"تنہائی"
از:" لاریب ملک"
تنہائی میری ساتھی ھے.... مجھے جینا سکھاتی ھے....
اندھیرے مجھ سے لے کر یہ......
روشنی عطا کرتی ھے.....
دکھ سارے میرے سن کر.... مجھے ہنسنا سکھاتی ھے... تنہائی میری ساتھی ہے..
وہ کسی سوچ میں گم تھی کہ رامش
کی آواز سن کر چونکی
"تھکتی نہیں ہو اکیلی بیٹھی رہتی ہو ؟"
یک لفظی جواب..
" نھیں "
"اتنی گم سم کیوں رہتی ہو یار
سب کے ساتھ ہنسا بولا کرو ۔"
"کیوں... ؟"
"کیونکہ ہنستی اچھی لگتی ہو "
اور عمامہ یہ سن کر چپ سی ہو گئی جب
وہ کافی دیر تک کچھ نہیں بولی تو رامش چپ چاپ وہاں سے اٹھ گیا۔
وہ
سوچ رہی تھی کہ" میں بھی کسی کو اچھی لگ سکتی ہوں کیا.؟؟؟؟
جو کپڑے بھی کسی کی اترن پہنے جسکا
کہنے کو کوئی اپنا نہ ہو جس کے سر پر اپنی چھت نہ ہو اور اور... جسکی ساتھی تنہائی ہو
یہ کیسے ہو سکتا ہے؟؟؟؟
کیا وہ مجھے جھوٹے خواب دکھانا چاہتا ہے
؟؟؟؟
اسکی سوچ درمیان میں ہی رہ گئی کہ ثنا
کی غصے بھری آواز آئی۔
" ہر وقت فارغ بیٹھی رہتی ھو کوئی
کام بھی کر لیا کرو ۔"
اور وہ سوچنے لگی کہ کام تو سارے ختم
کرکے ہی یہاں آئی تھی ۔
مامی کے گھر کا یہ پچھلا حصہ بالکل ویران
تھا اس طرف کوئی کم ہی آتا تھا مگر عمامہ کو یہاں بیٹھنا ہی اچھا لگتا تھا۔
" کس مراقبے میں چلی گئی ہو؟"
ثنا اک بار پھر چیخی تھی۔
" نہیں کچھ نہیں۔" کہتی وہ
وہاں سے اٹھ گئی تھی۔
*............... **
دودھ نکلتا دیکھ کر مامی کو تو جیسے
آگ ہی لگ گئی تھی جلدی سے چولہا بند کرکے عمامہ کو بالوں سے پکر کر جھٹکا دیا اور
اسکی خیالوں کی بہتی ندی رکی۔
" ماں باپ تیرے مگر اس عذاب کو
میرے لئے چھوڑ گئے تیرے باپ کی کمائی سے آتا ہے کیا یہ دودھ جو ایسے بہا رہی ہے۔"
اور وہ اپنے آنسو ضبط کر رہی تھی اور سوچ رہی
تھی کہ اگر میرے ماں باپ اس دنیا میں نہیں رہے تو میراا کیا قصور ہے ۔
*........ *
عمامہ جب پیدا ہوئی تو اس کی ماں اس کا ساتھ
چھوڑ گئی، ابھی ایک سال کی تھی تو باپ بھی ملک عدم سدھار گیا ، ددھیال میں کوئی
رکھنے کو تیار نہ ہوا توماموں ساتھ لے آئے مگر ناعمہ بیگم کو اسکا آنا ایک آنکھ نہ
بھایا ۔ماموں کے اپنے دو بچے تھے۔
بیٹا رامش عمامہ سے دوسال بڑا تھا اور بیٹی ثنا
ایک سال، اپنے بچوں کے ساتھ ایک اور چھوٹی بچی کی پرورش کرنا ناعمہ بیگم کو
جھنجھلاہٹ میں مبتلا کر دیتا۔ وہ اپنے بچوں کو تو بہت لاڈ پیار سے رکھتی جبکہ
عمامہ اگر ذرا بھی روتی تو اسکو مارنے سے بھی گریز نہ کرتی ۔
رامش کو وہ چھوٹی سی گلابی پری بہت
اچھی لگتی تھی ناعمہ بیگم کی پوری کوشش ہوتی کہ وہ اپنے بچوں کو اس سے دور رکھے ۔
*..... *
عمامہ دو سال کی ہوئی تو ماموں بھی
ایک روڈ ایکسڈینٹ میں مر گئے۔ مامی کو عمامہ اور بھی بری لگنے لگی۔ ماموں کی کچھ
دکانیں تھیں جنکا کرایہ آنے سے اچھی گزر بسر ہورہی تھی۔
مامی سارا دن اسکو کو ایک کمرے میں بند رکھتی
اور وہ معصوم بچی بھوک لگنے پر بھی نہ روتی اگر مامی کو خود ہی خیال آجاتا تو کھانے
کو دے دیتی۔ وہ بچپن سے ہی تنہائی کی عادی
ہو گئی تھی دن گزرتے گئے عمامہ چار سال کی ہوئی تو رامش اسے ساتھ سکول لے جانے کی
ضد کرنے لگا۔ ناعمہ بیگم کو مانتے ہی بنی جیسے تیسے پانچویں کلاس تک برداشت کرنے
کے بعد انہوں نے عمامہ کو سکول سے ہٹا لیا کہ اب مجھ اکیلی سے گھر کا کام نہیں
ہوتا اور بڑھتی مہنگائی میں اتنا خرچ نہیں
برداشت ہوتا ۔
*...... *
دن گزرتے رہے بچے جوان اور جوان بوڑھے
ہوگئے۔
عمامہ سارا دن گھر کے کام کرتی اور جو تھوڑا سا
فارغ وقت ملتا تو اپنی مخصوص جگہ پر بیٹھ جاتی وہ گھر رہ کر ثنا کے کورس کی کتابیں
پڑھتی تھی۔ رامش نے دیکھا تو اسے بہت کہا کہ پرائیویٹ ہی ایگزام دےلے مگر وہ نہیں
مانی کیوں کہ وہ جانتی تھی کہ مامی ایسا کبھی نہیں ہونے دیں گی
*........ *
دروازے پر ہونے والی دستک نے اسے
چونکایا اسکے گیٹ کھولنے پر دو اجنبی چہرے نمودار ہوئے ۔
"آپ کون؟؟؟؟ "
"ہمیں رامش سے ملنا ہے۔"
انھیں انتظار کرنے کا کہہ کر وہ رامش کو بلانے
گئی ان سے مل کر رامش بہت خوش تھا آنیہ اور روحان رامش کے کالج فرینڈ تھے اندر آتے
ہوئے رامش نے عمامہ کو کھانا تیار کرنے کو کہا تو عمامہ کو دیکھ کر روحان نے کہا۔
" یار تمہاری میڈ تو بہت خوبصورت
ہے۔"
عمامہ کے قدم سست ہوئے اسے لگا،رامش ابھی اپنے
فرینڈکو ڈانٹے گا لیکن رامش نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔
" یار میڈ نہیں کزن ہے۔"
عمامہ کی آنکھیں نم ہو گئیں۔
*...... ***
کھانا اچھے ماحول میں کھایا گیا، سب
ایک دوسرے سے ہنسی مذاق کر رہے تھے خصوصاً آنیہ اور رامش بہت چہک رہے تھے۔ ناعمہ
بیگم کو آنیہ رامش کے لیے بہت پسند آئی تھی اور روحان کو وہ ثناء کے لیے سوچ رہی
تھی مگر انھوں نے روحان کو عمامہ کی طرف دیکھتے پاکر اسکی آنکھوں میں موجود چمک
دیکھ کر کو ئی فیصلہ کرتے ہوئے عمامہ کو بہانے سے کچن میں بھیجا
........... ..
اگلی صبح عمامہ کچن میں تھی کہ روحان
نے آکر سلام کیا عمامہ گھبرا گئی۔
" آ.. آپ یہاں؟ کچھ چاہیے آپکو؟"عمامہ
نے پوچھا مگر روحان نے انکار میں گردن ہلائی تو عمامہ ڈر گئی۔
روحان نے کہا کہ "مجھے آپکا تھوڑا
سا وقت چاہیے، مجھے آپ اچھی لگی ہو، میں آپکو اپنانا چاہتا ہوں۔"
کسی لڑکے کے منہ سے پہلی مرتبہ ایسی بات سن رہی
تھی، اسکے رہے سہے اوسان خطا ہوئے اس نے گھبراتے ہوئے کہا۔
" آ.. آپ پلیز جائیں یہاں سے
کوئی آجائے گا ۔"
یہ کہتے ہوئے اسکی نظر دروازے میں
کھڑی مامی پر پڑی مامی نے زور زور سے بولنا شروع کردیا اور عمامہ پرالزامات کی
بارش کردی۔ روحان حیران تھا کہ یہ سب کیا
ہوگیا..
اتنے میں رامش ثناء اور آنیہ بھی آگئے
رامش نے ناعمہ بیگم سے پوچھا۔
" امی کیا ہوا ہے آپ کیوں ایسےکر
رہی ہیں؟"
"ارے بیٹا کیا بتاؤں، میں تو بہت
پہلے سے اس لڑکی کے طورطریقے دیکھ رہی ہوں، کل کے آئے بچے کو پھنسا رہی ہے۔"
روحان نے بولنے کی کوشش کی تو مامی نے اسے چپ
کروا دیا اور عمامہ کے چہرے پر تھپڑ مارنے شروع کردئیے۔
" بول اور کتنی خاک ڈلوائے گی
ہمارے سروں میں؟"
اور عمامہ قسمت کی اس ستم ظریفی پر حیران تھی
ایک ایک کرکے سب نکلتے چلے گئے، رامش ایک پل کے لئے رکا اور کہا۔
" مجھے تم سے یہ امید نہیں تھی۔"
عمامہ کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے اور وہ سوچ
رہی تھی کہ ایسی کیا غلطی تھی جس کی سزا مامی نے اسطرح دی ۔
اور اسکے دماغ میں ایک ہی سوچ چل رہی
تھی ۔
تنہائی میری ساتھی ہے.....
************************
لاریب ملک
Comments
Post a Comment