Kashmakash by Sheraz



کشمکش از شیراز

آج شام پھر اس سے بحث ہوئی اور وہ ہمیشہ کی طرح یک لخت چلی گئ، نہ کچھ کہا نہ کچھ سنا یہ اسکی عادت میں شامل تھا کہ وہ ناراض ہوتی تو یوں ہی چلی جایا کرتی۔ میں بھی آج ارادہ کرچکا تھا کہ کچھ بھی ہوجاے میں اسے نہیں مناؤنگا۔ عشاء کی نماز سے فارغ ہو کر میں غصہ میں سو گیا۔ رات قریب 1 بجے نیند سے بیدار ہوا معمول مطابق فون تکیہ کے نیچے سے نکالا اور نیم بند آنکھوں سے موبائل اسکرین دیکھنے لگا اچانک میری آنکھیں کھل گئیں ،حواس گم ، چہرے کا رنگ زرد پڑ گیا اسکا میسیج آیا تھا "معافی نامہ" عنوان کے تحت 15 جملوں کا جس میں معافی مانگی گئی تھی اور آخر میں لکھا تھا "آپ نے میری آخری خواہش پوری کردی تھی میں نے آپکوآخری دفعہ جی بھر کر دیکھ لیا" ۔
     میرا دل زوروں سے دھڑکنے لگا میں بھلے ہی اس سے کتنا بھی ناراض ہو جاؤں پر اسے نظر انداز نہیں کر سکتا وہ یہ بات اچھے سے جانتی تھی میں اسے نا تو کال لگا رہا تھا نا ہی میسیج پہنچا رہا تھا میں غصہ، محبت، بے بسی اور افسوس کی ملی جلی کیفیت سے دو چار تھا ۔ نومبر کے مہینہ کی رات میں بھی میرا چہرہ پسینہ سے تر تھا۔ میں بسی کے عالم میں کبھی بالوں کو نوچتا ، کبھی چیخنے کی کوشش کرتا ، کبھی چاند کو دیکھتا ، کبھی بے جان مردہ بن کر بیڈ پر گر پڑتا۔ کبھی خود کو کوستا کبھی قسمت کو کبھی خیال آتا کہ کہیں بس ایسا نہ ہو کہ اسنے ایک نارمل میسیج فارورڈ کردیا ہو ،پر پھر گمان آتا کہ کہیں ایسا نہ ہوجائے کہ میں اسے نظر انداز کر کے سوجاوں اور وہ آسمان سے مجھے بے وفا سمجھنے لگے ۔ کافی دیر اسی خیال و گماں کی صورت بنا رہا پھر گھڑی پہ جو نظر پڑی تو کیا دیکھتا ہوں کہ 5 بج چکے ہیں اب میرے خیالی گھوڑے اور تیزی سے دوڑنے لگے بے بسی کی کیفیت سر پہ سوار تھی پھر خیال آیا پوری رات بس خیالوں میں گنوادی کیوں نا آخری کوشش جو میں کر سکتا ہوں کر لوں ۔ میں نے وضو کیا دو رکعت نماز پڑھ کر کافی دیر دعا مانگتا رہا یہاں تک کہ فجر کی اذان ہونے لگی، آج مسجد میں سب سے پہلے پہنچ گیا تھا نماز سے فارغ ہو کر بھاگم بھاگ کالج کے لئے روانہ ہوا، 11 بجے کی کالج میں ،میں آج 8 بجے ہی پہنچ گیا تھا۔
                  مجھے قرار نہیں تھا، وسوسوں نے مجھے گھیرا ہوا تھا لائبریری سے کینٹین تک میری قدم تال جاری تھی اب اسے دیکھنے کے لئے میں بے قرار تھا خدا خدا کر کے 10:30 بجے وہ اکثر کالج جلد آجایا کرتی تھی پر آج 10:55 پر بھی نظر نہ آئی ۔ میں اپنا ضبط کھو رہا تھا میں واشروم کی طرف جانے کے لئے جیسے ہی مڑا میری سانسیں اٹک گئیں، آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئی میرے سامنے وہ زینے چڑھ رہی تھی حسین ، بے تحاشہ حسین لگ رہی تھی ، میں نے اپنا رستہ بدل لیا، دوسری جانب سے واشروم گیا ہاتھ منہ دھو کر سکون کی سانس لی، پھر سوچنے لگا یہ کیا تھا ؟، کیا میری دعا قبول ہوئی؟ کیا وہ صرف نام کو معافی نامہ تھا؟؟ ، کیا وہ مجھے آزما رہی تھی؟ اس طرح کے بے شمار سوالات سے میرا سر بھر گیا پھر ایک سوال نے یکایک آمد کی "کیا اسے میری بےچین رات کا اندازہ ہوگا؟؟؟؟؟" ایک لمبا سانس کھینچا اور رات بھر کی کرتوت مجھے بے معنی سی لگنے لگی۔
از قلم شیراز

Comments