Mar nahe piyar by Malik Aslam Hamsheera

Mar nahe piyar by Malik Aslam Hamsheera

”  مار ٠٠٠٠٠٠٠٠  نہیں پیار“
تحریر٠٠٠٠ملک محمد اسلم ہمشیرا
یہ غالباً 1993  کی بات ھے، میں نے اپنے آبائی گاٶں میں واقع (Ps پلہ ہمشیرا )سے پانچویں جماعت کا امتحان   پاس کر لیا،  اس خوشی میں باقاعدہ طور پر عورتیں  امی جان کو مبارکباد دینے کے لیے آنے لگیں  چاچے فریدو کے ھاتھ نکتی اور نمک پارے منگوا لیے گئے ،کیونکہ اُس دور میں پانچویں پاس کرنا ایسے ھوتا تھا جیسے دہلی کا لال قلعہ فتح کر نا،
تو جناب ، رات کو کھانا کھانے کے بعد امی،ابو،اور دادا حضور سر جوڑ کر بیٹھ گۓ اور مستقبل کے اس ارسطو کے  بارے میں  لائحہ عمل تیار کیا جانے لگا
، دادا نے کہا علی پور ”جیل مدرسے“ بھجوا دیں تاکہ عالم دین بن کر واپس آئے،
ابو نے کہا سائیکل لے دیتے ھیں اور کوٹلہ موسی خاں ہائی سکول سے پڑھ کر روزانہ گھر  آ جاتا رھے،
مگر امی نے کہا روز حادثے ھو رھے ھیں میں سائیکل پر اتنا سفر دور نہیں بھیجتی ،یہ اپنی نانی اماں کے ساتھ اوچشریف میں رہے گا،وہاں جا کر اپنی  علمی صلاحیتوں کا لوھا منوآئے گا،
چنانچہ اگلے ہی دن قوم کے اس عظیم اثاثے کو لے کر  اوچشریف میں نانی اماں کے سپرد کر دیا گیا،مگر نانی اماں بے چاری کو کیا معلوم تھا یہ عام سا بچہ متستقبل قریب میں ایک ایسی عظیم”چخ“ ثابت ھو گا کہ جس سے شیطان بھی ٹیوشن پڑھنے آئے گا
اگلے دِن ماموں حمید کو ہائی سکول اوچشریف  میں میرے داخلے کا  ٹاسک دیاگیا،جو انھوں نے اِفن ساٸیں کے  ایک ھی فون سے ایک ھی دن میں ممکن بنا دیا
سکول کا پہلادن ، سب کچھ ٹھیک چل رھا تھا مگر اچانک ایک نئی بلاۓ ناگہانی “  ”انگلش “نامی متعارف کرا دی گئی،جس کی پانچویں تک ھم نے شکل بھی نہیں دیکھی تھی
، پہلے دس منٹ تو میں انگلش کی کتاب کو گھورتا رھا مگر جلد ہی مجھے محسوس ہو گیا کہ میرے ساتھ اس کی کبھی نہیں بن پاۓ گی  تو جناب یہ وہ دن تھا جس دِن سے میرا انگلش کے ساتھ” مولا جٹ اور نوری نت “ والا ویر شروع ھو گیا،
یہ دشمنی اس وقت بام عروج کو پہنچ گئی جب باوثوق ذرائع سے یہ معلوم ھوا کہ یہ تو ان انگریزوں کی زبان ھے جنہوں نے ھمارے آباواجداد پر ظلم کے پہاڑ توڑے تھے،
جنابوالہ اس وقت سے تو میں نے انگلش کو منہ نہ لگانے کا تاریخی فیصلہ کر لیا ،
چنانچہ انگلش نے بھی انتقامی کاروائی کرتے ھوئے براستہ حنیف صاحب تشدد کا سلسلہ شروع کروا دیا،مگر یہ روز کے مظالم میری ضد کے آگے ریت کی دیوار ثابت ھوئے،دشمنی کا پہلا سال مکمل ھونے کو تھا اور امتحانات شروع ھوگئے ،قسمت کی ستم ظریفی دیکھیے کہ اگلے دن پہلا پیپر ھی انگلش کا تھا،اور ہمارا آمنا سامنا ناگزیر تھا، لہذا ٹکراٶ سے بچنے کےلیے میں نے ایک دن کے لیے اپنے لنگوٹیے کلاس فیلو،شہنشاہِ بہانہ جناب مختیار  ”مُتی شاہ “ ٠٠٠٠سے ایک دن کیلئےبخار عاریتاً لینے کا فیصلہ کر لیا،٠٠٠
رات ھی سے نانی اماں کو اپنے سر کے بھاری ھونے کا عندیہ دے دیا تھا تاکہ صبح تک بہانہٕ بخار کو تقویت مل جآئے
صبح اُٹھتے ھی خود کار نظام کے تحت  شکل شریف ایسے بن گئی جیسے ایک ماہ بعد ابھی bvh  سے چھٹی ملی ھے،نانی اماں کے آتے قدموں کی چاپ سن کر ،نام نہاد نقاہت سے میں گرنے ہی لگا تھا کہ  نانی اماں نے تھام لیا ،پوچھا بیٹا کیا ہوا؟جواب میں مَیں نے مگر مچھی آنسوٶں کی آمیزش کے ساتھ قصٸہ دلِ درد کی داستاں گلوگیر سٹاٸل میں بیان کرنے لگا،کہ کس طرح ساری رات بخار کی آتش ِنمرود میں جلتا رہا؟ ،کس طرح دردِ شقیقہ کے سمندر کی بے رحم موجوں میں تھپیڑے کھاتارھا،
؟چنانچہ نانی اماں نے بخار چیک کرنے کے رویتی طریقے کو بروٸےکارلاتے ھوتے اپنا ھاتھ ایک ایک سیکنڈ کے لیے ماتھےاورگال پر رکھا پھر براستہ گریبان سینے کا درجہ حرارت معلوم کیا اور یہ کہتے ھوۓ ھاتھ واپس کھینچ لیا کہ
”کوسا تاں کائنی“
(یعنی بخار تو نہیں ھے)،نانی اماں کا مطمٸن چہرہ دیکھ کر میرے تو اوسان خطا ھو گئے،مگر میں نے کسی پشاوری پٹھان کی طرح ساری رات بخار ھونے کی شھادتیں پیش کیں مگر نانی اماں نے  رویت ہلال کمیٹی کی طرح تمام شھادتوں کو مسترد کر دیا،
چنانچہ انگلش کے خلاف میری سازش کو نانی اماں نے دو ڈھکن شربت ”کال پول “پلا کر ناکام بنا دیا،ابھی مزید ڈرامہ کرنے کا متحمل نہیں ھو سکتا تھا کیونکہ  طبعیت زیادہ خراب ھونے کی صورت میں حکیم محمد یار ککس سے بھی رابطہ کیا جا سکتا تھا جس کے معجون اور جُلاب اتنے کڑوے ھوتے تھے جن کو سوچتے ہی منہ کا ذاٸقہ خراب ھو جاتا تھا،لہذا بادلِ نخواستہ سکول کی طرف رختِ سفر باندھ لیا،
پیپر شروع ھو چکا تھا ،اور انگریزی کے حروف٠٠٠ میرے فلاپ شدہ ڈرامے پر میرا منہ چِڑا رھے تھے،مگر میری غیرتِ ایمانی نے فرنگیوں کی زبان کا ایک لفظ بھی لکھنا گوارا نہ کیا، آخر کار یہ سوچ کر صاف پیپر ممتحن کو عطا کر دیا کہ ”چلو صفاٸی کے نمبر تو ملیں گے،
خدا خداکر کے چھٹی جماعت کے پیپرز ختم ھوۓ اور یہ پیپرز سکول کے اساتذہ ھی لیتے تھے،پاس فیل کرنا اساتذہ کے بس میں ہی ھوتا تھا،لہذا نتاٸج کی پُل صراط پار کرنے کے لیے کسی سواری کے ڈھونڈنے کی تگ ودو شروع کر دی
،اتفاق سے ماسی منظوراں کا ایک ”بغیر خاروں “والا صحت مند مرغا بہترین سواری کی شکل میں نظر آیا ،
تو جناب نیک کام میں دیر کیسی؟اگلے ہی دن دو گھنٹے ریکی کرنے کے بعد مرغے کو خطرے سے خالی مقام تک لے جانے میں کامیاب ہو گیا،چنانچہ حکیم جالینوس کی طرح  اپنے قیمتی دماغ کا استعمال کرتے ھوٸے ایک تسبیح کے مڑکے کو دھاگہ باندھااور آٹا لگا کر مرغے کے آگے ڈال دیا،
پلک جھپک میں مرغے نے منکا اُچک لیا جو بعد میں اس کےلیے گلے کی ھڈی ثابت ھوا،اور میں آہستہ آہستہ مرغے کے قریب پہنچ کر پکڑ لیا،چنانچہ پہلے سے تیار ایک کھاد والے کٹے میں مرغے کو ڈالا اور اوچشریف چم پت ھو گیا،
مغرب کو بس سے اترتے ہی چار بندوں نے پوچھ لیا کہ بہائی ”مرغا بیچنا ھے؟مگر میں ان کی باتوں پر کہاں کان دھرنے والا تھا  میں نے تو اِس کو اعلی مقاصد کے حصول کے لیے استعمال میں لانا تھا،
رات کو استادِ محترم کے گھر مرغ مسلم دینے کے بہانے  ٠٠٠٠اپنی اور انگریزی کی سنگین دشمنی کے بارے ذکر کیا اور انگریزوں کے ظلم و ستم کو بنیاد بنا کر انگریزی زبان کے خلاف جہاد میں ساتھ دینے کا وعدہ لے کر خوشی خوشی گھر واپس آ گیا
چنانچہ ”دیسی مرغا“ انگریزی مضمون کے خلاف جنگ میں توپ کا گولہ ثابت ھوا،استادِ محترم بھی ایک سرآٸیکی کہاوت٠٠٠
٠٠٠منہ کھاوے
تے اکھ شرماوے
کی عملی تصویر بنے ہوٸے تھے،اکثر حکمإ حضرات فرماتے ھیں کہ براٸیلر مرغی کے مقابلے میں دیسی مرغی میں بڑی طاقت ہوتی ھے،حکمإ کی اس بات پر میں نے کان پکڑے، کہ واقعی دیسی مرغے میں بڑی طاقت ہوتی ھے،کیونکہ رزلٹ والے دن میں نے اس کی طاقت کا عملی مظاہرہ دیکھ لیا تھا،
چنانچہ دھاندلی شدہ طریقے سے پاس ہو کر
٠٠٠٠٠٠٠ہار گئی انگلش٠٠٠جیت گیا نزرانہ“  کا کمرشل دماغ میں چلاتے ہوۓ، فاتحانہ انداز میں گھر کو روانہ ھو گیا،
دیہات میں جاکر امی ابو  کو اس سالانہ  آگ کے دریا کو پار کرنے کی داستاں اس انداز میں گوش گزار کراٸی کہ ابو جان عش عش کراُٹھے اور ہفتہ وار بجٹ بڑھانے پر غور فرمانے لگے
اگلے دن ابو گندم کے بھڑولے میں چھپی  مٹی کی لوٹی سے مبلخ 200روپے نکال لاۓ اور مجھے عطا فرما دیے تاکہ نٸ کتب اورکاپیاں وغیرہ لے لوں ،بنا مانگے اتنی بڑی رقم نے مجھے فوراً اوچشریف آنے پر مجبور کر دیا،کیونکہ ویڈیو گیم پر چوتھی سٹیج پار نہیں ھو رھی تھی،کیونکہ تیسری سٹیج تک ہی سِکے ختم ہو جاتے تھے اور اب نئےسِکے لے کر ہر صورت وہ سٹیج پار کرنا چاہتا تھا ،لہذا فوراً اوچ شھر کو رخت ِ سفر باندھ لیا
اب نیا تعلیمی سال شروع ھو چکا تھا،اب کی بار  انگریزی نے اپنی جارھانہ جنگی چال چلتے ہوۓ ایک ٹرمپ طبعیت استاد محبوب لاڑ صاحب کو ہماری سرکوبی کے لیے تعینات کر دیا،چنانچہ ”مار، ٠٠٠٠٠نہیں پیار“ کے مصداق موصوف  وہ مرمت فرماتے کہ ہماری تشریفیں ساری رات اپنی بد نصیبی پر نوحہ کناں رہتیں،
چار ماہ گزر گۓ مگر  محبوب صاحب کے مظالم میں کوٸی کمی نہ آ سکی، حالانکہ ہم وقتًافوقتاً استادِ محترم کو چاول چھولوں،ساگ،لسی،دیسی گھی وغیرہ کی پیشکش کرتے رھے مگر انہوں نے ہمیں انگریزی کے معاملے” نو کمپروماٸز“ کا مژدہ سنا کر ہماری تمام امیدوں پر پانی پھیر دیا،
چنانچہ ہم نے انڈین فلموں کو چھوڑ کر انگلش فلمیں بھی دیکھنا شروع کردیں کہ شاٸد کچھ انگریزی زبان سمجھ آ جاۓ مگر بے سود ،صبح کو حسب سابق روزانہ ”تھکے کھوتے“ جتنا مار کھاتے یا براستہ واش روم سکول کی دیوار پھلانگ کر ملحکہ سرکاری ہسپتال کے گراٶنڈ میں بیٹھ کر ہمہ تن گوش رہتے کہ کب انگلش کا پیریڈ گزرے اور ہم بشیرے ڈاکو کی طرح کلاس میں انٹری ماریں
وہ کہتے ھیں نا کہ خربوزہ خربوزے کو دیکھ کر رنگ پکڑتا ھے اسی طرح انگریزی کے ٹیچر کی دیکھا دیکھی سبھی اساتذہ نے اپنے اپنے سٹاٸل میں بزریعہ مولا بخش  اپنا مافی الضمیر پیش کرنا شروع کر دیا،
ایک دن انگلش اور ریاضی کے اساتزہ نے بندہ نا چیز کا جسمانی مساج کچھ زیادہ فرما دیا چنانچہ دوسرے دن تک بھی اُس کے اثرات زاٸل نہ ھو سکےلہذا طبعیت نے ہفتہ بھر بیڈ ریسٹ کی استدعا کر دی جو میں نے کھلے دل سے قبول کر لی
چنانچہ اگلے دن صبح ناشتہ کر کے کتابیں اور تختی بغل میں دباۓ دھوڑ کوٹ میں سکونت پزیر اپنی خالہ کے گھر ہجرت کرنے کا ارادہ فرما لیا
کھڑتل ٹاٸپ بس پر بیٹھ کر ایک گھنٹے کی مسافت کے بعد خالہ حضور کے گھر کے نزدیک پہنچ گیا ،تختی اور کتابیں راستے میں واقع کپاس کی فصل میں رکھی،اور خالی ھاتھ خالہ کے گھر پہنچ گیا ،کیونکہ بستے کی موجودگی میں ہزار غیر ضروری سوالات کی بوچھاڑ ہو سکتی تھی،
خالہ نے رسمی سلام دعا کے بعد سکول کے بارے پوچھا تو پُر اعتماد  لہجے میں ہیڈ ماسٹر کی اماں جان کو راہی ملک عدم کرنا پڑا، یوں سکول سے چھٹی کر دی گٸ،ان پڑھ خالہ مطمٸن ھو کر کام کو لگ گٸ اور یوں شام تک کوٸ سوال جواب نہ ھوا
چنانچہ جبرِ مسلسل  کا سلسلہ روکنے کیلیے ضروری تھا کہ ایک رات کا قیام فرما کر خالہ کو خدمت کا موقع دیا جاتا،لہذا اپنی علم دوستی کی دھاک بٹھانے کیلیے خالہ کو کہہ دیا کہ کل صبح جلدی اُٹھانا میں نے بس کی پہلی فلاٸٹ سے سکول نکل جانا ھے، رات کو اگلے دن کے لاٸحہ عمل کے بارے سوچتے سوچتے آنکھ لگ گٸ
صبح کو پانچ بجے خالہ نے جھنجھوڑ کر اٹھا دیا، آنکھیں مکولتے اور جماٸیاں لیتے میں نلکے کی طرف جا کر چار پانچ تھپیڑے پانی کے لگاۓ واپسی پر ایک پیالہ چآئے اور پُراٹھا دستیاب تھا،ناشتے کے بعد خالہ نے اوچشریف کے لیے ایسے روانہ کیا جیسے پُرانی بس کو دھکا لگا کر روانہ کیا جاتا ھے،
چنانچہ بادلِ نخواستہ وہاں سے روانہ ھو گیا دو ایکڑ دور آ کر وھاں رک گیا جہاں کتابیں اور تختی فصل میں  رکھی  تھی،
جناب والا وہاں پر تو ایک خوفناک منظر مجھے دعوت نظارہ دے رھا تھا
،رات کو کسی علم دشمن کسان نے اُسی کھیت کو پانی لگا دیاتھا  جہاں پر تدریسی معاونت کا علمی خزانہ دفن تھا،تو جناب والا تختی تو تیر کر ساحل پر آ لگی تھی،اور ایکڑ کے کونے میں میرا انتظار کر رھی تھی مگر کاپیاں و کتب  کٸ گیلن پانی نوش فرما کر  پھول کر کپا ھوچُکی تھیں
المختصر ٠٠٠کتابوں کو ان کے حال پر چھوڑ کر تختی کو گردن سے دبوچا اور اوچشریف روانہ ھو گیا،دو بسیں تو میں نے جان بوجھ کر چھوڑ دیں کیونکہ میں نے عدالت میں پیشی پر تو نہیں جانا تھا،لہذا تیسری بس میں سوار ھو گیا جس نے دس بجے مدینتہ اولیإ میں پہنچادیا
دو بجے سکول کو چھٹی ھوتی تھی لہذا وقت سے پہلے نانی اماں کے گھر جانا خطرے سے خالی نہ تھا ،رات کی غیر حاضری کا تو معقول بہانہ موجود تھا کہ“”بستی چلا گیا تھا “مگر سکول سے پہلے جانا کٸی سوالات کو جنم دے سکتا تھا چنانچہ چار گھنٹے کا طویل وقت کہاں گزارا جاۓ ؟اچانک شیطانی دماغ میں ایک آٸیڈیا آگیا
فوراً للو والی پُل پر روانہ ھو گیا جہاں پر منی سنیما تھے ٗتین گھنٹے کی فلم”چراغ بالی “ دیکھی اور گھر واپس آ گیا،تو جناب وہیں سے آوار گردی کا ایک نیا باب شروع ھوا اور میری سکول سے راہیں جدا ہوٸیں،
میری اس آپ بیتی میں آج کے دور اندیش اور معزّز اساتزہ کیلیے ایک سبق بھی پنہاں ھے وہ یہ کہ آج کے ہمارے شاگرد جن کو ھم اپنی پُر تشدد  طبعیت کی تسکین کے لیے یا نام نہاد دھاک بٹھانے کیلیے سزا دیتے ھیں یا پھر معمولی تحاٸف ”مٹہائی“ کے نام پر وصول کرتے ھیں ،کل کو میری طرح وہ بھی فیس بُکی دانشور بن گئے  تو شاٸد میری طرح استاد کا نام فرضی استعمال نہ کریں بلکہ سیدھی طرح کہہ دیں ،کہ فلاں استاد نے مجھ سے ”دیسی مرغی“ لی تھی تو پھر آپ کا  کیا بنے گا کالیا؟ ،کہیں ہم ان چھوٹی چھوٹی چیزوں کے بدلے اپنے اعلی ظرف کا سودا تو نہیں کر رھے؟یا ھماری بے جا سختی کسی طالب علم کو سکول سے محروم تو نہیں کر رہی؟
میرا پیغام ٠٠٠مار،٠٠٠٠٠ نہیں پیار٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠کی بجاۓ٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠ مار نہیں،  صرف پیار٠٠٠ھے
خدا ھم سب کا حامی و ناصر ھو
اللہ نگہبان
دعا گو ملک محمداسلم ھمشیرا
گورنمنٹE Sککس اُوچ شریف ویسٹ
03093774465

Comments