بے رنگ لہو
ابیحہ نور
آج
کون کسی کے آرام و سکون کیلئے اتنا کرتا ہے. آج کون کسی کیلئے اپنا گهر بار چهوڑ دیتا
ہے ؟
کون
کسی کیلئے اپنوں کو ، اپنی ماں کو، اپنی بہنوں کو ، اپنے بهائیوں کو، اپنے بیوی بچوں
کو اپنے مال جائیداد کو چهوڑ کر ہجرت کرتا ہے. فقط ملک و قوم کی سربلندی کیلئے جس کی
حفاظت کا ذمہ نا صرف اسلام میں بلکہ ہر قوم کے لوگوں میں فوج اور مجاہدین کے سپرد ہوتا
ہے.
ہمارے
ہاں تھوڑا الگ نظام ھے یہاں خون کا قطرہ قطرہ بہا دینے پہ بهی وہ خون کا صلہ نہیں ملتا.
یہاں خون بہایا جاتا ہے لیکن اسے بہتا رنگدار پانی سمجه کر فراموش کر دیا جاتا ہے.
میں
پوچهنا یہ چاہتی ہوں کیا اتنا ہی بے مول ہے شہید کا لہو .؟؟ کیا صرف اتنی ہی قدرو قیمت
ہے شہید کے لہو کی .؟؟کیا اس قدر وہ بے کار و ناکارہ رہ گیا ہے .؟ کہ پانی کی طرح بہہ
بهی جائے تو کسی ظالم کے کان میں جوں تک نہ رینگنے پائے .؟؟
میں
ان حکام سے بھی پوچهنا چاہتی ہوں کہ شہید کے والدین کو ایک بار کچھ رقم دینے سے والدین
کا جگر گوشہ واپس آ سکتا ہے .؟ کیا ان بہنوں کو پهر سے بهائی کا عزت کا محافظ مضبوط
ہاتھ واپس مل سکتا ہے .؟ ان بچوں کو باپ کا سایہ مل سکتا ہے .؟ نہیں ان جذبات کی یا
آنسووں کی یا ان محبتوں کی قدر کون سمجهے ؟؟؟
سمجهتا
اور محسوس کرتا وہی ہے جس کے دل کو انسانیت کا درد محسوس ہو اور جو خود اس قیامت خیزی
سے گزر چکا ہو.
لیکن
کیا کیا جائے اس نسل کا جو ہندوانہ رسم و رواج کو اپنائے اپنی اصل کو پس پشت ڈالے ہوئے
ہے. یہ نوجوان نسل جن کی آئیڈیل صحابہ کرام ہونے چاہیئے تهے آج ان کے آئیڈیل نام نہاد
نفس پرست لوگ ہیں جن کو نہ تو اپنی زندگی کا مقصد معلوم ہے نہ ہی جینے کا طریقہ آتا
ہے. ایک اندهیرا ہے ان کے گرد ایک گہری کال کوٹهری ہے جسے وہ خوابوں کا محل اور تعبیر
کا نام دیتے ہیں. افسوس کہ ہماری نسل اسی اندهیرے کو اپنا شعار بنائے ہوئے ہے. دل خون
کے آنسو روتا ہے جب اپنے وطن کا میڈیا بهی ہندوانہ طریقوں کا اپنائے شرم ، لحاظ، عزت
، ناموس کو پس پشت ڈالے صرف نفس کی پیروی میں غلطاں ہیں.
میڈیا
آج کے ماڈرن دور میں تیز ترین پیغام ارسال کا زریعہ ہے. اس کے سرپرستوں کو چاہیئے کہ
ہماری نئی نسل کو اپنے اجداد کے کارناموں سے روشناس کروائیں. ان کو بہادری جرات کا
سبق سکهائیں. لیکن افسوس کہ میڈیا نے ہماری نسل کو نفس پرست اور بزدل کر دیا ہے.
تو
کیسے وہ پکار سنیں گے؟ عصمتوں کی یلغار سنیں گے.؟آہو بکا سنیں گے؟ کیسے غیرت مند بنیں
گے؟*
آج
شہیدوں کا لہو وفاداری کا صلہ مانگتا ہے. آج مقبوضہ کشمیر کا بچہ آزادی مانگتا ہے.
ان کشمیریوں کا ان مسلمانوں کے غموں کا ان بچوں کی آہوں کا ان بہنوں کی عصمتوں کا علاج
کس کے پاس ہے؟
کون
مانگے گا ان ماوں کے جگر گوشوں کے لہو کا حساب جن کو بے قصور قتل کر دیا گیا. جن نہتوں
پر ہتهیار تانے جاتے ہیں. بهارت کا ظلم آج ناقابل برداشت ہوتا جارہا ہے. آج اسے بتانے
کی ضرورت ہے مسلمان امن کا گہوارہ بنانا جانتے ہیں تو ظلم کی پتوار کو کاٹنا بهی جانتے
ہیں. مسلمان دوستی نبهانا جانتے ہیں تو ظالم کو موت کے گهاٹ اتارنا بهی جانتے ہیں.
مسلمان ماوں، بیٹیوں، بہنوں کی عزت کی حفاظت کرنا جانتے ہیں تو ان بے غیرت بهارتیوں
کو ناکو چنے چبهوانا بهی جانتے ہیں.
لیکن
یہ بات بهارت فوج یا بهارتی ہندو قوم کیا سمجهے گی کہ عزتوں کی حفاظت کیا چیز ہے؟ بزدل
کیا سمجهے گا مومن میں کتنی طاقت ہے ؟ مکار کو کیا پتا کہ رب تعالی سے وفاداری کس قدر
انمول ہے ؟
آج
ضرورت اس امر کی ہے تمام مسلمان حکمران ایک ہو کر شہیدوں کے لہو کا صلہ پیش کریں. لیکن
میں کس سے سوالی ہوں اس قوم سے جس کا نواجوان آج سوشل میڈیا کی زینت بنا بیٹها ہے.
جس کو خودی کی ذات سے فرصت نہیں وہ کسی معصوم کے درد کو کیا محسوس کرے گا. میں یاد
دلانا چاہتی ہوں ان کو کہ مسلمان وہ ہیں جو اگر ایمان کی طاقت پہ قائم رہیں تو پوری
دنیا ان کے قدموں میں ہو.
میں
یاد دلانا چاہتی ہوں حضرت خالد بن ولید(ر) کی تلوار کو سیف اللہ کی ذات کو جنہوں نے
اسلامی سلطنت کو وسیع کرنے کیلئے خون کے نذرانے پیش کیے. اور رب تعالی نے انہیں اپنی
تلوار کہا. میں یاد دلانا چاہتی عمر فاروق (ر) کا دور حکومت جب مسلمانوں کا طویل دنیائی
خطوں پہ غلبہ تها. میں یاد دلانا چاہتی آج وہ محمد بن قاسم جس نے سنده کو فتح کر کے
اسلامی سلطنت میں شامل کر دیا جس کی ایک غیر مسلم خاتون کی عصمت کی پاسداری وجہ تهی.
میں یاد دلانا چاہتی سلطان صلاح الدین ایوبی کی بہادری کو جس نے مسلمانوں کی ایک قوت
ایک طاقت ایک طویل سلطنت بخشی.
اے
نوجوان !! آج کے نواجواں اٹهو سنو اس کشمیر
سے آتی پکار کو آج شہیدوں کا لہو حساب مانگتا ہے.
6
ستمبر جو دن تم کو شہیدوں کے جذبوں کو ابهارنے ان کا ساته
دینے ملک و قوم کو اپنی قوت کا اندازہ دلانے میں صرف کرنا چاہیئے وہ آج تم سو کر گزار
دیتے ہو.
یار
بن سنور کر روڈوں پر موٹر بائیک کے سلائنسر نکلوا کر ون ویلنگ کرتے ہو
سڑک
پر گھر کی چاردیواری سے کسی مجبوری کے پیش نظر نکلی اپنی بہن بیٹی کو چھیڑتے ہو جملے
کستے ہو ،؟؟ کتنے افسوس کی بات
ہے!!! تم کو وہ پکار کیوں نہیں سنائ دے رہی جو چیخ چیخ کر اپنے لہو کا حساب مانگتی
ہے. جن کے بہتے لہو کے پیش نظر آج تم پر سکون و پر آرائش زندگی بسر کر رہے ہو.
کب تلک یوں سوتا رہے
گا اے نوجواں!
کب تجهے اٹهائے گی
غیرت ایماں؟؟!!
اٹهو نوجوانوں آج تم کو ایمان کا ثبوت دینا ہے آج تم
کو ان ماوں کے جگر گوشوں کے خون کا حساب لینا ہے آج تم کو ان لٹتی عصمتوں کا حساب لینا
ہے. آج تم کو بهارت کے ظلم کو جڑ سے ختم کرنا ہے. آج تم کو شہید کے لہو کا صلہ دینا
ہے. آج تم کو حساب لینا ہے.
Comments
Post a Comment