Badtameez ishq novel by Radaba Noureen (Last Episode) Part 1

Badtameez ishq novel by Radaba Noureen



بدتمیز عشق
آخری قسط
(پہلا حصہ)
ردابہ نورین
......................................
وہ صندوق حسان کا تھا، وہ بہت اچھے سے پہچانتی تھی.
(جسے بچپن سے آج تک اس نے بند ہی دیکھا تھا.. اور کبھی کسی نے اسے کھولنے کی کوشش نہیں کی تھی..
کیونکہ سب کو یہی پتا تھا کہ اس میں حسان کی بہت اہم چیزیں ہیں...
اور کیا ہیں یہ نہ کبھی انہوں نے بتایا نہ کسی نے پوچھا.. لیکن اب جو شانزے نے دیکھا اسے نظر انداز کرنا مشکل تھا)
شانزے پلٹی تھی، اس نے وہاں سے وہ خط اٹھا لئے تھے.. جنھیں لے کر وہ اپنے کمرے میں آگئی تھی..
وہ ایک ایک کر کے سب خط دیکھ رہی تھی.. سارے کھلے ہوئے تھے سوائے ایک کے، ہر خط پے صرف ایک ہی نام تھا،
زینب میر... زینب میر... 
"می جانی کیا آپ کسی زینب کو جانتی ہیں؟".. شانزے کی اپنی آواز اس کے کانوں میں گونجی تھی..
اس کا دل دھڑکنا بھول رہا تھا.. ایک انجانا خوف اسے گھیر رہا تھا.
"تو کیا پاپا جانتے ہیں زینب کو.. ؟"اس نے خود سے سوال کیا تھا. لگا تھا اس کی آواز کہیں پاتال سے آرہی ہے..
"تو پھر اس دن وہ کچھ بولے کیوں نہیں.. اس کا مطلب وہ چھپا رہے ہیں.. لیکن کیوں.. "اس کا دل بیٹھ رہا تھا..
"تو کیا پاپا ہی میرے باپ ہیں.. اس لئے وہ سب سے بات چھپاتے رہے ہیں.. "دل بدگمان ہوا تھا..
ایک ایک کر کے خط پڑھنے لگی تھی... سارے راز کھلنے لگے تھے..
اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے.. وہ جان گئی تھی..  حقیقت...
وہ جان گئی تھی زینب کوئی اور نہیں اس کی ماں ہے..
وہ جان گئی تھی.. اس کا باپ کون ہے (اور یہ ایک نیا انکشاف تھا اس پہ...)
وہ یہ بھی جان گئی تھی.. زینب میر ، حسین کی چھوٹی بہن ہیں..
"اوہ - تو اس لئے اس کا دل حسین کی طرف کھینچتا تھا.. "اس نے دل میں سوچا تھا..
وہ جان گئی تھی کہ اس کے باپ نے پیسوں کے لئے اس کی ماں سےشادی کی تھی..
اور پھر اسے دولت نہ ملنے کی وجہ سے چھوڑ دیا تھا.
شانزے کو لگا کمرہ گھوم رہا ہے.. کبھی لگتا کمرے کی ہر چیز اس پہ گر جائے گی..
اس نے خود کو با مشکل سنبھالا تھا..
اب وہ آخری خط کھول رہی تھی.. شانزے کی آنکھیں ڈبڈبہ رہی تھیں..
اس نے خط کھولا تھا.
"میری پیاری بیٹی..
میں نہیں جانتی کہ یہ خط تمہیں ملے گا یا نہیں...
اگر مل گیا تو میں حسان کی شکر گزار ہوں گی.. اور اگر نہ ملا تو میں سمجھ سکتی ہوں کہ وہ مجبور ہے..
میں نہیں جانتی تم کتنی بڑی ہو گئیں.. میں یہ بھی نہیں جانتی کہ تم میری بات سمجھ پاؤ گی یا نہیں..
پر چاہتی ہوں تم میری بات سمجھو.. کیوں کہ تم نے ایک اچھی بیٹی بنانا ہے..
تم نے زینب نہیں بنا.. جو غلطی میں نے کی وہ تم نہ کرنا..
جیسے میں نے اپنے باپ جیسے بھائی پہ اپنی خواہشات کو ترجیح دی.. تم نہ کرنا...
کبھی دل اور باپ میں سے کسی ایک کو چننا پڑے تو بنا کچھ سوچے اپنے باپ کو چننا..
یہ وہ سایا ہے جو تمہیں زندگی کے کڑے موسموں سے بچائے گا...
اگر ایک بار یہ سر سے چلا گیا نا تو پھر کبھی واپس نہیں ملے گا..
اور تم بھی میری طرح اکیلی رہ جاؤ گی.. اور میں نہیں چاہتی کہ تم بھی میری طرح دربدر بھٹکو...
پچھلے ڈیڑھ سال میں میں نے زمانے کے سب رنگ دیکھ لئے،
میں نہیں چاہتی کہ تمہیں ان سب کا سامنا ہو.. میری دعا ہے کہ تم ہمیشہ ثابت قدم رہو..
تم کبھی اپنی راہ نہ بھٹکو.. تم ہمیشہ کامیابی حاصل کرو...
میں یہ نہیں جانتی کہ تم مجھے سے محبت کرتی ہو یا نہیں..
پر میں چاہتی ہوں کہ تم مجھ سے نفرت کبھی نہ کرنا..
 ہو سکے تو اپنی بدنصیب ماں کو معاف کردینا.."
شانزے کو لگا اس کا دل بند ہو جائے گا. اسے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کیا ہوا ہے..
ایسا لگ رہا تھا پل بھر میں پوری دنیا بدل گئی ہے..
اس نے لفافے میں سے تصویر نکالی تھی،
"تم زینب کو جانتی ہو..؟؟ تمہاری شکل ان سے ملتی ہے۔" یوسف کی آواز اس نے خود میں سے آتی سنی تھی.
جس میں بالکل اس کی شکل کی لڑکی گود میں چھوٹی بچی لی ہوئی تھی..
شانزے نے بےاختیار تصویر کو چوما تھا. آنسو خود بہ خود بہنے لگے تھے.
شانزے نے ماؤف ہوتے دماغ کے ساتھ سب سمیٹا تھا اس نے منٹوں میں فیصلہ کیا تھا..
"مجھے پاپا سے بات کرنی ہے" اس نے دل میں سوچا تھا،
شانزے کو لگا اس کی جان نکل رہی ہے، ایک بار پھر کمرہ گھوم گیا تھا..
اس نے دیوار کا سہارا لیا تھا اور پھر حسان کے کمرے کی طرف بڑھ گئی تھی..  
.................................
"کیا ہوا؟ بہت دنوں سے دیکھ رہی ہوں پریشان ہیں.. کوئی بات ہے تو بتائیں، ہو سکتا ہے میں آپ کے لئے کچھ کر سکوں.. "حنا نے حسان کے پاس بیٹھتے پوچھا تھا..
"حنا وقت آگیا ہے کہ شانزے، جانے کہ وہ کون ہیں،اپنے باپ کے بارے میں جانے.. اپنے رشتہ داروں کے بارے میں جانے.." حسان کی آواز میں دکھ تھا.. بے انتہا دکھ..
اندر آتی شانزے کے قدم رک گئے تھے..
"مجھے سمجھ نہیں آتا میں اس کو کیسے بتاؤں.. اگر اس نے مجھے غلط سمجھا تو ؟؟"
"وہ ہماری بیٹی ہے حسان وہ کیوں ہمیں غلط سمجھے گی.." حنا پریشان ہوئی تھی..
"کیوں کہ میں اس کا مجرم ہوں.. کیوں کہ میں سب جانتا ہوں.. لیکن پھر بھی میں نے چھپایا...دل ڈرتا ہے، سب جان کر اگر وہ مجھ سے نفرت کرنے لگی تو..؟؟؟
اگر ہمیں چھوڑ گئی تو...؟؟؟"  بات کرتے ہوئے حسسان کی آواز بھرا گئی تھی..
حسان کی بھیگی آواز وہ صاف سن سکتی تھی.. وہ اندازہ کر سکتی تھی کہ وہ رو رہے ہیں..
شانزے کا دل تڑپ تھا.. اس کا دل چاہا تھا کہ وہ بھاگ کر جا کے ان کے آنسو سمیٹ لے..
"حسان یہ آپ کیا کر رہے ہیں... "تڑپ تو حنا بھی گئیں تھیں..
"وہ ہماری بیٹی ہے.. صرف ہماری، وہ کیوں ہمیں چھوڑ کے جائے گی،میں اسے نہیں جانے دوں گی.. وہ میری بیٹی ہے.. آپ نے مجھے لا کر دی تھی..آپ نے کہا تھا کہ یہ ہماری ہے تو آخر آج آپ کیسے کہہ سکتے ہیں.. آپ سوچ بھی کیسے سکتے ہیں..
اور اگر ایسا ہی ہے تو آپ نہ بتائیں اسے.. "حنا خود بھی رو پڑی تھی.. 
"حنا یہ اب ناممکن ہے.. اس کے رشتہ داروں میں سے کوئی اسے ڈھونڈھ رہا ہے..
اور جلد یا بدیر انھیں پتا چل ہی جائے گا.. اور پھر شانزے کا سوچو..
اس کے ساتھ بھی تو ناانصافی ہے نا... "حسان انھیں سمجھا رہے تھے..
شانزے میں مزید سننے کی ہمت نہیں تھی وہ کیا کرے سمجھ نہیں آرہا تھا..
وہ تو حسان سے اپنے بیتے کل کا حساب مانگنے آئی تھی..
لیکن اب احساس ہوا تھا.. کہ ماں باپ سے حساب کرنا اتنا آسان کہاں تھا..
پیروں سے زمین کھسک گئی تھی.... اسے اپنا آپ خلا میں اڑتا محسوس ہوا..
جہاں ہر طرف اندھیرا تھا.. جو پوری طرح اسے اپنے آپ میں لپیٹ رہا تھا..
شانزے کی آنکھیں بند ہوئی تھیں... اور وہ زمین پے گر پڑی تھی..
آخری آواز جو اس نے سنی وہ شاید اریزے کی تھی.. لیکن وقت نے مہلت نہیں دی کہ وہ ریکٹ کرے..
................................
"کیا ہوا اماں، یہ شور کیسا تھا؟" عنیقہ جو کل سے اپنے کمرے میں بند اپنے ٹھکرائے جانے کا سوگ منا رہی تھی.
باہر آکر تائی جان سے پوچھنے لگی.
"ارے کیا ہونا ہے ایک ہی مصیبت نامہ ہماری زندگیوں میں لکھا گیا ہے، اور وہ شانزے ہے. "تائی جان نے بڑا دل جلایا تھا.
"اوہ - اماں آپ بھی نا.. سیدھا سیدھا بتائیں ہوا کیا ہے." عنیقہ ماں سے جنجھلائی تھی.
"ہونا کیا ہے.. بیہوش ہو گئی تھی، ڈاکٹرکے لے کر گئے ہیں ہوش میں ہی نہیں آرہی تھی. "تائی جان نے اسے اطلاع دی تھی.
"اچھا ہی ہے نہ آئے،" عنیقہ کہتی واپس چلی گئی تھی.
تائی جان اس کے پیچھے گئیں تھی. وہ بستر پے گری آنسو بہا رہی تھی.
"ارے میری بچی دل کیوں جلاتی ہے، دفع کر اسے.. "
تائی جان نے تسلی دی تھی، ان سے بیٹی کی حالت دیکھی نہیں جا رہی تھی.
"اماں کیسے دفع کروں.. ایک تو اچھا لڑکا ملا تھا اور وہ بھی.. "عنیقہ پھر رونے لگی تھی.
"اے لو.. ایسا بھی کیا تھا یوسف میں، اس سے بھی اچھے لڑکے پڑے ہیں دنیا میں.. "تائی جان نے بات کا رخ موڑا تھا.
"اچھا کہاں مجھے کیوں نہیں نظر آتے.." عنیقہ رونا بھول گئی تھی.
"تم دیکھو تو نظر آئیں گے نا۔"تائی جان نے اس کی عقل پے ماتم کیا تھا.  
"اماں کہاں دیکھوں.." عنیقہ بولتے بولتے روکی تھی.. "آپ کا مطلب احد ؟؟؟" عنیقہ نے ماں کی طرف دیکھا تھا.
اور وہ دونوں ہنس پڑیں تھیں.
................................
"بلڈ پریشر خطرناک حد تک لو ہے، جس کی وجہ سے ہارٹ بیٹ مس ہوئی ہے..
کوئی صدمہ ، یا کوئی بات ہوئی ہے جو وہ برداشت نہیں کر سکیں ہیں۔" ڈاکٹر نے حسان کو مخاطب کیا تھا.
"نہیں ڈاکٹر ایسا تو کچھ نہیں ہے۔"حسان نے پریشان ہوتے کہا تھا.
"ٹھیک ہے، لیکن آپ کو خیال کرنا پڑے گا، فی الحال خطرے سے باہر ہیں. کچھ دیر میں ہوش آجائے گا. لیکن ابھی کچھ کہہ نہیں سکتے. اس لئے کسی قسم کا اسٹریس بھی ان کے لئے پریشانی کا باعث بن سکتا ہے. 
کچھ میڈیسن ہیں جو آپ نے کنٹینیو کرنی ہوں گی۔"ڈاکٹر نے میڈیسن لکھ کے دی تھیں..
"حسان ڈاکٹر کیا کہہ رہے ہیں۔"می جانی اور پھوپو فوراً بولیں تھیں.. جبکہ اریزے کچھ چپ سی تھی۔
"ڈاکٹرکہتے ہیں کسی بات کا صدمہ لیا ہے اس نے، کسی قسم کا سٹریس بھی اس کے لئے خطرناک ہو سکتا ہے.."
"کس بات کا کیا ہوا ہے..؟؟ "پھوپو حیران تھیں..
"مجھے تو خود کچھ سمجھ نہیں آرہا، ابھی کچھ دیر پہلے تو ٹھیک تھی اب اچانک کیا ہو گیا..
حسان ایک دم ہی کافی تھکے سے لگ رہے تھے، شانزے کی چھوٹی سی تکلیف بھی انھیں پریشان کرتی تھی..لیکن اب تو بات ہی اتنی سیریس تھی. 
اریزے مزید کچھ چپ ہوئی تھی، وہ کسی گہری سوچ میں تھی..
حسان کو لگا شانزے کی وجہ سے ہے اس لئے انہوں نے اس کو دلاسہ دیا تھا. لیکن بات یہ نہیں تھی.
اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ شانزے کو کیا ہوا ہے. اس کی بہن اتنی کمزور تو کبھی نہیں تھی.کوئی بات اسے اتنا پریشان کرتی، تو پھر ایسا کیا ہو گیا..
اریزے کے ہاتھ میں فون بج رہا تھا... کال عثمان کی تھی..
"اسلام وعلیکم.."عثمان کی آواز ہمیشہ کی طرح فریش تھی.  
"وعلیکم اسلام.." اریزے نے اپنے خیالوں میں گم کہا تھا.
"اریزے تم ٹھیک ہو..؟" عثمان پوچھے بنا نہیں رہا تھا. وہ اس کی آواز کی تبدیلی کو اچھے سے پہچان سکتا تھا.
"جی.. "اریزے رونے لگی تھی..
"اریزے پلیز کیا ہوا ہے.. آپ بتائیں تو سہی... ایسے تو تم صرف مجھے پریشان کر رہی ہو. "عثمان فکر سے بولا تھا..
جس کام کے لئے اس نے فون کیا تھا اچانک وہ بھی بھول گیا تھا.
"وہ شانزے... "اریزے نے پھر رونے لگی تھی..
"کیا ہوا شانزے کو.. ؟"عثمان نے اتنی زور سے کہا تھا..
یوسف جو ابھی حسین کے روم میں داخل ہو رہا تھا، عثمان کی طرف آیا تھا..
"بھائی سب خیریت ہے.؟؟" اس نے عثمان کو پوچھا تھا. جبکہ عثمان نے اسے خاموش رہنے کا اشارہ کیا تھا.
"پلیز اریزے بولیں شانزے کو کیا ہوا..؟؟" عثمان اس سے پوچھ رہے تھے، جب کہ کے چہرے پہ پریشانی واضح تھی.
"وہ.. ہسپتال میں ہے.. "اریزے نے بات مکمل نہیں کی تھی جب اس نے عثمان کو کہتے سنا تھا.
"یوسف تم گاڑی نکالو.."
 یوسف ایک دم ہی پلتا تھا.
 "اور آپ پلیز مجھے بتائیں کون سے ہسپتال میں ہم ابھی آرھے ہیں..آپ پریشان نہ ہوں..." وہ اب سیڑھیاں اتر رہے تھے.. جب کہ اریزے انھیں ایڈریس بتا رہی تھی.    
................................
"میرا خیال ہے آپ سب لوگ اب گھر چلے جائیں.. جیسے شانزے کو ہوش آتا ہے. ہم بتا دیں گے سب کو.."حسان فکرمند تھے لیکن سب کا اس طرح پریشان ہونا بھی انھیں ٹھیک کہاں لگ رہا تھا..
اور پھر می جانی وہ تو جب سے آئی تھیں روئے ہی جا رہی تھیں..
"ہاں میرا خیال ہے حسان ٹھیک کہہ رہا ہے اب چلتے ہیں، پھر آجائیں گے. "
تائی جان جو اب سے کچھ دیر پہلے ہی آئی تھیں فوراً بولیں..  
"پاپا میں یہیں رکوں گی پلیز" اریزے نے منت کی۔
 حسان سمجھ رہے تھے اس کی حالت، وہ رو نہیں رہی تھی..لیکن پھر بھی انھیں اندازہ تھا کہ وہ بہت پریشان ہے..
"چاچو میں بھی رکتا ہوں.. ایسا کرتے ہیں احد کے ساتھ امی اور خالہ کو بھیج دیتے ہیں.."
احد جو ہر چیز سے بےنیاز کھڑا تھا..وجی کے کہنے پے چونکا تھا. وہ آ تو گیا تھا، کسی جذبے میں کھنچ کر لیکن اسے کوئی خاص دلچسپی نہیں تھی.
وہ سب باہر کی طرف بڑھ گئے تھے.
................................
"آپ دونوں گاڑی میں بیٹھیں میں آتا ہوں۔" احد کہتا ہوا ہسپتال کی پارکنگ میں بنی شاپ کی طرف بڑھا تھا..
اس نے اپنے لئے جوس لیا تھا، جب ایک مانگنے والا بچی اس سے پیسے مانگ نے لگی،
"ے بھائی.. دے دینا.. الله کے نام پہ دے دے... "بچی نے اس کے آگے ہاتھ پھیلایا تھا..
"بھاگو یہاں سے.. "وہ بچی احد کو بڑی اریٹیٹ کر رہی تھی..
"بھائی دے دینا.. دعا کروں گی.. "
"کہا نا جاؤ یہاں سے.. منہ اٹھا کے مانگنے کے علاوہ کوئی کام نہیں ہے تم لوگوں کو. محنت تو تم لوگوں کو آتی نہیں ہے."احد چلا رہا تھا.. اب اسے بہت غصہ رہا تھا.. 
"بھائی... "بچی نے احد کے ٹراؤزر کو پکڑا تھا، احد کو لگا اس نے ساری حدیں پر کر دیں، اس نے بچی کو دھکادیا تھا..
وہ زمین پے گر گئی تھی.. احد غصے میں اس کی طرف بڑھا تھا، وہ اٹھ پاتی اس سے پہلے اس نے اس کو لات مارنا چاہا تھا.
لیکن کسی نے بڑی تیزی سے بچی کو اس کے آگے سے کھینچا تھا.
" تم ٹھیک ہو بیٹا؟"وہ اب بچی سے پوچھ رہا تھا.
وہ ڈر گئی تھی.. تبھی بھاگتی چلی گئی تھی..
"ریلیکس برو، بچی ہے.. نہیں دینا مت دو لیکن اس طرح کا رویہ.. یہ تو غلط ہے.." اس نے اطمینان سے احد کو کہا تھا..
"تم ہوتے کون ہو مجھے بولنے والے، تم لوگوں کی وجہ سے انہیں شہہ ملتی ہے،
تمھی دیکھ کر لگتا نہیں کہ اس کا تمہارا کوئی رشتہ ہو سکتا ہے.. ایک مانگنے والی بچی کے لئے تم مجھے لکچر دے رہے ہو." احد ابھی بھی غصے میں تھا..
"میں کوئی نہیں ہوتا بولنے والا.. نہ میں شہہ دے رہا ہوں. میں صرف اتنا کہہ رہا ہوں.. کہ بچے بچے ہوتے ہیں..معصوم.. نہیں دینا نہ دو پر.. ہاتھ نہ اٹھاؤ.."وہ شخض آگے بڑھا تھا لیکن پھر پلٹ کر آیا.."اور ہاں ہم سب کے درمیان اللہ تعالیٰ نے جو خوبصورت رشتہ رکھا ہے نا اسے انسانیت کہتے ہیں.."
احد کو منہ توڑ جواب ملا تھا وہ اپنی گاڑی کی طرف بڑھ گیا تھا..
جبکہ وہ ابھی بھی وہیں کھڑا تھا، جب کسی نے پیچھے سے کہا تھا..
"یوسف کیا ہوا..؟" عثمان نے اسے کھڑا دیکھ کر پوچھا تھا..
"کچھ نہیں بھائی اندر چلتے ہیں..  "
................................
"کہاں رہ گئے تھے..؟؟ "روبینہ نے گاڑی چلاتے احد سے پوچھا تھا، جو ایک منٹ کا کہہ کر اچھا خاصہ ٹائم لگا کر آرہا تھا.
"ماما کچھ نہیں بس وہ جوس لینے میں دیر ہو گئی تھی.." اس نے ان کو مطمئن کیا تھا..
"روبینہ تم بھی کیا بیٹے سے سوال کر رہی ہو، آج کل تو لوگ بیٹیوں سے نہیں پوچھتے.. "تائی اماں نے جان کرکہا تھا.
"نہیں بھابھی ایسا نہیں ہے، بیٹا ہو یا بیٹی ماں باپ کا فرض ہے کہ اولاد سے پوچھیں.".
وہ اپنے دل کے چور پہ گھبرائیں تھیں اصل بات یہ تھی کہ وہ اپنے بیٹے کی جھگڑالو طبیعت سے واقف تھیں.
" تم تو بھولی ہو.. ابھی تک انہی ریتی رواجوں میں جی رہی ہو..اب اپنے گھر میں شانزے کو ہی دیکھ لو، مجال ہے جو کبھی کسی سے کوئی مشورہ کر کے کام کرے..
ارے میری انیقہ تو کوئی کپڑا بھی لیتی ہے تو دس دفعہ پوچھتی ہے. امی لوں یا نہ لوں...
اور آنے جانے کا تو تم نے دیکھ ہی لیا ہے.. کوئی ٹائم نہیں ہے.. "تائی جان نے بلا آخر بات کو موڑ ہی دیا تھا..
(انہوں نے دبی زبان میں بولا تھا، ڈر تھا کہ آگے بیٹھی بہن نہ سن لے، کچھ بھی تھا وہ بگاڑ نہیں سکتیں تھیں.)
"نہیں بھابھی، مجھے تو بڑی پیاری لگتی ہے، اور پھر یونیورسٹی میں ہے.. ہزار مسئلے ہوتے ہیں..ٹریفک.. یہ.. وہ.. دیر سویر ہو جاتی ہے.. "روبینہ کی آواز میں محبت تھی.. جب کہ روبینہ کی سوچ کا رخ مڑا تھا..
"ارے تم کچھ بھی کہو، یہ لڑکیاں جنھیں باہر کی ہوا لگ جائے نا ان کے پاؤں زمین پے نہیں ٹکتے.. "تائی جان نے پھر کہا..
"اچھا..!!!! چھوڑیں ان باتوں کو... ابھی دعا کریں ٹھیک ہو جائے، بچی بیچاری.. پتہ نہیں کس کی نظر لگ گئی.. "روبینہ نے افسوس کا اظہار کیا تھا..
"ارے نظر نہیں روگ لگ گیا ہے.. سنا نہیں تم نے ڈاکٹر نے کہا تھا صدمہ لگا ہے..
ارے بتاؤ بھلا کیسا صدمہ شام میں تو بڑی خوش خوش آئی تھی.. مجھے تو لگتا ہے.. عشق وشق کا مسئلہ ہے..
تبھی تو ایسے ہو رہی ہے مرنے والی.. ورنہ شانزے اور اور کسی بات کا صدمہ، میں نہیں مانتی.."تائی جان نے کنکھیوں سے نند کو دیکھا تھا..
جن کی مضبوط سوچ میں انہوں نے غلط فہمی کی ایک کھڑکی تو کھول ہی دی تھی..  
................................
عثمان اور یوسف دونوں ہی وہاں تھے، یوسف اب پاپا اور وجی سے باتیں کر رہا تھا..
جبکہ عثمان ڈاکٹر سے مل کر تسلی کرنا چاہتے تھے...تبھی نرس نے آکر کہا تھا۔
"آپ کے پیشنٹ کو ہوش آگیا ہے.."
وہ سب اندر آگئے تھے.. شانزے کی آنکھیں بند تھیں..دماغ میں پھر سوال جواب کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا.. اس نے آنکھیں بند کر لیں تھی..
اس کی تکلیف کا اندازہ اس کے چہرے سے لگایا جا سکتا تھا.
"شانزے میرے بچے.. "پاپا اس کے پاس بیٹھے تھے اس نے آنکھیں کھول دیں تھیں..
"پاپا.. "وہ اٹھنا چاہتی تھی پاپا نے اسے سہارا دے بٹھایا تھا لیکن وہ ان کے سینے سے لگ کے رونے لگی تھی..
"میں آپ سے بہت پیار کرتی ہوں پاپا.. میں صرف آپ کی بیٹی ہوں.."وہ روتے ہوئے بہت آہستہ آواز میں بول رہی تھی.. اتنی کہ پاپا مشکل سے سمجھے تھے.
"میں بھی اپنی بیٹی سے بہت پیار کرتا ہوں.." حسان کی آواز کپکپائی تھی..
"وعدہ کریں آپ کبھی مجھے خود سے دور نہیں کریں گے.. "شانزے کو سمجھ نہیں آرہا تھا وہ کیا بولے..اور نہ حسان سمجھ پا رہے تھے وہ کیا بول رہی ہے... بس وہ تو اس کی ہر بات میں ہاں کر رہے تھے..
پیچھے کھڑے چاروں لوگ شانزے کا تڑپنا دیکھ کر پریشان تھے، کسی  کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا ہوا ہے..
حسان سے برداشت نہیں ہوا تھا وہ رونے لگے تھے..
"ایسے نہیں کرتے اپنے پاپا کے ساتھ بیٹا.. بس اب چپ.."
جب وجی پاپا کی طرف بڑھے تھے.. اور عثمان شانزے کی طرف..
ان دونوں نے شانزے اور پاپا کو الگ کیا تھا.. وجی نے پاپا کو حوصلہ دلایا تھا..
جبکہ عثمان نے شانزے کے سر ہاتھ پھیرا تھا..
"ارے میں تو بڑا بہادر سمجھتا تھا.."
عثمان نے کہا تو مسکرائی تھی لیکن بولی کچھ نہیں تھی.
 اس کی آنکھوں میں خاموشی تھی.. تاریک، کالی رات جیسی کچھ پل کے لئے عثمان بھی ہِل گئے تھے..لیکن سمجھ نہیں پا رہے تھے..
" شانزے بچے اب ٹھیک ہو نا ؟؟؟ "
"جی بھائی.." شانزے نے آہستہ سے جواب دیا تھا..
اریزے اب اس کے پاس آئی تھی.. اس کا دل کسی انہونی کا علان کر رہا تھا.
"میں ڈاکٹر سے مل کے آتا ہوں. "پاپا باہر کی طرف گئے تھے، تو عثمان بھی ان کے ساتھ ہی چلے گئے تھے..
"یہ کچھ میڈیسن ہیں۔" نرس نے ایک پیپر بڑھایا تھا، جو وجی نے فوراً لے لیا تھا..
"میں لے کر آتا ہوں.."
یوسف بہت دیر تک شانزے کو دیکھتا رہا تھا، وہ بھی اریزے کی طرح شوک میں تھا..
اسے بھی سمجھ نہیں آرہا تھا، کیا ہوا ہے، کیوں ہوا ہے.. لیکن بہرحال اس نے خود کو سنبھالا تھا.
"واہ - مس شانزے حسان.. مزے ہیں آپ کے تو.. "وہ شانزے کے پاس بیٹھتے بولا تھا..
شانزے اور اریزے دونوں حیران ہوئی تھیں..
"اگر ٹاپک چوز کرنا نہیں آرہا تھا تو بول دیتیں.. اتنا ڈرامہ کرنے کی کیا ضرورت تھی..؟؟"اس نے ناراضی سے بولا تھا۔
 شانزے ہنس پڑی تھی..
یوسف اور اریزے دونوں نے سکون کا سانس لیا تھا.. لیکن کچھ تھا جو پریشان کر رہا تھا..
"چلو کیا یاد کرو گی.. کس حاتم سے پلا پڑا ہے.. یہ کام میں کر دوں گا.. "
اس کے بولنے پہ پھر سے ہنسنے لگی تھی.
................................
"آپ شانزے کو لے جا سکتے ہیں، ابھی مزید رکھنے کی ضرورت نہیں ہے..
لیکن حسان صاحب، آپ کو خیال کرنا ہو گا، شانزے کی حالت سے صاف ظاہر ہے کہ وہ کسی سٹریس میں ہے،اور اگر اس کی حالات ایسی ہی رہی تو پھر اس کے لئے مشکل ہو سکتا ہے.." ڈاکٹر نے حسان سے کہا تھا.
"جی ڈاکٹر میں آپ کی بات سمجھ رہا ہوں. "حسان خاموشی سے باہر آگئے تھے.
"کیا ہم کسی کو کنسرن کریں ڈاکٹر ؟؟" عثمان نے پوچھا تھا..
"نہیں فلحال اس کی ضرورت نہیں ہے، آپ تسلی کرنا چاہیں تو الگ بات ہے.. " ڈاکٹر نے عثمان کو کلئیر کیا تھا.
وہ دونوں اب شانزے کے پاس جا رہے تھے، عثمان ابھی تک پریشان تھے..
"انکل آپ پریشان نہ ہوں، سب ٹھیک ہو جائے گا.. اگر آپ پریشان ہوں گےتو باقی سب کو سنبھالنا مشکل ہو جائے گا. "عثمان نے انھیں تسلی دی تھی.
عثمان نے ہاں میں سر ہلایا تھا.. وہ دونوں اندر آگئے تھے.
"چلو گھر چلیں.. "عثمان نے شانزے کو پیار کیا تھا. پچھلے کچھ گھنٹوں میں انہیں وہ بہت کمزور لگی تھی..
...........................................
"ٹھیک ہے انکل ہم گھر چلتے ہیں۔" عثمان نے حسان سے کہا تھا.
"ایسے کس طرح بیٹا آپ لوگ اندر آئیں.. پلیز اپنا گھر سمجھیں.. "حسان شرمندہ ہوئے تھے.. کیونکہ پورا ٹائم عثمان بغیر کہے ان کے ساتھ رہی تھے. گھر آنے کے ٹائم بھی عثمان نے ان کی ایک نہیں سنی تھی،اور خود چھوڑنے آئے تھے..
"انکل کوئی فارمیلٹی نہیں ہے... آپ جانتے ہیں پاپا ابھی ہسپتال میں ہیں اور ہمیں وہاں بھی پہنچنا ہے.."عثمان نے سہولت سے انکار کیا تھا.
"ٹھیک ہے.. لیکن آپ دونوں کا بہت شکریہ جس طرح سے آپ لوگ آئے اور ہمارا خیال کیا.. "
حسان کچھ اور کہتے لیکن عثمان نے بات بیچ میں ہی کاٹ دی تھی...
"انکل اب آپ شرمندہ کر رہے ہیں.. اور ویسے بھی بھائی کبھی بہنوں پہ احسان نہیں کرتے..اور شانزے تو میری سب سے پیاری بہن ہے.. "انہوں پھر شانزے کو پیار کیا تھا.. جو ابھی تک باپ کے سینے سے لگی کھڑی تھی..
"اچھا اب ہم چلتے ہیں، شانزے اپنا خیال رکھنا.. "
شانزے نے چھوٹے بچوں کی طرح ہاں میں سر ہلایا تھا..
وہ دونوں جا چکے تھے.. اور حسان اپنی دونوں بیٹیوں سمیت گھر میں داخل ہوئے تھے..
..................................
 سب اپنی تسلی کر کے جا چکے تھے..
لیکن پاپا اب تک شانزے کے پاس ہی بیٹھے تھے وہ بار بار انکو دیکھتی..اور حسان ہر بار اسے پیار کرتے.. اریزے نے بہت غور سے دیکھا تھا اس کو..
پاپا کے وہ ہمیشہ قریب رہی تھی.. لیکن اس وقت وہ ایسے برتاؤ کر رہی تھی جیسے پاپا کے کھو جانے کا ڈر ہو..
لیکن مشکل یہ تھی کہ وہ کچھ کہہ نہیں سکتی تھی..
"شانزے تمہیں پاپا پہ کتنا بھروسہ ہے.. ؟"حسان نے اچانک پوچھا تھا..
شانزے اور اریزے دونوں چونکیں تھیں..
"خود سے بھی زیادہ.. "شانزے نے آہستہ سے کہا تھا.
"تو پھر کیا اپنے پاپا کو نہیں بتاؤ گی کیا مسئلہ ہے... کیا پریشانی ہے... ؟"حسان اس کے سر میں ہاتھ پھیر نے لگے تھے..
شانزے نے بہت دیر اپنے باپ کو دیکھا تھا، وہ کہنا چاہتی تھی وہ حساب چاہتی تھی پر ان کی محبت نے اسے مجبور کردیا تھا.
"ایسی کوئی بات نہیں ہے پاپا.. صبح سے کچھ کھایا نہیں تھا تو اس لئے شاید..."شانزے نے سفید جھوٹ کہا تھا.."میں بس کمپیٹیشن کے لئے بہت پریشان ہو گئی تھی.. میں جیتنا چاہتی ہوں پاپا.." شانزے نے ان کو بہلایا تھا..
"اتنی سی بات کے لئے کوئی ایسا کرتا ہے، تم جانتی ہو، تم نے اپنے پاپا کی جان نکل دی تھی.. "حسان نے پیار سے کہا.
"سوری پاپا.. "شانزے شرمندہ ہوئی تھی..
"چلو اب بس اب جلدی ٹھیک ہو جاؤ.. "اریزے نے پاس آتے کہا تھا.. "میں زیادہ خدمتیں نہیں کر سکتی."وہ اس کے لئے جوس لائی تھی.. شانزے نے جوس کا گلاس پکڑ لیا تھا۔
"چلو شاباش اب سو جانا تم دونوں.. اریزے بیٹا بہن کو میڈیسن دے دینا یاد سے.. "
حسان ہدایت دیتے چلے گئے تھے..
.............................................
صبح سب ناشتے کی ٹیبل پہ تھے.. گزری شام کی وجہ سے سب ہی لیٹ تھے آج..
جب شانزے آئی تھی.. وہ رات سے کافی بہتر لگ رہی تھی.
"کیسی ہو بیٹا..؟" پھوپو نے بہت پیار سے پوچھا تھا..
"ٹھیک ہوں اب.. "وہ کہتی کرسی کھینچ کر بیٹھ گئی تھی.
"شانزے تم کیوں اٹھ گئیں بیٹا آرام کرتیں.. "می جانی جو پلیٹ میں پراٹھے لا رہی تھیں. اس کو دیکھ کر حیران ہوئیں.
"میں ٹھیک ہوں می جانی، پھر مجھے یونی جانا ہے ابھی.."شانزے کی اطلاع نے سب کو حیران کیا تھا..
"لیکن شانزے تمہاری طبیعت ابھی ٹھیک نہیں ہے.. اور پھر ڈاکٹر نے کہا تھا تمہیں آرام کی ضرورت ہے.."می جانی اس کے فیصلے سے حیران تھیں..
"جی می جانی پر کمپیٹیشن کا لاسٹ سیشن ہے اور میں نہیں چاہتی کہ صرف طبیعت کی وجہ سے میں ہار جاؤں..."شانزے نے پراٹھا اور چائے اپنے آگےکی تھی..
"شانزے تمہاری بات ٹھیک ہے بیٹا لیکن تمہاری طبیعت.. "
وہ زیادہ کچھ بولتیں، اس سے پہلے ہی پاپا نے نے انھیں روک دیا تھا.
"میرا خیال ہے ہمیں شانزے کو سپورٹ کرنا چاہیے اور یہ تو اچھی بات ہے گر وہ خود اچھا محسوس کر رہی ہے."حسان نے جان بوجھ کر بولا تھا..
انہوں نے شانزے کی رات کو کہی بات مان لی تھی،کیونکہ وہ جانتے تھے کہ وہ صرف انھیں تسلی دے رہی ہے.. لیکن حقیقت یہ تھی کہ انکا دل ماننے کو تیار نہ تھا.
اس لئے انہوں نے شانزے کے جانے کے لئے حامی بھری تھی، وہ چاہتے تھے کہ شانزے کا دماغ بٹے،اور جو سوچیں وہ پال رہی ہے.. وہ ان سے کہے بھلے نہ پر باہر ضرور آجائے..
"می جانی میں ٹھیک ہوں.. آپ پریشان نہ ہوں جلدی آجاؤں گی۔" شانزے نے ان کے گلے لگ کر کہا تھا..
"حسان مجھے تم سے کچھ بات کرنی ہے.." روبینہ نے کہا تھا، تائی جان ٹھٹھکی تھیں لیکن چپ رہیں.
"چلو میں ذرا چینج کر لوں۔" حسن کہہ کر اٹھے تھے، جبکہ باقی سب بھی اپنے کاموں میں لگ گئے تھے..
"دیکھا کہا تھا نا میں نے.." اب دیکھو ذرا رات میں اتنا خوار کیا سب کو اور اب نکل پڑی..
کہنے کو تو میری سگی بہن ہے، پر کیا کہہ سکتے ہیں ایک یونیورسٹی کے نام پہ باہر رہتی ہے،اور دوسری آفس کے نام پہ.."
تائی جان جو بہت دیر سے خاموش تھیں.. سب کو جاتا دیکھ فوراً نند سے بولیں..
جبکہ روبینہ ان کی بات سن کہیں دور جا نکلیں تھیں..
..................................
شانزے حسین سے ملنے آئی تھی.. خلاف توقع روم میں کوئی نہیں تھا.. اور حسین بھی آنکھیں بند کیے لیٹے تھے..
شانزے اندازہ نہیں کر سکی کہ وہ سو رہے ہیں یا صرف لیٹے ہیں.. وہ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی ان کے پاس آگئی تھی.
بہت دیر تک وہ حسان کو دیکھتی رہی، اسے لگا حسین میں  سے بالکل ویسی خوشبو آرہی ہے، جیسی اس کی ماں میں سے آتی ہو گی، شانزے حسین کے بیڈ پہ پڑے ہاتھ پہ جھکی تھی..
"ماموں جان" دیکھیں میں ہوں آپ کی زینب کی شانزے.."اس نے دل میں کہا تھا..
جانے کیسی عقیدت تھی کہ اس کی آنکھیں بہنے لگیں تھی.. اس کے آنسو حسین کی ہتھیلی پہ گرے تھے..
حسین کے ہاتھوں میں جنبش ہوئی تھی،
شانزے کو کچھ سمجھ نہیں آیا اس لئے جلدی سے پہلے اپنے اور پھر حسین کے ہاتھ پہ گرے آنسو صاف کیے تھے..
"زینی... "اسی وقت حسین نے آنکھیں کھولیں تھیں...
"ارے شانزے بیٹا آپ.." حسین نے اپنی آنکھیں صاف کی تھیں..
شانزے کچھ جھینپ گئی تھی، اس نے غور سے انھیں دیکھا تھا، 
وہ دونوں ہی ایک دوسرے پہ حیران اپنے جذبات کو کنٹرول کر رہے تھے.
"کب آئیں آپ..؟؟" حسین اٹھ کر بیٹھے تھے..
"بس ابھی.. "شانزے اٹھ کر ان کے لئے جوس نکالنے لگی تھی.. 
"بیٹا رہنے دو تمہاری آنٹی آکر کر لیں گی تم یہاں آکر بیٹھو میرے پاس۔" حسین نے اسے بلایا تھا.
پر وہ پھر بھی ان کے لئے جوس ڈال کر لے آئی تھی..
"بس اتنی سی بات تھی.. "شانزے نے جوس کا گلاس پکڑایا تھا..
"اب تم بتاؤ.. کیسی طبیعت ہے اب..؟؟" حسین کی آنکھوں میں فکر نمایاں تھی..
"عثمان نے بتایا تھا، میرا دل تو بہت اداس ہو گیا تھا." حسین نے اس کی حیرانگی دیکھ کر بتایا تھا.
شانزے آنکھیں پھر پگھلنے لگیں تھیں،، لیکن اس نے خود کو سنبھال لیا تھا..
"میں ٹھیک ہوں.. آپ پریشان نہ ہوں، ڈاکٹر نے بھی آپ کو منع کیا ہے نا." شانزے بہت پیار سے بول رہی تھی..
اس کا دل بھر بھر آرہا تھا.. شانزے سے مشکل ہو رہا تھا اپنے جذبات کو سنبھالنا.
"شانزے تم.. "اندر آتے یوسف نے حیران ہو کر کہا تھا.
"کیوں مجھے نہیں آنا چاہیے تھا کیا..؟ اگر تم بولتے ہو تو نہیں آؤں گی.. "اس نے یوسف کو سوالیہ نظروں سے دیکھا تھا..
"میرا وہ مطلب نہیں تھا.. دراصل.. "یوسف نے بولنا چاہا تھا.. جب شاہینہ پہلے ہی بول پڑیں..
"یہ کون ہوتا ہے منع کرنے والا.. "انہوں نے آگے ہو کر شانزے کو پیار کیا تھا..
اور اب اس سے حال چال پوچھنے میں مصروف تھیں.. جبکہ یوسف دل جلا کر رہ گیا تھا.
کچھ پل تو اسے بڑا غصہ آیا تھا.. اسے بالکل توقع نہیں تھی کہ وہ آئے گی.. لیکن.. وہ سچ میں ایک ہی تھی..
"بھائی کہاں ہیں پاپا.. ؟"یوسف نے حسین سے پوچھا تھا..
"باہر شاید ڈاکٹر سے ملنے سے گیا ہے.. "
"میں دیکھتا ہوں.. "یوسف باہر نکل گیا تھا۔
"کیسی ہو شانزے.. ؟"عثمان نے اندر آتے پوچھاتھا..
"ٹھیک ہوں بھائی." شانزے ہلکا سا مسکرائی تھی.
"لیکن تمہیں آرام کرنا چاہیے تھا. "عثمان نے بڑی سنجیدگی سے بولا تھا.
جبکہ یوسف سب کو چائے دینے میں مصروف تھا.
"بھائی میں ٹھیک ہوں اب.. اور پھر انکل سے تو ملنا تھا.."
"ہممم... لیکن اب تم ملنے نہیں آسکو گی.. "عثمان نے سیریس منہ بنایا تھا..
"کیوں.. ؟"وہ پریشان ہوئی تھی..
"کیوں کہ آج تو پاپا کو چھٹی مل جائے گی.. اور وہ گھر آجائیں گے.. "عثمان اب بھی سیریس تھا..
"ٹھیک ہے تو پھر میں گھرنہیں جاتا.. "حسین نے بچوں کی طرح کہا تھا..
شانزے ہنس پڑی تھی.. یوسف نے پلٹ کر دیکھا تھا کل رات سے پہلی دفعہ اسے لگا تھا کہ وہ دل سے ہنسی ہے..
"آپ فکر نہ کریں میں گھر آؤں گی آپ سے ملنے.." شانزے نے ہنستے ہوئے کہا تھا..
"پکا وعدہ..؟" حسین نے ہاتھ آگے کیا تھا..
"جی بی جان پکا وعدہ. "شانزے انکے ہاتھ پہ ہاتھ رکھتی روانی میں بول گئی تھی..
لیکن شاید کسی نے بھی توجہ نہیں دی تھی.. سوائے حسین کے، وہ اپنی جگہ سن ہو گئے تھے..
شانزے کو بھی اپنی غلطی کا احساس ہو گیا تھا..کیونکہ وہ جانتی تھی،، کہ اس کی ماں انھیں پیار سے بی جان کہتی تھیں..
جوانہوں نے اس کے باپ کو لکھے جانے والے خط میں کئی بار لکھا تھا..
"اچھا اب چلتے ہیں.. دیر ہو رہی ہے.." شانزے کھڑی ہو گئی تھی.. یوسف بھی خیالوں سے نکل آیا تھا..
وہ دونوں الله حافظ کہتے باہر آگئے تھے..
جبکہ حسین خاموشی سے واپس بستر پہ لیٹ گئے تھے.
............................
"جی آپا آپ کیا کہہ رہی تھیں...؟" حسان ہال میں آکر ان کے پاس بیٹھے تھے.. تبھی تائی جان نے جھانکا۔۔
"حسان میں تم دراصل... اصل میں کیا ہے نا... اتنے سالوں سے میں وہاں اتنی دور کبھی رشتوں کو ٹھیک سے محسوس نہیں کر سکی.. پھر تم جانتے ہو الله نے مجھے بیٹی بھی نہیں دی.. تو میں ہمیشہ سوچتی تھی، کہ میری کمی میرے احد کی دلہن پوری کرے گی.. اس لئے میں نے سوچا کہ میں خاندان کی لڑکی لوں..اور پھر احد نے بھی اعتراض نہیں کیا اس لئے میں یہاں چلی آئی اپنے خاندان میں.."
(اچھا تو میرا شک ٹھیک تھا... تائی جان نے دل میں سوچا تھا).
"میں چاہتی ہوں تم مجھے نا امید نہ کرو.. مجھے اریزے... "
"بس بس.. اریزے کا نام نہ لینا... میں نے تو برسوں سے سوچا تھا اریزے میری ہے..."
تائی جان فل ساؤنڈ میں شروع ہوئی تھیں وہ بھی پوری بات سنے بغیر..
"ارے بھابھی میری بات تو پوری ہونے دیں.. "روبینہ نے کہنا چاہا تھا..
"بس روبینہ تم سے پہلے میرا حق ہے.. آخر کو تایا کا حق زیادہ بنتا ہے.. "
تائی جان فل سپیڈ میں تھیں اس بار وہ لڑکا ہاتھ سے نہیں جانے دے سکتیں تھیں..
"بھابھی آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں.. پر.." حسان نے کہنا چاہا تھا لیکن تائی جان پھر بیچ میں بولی تھیں..
"ارے وجی کے ابا آپ بھی تو کچھ بولیں.. میں کہتی ہوں حسان ابھی مجھے ہاں کرو میں کل برات لے آؤں گی.."
تائی جان نے تو حد ہی کر دی تھی.."بس تم نے اریزے میری جھولی میں ڈالنی ہے.".
حسان اب سچ میں پریشان تھے.. ایک طرف بہن تھی ایک طرف بھابھی..
"یہ کیا ہو رہا ہے..؟" وجی بڑا حیران تھا.. ان کی آوازیں سن کر وہ اندر ہی آگیا تھا..
"ارے کچھ نہیں، بس آج میں تمہارا اور اریزے کا رشتہ پکا کر رہی ہوں، تم تیاری پکڑ لو.. "تائی جان نے بم پھوڑا تھا.
" امی آپ یہ کیا کہہ رہی ہیں.. ایسا نہیں ہو سکتا.." وجی نے حسان کی مشکل آسان کی تھی..
"ارے لو کیوں نہیں ہو سکتا کیا خرابی ہے اریزے میں.. "تائی جان نے ابھی بھی بات جاری رکھی تھی..
"امی میں نے کبھی اریزے کو اس نظر سے نہیں دیکھا.. وہ میرے لئے بہنوں جیسی ہے.. "وجی پریشان تھا.
 "لو بھئی، یہ بھی نئی کہی، ارے لیکن یہ رشتہ جائز ہے.." تائی کو اپنا منصوبہ ڈوبتا محسوس ہوا تھا.
"آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں. لیکن میں نے عنیقہ اور اس میں کوئی فرق نہیں سمجھا تو میں کیسے..اور سب سے بڑی بات میں کہیں اور انٹرسٹڈ ہوں.. "وجی نے گویا دھماکہ کیا تھا..
کمرے میں خاموشی چھا گئی تھی.. تائی جان کا دل چاہا تھا وہ بیٹے کا منہ رنگ دیں لیکن سب کا لحاظ کر گئیں.
"ارے میں نہیں مانتی کوئی پسند وسند... جو میں نے کہہ دیا تمہیں ماننا پڑے گا.. "تائی جان نے ہٹ ڈھرمی دکھائی تھی.
"ٹھیک ہے اگر آپ کو میری پسند قبول نہیں.. تو میں پھر اس گھر میں نہیں رہوں گا، چلا جاؤں گا. اور یاد رکھیے گا..میں نے واپس کبھی نہیں آنا.." وجی نے دھمکی دی تھی..
"ارے جاؤ.. جاؤ بہت دیکھ...."
" بس بیگم بہت ہوا چپ کر جائیں.. "فرقان نے پہلی بار مداخلت کی تھی بات میں..
"وجی تم جہاں چاہتے ہو تمہاری شادی وہیں ہو گی.. "تایا جان نے انھیں ٹھنڈا کیا تھا آخر کو وہ ان کا سہارا تھا..
"یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں..؟"
" بس بیگم اب ایک لفظ اور نہیں.. "فرقان کی آواز اب   کی بار کافی بلند تھی..
"اور صاحب زادے بتا دیں کب جانا ہے.. ؟"تایا جان نے اب کی بار وجی کو مخاطب کیا تھا.. 
"پاپا میں آج ہی ان لوگوں کو گھر بلا لیتا ہوں.. "وجی نے جلدی سے کہا تھا، انھیں بھی ماں سے خطرہ پڑ گیا تھا..
"ارے لو یہ بھی نئی آئی ہے.. اب لڑکی والے آئیں گے،، تف ہے بھئی۔" تائی جان کو تو پتنگے لگ گئے تھے..
"ابا.. میرے باس کی بیٹی ہے.. بہت بڑے گھر میں رہتے ہیں وہ لوگ، میں چاہتا ہوں دیکھ لیں کہ ہم لوگ کیسے ہیں."وجی نے صفائی دی تھی...
"آپا میرا خیال ہے، وجی سہی کہہ رہا ہے.. "می جانی نے اس کی حمایت میں ووٹ کیا تھا..
"میرا بھی یہی خیال ہے.. "حسان نے بھی اپنا ووٹ دیا تھا..
"ہاں ہاں سب ہم خیال ہیں.. تو بلاؤ پھر دیر کیسی۔" تائی جان جو شوہر کے خیالات سے واقف تھی جل کر بولیں..
"چلو بھئی بہت مبارک ہو تمہیں.. "حسان نے بھتیجے کو گلے سے لگایا تھا..
"ارے نام تو بتا جا کل موئی کا۔"وہ دونوں باہر نکل رہے تھے جب انہوں نے پیچھے سے کہا تھا۔ 
"مانیہ.. "وہ دونوں چلے گئے تھے، محفل برخواست تھی..
تایا جان اپنے بقول تائی جان کے اپنے حجرے میں گھس گئے تھے..جبکہ می جانی اپنی بہن کو لے کر اچھی سی چائے پلانے چلیں گئی تھیں..جبکہ روبینہ بیگم کی بات بیچ میں رہ گئی تھی..
............................
"کیا ضرورت تھی تمہیں آنے کی... آرام نہیں کر سکتیں تھیں...؟" یوسف نے گاڑی چلاتےغصے سے کہا تھا..
"کر سکتی تھی.. لیکن پھر سوچا تمہارا سکون برباد کون کرے گا..." شانزے نے ہنستے ہوے کہا تھا.
"میرا سکون برباد کرنے کے لئے ساری زندگی پڑی تھی،آرام سے کر لیتیں، جلدی کس بات کی تھی.."وہ ابھی بھی غصے میں تھا..
"بس بس.. یہ باتیں کہانیوں میں، ڈراموں میں اچھی لگتی ہیں، اصل زندگی میں یہ سب نہیں ہوتا.."شانزے کی ہنسی پھیکی تھی اس بار.. (اسے اپنی ماں کا خط یاد آیا تھا.
جس میں اس کی ماں نے رو رو کےاس کے بیوفا باپ کی منت کی تھی کہ وہ اسے نہ چھوڑے..)
یوسف اس کی طرف پوری طرح اس کی طرف مڑا تھا..
"نہ ڈرامہ... نہ کہانی.. میں اپنے پورے ہوش حواس میں کہتا ہوں.
کہ میں یوسف میر.. نہ صرف اپنا سکون، بلکہ اپنی پوری زندگی شانزے حسان کے لئے برباد کر سکتا ہوں."
کچھ دیر کے لئے دونوں کے درمیان خاموشی چھاہ گئی تھی.. 
"تم تو یوسف ہو.. تمہیں کوئی ذلیخا مل جائے گی.". شانزے کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی تھی..
"میں یوسف ہوں، پر مجھے ذلیخا نہیں چاہیے... مجھے شانزے چلے گی.." یوسف اب سامنے کی طرف دیکھ رہا تھا..
................................
"یہ لو..اس میں سے جو تمہیں اچھی لگے تم اپنے لئے رکھ لو.. جو رہ جائے گی وہ میں لے لوں گا.."(یوسف شاید اس کی دماغی حالت سمجھ رہا تھا...اس لئے اس نے ان دونوں کی ڈبیٹس تیار پہلے سے کر لی تھی... تاکہ شانزے کو زیادہ محنت نہیں کرنی پڑے..)
شانزے نے حیران ہوتے اسے دیکھا تھا.. اور پھر ڈبیٹس دیکھنے لگی تھی..
"یہ سب تم نے کب کیا..؟؟" وہ حیران تھی.. ڈبیٹس بہت اچھے ٹوپک پہ اور بہت اچھے سے لکھی گئیں تھیں...
"کل رات میں.." یوسف نے اطمینان سے جواب دیا تھا..
"ایک رات میں..؟؟" شانزے نے اب بھی اپنی حیرانگی ظاہر کی تھی۔" تو تم سوئے نہیں کیا.. ؟"(شانزے نے دل میں اس کی قابلیت کی داد دی تھی.)
"ہاں۔" جواب مختصر تھا.
"لیکن کیوں... ؟ہمارے پاس آج کا ٹائم تھا.. ہم کر سکتے تھے۔" شانزے کے دل کو کچھ ہوا تھا..
"بس وہ نیند نہیں آرہی تھی تو سوچا کام کر لیا جائے.. "یوسف نے پراعتماد لہجے میں کہا تھا..
کچھ دیر شانزے دیکھتی رہ گئی تھی.. اسے یاد آیا تھا وہ کل پوری رات سکون سے سوئی تھی.. جبکہ یوسف...
"کیا ہوا کہاں گم ہو گئیں...؟؟؟" یوسف نے اس کی آنکھوں کے آگے ہاتھ لہرایا تھا..
"کہیں نہیں... تھینک یو.. "شانزے مسکرائی تھی..
"تھینک یو نہیں ٹریٹ.. یاد ہے نا... ؟"یوسف نے اسے کڑے تیوروں سے دیکھا تھا..
"ہاں ہاں.. یاد ہے..  "پہلی بار اس کی آنکھیں اس کے ساتھ مسکرائیں تھیں..
یوسف کو اندر سکون پھیلتا محسوس ہوا تھا، وہ سچ میں اپنی ویران آنکھوں سے اسے بےسکون کرتی رہی تھی..
"چلو اب بتاؤ تم نے دونوں میں سے کس کی تیاری کرنی ہے.. ؟"یوسف نے اس سے پوچھا تھا..
"ہممم... تم بتاؤ میں کس کی تیاری کروں..؟؟" کچھ دیر سوچنے کے بعد اس نے دونوں پپرز یوسف کے آگے کیے تھے..
یوسف مسکرایا تھا، سامنے بیٹھی اس بےترتیب لڑکی پہ اسے ڈھیروں پیار آیا تھا..
(جو ہزار بار ٹوٹی.. ہزار بار بنی... جو اندرسے بہت صاف شفاف ہے.. بہتے آبشار کی طرح. جس کی معصومیت اس کے چہرے سے ہی نہیں آنکھوں سے بھی جھلک پڑتی تھی.)
"کیا ہوا کیا سوچ رہے ہو؟ اب بتاؤ بھی..." شانزے نے پوچھا تھا.
وہ مسکرانے لگا تھا، اب کیا بتاتا وہ کیا کیا سوچتا تھا..
"اچھا.. تو پھر یہ والی.. ویسے تو یہ دونوں ٹوپک میں نے لکھیں پر یہ میرے دل کے بہت قریب ہے.."
یوسف نے پیپرز اس کی طرف بڑھائے تھے.. اور شانزے نے چپ چاپ اس سے لے لیا تھا..
.......................................
وہ لوگ کافی حد تیاری کر چکے تھے.. اس لئے اب کینٹین کی طرف آگئے تھے..
آج کل یہی ان کا دوسرا ڈیرہ تھا.. وہاں سب تھے ہمیشہ کی طرح لیکن رانیہ غائب تھی..
"کیا ہوا سب خاموش کیوں ہو گئے؟" شانزے نے بیٹھتے ہوئے پوچھا تھا.. اس نے غیر معمولی خاموشی محسوس کی تھی..
"بولو... کیا ہوا ہے..؟" شانزے اب رو دینے کو تھی اسے سمجھ نہیں آرہا تھا وہ لوگ ایسے کیوں کررہے ہیں..
(کل سے کچھ ایسا ہی تھا، وہ بات پہ بات رونے کو تیار تھی اور یوسف نے یہ بات محسوس کی تھی تبھی اس نے محسن کو اشارہ کیا تھا.اور وہ بول پڑا تھا..)
"وہ کیا ہے نا شانزے.... "وہ بولتا اس سے پہلے سب شور کرنے لگے تھے..
"لوزر.... لوزر... یہ... "وہ سب شور کر رہے تھے..
شانزے کی رکی سانس ان کے شور کے ساتھ بحال ہوئی تھی...
"ارے کوئی بتاؤ تو ہوا کیا..؟؟" شانزے نے حیران ہوتے بولا تھا.
"ہونا کیا ہے.. موصوف کہہ رہے تھے لڑکیاں کبھی چپ نہیں رہتیں، تو لگ گئی شرط..جو بولے وہ کنڈی کھولے.. میرا مطلب ہے.. کینٹین کا بل دے... "زارا نے جوش سے بولا تھا..
شانزے کو ہنسی آئی تھی۔
"ارے واہ یہ تو بہت مزے کا تھا.."
"ہاں... یہ تو ہے.." مہک نے اس کی طرف بہت پیار سے دیکھا تھا..
"کیا خاک مزے کا تھا تمہاری وجہ سے میں ہا ر گیا۔" یوسف نے منہ بنایا تھا..
"بس.. بس.. زیادہ ڈرامہ نہیں.. ویسے بھی ہار ہار ہوتی ہے.. اصلی نقلی نہیں.. "صبا نے فیصلہ کیا تھا..
"اوکے لیڈیز.... تو بتائیں اپنی اپنی فرمائشیں..." محسن نے تابعداری دکھائی تھی..
وہ کاؤنٹر کی طرف بڑھا تھا جب یوسف بھی پیچھے گیا تھا..
"رک جا میں دیتا ہوں.. "یوسف نے اسے پیسے دینے سے روکا تھا..
"کیوں..؟؟؟" محسن حیران ہوا تھا..
"کیونکہ تو میرے کہنے پہ ہارا تھا.. "یوسف نے اسکے کندھے پہ ہاتھ رکھا تھا.
"بس کر دے پلیز... تو اس سے محبت کرتا ہے.. اور اس حوالے سے میرے لئے بہت محترم ہے وہ..اور پھر صرف یہی بات نہیں آخر کو دوست ہے میری.. اور پھر تو بھی میرا دوست ہے...تو تجھے لگتا ہے میں دوستی میں کچھ کرنے کے پیسے لوں گا تجھ سے.. "محسن نے بہت دکھ سے کہا تھا..
"اچھا.. اچھا.. زیادہ اموشنل مت ہو.. رلائے گا کیا اب.." یوسف نے اس کی کمر میں ہاتھ مارا تھا.
وہ ٹیبل کی طرف آگئے تھے..سب نے چیزوں سے انصاف شروع کر دیا تھا.
وہ سب آپس میں ہلکا پھلکا مذاق کر رہے تھے..
سوائے شانزے کے وہ صرف دیکھ رہی تھی...
" کیا ہوا کھاؤ نا.. "صبا نے اس کو ہلایا تھا..
"ہاں.. ہاں.. کھاؤ.. کیا یاد کرو گی کس سخی سے پلا پڑا تھا. "محسن نے کالر جھاڑا تھا..
"کنگلے سے کہو.. "مہک نے بات ماری تھی،،، وہ سب ہنسنے لگے تھے..
.......................................
شانزے دونوں پاؤں سیٹ پے رکھ کر بیٹھی تھی، اس نے آنکھیں بند کر کے بیک سیٹ سے سر ٹکایا تھا.
یوسف کو لگا وہ سو رہی ہے اس لئے اس نے ساؤنڈ سسٹم بند کیا تھا..
"کیا ہوا..؟ بند کیوں کر دیا.. ؟"شانزے نے سوالیہ نظروں سے دیکھا تھا..
"مجھے لگا تم سو گئی ہو.. "یوسف نے صاف گوئی سے کہا تھا.
"نہیں میں جاگ رہی ہوں.." شانزے شرمندہ ہوئی تھی..
"تو پھر مجھ سے بات نہیں کرنا چاہتیں تھیں..؟؟ "یوسف نے جان بوجھ کر تنگ کیا تھا.
"ایسا نہیں ہے.." شانزے نے ایک دم پریشان ہو کر کہا تھا، یوسف کو ہنسی آئی تھی..
"اچھا تو پھر کیسا ہے..؟؟" یوسف نے پھر سے پوچھا تھا.
"بس ایسے ہی،"شانزے نے بات ادھوری چھوڑی تھی اور دوبارہ سر سیٹ سے لگائے تھا بس اس بار آنکھیں بند نہیں کی تھیں.
"اچھا اب ایسا منہ تو نہ بناؤ ورنہ.. "یوسف نے جان بوجھ کر بات ادھوری چھوڑی تھی..
"ورنہ کیا....؟؟؟" شانزے پھر سے اٹھ بیٹھی تھی.. 
"چھوڑو تم ناراض ہو جاؤ گی..." یوسف نے اب پھر اسے تنگ کیا تھا..
"یوسف بتاؤ.. ورنہ مجھ سے برا کوئی نہیں ہو گا.." شانزے نے اپنے انداز میں دھمکی دی تھی..
"فور یور کاینڈ انفارمشن... تم سے برا کوئی ہو بھی نہیں سکتا.. "یوسف نے اسے چڑایا تھا اور وہ چڑ بھی گئی تھی...
"بتاؤ نا یار ورنہ کیا..." شانزے نے مکا بنا کر اس کی بازو میں مارا تھا..
" بتا دوں...؟؟ "یوسف نے کنفرم کیا تھا..
شانزے نے ہاں میں سر ہلایا تھا..
"ورنہ یہ کہ جب تم ایسے منہ بناتی ہو تو مجھے... مجھے ہنسی آجاتی ہے یار.." یوسف نے کہہ کر قہقہہ لگایا تھا..
اس کے ایسے ہنسنے پر شانزے کو بھی ہنسی آگئی تھی..
"اور لیں میڈم گھر بھی آگیا.. "یوسف نے گاڑی روکی تھی..
"اب تم آرام کرنا، کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ہے، باقی تیاری کل کریں گے، ٹھیک ہے..؟"یوسف نے اس کے سر میں ہاتھ پھیرا تھا..
"کل ملتے ہیں.." شانزے کہہ کر اتر گئی تھی.. وہ گاڑی کے سامنے سے ہوتی اندر جا رہی تھی.. جب یوسف نے آواز دی..
"شانزے.." اس کی آواز سن کر وہ رک گئی تھی..
"ہاں... "وہ ڈرائیونگ سیٹ کے پاس آئی تھی..
"اپنا خیال رکھنا.. پلیز." یوسف نے بہت پیار سے کہا تھا..
شانزے کے اندر تک سکون پھیلا تھا... اور ہونٹوں پہ بےساختہ مسکراہٹ..
......................................
وہ اندر آئی تو تو گھر میں غیر معمولی چہل پہل تھی.. ڈراینگ روم سے بڑے ہنسنے بولنے کی آوازیں آرہی تھیں..
"اچھا ہوا تم آگئیں... کیسی طبیعت ہے.. ؟"می جانی اسے اندر آتے دیکھ کہا تھا وہ خود کچن میں مصروف تھیں..
"مہمان آئے ہیں..؟؟" شانزے وہیں ہال میں ڈائننگ میں بیٹھ گئی تھی..
" ہاں.. وجی کا رشتہ طے کر رہے ہیں، لڑکی والے ہیں اندر.. "انہوں نے اسے اطلاع دی تھی..
"اچھا یہ کب ہوا...؟؟" شانزے حیران تھی..
"آج صبح وجی نے کہا وہ پسند کرتا ہے کسی کو... تو بس پھر تمہارے تایا جان اور پاپا نے کہا مل لیتے ہیں..جب لڑکا لڑکی راضی، تو پھر کیا کرے گا قاضی.. "انہوں نے اپنے عام سے انداز میں کہا تھا۔
"اوہ - تو وجی بھائی نے بتا دیا آخرکار.. "شانزے نے پانی پیتے کہا تھا..
"تم جانتیں تھیں..؟" می جانی حیران ہوئی تھیں..
"ہاں زیادہ کچھ نہیں بس ایک دو بار فون پہ بات کرتے دیکھا تھا.." شانزے نے سچ کہا تھا..
"چلو اب تو پتا چل ہی گیا ہے.." می جانی تیزی سے ہاتھ چلاتے کہا تھا..
"سب اندر ہیں..؟" شانزے نے کچھ سوچتے ہوئے پوچھا تھا..
"ہاں بھئی... تمہاری تائی اور پھوپھی دونوں وہیں ہیں.. عنیقہ کو تو ہونا ہی تھا تم جانتی ہو اس کی عادت..
تم بیٹھو میں تمہیں ملک شیک دیتی ہوں.." می جانی نے فریج کی طرف گئیں تھیں..
"نہیں میں ٹھیک ہوں، لیں میں آپ کی مدد کر دیتی ہوں..  "شانزے اب آئل میں ڈالے رولز میں چمچہ ہلا رہی تھی.
"نہیں شانزے پہلے طبیعت ٹھیک نہیں ہے تم آرام کرو.. "انہوں نے روکنا چاہا تھا..
"میں ٹھیک ہوں آپ فکر نہ کریں.." اس نے ایک ہاتھ سے جوس پیا تھا..
......................................
"اریزے بڑے سہی وقت پہ آئی ہو چلو میرے ساتھ یہ سامان اندر لے چلو.. "می جانی نے آتے ہی اریزے کو حکم دیا تھا.
"کون آیا ہے.. ؟"اہتمام دیکھ کر اریزے نے پوچھ لیا تھا.
"ارے وہ بعد میں بتاؤں گی پہلے تم یہ سب رکھواؤ.. "می جانی بڑی جلدی میں تھیں..
"اوکے..." اریزے بڑے کھنچ کر کہا تھا، وہ پرس رکھ کر چیزیں اٹھانے لگی تھی، جب شانزے آگئی تھی..
"تم جاؤ فرش ہو یہ میں کر لیتی ہوں۔" اس نے اریزے کے ہاتھ سے چیزیں لیں تھیں..
"ارے نہیں تم آرام کرو.." اریزے نے کہنا چاہا تھا پر شانزے کے گھورنے پے چپ چاپ چلی گئی تھی..
می جانی کچھ چیزیں اندر رکھ کے آگئیں تھیں.. جب شانزے اندر گئی..
"اسلام وعلیکم... "اس نے اندر آتے کہا..
اور اسے لگا کمرہ پورا گھوم گیا ہے.. کمرے کے اندر داخل ہوتے ہی اس کی پہلی نظر رانیہ پے پڑی تھی..
"تم... ؟"بے اختیار رانیہ کے منہ سے نکلا تھا.. جبکہ شانزے کو چپ لگ گئی تھی..
"تم دونوں ایک دوسرے کو جانتی ہو؟" اس کے برابر میں بیٹھی لڑکی حیرت سے بولی تھی..
"ہاں... یہ یونیورسٹی میں میری جونئیر ہے.. آپی.. "
(اب وہ سمجھ گئی تھی کہ وجی کی ہونے والی سسرالی رانیہ کے گھر والے ہیں..)
"اوہ – اچھا۔" لڑکی نے ٹھنڈی آواز میں کہا تھا...
"آؤ بیٹا اندر آؤ.. یہ بچی کون ہے بہن بڑی پیاری ہے... "چھوٹے صوفے پہ بیٹھی رانیہ کی ماں نے کہا تھا..
"ارے بھئی، یہ شانزے ہے.. میرے دیور کی بیٹی ہے.. ویسے اس کی اپنی تو ایک بیٹی ہے..یہ تو اس نے لے کے پالی ہے..  نہ ماں کا پتا نہ باپ کا، بس لے آئے کہیں سے، میری بہن تو الله میاں کی گائیں ہے فوراٍ سے سینے سے لگا لیا.. کبھی کوئی فرق نہیں کیا دونوں میں.."تائی اماں اپنے جون میں کہہ رہی تھیں..
جبکہ شانزے کو لگا تھا زمین پھٹے گی اور وہ اس میں سما جائے گی لیکن قسمت ایسا کچھ نہیں ہوا..
شانزے نے چپ چاپ چیزیں رکھیں تھیں.. اس سے دوبارہ کسی سے نظریں نہیں ملائی گئیں..
وہ جانتی تھی، رانیہ کو اس لئے اس کی طرف دیکھنے کی ہمت نہیں تھی..
وہ باہر کی طرف بڑھی تھی.. پھوپو نے دکھ سے اسے جاتا دیکھا تھا جبکہ رانیہ کی بہن اور ماں کو سانپ سونگھ گیا...
لیکن شاید باہر سے آتے وجی نے سب سن لیا تھا اس لئے وہ شانزے کو کندھوں سے پکڑ کے لائے تھے..
"نہیں بھائی.. "شانزے نے منت کی تھی..
"نہیں... بہت ہو گیا اب بس.. "وجی نے اس کی آنکھوں میں پھیلا خوف دیکھ کر کہا تھا.
"آنٹی.. مانیہ.. ویسے تو میری تینوں بہنیں بہت پیاری ہیں.. لیکن یہ میری سب سے پیاری بہن ہے.. "وجی نے اس کا تعاروف کرایا تھا..
مانیہ مسکرا کے اٹھی تھی اور اسے گلے لگایا تھا..جبکہ وجی کے ساتھ آئے آدمی نے شانزے کے سر پہ ہاتھ رکھا تھا..(جو وجی کے سسر تھے،، غالباً وہ ان کو لینے ہی باہر گیا تھا..)
جس پہ عنیقہ نے واک آؤٹ کیا تھا.. جب کہ رانیہ کو لگا تھا کہ ایک بار پھر شانزے اس سے جیت گئی،،
اس نے تو سوچا تھا اب کبھی وہ اس سے نظریں نہیں ملا سکے گی..
مانیہ اسے لے وہیں کاؤچ پہ بیٹھ گئی تھی۔
"تم تو بہت پیاری ہو، جتنا وجی نے بتایا تھا اس سے بھی زیادہ.."مانیہ نے بہت پیار سے اس کے چہرے پہ ہاتھ پھیرا تھا.. اور شانزے سوچنے لگی تھی کتنا فرق تھا رانیہ مانیہ میں..
مانیہ پورا ٹائم شانزے کے ساتھ بیٹھی رہی، وہ اسے عادت کی بہت اچھی اور بہت مختلف لگی تھی..
ایسا نہیں تھا کہ اس نے اریزے یا عنیقہ کو اہمیت نہیں دی.. لیکن شانزے کے ساتھ وہ ویسی ہی تھی جیسے وجی..
بس وہ وجی کی طرح اسے چڑا نہیں رہی تھی.. باتوں کا دور دورہ تھا.. گھر کے سب افراد وہاں موجود تھے..سوائے تایا جان کے..
 "تو پھرطے پایا کہ دو ہفتے بعد منگنی.. اور پھر ایک مہینے بعد شادی.."حسن نے کہا۔
اور پھر مبارک باد کا شور اٹھا سب ایک دوسرے کو مٹھی کھلانے میں مصروف تھے..
ہر چیز اچھے سے طے پاگئی تھی.. وہ لوگ رانیہ اور اس کی فیملی کو باہر تک چھوڑنے آے تھے..
سب ایک دوسرے سے مل رہے تھے.. جب مانیہ نے اسے گلے لگایا تھا.
"شانزے بہت خوشی ہوئی تم سے مل کے.. مجھے بہت شوق تھا تم سے ملنے کا..بس ایک چیز مس کی.. تمہاری شرارتیں.. اب جلدی ٹھیک ہو جاؤ.. ہمم.. "اس نے شانزے کو کہا تو مسکرا دی.
"پھر کیسی لگی بھابھی..؟؟" وجی نے اس کے کندھے پے بازو پھیلائے تھے..
"اچھی.." شانزے نے مانیہ کا ہاتھ پکڑا تھا..
"بس اچھی.. "وجی نے خفا ہوتی نظروں سے دیکھا تھا..
"بہت اچھی.. "شانزے نے مانیہ کا ہاتھ وجی کے ہاتھ میں دے دیا تھا.. اور وہ دونوں ہی گڑبڑا گئے تھے..
جبکہ شانزے خود اندر آگئی تھی..
اس کی شرارت پہ وہ دونوں بھی ہنس پڑے تھے...
......................................
سب سونے کے لئے چلے گئے تھے.. اریزے بھی تھک کر کمرے میں آئی تھی..
جب اس نے شانزے کو کھڑکی میں کھڑے دیکھا تھا... وہ لیٹنے لگی تھی..
"تم سوئی نہیں.. ؟"اریزے نے پوچھا تھا.. لیکن شانزے نے کوئی جواب نہیں دیاتھا..
وہ اٹھ کر اس کے پاس آئی.. تو شانزے جانے کہاں بھی کھلے آسمان میں دیکھ رہی تھی..
اس کی آنکھوں میں ہزاروں شکوے تھے.. آنسو تھے..
"شانزے کیا ہوا..؟" اس نے دونوں بازوں سے پکڑ کے دیکھا تھا شانزے ایک دم سے ٹھنڈی ہو رہی تھی..
"کچھ نہیں.. میں ٹھیک ہوں.." شانزے جانے لگی تھی..
لیکن اریزے نے اس کا راستہ روک دیا تھا..
"مسئلہ کیا ہے بتاتی کیوں نہیں ہو...؟کیوں گھٹ گھٹ کے مر رہی ہو شانزے.. ؟کیوں خود کو تکلیف دے رہی ہو..؟" اریزے رونے لگی تھی..
لیکن پہلی بار ایسا ہوا تھا کہ شانزے اس کے رونے پہ بھی کچھ بولنے کے لئے تیار نہیں ہوئی تھی..
"ٹھیک ہے.. مت بولو میں ابھی جا کر می جانی اور پاپا کو بتاتی ہوں،" اریزے جانے کے لئے بڑھی تھی..
جب شانزے نے اس کا ہاتھ پکڑا تھا...
"نہیں پلیز نہیں..." وہ کہتی زمین پہ بیٹھ گئی تھی..
"تو پھر بولو شانزے تم میری بہن ہو..میری روح کا حصہ، بہنیں تو اپنے سب غم بانٹ لیتیں ہیں..تو پھر میں کیسی بدقسمت بہن ہوں، جو تمہارے آنسو نہیں پونچھ  سکتی.. "
اریزے اس کے ساتھ نیچے زمین پے ہی بیٹھ گئی تھی. شانزے اس کے گلے لگ گئی تھی..
وہ اب پہلے سے زیادہ رو رہی تھی.. کئی بار تو ایسا لگتا کہ وہ روتےروتے مر جائے گی...لیکن اریزے کو لگا اگر وہ نہیں روئی تو شاید گھٹ گھٹ کر مر جائے گی.. اریزے نے اسے اپنی باہوں میں بھرا تھا.
شانزے کبھی روتی... کبھی تڑپتی.. اور کبھی پاؤں پٹختی... اریزے سے اس کی حالت دیکھی نہیں جا رہی تھی..
وہ کبھی سنبھالتی.. تو کبھی رونے لگتی.. کبھی سوچتی پاپا اور می جانی کو بلائے لیکن یہ ممکن نہیں تھا..
ابھی تو اس نے شانزے کا بھروسہ جیتنا تھا، تبھی تو وہ اس کے دکھ کو کم کر سکتی تھی...
شانزے اب رو نہیں رہی تھی، لیکن ابھی بھی سسک رہی تھی.. اریزے نے اسے ابھی بھی خود میں سمیٹا تھا..
وہ شانزے کو مسلسل پیار کر رہی تھی..
"مجھے بتاؤ شانزے کیا بات ہے..ہم سب بانٹ لیں گئے... چاہے کیسا بھی غم کیوں نہ ہو.. "اریزے بہت پیار سے کہا تھا..
وہ نہیں چاہتی تھی کہ وہ پھر روئے.. شانزے آہستہ سے اس سے الگ ہوئی تھی.. اور اٹھ کے الماری میں سے وہ صندوق نکل لائی تھی... شانزے نے خط اریزے کی طرف بڑھا دئیے تھے..جس میں ایک بیٹی کی، ایک ماں کی داستان رقم تھی.. وہ داستان جو درد کی تھی... اپنوں کو چھوڑنے کی تھی.. جھوٹی محبت کی تھی...ایک بچی کے دربدر پھرنے کی تھی.. اریزے نے خط پڑھنا شروع کیے تھے..
زمین پیروں سے کھسکنا شروع ہو گئی تھی.. وہ کبھی روتی اور کبھی اپنی گودمیں لیٹی اریزے کو دیکھتی..
وہ سب پڑھ چکی تھی سری حقیقتیں کھل گئیں تھیں.. وہ دونوں بہت دیر سے خاموش تھیں..وہ آہستہ آہستہ اس کے بالوں میں ہاتھ پھیر رہی تھی..پھر یہ خاموشی..اریزے نے توڑی تھی..
"شانزے... ایک حقیقت تسلیم کر لو، تم کل بھی میری بہن تھیں اور آج بھی میری بہن ہو، کل بھی میری بہن رہو گی....می جانی اور پاپا  ہمارے ماں باپ ہیں.. اور دنیا کی کوئی بھی طاقت اس بات کو بدل نہیں سکتی.."
"سچ کچھ بھی ہو مجھے اس سے فرق نہیں پڑتا... مجھے صرف اتنا پتا ہے کہ ہم دو بہنیں ہیں..میں تمہاری ماما کو واپس نہیں لا سکتی.. میں نہیں جانتی وہ کیسی تھیں پر میں اتنا جانتی ہوں،کہ وہ تم سے پیار کرتیں تھیں.. اور تمہیں خوش دیکھنا چاہتیں تھیں،تو کیا تم ایسا کر کے ان کو دکھی کرنا چاہتی ہی.. نہیں نا.. تو پھر.. سب بھول جاؤ شانزے..
ہمارے لئے یہی بہتر ہے.. اور پھر میری بہن اتنی کمزور نہیں ہے کہ وہ ذرا سے جھٹکے سے ڈھے جائے..ہے نا..؟؟؟" اریزے نے اس کی آنکھوں میں دیکھا تھا اس نے آنکھیں بند کر لیں تھیں.. ایک آنسو آنکھوں سے گرا تھا..
اریزے نے فوراً اپنی بہن کے آنسو پونچھے تھے.. وہ ہلکا ہلکا اس کا سر دبا رہی تھی..
اور جانے کب دونوں  ایسے ہی نیند کی وادی میں گم ہو گئیں تھیں...
..........................................
"کہاں... ؟"اریزے نے تیار بیٹھی شانزے کو ناشتہ کرتے دیکھا تو پوچھا تھا..
"یونیورسٹی..." شانزے نے اطمینان سے کہا تھا رات کہ مقابلے میں وہ اب بہت بہتر لگ رہی تھی۔
"ساتھ میں چلتے ہیں، میں چھوڑ دوں گی.." اریزے نے ناشتہ ختم کرتے کہا تھا..
"ارے اریزے میری بات سنو.." وہ تیزی سے پیچھے گئی تھی، جب سامنے آتے احد سے ٹکرانے لگی تھی..اس نے خود بمشکل روکا تھا..
"آرام سے کیا ہو گیا ہے.." احد نے سینے پے ہاتھ باندھتے کہا تھا..
شانزے جھینپ گئی تھی... وہ واپس ہال کی طرف جانے لگی تھی..
"اب طبیعت کیسی ہے.. ؟"احد نے خودہی اس سے پوچھا تھا وہ دونوں ساتھ ساتھ چلنے لگے تھے..
"ٹھیک ہے.. "شانزے کا جواب مختصر تھا..
"ویسے تمہیں آرام کرنا چاہیے تھا.. "احد نے سنجیدہ لہجے میں کہا تھا، وہ کہیں سے بھی اس دن ولا احد نہیں لگ رہا تھا.
"وہ کمیٹیشن کی تیاری کرنی ہے.. پھر.. ایگزیمز ہیں پھر.. "خلاف توقع اس نے آرام سے جواب دیا تھا..
"ارے احد آپ اٹھ گئے... میں آپ کا ہی انتظار کر رہی تھی.. چلیں بتائیں آپ کیا کھائیں گے ناشتے میں؟میں خود آپ کے لئے بناؤں گی..." عنیقہ نے بڑے انداز سے کہا تھا..
"چلیں شانی... "اریزے نے پیچھے سے آتے کہا تھا.. اور اس نے سکھ کا سانس لیا تھا،
ابھی بھی احد کو برداشت کرنا مشکل تھا. وہ دونوں باہر کی طرف بڑھیں تھیں اور احد عنیقہ کے ساتھ..
"یہ کیا تھا...؟؟؟؟ آج سورج کہاں سے نکلا تھا؟"باہر نکلتی اریزے نے پوچھا تھا..
"مجھے نہیں پتا... میں دیر میں اٹھی تھی.. "شانزے نے لاپرواہی سے جواب دیا تھا..
اور وہ دونوں ہنس پڑیں تھیں.. جب ان کی نظر سامنے پارک کے پاس بنی بینچ پہ پڑی...
وہ دونوں حیران تھی.. وہ کوئی اور نہیں تھا، یوسف تھا..
"تم یہاں اتنی صبح..؟". شانزے نے حیران ہو کے پوچھا تھا..
"کیوں یہاں صبح آنا منع ہے..؟" یوسف نے الٹا سوال کیا تھا..
"میرا مطلب ہے کیا کر رہے ہو... ؟"شانزے نے پھر حماقت کی تھی..
"تمہارے ایریا کی آبادی گن رہا ہوں۔" اس نے ناراض ہوتے کہا تھا جبکہ اشارہ اس کا آتے جاتے لوگوں کی طرف تھا.
"تم سیدھا جواب نہیں دے سکتے؟" شانزے غصے میں بولی تھی.. جبکہ اریزے کا دل کیا تھا اپنا سر پیٹ لے..
"یار تمہارے لئے آیا ہوں.. تا کہ تمہیں لے کر جا سکوں پاپا سے ملوانے.. صبح چھ بجے سے کھڑا ہوں کہ کب میڈم آئیں اور شرف ملاقات بخشیں..." اس کے کہنے پے شانزے کو ہنسی آئی تھی..
"سوری اریزے میں بھول گئی تھی تمہیں بتانا.."
"کوئی بات نہیں تم جاؤ، میں بھی آفس چلتی ہوں.. "
"نہیں.. بالکل نہیں، آپ دونوں میرے ساتھ چل رہی ہیں.." یوسف نے فوراً بولا تھا.
"لیکن یوسف میں آفس... "
"لیکن ویکن کچھ نہیں ویسے بھی بھائی گھر میں ہیں آپ ان کے ساتھ جا سکتیں ہیں..
کیوں شانزے ؟؟" یوسف نے اس کی بات کاٹی تھی..
"چلو نا پلیز.. "شانزے نے اس کا ہاتھ پکڑا تھا..
"چلو...  "اریزے مان گئی تھی..
یوسف نے ڈرائیونگ سیٹ سنبھالتے ہی کال کی تھی..
"ہیلو... "دوسری طرف سے عثمان نے فون اٹھایا تھا..
"ہیلو چھوڑیں آپ فوراً اٹھیں اور تیار ہو جائیں.." یوسف نے جلدی سے کہا تھا..
"لیکن کیوں... میں نہیں اٹھ رہا۔" عثمان نے ماننے سے انکار کیا تھا..
تبھی شانزے نے گاڑی کے شیشے پہ نوک کر کے اشارے سے کہا تھا...
" کیا...؟؟؟؟"
"بھائی اٹھیں میں اپنی ہونے والی بھابھی اور آپ کی ہونے والی بھابھی دونوں کولےکر آرہا ہوں.."
یوسف نے کہہ کر فون رکھ دیا تھا اور ساتھ ہی لاک کھولا تھا، وہ دونوں اب گاڑی میں بیٹھ گئیں تھیں..
"سوری... دوست کا فون تھا.. "یوسف نے جھوٹ بولا تھا جبکہ شانزے نے اسے کڑے تیوروں سے دیکھا تھا.
(میں نہیں اٹھ رہا... کچھ بھی ہو جائے...عثمان فون سن کے دوبارہ لیٹ گئے تھے...
جب ان کے دماغ میں دھماکہ سا ہوا تھا... اوہ -  شٹ یوسف یہ کہہ رہا تھا..
وہ تیزی سے اٹھ کے واش روم کی طرف گئے تھے..)

.......................................

جاری ہے


CLICK ON READ MORE TO CONTINUE READING



Comments