"بدتمیز
عشق"
قسط 6
ناول نگار: "ردابہ نورین"
عورت میں الله
نے ایک بڑی خوبی اس کی چھٹی حس رکھی ہے جو بر وقت انسان کی نیت اور نظر
پہچان نے میں مدد کرتی ہے عورت کی حس کسی گھنٹی کی طرح ہوتی ہے جو خطرے کا احساس
پا کے ہی بجنے لگتی ہے. شانزے کے کانوں میں بھی خطرے کی گھنٹیاں بج رہی تھیں.
اس
کا چہرہ غصے، پریشانی اور خوف سے لال ہو رہا تھا پر اس وقت اسے جوش سے نہیں ہوش سے
کام لینا تھا. جو بہرحال شانزے کے لئے کافی مشکل تھا. اگر کوئی اور وقت ہوتا تو وہ
ان کو اچھا خاصا سبق سکھا چکی ہوتی لیکن قسمت فلحال اس پے مہربان نہیں تھی. اور اس
وقت اسے کسی کی مدد کی سخت ضرورت تھی. اس کے اندر حشر برپا تھا. ان آدمیوں کی
آنکھوں میں جلتی ہوس اس کو خوفزدہ کر رہی تھی.
" یا الله میری مدد فرما... مجھے اس مصیبت سے آزاد
کر دے ورنہ میں کسی کو منہ دکھانے کے قابل بھی نہیں رہوں گی.
یا الله اپنے حبیب کے صدقے میں میری حفاظت فرما..."
شانزے دل میں دعایئں مانگ رہی تھی اس وقت اسے کوئی راستہ نہیں آرہا تھا اور بیشک
جب ہر در بند ہو جائے تو صرف ایک ہی در کھلا رہ جاتا ہے جس در سے کبھی کوئی خالی
ہاتھ نہیں لوٹا، وہ تو اپنے بندوں کی وہ
دعایئں بھی سن لیتا ہے جو زبان تک آتی بھی نہیں تو پھر وہ شانزے کی دعاؤں کو کیوں
نہ سنتا.
وہ آدمی مزید
شانزے کو تنگ کرتا اتنے میں گاڑی روکنے کی آواز آئی جیسے کوئی بہت رش ڈرائیونگ
کرتا اچانک بریک لگاتا ہے..
پیچھے کھڑے دونوں آدمی گڑبڑا گئے تھے اس لئے ان میں سے
ایک اپنے ساتھی سے بولا.
"مجھے لگتا ہے کوئی آگیا ہے. ایسا نہ ہو وہ اس
لڑکی کو ہی لینے آیا ہو، چلو اس کولے چلو یہاں سے." اس کا ساتھی بولا. وہ
تینوں اب اسے پکڑ کر دوسرے ہٹ کی طرف لائے
تھے جو کچھ فاصلے پہ ہی تھا. ہٹ کے نام پہ چار دیواری تھی. شاید سامان رکھنے کی
جگہ. شانزے کی نظر کین پے پڑی وہ اس کو لات مارنا چاہتی تھی. ان تینوں سے نظر بچا
کہ جیسے ہی اس نے اپنا پاؤں آگے کیا ایک غنڈے نے بڑھ کر کین ہٹا لیا.
"زیادہ چالاکی کی تو گلہ کاٹ دوں گا۔"
اس نے چاقو دیکھاتے ڈرایا. وہ تینوں اس کو وہاں سے نکالنے کی کوشش کرنے لگے.
جب کہ شانزے خود کو چھوڑوانے کی کوشش میں جت گئی. ابھی
ان لوگوں کی جدوجہد جاری تھی کہ اچانک شانزے بےہوش ہو کر زمین پے گر پڑی.. وہ
تینوں حیران تھے..
"اب کیا کریں، یہ تو بے ہوش ہو گئی ہے.."
ان میں سے ایک آدمی غصے میں بولا.
"ایسا کرتے ہیں باہر دیکھتے ہیں اگر
کوئی نہیں ہے تو گاڑی میں ڈال کر لے چلتے ہیں۔" ایک دوسرے آدمی نے مشورہ دیا
اور وہ تینوں باہر نکل گئے.
.........................................................
اس نے دور ہی گاڑی روکی اور بھاگتا ہوا ہٹ کی طرف آیا.
لیکن شانزے وہاں نہیں تھی. اس کی آنکھوں کے سامنے زمین اور آسمان گھوم گئے تھے.
یوسف کو لگا جیسے ہر طرف اندھیرا چھا گیا ہو.
" یہیں تو چھوڑ کے گیا تھا وہ کہاں چلی گئی تھی."
یوسف کو یاد تھا اس کے پاؤں بندھے تھے تو وہ کہاں جا سکتی تھی..
اس کی آنکھوں میں نمی آنے لگی تھی... اس نے ہٹ کی ایک
ایک جگہ چھان ماری پر وہ نہیں ملی کہاں چلی گئی.. زمین نگل گئی یا آسمان کھایا
گیا.
اس کی نظر
شانزے کے دوپٹے اور زمین پے بنے نشانوں پے پڑی جو اس بات کی نشانی تھی کہ کوئی اسے
زبردستی گھسیٹتا ہوا وہاں سے لے کے گیا ہے.
وہ پاگلوں کی
طرح اس کے دوپٹے پے لپکا تھا. اب وہ ہٹ کے چاروں طرف بھاگ رہا تھا اسے کچھ سمجھ
نہیں آرہا تھا وہ کہاں جائے. ریت میں دھنسے پتھر اسے نظر نہیں آئے اور وہ ان پہ
منہ کے بل گرا. اس کے ہاتھ رگڑ لگنے سے چھل گئے تھے جہاں سےخون نکل رہا تھا. اس نے
اٹھنا چاہا تو گھٹنے میں درد کی شدید لہر اٹھی... وہ دوبارہ وہیں گر سا گیا تھا.
"نہیں الله جی! اتنی بڑی سزا نہ دیں
مجھے، میں کیسے جی پاؤں گا اس تکلیف کےساتھ کہ وہ میری وجہ سے مشکل میں پھنس گئی
ہے... پلیز الله جی میں معافی مانگتا ہوں میرے کئیے کی سزا اس کو نہ دینا..".
وہ دعایئں مانگتا زمین پے گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا. جیسے کوئی شکست خور انسان کسی
جوے میں اپنا سب کچھ ہار کے بیٹھتا ہے. وہ اس کا دوپٹہ ہاتھوں میں لئے بلند آواز
میں رو رہا تھا.
"اگر اس کے ساتھ کچھ غلط ہو گیا تومیں کیسے معاف
کروں گا. میں جانتا ہوں مجھ سے غلطی... نہیں مجھ سے گناہ ہوا ہے اور اس کی سزا
مجھے ملنی ہی چاہیے پر ایسے نہیں.. جس سے میں محبت کرتا ہوں اس سے تکلیف دے کہ
نہیں..." وہ ٹھٹکا کا تھا اپنے دل کی آواز پے..."محبت... "وہ رونا
بھول گیا تھا.." اوہ.. تو یہ لڑائی نہیں محبت ہے جو ہمیشہ اس سے الجھنے پے
اکساتی ہے.. ہمیشہ اس کے آس پاس رہنا چاہتی ہے... تو یہ محبت ہے جو اسے ہمیشہ
نظروں کے سامنے چاہتی ہے... "یوسف کے لئے یہ احساس بالکل الگ تھا.. "تو
اس لئے میں واپس آیا ہوں... تو اس لئے میں اس کی تکلیف پے تڑپ رہا ہوں.. تو پچھتاوا
نہیں ہے.. یہ لڑائی بھی نہیں.. یہ انا تھی... "اور اب انا کا خول چٹخ رہا
تھا... محبت کا رنگ نظر آنے لگا تھا..
کبھی کبھی الله آپ کو مشکل میں ڈال کے آزماتا ہے اس لئے نہیں کہ وہ آپ کو
سزا دیتا ہے بلکہ اس لئے کے آپ کے اندر چھپے حقائق سے پردہ اٹھا دیتا ہے وہ حقائق
جو اکثر ہم خود بھی نہیں جانتے، اور اس وقت یوسف پے بھی کچھ ایسے ہی حقائق کا
انکشاف ہوا تھا. اسے لگا وہ اب کبھی شانزے کو دیکھ نہیں سکے گا. اور اس خیال نے ہی
اس کی سانسیں روک دی تھیں. "صرف ایک بار وہ مجھے مل جائے میں اس سے معافی
مانگ لوں گا." وہ اب بری طرح رو رہا تھا. یوسف کے حواسوں پے خوف سا طاری تھا.
اس نے خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ یہ سب اسے اتنا مہنگا پڑھنے والا ہے."
میں مانتا ہوں یہ سب میری غلطی ہے پر الله تو رحمان ہے رحیم ہے.. اپنی شان کے صدقے
میں... اگر میں نے کچھ اچھا کیا ہے تو اس کے بدلے میں مجھے شانزے سے ملا دیں، اس
کی حفاظت فرمایئں ،میں وعدہ کرتا ہوں دوبارہ ایسا کبھی نہیں کروں گا. "وہ ایک
بار پھر اٹھا عجیب وحشت اس پہ تاری ہو گئی تھی. گھٹنے میں اٹھنے والی ٹیسوں کی
پرواہ کیے بغیر وہ پھر ایک بار بھاگنے لگا تھا. اسے پاس میں ایک اور جگہ نظرآئی جو
ہٹ سے ملتی جلتی ہی تھی اب وہ اس جانب چلا گیا تھا.
..............................................
شانزے بے ہوش ہونے کا ڈرامہ کر رہی تھی، ان کے جاتے ہی
اس نے آنکھیں کھول کر تسلی کی، وہ وہاں نہیں تھے.
" کیسے روکوں اسے... کہیں یہ جو کوئی بھی ہے چلا
ہی نہ جائے.. "اس نے گاڑی والے کے بارے میں سوچا. وہ ادھر ادھر دیکھ رہی تھی
جب اس کی نظر پیچھے پڑے بہت سارے کینز پہ پڑی. اس نے موقعے سے فائدہ اٹھایا اور
کینز پے پاؤں مارنے لگی... اسے یقین تھا کہ آواز سن کے وہ جو کوئی بھی ہے ضرور آئے
گا. وہ سب کینز گرا چکی تھی اور اب وہ اپنے ہاتھ کھولنے کی کوشش میں تھی. یوسف نے
کین گرنے کی آواز پہچونک کر دیکھا آواز وہیں
چار دیواری سے آئی تھی اب وہ اندر کی طرف جا رہا تھا... کسی کی دبی دبی
سسکیاں سنائی دے رہی تھیں. ایک انجانے خوف نے اس کے پاؤں جکڑ لئے تھے اس کو قدم
اٹھانا مشکل لگ رہا تھا. نہ جانے سامنے کیا منظر آنے والا تھا ہر قدم کے ساتھ اس
کے خوف میں بھی اضافہ ہو رہا تھا. وہ جتنی
دعائیں مانگ سکتا تھا مانگ رہا تھا. وہ اندر داخل ہوا تو سامنے کا منظر دیکھ کر
حیران رہ گیا. اسے اپنی آنکھوں پہ یقین نہیں آرہا تھا... وہ... وہ شانزے
تھی... ہاں وہ ہی تھی.. شانزے حسان .. جب
کہ وہ بھی سامنے سے آتے یوسف کو دیکھ کہ حیران رہ گئی. یوسف نے سکھ کا سانس لیا
تھا وہ صیح سلامت تھی.. اور اپنے ہاتھ
کھولنے کی کوشش کر رہی تھی.ایک سکون تھا جو یوسف نے اپنے اندر محسوس کیا. یوسف کے
سر سے ایک بہت بڑا بوجھ ہٹا تھا. یوسف نے دونوں ہاتھ سے بال پکڑے دیوار سے ٹیک لگائی تھی. ایک بےساختہ ہنسی اس
کے لبوں پہ آئی تھی جبکہ شانزے نے اسے گھور گھور کہ دیکھ رہی تھی. یوسف کا اس طرح
سے دیکھنا اسے برا لگ رہا تھا.
"تم یہاں پہ ہو.." یوسف کہ منہ سے
بےساختہ نکلا تھا. وہ آگے بڑھا اور شانزے کا منہ کھولا.. ایک سسکی شانزے کے منہ سے
نکلی.
"کیا ہوا ؟بہت ٹائٹ تھا کیا ؟" وہ پوچھ
بیٹھا، اب وہ گھٹنوں کے بل زمین پے بیٹھا شانزے کے پاؤں کھول رہا تھا جہاں رسی کے
نشان واضح تھی. یوسف کو اپنے آپ پر شدید غصہ آیا تھا اس نے نرمی سے شانزے کے پاؤں
کو چھوا تھا... جہاں بہت سی خراشیں تھیں.. شانزے ڈر کے پیچھے ہوئی تھی. اس وقت وہ
بھی اس کے لئے قابلِ اعتبار نہیں تھا.. اس
نے دکھ سے شانزے کے سفاک چہرے کو دیکھا تھا. اس نے اپنا سر جھٹکا تھا ، یوسف کو
لگا وہ اس کا ہی مستحق ہے. اس نے پکڑ کے شانزے کو کھڑا کیا، تبھی اس کی نظر اس کے
ہونٹوں پے پڑی اس کا ہونٹ رومال ٹائٹ ہونے
کی وجہ سے سائیڈ سے تھوڑا کٹ گیا تھا جہاں سے خوں نکل رہا تھا. یوسف نے درد کی ایک
لہر خود میں محسوس کی اسے اپنے آپ پے شرم آئی تھی.
" تم یہاں کیسے ؟؟" شانزے نے اسے جانجتی
نظروں سے دیکھا.
" وہ میں... اصل میں میں یہاں..." یوسف اس کے
ہاتھ کھولتا ہوا بولنے لگا... اس سے پہلے کہ یوسف شانزے کے ہاتھ کھولتا یا کچھ
بولتا وہ لوگ وہاں پہنچ گئے تھے. وہ بھی شاید کین گرنے کی آواز سے سمجھ گئے تھے کہ
شانزے ڈرامہ کر رہی تھی.
"کیا کر رہے ہو تم..؟" غنڈوں نے
یوسف کو پوچھا..
"تم لوگ کون ہو..؟" اس نے سوال کے
بدلے سوال کیا..
"یوسف.. یہ... یہ... وہی کڈنیپرزہیں
جنہوں نے مجھے کڈنیپ کیا.. اور اب ایسے انجان بن رہے ہیں جیسے کچھ جانتے ہی نہیں
ہیں.." شانزے نے یوسف کو بالکل شکایات والے انداز میں بتایا تھا." پلیز
یوسف مجھے بچالو پلیز "وہ پریشان تھی، جبکہ یوسف نے اس کی غلط فہمی پہ سکھ کا
سانس لیا تھا..
"پر تم یہاں کیسے...؟" شانزے نے
یوسف کی طرف دیکھا اس سے پہلے کہ وہ کچھ بولتا ایک غنڈہ چیخ پڑا...
"چپ کر.. ورنہ تم دونوں کو مار دیں گے..
چل ہاتھ اوپر کر، لڑکی کو چھوڑ اور چلتا بن. "ان تینوں میں سے ایک آدمی نے
غصے سے یوسف کو بولا .
"تم لوگ... تم لوگ ہاتھ اوپر کرو میں
ابھی اسی وقت تمہیں اریسٹ کرتا..." وہ خود کو سنبھالتے ہوے الٹا ان پے چڑھا
تھا. کچھ پتا نہیں تھا شانزے کیسے ریکٹ کرتی.
"تم لوگ جانتے نہیں ہو ابھی مجھے میں
کون ہوں.. "
"کون ہے تو ؟"ایک آدمی نے غصے سے
پوچھا...؟؟
"میرا
نام یوسف ہے اس شہر کا DSP
ہوں میں.." یوسف نے اس سے دھمکایا. جب کہ حیرت سے شانزے کا منہ یوسف کہ اس
صاف جھوٹ پے کھل گیا تھا.
"اچھا.. لگتا تو نہیں ہے.. "ان
غنڈوں میں سے ایک بولا.
"جانتے ہو قانون کے مطابق ایک پولیس
والے کو پولیس والا نہ ماننا بھی جرم ہے اس پہ تمھیں عمر قید بھی ہو سکتی ہے.."یوسف
نے انھیں پھر دھمکایا تھا...
"یہ قانون کب بنا... ؟کس نے بنایا یہ
قانون؟" ایک آدمی نے ڈرتے ڈرتے بولا..
"میرے پاپا... میرے پاپا نے بنا یا ہے
یہ قانون ،وہ سپریم کورٹ کے جج ہیں... "شانزے کو تھوڑا حوصلہ ہوا اس لئے اپنی
گھبراہٹ پے قابو پاتے بولی... "اور اگر انھیں پتا چل گیا نا کہ تم لوگوں نے
مجھے کڈنیپ کیا ہے تو وہ تم لوگوں کو چھوڑیں گے نہیں.."
تبھی یوسف نے پاکٹ میں سے فون نکالا....
"میں DSP یوسف میر بات کر رہا ہوں. آپ پولیس وین کو لے کر ہاکس بے آجائیں
یہاں کچھ لوگوں کو اریسٹ کرنا ہے." اس نے ان تینوں آدمیوں کو گھورتے ہوے
بولا.
"دیکھو ہم نے اس کا کڈنیپ نہیں کیا ہے.."
ایک غنڈہ جو تھوڑا گھبرا گیا تھا بولنے لگا جبکہ یوسف کا دل کیا اس کا منہ توڑ دے
ضروری ہے کہ پوری بات بتائی جائے.. کوئی کچھ سوچتا سمجھتا اس سے پہلے ایک غنڈے
شانزے کا بازو پکڑ کے اپنی طرف کھینچا اور اس کے گلے بڑا سا چاقو رکھ دیا.
"تو پولیس والا ہے یا جو کوئی بھی اب یہ
لڑکی نہیں مل سکتی، یہ ہمارے ساتھ ہی جائے گی..."
"چھوڑ دو اسے۔" یوسف نے غصے سے
دیکھا تھا۔
"ایک قدم بھی بڑھایا تو اس کا گلہ کاٹ
دوں گا.. "وہ کہتے شانزے کو باہر کی طرف لے جارہے تھے.
"میری بات سنو میں ہوں یہاں... بس اس سے
جانے دو..." یوسف کی آواز میں منت تھی.. شانزے نے حیرانگی سے سے اسے دیکھا
تھا...
"ہاہاہا... اس سے جانے دیں... ہم کیا
اتنے بیوقوف لگتے ہیں تجھے...؟؟ ہاتھ آیا مال بھی کوئی جانے دیتا ہے کیا ؟؟ "
"دیکھو اسے چھوڑ دو ورنہ انجام اچھا
نہیں ہو گا.." یوسف بھی ان کے پیچھے پیچھے جا رہا تھا،
یوسف اب ان سے بحث میں مصروف تھا..." تمہیں جو چاہیے میں دوں گا... "
"ہمیں جو چاہیے وہ ہم لے کے جا رہے ہیں.
اس کے حسن کا نشہ اب یہی اتارے گی.." اس نے خباثت سے شانزے کو دیکھا تھا..
جبکہ یوسف کا دل چاہا اس کا منہ نوچ لے.. وہ شانزے کو
لے وہاں سے نکل رہے تھے. جب کہ یوسف چاروں طرف مدد کے لئے کچھ ڈھونڈ رہا تھا.
اسی وقت یوسف کی نظر ایک بڑے پتھر پے پر یوسف نے پتھر
اٹھایا اور ان میں سے ایک کے سر پے دے مارا جس سے اس کا سر پھٹ گیا تھا، وہ درد سے
چیختا ہوا بھاگا تھا پتھر نے اپنا کام دکھایا تھا، وہ گڑبڑا گئے.. شانزے بھاگتی
ہوئی یوسف کے پیچھے چھپی تھی.. خوف سے اس نے پیچھے یوسف کی شرٹ کو پکڑا ہوا تھا. فی
الحال اسے وہ اپنے اور ان غنڈوں کے درمیان دیوار کی طرح لگا تھا. تبھی چاقو و
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
حنا بیگم بہت پریشان تھیں.. شانزے ابھی تک گھر نہیں آئی
تھی. جبکہ اس وقت تو وہ گھر آجاتی تھی..
وہ بار بار دروازے کی طرف جاتیں اور ہر بار مایوسی سے
واپس آتیں تھیں.. اپنے صبح کے رویے پہ انھیں خود بھی دکھ تھا. پر اب اسے بدلہ نہیں
جا سکتا... لہٰذا فلحال وہ صرف شانزے کے بارے میں سوچ رہی تھی کہاں تھی وہ.. اگر
اس نے خود کو کچھ کر لیا نہیں نہیں... وہ کمزور نہیں ہے، دل نے آواز دی... اگر وہ
گھر چھوڑ کے چلی گئی تو...؟؟؟ دماغ نے ایک نیا راستہ دیا.. نہیں میری بیٹی ایسی
نہیں ہے... میری بیٹی...؟؟ ان کے اندر کسی نے مذاق اڑایا تھا... ہاں ہاں میری بیٹی
کچھ آنسو ٹوٹے تھے آنکھوں سے... وہ میری بیٹی ہے...
"اسلام وعلیکم می جانی" اریزے نے
اندر داخل ہوتے ہوئے کہا...
لیکن می جانی تو اپنی ہی دنیا میں گم تھی..
"می جانی کیا ہوا؟" اریزے نے ان کا
کندھا ہلایا تھا.
"ہاں.." وہ چونکیں تھی.". وہ
شانزے..." وہ کچھ بول نہیں سکیں اور رونے لگیں اریزے نے پریشانی سے ماں کو
دیکھا.
"می جانی پلیز بولیں کیا ہوا.."
اریزے کچھ پریشان ہوئی..
تبھی پیچھے سے آتا وجی ٹھٹھک گیا.. وہ اریزے کو آفس سے
ساتھ لے آیا تھا.. اب گاڑی پارک کر کے اندر آیا تو می جانی کے رونے پے روک گیا..
"کیا ہوا خالہ جان آپ رو کیوں رہی ہیں...؟"
"ارے ہونا کیا ہے.. وہ پروفیسسرنی ابھی
تک نہیں آئی، بس اس لئے پریشان ہو رہی ہے.. لو بتاؤ بھلا ذرا سی بات کیا کر دی
میڈم گھر آنا ہی بھول گئیں اور ایک یہ میری بہن الله میں کی گایئں اس کے غم میں
گھل رہی اور پتا نہیں کہاں سیر سپاٹے کر رہی ہوگی ۔"تائی جان پھر شروع ہو گئیں
تھی اریزے کی برداشت سے باہر ہو گیا تھا وہ کچھ بولتی اس سے پہلے وجی بھائی بول
پڑے۔
" جاؤ اریزے خالہ کے لئے پانی لاؤ.
اور امی آپ بس بھی کر دیں کبھی تو موقع دیکھ کر بولا
کریں.. خالہ کتنی پریشان ہیں اور آپ کو اپنے مسئلوں سے فرصت نہیں ہے.. صبح کا
ڈرامہ کافی نہیں تھا جو آپ پھر شروع ہو گئیں ہے.. "وجی جھنجلایا تھا. ہر وقت
کی چخ چخ سے وہ تنگ آگیا تھا. ماں کا لہجہ وہ بردشت نہ کر سکا اور بول بیٹھا.
"بیٹا اپنی زبان کو لگام دو. ماں ہوں
تمہاری.. آج کل بچے ذرا سا کچھ کہہ دو آسمان سر پے اٹھا لیتے ہیں ایسا بھی کیا کہہ
دیا ہے میں نے بتاؤ بھلا یہ اچھی لڑکیوں کے طور طریقے ہوتے ہیں صبح کی گئی ہے یہ
وقت ہو گیا ارے میں پوچھتی ہوں کیا گھر کا راستہ بھول گئی ہے.." اب وہ اچھی
خاصی وجی کو سنا رہی تھیں.. ان کی آواز پے تایا اور عنیقہ بھی باہر آگئے تھے.
"کیا ہوا بیگم سب ٹھیک توہے.."
تایا نے تائی جان کو دیکھا..
"ہونا کیا ہے وہ لاڈلی آپ کے بھائی کی
ابھی تک واپس نہیں آئی، ذرا سا کچھ کہہ کیا دیا نکل پڑی گھر سے، میں کہتی ہوں
شریفوں والی کوئی بات ہی نہیں ہے.. اور یہ آپ کا بیٹا چلا ہے مجھے باتیں سنانے."
وہ غصے سے جانے کیا کیا بول رہی تھیں.
"امی بس کر دیں کیوں پیچھے پڑ جاتی ہیں
آپ اس کے.."
"بھائی امی نے کچھ غلط بھی نہیں کہا۔"
عنیقہ نے ماں کی ہمدردی کی..
"تم چپ رہو یہ سب تمہاری کرنی کا نتیجہ
ہے.. "
"میں نے کیا کیا؟" عنیقہ نے انجان
بننے کی زبردست ایکٹنگ کی..
"تم جانتی ہو تم نے کیا کیا ہے۔"
وجی بھی کہاں ٹلنے والا تھا.
"بس کرو تم دونوں چپ ہو جاؤ.."تایا
جان نے دونوں کو گھورا جب کہ وجی نے ملامتی نظروں سے عنیقہ کو دیکھا تھا.
" میری طرف سے بھاڑ میں جائے... "جواباً وہ
پاؤں پٹختی وہاں سے چلی گئی تھی.
"یہ لڑکی ہر روز کا مسئلہ بن گئی ہے. نہ
جانے کہاں سے اٹھا کے لایا تھا اور تھوپ دیا ہمارے سروں پے، مجال ہے جو کوئی بات
سنتی ہو. یہی وجہ ہے کہ میں اس کی شکل نہیں دیکھنا چاہتا. وہ تو اچھا ہے میرے
سامنے نہیں آتی ورنہ نہ جانے میں کیا کر دوں.. سمجھ نہیں آتا کہاں سے آئی تھی مثبت
کی طرح.."
میرا بس چلے تو میں آج ہی اسے اس گھر سے چلتا کروں ،لیکن
نہیں ،تم لوگوں نے تو اس سے سر پے ہی بٹھا لیا ہے. "تایا جان اپنی رو میں
بولے چلے جا رہے تھے حنا بیگم نے اپنے اندر ایک ہوک سی اٹھتی محسوس کی جبکہ وجی
اور اریزے کو تایا کی باتوں سے سخت صدمہ ہوا تھا.
"کس کو چلتا کر رہے ہیں بھائی جان ؟ "باہر
سے آتے حسان کی آواز نے سب کو چونکا دیا تھا.
"پاپا..." اریزے بھاگ کر باپ سے
لپٹ گئی تھی، وہ رو رہی تھی جبکہ می جانی کی حالت بھی کچھ ٹھیک نہیں تھی تایا جان سمیت باقی سب کو سانپ سونگھ گیا تھا.
حسان ان سب کی حالت دیکھ کر کچھ پریشان ہوے تھے.
"کیا ہوا سب خیر تو ہے آپ لوگ اتنا پریشان کیوں لگ
رہے ہیں.؟"
"اریزے تم رو کیوں رہی ہو بیٹا.. ا؟"نہوں
نے محبت سے اس کے سر پے ہاتھ رکھا تھا...
"ہونا کیا ہے تمہاری لاڈلی صبح کی گئی
ہے اور ابھی تک واپس نہیں آئی." تائی جان نے یہ بھی لحاظ نہ کیا کہ وہ تھکے
ہارے گھر آئے ہیں.
"تو اس میں پریشان ہونے والی کیا بات
ہے.. یونیورسٹی گئی ہے اور پھر کراچی کا ٹریفک اتنا ہے آجائے گی کہیں راستے میں ہو
گی۔" حسان نے سکون کا سانس لیا..
"واپس وہ آتے ہیں جن کا گھر ہوتا ہے اور
وہ گھر کو اپنا سمجھتے ہیں.. پر تمہاری بیٹی تو اپنے ماں باپ کو ڈھونڈنے گئی ہے بڑا
مان تھا تمہیں کہ تمہاری بیٹی ہے.. اور آج اسے ضرورت پڑ ہی گئی اپنی پہچان کی. "تایا
جان کی بات نے حسان کو تھوڑا پریشان کیا تھا. ان کا دماغ سچ میں گھوما تھا.. شانزے
وہ کیوں ڈھونڈنے لگی ایسا کیا ہوا...
"یہ سب کیا ہو رہا ہے مجھے کچھ سمجھ
نہیں آرہا ۔"حسان نے حنا اور اریزے کی طرف دیکھا..
اریزے رو رہی تھی جب کہ می جانی نے نظریں جھکا لی
تھیں...
"کوئی مجھ بتائے گا کہ میرے جانے کہ بعد
یہاں کیا ہوا ہے.؟" حسان غصے میں چلائے تھے ہر شخص اپنی جگا ساکت ہو گیا تھا
آج سے پہلے انہوں نے کبھی کسی سے اتنی اونچی آواز میں بات نہیں کی تھی.
"اریزے کیا ہوا ہے بچے ؟"اب وہ
اپنی بیٹی سے بہت ہی نرمی سے پوچھ رہے تھے...
اریزے جو باپ کے سینے سے لگی رو رہی تھی/ اب انھیں صبح
ہونے لڑائی کی پوری تفصیل بتانے لگی.
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭.
یوسف نے بر وقت ہی اس کا ہاتھ پکڑ لیا تھا. یوسف کی
گرفت اتنی مضبوط تھی کہ وہ اپنا ہاتھ نہیں چھڑا پایا.. اس نے ایک جھٹکے سے اس کا
بازو موڑا اور اس کے ہاتھ سے چاقو چھن لیا... وہ دونوں پریشان سے یوسف کو دیکھ رہے
تھے، وہ لوگ بھی کوئی پروفیشنل نہیں تھے ان کے پاس بھی ہتھیار کے نام پر صرف یہ
چاقو ہی تھا. اس بات کا اندازہ یوسف نے پہلے ہی کر لیا تھا...
"بھاگو یہاں سے ورنہ تمہارا چاقو تمہارے
ہی سینوں میں اتار دوں گا.." یوسف نے چاقو سے اشارہ کرتے ہوے بولا اس کی
آنکھوں میں شعلے دہک رہے تھے.
وہ دونوں بھی گڑبڑا گئے اس لئے وہاں سے بھاگتے بنے...
یوسف نے پلٹ کر شانزے کو دیکھا جو ابھی تک اس کے پیچھے
چھپی صدمے کی حالت میں تھی.. یوسف نے اس کا ہاتھ پکڑ کے اپنے سامنے کھڑا کیا... اس
سے پہلے وہ کچھ کہتا شانزے نے اپنا سر یوسف کے سینے سے ٹکا لیا تھا...
وہ خود پہ قابو نہیں کر سکی تھی.. ضبط کے سارے بندھ جو
اس نے پچھلے کچھ گھنٹوں میں خود پے باندھے تھے وہ سارے ٹوٹ گئے تھے.. اس وقت اسے
کچھ یاد نہیں تھا یہاں تک کہ یوسف سے ہونے والی لڑائیاں بھی نہیں جو ان کے درمیان
ازل سے تھیں.. اگر کچھ یاد تھا تو یہ کہ یوسف نہ ہوتا تو شاید وہ زندہ نہ ہوتی..
وہ اس کے لئے اس وقت نجات دہندہ ثابت ہوا ہے.
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
حسان.. بالکل خاموش تھے.. اپنے خیالوں میں مصروف جنگ جب
حنا ان کے پاس آکر بیٹھیں..
"پلیز مجھے معاف کر دیں،،"
ان کی شرمندگی ان کے چہرے سے واضح تھی.. حسان نے ایک نظر انھیں دیکھا..
"کیوں کہا تم نے وہ سب ؟"
حنا کو لگا وہ رو رہے ہیں.... وہ تڑپ گئیں تھیں آج سے
پہلے تو حسان کو کبھی ایسے نہیں دیکھا تھا...
"حسان میں غصے میں تھی میرے منہ سے نکل
گیا میں یہ سب نہیں چاہتی پر ہو گیا.. "حنا اب پھر رو رہی تھیں...
"کیا کبھی تم نے اریزے کو یہ سب کہا ؟ "حسان
ان کے سامنے سراپا سوال بن گئے تھے..
می جانی نے نظرین چرائیں تھیں...
"نہیں نا.. کیوں کہ تم جانتی ہو اریزے تمہاری بیٹی
ہے اور شانزے نہیں.. میں جانتا تھا آج یا کل ایسا ہو گا پر تم کرو گی یہ نہیں
جانتا تھا... آج تم نے میری برسوں کی محنت خاک کر دی ہے.. میں اس بن ماں باپ کی
بچی کو اس لئے گھر لایا تھا کہ مجھے لگا ہم اسے ایک گھر کا سکھ دے سکتے ہیں ،پر
مجھے کیا پتا تھا کہ میری وجہ سے وہ اس ذہنی اذیت کا شکار ہو گی.. تم اس سے نہیں
بیٹی مانتی تھیں تو بول دیتیں ،میں اس کو واپس چھوڑ آتا پر یہ سب... یہ سب کہنے کی
کیا ضرورت تھی.. کبھی سوچا ہے کیا محسوس کیا ہو گا اس نے..." حسان بولنے پہ آئے
تو بولتے چلے گئے اور کسی کی ہمت نہ ہوئی کہ انہیں روکتا یا ٹوکتا.. جب کہ می جانی
صرف رو رہی تھیں..
"حسان میں مانتی ہوں غلطی میری ہے.. وہ
ہماری بیٹی ہے.. آپ میری نیت پہ ایسے شک
نہیں کر سکتے... میں نے پالا ہے اسے اور آپ نے دیکھا ہے میری محبت کو ،اس لئے پھر آپ
کیسے کہہ سکتے ہیں... کہ وہ مجھے اریزے کی طرح عزیز نہیں ہے.." وہ اب بلک بلک
کے رو رہی تھیں..
"اچھا اب رونا بند کرو.. کچھ نہیں ہو گا
ہماری بیٹی کو میں دیکھتا ہوں اسے.. "حسان
کو اپنے الفاظ کی سختی کا احساس ہوا تبھی ان کے آنسو صاف کرتے ہوئے بولے...
"وجی میرے خیال ہے یونیورسٹی چلتے ہیں..
"وہ دونو ں دروازے سے باہر نکل گئے تھے جب کہ می جانی نے سچے دل سے اس کے مل
جانے کی دعا کی تھی...
..................................................................
8 بج گئے تھے لیکن ابھی تک کوئی خیر خبر نہیں
تھی. نہ شانزے کی... اور نہیں پاپا اور وجی بھی کو.. اریزے کو سمجھ نہیں آرہا تھا
وہ کیا کرے... تبھی سامنے سے آتے پاپا اور وجی بھائی نظر آئے...
"پاپا کچھ پتا چلا ؟"اریزے نے باپ
سے پوچھا..
مے
جانی نظروں میں بھی یہی سوال تھا..
اس سوال کے جواب وہ صرف نہ میں سر ہلا سکے تھے...
"سب جگہ ڈھونڈا پر کہیں نہیں ملی.. کچھ
سمجھ نہیں آرہا وہ کہاں چلی گئی ہے.. "ان کے چہروں سے پریشانی صاف واضح تھی..
"اب کیا کریں گے ؟؟ میں کیسے معاف کروں
گی خودکو؟ میری بچی کہاں چلی گئی ہے.. پلیز آپ اسے ڈھونڈھ کے لایئں کہیں سے بھی
پلیز..." می جانی اب حسان کی منت کر رہی تھیں.
"میرا خیال ہے چاچو ہمیں ہسپتال میں
دیکھ لینا چاہیے کہیں کسی..."
"نہیں نہیں... الله نہ کرے میری شانزے
کو کچھ ہو...."انہوں نے وجی کی بات کاٹی تھی..
"تم پریشان نہ ہو مل جائے گی ہماری
بیٹی.." حسان نے انہیں تسلی دی تھی..." بس اب ایک ہی حل ہے..ہمیں پولیس
میں جانا ہو گا..." حسان کی آواز نے سب پے بم گرایا تھا...
....................................................................................................
شانزے اب چھوٹے بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کے رو رہی تھی...
آواز سے... ہچکیوں سے... وہ اس کی ذہنی و جذباتی کیفیت کا اندازہ کر سکتا تھا.
یوسف کو خود پے بے حد غصہ آیا تھا لیکن فلحال وہ کچھ نہیں کر سکتا تھا. کہنے کے
لئے اس کے پاس کچھ بھی نہ تھا. اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ شانزے کو کیسے خاموش کرائے.
وہ اس وقت سچ بتا کر مزید پریشان نہیں کر
سکتا تھا.
جبکہ دوسری طرف شانزے خود بھی اس کے سامنے اس طرح رونے
پے حیران تھی، وجہ وہ خود نہیں جان پائی تھی... شاید خوشی کے آنسو تھے کہ وہ کسی
انہونی سے بچ گئی تھی، یا شاید صبح سے برداشت کرتے کرتے وہ تھک گئی تھی اس لئے خود
پے قابو نہیں رکھ سکی...
جبکہ دوسری طرف یوسف تھوڑا حیران و پریشان تھا...
اس نے نہیں سوچا تھا وہ ایسے ریکٹ کرے گی...
اس کے آنسو وہ اپنی شرٹ میں جذب ہوتے وہ باآسانی محسوس
کر سکتا تھا.
وہ اتنی نزدیک تھی کہ اس کے دل کی دھک دھک واضح تھی...
اس کی سانسوں کی گرمائش وہ اپنے سینے پے محسوس کر رہا
تھا... ایک عجیب سا سحر تھا جو یوسف پے چھاہ رہا تھا نہ جانے اس وقت کیوں یوسف کو
اپنا دل کی دھڑکنیں مدھم پڑتی سنائی دیں.. اس سے لگا جیسے شانزے کی ہر دھڑکن اس کے
دل کا حصہ بن رہی ہو.. نہ چاہتے ہوئے بھی اس نے شانزے کے گرد اپنے مضبوط بازو حائل
کئیے جیسے وہ اسے کوئی تحفوظ فراہم کر رہا ہو. کتنے لمحے خاموشی سے سرک گئے تھے.
شانزے کے مقابلے میں یوسف کی حالت کافی بہتر تھی. ایک ہلکی سی مسکراہٹ یوسف کے
لبوں پے ابھری.
" سب ٹھیک ہے شانزے.. میں ہوں نا... "یوسف نے
اسے تسلی دی تھی.
"شانزے... "یوسف نے اسے آواز دیتے
، آرام سے خود سے الگ کیا...
پر وہ شاید کسی اور ہی دنیا کے سفر پہ تھی اس لئے یوسف
کی باہوں میں جھول گئی تھی...
"شانزے.... شانزے آنکھیں کھولو
پلیز....... "
یوسف اپنی پوری قوت سے چلایا... اس کی آواز میں جانے
کیا کیا تھا...
پچھتوا... دکھ.. درد... صدمہ... یا پھر محبت... فی الحال
وہ اپنی کیفیت کو کوئی نام نہیں دے پایا...
................................................................................
جاری
ہے
CLICK ON READ MORE TO CONTINUE READING
Comments
Post a Comment