حرمت رسالت اور ہمارا رویہ
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس کا ظہور مسلمانوں
کے لئے بلاشبہ دنیا و آخرت کا سب سے بڑا تحفہ ہے کیونکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم
دنیا اور آخرت دونوں کے سردار ہیں اس لحاظ سے امت مسلمہ کا درجہ بھی دوسری امتوں سے
ممتاز اور بلند ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بلاشبہ رحمت العالمین اور صبر اور
شکر کا پیکر تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی رحمت، نرم رویے اور بلند اخلاق سے
لوگوں کے دل جیتے اور بہت سے لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن اخلاق کی وجہ سے دائرہ
اسلام میں داخل ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی خوبیوں کا مجموعہ تھی۔ دوسروں
کے دکھ دکھ بانٹنے والے اور دوسرے کی خوشی
اور غمی کو اپنا سمجھنے کا درس دینے والے بھی آقا گرامی تھے۔ آگے امتی ہونے کے ناطے
ہمارا بھی فرض بنتا ہے کہ آقا کی ان خوبیوں کو اپنائیں اور ان جیسا حسن اخلاق اپنا
کر دنیا کو اپنے اندر جذب کر لیں۔
آج کل آسیہ مسیح کا گستاخی رسول کا کیس زبان زد عام ہے۔
ہر طرف اسی کیس کا ہی چرچا ہے۔ سپریم کورٹ نے آسیہ مسیح کو شبہات کا فائدہ دے کر بری
کر دیا۔ کیونکہ ہم سب کی توقع اور تھی اور فیصلہ ہماری توقع کے برعکس آیا تو اس کے
ساتھ ہی پورے ملک میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی اور عاشقان رسول صلی اللہ علیہ وسلم
نے ملک گیر احتجاج شروع کردیا۔ ہر طرف ہڑتال کی کال ہوگئی۔ تعلیمی ادارے بند ہوگئے
اور کئی جگہ پولیس اور مظاہرین کی جھڑپیں ہوئیں اور ان میں بہت سے لوگ زخمی ہوئے اور
کچھ شہادت کا تاج اپنے سر پر سجا گے۔
یہ سب کچھ ہوا ہے اور یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ماضی میں
بھی مسلمانوں کے جذبات کے ساتھ کئی بار اسی طرح کا کھلواڑ ہوا ہے۔ کئی لوگوں نے حضور
صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں گستاخی کی اور وہ کسی نہ کسی علم الدین، ممتاز
قادری، حاجی مانک اور عامر چیمہ جیسے غازیوں کے ہاتھوں واصل جہنم ہوئے اور ان عاشقان
رسول نے شہادتوں کا تاج اپنے سر پر سجایا۔ جی ہاں وہی لوہار کا بیٹا علم الدین کہ جس
کے بارے میں جب لوگ علامہ اقبال صاحب کے پاس سفارش لے کر گئے تو انہوں نے کہا،
اسیں گلاں کر دے رہ گے تے ترکھاناں دا پتر بازی لے گیا۔
حضور کی ناموس کی حفاظت کے دوران جو شہادت کے مرتبے پر فائز
ہو اس کا تو مزہ ہی الگ ہے اور ہم میں سے ہر ایک یہ مرتبہ اور اعزاز حاصل کرنا چاہتا
ہے ہر مسلمان کی یہ خواہش ہے کہ وہ حضور کی آن پر مر مٹے۔
1950
کی دہائی میں بھی ہے اسی طرح عاشقان کے جذبات سے کھلواڑ
ہوا اور اس میں بھی بہت سارے لوگ ملٹری کورٹ کے ہاتھوں سزا پائے اور کچھ مظاہروں میں
جام شہادت نوش کر گئے۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور عشق مسلمانوں
کی گھٹی میں پڑا ہوا ہے اور حضور سلم کی عزت کی بات آئے تو ہم جان نچھاور کرنا فخر
محسوس کرتے ہیں۔
مگر
یہاں پر ایک بات مجھ ناچیز کے ذہن میں آتی ہے کہ جب میں
مظاہروں کو دیکھتا ہوں تو سوچتا ہوں کہ کیا واقعی ہم عاشق رسول ہیں اور عشق کے اظہار
کا یہ انداز سب سے صحیح ہے۔ یہ مظاہرے ہم عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں کر رہے ہیں
یا پھر جانے انجانے میں کسی مذہبی یا سیاسی لوگوں کے مفادات کو پورا کر رہے ہیں۔ آج
مذہبی جماعتوں کے علاوہ وہ سیاسی جماعتیں بھی عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بینرز
اٹھا کر میدان عمل میں آ گئی ہیں جنہوں نے اپنے اپنے دور حکومت میں نبی کی حرمت پر
وار کیا۔ کیا پاکستان پیپلز پارٹی کے دور میں نبی کی عزت پر ڈاکہ نہیں ڈالا گیا۔ کہ
جب نعوذباللہ گورنر پنجاب سلیمان تاثیر نے قانون محمد کو کالا قانون کہا اور اس وقت
یہی پیپلز پارٹی اور اس کے جیالے سوئے رہے اور مولانا فضل الرحمن صاحب کو بھی کوئی
مذمت یاد نہیں آئی اور نواز شریف صاحب بھی جاتی امراء کے محلوں میں آرام کرتے رہے.
یہی سب کچھ مسلم لیگ ن کے دور حکومت میں ہوا اور خاتم النبیین کی شق پر ڈاکہ ڈالا گیا
مگر اس وقت بھی یہ سب سیاستدان چپ کرکے سوئے رہے تو سوال یہ اٹھتا ہے کہ اب سب کو ایک
دم سے اسلام اور نبی کی حرمت کیسے یاد آگئی۔ نبی تو اب بھی وہی ہیں اور ان کی عزت تو
اب بھی وہی ہے اور قانون بھی وہی ہے تو اب آخر ایسا کیا ہوگیا۔ کیا سلیمان تاثیر کے
خلاف پیپلز پارٹی نے کوئی ایکشن لیا اور کیا ممتاز قادری کو پھانسی اسی میں مسلم لیگ
کے دور حکومت میں نہیں ہوئی۔؟؟
جب اس سب پر نظر دوڑائیں تو مقصد صاف نظر آتا ہے کہ اس وقت
حکومت کو دو پارٹیوں نے اپنی ذاتی جاگیر سمجھ لیا تھا اور اس اصول پر کاربند تھے کہ،
"کر
بھلا سو ہو بھلا"
اب جب عوام نے یہ جاگیر اپنے ووٹ کی طاقت سے چھین لی تو
ان سب کی اندرونی جلن اسی طرح نکل رہی ہے اور عوام کو بھڑکا کر آپس میں لڑوا کر مروا
کر ان سے بدلہ لیا جا رہا ہے۔ اور اس واقعے کو خوب ہوا دے کر اصل میں اپنے مفادات حاصل
کیے جا رہے ہیں۔
دوسری طرف ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ عقل تو ہماری عوام کی
بھی پوری سوری ہے۔ ان کے ہاتھ میں ڈنڈا دیکھ کر ایک نعرہ لگا کر جس طرف دل کرے موڑ
دیا جاتا ہے اور یہ اس کو ثواب سمجھ کر اس رستے پر چل پڑتے ہیں۔ ہر مسئلے کا حل طاقت
نہیں ہوتی کیونکہ کچھ مسائل بہت فہم و فراست سے حل کرنے پڑتے ہیں۔
ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت اور حرمت پر حملہ
ہوا ہے جو کہ ہمیں کسی بھی صورت میں قابل قبول نہیں ہے اور ہم اس مسئلے کا حل چاہتے
ہیں کہ ہمیں واقع ہی میں انصاف فراہم کیا جائے اور مجرمہ کو قرار واقع ہی جرم کے مطابق
سزا دی جائے۔
مگر سوال یہ ہے کہ اس طرح ڈنڈے اٹھا کر اور جلاؤ گھیراؤ
کر کے ہم انصاف لے رہے ہیں۔؟؟ کیا اس طرح انصاف مل جائے گا۔؟؟
کیا اس طرح مسئلہ حل ہوجائے گا۔؟؟
یہ مسئلہ ہمارے محلے میں لگے ٹرانسفارمر کے جلنے کا نہیں
ہے کہ روڈ بلاک کر لیں اور حل نکال دیا کیونکہ یہ باعزت حل نہیں ہوتا۔ یہ مسئلہ تو
محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی حرمت کا ہے کہ جس کو حل کرنے کے لئے وہ کوشش کی جائے
جو کہ نبی کی عزت کے شایان شان ہو۔
اس احتجاج میں درجنوں کے حساب سے لوگوں کے موٹرسائیکل چھین
کر جلا دیے گئے۔ کیا وہ سب لوگ عاشق رسول نہیں تھے۔؟ جن بے قصور لوگوں کو سڑکوں پر
گھسیٹ کر مارا گیا کیا وہ اسی نبی کا کلمہ پڑھنے والے نہیں تھے۔؟؟؟ جن گاڑیوں کے شیشے
توڑے گئےاور جن املاک کو نقصان پہنچایا گیا کیا ان کے مالکان نبی کریم صلی اللہ علیہ
وسلم کے امتی نہیں تھے۔؟؟ کیا نبی کی تعلیمات ہمیں یہ درس دیتی ہیں یا نبی کی تعلیمات
اس کے برعکس ہیں۔؟؟ اس فیصلے پر جتنا سب کا دل دکھا اتنا میرا بھی دکھا مگر یہ دیکھ
کر جذبات اور مجروح ہوئے کہ بحیثیت امت اور بحیثیت قوم اس مشکل وقت میں ہمارا ردعمل
کیا ہے۔
احتجاج ہمارا بنیادی حق ہے اور ہم ہر سطح پر اپنی آواز بلند
کریں گے مگر اس کا یہ طریقہ اختیار کرنا، لوگوں کو مارنا پیٹنا اور املاک کو نقصان
پہنچانا سراسر غلط ہے۔
ایک سوال میرا احتجاج کرنے والوں سے بھی ہے کہ کیا آپ واقعی
عشق رسول ہیں۔؟؟ جب دوکانوں پر بیٹھ کر کم تولتے ہیں، اچھا بتا کر گھٹیا مال بیچتے
ہیں، سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم منہ سے اتار کر نالیوں میں بہاتے ہیں، پیٹھ پیچھے
غیبت کرتے ہیں، ناجائز منافع خوری کرتے ہیں، رشوت دیتے اور لیتے ہیں، دل میں کینہ اور
بغض رکھتے ہیں اس وقت ہماری عاشقی کہاں جاتی ہے اور ہم میں سے 95٪ لوگ یہ سب کرتے ہیں۔
اس احتجاج میں نماز کتنوں نے پڑھی ہے بس صرف اسی بات کا جواب دے دیں۔ خدارا پہلے خود
کو عاشق کہلوانے کے لائق تو بنائیں۔ جب بندہ کسی کا عشق بنتا ہے تو کوشش کرتا ہے کہ
محبوب کا پسندیدہ بن جائے مگر ہم تو کوئی کام نبی کی پسندیدگی کا کرتے ہی نہیں الٹا
ہمارا ہر کام حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے خلاف ہوتا ہے۔ عاشقی صرف ڈنڈے
اٹھا کر مارنے اور جلاؤ گھیراؤ کرنے کا نام نہیں ہے۔
خدارا ضرور سوچیں کہ ہم کس نہج پر چل رہے ہیں۔ جانے انجانے
میں کہیں ہم کسی کے اشاروں پر ناچ کر اس کے مفادات پورے تو نہیں کر رہے۔ احتجاج کریں۔
ضرور کریں اور بہت زیادہ کریں کیونکہ ہم نے نبی کی ناموس کا پہرا دینا ہے۔ مگر وہ احتجاج
کسی طریقے سے ہو تاکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حرمت کی حفاظت کرتے ہوئے کہیں ہم ان
کی امت کی دل آزاری کا سبب نہ بن جائیں کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اس امت سے
بہت پیار تھا اور سوچیں کہ کہیں ہم جانے انجانے میں نبی کی دل آزاری کا سبب تو نہیں
بن رہے۔ احتجاج ضرور کریں مگر پہلے یہ سب سوچ لیں۔
از قلم۔ محمد عمران اشرف
imranashraf444@gmail.com
whatsapp.
00966581576372
Comments
Post a Comment