بدتمیز عشق
آخری قسط
(دوسراحصہ)
ردابہ نورین
......................................
حسین نیوز پیپر پڑھ رہے تھے.. جب کسی نے ان کی آنکھوں پہ پیچھے سےآکر ہاتھ رکھا
تھا.
"شانزے..
"انہوں نے بنا کسی تاخیر کے نام لیا تھا..
"یہ
کیا انکل آپ نے تو ایک سیکنڈ میں پہچان لیا.. "شانزے پاس ہی صوفے بیٹھتے کہا تھا.
"ہاں..
بیٹیاں بھلے دور ہوں پر وہ ہمیشہ دل میں رہتی ہیں.. "حسین کے کہنے پہ شانزے سوچ
میں پڑھ گئی تھی.
"آجائیں
اب ناشتہ کر لیں... اریزے، شانزے آپ دونوں بھی آؤ.. "شاہینہ نے ناشتہ لگایا تھا..
"نہیں
آنٹی.. ہم ناشتہ کر کے آئے ہیں.. "شانزے نے منع کیاتھا..
"اور ویسے بھی میں اب نکلتی ہوں.. "اریزے اٹھ کے کھڑی ہوئی
تھی.
"اریزے
شانزے دونوں چپ چاپ آجاؤکوئی بہانہ نہیں.." شاہینہ بیگم نے ناراض ہوتے کہا تھا..
"آجاؤ
بیٹے.. اریزے آپ کو ڈرائیور چھوڑ آئے گا.. "حسین نے دونوں کو بلاتے ہوئے خود چیئر
سنبھال لی تھی..
"پاپا
بھائی لے جائے گا نا.. "یوسف نے وہیں کاؤچ پہ بیٹھتے کہا تھا.
"وہ
آج دیر سے جائے گا رات کو کہہ کر سویا ہےکہ صبح نہ اٹھانا۔" شاہینہ نے اپنی طرف
سے اس کی معلومات میں اضافہ کیا تھا.
"گڈ
مورننگ ایوری ون... "عثمان نے اوپر سے آتے کہا..
"لیں
آگیا آپ کا لال.." یوسف نے مسکرا کر کہا..
"تم..
تم نے تو دیر سے جانا تھا نا..؟" شاہینہ نے حیرت سے پوچھا..
"تو
کیا آپ نے ناشتہ کم بنوایا ہے..؟" عثمان نے حیرت سے پوچھا، سب ہنسنے لگے..کہ ماما
نے گھور کر دیکھا تھا.
"آپ
نے بولا ایسے تو مجھے لگا.. "عثمان نے صفائی دی تھی.
"تمہیں
کچھ زیادہ لگنے لگا ہے.. "انہوں نے تسلی کی تھی عثمان کی۔
" اب تمہیں کیا کارڈ بھیجوں..؟" نشانہ اب یوسف تھا..
"میرا
ایک نام ہے.. آپ وہ بھی لے سکتی ہیں.. جیسے سب کا لےکربلایا ہے.." یوسف نے اپنی
ناراضگی بتائی تھی..
سب پھر سے ہنسنے لگے تھے..
"یوسف چپ چاپ ناشتہ کرو.. پتا نہیں کب بڑے ہوں گے دونوں.. "
......................................
شانزے خوش تھی، آج کی صبح خوبصورت تھی. اور کچھ یوسف کے اچانک سے آنے نے بنا
دی تھی.
اس کے اندر سکون تھا، جو اس کی آنکھوں سے جھلک رہا تھا..
اور کہیں نہ کہیں یہ سکون یوسف کے اندر بھی اتر رہا تھا. وہ صبح سے ہی ہنس رہی
تھی.
حسین کو مل کہ وہ دونوں یونیورسٹی آگے تھے، اپنی تیاری کر کے وہ دونوں اب کیفے
کی طرف آے تھے..
اوہ - تو آگے وننرز... محسن نے پر جوش انداز میں کہا تھا.
وہ سب بھی کلاس ختم ہونے کے بعد وہیں آگے تھے.
ابھی لاسٹ سیشن باقی ہے.. یوسف نے محسن کے آگے سے فرینچ فریز اٹھاے تھے..
تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے..؟؟ سب جانتے ہیں وہ ہمیشہ تم سے ہارتا رہا ہے.. مہک
نے بہت اترا کے کہا تھا.
دیکھو ہمارے اختلافات اپنی جگہ ، لیکن وارث بہت اچھا کمپیٹیٹر ہے، اسکی اپنی
سکلز ہیں..
انھیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، اور ہار جیت میں تھوڑا ہاتھ قسمت کا بھی
ہوتا.
یوسف نے بڑے آرام سے مہک کو سمجھایا تھا..
تو یہاں بیٹھ ہیں، وارث آیا تھا..
آجاؤ تم بھی یہیں.. یوسف نے اس کو بیٹھے کے لئے جگا دی تھی.
نہیں.. میں چلتا ہوں تیاری کرنی ہے ابھی تھوڑی اور آخر کو تمہیں ہرانا ہے مجھے،
وارث کے کہنے پے سب کو غصہ آیا تھا.. سواے یوسف کے وہ ہنسنے لگا تھا..
ویسے آل دا بیسٹ بوتھ آف یو... وارث وہاں سے چلا گیا تھا..
دیکھا اس کا منہ کبھی سیدھا نہیں ہو سکتا.. ذارا کو نے غصے سے کہا تھا..
اچھا چھوڑو یہ تو کل دیکھا جائے گا ابھی سے کیا سوچنا..
شانزے نے یوسف کو دیکھا تھا.. وہاں غصے کے یا برا منانے جیسے کوئی تاثرات نہیں
تھے.
وہ بلکل ویسا نہیں تھا، جیسے اس نے پہلی ملاقات کے بعد سوچا تھا.
وہ سر جھٹک کے مسکرائی تھی.. تمہیں کیا ہوا..؟؟
کچھ نہیں... وہ کہتی کھڑی ہوئی تھی..
تو پھر...؟؟؟ یوسف نے پوچھا تھا.
میں بس یہ بکس واپس کر کے آئ.. شانزے نے کچھ بکس دیکھائیں تھیں..
چلو ساتھ چلتے ہیں.. یوسف کھڑا ہوا تھا..
ارے نہیں میں بس ابھی تم روک میں آتی ہوں.. شانزے کہ کہنے پے وہ بیٹھ گیا تھا.
(لیکن
وہ چاہتا یہی تھا کہ ساتھ جائے لیکن... وہ اپنی کوئی بات اس پے تھوپنا نہیں چاہتا تھا..)
شانزے چلی گئی تھی...
..................................
وہ بکس واپس کر کے آنے لگی تھی..
جب رانیہ سے ٹکراؤ ہوا تھا. جو تین ، چار لڑکیوں کے ساتھ تھی.
کیسی ہو شانزے.. ؟؟ اس نے شانزے کا راستہ روکا تھا.
میں ٹھیک ہوں، شانزے نکلنا چاہتی تھی، لیکن رانیہ نے اسے موقع نہیں دیا..
اور تمہاری تیاری..؟؟ رانیہ کی آنکھوں میں کچھ عجیب سا تھا، شانزے کو پہلی بار
اس سے ڈر لگا تھا.
اچھی ہے.. جواب مختصر تھا وہ چاہتی تھی وہ جلد از جلد چلی جائے..
ہاں بھئی تم نے تو کرنی ہی ہے تیاری.. آخر کو تمہارے پیچھے کون بیٹھا ہے، جو
یہ سب تمہارے لئے کرے..
رانیہ نے ہر لفظ چبا چبا کر کہا تھا..
رانیہ پلیز سب کے سامنے تماشا نہیں بناؤ.. شانزے کی آواز کانپی تھی..
ارے میں تو بس اتنا کہ رہی ہوں.. کے بنا ماں باپ کے رہنا کتنا مشکل ہے نا..
وہ بھی تب، جب ان کا کچھ آتا پتا نہیں ہو.. سچ شانزے بہت دکھ ہوا مجھے سن کے..
کہ تمہارے ماں باپ کا نہیں پتا کہ وہ کون تھے.. رانیہ بولے جا رہی تھی..
اور پیچھے کھڑی چاروں لڑکیاں اپنی باتوں سے حیرت کا اظہار کر رہیں تھیں.
تم جانتی ہوں نہ ایسے بچوں کو دنیا کس نام سے پکارتی ہے.. رانیہ نے پھر سے کہا
تھا..
شانزے گرنے لگی تھی.. جب اس نے دیوار کا سہارا لیا تھا..
(صفیہ
تقریباً بھاگتی ہوئی آئ تی.. یوسف جلدی چلو... اس نے ہانپتے ہوے کہا تھا..
کیا ہوا سب ٹھیک ہے..؟ یوسف کچھ پریشان ہوا تھا.
وہ شانزے وہاں لائبریری کے باہر.. وہ رانیہ کے ساتھ... وہ ہانپ رہی تھی اس سے
بولا نہیں جا رہا تھا.
لیکن یوسف نے ایک سیکنڈ کا وقت بھی نہیں لیا تھا اٹھ کے جانے میں.. محسن سمیت
وہ تینوں بھی پیچھے گیں تھیں..)
وہ کیا کہتے ہیں.. رانیہ نے سوچنے کی ایکٹنگ کی تھی..
برا خراب سا لفظ ہے... اس نے اپنے ذھن پے زور ڈالنے کی بھر پور اداکاری کی تھی..
ہاں.. یاد آیا، ناجائز... شانزے اپنے دونوں ہاتھ کانوں پے رکھتے بیٹھتی چلی
گئی تھی..
شٹ اپ... رانیہ... پیچھے سے یوسف دھاڑا تھا، تم ہوش میں ہو.. یہ سب کیا بکواس
کر رہی ہو..
رانیہ نے سوچا نہیں تھا کہ یوسف اچانک آجاے گا.. اور نہ صرف آے گا بلکے شانزے
کی سائیڈ بھی لے.
رانیہ مجھے تم سے امید نہیں تھی.. تم کب سے ایسی ہو گیں...؟؟ مجھے یقین نہیں
آرہا تم اتنا گر سکتی ہو.
رانیہ کا صبر جواب دے گیا تھا، اس نے کبھی نہیں سوچا تھا،
کہ یوسف اسے اس طرح سے سب کے سامنے ذلیل کر سکتا ہے.
مجھے بھی یقین نہیں آتا کے تم اس دو ٹکے کی لڑکی کے لئے، جس کی نہ ماں کا پتا
نہ باپ کا...
شٹ اپ... یوسف غصے میں رانیہ کی طرف بڑھا تھا.. وہ ڈر کے پیچھے
ہٹی، باقی سب لوگ حیران تھے..
محسن یوسف کو روکنے کے لئے آگے بڑھا تھا.. لیکن اس سے پہلے یوسف نے خود پے کنٹرول
کیا تھا.
ایک بات کان کھول کے سن لو.. کہ اگر تم نے اس کو گالی دی، تو میں سمجھوں گا،
تم نے مجھے گالی دی ہے.
یوسف نے آگے بڑھ کے شانزے کا ہاتھ پکڑ کے اٹھایا تھا، وہ اسے لے جا رہا تھا.
میری بات سنو یوسف.. رانیہ کا غصہ اڑھ گیا تھا.. اب وہ پریشان تھی اس کا مسلہ
شانزے تھی، یوسف نہیں.
آج کے بعد مجھے اپنی شکل مت دیکھانا، یوسف نے اس کی طرف بغیر دیکھ کہا تھا..
وہ شانزے کو لے کر چلا گیا تھا...
سب نے رانیہ کو ملامتی نظروں سے دیکھا تھا.. ایک ایک کر کہ سب چلے گئے تھے..
رانیہ وہاں اکیلے کھڑی رہ گئی تھی.. جو تماشا اس نے شروع کیا تھا.. وہ اس پے
ہی ختم ہو گیا تھا..
............................
شانزے خاموش تھی... وہ رو نہیں رہی تھی، لیکن ٹھیک بھی نہیں تھی..
پچھلے ایک گھنٹے سے وہ گاڑی یوں ہی سڑکوں پے دوڑا رہا تھا..
یوسف نے گاڑی سائیڈ میں لگائی تھی.. شانزے پلیز کچھ تو بولو..
کیا بولوں...؟؟ شانزے کی آواز سپاٹ تھی.
کچھ بھی یار.. اسے برا بھلا بولو اپنے دل کی بھڑاس نکالو.. لیکن بولو، وہ جنجھلایا
تھا..
اس نے کچھ غلط نہیں کہا، اس نے وہی کہا جو سچ ہے، تو پھر میں کیوں برا مانوں..
شانزے کی آواز اب بھی ویسے تھی.
اس کی باتیں کیا تمہارے لئے اتنی اہمیت رکھتیں ہیں..؟؟ اور میں ؟؟ میری کوئی
اہمیت نہیں...؟؟ یوسف تنگ آگیا تھا.
اس کی آنکھوں میں اتنا دکھ تھا، کے شانزے سے برداشت نہیں ہوا تھا.
اس نے اپنا سر یوسف کے کندھے سے ٹیکا لیا تھا.. (اب وہ کیا بتاتی اسے کہ وہ
کتنی اہمیت رکھتا ہے..)
اس نے آنکھیں بند کر لیں تھیں، آنسو اس کی آنکھوں سے بہنے لگے تھے..
یوسف کو اس کا جواب مل گیا تھا، وہ مسکرایا تھا، پھر آہستہ سے اس کے آنسو صاف
کیے..
بھول جاؤ سب شانزے.. کیوںکہ اگر تم ڈرو گی تو دنیا تمہیں ڈراے گی..
تو مقابلہ کرو... مجھے یہ شانزے نہیں پسند جو کسی کی دو باتیں سن کے روے..
مجھے وہ شانزے پسند ہے.. جو کسی کی غلط بات برداشت نہیں کر سکتی..
جو اینٹھ کا جواب پتھر سے دینے کی صلاحیت رکھتی ہے..
مجھے وہ شانزے پسند ہے جو زندگی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنا حصہ وصول
کرنا جانتی ہے..
یوسف آہستہ آہستہ بولتا گاڑی چلا رہا تھا.. اور اس کا ہر لفظ شانزے کو سکون
بخش رہا تھا...
....................................
ہم یہاں کیوں آے ہیں..؟؟؟ شانزے نے حیران ہو کر پوچھا تھا.
جب یوسف نے اسے بڑی خوبصورت بلڈنگ کے سامنے گاڑی روک کر اترنے کا کہا تھا.
اندر چلو سب سمجھ آجاے گا.. یوسف نے اسے آنے کا اشارہ کیا تھا.
وہ دونوں اندر آے تھے.. شانزے ابھی تک کچھ پریشان تھی کیونکہ اتنا اندازہ تو
اسے ہو گیا تھا کہ یہ آفس ہے...
یوسف نے دروازے کھولا تھا.. سرپرائز...
شانزے عثمان کو دیکھ کر حیران ہوئی تھی.. جبکہ یوسف روم میں رکھے صوفے پے بیٹھ
گیا تھا..
ارے واہ - شانزے یہ تو بہت اچھا سرپرائز ہے.. عثمان نے خوش ہوتے کہا تھا..
بیٹھو بھی کھڑی کیوں ہو... عثمان نے اسے اشارہ کیا تھا.. اور خود فون کر کے
اریزے کو بولایا تھا..
اریزے شانزے کو دیکھ کر خوش ہوئی تھی..
مجھے تو یقین ہی نہیں آرہا تم یہاں آئ ہو..
چلو بتاؤ تم دونوں کیا لو گئے عثمان پوچھا تھا..
کیا لو گئے مطلب...؟؟ بھائی ہم لنچ کریں گئے.. یوسف نے آرام سے جواب دیا تھا..
نہیں رہنے دیں بھائی اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے.. شانزے یوسف کے کہنے پے شرمندہ
ہوئی تھی..
اچھا ٹھیک ہے.. پھر تم مت کرنا ہم تینو کر لیں گئے.. یوسف نے اٹھتے آرام سے
جواب دیا تھا..
وہ سب ہنس پڑے تھے..
....................................
لنچ سے کافی لیٹ ہو گئے تھے.. اس لئے آفس جانا فضول تھا.
لیکن عثمان کو آج سعدیہ سے ملنے جانا تھا اس لئے وہ واپس چلا گیا تھا.
اور یوسف ان دونوں کو گھر چھوڑنے آیا تھا، پورے راستے وہ شانزے کو تنگ کرتا
آیا تھا..
اور شانزے بھی اسے خوب جواب دیتی رہی تھی، اریزے کو وہ اب کافی حد تک نارمل
لگی تھی..
جس کا پورا کریڈٹ یوسف کو جاتا تھا.. ان دونوں کا ساتھ اس کو بہت اچھا لگا تھا.
یوسف کو دیکھ کر تسلی ہوئی تھی، کہ اس کی بہن کا مستبل روشن ہے..
چلیں جی آگئی آپ دونوں کی منزل.. یوسف کی آواز نے اریزے کو خیالوں سے نکالا
تھا،
ورنہ وہ تو دونوں کی شادی کے بعد ان کے بچوں کی شادی کی تیاری بھی کر بیٹھی
تھی..
اریزے کو خود پے ہنسی آئ تھی.
جانتی ہیں.. اکیلے میں ہنسنے والوں کو کیا کہتے ہیں، یوسف نے فرنٹ میرر سے دیکھا
تھا..
ہاں.. یوسف... اریزے نے مسکرا کے کہا تھا..
مطلب.. یوسف کچھ حیران ہوا تھا..
مطلب یوسف کہتے ہیں.. شانزے نے بہن کی سائیڈ لیتے کہا تھا..
اور وہ دونوں ہنسنے لگیں تھی.. یوسف ان کی بات کا مطلب سمجھ گیا تھا اس لئے
ہنسنے لگا تھا.
چلو اب تم بھی اپنی منزل کی طرف.. شانزے اترنے لگی تھی..
منزل تو میری بھی یہی ہے.. بس آنے میں ٹائم لگے گا یوسف نے اپنے بال سیٹ کیے
تھے..
مطلب...؟؟ شانزے نے پوچھا تھا.. اسے سمجھ نہیں آیا تھا.. (لیکن اریزے سمجھ گئی
تھی.. اس لئے ہنستے ہوے
گاڑی سے باہر آگئی تھی.)
مطلب... یہ کہ میری ٹریٹ کی تیاری پکڑو..... یوسف نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں
ڈال کر دیکھا تھا..
حد ہے تمہاری والی تو.. یاد ہے مجھے.. شانزے غصے سے کہتی چلی گئی تھی.
.....................................
کیا ہوا اتنا پریشان کیوں ہو عمر نے رانیہ سے پوچھا تھا، جو اس سے ملنے کلب
آیا تھا.
لیکن رانیہ نے اسے کوئی رسپانس نہیں دیا ت
جاری ہے
CLICK ON READ MORE TO CONTINUE READING
Comments
Post a Comment