"یہ
میری کہانی ہے"
از
"ردابہ نورین"
کبھی کبھی لگتا ہے جیسے آہستہ آہستہ سب ختم ہو رہا ہے..
سکون، احساسات، رشتے، جذبات...اور جو بچا ہے وہ بھی جلد یا بادیر ختم ہو ہی جائے
گا پھر میں کہاں جاؤں گی.. شاید میں بھی ختم ہو جاؤں... شاید میں بھی... میں ردا
سید گھرانے میں پیدا ہونے والی عام لڑکی.. جو بہت اچھی دلیلیں نہیں دے سکتی تھی،
جو بڑی بڑی باتیں نہیں کر سکتی تھی، لیکن بد قسمتی سے محبت کرنا آگئی. محبت جو سب
کو نصیب نہیں ہوتی. میں بھی دوسری بہت سی
عام لڑکیوں کی طرح جینے کے خواب دیکھنے
لگی تھی. لیکن میں بھول گئی تھی میرا تعلوق ایک ایسے خاندان سے جہاں لڑکیاں سیدوں
کے علاوہ نہیں دی جاتیں پر گھر کی چار دیواری میں کسی سید زادے کے انتظار میں
بوڑھی کر دی جاتی ہیں. کنوارہ بیٹھا کے رکھنا عزت کی بات سمجھی جاتی ہے. جہاں
زندگی تو بخشی جاتی ہے پر خاندانی روایت کا پھندا گلے میں ڈال کے ہر لمحے مرنے کے
لئے چھوڑ دیا جاتا ہے.. یہ میری کہانی ہے
ایک سید زادی کی یا شاید ہر سید زادی کی...
...............................................
ہم
لوگ سید ہیں جبکہ جس لڑکے کو میں پسند کرتی ہوں وہ کسی دوسری ذات کا ہے. ایسا نہیں
ہے کے میں کوئی عزم کر رکھا تھا کہ سیدوں میں شادی نہیں کرنی. ایک وقت تھا جب میں
بھی اس فخر میں مبتلا تھی. پھر میرے آس پاسس کے حالات واقعیت نے میری سوچ کا زاویہ
بدلہ... اور جب سوچ کا دائرہ وصعی ہوا تو دل میں بسی خواہشیں بھی جاگنے لگیں اور
تبھی مجھے وہ ملا. وہ ہر لہٰذ سے ایک اچھا انسان ہے پر سید نہیں ہے. وہ بلے شاہ نے
کیا کمال کہا ہے نہ " نیند نہ ویکھے بسترا ، تے بھگ نہ ویکھے ماس... موت نہ
ویکھے عمر نوں، تے عشق نہ ویکھے ذات... لیکن یہ بات سب کو کہاں سمجھ انے والی ہے.
ہر سید فیملی کی طرح میرے خاندان نے بھی مخالفت کی، کیا کسی کی محبت کو صرف اس لئے
ٹھکرا دیا جائے کہ وہ سید نہیں ہے.. پتا نہیں ماں باپ کو یہ غلط فہمی کیوں ہوتی ہے
کہ ان سے زیادہ اپنی اولاد کے لئے صحیح فیصلہ کوئی کر ہی نہیں سکتا. وہ ماں جو
بچپن میں آپ کو اچھے بڑے کی تمیز کرنا شکتے ہیں، زندگی کے اوتار چڑھاؤ میں آگے
بڑھانا سیکھتے ہیں، وہ ماں باپ جو آپ کو مشکل حالات میں فیصلے کرنے کی اجازت دیتے
ہیں.. وہی ماں باپ زندگی کے سب سے اہم معملے میں آپ کی راے نہیں لیتے، پھر بیشک ان
کے فیصلوں سے ان کی اپنی اولاد خون کے آنسو ہی کیوں نہ روے، لیکن بس یہی احساس
کافی ہے کہ اولاد فرماںبردار ہے. ساری زندگی بیٹیوں کے سکون کا خیال رکھنے والے
ماں باپ شادی کے وقت ہی اپنی بیٹی کا سکون کیوں بھول جاتے ہے... کیوں بھول جاتے
ہیں کے غیر سید کے ساتھ زندگی گزرنا آسان ہے لیکن ان چاہے انسان کے ساتھ زندگی
گزرنا آسان نہیں ہے.. میں نے دیکھیں ہیں ایسی بہت سی لڑکیاں جو زندہ لاش بن کے رہ
جاتی ہیں. جو بات بے بات ہنستیں ہیں لیکن ان کے ہر قہقہے کے پیچھے درد کی ایک
کہانی چھپی ہوتی ہے. جن کی آنکھوں سے وحشت ٹپکتی ہے. میں نے ایسی لاشیں بھی دیکھیں
ہے جو سید کا رشتہ نہ ملنے پی سری عمر کے لئے گھر میں رکھی لی جاتی ہیں جن سے
بھرتی عمر کی بو انے لگتی ہی تو پھر یہی لوگ جو پہلے سید کے انتظار میں رہتے ہیں
ان کی قسمت کو کوستے ہیں. کس کتاب میں
لکھا ہے یہ کہ سید کا رشتہ نہ ملنے پے بیٹیوں کو گھر میں رکھ کر ان کی خواہشوں کو
دفن کر کے بوڑھا کر دیا جائے ... تو کیا ہم بھول گئے ہیں آخری خطبے میں کہے گئے
اپنے نبی محمدﷺ کے الفاظ کو کہ " ہم
سب آدم اور ہواعلیھ السلام کی اولاد ہیں، کسی عربی کو عجمی اور عجمی کو عربی، کسی
کالے کوگورے اور گورے کو کالے پر کوئی برتری حاصل نہیں.. برتری اگر ہے تو صرف
تقویٰ کو...
سنا ہے عرب اپنی بیٹیوں کو مار دیتے تھے. اب لگتا ہے
سہی کرتے تھے."وہ لوگ منافق نہیں تھے دفنا دیتے تھے". اب لوگ منافقت
کرتے ہیں اور بس دفناتے نہیں ہیں لیکن جینے کا حق بھی نہیں دیتے.
..........................................................................
پچھلے دس سال سے میں اپنے حقوق کی جنگ لڑ رہی ہوں
اکیلے. یہ بات تو مجھے معلوم ہے کے جب خود اپنی اہمیت کے لئے لڑنا پڑے تو سمجھ لیں
آپ کوئی اہمیت نہیں ہے لیکن یہاں بات صرف ایک ردا کی نہیں ہے مجھے اپنے آس پاس
اپنی جیسی ہزروں ردا نظر آتی ہیں جو کسی سید کے انتظار میں اپنی زندگی کا خوبصورت
حصہ گوا رہی ہیں. لیکن اب ہمت جواب دینے لگی ہے. آپ دنیا فاتح کر سکتے ہیں اگر آپ
کو پتا ہوکے آپ کو سپورٹ کر نے کے لئے آپ کے اپنے مجود ہیں ورنہ ریت کی طرح ڈھنے
لگتے ہیں میرے ساتھ بھی ایسا ہی ہے. کبھی تو لگتا ہیں جیسے پتھروں کے بیچ چلتی
پھرتی انسان ہوں میں جس سے کسی کو کوئی غرض نہیں. ہر ایک پتھر پے سر مار کے دیکھ
لیا لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا. ہم کتنا بھی لڑ لیں کتنی بھی بحث کر لیں، دین کے
کتنے ہی حوالے کیوں نہ دے لیں کچھ حقوق ہم سید زادیوں کو دے ہی نہیں جاتے اور اگر
کبھی مل بھی جایئں تو بھیگ میں دیے گئی روٹی کے اس سکھے ٹکرے کی طرح ہوتے ہیں جو نہ آپ نگل سکتے ہو نہ پھینک سکتے ہو...
مجھے کچھ مہینوں پہلے زندگی بخش دی گئی ہے میری مرضی سے
میری شادی کے لئے ہاں کر کے. بلکل ویسے ہی جیسے کس پھانسی لگے جانے والے قیدی کی
آخری خواہش پوری کی جاتی ہے.
................................................................
شروع
میں تو کوئی بھی نہ مانا.. بہت سی دلیلیں دے کے بھی کوئی فائدہ نہں ہوتا... سب
سمجتے ہیں آپ کو خاندان کی عزت اور آن بان کا لہٰذ نہیں رہا دنیا کے سامنے خاندان
کی عزت اچھل دی ہے آپ نے.. ان کا اعتبار توڑا ہے.. آپ جتنا بھی سمجھالو لیکن کوئی راستہ نہیں..
بلکے آپ ک خلاف محاذ اور مضبوط ہوتا جاتا رہتا ہے..
لیکن میں بھی ڈٹ گئی. یہ بھول کر کے میں ایک سید زادی
ہوں، اوریہ بھی کہ بیٹیاں اپنے حق کے لئے لڑیں تو انھیں گالیوں سے نوازا جاتا ہے..
کبھی کبھی ہاتھ اٹھایا جاتا ہے یہ کہاں کا انصاف ہوا... بیٹوں کو تو کوئی کچھ نہیں
کہتا... وہ بیٹے ہوتے ہیں جنھیں پوری عزت و احترام کے ساتھ جینے کا حق دیا جاتا
ہے.. بیٹیوں کا کوئی حق نہیں ہوتا تو پھر مانگنے کا سوال کیسا...؟؟ میں یہ کیسے
بھول گئی کے میں ایک سید گھرانے کی بیٹی ہوں.. میں کیسے بھول گئی کہ وہ بیٹیاں ہی
ہوتی ہیں جنھیں ساری عمر نصیحتیں اور ہدایت دی جاتی ہے... وہ بیٹیاں ہوتی ہیں
جنھیں خاندان کے نام و روایت کا پاس رکھنا ہوتا ہے اور زندگی جینا تو صرف بیٹوں کا
حق ہے... ہم دنیا میں اتنا مصروف ہیں کے الله اور اس کے نبی محمدﷺ احکامات بھی
بھول گئے ہیں " عورتوں کے معملے میں الله سے ڈرو".
..........................................
آہستہ آہستہ سب رضامند ہونے لگے ہیں.. وقت گزارتا جا
رہا تھا عمر کی ڈور بھی چھوٹتی جا رہی ہے ظاہر ہے وقت کب روکا ہے کسی کے لئے...
اور پھر وہ دن بھی آیا جب سب کی رضامندی سے شادی کی بات تہہ ہوئی شادی ٦ مہینے بعد کی یعنی آج کے دن کی
تھی. جس دن میں دلہن بنی ہوں... لیکن یہ ٦ مہینے بڑے مشکل تھے میں نے ایک غلطی کی
تھی ایک غیر سید سے محبت اور شادی کی خواھش، پچھلے ٦ مہینوں میں صرف اس کی سزا کو
بھگتا تھا.... ہر چیز ہی تو میری مرضی کے خلاف ہوئی ہے . میں نے جب بھی کچھ کہنے کی
کوشش کی تو بڑے آرام سے یہ کہہ کر چپ کرا دیا جاتا کہ "کر دی نہ تمہاری مرضی
بس اب چپ رہو"... وقت گزرتا گیا...
بات اتنی بڑی نہ تھی لیکن پھر بھی ہر لڑکی کے اپنے بھی
کچھ ارمان ہوتے ہیں ایسے ہی کچھ ارمان میرے بھی تھے اپنی شادی کو لے کر پر سارے
ارمان اب پورے ہونے والے نہیں تھے... کیوں کے میں بھی پھانسی کی مجرم ہوں میری
آخری خواہش کا پھندا میرے گلے میں ڈال دیا گیا ہے اور میرے پیروں کے نیچے سے ہر
رشتے کی بنیاد کھنچ لی گئی ہے.
پھر ہر جگہ ارمان کچلے گئے مرحلہ شاپنگ کا تھا یا پھر
رسموں کہ تہہ ہونے کا... ہر لمحے اپنی حصیت کم ہوتی محسوس ہوتی گئی. کتنی بار
اکیلے میں پھوٹ پھوٹ کے روی تھی وہ... پر کسی کو احساس ہی کہاں تھا... پر کہتی بھی
تو کیا اور کس سے ؟؟ آخر کو میں ایک نافرمان اولاد تھی گھر والوں سے زبردستی کر کے
شادی کرائی تھی... نافرمان اولاد... ساری زندگی ماں باپ کی مرضی سے گرزار کر صرف
ایک بات اپنی من والو... تو آپ نہ فرمان ہو گئے جہنمی ہو گئے...
اولاد اپنے دل کی بات کرنا چاہے تو وہ نہ فرمان ہے.. دل
دکھا رہی ہے... تو پھر وہ اپنے دل کی بات کس سے کرے کس کو سناے اپنے دل کا حال جن
ماں باپ نے پیدا کیا جب وہ نہ سنا چاہیں تو اور کون ہے دنیا میں میں جو ان کے درد
کو سمجھے... کیا بیٹیوں کو تعلیم دلانا ان کے کھانے پینے اور پہنے اوڑھنے کا خیال
رکھنا صرف یہی ماں باپ کا فرض ہے تو پھر حقوق ؟؟ ان حقوق کا کیا جو الله نے ایک
بیٹی کے اپنے ماں باپ کی طرف رکھے ہیں..
تو جب ماں باپ اپنی اولاد میں فرق کرتے ہیں تو کیا ؟؟؟
جب ماں باپ ہی اپنی اولاد کا دل دکھاتے ہیں تو کیا ؟؟؟
ایسے کتنے سوال دل میں اٹھ رہے ہیں میرے... یہاں اسٹیج
پے بیٹھے جہاں دنیا بھر کی نظریں تھیں..اگر نہیں تھیں تو میرے ماں باپ اور رشتے
داروں کی.. بیٹیاں بری حساس ہوتی ہیں وہ اپنی اذیت دنیا کو چیخ چیخ کے نہیں بتاتیں
بلکے انھیں سینے میں دفن کر لیتی ہیں... بےآواز روتے روتے کب مر جاتیں ہیں کسی کو
خبر نہیں ہوتی. ایسا لگ رہا ہے میں اکیلی ہوں جس کا کوئی رشتہ نہیں تھا نہ ماں باپ
کا... نہ بھائی کا... اور نہ کوئی اور.... ایسا لگ رہا ہے میں لاوارث ہوں... موت
زندگی کا سب سے بڑا نقصان نہیں ہے. زندگی کا سب سے بڑا نقصان آپ کے رشتوں کا آپ کے
اندر مر جانا ہے. کیا صرف زندگی جینے کا حق مانگ اتنا مشکل ہے... کیا میں انسان
میں شامل نہیں ہوتی... کیا غیر سید سے شادی کر کے میں اتنی حقیر ہو جاؤں گی کے ہر
رشتہ مجھ سے چین لیا جائے گا.. کیا غیر سید سے شادی کر کے میں اتنی کم تر ہو گیں
ہوں کے میرا باپ میرے سر پے ہاتھ نہیں رکھئے گا...
کیا صرف اس لئے کے میں سید گھرانے میں پیدا ہونے والی
بیٹی ہوں ؟؟؟
کاش الله بیٹیاں نہ بناے... یا پھر ان کے دل نہ بناے...
یا پھر دور جاہلیت کی طرح لوگ ابھی انھیں دفن کر دیا
کریں...
میں ردا... ایک سید گھر میں پیدا ہونے والی سید زادی..
اور یہ میری کہانی ہے... نہیں مجھ جیسی بہت سی سید
زادیوں کی یہی کہانی ہے...
*********************
The End
Comments
Post a Comment