"بدتمیز عشق"
از "ردابہ نورین"second
last Episode no 24
..................................
اندر آتے یوسف کے پاؤں
تھم گئے تھے. اس نے چاروں طرف دیکھا تھا،
اس کی تلاش ماما کی آواز
کے ساتھ ختم ہوئی تھی.
شانزے نہیں آج.. شاہینہ
بیگم نے پوچھا تھا..
آئ تھی. چلی گئی ہے..
حسین نے مختصر جواب دیا تھا. یوسف نے چورنظروں سے انھیں دیکھا تھا،
کیوں ؟؟ ماما نے حیرت سے
پوچھا تھا..
کہہ رہی تھی کچھ کام ہے
تو اس لئے.. حسین نے ابھی بھی جواب مختصر دیا تھا..
اچھا... ماما کا لہجہ
بوجھا تھا..
آپ کو کیا ہوا کیوں اداس
ہو رہی ہیں.. حسین نے شاہینہ سے بڑے پیار سے پوچھا تھا.
بس.. روز دیکھنے کی عادت
سی ہو گئی ہے... آج نہیں آئ تو دل اداس ہو رہا ہے.. وہ سچ میں اداس تھیں.
اوہ - تو میری وجہ سے چلی
گئی یوسف نے دل میں سوچا تھا.
اتنی ناراض ہے کہ ملنا
بھی نہیں چاہتی، سوچتے ہوے یوسف کی نظریں عثمان کی طرف اٹھیں تھیں،
تو وہ بھی اس کو ہی دیکھ
رہا تھا. یوسف نے نظرین جھکا لیں تھیں..
عثمان نے اس کے کندھے پے
ہاتھ رکھا تھا.
..................................
سب لوگ ہال میں جمع تھے،
اور ٹیمز اسٹیج پے... سب ٹیمز آپس میں کچھ نا کچھ ڈیکس کر رہی تھی سواے شانزے کے..
درد کی ایک شدید لہر
شانزے کے جسم میں دوڑی تھی.. لکین بہرحال وہ کچھ بھی نہیں کر سکتی تھی..
جبکہ کچھ ٹیمز یوسف کے نا
آنے کو ڈیسکسس کر رہیں تھیں، شاید سب جان گئے تھے کہ وہ اب کمپیٹیشن میں نہیں ہے..
اس کی آنکھوں میں نمی آنے
لگی تھی جبھی سامنے سے میم، سر اور ڈین صاحب آتے دیکھائی دیے تھے...
سب انھیں دیکھ کر سیدھے
کھڑے ہوے تھے،
سو ٹیمز آر یو ریڈی ؟؟
ڈین نے پوچھا تھا..
یس سر سب کی آواز آئ
تھی..
اوکے بیسٹ اوف لک وہ کہتے
آگے بڑھ گئے تھے..
اس سے پہلے کے ہم راؤنڈ
شروع کریں، میں آپ سب سے کچھ کہنا چاہتی ہوں..
میم کلثوم نے اپنے مخصوس
انداز میں بات شروع کی تھی..
آپ سب اپنی اپنی جگہ
بہترین ٹیمز ہیں اور ہمیں ہر ٹیم سے بہت سی امیدیں ہیں،
اور مجھے یقین ہے آپ سب
اس پے پورا اترنے کی ہر ممکن کوشش کریں گئے..
انہوں نے شانزے کی طرف
دیکھا تھا. جس کی آنکھیں اس کے اندر ہونے والے شور کا پتا دے رہیں تھیں..
آپ لوگوں میں سے کوئی کچھ
کہنا چاہتا ہے... میم نے اب سب سے پوچھا تھا..
انھیں لگا تھا کہ شانزے
پوچھے گی اپنے نیو پارٹنر کے بارے میں.. لیکن ایسا نہیں ہوا تھا، وہ نہیں بولی
تھی.
تھنک یو میم... سب نے ایک
ساتھ کہا تھا.. میم کلثوم جانے کے لئے موڑی تھیں.. جب شانزے نے آواز دی تھی..
میم.. میں کچھ کہنا چاہتی
ہوں... شانزے نے ہمت کر کے آواز دی تھی..
جی ؟؟ کلثوم روک گیں
تھیں.. انہوں نے خاموش نظروں سے شانزے کو دیکھا تھا.
وہ سمجھیں تھی کے وہ نیو
پارٹنر کے بارے میں پوچھے گی...
میں اس کمپیٹیشن سے نام
واپس لینا چاہتی ہوں.. شانزے نے ان کے سامنے کچھ فاصلے پے کھڑے ہو کر کہا تھا.
کلثوم کو لگا کسی نے بم
بلاسٹ کیا ہے.. یہ تو انہوں نے سوچا ہی نہں تھا.
باقی ساری ٹیمز بھی حیران
تھیں...
لیکن کیوں شانزے... وارث
تو بول ہی پڑا تھا...
میں نہیں کر سکوں گی..
شانزے نے بہت مختصر جواب دیا تھا.. جبکہ سب آپس میں چیم گویاں کر رہے تھے.
میں معذرت چاہتی ہوں..
شانزے نے بہت اعتماد سے کہا تھا. اس کا لہجہ بتا رہا تھا یہ اس کا آخری فیصلہ ہے..
میم... کوئی کچھ بولتا اس
سے پہلے پیچھے سے آواز آئ تھی.. سب کی نظرین آواز کی سمت گیں تھیں..
جہاں سے یوسف چلا آرہا
تھا.. وہ اکر شانزے کے برابر کھڑا ہوا تھا.. کچھ پل کے لئے وہ ساخت ہو گئی تھی..
میم.. آئی چینجڈ مائی
مائنڈ... یوسف نے بولا تھا..
یس... محسن نے دور سے ہی
اشارہ کیا تھا...
میں معذرت چاہتا ہوں اپنے
پچھلے رویے کے لئے.. یوسف نے میم کلثوم کو بولا تھا..
مجھے خوشی ہے تمہارے آنے
کی..
تمہارے آنے سے مجھے کچھ
ریلیف ملے گا... سر متنصر میم سے پہلے بولے تھے..
یوسف نے مسکرا کر ہاں میں
سر ہلایا تھا..
تو کیا آپ اب بھی نام
واپس لینا چاہتیں ہیں ؟؟ میم نے شانزے سے پوچھا تھا..
یہ بھی نام واپس نہں لے
رہی.. یوسف پہلے ہی بول پڑا تھا... شانزے مسکرائی تھی..
میم کلثوم ان دونوں کو
دیکھ کر مسکرائیں تھی.. ٹھیک گیٹ ریڈی..
وہ اسٹیج سے اتر گئے
تھے...
..................................
یہ سب کیا ڈرامہ چل رہا
ہے... رانیہ نے کچھ الجھتے ہوے پوچھا تھا..
وہ اصل میں تم بہت دنوں
کے بعد آئ ہونا اس لئے تمہیں سمجھ نہیں آیا گا تو پلیز اگنور.. صبا نے کہا تھا..
ویسے بھی یہ کوئی انڈین
ڈرامہ تھوڑی ہے کے چلتا رہے... مہک نے بھی لائن جوڑی تھی..
مطلب.. رانیہ اور پریشان
ہوئی تھی..
مطلب یہ کہ میڈم یہ
پاکستانی ڈرامہ ہے نا ایک اپیسوڈ میں بھی بہت کچھ ہو جاتا ہے..
تو اس کو سمجھنے کے لئے
نہ ساری اپیسوڈ دیکھنا پڑتی ہیں، صبا اور مہک دونوں تالی مار کے ہنسیں تھیں..
جبکہ رانیہ پیر پٹختی چلی
گئی تھی..
..................................
سب اپنی باتوں میں مصروف
تھے، گلے شکوے ختم ہو گئے تھے دونوں نے ایک دوسرے کو مسکرا کے دیکھا تھا..
تھنک یو... شانزے نے یوسف
کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا تھا..
صرف تھنک یو سے کام نہیں
چلے گا.. یوسف نے بھی اس کی آنکھوں میں دیکھا تھا، جہاں ابھی بھی نمی تھی.
تو پھر ؟؟ شانزے گڑبڑائی
تھی..
تو پھر یہ کے ٹریٹ دینی
پڑے گی.. جہاں میں بولو.. جب میں بولوں... یوسف نے پینٹ کی پاکٹ میں ہاتھ ڈالے
تھے..
اوکے.. ڈن.. شانزے نے مسکرا
کر کہا تھا.. اس کی مسکراہٹ ویسی تھی جیسے اکثر تیز بارش کے بعد دھوپ ہوتی ہے.
یوسف.. شانزے پریشان تھی
وہ کہنا چاہتی تھی کہ اگر وہ ہار گئی تو...
اب تم اپنی جگہ لو.. یوسف
نے شانزے کو کہا تھا، وہ جانتا تھا کہ وہ کیا کہنا چاہتی ہے،
اور یہ بھی کہ وہ نروس ہے...
لیکن اس کے کہنے پے وہ بغیر کچھ کہے ہی موڑ گئی تھی، وہ جانے کے لی موڑی تھی.
شانزے... جب اس نے پیچھے
سے آواز دی..
ہاں..؟؟ شانزے نے پلٹ کر
پوچھا تھا...
تم ہار بھی گیں تو کوئی
فرق نہیں پڑتا.. لیکن میری خواھش ہے کہ تم جیتو.. یوسف نے کہا تھا.
اور پھر وہ اسٹیج سے نیچے
آیا تھا..
..................................
آج کے پروگرام کے ٣ راؤنڈ
ہیں.. سر نے علان کیا تھا، شانزے اب پہلے سے زیادہ پریشان لگ رہی تھی.
ان دونوں نے تو صرف دو
راؤنڈ ڈیسکس کیے تھے. لیکن یہاں تو...
اس کی پریشانی نیچے ہال
میں بیٹھے یوسف نے نوٹ کی تھی..
اس نے شانزے کو اشارہ کیا
تھا ریلکس رہنے کا حالانکہ وہ جانتا تھا کہ ایسا کرنا بیکار ہے...
سر کی آواز مائک میں گنجی
تھی..
پہلا راؤنڈ ، سٹارٹ فرام
دا لاسٹ ورڈ.. جس کی شروعات میں یعنی آپ کا ہوسٹ کروں گا جہاں میرا شعر اینڈ ہو
گا.
وہاں سے آپ اپنا شعر شروع
کر سکتے ہیں... یہ ٹائم بانڈ ہے اگر کسی بھی پارٹیسیپینٹ نے 5 سیکنڈ سے زیادہ کا ٹائم لیا تو چانس دوسرے کو
دیا جائے گا، اگر آپ اپنے نمبر بچانا چاہتے ہیں تو نا آنے کی صورت میں فورن سے پاس
کہہ دیں..
اس راؤنڈ میں دو ٹیمز آوٹ
ہوں گی..
دوسرا راؤنڈ ، اٹیک دا
ورڈز... آپ کے سامنے لفظ بولا جائے گا جس سے آپ نے شعار کہنا ہو گا. لیکن موقع اس
کو ملے گا جو پہلے بزر پریس کرے گا... اس راؤنڈ میں ایک ٹیم آوٹ ہوں گی..
تھرڈ راؤنڈ میں آپ کو
پکچرز دیکھائی جائیں گی ، اس کی ڈیٹیل ہم راؤنڈ شروع ہونے سے پہلے دے دیں گئے..
اس
راؤنڈ میں ایک ٹیم آوٹ ہو گی.. تو جیسے کے آپ ١٠ ٹیمز یہاں کھل رہی ہیں،
اس کمپیٹیشن کے بعد صرف
ٹاپ 6 ٹیمز ہی آگے جائیں گی... یعنی یہاں سے آج 4 ٹیمز آگے نہیں جائیں گی..
تو اپنا کھیل شروع کرتے
ہیں اور دیکھتے ہیں وہ ٹیمز کونسی ہیں... آل دا بیسٹ...
جیسا
یوسف نے کہا تھا سب ویسا ہی تھا، صرف ایک راؤنڈ چینج تھا لیکن اس کے باوجود شانزے
پریشان تھی.
لیکن مشکل یہ تھی کہ اب
یوسف اس کے لئے چاہ کر بھی کچھ نہں کر سکتا تھا...
سر مستنصر کی آواز میں
پہلا شعر گنجا تھا.. اور اس کے ساتھ ہی مقبالہ شروع ہو گیا تھا..
شانزے نے ایک کے بعد ایک
کئی ورڈ پاس کیے تھے، ایسا لگ رہا تھا کے وہ سن ہی نہیں رہی ہے..
جس کا فائدہ دوسرے
پارٹیسیپینٹ کو خوب ہوا تھا،اور انہوں نے اچھا خاصا سکور فرسٹ راؤنڈ میں ہی کر لیا
تھا..
جبکہ سچ یہ تھا کہ اس کو
گھبراہٹ کی وجہ سے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا.. اس لئے وہ اچھا پرفارم نہیں کر پا رہی
تھی.
اور یہی بات اسے اور
زیادہ خوفزدہ کر رہی تھی.. وہ یوسف کی طرف نہیں دیکھ رہی تھی.
ایک بار پھر اس کے اوپر
ڈر سوار تھا... یوسف کے ناراض ہونے کا..
فرسٹ راؤنڈ ختم ہو گیا
تھا، سکور کی حالت بہت خراب تھی.. شانزے نے سکور کے لہٰذ سے کچھ بھی پرفارم نہیں
کیا تھا.
وہ 8 نمبر پے تھی یعنی سب
سے لاسٹ... سٹوڈنٹس کو فریش ہونے کے لئے ٹائم دیا گیا تھا..
وہ نیچے اتر آئ تھی..
گروپ کے سب لوگ خاموش تھے،
کسی نے بھی یہ نہں سوچا
تھا کہ شانزے پرفارم نہں کر سکے گی.
یوسف بلکل سامنے دیکھ رہا
تھا.. شانزے شرمندہ ہوتی چپ چاپ اس کے برابر میں اکر بیٹھی تھی..
شانزے کو لگا تھا کہ وہ
اسے سناے گا.. وہ دل ہی دل میں خود کو تیار کر رہی تھی.
یوسف نے زمین پے رکھے بیگ
میں سے جھک کر بوٹل نکال کر شانزے کی طرف بڑھائی تھی..
اس کے اتنے اچانک دینے سے
وہ ڈر گئی تھی..
میں نے کہا تھا تمہیں کہ
اگر تم ہار بھی جاؤ تو کوئی فرق نہیں پڑے گا... پر اتنی بری طرح سے نہیں..
یوسف نے اس کی طرف
بغیردیکھے کہا تھا. شانزے نے نظرین
جھکائین تھی..
میں اگلے راؤنڈ میں اچھے
سے کروں گی، مجھے نہں پتا تھا سب اتنی جلدی ہو گا،
حالانکہ مجھے اندازہ تھا
کہ کون سا وورڈ آنے والا ہے، لیکن میں ٹائم اور سپیڈ کو میچ نہں کر سکی..
کمپیٹیشن میں صرف اپنے
کانوں کو استعمال کرو جو سن رہی ہو اس پے ریکٹ کرو بجاتے اس کے، کہ تم سوچو..
یوسف نے بولا تھا وہ مزید
کچھ کہتا اس سے پہلے ہی دوسرا راؤنڈ سٹارٹ ہو گیا تھا..
شانزے اب کافی ریلکس
تھی.. اور یہی چیز اب اس کی گیم میں بھی نظر آرہی تھی..
اس کی پرفارمنس پہلے
راؤنڈ کی نسبت اب کافی بہتر تھی.. اس گروپ والوں نے بھی شکر ادا کیا تھا..
لیکن یوسف اب بھی خاموش
تھا، اس کی خاموشی سب نے محسوس کی تھی..
لیکن ابھی اس وقت اس کو
چھیڑنا کسی نے بھی مناسب نہں سمجھا تھا..
وہ مستقل اسٹیج کی طرف
دیکھ رہا تھا... ایسا لگ رہا تھا وہ پتھر کا ہو چکا ہے..
ایک سیکنڈ کو بھی اس نے
پلکیں نہیں جھبکائیں تھیں..
تبھی رانیہ آئ تھی.. اف
یہ لڑکی بھی نا.. مجھے ابھی تک یقین نہیں آتا کے اس نے تمہارے برابر سکور کیا
تھا..
پتا نہیں کیا سوچ کر تم
نے اس کو پارٹنر بنانا پسند کیا تھا، کہیں سے بھی یہ تمہارے برابر نہیں ہے...
بس الله کرے کے آج کا
راؤنڈ کسی طرح نکال لے.. پھر تو مجھے یقین ہے تم سب سمبھال لو گئے..
رانیہ نے اپنی فطرت سے
مجبور ہو کر کہا تھا..
صبا کچھ کہنے کے لئے آگے
بڑھی تھی..جب محسن نے اسے روکا..
وہ دیکھو.. اس نے یوسف کی
طرف اشارہ کیا تھا..
جو دنیا جہاں کا غصہ
آنکھوں میں لئے اس کو ہی دیکھ رہا تھا..
مجھے یقین ہے وہ جیتے
گی.. لیکن اگر وہ ہار بھی جاتی ہے تو مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا..
یوسف کے الفاظ میں اتنی
سختی تھی کہ رانیہ سمیت سب ہی حیران رہ گئے تھے..
وہ دوبارہ سامنے دیکھنے
میں مصروف تھا.. جہاں رزلٹ بتایا جا رہا تھا..
جبکہ رانیہ کی آنکھوں کے
گوشے بھیگنے لگے تھے.. وہ روکی نہیں تھی...
رزلٹ اب کافی چینج تھا...
شانزے 4th
نمبر پے تھی، سب بہت خوش تھے ،ایٹ لیسٹ وہ نیکسٹ راؤنڈ میں جا رہی تھی..
سٹوڈنٹ کو ریلیف دیا گیا
تھا.. شانزے.. اب نیچے آرہی تھی...
وہ یوسف کی طرف آئ تھی جو
کافی سیریس تھا، زیادہ خوش مت ہو..
یوسف نے بولتے ہوے اسے
جوس کی بوٹل واپس کی تھی جو وہ چھوڑ کے گئی تھی...
وہ اب بھی اس کی طرف نہں
دیکھ رہا تھا.
اس کے پورے گروپ کو سانپ
سونگھ گیا تھا، یوسف کا سرد لہجہ دیکھ کر ان کا سارا جوش ٹھنڈا پڑ گیا تھا..
یہ سب بائی چانس تھا...
تمہارے پاس آپشن تھا.. نیکسٹ راؤنڈ میں ایسا کچھ نہیں ہے..
وہاں صرف تمہیں اپنے
نمبرز ہی ارن کرنے ہیں... یوسف نے کافی سیریس لہجے میں کہا تھا...
میں جانتی ہوں پر کیا کرو
وہ سب ایک دم پرفیکٹ ہیں میں کوئی کمی ڈھونڈ ہی نہیں پار رہی...
شانزے نے بلا آخر اپنی...
اپنی پریشانی بتائی تھی..
لوگوں کی ویکنیس ڈھونڈنے
سے بہتر ہے اپنی اسٹیرینتھ پہچانو... تا کے ان کی اسٹیرینتھ کو بیٹ کر سکو..
یوسف نے اس کی آنکھوں میں
آنکھیں ڈال کر کہا تھا..تیسرے اور لاسٹ راؤنڈ کی آناونسمنٹ ہو گئی تھی..
شانزے اب واپس اسٹیج پے
آچکی تھی..
جو لوگ اس راؤنڈ تک پہنچے
ان سب کو ڈھیروں مبارک بعد لیکن یہ آخر راؤنڈ ہے.
آپ کے لئے سچ میں ،مشکل
ثابت ہونے والا ہے...
یہاں سے آپکی پوزیشن چینج
ہو سکتی ہے.. اس لئے اب آپ کو بہت سمبھل کے کھیلنا ہے..
آپ سب کو ایک تصویر
دیکھائی جائے گی.. جو سچویشن بیسڈ ہے....
اوراس کو ایک خوبصورت شعر
میں ڈھال کر یہاں سب کے سامنے پیش کرنا ہے...
شعر درست ہونے پے پلس 5 ،
غلط ہونے پے مائنس 5...
اور اس کا فیصلہ کریں گئے
ہمارے آج کے ججیز... اب وہ ججیز کا انٹرو دے رہے تھے.
گیم میں ٹوئسٹ آگیا تھا،
یوسف اپنی جگہ پے آگے کی طرف جھک کر بیٹھا تھا،
اسنے دونوں کوہنیاں اپنے
گھوٹنوں پے رکھ کر، ہاتھوں کو آپس میں مٹھی کی شکل میں بند کیا تھا..
شانزے نے آنکھیں بند کی
تھیں.. اور تبھی مائک میں سر کی آواز ابھری تھی راؤنڈ شروع ہو گیا تھا..
AC
چلنے کے باوجود شانزے کے ماتھے پے پسینے کی بوندیں چمک رہی تھیں...
جو یوسف کی تیز نظروں سے
چھپی نہیں تھیں.. اس کی حالت بھی زیادہ مختلف نہیں تھی..
..................................
یہ یوسف کو کیا ہو گیا
ہے... مہک کے کہنے پے سب نے اس کو گھور کر دیکھا تھا..
تم لوگ ایسے کیوں دیکھ
رہے ہو.. میں نے غلط کیا کہا وہ اپنی بات پے اٹکی تھی..
خودی دیکھ لو وہ ایسے
بیٹھا ہے جیسے پلکیں جھبکے گا تو شانزے غائب ہو جائے گی، شانزے نا ہوئی ایلین ہو
گئی..
وہ موقعے کی نزاکت کو
سمجھے بغیر شروع ہو گئی تھی...
اف مہک پلیز اپنا منہ بند
کرو... ایسا نا ہو تمہیں بھی رانیہ کی طرح اٹھ کے جانا پڑے.. صبا نے اسکے منہ ہاتھ
رکھا تھا..
..................................
گیم کی صورت حال بدل گئی
تھی.. شانزے سیوۓ
تھی، لیکن وہ اور صفیہ پہلی پوذیشن کے لئے کومپیٹ کر رہے تھے..
دونوں کی ایک، ایک،
پیکچررہ گئی تھی.. سیٹنگ کے حساب سے پہلے باری صفیہ کی تھی...
لیکن وہ اندازہ نہیں کر
پائی تھی... اور چانس ختم ہو گیا تھا سکور کے حساب سے اب وہ دوسرے نمبر پے تھی..
اگر شانزے اپنی پکچر کا
اندازہ ٹھیک لگاتی ہے تو وہ پہلے نمبر پے آتی ورنہ.. وہ تیسرے پے آے گی..
ماریہ دوسرے نمبر پر اور
پہلے پے صفیہ نے آنا تھا...
شانزے سمیت، یوسف کی دل
دھڑکن بھی تیز ہو گئی تھی..
خود کو کنٹرول کرنے کے
لئے شانزے بار بار آنکھیں بند کر رہی تھی.
تو شانزے آپ تیار ہیں...
سر نے پوچھا تھا.. شانزے نے ہاں میں سر ہلایا تھا..
تو یہ ہے آج کے اس راؤنڈ
کی لاسٹ پک اگر آپ اندازہ لگا لیتی ہیں تو،
نا صرف اس راؤنڈ کی بلکے
گیم میں بھی پہلی پوزیشن سکور کریں گی...
آپ کی پک یہ رہی... سامنے
سکرین پے ایک تصویر پوری آب و تاب کے ساتھ چمکی تھی...
بہت سارے لوگوں کے منہ سے
ایک ساتھ... او - نو- نکلا تھا...
شانزے نے تصویر کو غور سے
دیکھا تھا... بکھرے رنگوں سے لڑکی بنائی گئی تھی،
اس کی حالات سے اور حلیہ
لمبی مسافت کا پتا دے رہا تھا...
جسے ایک لڑکے نے سہارا
دیا ہوا تھا..
شانزے نے آنکھیں بند کیں
تھی...
شانزے آپ کا ٹائم سٹارٹ
ہوتا ہے ناؤ...
١... حال میں آواز گنجی تھی... شانزے کی اب بھی بند تھیں...
٢... دوبارہ آواز آئ تھی... ٣... ہال میں
آواز گنجی تھی..
ساتھ ہی شانزے ہوش میں آئ
تھی.. اس نے یوسف کی طرف دیکھا تھا...
اور پھر وہ اس پاس کی سب
چیزوں کو بھول گئی تھی..
شانزے نے مائک اٹھایا
تھا.. وہ کسی ٹرانس میں بول رہی تھی...
"میری محبت کے "م" سے
تمھارے عشق کے
"ق" تک کے سفر میں۔۔۔
میں اپنا آپ جہاں بھول آئ
ہوں
اب اسے کھوجنے کے سفر کی
تیاری تم نے کرنی ہے۔۔۔"
شانزے نے شعر مکمل کیا
تھا.... یوسف اپنی جگہ سیدھا ہوا تھا... وہ دونوں ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے...
یوسف کے چہرے پے اب سکون
تھا... شاید وہ رسالت جان گیا تھا.
صبا کو لگا شانزے یہ شعر
صرف یوسف کے لئے بولا ہے... ماحول میں خاموشی تھی...
جی تو جج صاحبان کیا لگتا
ہے آپ کو... ججیز نے ہاں میں... وٹ کیا تھا...
حال میں تالیاں گنجنے
لگیں تھیں... سب طرف شور تھا کیوں کے شانزے نے پہلی پوزشن گین کی تھی..
ان کا گروپ خوب شور کر
رہا تھا،
یوسف کی آنکھوں میں نمی
اتری تھی لیکن اس نے اپنی مسکراہٹ سے اس کو کوور کیا تھا..
پورے ٹائم میں وہ پہلی
بار مسکرایا تھا.. رزلٹ اوفیشل طور پے آناونس کر دیا گیا تھا..
سپورٹس پروگرام پرسوں صبح
٩ بجے شروع ہو گا، جیتنی والی ٹیمز اپنی تیاری کے ساتھ وہاں موجود رہے ہیں..
سر مستنصر نے بولا تھا
اور پھر الوادی جملے بولتے نیچے آگے تھے..
شانزے اپنے گروپ کی طرف
آئ تھی، سب نے اسے باری باری مبارک باد دی تھی..
مبارکاں مبارکاں... ذارا
نے اسے گلے لگایا تھا..
تم نے بہت اچھا پرفارم
کیا... محسن نے بھی اپنا جملہ جوڑا تھا جب صبا نے اسے گلے لگایا..
تم نے بہت اچھا کھیلا مہک
نے بولا تھا اب کی بار..
یہ سب یوسف کی وجہ سے ہوا
ہے.. شانزے نے آس پاس دیکھا تھا.
یوسف کہاں ہے..؟؟ شانزے
کو نظر نہیں آیا تو پوچھ بیٹھی...
وہ سب سے آخر میں کھڑا
تھا،
قدم اٹھاتا وہ اس کی جانب
بڑھا تھا، جب سب نے اسے راستہ دیا آنے کا...
شانزے نے مسکرا کے اس کی طرف دیکھا تھا... یہ سب
تمہاری وجہ سے ہوا ہے..
اگر تم میرا حوصلہ نہ
بڑھاتے، مجھے ایڈوائیس نا کرتے تو میں کبھی نہں کر پاتی...
نہیں... تم تلنٹڈ ہو...
جیتنے کی قابلیت ہے تم میں.. یوسف بھی بھر پور مسکراہٹ کے ساتھ بولا تھا..
تم نے بہت اچھے سے ہر چیز
سمجھائی تھی.. اگر تم نے سمجھایا نا ہوتا تو میں جیت نہیں پاتی..
شانزے ابھی مسکرائی تھی..
نہیں.. سمجھانے سے کچھ
نہیں ہوتا.. اصل چیز ہے سمجھنا اور اور پھر اس کو وقت رہتے استعمال کرنا،
یوسف نے دوبارہ کہا تھا..
ہاں ہاں.. تھنکس ٹو
یوسف... محسن تنگ اکر بولا تھا... ایک نے سکھایا اچھا... ایک نے سیکھا اچھا...
سب اس کے بولنے پے ہنسنے
لگے...
..................................
سو ہاوز یور فیلنگ.. یوسف
نے گاڑی روک کر پوچھا تھا..
گڈ... شانزے مسکرائی
تھی...
اینڈ وہاٹ آباوٹ یو ؟؟
شانزے نے بھی اس کا سوال دوہرایا تھا..
یوسف کچھ لمحوں کے لئے
اسے دیکھتا رہا تھا..
پراوڈ.... یوسف نے بہت
پیار سے کہا تھا. اس کی آنکھیں اپنی کی بات کی گواہی دے رہی تھیں...
کل ملتے ہیں شانزے گاڑی
سے اترتے ہوے کہا... اس کے اندر تک سکون پہلا تھا.
اور یوسف اس جاتا تب تک
دیکھتا رہا تھا، جب تک وہ گھر کے اندر نہیں چلی گئی.
..................................
گھر کا ماحول بہت خوشگوار
پھوپو آگئی تھیں.. ہر طرف باتوں کا شور تھا.. سب ہی ہال میں بیٹھے تھے..
اس نے دروازے سے دیکھا
تھا، وہ تکریباً سب کو ہی دیکھ سکتی تھی وہاں سے،
لیکن کشمکش میں تھی.. کہ
اندر جائے یا نہیں کیوںکہ تایا جان اپنی بہن کے برابر میں بیٹھے تھے..
انہوں شانزے کو نہیں
دیکھا تھا. کیونکہ اگر دیکھتے تو اٹھ کر چلے جاتے...
شانزے دروازے میں کھڑی
سوچوں میں گم تھی.. جب اپنا نام پکارے جانے پے چونک گئی تھی..
شانزے یہ.. شانزے ہے
نہ... پھوپو نے بڑی خوش اخلاقی سے پوچھا تھا..
اور پھر وہی ہوا تھا ، جو
ہمیشہ ہوتا تھا اس نے دیکھا تھا کہ تایا جان دوسرے دروازے سے باہر چلے گئے تھے.
وہاں کیوں کھڑی ہو اندر
آؤ... پھوپو نے اسے اشارے سے بلایا تھا شاید انہوں نے تایا جان کا جانا نوٹ نہیں
کیا تھا...
اسلام و علیکم... شانزے
نے بڑی تمیز سے سلام کیا تھا، ایسا نہیں تھا کہ وہ پہچانتی نہیں تھی..
لیکن وہ اپنے ہوش میں
پہلی بار مل رہی تھی تو تھوڑا عجیب سا فیل کر رہی تھی، کیوں کہ وہ اپنی حثیت جانتی
تھی...
وعلیکم اسلام... ایسے
کیوں کھڑی ہو... پھوپو نے اسے گلے لگایا تھا..
شانزے کو حیرت ہوئی تھی ،
کیوں کہ اس کے رشتیداروں میں پہلی بار کوئی اس سے خوش ہو کر ملا تھا.
تم تو تصویروں سے بھی
زیادہ پیاری ہو.. کیوں احد..؟؟ انہوں نے اپنے بیٹے کو مخاطب کیا تھا.
جو سائیڈ پر رکھے سنگل
صوفے پے بیٹھا اپنے اپنے فون میں گم تھا..
ہان آپ ٹھیک کہ رہی
ہیں... پھوپو کے کہنے پے اس نے سر اٹھا کے دیکھا تھا..
جانے کیا تھا اس کے دیکھنے
میں، شانزے کو لگا اس کا سارا خون نچڑ گیا ہو..
پھوپو نے شانزے کو پاس ہی
بٹھایا تھا وہ بار بار اسے پیار کر رہی تھیں،
لیکن احد کی نظرین برداشت
کرنا شانزے کی برداشت سے باہر ہو گیا
وہ معذرت کرتی چلی گئی
تھی.. لیکن اس کی نظروں کی چبھن جاتے ہوے بھی اپنی کمر میں محسوس کی تھی...
..................................
عنیقہ نے یوسف کو کال
ملائی تھی... جو اس نے اٹھا بھی لی تھی..
کیسے ہو..؟؟
میں ٹھیک ہوں.. تم بتاؤ
کیسی ہو..؟؟ یوسف کا موڈ بہت خوشگوار تھا، جو عنیقہ نے محسوس بھی کر لیا تھا...
میں ٹھیک ہوں.. کیا بات
ہے آج تو موڈ بہت اچھا ہے..
ہاں اصل میں آج کا راؤنڈ
ہم نے ون کیا ہے.. یوسف نے اس کو انفارم کیا تھا.
بہت مبارک ہو.. میں جانتی
تھی، تم ضرور جیتو گئے. عنیقہ نے بڑا لہک کر کہا تھا.
شکریہ... ویسے اس
مبارکباد کی اصل حقدار شانزے ہے.. آج گیم ہم صرف اس کی وجہ سے جیتے ہیں..
یوسف نے بڑے اطمینان سے
کہا تھا...
ہاں.. ہاں... تمہارا اثر
ہے.. عنیقہ کا حلق تک کڑوا ہو گیا تھا.
تو اور بتاؤ.. عنیقہ کو
کچھ سمجھ نہیں آیا تھا حالانکہ وہ اسے ملنے کا کہنا چاہ رہی تھی،
لیکن شانزے کے نام نے اس
کا دماغ گھما دیا تھا،
بس ابھی تو کچھ نہیں میچ
کی کی تیاری ہے بس.. یوسف نے مختصر جواب دیا تھا.
تم ضرور جیتو گئے.. عنیقہ
نے پھر سے اسے خوش کرنا چاہا تھا.
تھنک یو... یوسف نے خوش
ہو کے جواب دیا تھا..
بس تھنک یو ؟؟؟ عنیقہ نے
ناراضی سے کہا تھا..
تو پھر...؟؟ یوسف حیران
ہوا تھا...
تو پھر یہ کے ٹریٹ ہونی
چاہیے.. عنیقہ کو آخرکار موقع مل گیا تھا.
ضرور.. یہ میچ ہو جائے تو
پھر.... یوسف بولتا اس سے پہلے عنیقہ خود
بولی تھی.
تو پھر میچ کے اگلے دن
شام میں ملتے ہیں.. وہ جلد از جلد اس سے ملنا شروع کرنا چاہتی تھی..
چلو ٹھیک ہے... ملتے ہیں
پھر.. بلا آخر یوسف نے اس کی بات مان ہی لی تھی..
عنیقہ اس وقت ساتویں
آسمان پے تھی، اس بات سے بےخبر یوسف کے دماغ میں کچھ اور ہی ہے.
..................................
شانزے اور یوسف دونوں
حسین کو مل کر یونیورسٹی پہنچ گئے تھے.
چلو تم پریکٹیس کرو، پھر
ملتے ہیں... شانزے نے ڈیپارٹمنٹ کا رخ کیا تھا.
تم.. تم کیا کرو گی تب
تک... یوسف اس کے برابر آتا بولا تھا..
تمہارا انتیظار... شانزے
پتا نہیں کس جوش میں بول گئی تھی..
پکا...؟؟ یوسف نے اس کی
آنکھوں میں جھانکا تھا..
اس سے پہلے وہ کچھ
بولتی... محسن وہاں آگیا تھا.. اور شانزے نے دل میں شکر ادا کیا تھا..
ایک تو اتنی دیر سے آے
ہو.. اور پھر یہاں کھڑے ہو.... محسن ان کو دیکھ کر بولا تھا..
تو تمہیں تکلیف ہے...
یوسف کو محسن کا ان دونوں کے بیچ آنا اچھا نہیں لگا تھا.
ہاں ہے... محسن نے بڑا
ٹیکا کر جواب دیا تھا، یوسف کا منہ کھلا رہ گیا،
آؤ شانزے چلتے ہیں.. محسن
نے شانزے کو دیکھ کر کہا تھا... شانزے خود کو بچانے کے لئے فورن چل دی.
کہاں ؟؟؟ یوسف نے ان
دونوں کا راستہ روکے سامنے کھڑا ہوا تھا.
کیوں تمہیں کیوں
بتاؤں..؟؟ تم کیا باڈی گارڈ ہو اس کے محسن نے جان بوجھ کر جلایا تھا..
محسن میری بات سن ... یوسف
نے بولنا چاہ تھا...
یوسف تو میری بات سن اور
جا کر پریکٹس کر.. محسن نے پھر اس کو بات ماری تھی.. جس پے شانزے کو ہنسی آئ تھی.
اوکے... فائن... یوسف ان
کو گھورتا چلا گیا تھا..
محسن اور شانزے دونوں
ساتھ ہنسے تھے.
..................................
یوسف نے کافی دیر پریکٹس
کی تھی اب وہ سچ میں تھک گیا تھا.. لیکن محسن یا کسی نے بھی وہاں اس کو بلانے کی
یا جانے کی کوشش تک نہیں کی تھی.. یوسف اپنی چیزیں سمیٹتا ڈیپارٹمنٹ کی طرف گیا
تھا لیکن وہاں کوئی نہیں تھا..
البتہ وہاں سے اسے یہ
ضرور پتا چل گیا تھا کہ وہ سب کینٹین میں ہیں.. اس لئے وہ وہیں آگیا تھا..
لیکن سامنے کے منظر نے اس
کا دماغ اڑا دیا تھا.. وہ سب لوگ وہاں بیٹھے پارٹی کر رہے تھے..
تم سب لوگ یہاں ہو...
یوسف تقریباً چیخا تھا.
ہاں تو... بھائی کینٹین
ہے.. مریخ پے تھوڑی آگے ہیں جو ایسے ریکٹ کر رہا ہے. محسن نے سموسہ کھاتے کہا تھا.
کوئی شرم ہوتی ہے... حیا
ہوتی... لیکن تم لوگوں کے ہاں کہاں ہوتی ہے.. یوسف نے برا سا منہ بنایا تھا..
اور شانزے کے برابر میں
بیٹھ گیا تھا.
او بھائی - کیسی شرم کس
بات کی شرم ؟؟ سموسے کها رہے ہیں.. وہ بھی اپنے پیسوں کہ... محسن نے پھر جواب مارا
تھا.
جبکہ صبا نے یوسف کے آگے
سموسوں کی پلیٹ کی تھی... تم کھاؤ اس کو اگنور کرو پلیز،
اس نے محسن کی طرف اشارہ
کیا تھا.
بندہ پوچھ لیتا ہے.. میں
اکیلا وہاں پریکٹس کر رہا ہوں.. اور تم سب لوگ یہاں مزے کر رہے ہو...
یوسف نے سموسہ اٹھاتے اصل
مسلہ بیان کیا تھا.
اوہو - تم ناراض کیوں ہو
رہے ہو... میں تو ابھی کہہ ہی رہی تھی کے چلتے ہیں.. مہک نے فورن صفائی دی
تھی.
تو تجھے کیا لگا ہم سب
وہاں بیٹھ کر بور ہوں گئے تیرے ساتھ.. محسن نے اسے تپایا تھا.
شانزے جو بہت دیر سے خود
کو روک رہی تھی... بلاآخر ہنس پڑی تھی..
یوسف نے اسے گھور کر
دیکھا تھا، اور پھر وہ خود بھی ہنسنے لگا تھا..
شانزے نے ٹیبل کے نیچے سے
جوس کی بوٹل اس کو پکڑائی تھی.. جو محسن کی تیز نظروں سے بچی نہیں تھی...
واہ رے مالک کیسے دن آگے
ہیں... دوستوں سے غداری.. دوست دوست نہ رہا... محسن نے رونے کی اداکاری کی تھی..
بیٹا پڑوسیوں کے بھی کچھ
حقوق ہوتے ہیں.. یوسف نے بھی اب کے بات ماری تھی...
ہاں... ہاں... ہم کون سا
کچھ کہ رہے ہیں.. سارے حقوق ہی پڑوسیوں کے ہوتے ہیں.. محسن نے کون سا کم تھا..
کون سے پڑوسی...؟؟ مہک
اور ذارا دونوں ہی انجان تھیں..
اف - یہ تم دونوں کو آج
کیا ہو گیا ہے.. بس بھی کر دو کب سے شروع ہو.... صبا تانتانی تھی...
ہاں بھئی میرا بھی یہی
خیال ہے.. ویسے بھی اب چلتے ہیں کوئی کلاس بھی نہیں ہے، ذارا نے نادر مشورہ دیا
تھا..
وہ سب اپنی چیزیں سمیٹے
اٹھ گئے تھے...
لیکن یوسف نے شانزے کا
ہاتھ پکڑ لیا تھا.. شانزے نے اسے گھور کر دیکھا تھا.. لیکن اس پے کوئی اثر نہیں
ہوا تھا.
یہ شکر ہے کے ٹیبل کی وجہ
سے کسی نے دیکھا نہیں تھا، ورنہ ابھی اس کا ریکارڈ لگ جانا تھا.
کیا ہوا تم دونوں نہیں چل
رہے ؟؟ صبا نے ان دونوں کو بیٹھا دیکھ کر پوچھا تھا..
آرہے ہیں تم تو چلو...
محسن نے اس کو ٹوکا تھا.. اور پھر یوسف کی طرف دیکھ کر ہنسا تھا..
تھنکس... کرائم پارٹنر..
یوسف اسے آنکھ مار کے مسکرایا تھا..
شانزے کو اس کی حرکت پے
بہت غصہ آیا تھا... اس نے جھٹکے سے ہاتھ چھڑایا تھا..
اور انگلی یوسف کی بازو
میں ماری تھی.. کیا مصیبت ہے تمہیں بار بار ہاتھ کیوں پکڑتے ہو..
کیوں تمہیں برا لگتا ہے..
یوسف نے اس کی آنکھوں میں دیکھا تھا..
ہاں... شانزے نے نظریں
جھکا لیں تھیں...
اچھا تو پھر میری آنکھوں
میں دیکھ کر کہو.. یوسف آج کل بہت سے ایسے سوال کر رہا تھا،
جو شانزے کا امتحان بن
جاتے تھے..
کیا...؟ شانزے انجان بنا
چاہ رہی تھی..
یہ کہ شانزے حسان کو میرا
ہاتھ پکڑنا کیسا لگتا ہے.. یوسف کی آواز میں اتنے جذبات تھے،
کہ شانزے کی حالت خراب ہو
گئی تھی..
مجھے نہیں پتا... شانزے
نے اس کی بات کو نظر انداز کیا اور جانے کے لئے کھڑی ہو گئی تھی.
یوسف بھی ساتھ میں اٹھا
تھا اب وہ دونوں برابر برابر چل رہے تھے،
پھر پتا کیا ہے تمہیں..
یوسف نے اس کا راستہ روکا تھا..
یوسف دیر ہو جائے گی گھر
جانا ہے، ویسے میں روز دیر سے جا رہی ہوں...
شانزے نے منت بھری نظروں
سے دیکھا تھا،
اور یہی یوسف کی کمزوری
بنتی جا رہی تھی کہ وہ کبھی شانزے کو تڑپتا یا منتیں کرتا نہیں دیکھ سکتا تھا..
چلو میں چھوڑ دیتا ہوں..
یوسف آگے بڑھا تھا.
نہیں میں چلی جاؤں گی..
ویسے بھی تم آرام کرو تھک گئے ہو گئے.. شانزے نے بات بنی تھی..
یوسف تکریباً روز ہی اسے چھوڑنے
لگا تھا اور یہ بات اس کا ضمیر گوارہ نہیں کرتا تھا..
ٹھیک ہے اس کے جذبات یوسف
کے لئے بدل گئے تھے.. لیکن پھر بھی وہ ان کا کوئی فائدہ نہیں اٹھانا چاہتی تھی،
وہ ان لڑکیوں کی صف میں
نہیں کھڑا ہونا چاہتی تھی.. جو اپنے مفاد کے لئے دوسروں کا استعمال کرتی ہیں..
جو لڑکوں کے ساتھ دوستی
پیار صرف اس لئے کرتی ہیں تا کہ انھیں فائدہ حاصل ہو...
یوسف نے اسے مسکرا کر
دیکھا تھا.. مجھے کوئی تھکن نہیں ہو گی شانزے...
بلکے مجھے لگتا ہے یہ
میری خوش قسمتی ہے کہ میں دنیا کی سب سے زیادہ خدار لڑکی کے ساتھ ہوں..
یوسف کی آخری لائن نے اسے
چونکایا تھا، تو کیا وہ اس کی سوچیں پڑھ لیتا ہے،
نہیں میں چلی جاؤں گی...
اور ویسے بھی ابھی اتنا ٹائم نہیں ہوا تو میں آرام سے جا سکتی ہوں.
شانزے نے اس کے آگے پھر
سے منت کی تھی..
لیکن ویکن کچھ نہیں...اور
ویسے بھی ابھی تم نے میرے بہت سے سوالوں کے جواب دینے ہیں،
تو چلو یوسف اس کی طرف
بڑھتا اس سے پہلے اس کی نظر پیچھے سے آتے وجی پے پڑی ہی..
اسلام و علیکم وجی
بھائی... یوسف نے سلام کیا تو شانزے بھی چونک گئی تھی..
اس نے پلٹ کر دیکھا تو
وجی وہاں موجود تھے..
وعلیکم اسلام.. وہ دونوں
اب ایک دوسرے سے ہاتھ ملا رہے تھے.
کیسے ہو یوسف..
میں ٹھیک ہوں.. آپ کیسے
ہیں..
شکر ہے الله کا...
بھائی آپ یہاں..؟؟ شانزے
کو حیرت ہوئی تھی.
ہاں بس وہ پاس میں گاڑی
کا کام کروانے آیا تھا تو سوچا تمہیں بھی لے لو...
لیکن میڈم فون اٹھایئں تو
تب نہ... وجی نے اس کے سر پے ہاتھ مارا تھا..
سوری نہ... بھول گئی فون
سایلینٹ پے تھا.. شانزے نے معذرت کی تھی..
(یوسف کو آج سے پہلے وجی کبھی برا نہیں لگا
تھا... لیکن آج وہ دونوں کے بیچ کی ہڈی بن گیا تھا..
جبکہ شانزے کو اس کا اترا
ہوا منہ دیکھ کر ہنسی آئ تھی.. جس کو روکنے کی اس نے بلکل کوشش نہیں کی تھی..)
چلیں بھائی...؟؟؟ شانزے
نے وجی سے پوچھا تھا... اس کی آنکھوں میں شرارت پے اتری تھی..
ہاں بھئی چلو... وجی نے
اس کو کہا تھا.. اور تم.. آخری بار کہ رہا ہوں گھر آؤ کبھی... وجی نے یوسف کو یاد
دلایا تھا..
جی ضرور بھائی.. اس نے
اتنی سعادتمندی سے کہا تھا شانزے قائل ہوئی تھی اس کی..
ٹھیک ہے تو کل ملتے ہیں
شانزے.. اور ہاں جو.. جو میں نے پوچھا ہے نہ سب کا جواب لے کے آنا..
یوسف نے اس کی آنکھوں کی
شرارت بھامپ لی تھی اور اب اس کی باری تھی.
وہ ایک دوسرے کو الله
حافظ کہتے اپنی منزل کی طرف بڑھے تھے.
...............................
شانزے گھر آگئی تھی.. آج
کل گھر کا ماحول پہلے سے بہت بہتر ہو گیا تھا..
شروع میں تو شانزے کو لگا
کے شاید پھوپو دیکھاوا کر رہی ہیں.. وہ جیسے شانزے سے پیار سے بات کرتیں
تھیں..
وہ سب یس لئے نیا تھا،
لیکن ان کے پاس بیٹھ کر ان سے باتیں کر کے احساس ہوا،
کہ وہ سچ میں شانزے کو
گھر کے باقی بچوں جیسا ہی ٹریٹ کرتی ہیں...
شانزے اپنے کمرے میں تھی
اور باقی سب نیچے.. جہاں سے مسلسل باتوں کی پروگرامز بنے کی آوازیں آرہی تھیں...
لیکن اسے ان سب میں کوئی
دلچسپی نہیں تھی.. تھی تو صرف یوسف میں اور اس کے خیالوں میں..
ابھی بھی وہ یوسف کی
باتوں کو ہی سوچ رہی تھی. اور مسکرا رہی تھی..
جب عنیقہ کی آواز آئ
تھی.. شانزے... شانزے...
ہاں.... شانزے نے بھی
بیزاریت سے کہا تھا...
یار نیچے آجاؤ.. کتنی بار
تم سے کہا ہے.. عنیقہ کی آواز میں بھی جنجھلاہٹ تھی.. جو کہ ٹھیک بھی تھی..
وہ دو بار آچکی تھی بلانے
اور اس سے پہلے اریزے لیکن وہ جب سے آئ تھی اپنے روم میں تھی...
اب تو جانا ہی پڑے گا...
اس نے دل میں سوچا تھا..
اپنے بالوں کو لپٹتے وہ
دروازے کی طرف بڑھی تھی.. جب اندر آتے کسی سے ٹکرا گئی تھی...
اس کے بال دوبارہ بکھرے
تھے... شانزے جب حواسوں میں آئ تو حیران رہ گئی وہ کوئی اور نہیں تھا.. احد تھا..
جی کی بازو وہ بہت اچھے
سے اپنی کمر پے محسوس کر سکتی تھی... شانزے کے پورے بدن میں آگ لگ گئی ہی..
چھوڑیں مجھے شانزے اس کے
سینے پے ہاتھ رکھ کر اس کو دور رکھنے کی کوشش کی تی..
اگر نہ چھوڑوں تو.. اس نے
شانزے کو خود سے قریب کرنے کی کوشش کی تھی..
تو مجھے چھوڑوانا آتا
ہے... شانزے نے اس کو دھکا دیا تھا..
امپریسڈ... احد نے داد دی
تھی..
ویسے آپ یہاں کر کیا رہے
ہیں، شانزے کا غصہ آسمان سے لگ رہا تھا..
کیوں یہ کیا نو انٹری
ایریا ہے.. اس نے الٹا سوال کیا تھا..
ہاں... اپنے لئے آپ ایسا
ہی سمجھیں... شانزے نے ٹیکا کر جواب دیا تھا.. اور سائیڈ سے نکل گئی تھی..
..............................
کیا ہوا کیا سوچ رہی ہو
ناشتہ کرو بھئی.... می جانی نے ٹوکا تھا..
کر تو رہی ہوں.. ٹھیک سے
کرو شانزے میں بہت دنوں سے دیکھ رہیں ہوں تم بہت لا پرواہ ہو گئی ہو..
می جانی نے ڈانٹا تھا.
می جانی اریزے کو بھی تو
بولیں... شانزے نے اس کی طرف اشارہ کیا تھا..
کیا...؟؟؟ اریزے جو بہت
دیر سے ایک ہی پیس پے بٹرلگا رہی تھی گڑبڑا گئی تھی..
میں تو کها رہی ہوں.. اس
نے جلدی سے بریڈ کا پیس ڈبل کیا تھا...
اف تم دونوں نے کب بڑا
ہوںا ہے....؟؟ می جانی نے ان کے آگے چاے رکھی تھی..
می جانی کبھی نہیں شانزے
نے ان کی کمر کے گرد بازو لپٹے تھے..
پاگل ہو تم.. انہوں نے
شانزے کو پیار کیا تھا..
اچھا تو صبح صبح... ماں
بیٹیوں کا لاڈ پیار چل رہا ہے... پھوپو نے ہال میں آتے کہا تھا..
سچ بھابھی بہت اچھا لگا
آپ کو ایسے دیکھ کر... کبھی سوچتی الله مجھے بھی ایک بیٹی دیتا تو ایسی ہی رونق
ہوتی..
پھوپو نے بڑی چاہت سے ان
دونوں کو دیکھا تھا.. لیکن لہجہ اداس تھا...
بیٹیاں تو سانجھی ہوتی
ہیں اس میں میر تیر کیا... یہ بھی تمہاری بیٹیاں ہیں.. می جانی نے ان کی طرف بھی
کپ بڑھایا تھا.
بیشک.. آپ ٹھیک کہ رہی
ہیں.. انہوں کپ منہ سے لگایا تھا..
ہاں بھئی، اتنی صبح کہاں
ابھی تو ٧ بجے ہیں... حسان نے آتے پوچھا تھا..
پاپا آج کا گیم ٩ بجے
سٹارٹ ہے نہ.. تو یونیورسٹی ٩ بجے تک پہنچنا ہے... شانزے نے اطمینان سے کہا تھا..
لیکن بیٹا... ابھی تو صرف
پونے 7 ہوے ہیں... حسان کو فکر ہوئی تھی.
پاپا... میں نے سوچا میں
انکل کو ملتے ہوے چلی جاؤں گی.. شانزے نے ابھی بھی اطمینان سے جواب دیا تھا..
چلو تو پھر میں وجی کو
بول دیتا ہوں.. چھوڑ دے تمہیں.. حسان نے ناشتہ کرتے کہا تھا..
پاپا میں چھوڑ دوں گی نہ،
میرا آفس پاس میں ہے.. اریزے فورن بولا..
شانزے کو ہنسی آئ تھی..
اس کی بہن سچ میں معصوم تھی... جی پاپا ہم دونوں چلے جائیں گئے آپ فکر نہ کریں..
شانزے تسلی دی تھی...
اٹھو اریزے اس نے اریزے کو کہا تھا اور خود بھی اٹھ گئی تھی...
سمبھال کے جانا بچوں..
ہماری طرف سے بھی پوچھنا اپنے انکل کو اور معذرت بھی کرنا نہ آنے کے لئے..
حسان نے پھر سے تاکید کی
تھی..
جی پاپا... الله حافظ...
وہ دونوں کہتی چلیں گیں تھیں...
یہ کون سے انکل ہیں..
بھائی... روبینہ نے حسان سے پوچھا تھا..
یہ شانزے کے کلاس فیلو
یوسف کے پاپا ہے.. بیمار ہیں ہسپتال میں، ان کی بات ہو رہی تھی..
اصل میں بہت اچھا بچہ
ہے.. کچھ عرصے پہلے شانزے کا یونیورسٹی سے واپسی پے ایکسیڈنٹ ہو گیا تھا..
ہم تو بہت پریشان ہو گئے
تھے، کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کیا کریں...
لیکن تب وہی شانزے کو گھر
لے کر آیا تھا، بہت نیک بچہ ہے.. حسان نے دل سے تعریف کی تھی..
سچ روبینہ حسان ٹھیک کہ
رہے ہیں.. شاہینہ نے شوہر کی حمایت کی تھی..
ہاں بھابھی.. ورنہ آج کل
دور میں کون اتنا کرتا ہے.. میں تو سن کہ پریشن ہوئی تھی..
لیکن یوسف سنے میں اچھے خاندان کا لگتا ہے... روبینہ نے
خوش ہو کر کہا تھا..
لیکن وہ یہ نہیں جانتی
تھیں، کہ دروازے میں کھڑے احد کو یہ تعریف کچھ خاص پسند نہیں آئ...
وہ سب باتوں میں مصروف
تھے.. جس کے لئے وہ آیا تھا وہ بھی جا چکی تھی، اس لئے وہ پلٹ گیا تھا.
احد نے ساری زندگی باہر
گزاری تھی.. اس میں ہر وہ عیب پایا جاتا ہے،
جو وہاں پلنے والے کسی
عام لڑکے میں ہوسکتے ہیں.. لڑکیاں... سموکنگ، الکوہل، سب عام باتیں ہیں..
پرسنلٹی اچھی ہونے کا اس
نے خوب فائدہ اٹھایا.. بہت سے لڑکیوں سے اس کے شادی کے بغیر بھی تعلوقات رہے،
لیکن جب شادی کی باری آئ
تو اس نے وہاں کی آزاد خیال لڑکیوں کو چھوڑ کے مشرق کا رخ کیا..
وہ خود کتنا بھی آزاد سہی
لیکن بیوی مشریق چاہتا تھا،
یہی وجہ تھی کہ اس نے ماں
کے ایک بار کہنے پے ہی خاندان میں شادی کو ترجی دی تھی..
روبینہ کی خواھش تھی کہ
وہ اریزے لیں لیکن احد نے اپنی خواھش شانزے کے لئے ظاہر کی تھی..
روبینہ نے کبھی بچیوں میں
فرق نہیں کیا تھا اس لئے انھیں شانزے بھی قبول تھی..
احد نے شانزے کے بارے میں
بہت کچھ سنا تھا.. بہت تصویریں دیکھیں تھیں، وہ اسے پہلی نظر میں ہی اچھی لگی تھی..
لیکن اس دن جب اس نے اسے
پہلے بارسامنے دیکھا تھا تو دیکھتا رہ گیا تھا..
پہلے بار اسنے سانولی
سلونی دیکھی تھی.. اور تب سے اب تک اس کی صورت اس کی آنکھوں میں ہی گھومتی تھی.
لیکن مسلہ اس دن دروازے
میں ہونے والی ملاقات نے خراب کر دیا تھا..
شانزے سے اس بات کو کلیر
نے کے لئے ہی وہ جلدی اٹھا تھا.. تو اب یہ نیا رونا ڈالا تھا..
حالانکہ وہ اپنی پوزیشن
اور پرسنلٹی کو لے کر کافی خوشفہمی میں تھا.
لیکن پھر بھی یوسف کا نام
اسے اچھا سا نہیں لگا تھا..
................................
ارے شانزے بیٹا اتنی صبح
صبح... کیسے آئین آپ.. حسین حیران تھے..
انہوں نے سلام کا جواب دے
کر باری باری دونوں کے سروں پے ہاتھ رکھا تھا..
انکل رکشہ میں.. شانزے نے
نہایت سریس ہو کہ جواب دیا تھا..
اس کی بات پے حسین مسکرا
دے تھے.. آپ بولتی میں میں ڈرائیور بھیجتا، وہ بہت پیار سے بولے تھے..
کیوں پاپا... آپ کے یہ
بیٹے کسی ڈرائیو سے کم ہیں کیا، آپ بولتے تو میں خود جاتا اپنی بہن کو لینے..
عثمان مسکراتے ہوے اندر
آے تھے.. انہوں نے اریزے کو نہیں دیکھا تھا..
(وہ سائیڈ میں ہو کر ، وہ دونوں جو کھانے
پینے کا سامان لائی تھیں، سائیڈ کیبنٹ میں رکھ رہی تھی.)
نہیں بھائی... ایٹس
اوکے.. شانزے شرمندہ ہوئی تھی..
ارے بھائی بھی بولتی ہو
اور تکلوف بھی کرتی ہو.. عثمان نے شانزے کے سر پے ہاتھ رکھا تھا،
نہیں بھائی ایسی بات نہیں
ہے.. وہ ہلکا سا مسکرائی تھی،
لیسن بیٹا... جیسا یوسف
ہے میرے لئے آپ بھی ویسے ہو.. میرا دل چاہتا ہے، تم مجھ سے لڑو جھگڑو..
اور زد کرو... عثمان اس
سے بلکل ایسے بات کر رہا تھا جیسے وہ کوئی 6 یا 7 سال کی بچی ہو..
بھائی فکر نہ کریں..وہ یہ
سب کرتی ہے.. بس آپ کے سامنے ناٹک کرتی ہے.. یوسف نے اندر آتے کہا تھا..
بھائی.. شانزے نے رونے
والا منہ بنایا تھا..
یوسف
میں نے اس دن بھی کہا تھا.. شانزے کو تنگ مت کیا کرو...
OMG
- بہن بھی کا پیار... کیا جادو کر دیا ہے تم نے میرے بھائی پے...جادوگرنی.. یوسف
نے تیزی سے بولا تھا..
بھائی... شانزے نے پھر
عثمان کو پکارا تھا..
یوسف.. اچھا سوری.. یوسف
نے شانزے کی طرف دیکھ کر اپنی فنگر کراس کی تھیں..
انکل یہ لیں.. جبھی اریزے
ٹرے میں.. بسکٹ اور جوس لے کر آئ تھی..
ارے آپ نے کیوں زحمت کی
بیٹا.. حسین نے اریزے کے سر پے ہاتھ پھیرا تھا..
زحمت کیسی... اریزے
شرمندہ ہوا تھا...لیکن عثمان وہ تو اسے دیکھ کر بہت خوش ہوا تھا،
اور یہ خوشی یوسف اور
شانزے دونوں نے محسوس کی تھی...
یہ
تمہاری ماما کہاں رہ گیں ہیں.. کمرے میں خاموشی چھا گئی تھی جسے یوسف کی آواز نے
توڑا تھا..
ماما اور پھوپو دونوں
ارہے ہیں.. اب آپ تو جانتے ہیں نہ پاپا یہ لیڈیز باتوں کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے
نہیں دیتیں..
اچھا تو یہ ہو رہا ہے
یہاں... ماں کی اور پھوپی کی بری ہو رہی ہے...آواز کلثوم کی تھی...
ارے کہاں پھوپو... میں تو
جرنل بات کر رہا ہوں... یوسف نے کان سہلایا تھا جو کلثوم نے کھنچا تھا..
جرنل بات بچو.. کر لو
ابھی.. ذرا شادی ہونے دو پھر پوچھوں گی...
کلثوم نے کہا تو یوسف کی
نظریں شانزے کی طرف اٹھیں تھیں، جب کہ شانزے نے نظرین جھکا لیں تھیں..
پھر تو اپنی بیگم کے آگے
پیچھے پھرا کرے گا یہ... کیوں بھابھی.. وہ یوسف کا مذاق اڑا رہیں تھی..
اچھا تو یہ آپ کا اپنے
چہیتے کے بارے میں کیا خیال ہے.. یوسف نے عثمان کی طرف اشارہ کیا تھا..
وہ کیا.. وہ تو ہے ہی
معصوم... جہاں بولیں گئے بیچارہ سر جکا دے گا تمہاری طرح تھوڑی ہے..
کلثوم آج فل موڈ میں
تھیں، وہ جب بھی موڈ میں ہوتیں، اس دن یوسف کو بہت تنگ کرتیں...
پوچھ لیں کہیں اندر ہی
اندر... کوئی دیکھ نہ رکھی ہو... یوسف نے جل کر لیکن جان بجھ کر کہا تھا..
اور اریزے کا ہاتھ کپکپا
گئے تھے.. جو عثمان نے نوٹ کر لیا تھا..
چلو بچوں اب یونیورسٹی
جاؤ.. ٨ بج رہے ہیں.. جانے میں بھی ٹائم لگے گا..
عثمان نے یوسف کو بھگانے
کے لئے راستہ تلاش کیا تھا، کیونکہ اب اس کا زیادہ دیرروکنا خطرے سے خالی نہیں
تھا.
اوہ ہاں، چلو شانزے.. ٹائم ہو رہا ہے وہ دونوں..اٹھ گئے تھے..
ویسے پھوپو پائنٹ ٹو بی
نوٹیڈ.. پول کھلنے کا ٹائم آیا تو ہمیں بھگا دیا.. یوسف نے معصومانہ شکل بنائی
تھی..
سمبھال کے جانا... عثمان
نے یوسف کو دیکھ کر شرارت سے کہا تھا..
یوسف عثمان کے پاس آیا
تھا.. اور منہ بلکل اس کے کان کے پاس لیجا کر بولا تھا..
آپ بھی اریزے بھابھی کو
سمبھال کر لے جائیے گا.. وہ کہہ کر دروازے کی طرف بھگا تھا..
جبکہ عثمان جو اس ک پیچھے
لپکا تھا... ہنس پڑا تھا.. اور باقی سب اس کو دیکھ کر ہنسنے لگے تھے..
میں گاڑی لاتا ہوں...
یوسف پارکنگ کی طرف گیا تھا..
جب شانزے کی نظر محسن پے
پڑی تھی...
محسن.. اس نے آواز دی
تھی...
اوہ - تم یہاں.. محسن جو
اندر جا رہا تھا اس کی طرف آیا تھا...
ہاں ہم بس یونیورسٹی کے
لئے نکل رہے تھے، کافی ٹائم ہو رہا ہے.
شانزے نے اسے اطلاع دی تھی.
اوہ - مطلب میں انکل سے
نہیں مل سکوں گا.. محسن نے ٹائم دیکھا تھا.
کیوں.. ؟؟ شانزے نے حیران
ہو کے پوچھا تھا.
یار وہ میری بائیک خراب
ہو گئی صبح آتے ہوے تو آج میں ساتھ چلوں گا.. محسن اب اسے روداد سنا رہا تھا..
جبکہ شانزے کو ہنسی آئ
تھی. یوسف کے بارے میں سوچ کر،
یوسف، شانزے اور محسن کے
پاس اکر روکا تھا، اس سے پہلے کے یوسف کوئی بات کرتا،
محسن فرنٹ سیٹ پے بیٹھا
تھا، جبکہ شانزے یوسف کی سائیڈ پے پیچھے سیٹ پے بیٹھی تھی..
او- تو کہاں ؟؟؟ یوسف کا
دماغ ایک دم گھوما تھا..
یار کیسا دوست ہے..
تمہارے ہاں حال چال پوچھنے کا رواج نہیں ہے.. محسن کو صدمہ لگا تھا.
بکواس نہ کر جو پوچھا ہے
تو بتا... یوسف نے پھر سے پوچھا تھا..
بائیک خراب ہو گئی.. اور
انکل سے بھی، ملنا تھا تو سوچا آجاتا ہوں پھر تیرے ساتھ ہی یونیورسٹی چلا جاؤں گا.
پر مجھے کیا پتا تھا کہ
دوست ایسے بھی ہوتے ہیں... محسن نے دکھ بھری آواز میں کہا تھا..
اب پتا جل گیا نہ... یاد
رکھنا دوبارہ کے لئے... یوسف بھی کہاں کم تھا...
جبکہ شانزے کو ہنسی آئ
تھی..
یوسف نے اس کو فرنٹ میرر
میں سے گھور تھا... اس لئے وہ باہر دیکھنے لگی تھی..
وہ جانتی تھی، وہ بار بار
اسے دیکھ رہا ہے.
..................................
آپ کچھ بولتی نہیں
ہیں..؟؟ عثمان نے گاڑی چلاتے ہوے پوچھا تھا، وہ تنگ آگیا تھا گاڑی میں پھیلی
خاموشی سے..
بولتی ہوں.. اریزے کنفیوز
ہوئی تھی..
ویسے یہ آپ ہمیشہ ایسے
کنفیوز کیوں ہوتی ہیں مجھے دیکھ کر.. عثمان نے پھر اس سے پوچھا تھا..
مطلب آپ کو دیکھ کر..
اریزے گڑبڑائی تھی..
کچھ نہیں بس ایسے ہی...
عثمان کا اس کو پریشان کرنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا.
آج مجھے سب سے زیادہ خوشی
تمہیں دیکھ کر ہوئی تھی. عثمان نے پھر سے بات کی تھی.
اریزے مسکرائی تھی..
میرا تم کہنا برا تو نہیں
لگا...؟ عثمان نے اس سے پوچھا تھا..
نہیں.. آپ کچھ بھی کہہ سکتے
ہیں.. اریزے نے سر جھکایا تھا.
آج سب کو ساتھ دیکھ کرلگا
جیسے میری فیملی کمپلیٹ ہو گئی ہے...
آتی رہا کریں اچھا لگتا
ہے.. عثمان نے بہت روانی سے کہا تھا..
اریزے کے دل کے تار بہت
زور سے چھیڑے تھے، جس کی ہر دھن اس کے چہرے پے بھکری تھی.
................................
گیم سٹارٹ ہو چکا تھا...
تین ٹیمز آلریڈی گیم سے آؤٹ تھیں..
رہ جانے والوں میں یوسف..
شہنواز اور وارث تھے...
یہ آخری میچ تھا جو
شاہنواز اور یوسف کے درمیان ہونا تھا.. اگر شاہنواز میچ جیت جاتا ہے...
تو پھر کمپیٹیشن کے فائنل
سیشن میں جانے کے لئے ایک میچ یوسف اور وارث میں ہو گا،
کونکہ نمبر کے لہٰذ سے وہ
دونوں ایک جگہ کھڑے تھے..
لیکن اگر شاہنواز ہارتا
ہے، تو پھر وارث اور یوسف کی ٹیمز فائنل سیشن میں پرفارم کریں گی..
سب چاہتے تھے کہ، یوسف
جیتے. ویسے بھی وہ ٹینس کے بیسٹ پلیئرز میں شامل تھا..
اس لئے پورا گروپ وہاں
موجود تھا، خلاف توقع رانیہ بھی وہاں تھی.. اگر نہیں تھی تو وہ دشمن جان نہیں
تھی..
یوسف ان سب کی طرف آیا
تھا... محسن سے ٹاول لے کر اپنا پسینہ صاف کر رہا تھا. سب نے اسے خوب چیر کیا
تھا..
لیکن یوسف کی نظرین تو
کسی کو ڈھونڈنے میں مصروف تھیں.. اس لئے اس نے کوئی بات غور سے نہیں سنی تھی.
کہاں ہے یہ.. یوسف نے
محسن سے پوچھا اور خود پانی کی بوٹل کو منہ لگا کر پانی پیا تھا.
پتا نہیں.. کہاں غائب
ہے. کافی دیر سے نہیں دیکھا.. جواب محسن
کے بجاے صبا نے دیا تھا.
اور وہ سب اب ادھر ادھر
دیکھ رہے تھے لیکن وہ نظر نہیں آئ تھی.
چلو آؤ دیکھتے ہیں، کہاں
ہے پاگل.. یوسف نے اتنی محبت سے کہا تھا..
صبا کو رشک آیا تھا شانزے
پے وہ جب بھی دونوں کو ساتھ دیکھتی تھی، دل سے ان کے لئے دعا کرتی تھی.
یوسف... وہ رانیہ کو نظر
انداز کرتا پاس سے گزرنے لگا تھا..
ناراض ہو.... رانیہ کی
آنکھیں نم ہوں تھیں.. سوری... رانیہ نے سر جھکا لیا تھا..
یوسف نے اس کی طرف دیکھا
اور پھر مسکرایا تھا آؤ.. سارے پاگل مجھے ہی ملے ہیں.
اس نے کہا تو آہستہ سے
تھا لیکن پھر ان سب نے سن لیا تھا..وہ سب ہی ہنس پڑے تھے.
وہ لوگ کینٹین میں آے تھے
شانزے وہاں نہیں تھی.. سب بیٹھ گئے تھے...
ارے یہ لڑکی کہاں گئی...
صبا نے اس کا نمبر ملایا تھا لیکن حسب عادت شانزے نے نہیں اٹھایا..
شاید لائبریری میں ہو...
رانیہ نے بہت آرام سے کہا تھا ہمیشہ والا غصہ فلحال اس کے الفاظ میں نہیں تھا.
لیکن لائبریری تو بند
ہے.. ذارا اور مہک تقریباً ساتھ بولیں تھیں.
اچھا میں دیکھتا ہوں،
محسن کھڑا ہوا تھا،
تو بیٹھ میں دیکھتا ہوں..
ویسے بھی ابھی میچ میں ٹائم ہے، وہ اٹھ کے چل پڑا تھا..
وہ جانتا تھا کہ شانزے
کہاں ہے..
................................
یوسف لائبریری کی بیک
سائیڈ پے آیا تھا.. وہ وہیں بیٹھی تھی، زمین پے، آنکھیں بند کیے.. دیوار سے سر
ٹیکاے..
دونوں ہاتھوں کو دعا کے
لئے جوڑے... ایسا لگ رہا تھا بہت ضروری کچھ مانگ رہی ہے..
اس وقت یوسف کو لگا یہ وہ
شانزے نہیں ہے جسے وہ جانتا ہے..
اس وقت تو وہ کسی اور ہی
دنیا کی لگ رہی تھی.. ہر چیز سے بےنیاز... اپنی دنیا میں گم..
اس وقت اسے وہ خود سے بہت
قریب محسوس ہوئی تھی.. بےاختیار اس کے ہونٹوں پے مسکراہٹ آئ تھی..
آج اسے احساس ہوا تھا..
بندھے اور الله کا تعلوق کسی وقت کا محتاج نہیں ہے..
آپ جب چاہو... جہاں
چاہو... جیسے چاہو... اس سے بات کر سکتے ہو...
وہ ہر وقت ، ہر لمحے سنتا
ہے، آپ اس سے مانگ سکتے ہو..
اور بیشک دینے والوں میں
وہ سب سے افضل ہے، جو بغیر کس حساب کتاب کے، بغیر کسی سوال کے آپ کو دیتا..
یوسف اسے دیکھ کر بہت دیر
سوچتا رہا.. شانزے کا ہر روپ اسے حیران کرتا تھا..
وقت آہستہ آہستہ سرک رہا
تھا، اس نے جذبات پر قابو پایا تھا... وہ قدم قدم چلتا اس کے کی طرف بڑھا تھا..
اس کی طرح ٹیک لگا کر کچھ
فاصلے سے بیٹھا تھا... شانزے نے اپنے ارد گرد ہلچل پا کر آنکھیں کھول دیں تھیں..
اوہ - تم... شانزے کے تنے
ہوے اعصاب ڈھیلے پڑے تھے..
تم یہاں کیا کر رہی
ہو..؟؟ کچھ نہیں بس وہاں بہت شور تھا تو میں یہاں آگئی.. شانزے نے سب سے آسان
بہانہ بنایا..
اور مانگ کیا رہی تھی..
یوسف نے اس کے ہاتھوں کو دیکھا تھا..
نہیں کچھ نہیں.. کیا...
مانگوں گی ؟؟ شانزے نے دعا کے لئے جوڑے ہاتھ سیدھے کیے تھے..
پکا...؟؟ یوسف نے شرارت
سے پوچھا تھا...
ہاں... شانزے نے ادھر
ادھر دیکھا تھا،
تم آئیں کیوں نہیں میچ
دیکھنے ؟؟ یوسف نے پوچھا تھا..
مجھے پسند نہیں سپورٹس..
شانزے بہت آرام سے کہا تھا. (اب کیا بتاتی اپنے خدشات) یوسف اسے دیکھتا رہا تھا.
چلو پھر.. سب کینٹین میں
ویٹ کر رہے ہیں... یوسف نے اٹھ کر اس کی طرف ہاتھ بڑھایا تھا...
شانزے اس کے ہاتھ کو
دیکھا تھا اور پھر اس کا ہاتھ تھماتی کھڑی ہوئی تھی..
................................
شکر تم لوگ آگے... ورنہ
ہم تو علان کروانے جا رہی تھے، ذارا نے نے طنز کیا تو سب ہنسنے لگے..
بس کیا کرتا میڈم مل نہیں
رہی تھیں.. کسی اور ہی دنیا میں گم تھیں برا ڈھونڈنا پڑا..
یوسف نے اسے اپنی نظروں
کے گھیرے میں لیا تھا.. جب کے شانزے کو اس کے بولنے پے غصہ آیا تھا.
حد ہے شانزے تم بھی نہ
پتا نہیں کیا کرتی ہو... صبا غصہ ہوئی تھی..
چلو اب کچھ کها لو.. محسن
یوسف اور شانزے کے آگے سموسے اور فرائز کیے تھے،
جن سے اٹھتی گرم گرم
خوشبو کسی کو بھی بھوک لگانے کی صلاحیت رکھتی تھی...
پہلے پانی لے آؤں یوسف
کاؤنٹر کی طرف گیا تھا لگاتار دو میچ کھلے تھے.. پانی پی پی کر حالت خراب تھی،
لیکن فلحال اسے پانی کی
بہت ضرورت تھی... یوسف واپس ٹیبل پے آیا تھا..
وہ پانی پی رہا تھا جب
محسن شانزے کو ٹوکا جو اب تک ایسے ہی بیٹھی تھی.
عزت مآب جناب شانزے حسان
صاحب آپ کو انویٹیشن دے کر کہنا پڑے گا...
اور پھر یوسف سمیت صبا
اور محسن نے بھی دیکھا کے یوسف کے کچھ کھانا شروع کرنے کے بعد ہی،
شانزے نے پلیٹ کی طرف
ہاتھ بڑھایا تھا.
یوسف نے شانزے کو دیکھا
تھا، مسکراہٹ پھر ہونٹوں کو چھو گئی تھی.
................................
میچ دوبارہ شروع ہو گیا
تھا.. شہنواز کے لئے جتنا سوچا تھا وہ اس سے زیادہ ٹف ٹائم دے رہا تھا.
حالانکہ سب نے سوچا تھا
گیم فرسٹ ہاف میں کلیر ہو جائے گا پر ایسا نہیں تھا..
سب وہاں تھے لیکن شانزے
پھر غائب تھی..
یہ شانزے کہاں گئی..؟؟
رانیہ نے ادھر ادھر دیکھ کر پوچھا تھا.
پتا نہیں یہیں ہو گی..
مہک نے بھی ڈھونڈنے کی کوشش کی تھی.
اچھا... نظر نہیں آرہی...
عجیب ہے.. یوسف نے تو اسے ایک پل بھی اکیلا نہیں چھوڑا تھا،
اور اس کو تو کوئی پرواہ
نہیں ہے.. رانیہ نے دکھ سے کہا تھا اس کی آواز سے لگ رہا تھا کہ یہ طنز نہیں ہے.
لیکن صبا کو اس کی بات
بہت بری لگی تھی.. اس لئے وہ شانزے کو دیکھنے باہر آئ تھی.
لیکن اس کو کوئی خاص محنت
نہیں کرنی پڑی تھی. وہ باہر ہی مل گئی تھی.. لان میں بیٹھی تھی..
کیا ہوا یہاں کیوں بیٹھی
ہو اندر چلو.. صبا نے پاسس اکر کہا تھا،
نہیں یار میں یہیں ٹھیک
ہوں ویسے بھی مجھے سپورٹس میں کوئی دلچسپی نہیں تھی.. شانزے نے صاف بہانہ بنایا.
جو کافی حد تک سچا بھی
تھا لیکن.. اصل مسلہ یہ تھا...
کہ وہ نہیں چاہتی تھی کہ
یوسف کا دیھاں اس کی وجہ سے بٹے اور وہ یہ میچ ہر جائے..
شانزے کتنی باتمیز ہو
تم.. جب تم پوٹری سیشن میں تھیں پورا ٹائم یوسف وہاں تھا تمہارے لئے اور تم...
بات تمہارے انٹرسٹ کی
نہیں ہے.. تمہیں سپورٹ کرنا چاہیے..
حد ہے... صبا کو اس کی
بات اچھی نہیں لگی تھی.. مت آؤ... مارو یہیں
پر مجھے دوست نہ کہنا اب..
صبا جانے لگی تھی..
اچھا روکو چلتی ہوں ایک
تو تمہاری بلیک میلنگ.. شانزے ناراضگی سے کہا تھا.
وہ دونوں اندر آگئیں
تھیں... شانزے نے یوسف کو دیکھا تھا.. وہ پوری طرح سے گیم میں مصروف تھا..
اس کو اتنے مہارت سے
کھیلتا دیکھ، شانزے کو ماننا پڑا تھا کہ وہ اچھا پلیئر ہے..
اوہ.... تو میڈم آگئیں...
محسن نے اس کو دیکھ کر کہا تھا..
آئیں نہیں ہیں، لائیں
گئیں ہیں. صبا نے بات کلیر کی تھی..
یوسف اپنا شاٹ مار چکا
تھا.. جب بےدیہانی میں اس کی نظر گروپ کی طرف گئی.. وہاں شانزے تھی..
اس کو یقین نہیں آیا تھا
کہ شانزے وہاں ہیں اس لئے اس نے دوبارہ اسی جانب دیکھا تھا..
اور پھر اسی چکر میں اس
نے شاٹ مس کیا تھا اور یہ پہلا پوانٹ تھا جو شاہنواز کو ملا تھا...
پورے ہال میں خاموشی چاہ
گئی تھی.. کوئی یوسف سے ایسی غلطی کی امید نہیں کر رہا تھا.
وہ اس وقت جب گیم ختم
ہونے میں صرف ١٠ منٹ باقی تھے..
شانزے کو دکھ ہوا تھا جو
وہ سوچ رہی تھی وہی ہوا تھا ،، یوسف نے اس کے چہرے پے دکھ کے تصورات دیکھتے تھے..
پاگل ہے یہ.. یوسف نے دل
میں کہا.. اور پھر سے گیم کی طرف توجہ دینے لگا..
کچھ منٹ بعد ہی اس نے اس
کا سکور شاہنواز کے برابر تھا یعنی 1 - 1 . میچ ٹائی ہونے کا خطرہ تھا.
میچ ختم ہونے میں اب صرف
2 منٹ تھے شانزے نے آنکھیں بند کی تھی وہ دل میں میں دعا مانگ رہی تھی،
یوسف نے اس کی طرف دیکھا
تھا، اسے ہنسی آئ تھی.. اور پھر اس نے ایک بھر پور کوشش کی تھی...
جو کامیاب تھی.. سکور اب
2 پے1 تھا.. ہال میں تالیاں بجنے لگیں تھیں..
شانزے... نے آنکھیں
کھولیں تھیں.. یوسف اس کو ہی دیکھ رہا تھا.. اس نے ہاتھ سر سے ٹچ کی تھا سلوٹ کی
طرح..
شانزے ہنسنے لگی تھی.
یوسف اور شاہنواز اب ایک دوسرے سے ہاتھ ملا رہا تھا.
فائنلی یوسف اور وارث کو
وننر آناوس کر دیا گا تھا.. لاسٹ سیشن میں وہ دونوں کمپیٹیٹرز تھے.
مجھے امید ہے آج سب نے
بہت انجواے کیا ہو گا..
لیکن اس سے بھی زیادہ اپ
سب اگلے راؤنڈ میں انجواے کرنے والے ہیں.
آپ سب کے لئے ایک آخری
سرپرائز ہے.. جو آپ کو ٢ دن بعد لاسٹ سیشن شروع ہونے سے پہلے دیا جائے گا..
سر مستنصر کے کہنے پر ہال
میں شور ہونے لگا تھا.
................................
سب لوگ اب باہر آگے تھے،
جب وارث یوسف سے اکر ملا تھا..
یوسف اور اس کے درمیان اب
کچھ حد تک دوستی ہو گئی تھی..
ویل... مجھے لگتا ہے تم
نے جیت جانا ہے.. وارث نے بات شروع کی تھی..
اچھا وہ کیسے... کیوں کے
تم لوگوں کی ٹیم بہت اچھی ہے اس نے شانزے یوسف دونوں سے کہا تھا..
بس بس نظر نہ لگاؤ...
ابھی ایک سیشن باقی ہے.. محسن ٹپک کر بولا تھا.
ہاہاہاہا سب ایک ساتھ ہنس
پڑے تھے...
چلو اب نکلتے ہیں.. ٹائم
کافی ہو رہا ہے... شام تکریباً ڈھل گئی تھی.. یوسف نے ٹائم دیکھتے کہا تھا..
سب حیران ہوے تھے..آج سے
پہلے تو کبھی اس نے ایسی جلدی نہیں اتری تھی.
لیکن شانزے جانتی تھی کہ
اسے جلدی کیوں ہے...
کل ہی تو اس نے یوسف سے
ٹائم زیادہ ہونے کے بارے میں کہا تھا..
.................................
وہ دونوں اب گاڑی میں
تھے..
تم نے جواب نہیں دیا میری
بات کا... یوسف نے جوس اس کی طرف بڑھاتے ہوے پوچھا تھا.
کس بات کا... شانزے کا دل
زور سے دھڑکا تھا، اس نے نظرین چراتے پوچھا تھا.
تم جانتی ہو، میں کس بارے
میں بات کر رہا ہوں.. یوسف نے موڑ کاٹا تھا..
نہیں... میں نہیں جانتی،
شانزے ابھی بھی انجان بن رہی تھی..
ٹھیک ہے پھر یہ بات میری
آنکھوں میں دیکھ کر کہو... یوسف نے گاڑی روکی تھی،
وہ اس کی آنکھوں میں
دیکھنا چاہتا تھا، لیکن مشکل یہ تھی کے شانزے کے لئے پلکیں اٹھانا مشکل ہو گیا
تھا...
اس کے ماتھے پے پسینے کی
بوندیں چمکیں تھیں. یوسف نے بڑی محبت سے دیکھا تھا..
شانزے کا شرماتا، گھبراتا
چہرہ اسے ہمیشہ بڑا معصوم لگتا تھا.. اسے لگتا تھا یہی اصل شانزے ہے..
دنیا سے چھپی ہوی.. جسے
صرف وہ جانتا ہے... اور جو صرف اس کی ہے..
بولو... یوسف نے اسے تنگ
کرنے کے لئے کہا تھا..
گاڑی چلاؤ دیر ہو رہی
ہے... شانزے کی آواز میں لرزش تھی..
یوسف کیا سوچ رہا تھا اور
اسنے بولا بھی تو کیا... لیکن پھر بھی یوسف کا دل چاہا تھا یہ پل یہیں روک جائے..
اس نے دوبارہ گاڑی سٹارٹ
کی تھی.. میوزک سسٹم اون کر کے ایک ٹریک پلے کیا تھا..
گاڑی میں اب ارجیت کی
آواز گنج رہی تھی..
میری بچینیوں کو چین مل
جائے ، تیرا چہرہ جب نظر آے
میرے دیوانےپن کو صبر مل
جائے ، تیرا چہرہ جب نظر آے
ذکر تمہارا جب جب ہوتا ہے
دیکھو نہ آنکھوں سے ،
بھیگا بھیگا پیار بہ جاتا ہے
میری تنہائیوں کو نور مل
جائے ، تیرا چہرہ جب نظر آے....
( یوسف کو لگا تھا یہ گانا اس کے ہر احساس کو
بیان کر رہا ہے، اس لئے اس نے بہت سوچ سمجھ کر لگایا تھا..
اسے یاد تھا کہ کل صبح وہ
کتنی جلدی کر کر کے ہسپتال آیا تھا، لیکن وہ حسین کے پاس نہیں ملی تھی،
یہ سوچ کر کہ وہ اس سے
ناراض ہے، تو اسے کس طرح سے بیچنی نے گھیر لیا تھا.
وہ جلد از جلد اس سے ملنا
چاہتا تھا ، اور جب اس نے اسٹیج پے کھڑی شانزے کو دیکھا تھا،
تو نہ صرف آنکھوں میں
بلکے روح میں بھی سکون اتراتا محسوس کیا تھا.)
میں رات دن یہ دعا کروں ،
تیرے لئے میں جیوں مرون
چاروں پہر تجھے دیکھا
کروں ، میرا جہاں یہ تجھ پے فنا کروں
(یوسف کو یاد آیا تھا جب وہ اسے سمجھا رہا
تھا لیکن پھر بھی وہ بضد تھی.. اپنا نام کمپیٹیشن سے واپس لینے کے لئے..
کتنا بری طرح سے پیش آیا
تھا وہ، کتنا غصہ کیا تھا اس نے، کتنا سنایا تھا اسے، یہاں تک کہ جب وہ رو رہی
تھی،،
اسے چپ بھی نہیں کرایا
تھا.. لکین پھر شانزے نے اس کے لئے اپنا نام واپس لینا چاہ تھا.. وہ یہ بھی بھول
گئی تھی،
کہ یہ کمپیٹیشن اس کے لئے
بہت ضروری ہے..
اسے یاد آیا تھا وہ لمحہ
جب لائبریری کی بیک سائیڈ پے اکیلی بیٹھی وہ اس کے لئے دعا کر رہی تھی.)
ذکر تمہارا جب جب ہوتا ہے
دیکھونہ ہونٹوں پے تیرا
احساس، رہ جاتا ہے
میرے ہر راستے کو منزل مل
جائے ، تیرا چہرہ جب نظر آے
(شانزے کے جذبات بھی کچھ ایسے ہی تھے.. اسے
یاد آیا تھا ہر قدم پے یوسف کا اس کو ہیلپ کرنا..
جس طرح سے وہ اسے کوئز کے
لئے... پویٹری کے سیکشن کے لئے تیار کرتا رہا ہے...
اسے یاد آیا تھا جس طرح
سے وہ اس کے لئے کمپیٹیشن آسان بناتا رہا ہے..
جس طرح سے وہ اس کے لئے
بارش میں کھڑا رہا تھا...)
بےرنگ ہوائیں مجھے نا
جانے ، دے گی صدا کیوں ابھی ابھی
ہے سرفروشی یہ عاشقی بھی
، جائے گی جان میری اس میں کبھی
ذکر تمہارا جب جب ہوتا ہے
دیکھو نہ ہر لمحہ تیری
داستان ، کہ جاتا ہے
میری ہرایک تڑپ کو سکوں
مل جائے ، تیرا چہرہ جب نظر آے..
(یوسف کو یاد تھا وہ پل جو اس نے حاکس بے
گزارا تھا... جب واپس لوٹنے پے شنزا اے ہٹ کے پاس نہیں ملی تھی..
درد کی وہ لہر جو کے جسم
میں دوڑی تھی، وہ کبی نہیں بھول سکتا تھا اسے.. کتنا تڑپ تھا وہ اس وقت..
لمحہ آگاہی محبت بھی تھا،
اور لمحہ موت بھی... کتنی موتیں مرا تھا اس وقت...
پھر جب شانزے ملی تھی..
تو اس کی نکھوں نے کتنے شکرانے ادا کیے تھے یہ تو صرف وہی جنتا تھا...)
گانا ختم ہو گیا تھا.. وہ
دونوں.. خاموش تھے... ہمیشہ کی طرح نہ کہنے کی ضرورت تھی نہ سنے کی..
لیکن دل پاگل کب مانے
والا ہے.. اور پھر محبت تو ہمیشہ اظہار چاہتی ہے.. لیکن یہاں تو دونوں طرف ہی
خاموشی تھی...
شانزے کا گھر آگیا تھا...
یوسف نے گاڑی سائیڈ میں لگا دی تھی..
کل ملتے ہیں.. شانزے کہہ
کر اترنے لگی تھی..جب یوسف نے اس کا ہاتھ پکڑا تھا..
شانزے کو لگا اس کے جسم
میں سے بجلی گزری ہے... وہ اپنی جگہ سن ہو گئی تھی...
کیسا لمحہ تھا یہ نہ روکا
جا رہا تھا، نہ ہاتھ چوڑا کے جا سکتی تھی..
شانزے کی دھڑکن اس وقت
بہت تیز چل رہی تھی.. تو کیا یہ وہ لمحہ جب یوسف نے اظہار کرنا تھا..
اور اس سے اظہار مانگنا
تھا.. شانزے نے اپنے آپ پر قابو پانے کے لئے آنکھیں بند کیں اور کھولیں تھیں..
شانزے حسان، تم نے اب تک
میری بات کا جواب نہیں دیا.. یوسف کی آواز اس کے جذبات میں اتنی ڈوبی تھی..
کہ شانزے کے سارے اوسان
خطا کر گئی تھی...
کس بات کا... شانزے نے
پھر انجان بنے کی کوشش کی تھی...
کیا تم میرا انتیظار کرو
گی... یوسف اس کی طرف جھکا تھا..
شانزے کا چہرہ لال ہو رہا
تھا، یوسف نے اس کی گھبراہٹ محسوس کی تھی.. اس کی ہتھلیوں کی نمی،
یوسف کے ہاتھ میں جذب ہو
رہی تھی..
کمپیٹیشن ون کرنے کے اگلے
دن تیار رہنا تم نے مجھے ٹریٹ دینی ہے، میری کہی جگہ پے..
اس نے ایک دم عجیب بات کی
تھی.. شانزے نے ہاں میں سر ہلایا تھا، یوسف نے اس کا ہاتھ چھوڑا تھا...
اور ہاں !! آتے ہوے میرے
سوال کا جواب ضرور لانا.. کیونکہ بنا جواب لئے میں جانے نہیں دوں گا.
شانزے نے اپنے پیچھے اس
کی آواز سنی تھی. لیکن وہ وہ روکی نہیں تھی
اوربنا کچھ کہے گھر کی
طرف بڑھ گئی تھی..
یوسف مسکرایا تھا.
..................................
وہ تیزی اندر کی طرف آئ
تھی.. دل تھا کے پاگل ہوا جا رہا تھا.. اوپر کی طرف جانے لگی تھی..
جب سامنے سے احد آیا
تھا.. کون تھا وہ...؟؟ اس نے اوپر سے سے شانزے کو دیکھ لیا تھا،
اور اس کے تن بدن میں آگ
لگی تھی..
کون..؟ شانزے سمجھی نہیں
تھی..
وہ جس کے ساتھ گاڑی میں
آئ ہو.. احد نے ہر لفظ چبایا تھا..
آپ کو اس سے مطلب..؟؟
میرا خیال ہے.. آپ اپنے کام سے کام رکھیں تو زیادہ بہتر ہے. آپ مہمان ہیں...
تو مہمان رہیں.. کہتی
سائیڈ سے نکل گئی تھی،
شانزے کو جانے کیوں غصہ
آگیا تھا.. وہ اسے ٹھیک ٹھاک سناتی پر وہ سچ میں لہٰذ کر گئی تھی.
میں کون ہوں اب جلدی ہی
تمہیں بتاؤں گا، احد نے زور سے دیوار میں مقا مارا تھا...
اسے برداشت نہیں ہو رہا
تھا کے کوئی لڑکی اسے اتنا ایٹیٹیوڈ دیکھاے.
..................................
فائنلی وی آر ہیر... وہ
آرڈر کر چکے تو عنیقہ نے خوش ہوتے کہا تھا..
سب سے پہلے تمہیں مبارک
ہو.. میچ جیتنے کی..
تھنکس.. پر یہ میرے اکیلے
کی جیت نہیں ہے، شانزے نے بہت محنت کی ہے.. یوسف نے جانکر اس کا نام لیا تھا..
ہاں.. تم ٹھیک کہ رہے
ہو.. عنیقہ کا موڈ کچھ اوف ہوا تھا..
وہ دونوں اب ادھر ادھر کی
باتیں کر رہے تھے.. جن میں زیادہ تر باتیں شانزے کی تھیں.
ان کا آرڈر بھی آگیا تھا
جو یوسف نے صرف کیا تھا اسے، جس کی وجہ سے عنیقہ موڈ پہلے سے اچھا ہو گیا تھا
مجھے اب تک یقین نہیں
آرہا کہ تم میرے سامنے بیٹھو... تھرڈ کلاس فلموں کی لائن یوز کی گئی تھی..
عنیقہ کو لگا تھا اب وہ
اپنا بازو یا ہاتھ آگے کر کے کہے گا لو یقین کر لو.. پر وہ پھر سے ناکام ہوئی
تھی..
کیسے نہ آتا.. آخر کو تم
شانزے کی بہن ہو.. یوسف نے پھر سے وہی بات کرنے کی کوشش کی تھی..
جس کے لئے وہ یہاں آیا
تھا.. کیوںکہ وہ جانتا تھا زیادہ دیر یہاں روکنا عنیقہ کی خشفہمیوں کو ہوا دینا
ہے..
وہ میری بہن نہیں ہے..
عنیقہ نے ریکٹ کیا تھا تیر نشانے پے لگا تھا..
اوہ - آئ مین تمہاری
کزن... یوسف نے عنیقہ کی کمزوری پکڑ لی تھی..
نہ بہن.. نہ کزن... وہ
صرف ہمارے گھر میں رہتی ہے.. اس سے زیادہ کوئی تعلوق نہیں ہے..
بظاھر کافی سکون سے کہا
تھا لیکن اس کی آنکھوں سے اس کے اندر پنپنے والی نفرت کا اندازہ یوسف نے کر لیا
تھا..
وہ کہتے ہیں نہ.. انسان
جس سے نفرت کرتا ہے چاہ کر بھی اسے ختم نہیں کر سکتا.. نفرت ہر چیز پے غالب آجاتی
ہے..
اچھائیوں پے بھی.. جیسے
انسان جس سے محبت کرتا ہے تو اس کی غلط بات بھی برداشت کر جاتا ہے..
عنیقہ کے ساتھ بھی یہی
ہوا تھا اتنے دن کی محنت بیکار گئی.. کتنی کوشش کی تھی اس نے لیکن بلاآخر اس کے
اندر کی نفرت جیت گئی تھی.. یہ جانے بغیر کے اسے کیا نقصان ہو سکتا ہے..
مطلب میں سمجھا نہیں..
یوسف نے جان کر کہا تھا.
یہی کے وہ ہمارے خاندان
کی نہیں ہے.. چاچو پتا نہیں کہاں سے اٹھا کے لاے تھے..
عنیقہ کی آواز میں اتنی
نفرت اتنی حقارت تھی.. کہ یوسف کی آنکھیں غصے سے لال ہونا شروع ہو گئیں تھی.
ماما
بابا نے تو بہت مانا کیا تھا پر جانے چاچو کو کیا ہو گیا تھا انہوں نے کسی کی نہیں
سنی..
جب بھی بات شانزے کی ہوتی
ہے تو چاچو گھر چھوڑنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں،
نہ جانے کیا ہے اس میں
کہ، خالہ اور اریزے کچھ بھی نہیں سنا چاہتیں اس کے بارے میں..
پاپا تو کتنی بار کہ چکے
ہیں چلاتا کرو اب اسے لیکن نہیں وہ تو سنتے ہی نہیں ہیں..
وہ بولتی جا رہی تھی..
اسے لگا کے یوسف اب شانزے سے کبھی نہیں ملے گا،
آخر کون ہو گا جو اس طرح
کی لڑکی سے رشتہ جوڑے گا..
وہ اس بات سے بےخبر تھی..
کہ یوسف جو جانا چاہتا تھا جان گیا تھا.
وہ اس لئے جواب نہیں رہا
تھا کہ دکھ میں تھا.. اسے یقین نہیں آرہا تھا..
کوئی کسی سے اس حد تک
نفرت کر سکتا ہے..
وہ اچھی طرح سمجھ رہا تھا
کے اس نے کس طرح کی زندگی گزاری ہے..
اسے پھوپو کا خط یاد آیا
تھا " میری بیٹی اپنے باپ کے پاس ہے"
آپ کی بیٹی اپنے باپ کے
پاس نہیں ہے.. اس نے دل میں سوچا تھا.
یوسف کو شدید غصہ آرہا
تھا. لیکن عنیقہ بےخبر بولتی جا رہی تھی.
اور اس کی آخری بات نے یوسف
کے سارے باندھ طور دے تھے..
نا ماں کا پتا نا باپ کا،
جانے کس کا گندا خون ہے... عنیقہ نے کہا ہی تھا..
بس... یوسف نے ٹیبل پے
زور سے ہاتھ مارا تھا..
اس کے ایسے بولنے پےعنیقہ
ڈر گئی تھی..
ایک لفظ اور نہیں..
سمجھیں... یوسف کی آنکھیں شعلے برسا رہی تھیں..
مجھ حیرت ہے کہ ایک لڑکی
ہو کے تم کسی دوسری لڑکی کے لئے یہ سب کہ رہی ہو..
سوری یوسف میرا مطلب یہ
نہیں تھا.. میں تو صرف، عنیقہ کی بات بیچ میں رہ گئی تھی..
میں تو کیا ؟؟؟ یوسف دھا
ڑا تھا.. اس نے ویٹر کو بل لانے کے لئے کہا تھا.. وہ بل دے کر اٹھ گیا تھا.
جب عنیقہ نے ہاتھ پکڑ کے
روکا تھا اسے.. اسے عنیقہ کی حرکت زہر لگی تھی.
یوسف تم ایسے نہیں جا
سکتے پلیز میری بات سنو..
میں تمہیں پسند کرتی
ہوں.. بات کافی بگاڑ گئی تھی لیکن عنیقہ ابھی بھی بات سمبھالنا چاہ رہی تھی..
تم میری بات سنو... یوسف
نے اس کا ہاتھ جھٹکا تھا.. ورنہ دل تو چاہا تھا کے تھپڑ لگا دے..
تم میرے لئے صرف دوست
تھیں اور کچھ نہیں.... میں نے تم سے دوستی صرف شانزے کے لئے کی تھی..
لیکن تم اس کے بھی لائق
نہیں ہو وہ کہتا وہاں سے چلا گیا تھا..
جبکہ عنیقہ کے اندر ایک
نئی آگ لگ گئی تھی.. بدلے کی آگ...
..................................
پاپا... پاپا... شانزے
آواز دیتی ہوی اندرآئ تھی..
آجاؤ پاپا کی جان.. حسان
نے اپنا کام کرتے ہوے کہا تھا..
آپ مصروف ہیں تومیں بعد
میں آجاؤں گی.. شانزے نے ہاتھ میں لیپ ٹاپ دیکھ کر کہا تھا،
ہاں مصروف تو ہوں پر اپنی
بیٹی کے لئے نہیں... انہوں نے ہاتھ کے اشارے سے اسے بلایا تھا..
شانزے فورن جا کے ان کے
سینے لگ گئی تھی.. وہ آج بھی انھیں ایسی ہی لگتی تھی چھوٹی سی گڑیا..
جسے سے ٢٠ سال پہلے وہ اس
گھر میں لاے تھے.. یہ سوچ کر کے دنیا کی ہر خوشی اس کی جھولی میں ڈالیں گئے..
اور ایسا کیا بھی لیکن پھر
بھی دل میں کوئی کسک تھی.. خاندان کے کچھ لوگوں کے رویے کی..
اور آج کل تو ایک نئی سوچ
نے ان کے دماغ میں گھیرا ڈال رکھا تھا.
کیا ہو گا جب شانزے کو اس
کی حقیقت پتا چلے گی کیا وہ بتا دیں..
لیکن کیسے بتائیں کیا وہ
سہہ سکے گی سب کچھ.. پھر وہ انھیں چھوڑ گئی تو..
کیا وہ جی پائیں گئے، ان
کے لئے تو وہ صرف ان کی ہی بیٹی رہی تھی.. بیٹیوں کی تو رخصتی انسان کو رلا دیتی
ہے..
یہاں تو معاملہ جدائی کا
تھا... وہ کیسے سمجھائیں گئے اسے کہ وہ کیوں بتانا نہیں چاہتے تھے..
کیا
ہوا پاپا آپ پریشان ہیں..؟؟ شانزے نے ان کے چہرے پے ہاتھ رکھا تھا..
ااب وہ کیسے بتاتے اس کو
کہ وہ تو اس دن سے پریشان ہیں جب پہلی بار انہوں نے زینب کا نام اس سے سنا تھا...
حسان کو یاد تھا وہ بچپن
میں بھی ہمیشہ ایسا کرتی تھی.. جب کوئی بات کرتی تو بار بار ان کے چہرے پے ہاتھ
رکھتی..
وہ برداشت نہیں کرتی
تھی.. ان کی توجہ اس سے ہٹے.. وہ مسکراے تھے لیکن آنکھیں نم ہو گئیں تھیں..
پاپا آپ رو رہے ہیں.. ؟؟
شانزے پریشان ہوئی تھی..
نہیں پاپا کی جان.. انہوں
نے اس کا ماتھا چوما تھا..
تو پھر..؟؟ شانزے نے پھر
سے پوچھا تھا..
تو پھر کہ میں اپنی بیٹی
کو باہر آئس کریم کھلانے لے کر جاؤں گا.. حسان نے بچوں کی طرح بہلایا تھا..
لیکن وہ بھول گئے تھے ماں
باپ کے لئے بچے چھوٹے ہی رہتے ہیں..
حالانکہ انہوں نے بھی
دنیا کے کچھ اصول تو سیکھ ہی لئے ہوتے ہیں..
اس لئے شاید انھیں پتا
نہیں چلاتا کہ کب ان کی اولاد بنا کہے بھی ان کی بتائیں سمجھنے لگتی ہے،
ان کی بات پے شانزے
مسکرائی تھی..
اب بتاؤ کچھ کہنے آئین
تھیں.. حسان اس کا دماغ بٹانا چاہتے تھے،
جی پاپا مجھے کچھ بکس
چاہیے تھیں.. ڈیبیٹ کمپیٹیشن کے لئے.. شانزے یہ تو بھول ہی گئی تھی کہ وہ کیوں آئ
ہے،
تو لے لو.. بیٹا.. حسان
نے اس کے سر میں ہاتھ پہرا تھا، نظر ان کی لیپ ٹاپ پے تھی.. لیکن دیہان اب کہیں
اور تھا..
شانزے نے اٹھ کر انکی
چھوٹی سے لائبریری سے کچھ بکس لیں تھیں پھر اپنے روم میں چلی گئی تھی...
........................................
اریزے میں روم میں داخل
ھوئی تو اس کا دماغ بھگ سے اوڑھ گیا تھا،،
ہر طرف بکس اور پپرز
پھیلے تھے اور ان سب کے بیچ میں شانزے منہ پے ایک کتاب رکھ کے لیٹی تھی.
وہ کمرہ کم اور ردی پیپر
کی دکان زیادہ لگ رہی تھی..
یہ سب کیا ہے... اریزے نے
حیرت سے پوچھا تھا..
نظر آنا بند ہو گیا ہے..
ان کو بکس کہتے ہیں... شانزے نے چڑ کر کہا تھا.. وہ پہلے ہی جلی بیٹھی تھی..
کیوں کے اتنی ساری بکس
میں اسے ایک بھی اچھا ٹوپک نہیں ملا تھا..
وہ مجھے بھی پتا ہے لیکن
یہاں ایسے کیوں پھیلی ہیں..؟؟؟ اریزے نے بکس کو ہاتھ لگانے کی کوشش کی تھی،
جس سے شانزے نے اس کے
ہاتھ پے ہاتھ مار کر ناکام بنایا تھا..
پھیلاؤں گی نہیں تو
سمیٹوں گی کیسے.. شانزے نے بڑی ادا سے کہا تھا،
فلمی.. ویری فلمی.. اریزے
نے چیزیں سائیڈ میں کی تھیں اور بیڈ پے بیٹھی تھی..
کیا فلمی یار ابھی تک ایک
ٹوپک نہیں ملا ڈھنگ کا اتنی بکس دیکھ لیں ہیں.. شانزے پریشان ہوی تھی..
گوگل کر لو.. اس نے
اطمینان سے کہا تھا.
نہیں گوگل نہیں مجھے تو
کچھ الگ سے ٹوپک چاہیے.. شانزے نے بچوں کی طرح کہا تھا.
تو پھر اور بکس دیکھ لو..
کچھ بکس نیچے اسٹور میں بھی تو ہیں.. اریزے نے آرام سے مشورہ دیا تھا.
اوہ یس.... یس شانزے نے
خوشی سے بہن کا منہ چوما تھا..
وہ جانے لگی تھی.. جب
اریزے اس کے سامنے راستہ روک کے کھڑی ہوی تھی..
پہلے یہ سب سمیٹو.. اس نے
کمرے میں پہلی چیزوں کی طرف اشارہ کیا تھا.
اریزے میری بہن... شانزے
نے معصوم منہ بنایا تھا..
کوئی نہیں چپ چاپ کرو...
اریزے کہتی چلی گئی تھی..
..................................
شانزے اسٹور میں آئ تھی..
کافی ٹائم تو روم سمیٹنے میں لگ گیا تھا.. وہ نیچے بکس میں سے بکس نکل رہی تھی..
اور ساتھ ساتھ اپنا دل
میں اریزے سے ناراض ہو رہی تھی...
کچھ بکس اس نے لے لیں
تھی.. وہ لایٹ اوف کر کے نکلنے ہی والی تھی،
جب اس کی نظر لکڑی کی بنی
الماری پے پڑی، جس پے کچھ ں بکس رکھیں تھیں..
شانزے اترنا چاہتی تھی..
لیکن اس کا ہاتھ وہاں تک نہیں پہنچ رہا تھا..
اس لئے وہ آس پاس کوئی
چیز ڈھونڈھ نے لگی جس پے چڑھ کر وہ بکس اتار سکے.
اس کی نظر لکڑی کے ایک
ٹوٹے ہوے سٹول پے پڑی ... اگرچہ اس کی حالت بہت خراب تھی..
لیکن شانزے کا کام بن
سکتا تھا..
شانزے سٹول اٹھا کر لائی
اور پھر چہر کر بکس اٹھانے لگی.. وہ بکس میں اتنی مگن ہوی کہ یہ بھی بھول
گئی،
کہ سٹول کی حالت کافی
خستہ ہے.. اور اسی بے دیہانی میں میں وہ نیچے گرنے لگی تھی..
جب اس نے الماری پر پڑا
کپڑا پکڑا لیکن وہ بھی اسے سہارا نہیں دیکھ سکا...
نتیجتاً اوپر رکھی ساری
چیزوں سمیت وہ نیچے گر پڑی تھی..
وہ اپنی چوٹیں سہلاتی اٹھ
بیٹھی تھی، اب اسے اور بھی غصہ آیا تھا کچھ گرنے کا اور کچھ سامان پھیلنے کا..
وہ جتنا ٹائم بچانا چاہ
رہی تھی اتنا ہی ویسٹ ہو رہا تھا..
اس نے بڑبڑاتے ہوے چیزیں
سمیٹنا شروع کی تب اس کی نظر ایک چھوٹے سے
زنک لگے صندوق پے پڑی..
جس کی کنڈی میں تالا
تھا،، لیکن گرنے کی وجہ سے اسکے قبضے کھل گئے،
اور کچھ خط اس ان میں سے
نکل رہے تھے..
شانزے جلدی جلدی خط اس
میں ٹھونس رہی تھی. صندوق سائیڈ میں رکھ کے واپس پلٹ رہی تھی..
جب کسی چیز نے اسے روک
لیا تھا..
اور وہ چیز کچھ اور نہیں
تھی بلکے خط پے لکھا نام تھا...
زینب میر...
جاری ہے
CLICK ON READ MORE TO CONTINUE READING
Comments
Post a Comment