صبر کی
ابتدا
تحریر:
صبغہ احمد، لیہ
سیاہ آسمان پر موتی کی طرح ٹانکے ہوئے بے شمار تاروں کو جب نظر بھر کر
دیکھتی ہوں تو سوچ کو ہمیشہ ایک نہج پر پاتی ہوں کہ آیا سیاہ فلک پر ستارے زیادہ
تعداد میں ہیں یا مجھ سے محبت کرنے والے لوگ کہ جن کی گنتی اور ان کی مجھ سے کی
جانے والی محبت کو نہ تو میں شمار کر سکتی ہوں اور نہ ہی کسی پیمانے سے مانپ سکتی
ہوں۔ میرے اپنوں کی طرف سے مجھ پر محبتوں کا جو سیلاب امڈ امڈ کر آتا ہے اس کا
بہاؤ کبھی کم ہونے میں ہی نہیں آتا۔ خلقِ خدا کے نزدیک مجھ سے زیادہ خوش قسمت اور
مطمئن شاید ہی کوئی ہو کہ جس کی ہر ضرورت و خواہش آناً فاناً پوری کی جاتی ہو اور
پلک جھپکتے ہی جس کی بات کو حتمی فیصلے کی سی اہمیت دی جاتی ہو، خود میرے نزدیک ہی
میری اہمیت روزِ روشن کی طرح عیاں ہے۔ اس کے باوجود بھی ایک خلا سا اپنی زندگی میں
پاتی ہوں جسے آپ شاید نا شکری کا نام دیں گے۔ حقیقتاً آیسا نہیں ہے۔ بعض دفعہ
انسان عدم توجہی کا شکار ہو جاتا ہے۔ چونکہ وہ اپنی اہمیت کو جانتا ہے لہذٰا ہر
ایک کے نزدیک اپنا آپ منوانے کی کو شش کرتا ہے۔ یہ چیز انسان کو اپنی خود کی محبت
کے قابل بھی نہیں چھوڑتی کیوں کہ جہاں سے وہ محبت کا طلب گار ہوتا ہے وہی راستہ
ایک اندھے کنویں کی مانند اس کے لیے تاریکیوں کا سامان بن جاتا ہے پھر اسے سمجھ
آنے لگتی ہے کہ اپنے پرائے میں کیا فرق ہے۔ خالقِ حقیقی نےمحرم و نا محرم کے فرق
کو کیوں واضح کیا ہے۔ پھر مجھ جیسے لوگوں کو صبر کے معانی سمجھ آتے ہیں۔ بس یہی وہ
وقت ہوتا ہے جب انسان صبر کی ابتدا اور بے حسی کی انتہا کو پہنچتا ہے۔
****************************
Comments
Post a Comment