۔۔آپا
پریشانی ہیں۔۔۔۔ آپ جانتے ہو آپا کی نیچر کو وہ وہاں آڈجیسٹ نہیں کر پائیں گئیں اور
ارم بھی بہت خائف رہتی ہیں آپا سے ۔۔۔۔اس لیے میں چاہتا ہوں آپا آپ کے ساتھ رہیں۔۔۔"
مُسفر نے ٹائی ٹھیک کرتے ہوۓ
بات تمام کی۔
"
ارے یار خُدا کا واسطہ ہے اپنی پریشانی میرے سر مت ڈالو۔۔۔ایک اماں
کا عذاب کم ہے جو آپا کا بوجھ بھی میرے سر ڈال رہے ہو؟۔۔۔۔میں آپا کو رکھ کہ رسک نہیں
لے سکتا، فاطمہ اور آپا کی بلکل نہیں بنتی تو معذرت ہے اپنا عذاب خود بُھگتو ۔۔۔دیکھ
بھائی آپا کو ساتھ لے جا یا کہیں بھی کر پر مجھ سے اور میرے گھرسے دُور رکھ۔۔۔بڑی مہربانی
ہوگی اور ویسے بھی آپا نے ہم سب سے زیادہ تیرا خیال رکھا ہے اب توں جان اور تیری آپا
ہمیں بیچ میں نہ لا ۔"اس سے پہلے کہ مُسفر کچھ بولتا مُرتضیٰ نے صاف صاف فیصلہ
سنا دیا۔
مومل
بت بنی کھڑی تھی ،آنسو شبنم کے قطروں کی طرح بوند بوند ہو کر کپ میں گر رہے تھے۔
"اچھا
یار چھوڑو گزری باتوں کو۔۔۔وہ وقت بھی کوئی یاد کرنے کے لائق ہے بھلا۔۔۔اب مدد کرو
یار آپا کا کیا کروں؟ساتھ تو میں نہیں لے جاسکتا، تمھاری طرح میرا بھی گھر بار ہے۔۔ کل کو بچے ہونگے ذمہ داریاں بڑھ جائیں
گئیں۔۔۔۔آپا کو کہاں سنبھالتا پھروں گا؟۔۔۔۔آپ پلیز کوئی حل سوچیں۔۔۔میں شام کو کال
کرتا ہوں۔۔۔خدا حافظ۔" مُرتضیٰ رضامند ہوچکا تھا کہ شام تک وہ ضرور کوئی نہ کوئی
حل نکال لے گا ، پھر مُسفر نے بڑی بیزاری سے کال کاٹی دی۔
مومل
تیزی سے کچن میں گئی شیلف پہ چاۓ
کاکپ رکھ کر کمرے کی طرف پلٹ گئی،دروازے کو لاک کر کے بیڈ کےساتھ ٹیک لگا کر قالین
پہ بیٹھ گئی۔آنسو تھے کہ تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔
"میری
ساری محنت ۔۔ضائع رہی،سارے خواب۔۔۔ ریزہ ریزہ ہوگۓ،ساری
کوششیں۔۔، اُمیدیں،سارا مان۔۔ ٹوٹ گیا۔۔۔۔
میں
ہار گئی۔۔۔۔میرے اللہ میں ہار گئی۔۔میں نے تو سب پُرخلوص ہو کر کیا تھا ۔۔۔اور یہ سب۔۔
کیا ہوگیا۔۔کیا ؟۔۔"
مومل
روۓجا رہی تھی،طوفان تھا ،درد
تھا جو دل میں سے اُٹھ رہا تھا،جو اشکوں اور ٹوٹے پھوٹے لفظوں کی صورت میں اُمڈ رہا
تھا۔
"میرے
مالک آج میرے سارے بھرم ٹوٹ گۓ۔۔۔آج
میں نے پہچان لیا،سب جان لیا، کاش میں دادی کی بات مان لیتی۔۔۔کاش۔۔ش۔۔۔۔"اُس
نے گھٹنوں میں منہ چُھپالیا تھا۔
"
مجھے سزا ملی ۔۔ہاں مجھے اپنے کیے کی سزا ملی۔۔۔۔ میں اپنوں کو بناتے
بناتے خود کو تباہ کر بیٹھی ۔۔میں نے جن رشتوں کی خاطر بار بار اُسے دھتکارہ تھا۔۔۔وہی
رشتے آج مجھے دھتکار رہے ہیں۔۔۔شاید مجھے اُس کا صبر کرنا کھا گیا ،اب میں جان گئی
جب جان سے پیارے دھتکارتے ہیں تو دل پہ کیا بیتتی ہے۔۔۔میں نے بار بار اُس کی دل آزاری
کی تھی سزا تو ملنی تھی مجھے ۔۔۔" اس کے دماغ میں اچانک دھماکہ ہوا تھا۔وہ خود
کو الزام دے رہی تھی،وہ بہت حساس بنی ہوئی تھی،جو دماغ میں آ رہا تھا بنا سوچے بولے
جا رہی تھی۔وہ تسلیم کر رہی تھی ،وہ پسپا ہوچکی تھی۔
"میں
نے اُس کے منہ پہ طمانچہ مارا تھا۔۔۔آج وہی طمانچہ زندگی نے میرے منہ پہ مارا۔۔۔ میرے مولا مجھے معاف کر دے ۔۔۔معاف کردے۔۔۔"اس
نے سر کو بیڈ پہ ٹکا کر آنکھیں موند لیں اور دل سے اُٹھنے والے درد کی شدت کو محسوس
کرنے لگی۔
٭۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔٭
وہ
شام کو ارم کے ساتھ گھر آیا تو کھانے کے لیے مومل کو آواز دینے لگا۔۔۔جواب موصول نہ
ہونے پہ سخت تاثرات لیے مومل کے کمرے میں چلا گیا مومل کووہاں نہ پا کر وہ پلٹنے لگا
تو اُسے ڈیسنگ ٹیبل پر کاغذ اور پین ملا ،جسے پڑھ کر وہ پریشان سا کمرے سے باہر لاؤنج
میں آگیا۔جہاں ارم ٹی وی دیکھ رہی تھی۔
"کیا
ہوا۔۔؟" مُسفر کو پریشان دیکھ کر ارم نے وجہ دریافت کرنی چاہی ۔
"آپا
گھر چھوڑ کر چلی گئ ہیں کہیں۔۔۔" مُسفر نےکاغذ ارم کو تھما دیا جس میں مومل نےصاف
الفاظ میں منع کیا تھا کہ اُسے ڈھوندنے کی جسارت نہ کی جائے،اُسے پڑھنےکے بعد ارم نے
مُسفر کے کندھے پہ ہاتھ رکھ دیا۔
"بھائی!
آپا ایسے کیسے کہیں جا سکتی ہے۔۔۔۔مجھے تو پریشانی لاحق ہے کہیں کچھ کر نہ بیٹھیں۔" مُسفر
لان میں آتے ہی فون پہ مُرتضیٰ سے بات کرنے لگا۔
"چلو
اچھا ہوگیا۔۔۔خودہی چلی گئیں،مسلہ اپنے آپ ختم ہوگیا۔۔۔۔کسی این جی او چلی گئی ہونگیں۔۔۔پریشان
نہ ہو پاکستان کے یہ ادارے فلاحی کام کرتے ہیں اور اب تو بہت ٹائیٹ سکیورٹی سسٹم ہوگیا
ہے، میں خود کافی سارےفلاحی اداروں میں ڈونیشن دیتا ہوں کافی تقریبات میں شرکت کی ہے۔۔۔۔آپا
محفوظ رہیں گئیں۔۔۔ڈونٹ وری۔۔اب خوش ہو جا میرے بھائی اپنی زندگی اپنے حساب سے جیو
بندآس ہو کر۔۔۔" مُرتضیٰ نے اطمینان سے بات تمام کی اور فون بند کر دیا۔دو دن
بعد مُسفر اور ارم ہمیشہ کے لیے انگلینڈ چلے گئے۔
٭۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔٭
لمبی رات کے بعد دن کا آغاز ہوا
تھا،سورج کی ہلکی ہلکی کرنیں اُس پہ پڑ رہیں تھیں ،اُس نے اپنے سیاہ گھنے بالوں کو
دائیں کندھے پر اکھٹا کر رکھا تھا وہ جب سے آئی تھی بہت گُم صم رہتی تھی، ابھی بھی
وہ خاموشی سے بینچ پہ بیٹھی سوچوں کے ساغر میں ڈُوبی ہوئی تھی۔۔مومل این جی او میں
رہائش پذیر تھی جہاں وہ بچیوں کو تعلیم دے رہی تھی۔
"مومل۔۔۔۔"
وہ جو دو ماہ بعد آیا تھا،وہ مالک تھا این جی او کا، آج ورکر کو ساتھ لیے پوری بیلڈنگ
میں وزٹ کر رہا تھا ۔وزٹ کر کے وہ باہر آیا تو نظر لان میں بیٹھی مومل پہ پڑی تو بے
ساختہ پُکار اُٹھا،پاس کھڑی ورکر نےاُس کی ساری کہانی الف سے یے تک سنا دی جو مومل
نے بتا رکھی تھی جبکہ اُس کی نظریں مومل پہ جمی ہوئی تھیں ۔ورکر کی باتیں سننے کے بعد
اُس نے بہت مُشکل سے تھوک نگلی تھی۔اُسے دل میں درد بھری تیس سی محسوس ہوئی تھی۔۔وہ
اس کے حال پہ دُکھی ہوگیاتھا۔اُس نے قدم مومل کی جانب بڑھا دیے،جبکہ لیڈی ورکر دوسری
خواتین کے مسائل رجسٹر پہ لکھنے لگی۔
"مومل
کیسی ہیں آپ؟؟۔۔۔"وہ بھی بینچ پہ بیٹھ گیا، مردانہ آواز پہ ہی وہ سہم کر سمٹ گئی
تھی۔ مومل اب مرد کے سائے سے بھی ڈرتی تھی۔دربدر ہونے کے بعد معاشرے کے بھیڑیوں کا
شکار بنتےبنتے بچی تھی، بہت مشکل سے اُس نے خود کو ہوس سے بھرے درندوں سے بچا یا تھا
بہت مشکل سے وہ اس محفوظ مقام پر پہنچی تھی خیر اُس نے ہاتھ کھڑے کر کے اعتماد دلانا
چاہا کہ وہ صرف بات کرنا چاہتا ہے۔مومل کی حالت پہ اُسکی آنکھوں میں نمی آگئ تھی۔
"آ۔۔پ۔۔ک
کون ہو۔۔؟"مومل نے ایک بار بھی نظر اُٹھا کر نہیں دیکھا تھا، مومل کے معصوم سے
سوال پہ اُس کے چہرےپر درد بھری مُسکراہت اُبھری تھی۔
"چلیں
کہانی سناتا ہوں۔۔۔کہانی سنیں گئیں آپ؟؟"اُس کی جانب نظریں جمائے ہوئےسوال کیا
چند لمحات اس کی گھبراہٹ کو محسوس کیا پھر ہلکاسا مُسکرا کر نظریں جُھکا گیا۔
"ایک
سکول میں ایک پیاری سی گڑیا تھی اور ایک اُسکا بہت اچھا دوست تھا، بچپن سے ایک دوسرے
کے ساتھی تھے ،سنو گڑیا شرارتی تھی اول درجے کی۔۔۔"اُس نے اُسکی جانب دیکھا ،پھر
دھیمی آواز میں بول کرمُسکرا دیا جبکہ مومل نظریں جھکائے جوں کی توں بُت بنی ہوئی تھی۔
"جب
کوئی شرارت پکڑی جاتی تھی ناں اُسکی تو سارا الزام اپنے دوست پہ ڈال دیتی تھی وہ۔۔ پھر کہتی تھی دوست ہی تو دوست کے کام آتا
ہے۔۔۔ اور دوست بھی بڑا تابعدار تھا ،مسکرا کہ سارے الزام خود پہ لے لیتا تھا ،وہ ہرمُشکل
اپنے دوست کو بتاتی تھی تو اُس کا دوست منٹوں میں حل نکال دیتا تو گڑیا اسے انعام بھی
دیتی تھی پتا ہے انعام میں وہ کیا دیتی تھی؟"
اُس نے پھر ایک نظر مومل کی جانب دیکھ کر سرگوشی کی اور
مُسکرا دیا۔
"اپنی
پیاری سی مُسکراہٹ۔۔۔۔اور خوشی سے آنکھوں میں جگ مگ کرتے جگنو۔۔۔جو اُس دوست کے لیے
دنیا کا انمول انعام ہوتا تھا۔"وہ چہرے پر مسکراہٹ برقرار رکھے ہوئے تھا۔
"پھر
یوںہی وقت گُزر گیا۔۔۔۔گُڑیا بڑی ہوگئی اور دوست سے دور ہوگئی۔۔۔چونکہ دوست پسند کرتا
تھا تو اُس نے گُڑیا کے گھر دو بار پرپوزل بھیجا پر اُسے انکار ہوگیا۔۔اسے احساس ہوا
کہ شاید وہ گڑیا کے قابل نہیں ہے تو پھر اُس دوست نے دن رات محنت کی اور بہت اچھی نوکری
حاصل کرکے واپس لوٹا اور پھر پرپوزل بھیجا پر پھر ناکامی کا سامنا ہوا۔۔۔تو اُس نے
گُڑیا سے ملنے کا سوچ لیا۔۔۔۔پھر وہ دن بھی آگیا ۔۔۔۔"وہ ایک لحظہ خاموش ہوا ۔چہرے
پہ دُکھ بھرے تاثرات اُمڈ آۓ۔
"اس
دن اس نے گڑیا کے سامنے محبت کا اقرار کرلیا۔۔۔پہلے تو وہ خوب برسی ۔۔۔پھر خاموش ہوگئی۔۔۔پھر
اُس دوست نے کہا کہ وہ اُس کے علاوہ کسی سے شادی نہیں کرے گا وہ ہمیشہ اُسکا ساتھی
تھا اور رہے گا۔۔۔ گڑیا نے اُسے سمجھانا چاہا پر وہ بضد تھا تو پتا ہے اُس گڑیا نے
پہلی بار اس پہ ہاتھ اُٹھایا۔۔۔اُسے زوردار طمانچہ رسید کیا تھا۔۔۔" گردن خم کیے
وہ لب دبا گیا ۔
"دُکھ
تو اُس دوست کو بہت ہوا پھرجب گھر ٹھنڈے دماغ سے سوچا تو اُسے لگا کہ شاید گڑیا کی
کوئی مجبوری ہو۔۔۔پھر اُسے اپنے کیے پہ شرمندگی محسوس ہوئی،اس احساس نے اُس سے گڑیا
کا سامنا کرنے کی ہمت چھین لی۔۔۔شرمندگی لیے وہ دوست شہر چھوڑ گیا۔۔وہ آج بھی اپنے
اُس ساتھی کے انتظار میں ہے کہ وہ واپس آۓ
پھر کوئی الزام دے دے پر ہمیشہ ساتھ رہے۔۔۔" وہ کہانی ختم کرتے ہی ہلکی مسکراہٹ
سجا ئے اُٹھ کھڑا ہوا اور جانے کے لیے رُخ پھیرا ۔
"عبدالرحمٰن۔۔۔۔"مومل
نے اُسکا ہاتھ پکڑ لیا،وہ ہلکی مسکراہٹ لیے اُسکی طرف پلٹا۔
"جی
۔۔۔۔"وہ جو پتا نہیں کب سے رو رہی تھی۔اس نے اسے اب دیکھا تھا۔
"مجھےمعاف
کر دیں۔۔۔" اُس نے عبدالرحمٰن کے سامنے ہاتھ جوڑ دیے،تو عبدالرحمٰن نے جھٹ سے
اُس کے دونوں ہاتھ تھام لیےاور نفی میں سر ہلاتا رہا۔اس نے تو کبھی سوچا ہی نہیں تھا
کہ کوئی اُسے ا تنا چاہ سکتا ہے،اُس کے لیے پوری زندگی انتظار کر سکتا ہے، وہ تو مرد
کے ایک رُوپ سے واقف تھی جس میں خودغرضی،لالچ،ہوس اوربے ادبی تھی پر آج وہ مرد کے بہت
خوبصورت روپ سے ملی تھی جس میں ادب و احترام ،خلوص، پیار ومحبت اور تحفظ تھا۔
"
کیا آپ مجھ سے شادی کریں گی۔۔۔؟"اس نےمومل کے سامنے زمین پہ
گُھٹنے ٹیک کر ہاتھ آگے کر رکھا تھا۔مومل ہلکا سا مسکرا دی جبکہ عبدالرحمٰن کی اس حرکت
کو وہاں موجود سب دیکھ رہے تھے۔
"اگر
آج بھی آپ کا وہی فیصلہ ہے تو ٹھیک ہے،اب کب تک ایسے کنوارہ رہوں گا۔۔۔ دیکھو بال بھی سفید ہونے والے ہیں۔۔۔۔"اُس
نے اپنے سیاہ بالوں کی لٹ پکڑی تھی جو ماتھے کو بار بار چوم رہی تھی۔
"آپ
بتائیں مجھے لے کر آپکی کیا اٹنشن ہے ورنہ اپنی دوسری محبت کو ہاں کہہ دوں۔۔۔یہ نہ
ہو کہ آپ کے چکر میں اُس سمارٹ ،خوبصورت، حسین وجمیل لڑکی کو بھی کھو بیٹھو۔۔۔۔"وہ
بڑے مزے سے محض مومل کو چھیڑنے کے لیےموٹی ،سیاہ رنگت والی لیڈی ورکر کو دیکھے بول
رہا تھا ،وہ مومل کے پیچھے ہی تھوڑا دور کھڑی عبدالرحمٰن کی باتوں پہ شرما رہی تھی
جبکہ مومل بنا پیچھے دیکھےسنجیدہ ہوگئی اور عبدالرحمٰن کو غصے سے گھورنے لگی۔
"آپ
دیکھنا چاہیں گئیں اُس باربی ڈول کو۔۔َ؟ بلکُل آپ کے پیچھے کھڑی ہیں" اُس نے مسکراہٹ
سجائے مومل کی طرف دیکھا تھا جو پوری طرح غصے سے جل رہی تھی جبکہ اُس نے دو اُ نگلیاں
ہونٹوں پہ رکھ لیں اور مزےدار جواب سننے کے لیے مسکراہٹ کو دبا نے لگا۔
"تو
اُنھی سے ہی شادی کر لینی تھی میرا انتظار کرنے کی کیا ضرورت تھی؟۔۔۔" وہ بنا
پیچھے دیکھے عبدالرحمٰن پہ برس اُٹھی، مومل کی بات پہ وہ زوردار قہقہ لگا اُٹھا جبکہ
وہ غصہ سے تکے جا رہی تھی۔
عبدالرحمٰن
نے مومل کو کندہوں سے تھام کر اُس کا رُخ اُس ورکر کی طرف کیا۔ مومل اُس بھاری بھرکم
مرد جیسی عورت کو دیکھ کربے ساختہ ہنس دی ،جو بار بار عبدالرحمٰن کو دیکھ کر شرماۓ
جا رہی تھی ، جو ڈول نہیں ڈھول معلوم ہو رہی تھی،وہ اب سمجھی تھی کہ عبدالرحمٰن کب
سے اُسے ستا رہا تھا۔وہ واپس عبدالرحمٰن کی طرف پلٹی تھی۔
"کیسی
لگیں۔۔؟" عبدالرحمٰن نے کندھے اُچکاتے ہوۓ
پوچھا جس پہ مومل نے جذبات میں آکر اُس کے سینے پہ گھونسوں کی برسات شروع کر دی۔
"ارے۔۔۔۔م۔میں
مزاق کر رہا تھا۔۔" عبدالرحمٰن نے اُسکی دونوں کلائیوں کو بامشکل پکڑکر گرفت مظبوط
کی تھی۔
"سب
آپ کی وجہ سے ہوا ہے۔۔۔سارا قصور آ پکا ہے۔۔۔کیا ضرورت تھی اُس دوست کو اپنی گڑیا کو
یوں چھوڑ کر جانے کی؟۔۔۔" وہ مسکراہٹ سجائے ہوئے تھا جبکہ مومل آنسوں بہاتی اُسکی
جیکٹ سے لگے بولے جا رہی تھی۔اب وہ اُسے اپنی پہلے والی مومل لگ رہی تھی۔ وہ جو بات بات پہ اسی کو قصوروار ٹھہراتی
تھی ۔
“ Will you marry me……..?”
وہ پھر سےمومل کے سامنے زمین پہ
گُھٹنے ٹیک کر ہاتھ آگے کر کے فلمی انداز میں پرپوز کر رہا تھا۔،مومل نے شرماتے ہوۓ
سر ہلا کر رضامندی ظاہر کی اور پھر عبدالرحمٰن کا ہاتھ تھام لیا۔ عبدالرحمٰن مومل کے
دونوں ہاتھوں کو مظبوطی سے تھام کر کھڑا ہوا تو مومل نے آنکھوں میں نمی لیے اُس کی
جیکٹ پہ سر رکھ دیا۔
وہ
جو صدیوں سے نامکمل تھی، آج وہ مکمل ہوگئی تھی۔برسوں سے جو دل پہ بوجھ تھا آج وہ ختم
جو ہوگیا تھا،سارے غم دور ہوگۓ
تھے،ایک لمبے عرصے بعد حقیقی خوشی جو محسوس ہو رہی تھی ۔اج مومل محسو کر رہی تھی جیسے
وہ ایک طویل عرصے دوذخ میں تھی اپنے کیے کی سزا بُھگت رہی تھی اور آج اُسکی سزا تمام
ہوئی تھی چونکہ مسلمان تھی تو جنت میں جانے کی نوید مل گئی تھی۔۔۔۔جہاں مومل من ہی
من خدا کا شکر ادا کر رہی تھی وہاں عبدالرحمٰن بھی اپنی محبت ،اپنا ساتھی واپس مل جانے
پہ اُس پاک ذات کے کرم پہ شکرگزار تھا۔
کامل
خوشی کے ساتھ مومل اور عبدالرحمٰن زندگی کے نئے خوبصورت سفر کے لیے قدم بڑھا چکے تھے۔
ایسا سفر جو ایک ساتھی کا دوسرے ساتھی کے ساتھ تا حیات قائم رہنے والا تھا۔
********************
The End
Comments
Post a Comment