بدتمیز عشق
قسط
: 8
یوسف کو شدید جھٹکا لگا
تھا ہر طرف اندھیرا تھا. اس کو مایوسی ہوئی تھی. وہاں شانزے تو کیا کوئی بھی نہیں
تھا. یوسف کو دکھ ہوا تھا پر اپنی حالت پہ ہنسی آئی تھی. یہ محبت بھی نا کیسے کیسے
وہم پال لیتی ہے. انسان کتنا مجبور ہو جاتا ہے اس جذبےکے ہاتھوں.. وہ تو ہمیشہ ہی
جذبے کا مذاق اڑایا کرتا تھا، تو اب کیسے ہو سکتاتھا کہ محبت اتنی آسانی سے اسے
معاف کر دے آخر کو محبت ہے تو پھرتڑپنا تو ضروری ہے... ابھی تو صرف کچھ لمحے گزرے
تھے.... اتنے گھنٹوں سے ساتھ تھی تو وقت گزرنے کا احساس ہی نہ ہوا پر اب جیسے ہر
گزرتا ہوا پل اس کے لئے مشکل تھا. گھر کے باہر کھڑے اس سے لگا وہ اپنی سب سے قیمتی
چیز تو یہیں چھوڑے جا رہا ہے. کتنی شدت سے
خواہش ہوئی تھی اسے دیکھنے کی.. لیکن وہ بھول گیا تھا کہ اس کے جذبات یکطرفہ ہیں.
ایک خفیف سی مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پہ پھیلی تھی....
ہم ان کے لئے اہم....
واہ
رے دل تیرے واہم....
یہ کیا ہو رہاہے یوسف سنھال خود کو، کسی کو پتا چل گیا
تو ہنسیں گے سب تجھ پہ... وہ خود کلامی کرتا گاڑی اسٹرٹ لگا اس بات سے بےخبر کہ
کھڑکی کی اوٹ میں پردے کے پیچھے کھڑا سایہ کسی اور کا نہیں شانزے کا ہے...
....................................
یوسف جا چکا تھا.. پر وہ ابھی تک کھڑکی کے پاس ہی کھڑی
تھی، کیوں ؟ یہ وہ خود نہیں جانتی تھی پر یہ ضرور معلوم تھا کہ جانے والا اس لیے
اہمیت رکھتا تھا ورنہ اتنی تکلیف میں وہ ایسے نہ کھڑی ہوتی. شانزے کھڑکی کے ساتھ
لگے اپنے بستر پہ آکر لیٹ گئی تھی.آج پورے چاند کی رات تھی. اس کا جسم کھڑکی سے آتی چاند کی روشنی میں نہا رہا تھا.
ٹھنڈی ہوا کا جھونکا تھوڑی تھوڑی دیر بعد کھڑکی سے آتا بڑا بھلا لگ رہا تھا..
شانزے کو کھڑکی سے چاند دیکھنا بہت اچھا لگتا تھا اس لئے اس نے اپنا بیڈ اس طرح
سیٹ کیا تھا کہ وہ کھڑکی سے چاند کو دیکھ سکے. لیکن آج کی رات میں جانے کیا تھاوہ
چاند کو نہیں دیکھ رہی تھی بلکہ وہ تو اپنی سوچوں کو سوچ رہی تھی. آج کے دن کے
بارے... بہت طویل دن تھا. شاید قیامت کا دن...اس سے لگا جیسے وہ صراط کا پل پار کر
آئی ہے. اس کے لئے تو بہرحال ایسا ہی تھا،
کیا کیا نہ ہوا تھا آج... اور کیا ہو سکتا تھا اگر یوسف نہ ہوتا تو... ایک کپکپی
اس کے جسم میں ڈوری تھی. اس سے زیادہ وہ سوچنا ہی نہیں چاہتی تھی..آنکھوں میں آنسو
پھر جمع ہونے شروع ہو گئے تھے. یوسف کے ساتھ ہونے والی لڑائیاں اس سے یاد آنے لگیں
تھی لیکن دل میں کہیں کوئی غصہ کوئی کڑواہٹ نہیں تھی. اور کیسے ہوتی..؟؟ کچھ بھی
تھا یوسف نے اس کی جان بچائی تھی.. اور پھر اس کا وہ انداز... ہر لمحہ اس کی فکر
کرنا... اسے وہ لمحہ یاد آیا جب تایا جان اس کی کردارکشی کر رہے تھے وہ دروازے میں ہی گرنے والی تھی اور یوسف نے اس
سے سنبھالا تھا... شانزے کو لگا تھا وہ مر جائے گی.. اپنی زندگی کا یہ پہلو تو وہ
کبھی نہیں چاہتی تھی کہ کسی کے سامنےآئے اور اب یوسف سب جان گیا تھا. پر اس نے کچھ
نہیں کہا.. شانزے کو لگا وہ اس کی تکلیف محسوس کر رہا ہے... پر کیوں ؟ کیا وہ بدل گیا ہے... انجانے میں ہی وہ اپنے
ہاتھ کو دیکھنے لگی تھی.. اس کا دل یوسف کے نام پہ دھڑک رہا تھا، وہ رونا بھول گئی
تھی.. اپنے آپ یوسف کے حصار میں قید ہوتا محسوس ہوا تھا. یہ مجھے کیا ہو رہا ہے
میں کیوں سوچ رہی ہوں اسے... وہ یوسف ہے میں یہ بات کیسے بھول سکتی ہوں کبھی ہار
نہ ماننے والا اگر میری پرواہ کی ہے تو اس میں بھی کوئی نہ کوئی فائدہ اس کا ہی ہو
گا... میں فضول ہی خوش گمانیاں پال رہی ہوں.. اپنی سوچوں میں ہی گم نیند کی وادیوں
میں اترتی چلی گئی.
....................................
تھکن کا بہنا کر کے وہ سیدھا اپنے کمرے میں آگیا تھا..
شانزے کے گھر میں ہونے والے واقعے نے اس سے جھنجوڑ دیا تھا کیا تھا وہ سب... شانزے
ان کی بیٹی نہیں ہے... تو اس کا مطلب شانزے.... اوہ میرے خدا... یوسف کو صدمہ لگا
تھا.. حالات کے شکنجے میں پھنسی شانزے اس سے بہت معصوم لگی تھی. شانزے کی غیر ہوتی
حالات کو چاہ کر بھی بھلا نہیں پا رہا تھا.. اس کا روتا ہوا چہرہ بار بار آنکھوں
میں گھوم رہا تھا. وہ شانزے کی تکلیف محسوس کر سکتا تھا. پر یہ صرف اس کا دکھ نہیں
تھا بلکہ عجیب احساس تھا جس نے یوسف کو جگڑ لیا تھا. اسے لگا وہ ابھی بھی اس کے
بازوؤں کے گھیرے میں وہ اپنے سینے پہ اس کی سانسوں کی گرماہٹ محسوس کر سکتا تھا.
اسے خود میں سے شانزے کی خوشبو آرہی تھی. وہ اپنا ایک حصہ کہیں اس میں ہی بھول آیا
ہے. یوسف پوری رات شانزے کے بارے میں سوچتا رہا. پوری رات شانزے کا چہرہ اس کی
آنکھوں میں گھومتا رہا، وہ جاننا چاہتا تھا وہ کیسی ہے، کیسی بےچینی لگا گئی تھی.
اپنی بدلتی حالت سے بہت اچھی طرح واقف تھا لیکن فی الحال اسے اپنے آپ سے کہنے کے
لئے بھی کافی ہمت چاہیے تھی یا پھر کوئی سہارا... اس لئے بھی وہ جلدی یونیورسٹی
آگیا تھا.
لیکن آج کی صبح بہت عجیب تھی. یا شاید وہ زیادہ ہی سوچ
رہا تھا اس کا اثر تھا. اس لئے وہ وہم سمجھ کر ہر چیز کو نظر انداز کرتا یونیورسٹی
آگیا تھا. پر یہاں بھی معاملہ کچھ عجیب ہی تھا،گیٹ پہ بیٹھے گارڈز نے اسے حیرت سے
دیکھا تھا پر وہ نظر انداز کرتا اپنے
ڈیپارٹمنٹ کی طرف چل پڑا. پوری یونیورسٹی خالی پڑی تھی. اس نے جھنجلا کر گھڑی
دیکھی جو ٩ بجا رہی تھی. اس وقت تو یونیورسٹی میں اچھا خاصا رش ہو جاتا ہے تو پھر
آج کیا ہوا ہے. کیا مصیبت ہے، پہلے گھر،
پھر راستہ اور یونیورسٹی کیا پورے شہر کو سانپ سونگھ گیا ہے. وہ بڑبڑاتا ہوا محسن
کو کال ملانے لگا.
تھوڑی تاخیر سے پر کال اٹھا لی گئی تھی.
"کہاں ہے تو میں کب سے یونیورسٹی میں
ویٹ کر رہا ہوں تیرا.. "یوسف نے محسن کے فون اٹھاتے ہی بولنا شروع کر دیا.
"تو یونیورسٹی میں ہے...؟؟؟" محسن
کی آواز میں دنیا جہاں کی حیرت تھی.
"ہاں !!" یوسف نے جواب دیا.
"اس وقت ؟؟" محسن کی آواز میں
پریشانی تھی.
"میرا خیال ہے یونیورسٹی آنے کا یہی
ٹائم ہوتا ہے. اور اس میں پریشانی کی کیا بات ہے یونیورسٹی ہی آیا ہوں، کوئی
فلسطین تو نہیں آیا. تو اتنا ریکٹ کیوں کر رہا ہے..."
"اچھا ٹھیک ہے تو رک میں آتا ہوں پلیز
کہیں جانا مت میرا ویٹ کرنا اوکے... میں بس آرہا ہوں. "
"ہاں ٹھیک ہے. "یوسف کو اس کی بات
عجیب لگی تھی پر وہ اتنا ہی کہ پایا اس سے سمجھ نہیں آرہا تھا ہو کیا رہا ہے.
..............................
اریزے کافی دیر سے شانزے کو دیکھ رہی تھی جو ایک ہی پوز
میں لیٹی جانے چھت میں کیا ڈھونڈ رہی تھی. اتنی چپ تو وہ کبھی نہیں تھی. اریزے کو
اس کی حالت بہت تکلیف دے رہی تھی وہ جب سے آئی تھی خاموش تھی. کل رات سے اب تک اس
نے ایک لفظ بھی نہیں بولا تھا.
"کیا بات ہے شانو آج اٹھنا نہیں ہے."
بلآخر اریزے نے ہی پہل کی تھی. اریزے نے اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرا تھا. لیکن
خلاف توقع شانزے نے کچھ ریکٹ نہیں کیا تھا یہاں تک کہ اس نے نام بگڑنے پہ بھی کچھ
نہیں کہا تھا.
"شانزے کچھ تو بولو... اتنی چپ کیوں
ہو... بہت ناراض ہو، مجھ سے بھی ؟؟" اریزے کی آنکھوں سے آنسو ٹوٹ کر اس کے
چہرے پہ گرے تھے.
اور وہ تو تڑپ ہی اٹھی تھی. شانزے سے رہا نہیں گیا. وہ
اریزے کے گلے لگ کر رونے لگی تھی.
"میں تھک گئی ہوں اریزے سب کی کڑوی
باتیں سن سن کے... مجھ سے برداشت نہیں ہوتا اب.. مجھے میرے ماں پاپا چاہیے
اریزے... وہ جہاں بھی ہیں جیسے بھی ہیں پر وہ میرے ہیں... می جانی مجھے اپنی بیٹی
نہیں مانتیں اریزے... میں ان کی بیٹی نہیں ہوں.. مجھے اپنے ماں باپ کو ڈھونڈنا
ہے.. مجھے پوچھنا ہے ان سے کیوں کیا انہوں نے ایسا، کیوں مجھے راستے پہ چھوڑ گئے،
کیا انہیں کبھی میرا خیال نہیں آیا.. پال نہیں سکتے تھے تو مار دیتے... اگر ان کے
گناہ کی نشانی تھی تو پیدا نہیں ہونے دیتے...
پرایسا سلوک تو نہ کرتے،یوں تو نہ چھوڑتے زمانے کے لئے بوجھ بنا کر.... یوں
تو جانور بھی نہیں کرتے اپنی اولاد کے ساتھ...... "وہ رو رو کر ہلکان ہو رہی
تھی... اریزے کو لگا اس کی دماغی حالات ٹھیک نہیں ہے یا پھر اسے کچھ ہو جائے گا..
"نہیں شانزے تم پاگل ہو گئی ہو کیا...
ایسا نہیں ہے... تم غلط سوچ رہی ہو... مجھے تو یقین ہی نہیں آرہا کہ تم ہماری
شانزے اور یہ سب تم سوچ رہی..."
"اچھا میں غلط سوچ رہی ہوں اور وہ جو می
جانی نے سب کے سامنے کہا وہ کیا تھا. "
"پاگل مت بنو شانزے تمہارے دماغ میں سب
بیکار کے شک بیٹھ گئے ہیں. "
"جس پہ گزرتی ہے وہی جانتا ہے.. اور پھر
اس میں تو کوئی شک نہیں ہے ناکہ تم ان کی اپنی بیٹی ہو میں نہیں.."
"بس کرو شانزے پاگل مت بنو... کچھ بھی
بولے جا رہی ہو.. می جانی کو تم بھی اتنی پیاری ہو جتنی میں. "اریزے نے اس کا ماتھ چوما تھا. "تم
جانتی ہو نا تم می جانی اور پاپا کی بیٹی ہو اور میری اکلوتی چھوٹی سی پاگل سی
بہن، اور یہ حقیقت کسی کی دو کڑوی باتیں تو نہیں بدل سکتیں. ہم سب تم سے بہت پیار
کرتے ہیں شانزے... تم جانتی ہو تمہارے پیچھے می جانی نے ایک گھونٹ پانی تک نہیں
پیا.... تم نے گھر چھوڑتے ایک بار بھی نہیں سوچا ہمارے بارے میں.. "وہ
سمجھاتے سمجھاتے رونے لگی تھی..
"اوہو......... اب رونا بس بھی کرو ابھی
ٹائم ہے تمہاری رخصتی میں... "شانزے اس کے آنسو صاف کرتے بولا تھا... وہ کیسے
اسے اپنی تکلیف سمجھاتی. لیکن اریزے کو تکلیف ہووہ یہ بات بھی برداشت نہیں کر سکتی
تھی پھر چاہے وجہ وہ خود ہی کیوں نہ ہو...
"تو پھر وعدہ کرو اب تم کبھی ایسا کچھ
نہیں کرو گی.. "اریزے نے اس کے آگے اپنا ہاتھ پھلایا تھا.
"اچھا ٹھیک ہے نہیں کروں گی... وعدہ... "شانزے
اپنی بہن کا پھیلا ہاتھ تھام لیا تھا.
"پاگل ہو تم... پتا ہے نا تمہیں .. "شانزے
اس کے گلے میں بازو ڈالے تھے.
"ہاں وہ تو ہے بہن کس کی ہوں..چلو اٹھو
اور فرش ہو جاؤ پھر ہم ناشتہ کرتے ہیں اور اس کے بعد تم نے مجھے یہ بھی بتانا ہے
یوسف کی انٹری کیسے ہوئی .... "
"اریزے..... "شانزے نے اسے گھورا
تھا..
"شانزے....." اریزے نے مسکرا کے
دیکھا تھا...
.........................................
فون کیے ہوئے آدھے گھنٹے سے زیادہ گزر چکا تھا... یوسف
اب بار بار گھڑی دیکھ رہا تھا..
" کہاں رہ گیا آیا کیوں نہیں ابھی تک آج ہو کیا
رہا ہے میرے ساتھ.. ہر شخص کا ہی انداز عجیب ہے.. "وہ بڑبڑا رہا تھا. اپنے
خیالوں میں مگن جس کے لئے وہ یہاں آیا تھا اس کا آس پاس ہونے کے بھی کوئی آثار نظر
نہیں آرہے تھے. تبھی سامنے سے آتا محسن دکھائی دیا جس نے ٹریک سوٹ پہنا ہوا تھا جو
صاف ظاہر کر رہا تھا کہ وہ اس کی کال پہ ہی اٹھا تھا اور اب عجلت میں ایسے ہی اس
سے ملنے آگیا تھا.
"تو ٹھیک تو ہے... ؟"محسن نے بغیر
کوئی بات کئے پوچھا...
"ہاں ٹھیک ہوں !! مجھے کیا ہوا ؟؟"
"تو پاگل تو نہیں ہو گیا جو یونیورسٹی
آگیا، یا یونیورسٹی نے تجھے گارڈ رکھ لیا ہے ؟؟" محسن کو شاک لگا تھا.
"مجھے نہیں پتا تھا یونیورسٹی پاگل یا
گارڈز آتے ہیں.. "یوسف کا اطمینان برقرار تھا.
"ہاں میرے بھائی پتا تو مجھے بھی آج ہی
چلا ہے تجھے دیکھ کر.. "
"بکواس مت کر.... تجھے میں میں پاگل
لگتا ہوں ؟؟ "
"لگتا تو گارڈ بھی نہیں ہے.... تو پھر
اتوار والے دن یونیورسٹی آنے کی کوئی خاص وجہ... ؟"محسن نے گویا دھماکہ کیا
تھا وہ اب اس کے برابر میں بیٹھا تھا...
"وہاٹ ؟؟" یوسف کو جھٹکا لگا
تھا... "آج سنڈے ہے... ؟"وہ اپنا فون نکال کر چیک کرنے لگا...
محسن کا دل چاہا وہ اس کی عقل پہ ماتم کرے لیکن بہرحال
ممکن نہیں تھا. یوسف اپنی تسلی کر چکا تھا. اور بیچارگی اس کے چہرے سے صاف ظاہر
تھی...
"کیا ہوا ؟؟ سب ٹھیک ہے.. ؟کل رات کو
کتنی کال کی پر تو نے ایک کا بھی جواب نہیں دیا، تھا کہاں تو اور شانزے وہ تو ٹھیک
تھی ؟؟ اور اب اس طرح یونیورسٹی... کس بات پہ پریشان ہے...؟؟؟؟"
"شانزے کو چوٹ لگ گئی تھی.. بس اس لئے
پریشان ہوں سوچا اگر یونیورسٹی آئی تو پتا چل جائے گی طبیعت اس کی... پر میں بھول
ہی گیا آج سنڈے ہے." یوسف کے چہرے پہ درد کا سایہ لہرایا تھا. جسے محسن نے بخوبی
پڑھا تھا.
"لگتا ہے کافی گہری چوٹ لگی ہے... "محسن
نے گہری نظروں سے دیکھا.
"بکواس نہ کر میں سیریس ہوں. "یوسف
اس کی نظروں سے خوب واقف تھا.
"اچھا... میں تو مذاق سمجھا تھا... "محسن
نے اپنی دھن میں کہا... "ویسے کیا اس کی وجہ شانزے ہے..؟"
محسن کی بات نے یوسف کا رنگ اڑا دیا تھا وہ اتنی جلدی
اس کے دل کا راز پا لے گا یہ نہیں سوچا تھا اس نے... اس کا دل اچھل کے حلق میں
آگیا تھا. اور چہرے کے تاثرات بھی بدل گئے تھے..
جب کہ محسن کو اپنا اندازہ درست ہوتا لگا.. جو تیر اس
نے چلایا تھا وہ نشانے پہ لگا تھا. وہ تو بے یقینی سے اسے دیکھ رہا تھا..
"تم... "محسن کی تم میں بہت کچھ
تھا.. سب سے بڑھ کر حیرت... "کتنے کمینے ہو تم ہم سب کے سامنے اسے لڑتے
رہے... چیخ چیخ کے کہتے رہے کہ تمہیں شانزے سے چڑ ہے اور دل میں... ویسے بتانا پسند کریں گے آپ کہ یہ سب کیسے..
کہاں... اور کب ہوا...؟؟؟ اور مجھ غریب کو بتایا کیوں نہیں گیا...؟؟" محسن کی
آواز میں ہلکی شکایات تھی.. لیکن یوسف کے پاس ان سارے سوالوں کا کوئی جواب نہیں
تھا وہ خود نہیں جانتا تھا کہ کب کیسے کہاں وہ اس کے دل میں اترتی روح میں سما گئی
تھی.
"پتا نہیں... میں خود کچھ نہیں جانتا.."
یوسف بس اتنا ہی کہ پایا تھا.
"اوہ... تو یہ بات ہے... شانزے کو پتا
ہے..؟؟؟"
"نہیں،" یوسف نے زمین پہ پاؤں پھیرتے
کہا تھا.
"مطلب معاملہ کافی سیریس ہے... "محسن
نے یوسف کی طرف دیکھا جو ابھی خیالوں کی دنیا میں کہیں مقیم تھا...
"ویسے میں نے سنا ہے عشق میں بھوک نہیں
لگتی کیا یہ بات صحیح ہے ؟؟" محسن نے بیچارگی دکھائی تھی۔
"بکواس نہ کر چل ناشتہ کرتے ہیں."
یوسف نے مکہ اس کی بازو پہ مارا تھا...
محسن کے منہ سے بےاختیار آہ نکلی تھی، "بیچاری
شانزے... "
"بیچاری ؟؟" یوسف نے اس کی طرف
شاکی نظروں سے دیکھا تھا. اور دونوں کی ہنسی نکلی تھی... "ویسے کیا تباہی
جوڑی ہو گی نہیں ؟؟؟"
"چاند سورج جیسی تو سنی تھی... یہ تباہی
والی تو پہلی بار سنی ہے... "یوسف نے اس کی بات پہ حیران ہوتے کہا تھا..
"وہ نارمل انسانوں کی ہوتی ہے. تیری اور
اس کی تو تباہی ہو سکتی ہے. مسٹر ایکشن وید مس مرچی پاؤڈر... "محسن نے ہاتھوں
کا کیمرے بناتے تصور کیا تھا..
"شٹ اپ محسن اور پلیز دوبارہ اس کا نام
نہ بگاڑنا..."
"اوہ... ہو... تو بات یہاں تک پہنچ گئی ہے...اور ہم ہیں کہ بےخبری میں مارے گئے... "محسن
نے کندھے اچکائے تھے.. "تو اب ہمیں عزت مآب بھابھی جان کی شان میں گستاخی
نہیں کرنی چاہیے..."
اس نے ایسے بناوٹی انداز میں کہا کہ ، یوسف کی ہنسی
نکلی..." تو نہیں سدھرے گا چل چلیں..."
وہ دونوں اب گاڑی کی طرف بڑھ رہے تھے...
................................
سب لوگ کھانے کی ٹیبل پہ موجود تھے... شانزے خاموش تھی
اس کی خاموشی سب نے ہی محسوس کی تھی. می جانی نے کئی بار اسے بلانے کی کوشش کی پر
اس نے کوئی جواب نہیں دیا اس بات کو سب نے محسوس کیا تھا لیکن فی الحال کسی نے کچھ
کہا نہیں. پر می جانی تو جیسے پل پل مر رہی تھیں.. ان کی لاڈلی بیٹی ان سے ناراض
تھی.. اور یہ بات انھیں پریشان کر رہی تھی. وہ کیسے سکھ کا سانس لیتیں. شانزے
ناشتہ کر چکی تھی ٹیبل سے اٹھی تھی جب می جانی اس کی طرف بڑھیں پر وہ ان کو نظر
انداز کرتی اپنے کمرے کی طرف چلی گئی تھی. می جانی کا صبر جواب دے گیا تھا اور
آنکھوں سے آنسوؤں کی لڑی جاری تھی.
.....................................
شانزے کمرے میں جانے کے بجائے اوپر جاتی سیڑیوں پہ آگئی
تھی.. اپنی مخصوس جگہ پے... آج چاند نہیں تھا بادلوں میں کہیں چپ گیا تھا پھر بھی
نہ جانے آسمان میں کیا تلاش کر رہی تھی. وہ خود کو اکیلا محسوس کر رہی تھی. ایسا
پہلے تو کبھی نہیں تھا، حالانکہ تایا جان اور تائی اماں کا رویہ ہمیشہ سے ایسا ہی
تھا پر... اپنی ماں سے اسے توقع نہیں تھی. دل کا ہر شکوہ اب آنکھوں سے بہہ رہا
تھا. یا الله اور کتنے امتحان باقی ہیں میرے.. اتنی آزمائش.. وہ اتنی بےخبر تھی کہ
پاپا کے آنے کا بھی پتا نہیں چلا..
"کیا سوچ رہی ہے میری گڑیا.. "بابا
نے اس کے پاس ہی بیٹھتے کہا تھا...
"کچھ نہیں بس ایسے ہی... آپ سوئے نہیں
ابھی تک ؟؟" اس نے اپنے آنسو صاف کیے تھے وہ نہیں چاہتی تھی پاپا اس سے ایسے
دیکھ کے پریشان ہوں.
"جب کسی کی پیاری سی گڑیا ناراض ہو جائے
تو اس گڑیا کے پاپا کو نیند نہیں آتی... "
"نہیں پاپا میں ناراض تو نہیں ہوں.."
"پر اپنی می جانی سے تو ہو نا بیٹا..
میں جانتا ہوں جو بھی تمہاری ماں نے کہا وہ غلط تھا.. پر انسان غصے میں ایسے بہت
کام کر جاتا ہے جو غلط ہوتے ہیں اس لئے غصے کو حرام قرار دیا گیا ہے.. کیونکہ غصہ
اپنے ساتھ بہت کچھ بہا کر لے جاتا ہے کبھی عقل، کبھی اخلاق، کبھی شخصیت تو کبھی
رشتوں کی خوبصورتی... جیسے تمہاری می جانی کے غصے نے تمہارے اور ان کے رشتے کی
خوبصورتی کو مدھم کر دیا ہے.. اور ساتھ
میں لاتا ہے تو صرف بدگمانی... اور بدگمانی انسان کو کہیں کا نہیں چھوڑتی.. بہت
بری شے ہے... یہ انسان کی سوچ پہ قابض ہو کر نظریات بدل دیتی ہے... اور پھر وہ سنائی
دیتا ہے جو کہا نہیں گیا ہوتا اور وہ دکھائی دیتا ہے جو سرے سے ہوتا ہی نہیں...
لیکن شانزے ضروری نہیں ہے کہ ہم بھی ویسے ہی رویہ اختیار کریں، اپنی غلطی پہ معافی
مانگنا بہت آسان کام ہے. پر دوسرے کی غلطی پہ اسے معاف کر دینا بہت مشکل اور میں
جانتا ہوں میری بیٹی ہر مشکل کام کر سکتی ہے. "انہوں نے اس کی تھوڑی کو پیار
چھوا تھا، شانزے نے اثبات میں سر ہلایا تھا.
"شانزے تم میری بیٹی ہو.. نہ تم کسی کا بوجھ تھیں
نہ گناہ... تم ایک خوبصورت انعام ہو جو سب کو نہیں ملتا... ہزاروں میں سے الله کسی
ایک نوازتا ہے اور تم جانتی ہو الله نے ہزروں لوگوں میں سے مجھے اور تمہاری می
جانی کو چنا.. تو تمہیں کیا لگتا ہے اس نے تمہارے لئے کوئی غلط فیصلہ کیا ہے ؟ وہ
رب جو تمہیں ستر ہزار ماؤں سے زیادہ چاہتا ہے.. جس نے ہمیں اس بھروسے سے تمہیں
ہمارے پاس بھیجا کہ ہم تمہارا خیال کریں گے تم سے محبت کریں گے.. تمہاری ویسی ہی
پرورش کریں گے جیسے کوئی باپ اپنی بیٹی کی کرتا ہے... تواگر تمہیں ایسا لگتا ہے کہ
ہم یہ سب نہیں کر سکے، اگر تمہیں میری یا تمہاری ماں کی محبت میں کوئی کھوٹ لگتا
ہے تو شانزے تمہیں اختیار ہے.. تم اپنے ماں باپ کے بارے میں جانو... "آخری الفاظ
کہتے ان کی آواز بھرا گئی تھی...
تو کیا پاپا نے اس کی ساری باتیں سن لی تھیں جو اس نے
اریزے سے کہا.. اف الله یہ سب کیا ہو گیا اس نے کبھی نہیں چاہ تھا کہ وہ پاپا کو
یا می جانی کو کوئی تکلیف دے... لیکن انجانے میں ہی سہی وہ ایسا کر گئی تھی.. پر
اس وقت اس میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ اپنے باپ کا چہرہ دیکھ سکتی... یا پھر اپنی
صفائی میں کچھ کہہ سکتی.. اور کہتی بھی تو کیا...؟؟ شانزے کو شرمندگی ہوئی تھی...
اپنے کہے الفاظ پر افسوس ہوا تھا اپنی جس بات پہ وہ ابھی تک خود کو حق بجانب سمجھ
رہی تھی اب اچانک ہی اسے غلط لگنے لگی تھی پاپا صحیح کہ رہے تھے سارا کھیل غصے میں
کیے گئے فیصلے کا ہے، سچ میں غصہ انسان کی سمجھنے کی صلاحیت ختم کر دیتا ہے. اس کی
آنکھوں سے آنسو گرنے لگے تھے... یہ آنسو بھی بڑی عجیب شے ہیں کبھی دل پہ گرتے ہیں
تو پتھر کر دیتے ہیں اور کبھی موم اور فی الحال اس کا معاملہ موم ہو جانے کا تھا
اور کیوں نہ ہو باپ کی زبان میں تو الله نے وہ تاثیر رکھی ہے جو دل بدل دے...
شانزے کا بھی دل بدل گیا تھا... اس کے رونے کی شددت آگئی تھی.. حسسان نے اس اپنے
سینے سے لگایا تھا وہ اس کو چھپ کراتے خود بھی رو پڑے تھے...
"بس میرا بچہ بس اپنے پاپا کو کتنا رلاؤ گی... "
شانزے تڑپ کے باپ کے آنسو صاف کیے تھے..
"سوری پاپا...
"لیکن شرمندگی سے وہ اس سے زیادہ کچھ بھی نہیں بول سکی نہیں "میری
ڈول.. بیٹیاں معافی نہیں مانگا کرتی... تم جانتی ہو بیٹیاں تو پاپا کی پرنسزز ہوتی
ہے.. پاپا کا غرور.. ان کا مان... "وہ اس کا سر تھپتھپا رہے تھے. تبھی می
جانی اور اریزے وہاں آئی تھیں...
"کیا بات ہے حسان آپ دونوں یہاں کیوں
بیٹھے ہیں.. اور شانزے اس کو کیا ہوا ہے... ؟کیا بات ہے بولیں نا آپ دونوں یوں
خاموش کیوں ہیں... "وہ پریشان تھیں ان کی آنکھوں سے صاف ظاہر تھا کہ وہ روئی
ہیں... اریزے کی آنکھوں میں یکدم ہی دکھ سمٹ آیا تھا...
شانزے کو بہت دکھ ہوا تھا... اپنے کیے پہ شرمندگی ہوئی
تھی... وہ کیا کر رہی تھی، کیسے سزا دے رہی تھی... خود کو یا ان لوگوں کو جنہوں نے
اس سے کبھی کوئی کمی محسوس نہیں ہونے دی... زمانے کے گرم سرد سے بچا کے رکھا...
اپنی اولاد سے بڑھ کے چاہا... اس سے پہلے کہ می جانی کچھ کہتی شانزے اٹھ کے ان کے
گلے لگ گئی تھی...
"مجھے معاف کر دیں می جانی... میں غلط تھی... میں
ایک اچھی بیٹی نہیں ہوں... میں نے بہت تنگ کیا ہے نا آپ کو... آپ مجھے ڈانٹیں، میں
کچھ نہیں کہوں گی... می جانی میں آپ کی ہر بات مانوں گی... میں آپ کی بیٹی ہوں می
جانی صرف کی اور پاپا کی.." "بس کرو شانزے کتنا روؤ گی ایسے تو لڑکیاں
رخصتی پہ بھی نہیں روتیں آج کل اور تم ہو کے بس..." اریزے نے اپنے آنسو صاف
کرتے اسے چھیڑا تھا .
"می جانی دیکھیں اسے.." شانزے نے شکایت
کی تھی...
"اریزے بہن کو تنگ مت کرو.."
وہ سب مسکرا رہے تھے....
"چلو بھئی سب نیچے آجاؤ میں آئس کریم لے
آیا ہوں۔" وجی نے اعلان عام کیا تھا..
وہ نیچے جا رہے تھے... بادل چھٹ گئے تھے... آسمان سے
بھی اور شانزے کے دل سے بھی تبھی چاند اور چاند چہرے والی لڑکی چمک اٹھے تھے...
.............................
جاری ہے
CLICK ON READ MORE TO CONTINUE READING
Comments
Post a Comment