” بڑی عید “
تحریر٠٠٠٠ملک اسلم ھمشیرا
پرسوں عید نمازپڑھ کر مَیں ، ماسٹر اسلم
اور ماسٹر بشیر تکبیرات کا ورد کرتے گھروں کو روانہ ھو گئے کیونکہ ھم تینوں اساتذہ
کی قربانی ایک ھی جانور میں تھی چنانچہ اپنے قربانی کے جانور کو ھانکتے باغ میں
لے گئے،جانور کے ساتھ ضروری سیلفیوں کے عظیم فریضہ انجام دینےکے بعد اسے قربان کرنے
کا مصمم ارادہ فرما لیا،کیونکہ آجکل قربانی کا ثبوت اپ لوڈ نہ کریں تو لوگ بھی باتیں
بناتے ھیں
،چنانچہ ”وچھے “ کو زمین بوس کیا گیااور مولوی اصغر نے دعا پڑھنی شروع کردی جو کچھ
زیادہ ھی لمبی ھو گئی ابھی چھُری پھیرنے کا ارادہ کیا ھی تھا ٠٠٠٠٠٠٠مگر”
وچھے“ نے قربان ھونے کا ارادہ ملتوی کرتےہوئے اُٹھ کھڑا ھوا
،مگر ھم ساتوں ممبران نے وچھے کے خلاف تحریک عدم
اعتماد پیش کرتے ہوئے زبردستی پابندِ سلاسل کرنے کا ارادہ کر لیا،
چنانچہ اب
مسلہ بلی کے گلےمیں گھنٹی کون ڈالے گا ؟٠٠٠٠٠والا در پیش تھا ،چنانچہ ماسٹر
بشیر کو ” تّری“ لگاٸی
گئی کہ تُو تو ماشاءاللہ کڑیل جوان ھے اور اس کو قابو کرنا آپ جیسے زور آور بندے کا
ہی کام ھے چنانچہ ھماری طرف سے تعریفی کلمات
سن کر تو اُن میں سپائیڈر مین کی روح بیدار ھو گئی ،پھر کیا تھا موصوف نے ایک رسہ طلب
فرمایا اور کسی مکڑے کی طرح ”وچھے“ کے گرد طواف فرماتے ہوئے اس کی ٹانگوں میں رسے کی
مدد سے لنگریاں مارنے لگے ،پہلے تو وچھا بھی استاد کے احترام میں کھڑا رھا مگر جب استاد
محترم کے خطرناک عزائم دیکھے تو تو وہ بھی خم ٹھونک کر سیدھا ھو گیا،اور استاد
کی قدم بوسی کرتے ھوۓ
جناب کو سر آنکھوں پر بِٹھا لیا، پھر چشم فلک
نے وہ منظر بھی دیکھا کہ استاد بیل کے سر پر سوار بیل کے رحم و کرم پر تھے اور
موصوف کی فلک شگاف چیخوں کی بازگشت پورے برصغیر
میں سناٸ
دینے لگی،
آخر اخوت وبھائی چارے کے جزبے سے سرشار ھم سب آگے
بڑھے اور بیل کی توجہ باقی ممبران کی طرف بھی منبذول کرانے کی بہت کوشیش کی مگر وچھے
کو شائد ماسٹر صاحب کی پُر سوز آواز بھا گئی تھی اور وہ تو اُسے پورے موضع میں گھمانا چاہتا تھا مگر ھم سب
نے ملکر اُس کی ٹانگوں میں رسہ ڈال کر اس کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملا دیا،
ھماری اس کوشش کے نتیجے میں جیسے ھی وچھے نے سر تسلیم خم
کیا استاد محترم اچھل کر بیل کے نیچے گر پڑے اور یوں وچھے کو ٹانگوں کی
مدد سے استادِمحترم کے اضافی جسمانی مساج کرنے کا شرف حاصل ھو گیا ،آخر کار میں نے
جوان مردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ماسٹر صاحب کو بالوں سے پکڑ کر بیل کے نیچے سے باھر
گھسیٹ لیا
مٶرخ
جانور کو ذبح کرتے ھوۓ
لکھتاھے پھر اس کے بعد موصوف گوشت بننے سے لے کر چلت کرنے تک غیر حاضر پاۓ
گئے
بالاآخر حالات کی سنگینی کوبھانپتے ھوۓ
ہم نے اضافی نفری طلب کر لی اور یوں وچھے کو ”قانون ھاتھ میں لینے اور ایک سرکاری
ملازم کو سر پر اٹھا کر پٹخنے “ کے جرم میں گرفتار کر کے راہی ملک عدم کر دیا
گیا
وچھا ذبح ھو چکا تھا اور گوشت بنانے والے قصائی سے مذاکرات
شروع ھو گئے ،اور قصائیوں کی کمیابی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے قصائی نے مزدوری کے علاوہ
وچھے کے اضافی سپئیر پارٹس بھی بونس میں لینے کا مطالبہ رکھ دیا ،کیونکہ ہم میں اکثریت
خوش لباس ملازموں کی تھی سو ہم نے بے چون و چراں اسے گوشت بنانے کا حکم جاری
کر دیا
تھوڑی دیر بعد قصائی کے نخرے ٠٠٠٠٠گریڈ 20 کے ملازم
کے اُس سالے کی طرح ھونے لگے جو بہن کے ساتھ شاپنگ پہ آیا ھوا
ھو ،
چنانچہ قصاٸ
کی طرف سے مزدوری کے علاوہ اوجھری،پائے،مغز ،کلیجی کے بعد اب چمڑے کا مطالبہ بھی سامنے آ گیا،چمڑا کیونکہ ہمارے علمإ کے نزدیک ہمارے
لیے جنت کی ٹکٹ کا درجہ رکھتاھے لہذا اس پر میرے ابو جو کافی دیر سے قصائی
کی بکواس سن رھے تھے فوراً اُٹھے اور اس سے پہلے کہ اپنی ”کَنے چھیک“ جوتی کے ذریعےاس
کے غرور کو خاک میں ملاتے ٠٠٠٠٠٠٠وہ خطرے کی بو پا کر رفو چکر ھو گیا
اب ھم سب نابلد اراکینِ قربانی کو گوشت بنانے کا ایک نیا
چیلنج در پیش تھا،لہذا جان پر کھیلتے ہوئے مغرب تک گوشت بناتے رھے ،تب تک ہر طرف سے
تھکے ھارے” ٹلّے کے ٹلّے“غریب غربا ،مساکین،ھاتھوں میں گوشت کے شاپر پکڑے، ہمارے آستانے
پر اکٹھے ھو گئے
یہاں پر سکول اسمبلی کا تجربہ کام آیا اور میں نے سب کی
لائنیں بنوانی شروع کردیں،جیسے ہی میں لائن بنوا کر فارغ ھوا پیچھے گھمسان کا
رن پڑ چکا تھا، دعا منگواتے منگواتے آدھی ”جھوک تباہ“ھو چکی تھی ،اب جو لائن میں کھڑے
تھے وہ بھی یہ کہتے ھوۓ
لاٸن توڑ کر خانہ جنگی میں شامل
ھو گئے کہ٠
٠٠٠”لائن جانے
حسین جانے
پھر سبھی ہمارے نظم و ضبط کی اینٹ سے اینٹ بجاتے ھوۓ
گوشت پر پل پڑے اور وہ چھینا چھپٹی شروع ھوٸ
کہ االامان الحفیظ
ہم صرف اتنا
کر سکے کہ صرف اپنے حصے کا گوشت اٹھا کر گھر چلتے بنے،گھر پہنچتے پہچتے میں نے پیچھے
مڑ کر دیکھا تو پیچھے نرسری کلاس کے بچوں کی طرح ایک اچھی خاصی لائن چلی آ رہی
تھی،
تو بھائیو٠٠٠میں یقین سے کہہ سکتا ھوں ستر فیصد بندے ایسےتھے
جن کو ضرورت کی بجائے حرص یہاں تک لایا تھا ،حرص تو ھم سب کی فطرت میں شامل ھو
چکا ھے،کل کےخبر نامے میں آ رھا تھاکہ ملتان میں کتنے بندے بد ہضمی کا شکار ھو کر ہسپتال
جا پہنچے ھیں، حرص کے اس حمام میں ہم سب ننگے ھیں،چاہے کوٸی
غریب ھے یا متوسط یا پھر امیر ،غریب حرص میں آ کر ضرورت سے زیادہ گوشت کھا کر بیمار
ھو جاتا ھے،جبکہ باقی دونوں طبقے فریج سے برف کو بے دخل کر کے اس کی جگہ سارا گوشت
ٹھونس دیتے ہیں اور برف کے لیے بازار میں شاپر لیے پھرتے ھیں،اور جب دیکھتے ھیں
کہ پندرہ دن ھو گئے اور گوشت اب سبزی مائل ھونے لگا ھے تب ان میں سخی سرور کی روح بیدار ھوتی ھے اور وہ غریب کو دینا گوارا کرتے
ھیں،یا شائد اس لیے دیتے ھوں کہ پہلے غریب پر تجربہ کر کے دیکھ لیں کہ بد ہاضمہ ھوتا
ھے کہ نہیں؟
بہر حال خدا پاک ھم سب کو اس معاشرتی برائی سے بچنے کی تو
فیق دے،اور ہمارے دلوں کشادہ فرمائے آمین
Comments
Post a Comment