بدتمیز عشق
قسط
:21
ردابہ نورین
......................................
شانزے گھر پہنچ گئی تھی... اس نے جان بوجھ کر کچھ نہیں
کیا تھا، لیکن وہ ابھی تک گلٹی فیل کر رہی تھی،
کیوںکہ آج ان کی پوزیشن صرف شانزے کی وجہ سے خراب ہوئی
تھی..
لیکن ساتھ ساتھ اسے یوسف کا بھی تو دکھ تھا اسے اندازہ
نہیں تھا وہ ایسا کرے گا...
وہ اتنا سنگ دل ہو گا یہ تو اس نے سوچا بھی نہیں تھا..
اس نے تو ایک موقع بھی نہیں دیا تھا کہ وہ اپنی بات
سامنے رکھ سکتی...
خیر اگر دے بھی دیتا تو، تو کون سا اس کے پاس کچھ تھا
کہنے کیے لئے سواے سوری کے...
وہ گھر میں داخل ہوئی تھی... جب اسے غیر معمولی تبدیلی
کا احساس ہوا تھا،
لیکن فلحال اسے اس بات سے کوئی غرض نہیں تھی کہ کیا ہے
اور کیوں ہے؟؟
وہ اس وقت صرف آج کے پورے واقعے کو سوچ رہی تھی... کیسے
اس نے اتنی بڑی غلطی کر دی...
لیکن غلطی ہی تو کی تھی اور اس کو ٹھیک بھی کیا جا سکتا
تھا...
لیکن یوسف... اس نے تو حد ہی کر دی ہے...
ایسا غائب ہوا کہ کسی سے ملا تک نہیں.. چلو مجھ سے
ناراضگی تھی آوروں سے تو نہیں تھی نہ..
اوپر سے وہ رانیہ خام خہ یوسف کی پھوپو بنے کی کوشش
کرتی ہے..
شانزے دل ہی دل میں رانیہ کو کوستے ہوے صوفے پی بیٹھی
تھی...
ارے تم کب آئیں.. تائی جان نے شانزے کو سوفے پے ڈھیر
دیکھا تھا تو وہیں آگئیں تھیں..
بس ابھی تائی جان.. شانزے خلاف توقع کافی آرام سے جواب
دیا تھا..
عنیقہ.... اری او عنیقہ.... (تمہارا آج کا پروگرام کیسا
ہوا ؟؟)
تائی جان نے عنیقہ کو آواز دینے کے بعد دوبارہ بات شروع
کی تھی...
اچھا ہوا تائی جان... شانزے حیرت ہوئی تھی...
پر اس سے زیادہ حیرت اسے تب ہوئی جب تائی جان نے اندر
آتی عنیقہ کو شانزے کے لئے پانی لانے کا کہا،
اور وہ لے بھی آئ... شانزے نے پانی پی لیا تھا.. لیکن
کچھ تھا جو عجیب تھا...
ارے عنیقہ تو کب سے کہ رہی تھی کہ وہ تمہارے ساتھ
یونیورسٹی جانا چاہتی ہے..
لیکن میں نے کہا شانزے تو وہاں جا کر مصروف ہو جائے
گی.. تو پھر تم کیا کرو گی وہاں...
نہ جان نہ پہچان.. اب بچی بیچاری تمہیں دیکھے گی یا
اپنا پروگرام کرے گی..
جی تائی جان یہ تو آپ ٹھیک کہ رہی ہیں... شانزے ان کی
بات کا مطلب نہیں سمجھی تھی تبھی ہاں میں ہاں ملائی...
اچھا میں ذرا می جانی کو دیکھ لوں ابھی تک نظر نہیں وہ
کہتی اٹھ گئی تھی..
جب کہ عنیقہ کا ہنس ہنس کہ برا حال ہو رہا تھا...
اب تمہیں کیوں کھی کھی لگ گئی ہے... تائی جان پہلے ہی
جلی بیٹھی تھیں..
کیا کہا تھا اپنے شانزے کو قابو میں کر لیں گی آپ...
ہاہاہا... امی جان میرا خیال ہے کہ آپ یہ خیال ترک کر دیں..
یہ بیل منڈیر نہیں چھڑنے والی... ہاہاہا عنیقہ پھر
ہنسنے لگی تھی...
اچھا تو تم کر لو کچھ تم سے کہا تھا نہ شانزے سے دوستی
کر لو... یوسف تک رسائی کا یہی راستہ ہے...
اس دن وہاں ملا بھی تو تم منہ دیکھتی رہی...
ہاں تو میں کیا کرتی.. ایک بار بات کرنے کی کوشش کی تھی
پر اس نے کچھ رسپونس ہی نہیں دیا...
اور اتنا تھا تو آپ کر لیتیں نہ تب تو آپ کو گھر آنے کی
پڑ گئی تھی... اب عنیقہ ماں کو الزام دے رہی تھی...
چلو صیہح ہے... لیکن تم نے کیا کر لیا... تائی جان نے
بھی جلتی پے تیل کا کام کیا تھا..
نہیں کیا تو کون سا دیر ہو گئی ہے... اب کر لوں گی...
عنیقہ نے اپنا فون اٹھایا تھا اور اندر چلی گئی تھی...
اری کیا کرنے کی سوچ رہی ہے کچھ تو بول... تائی اماں نے
اندر جاتی عنیقہ کے پیچھے کہا تھا...
....................................
شانزے اوپر آگئی تھی.. اسلام و علیکم می جانی... اس نے
اندر آتے کہا تھا..
وعلیکم اسلام .. آگئیں کیسا رہا سب..
ٹھیک رہا... اس نے مرے ہوے لہجے میں کہا تھا..
اچھا تو پھر تمہیں کیا ہوا..؟؟
کچھ نہیں بس تھک گیں ہوں..
تو پھر تم آرام کرو میں کچھ کھانے کو لاتی ہوں...
نہیں می جانی کچھ نہں کھانا بس چاے پنی ہے. شانزے کمرے
میں جاتی بولی تھی...
چلو ٹھیک ہے میں پلک کے پکوڑے بنا رہی تھی اب تم نے
نہیں کھانے تو میں... می جانی نے اس کو دیکھا تھا.
می جانی.... شانزے کا موڈ بدلہ تھا..
اریزے بھی آنے والی ہے... پھر ساتھ میں کھاتے ہیں ٹھیک
ہے...
می جانی نے پیار سے کہا تھا اور شانزے مسکراتے ہوے اندر
چلی گئی تھی.
....................................
بھائی سب ٹھیک ہے نا... پاپا کہاں ہیں... کیا ہوا ہے...
یوسف نے پریشان بیٹھے عثمان سے پوچھا تھا...
پاپا اندر ICU
میں ہیں... عثمان نے اطلاع دی تھی..
وہاٹ.. لیکن کیوں کیا ہوا ہے...؟ یوسف پریشان ہوا تھا.
ڈاکٹر کہہ رہا ہے ہارٹ اٹیک ہے... مائنر اٹیک ہے...
خطرے سے باہر ہیں لیکن...
کیا لیکن بھائی ...
وہ ہوش میں نہیں آے ہیں، ابھی خطرہ پوری طرح ٹالا نہیں
ہے.. اس لئے پاپا کو کچھ دن ہسپتال میں ہی رہنا ہو گا...
پر یہ سب کیسے ہو گیا بھائی.. آئ مین پاپا بلکل ٹھیک
تھے تو پھر...
آپ لوگ تو آج اسلم سے ملنے والے تھے نہ تو پھر یہ سب
کیا ہوا ہے یہاں ایسے ہسپتال میں... یوسف پریشان تھا..
عثمان کچھ بولتے اس سے پہلے ہی کلثوم اور شاہینہ بیگم
وہاں آتی دیکھائی دیں تھیں...
وہ دونوں رو رہی تھیں.. عثمان اور یوسف دونوں مل کے
انھیں سمبھال رہے تھے..
وہ جانتا تھا کہ اس وقت انھیں ان کی ضرورت ہے... انسان
مشکل وقت میں اپنوں کا ہی سہارا تلاشتہ ہے...
................................
اریزے نے باکس لا کر بیڈ پے احتیاط رکھا تھا...
کیونکہ باکس پے لکھا ڈیلیزیہ بیکری کا نام یہ بتانے کے
لئے کافی تھا کہ اندر کیک جیسی کوئی چیز ہے...
لیکن پریشانی یہ تھی کہ اس نے کچھ آرڈر نہیں کیا تھا...
تو پھر یہ کس نے بھیجا...
اریزے نے باکس کو چاروں طرف سے دیکھا تھا لیکن کہیں کچھ
نہیں لکھا تھا..
تبھی شانزے اندر آئ تھی.... خوبصورت باکس اس کی توجہ
حاصل میں کامیاب ہو گیا تھا..
کس نے دیا....؟؟؟ شانزے نے اریزے کے پاس آتے پوچھا تھا.
پتا نہیں اس پے کسی نے کچھ نہیں لکھا.. اریزے پریشان ہو
کر کہا تھا..
اوہو - اریزے یہ کیک ہے تم تو ایسے پریشان ہو رہی ہو
جیسے بم ہے.. نکالو نہ اس کو پلیز کھاتے ہیں...
پتا ہے یہ بہت اچھی بیکری ہے... لیکن ہمارے گھر سے بہت دور....
شانزے نے دور کو اتنا کھنچا کے اریزے کو ہنسی آگئی
تھی..
اففف... کتنی ندیدی ہو تم... اریزے نے اس کو گھورا
تھا...
جو بھی ہے.. کھولو نہ شانزے نے اس کے ساتھ مل کے باکس
کھولنا شروع کیا تھا..
باکس کی اندر سچ میں خوبصورت ہارٹ ڈیزائن کا بیلجین
چاکلیٹ کیک تھا جس پے بڑا سا تھنک یو لکھا تھا،
جب باکس کے اندر ایک خوبصورت کارڈ تھا...
اریزے نے کارڈ کھولا تھا...
Thank
you for supporting me
usman
اندر بہت خوبصورت رائٹنگ میں لکھا تھا... اریزے بےساختہ
مسکرائی تھی...
واہ... کتنا زبردست کیک ہے.. شانزے نے پر جوش ہوتے کہا
تھا... جو صاف بتا رہی تھی کہ بھجنے والا عثمان ہے...
اوہ - تو کیک یہاں سے آیا ہے.. اس نے چھوٹا سا ٹکڑا توڑ
کر منہ میں ڈالا تھا...
جواباً اریزے نے گھورا تھا... چپ کرو کوئی سنے گا تو
کیا سوچے گا...
کیا سوچے گا یہی کے ہونے والے داماد کو ڈیلیزیہ کا کیک
پسند ہے اس نے آرام سے کیک کہتے کہا تھا..
کس کو کیک پسند ہے... می جانی نے اندر آتے ہوے پوچھا
تھا..
می جانی مجھے.. مجھے کیک پسند ہے نہ...
شانزے نے بات کوور کی تھی، ورنہ اریزے کی تو حالات خراب
ہو گئی تھی.
ماں سے کوئی بات چھپانا ان دونوں کے لئے آسان نہ تھا...
لیکن ابھی بتاتی بھی تو کیا.. جب اسے خود معلوم نہیں
تھا...
..................................
وہ سب باہر بیٹھے انتیظار کر رہے تھے.. عثمان نے سب کو
زینی کا خط پڑھوا دیا تھا..
شاہینہ اور کلثوم دونوں ہی صدمے میں تھیں.. بس ایک یوسف
تھا جس نے کوئی ریکٹ نہیں کیا...
ایسا لگا وہ پہلے سے جانتا ہے کچھ..
عثمان کو یہ بات تھوڑی عجیب لگی تھی وہ کافی دفعہ سے
نوٹ کر رہے تھے کہ یوسف کچھ جانتا ہے...
پر ہر بار کسی نہ کسی الجھن میں یہ بات رہ جاتی تھی..
یوسف ونڈو سے باہر دیکھ رہا تھا... جب عثمان اس کے پاس
آیا تھا..
کیا بات ہے..؟؟ میں بہت دنو سے دیکھ رہا ہوں کچھ ہے جو
تم کہنا چاہتے پر کہتے نہیں ہو..
کوئی بات ہے تو بولو یوسف ، ہم مل کہ اسے دیکھ لیں
گئے...
پہلے جب پاپا نے کہا کہ شانزے کے زینب پھوپو کی بیٹی
نہیں ہو سکتی،
کیوںکہ اس کے پرنٹس کا نام کچھ اور ہے تب تم بھی تم نے
ریکٹ نہیں کیا تھا.. مطلب تم جانتے تھے..
اور آج بھی یہ جان کہ وہ ہمارے بیچ نہیں ہیں اس بات پے
تم نے کوئی ریکٹ نہیں کیا...
آخر تم ایسا کیا جانتے ہو جو ہم نہیں جانتے... عثمان
ایک بعد ایک سوال کے جا رہا تھا..
لیکن یوسف کو سمجھ ہی نہیں آرہا تھا کہاں سے شروع
کرے... بتاے بھی تو کیا...؟؟
وہ تو خود ٹھیک سے کچھ نہیں جانتا تو پھر... اس کے چہرے
پے پریشانی صاف ظاہر تھی..
صاف لکھا تھا وہ کسی کشمکش میں ہے... عثمان جانتے تھے
کہ کسی معمولی بات پے وہ پریشان نہیں ہو سکتا...
یوسف ٹیک یور ٹائم... عثمان نے اس کے کندھے پے ہاتھ
رکھا تھا...
وہ تو پریشانی بانٹنا چاہتے تھے.. اس سے پوچھنے کا ہرگز
مطلب یہ نہیں تھا کہ وہ مزید پریشان ہو...
نہیں بھائی ایسی کی بات نہیں ہے.. یوسف اوپر کے فلور کو
جاتی سیڑیوں میں بیٹھا تھا..
تو پھر کیسی بات ہے..؟؟ عثمان نے اس سے ایک سٹیپ اوپر
بیٹھا تھا.. یوسف کا سر اس نے اپنے گھٹنے سے ٹیکا لیا تھا..
بھائی مجھے لگتا ہے شانزے ہی زینب پھوپو کی بیٹی ہے..
ہم نے تصویریں دیکھی ہیں کسی کی شکل کا اس حد تک ملنا
محض اتفاق نہیں ہو سکتا. یوسف نے بات شروع کی تھی...
نہیں یوسف ہم سب جانتے ہیں اس کے پرنٹس کا نام...
بھائی وہ اڈوبپٹڈ ہے... وہ اس کے ریل پرنٹس نہیں ہیں...
یوسف نےعثمان پے انکشاف کیا تھا..
وہاٹ...؟؟؟ یہ تمہیں کیسے معلوم ؟؟ عثمان کو حیرت ہوئی
تھی..
بھائی میں گیا تھا ایک بار اس کے گھر اس کو چھوڑنے تب
سنا تھا،
شانزے کے تایا اور پاپا میں بحث ہو رہی تھی اس بات کو
لے کر...
اورجب پاپا نے زینی پھوپو کے بارے میں بتایا تو،
تب پہلی دفعہ مجھے لگا کہ ہو سکتا ہے کہ زینب پھوپو نہ
رہی ہوں....
اس لئے ان لوگوں نے شانزے کو ایڈوپٹ کیا ہو.. یوسف نے
کہا تھا...
ہاں پر انہوں نے اپنے خط میں صاف لکھا ہے... ان کی بیٹی
اپنے باپ کے پاس ہے...
اور پھر اسلم کی ماں نے کہا تھا کہ انہوں نے اپنی بیٹی
اپنے شوہر کو دے دی تھی...عثمان نے کچھ سوچتے ہوے کہا...
بھائی انہوں نے لکھا ہے کہ بھجوائی ہے.. تو یہ بھی ہو
سکتا ہے... وہ کبھی اپنے باپ کے پاسس پہنچی نہ ہو..؟؟
اور پھر ان کا شوہر لالچی انسان تھا تو یہ بھی ہو سکتا
ہے اس نے خود کچھ کیا ہو...
یوسف نے عثمان کی ساری انفارمیشن کو رد کیا تھا...
تو اب کیا کریں...؟؟ ایسے جا کر تو نہیں کہ سکتے نہ کہ
شانزے سے ہمارا کیا رشتہ ہے اور ہم اسے لینے آے ہیں..
اور پھر جانے شانزے جانتی بھی ہے یا نہیں ؟؟ عثمان کچھ
فکر مند ہوے تھے وہ یوسف کی جذباتیت سے واقف تھے..
وہ جانتی ہے بھائی.... یوسف نے ایک اور انکشاف کیا
تھا...
عثمان نے اسے حیرت سے دیکھا تھا..
وہ یہ بھی جانتی ہے " کہ میں اس کی ایڈوپشن کے
بارے میں سب جانتا ہوں"...
بھائی اس دن میری وجہ سے شانزے مصیبت میں پھس گئی تھی...
یوسف نے شرمندہ ہوتے کہا تھا..
عثمان نے اسے غصے سے دیکھا تھا... کنٹینیو کرو..
لیکن مجھے جلدی اپنی غلطی کا احساس ہو گیا تھا، وقت
کافی ہو گیا تھا،
اس لئے میں شانزے کو اس کے گھر چھوڑنے گیا تھا..
لیکن وہاں اس کے وقت پے گھر نہ پہنچنے پے ہنگامہ برپا
تھا، اس کے تایا اور تائی کی باتوں سے صاف لگ رہا تھا کہ وہ شانزے کو زیادہ پسند
نہیں کرتے اور وجہ اس کی ایڈوپشن ہے..
لیکن اس کی می جانی اور پاپا اور باقی سب لوگ کافی
پریشان تھے...
اسی بحث سے مجھے پتا چلا کہ شانزے ان کی اپنی اولاد
نہیں ہے.. تب پہلی بار میں نے اس کی آنکھوں میں التجا دیکھی جیسے کہ رہی ہو
"بھول جاؤ تم نے کچھ نہیں سنا"....
حالانکہ تب میں یہ نہیں جانتا تھا کہ شانزے کی شکل
پھوپو سے ملتی ہے،
لیکن میں چاہتا تھا اس سے بات کرنا، مجھے اپنے کے کی
شرمندگی تھی میں سوری کرنا چاہتا،
مجھے احساس تھا کے اس دن کے سارے سین کا زمیدار میں
ہوں...
پر ہر بار اس کا وہ اتروہ چہرہ میرے سامنے آجاتا اور
میں چاہتے ہوے بھی کچھ بھی نہیں پوچھ پاتا...
نہ کچھ کہہ پایا... وہ کافی دن تک یونیورسٹی نہیں آئ
تھی شاید اسی ڈر سے... کہ کہیں میں کچھ پوچھنا لوں...
پھر جب وہ ای تو اپنی لکھ کوشش کے بعد بھی میں کچھ پوچھ
نہیں...
میں نہیں چاہتا تھا کہ بغیر کسی ثبوت کے میں اس سے
پریشان کروں.. یا پھر کسی تکلیف کی وجہ بنوں...
یوسف بولنے لگا تو بولتا گیا... لیکن بھی مجھے لگتا ہے،
اب اس سے بات کر لینی چاہیے..
نہیں.. ایسے نہیں یوسف... بغیر کسی کنفرمیشن کے ایسے
بات نہیں کر سکتے...
اور پھر ہم کیا بولیں گئے ان سے ؟ شانزے کی شکل ملتی ہے
ڈاٹس اٹ...؟؟
ہمارے پاسس اپنی بات ثابت کرنے کے لئے کوئی ثبوت نہیں
ہے.. ہاں پھوپو زندہ ہوتیں تو اور بات تھی..
اور پھر تم نے کہا نہ تم اسے کوئی تکلیف نہیں دینا
چاہتے،
تو سوچو اگر سب کرنے کے بعد پتا چلتا ہے کہ شانزے وہ
نہیں جسے ہم ڈھونڈ رہے ہیں تو تب..؟؟
پھر سوچا ہے کیا ہو گا..؟؟ عثمان نے اسے سمجھایا تھا..
کچھ سمجھ نہیں آرہا کے کیا کروں...... یوسف نے اپنے بال
ہاتھ پہرا تھا..
حسین صاحب کو ہوش آگیا ہے... ڈاکٹر نے اکر اطلاع دی
تھی..
لیکن ابھی ان کی کنڈیشن پوری طرح سے ٹھیک نہیں ہے.
تو پلیز آپ لوگ خیال رکھیے گا کہ ایسی کوئی بات نہ ہو
جس سے انھیں کسی قسم کا صدمہ پہنچے...
ڈاکٹر اپنی ہدایت دیتا چلا گیا...
وہ سب لوگ پاس میں ہی کھڑے تھے کسی میں اتنی ہمت نہ تھی
کہ وہ انھیں پکارتے..
حسین کی آنکھوں سے آنسو گرے تھے...
کلثوم بڑھ کے بھائی کے آنسو صاف کرنے لگیں تھیں.. نہیں
بھائی پلیز آپ ایسا نہ کریں...
ہم سب کو آپ کی ضرورت ہے... ہم سب آپ سے بہت پیار کرتے
ہیں.. جو ہو گیا اس سے بدلہ نہیں جا سکتا..
لیکن ہم سب ہیں نہ سب مل کے ڈھونڈ لیں گئے زینی کی بیٹی
کو.. وہ نہیں رہی بھائی.. لیکن ہمارے دل میں تو ہے نہ..
کلثوم خود بھی رو پڑی تھیں.. حسین نے اپنا ہاتھ ان کے
سر پے رکھنا چاہا تھا.. پر کمزوری سے رکھ نہ پا رہے تھے..
تبھی یوسف نے بڑھ کر باپ کا ہاتھ کلثوم کے سر پے رکھا
تھا..
آپ فکر نہیں کریں پاپا.. بہت جلد وہ ہمارے پاسس ہو
گی... یوسف نے باپ کو تسلی تھی..
اس کے مضبوط لہجے نے عثمان کو چوونکا دیا تھا لیکن
اسوقت اس کے دماغ میں کیا چل رہا ہے..
وہ یہ جانے سے قاصر تھا.
......................................
ہر وقت اس موے لیپ ٹاپ کو لے کر بیٹھی رہتی ہو... مجال
ہے جو کبھی ماں کا کوئی حال احوال بھی لو...
کچھ سکھ لو... اریزے اور شانزے یونیورسٹی جاتی ہیں..
آفس جاتیں ہیں پھر بھی ماں کا کتنا خیال کرتی ہیں..
مجال ہے جو اکر اس کو کوئی کام کرنے دیتی ہیں.. اور ایک
تم ہو تمہیں اس سے فرسٹ ملے تو کچھ کرو نہ...
تائی جان نے عنیقہ کی ٹھیک ٹھاک عزت افزائی کی تھی.
لیکن وہ عنیقہ کہاں جو باز آجاے وہ آرام سے اپنے لیپ
ٹاپ میں مگن تھی.
ارے لڑکی..میں تم سے بات کر رہی... تائی جان کا صابر
جواب دے گیا تھا تبھی انہوں نے لیپ ٹاپ ہلایا تھا...
اففو.... امی دیکھ بھی رہی ہیں میں کتنا ضروری کام کر
رہی ہوں لیکن نہیں آپ کو تو اپنے طنز سے مطلب ہے...
اری لڑکی تمہارے کون سے بزنس چلنے لگے.. تائی جان حیران
ہوئی تھی...
نہیں چل رہے تو کیا ہوا امی جان چل پڑیں گئے.. عنیقہ نے
کافی اتراے ہوا لہجو میں کہا تھا..
اچھا... وہ کیسے...؟؟ تائی جان حیران تھیں...
وہ ایسے.. عنیقہ نے لیپ ٹاپ کی سکرین تائی جن کی طرف
گھومائی تھی جس پے یوسف کی تصویر جگمگا رہی تھی..
یہ کیا ہے...؟؟ وہ تصویر کو دیکھ کر مزید حیران ہوئی
تھیں..
یوسف تک رسائی کا راستہ.. عنیقہ کے چہرے پے فتیانہ مسکراہٹ تھی..
تم کر کیا رہی ہو.. ارے کچھ تو بتاؤ... یہ سب کیا ہے..
تائی جان پوچھنے بنا نہ رہ سکیں تھیں..
امی بس آپ آم خانے کی تیاری کریں... پیڑوں کو نظر انداز
کریں...
عنیقہ نے کہا تھا ور ساتھ ہی کچھ تیپے کرنے لگی تھی.
.......................................
حسین کی تبیت تھوڑی سمبھال گئی تھی.. اس لئے انھیں
پرائیویٹ روم میں شفٹ کر دیا تھا...
یوسف اور عثمان دونوں باپ کے پاسس روکے تھے جب کے
شاہینہ اور کلثوم کو واپس بیھج دیا تھا..
حالانکہ ہسپتال میں صرف ایک کو روکنے کی اجازت تھی..
لیکن یوسف کچھ دیر روکنا چاہتا تھا...
وہ روم سے باہر بنی بالکنی میں کھڑا تھا جہاں سے باہر
روڈ کا نظارہ بہت بھلا لگ رہا تھا...
رات کا وقت تھا تو ٹریففک زیادہ نہیں تھا... جانے وہ کن
سوچوں میں گم تھا جب عثمان نے پیچھے سے آواز دی تھی.
یوسف... عثمان نے اس کی طرف کافی کا کپ بڑھایا تھا،
تھنک یو بھائی.. یوسف نے کپ ہاتھ سے لیا تھا..
کیا سوچ رہے ہو..؟؟
کچھ نہیں بس یہی کہ آج صبح تک سب ٹھیک تھا.. اور اب
اچانک یہ سب ہو گیا..
سوچا تھا کہ پاپا کو پھوپو مل جائیں گی... تو سب ٹھیک
ہو جائے گا..
امید تھی کہ جو میں سوچ رہا ہوں وہ غلط بھی ہو سکتا ہے،
لیکن زندگی نے بھی کیسی کروٹ لیتی ہے اچانک..
ہاں کہ تو تم ٹھیک رہے ہو.. لیکن زندگی اسی کا نام ہے
یوسف.. ضروری نہیں جو ہم نے سوچ رکھو سب ویسا ہو..
امید تو زندگی ہے... امید ختم تو زندگی ختم تو ضروری ہے
کہ ہم اچھے کی امید رکھیں..
ویسے بھی آزمائشیں تو الله کی طرف سے.. الله تعالیٰ
اپنے ان بندوں کو آزماتا ہے جو اس کی آزمائش میں پورا اتر سکے..
اور نہ امیدی کا مطلب ہے... ہم نے ہار من لی.. عثمان نے
اس کے سر میں ہاتھ پھیرا تھا..
بھائی میں نہ امید نہیں ہوں میں نے پاپا سے وعدہ کیا ہے
کہ میں پھوپو کی بیٹی کو ڈھونڈ لوں گا...
اور مجھے یقین ہے کہ وہ شانزے ہے... اس بات کا میں جلد
از جلد پتا لگا لوں گا.. یوسف نے پراعتماد لہجے میں کہا..
پر کیسے.. عثمان نے فکر مندی سے پوچھا تھا..
تبھی یوسف کے فون کی رنگ ٹون بجی تھی،، جہاں اس سے
فرینڈ ریکویسٹ کی نوٹیفکیشن ملی تھی..
اس نے عثمان کے سامنے اپنا فون کیا تھا.. ایسے... یوسف
مسکرایا تھا..
سمبھال کے ایسا نہ کوئی مثبت ہو جائے... عثمان نے وارن
کیا تھا..
بھائی آپ فکر نہ کریں.. میں سمبھال لوں گا سب..
آپ بس ایک کام کریں.. آپ زینب پھوپو کے شوہر کی
انفورمیشن کلیکٹ کریں... یوسف نے مشورہ دیا تھا..
مشورہ تو تمہارا بہت اچھا ہے... عثمان کو واقعہ مشورہ
اچھا لگا تھا... اس طرف تو ان کی توجہ ہی نہیں گئی تھی پہلے...
..................................................
یوسف صبح میں ماما کو لے کہ ہسپتال آگے تھا...حسین کی
طبیعت کافی حد تک بہتر تھی..
لیکن ابھی کچھ اور دن انھیں ہسپتال میں رہنا تھا...
ڈاکٹر نے انھیں انڈر ابزرویشن رکھا تھا..
عثمان باہر ڈاکٹر کے ساتھ تھا... جب کے ماما اور یوسف
پاپا کے ساتھ مصروف تھے..
جب محسن اندر آیا تھا.. یوسف اس کو دیکھ کر حیران تھا..
کیوں کل رات سے نہ تو اس کی کسی سے بات ہوئی تھی...
اور اس نے کسی کو کچھ بتایا تھا... تو پھر محسن کیسے...
لیکن بہرحال اس سے خوشی ہوئی تو اس سچا دوست تھا،
اسلام و علیکم... انکل آنٹی... اس نے سلام کیا تھا،،
اور اب حسین سے ان کی خیریت دریافت کر رہا تھا.. یوسف
نے اس سے بات کرنی چاہی تھی پر اس نے کوئی رسپانس نہیں کیا. یوسف جن گیا تھا وہ اس
سے ناراض ہے.. اس لئے ایک ہلکی مسکراہٹ اس کے لبوں پے آئ تھی...
سوری... یوسف نے پاسس کھڑے ہو کر کہا تھا لیکن محسن نے
کوئی جواب نہ دیا...
وہ ویسے ہی حسین اور شاہینہ سے بات کرنے میں مصروف
تھا..
یوسف نے اس کا منہ اپنی طرف موڑا تھا... تو کیا میری
گرل فرینڈ کی طرح ناراض ہو رہا ہے...
میں اور تیری گرل فرینڈ کبھی مر کے بھی نہ بنو... اتنا
لاپروھ انسان مجھے ڈیزرو نہیں کرتا... محسن نے سنائی تھیں...
یار سب اتنی جلدی میں ہوا، تو میں گھبرا گیا تھا...
یوسف نے صفائی دی تھی..
بعد میں ایک فون تو کر سکتا تھا..؟؟ کتنے فون کے تجھے
تو نے جواب دیا... محسن کا شکوہ ٹھیک تھا..
اچھا نہ اب ہو گئی غلطی... دوبارہ نہیں ہو گا... اس نے
محسن کی طرف منت بھری نظر سے دیکھا تھا..
چل کیا یاد کرے گا کس دوست سے پالا پڑا ہے.. لیکن یاد
رکھنا دوبارہ ایسا کیا نہ تو مجھے سے برا کوئی نہیں ہو گا...
یوسف ہنسا تھا... شاہینہ اور حسین بھی ہنس پڑے تھے..
چل میں نکلتا ہوں... تو کب تک آے گا یونیورسٹی...؟؟
آج تم لوگوں کے اگلے راؤنڈز کی ڈیٹیل آناونس ہو گی..
محسن نے انفارم کیا تھا...
اوہ - میں تو بھول ہی گیا تھا.... یوسف نے سر میں ہاتھ
پھیرا تھا...
کیوں تجھے شانزے نے نہیں بتایا...؟؟ محسن حیران ہوا
تھا..
میری اس سے کوئی بات نہیں ہوئی اس دن..
میں اتنی جلدی میں تھا کہ کچھ بات نہیں کر پایا اور
میرا نمبر نہیں ہے شید اس کے پاسس..
یوسف نے صاف گوئی سے کہا تھا...
اوہ - تبھی کل وہ کافی پریشان تھی.. محسن نے کچھ سوچتے
ہوے کہا تھا..
پریشان... یوسف کے دل کو کچھ ہوا تھا لیکن پھر سوچ کے
بولا..
شانزے کو کہنا وہ چلی جائے دتیلس کے لئے میرا مشکل ہے..
میں پاپا کو چھوڑ کے ایسے نہیں جا سکتا...
محسن کچھ سوچ کے خاموش ہو گیا تھا.. ان حالات میں وہ
یوسف کو کیسے کہتا کے اسے جانا چائے..
میرا خیال ہے یوسف تمہیں جانا چاہیے... تبھی باہر سے
اتے عثمان نے اس کو بولا تھا..
لیکن بھائی.. پاپا کو چھوڑ کے کیسے... یوسف نے کہا
تھا..
تم فکر مت کرو میں ہوں یہاں... ماما ہیں... اور پھر تم
آجانا..
لیکن میرا خیال ہے.. تمہیں اس کمپیٹیشن کے لئے جانا
چاہیے... عثمان نے بات ختم کی تھی..
ہاں عثمان ٹھیک کہ رہا ہے.. حسین اس کی حمایت کی تھی..
ٹھیک ہے پاپا اگر کہتے ہیں تو میں ضرور جاؤں گا لیکن آپ
نے اپنا خیال رکھنا ہے..
............................................
شانزے یونیورسٹی آگئی تھی.. لیکن نہ یوسف.. نہ محسن
کوئی بھی نہیں تھا وہاں،
ایک عجیب سی کیفیت نے اس کو جگر لیا تھا..
کیا ہوا منہ کن لٹکا ہے.. صبا نے اس کی آنکھوں کے آگے
ہاتھ لہرایا تھا..
کچھ نہیں.. شانزے نے سفید جھوٹ بولا تھا..
شانزے تمہیں کیا لگتا ہے... ہم سب بیوقوف ہیں... تمہارے
منہ پی صاف لکھا ہے... صبا چڑ گئی تھی..
سوری... وہ بس میں یوسف کی وجہ سے پریشان تھی..وہ ابھی
تک نہیں آیا... شانزے نے گھٹنوں پے سر رکھا تھا..
ہممم... تو پرشان کیوں ہو... آجاے گا... صبا ریلکس
تھی..
مجھے لگتا ہے وہ مجھ سے ناراض ہے.. شانزے نے دل کی بات
کہی تھی..
کیں وہ کیوں ناراض ہونے لگا..؟؟ صبا نے حیرت سے دیکھا
تھا..
وہ کل کی پرفارمنس کو لے کر... شنزے بولا تھا..
اوہ - آئ سی.. صبا نے ٹھنڈی سانس لی تھی... ویسے یہ
شانزے کو کب سے اس کی ناراضگی کی فکر ہونے لگی...
اس نے جان بوجھ کر شانزے کو چھڑا تھا... کہیں ایسا تو نہیں
دربار دل کا کوئی دروازہ کھلا رہ گیا ہو...
اور وہ چھپکے سے اکر تخت دل پے براجمان ہو گیا ہے...
بکواس مت کرو... شانزے نے احتجاج کیا تھا لیکن اتنی
کمزور آواز میں کے صبا کو اپنی بات کا یقین آگیا تھا..
اچھا ٹھیک ہے... اداس مت ہو آجاے گا... صبا نے اس کے
گلے میں ہاتھ ڈال کر تسلی دی تھی..
چلو آڈی میں کی طرف چلتے ہیں.. ٹائم ہو رہا ہے... شانزے
نے کہا تو وہ دونوں اٹھ کھڑی ہوئی تھیں..
شانزے کی آواز میں دکھ تھا... افسوس تھا... صبا نے اس
کی طرف دیکھ تھا پر کہا کچھ نہیں تھا..
اور کہتی بھی تو کیا.. اس وقت کوئی تسلی اس کے کام انے
والی کہاں تھیں...
...................................
جاری ہے
CLICK ON READ MORE TO CONTINUE READING
Comments
Post a Comment