Kaanch ki guria novel by Hafiza Sobia Arif Episode 4

Free downlaod Kaanch ki guriya novel by Hafiza Sobia Arif Complete pdf

«کانچ کی گڑیا»
از قلم :"حافظہ ثوبیہ عارف"
(قسط 4)
باجی باجی...نوری اسے آتا دیکھ کر اسکی طرف لپکی تھی-
باجی اسنے مجھے طلاق دے کر گھر سے نکال دیا اور میری بیٹی کو بھی مجھ سے چھین لیا...باجی میں کیسے رہوں گی اسکے بنا-- وہ روتے ہوئے بولی جارہی تھی-
نوری رو مت...کچھ نہیں ملتا ہے رونے سے....مضبوط بنو نوری- وہ اسے سمجھانے لگی-
باجی اگر میری بیٹی نا ہوتی اسکے پاس تو میں خوش ہی ہوتی کہ ایسے شخص سے جان چھوٹ گئی-
چلو آؤ ہم اس سے بات کرتے ہیں اور تمہاری بیٹی لیتے ہیں- وہ اسے ساتھ چلنے کا بولی تھی پر نوری نہ مانی-
نہ باجی ایسا نہ کرنا وہ تو تجھے مار النا چاہتا ہے...وہ کہتا جس نے مجھے یہ سب باتیں سکھائیں ہیں وہ اسے مار الے گا-- نوری اسکے ہاتھ پکڑتے ہوئے اسے روک چکی تھی-
نوری تمہاری بیٹی ہے اس شخص کے پاس....پاگل ہو تم- اسے چھوڑ کر کیسے جاسکتی ہو تم-- اس کو نوری کی باتوں پر غصہ آگیا-
باجی میری بیٹی اپنے باپ سے ہی پیار کرتی ہے...پر اگر اسکے باپ نے آپکو مارالا تو ہم سب کا کیا ہوگا- نوری روتے ہوئے بولی تھی-
ٹھیک ہے پر میں تمہیں تمہاری بیٹی دلوا کر رہوں گی چاہے مجھے عدالت ہی کیوں نہ جانا پڑے- وہ اسے اپنے ساتھ گلے لگاتے ہوئے بولی- وہ لڑکی بہت ہمدرد تھی...کبھی اس نے ان غریبوں اور اپنے آپ میں فرق نہیں کیا تھا- وہ اپنے ادارے میں جو کچھ انکو کھلاتی تھی...وہی سب کچھ خود بھی کھاتی تھی- اسے یہ سب کرکے بہت سکون ملتا تھا- اس لڑکی کا ان بے سہارا عورتوں کے علاوہ کوئی بھی اس دنیا میں نہ تھا- جو تھے وہ سب اس کو بھول کر اپنی زندگی میں مگن ہوچکے تھے اور وہ بھی اپنی ساری زندگی ان بے سہارا عورتوں کیلئے وقف کرچکی تھی-
★★★★★★★★★★★★★★★★★★★
نورالعین اسے اور نوری کو اسکے گھر تک چھوڑنے آئی تھی- اس نے نورالعین کو رکنے کا بولا پر وہ جا چکی تھی اور اب نوری اور وہ کچن میں رات کے 2 بجے کھانا بنا رہیں تھیں-
باجی یہ لڑکی اچھی لگیں....آپ پر بھروسہ کرکے لے آئیں ورنہ صبح تک میں سردی سے مر چکی ہوتی-
ہاں نوری اللہ نے میری مدد کی- اور اس لڑکی کو بھیجا ورنہ مجھے بھی یہی لگا تھا کہ میں تمہاری مدد نہیں کرپاؤں گی- وہ انڈہ فریج سے نکال کر پھینٹ رہی تھی اور نوری بریڈ گرم کررہی تھی-
باجی میری بیٹی سے وہ بہت پیار کرتا ہے اور میری بیٹی بھی...پر میں بھی اپنی بیٹی کے بغیر نہیں رہ سکتی- نوری کے بیٹی کی کر پہ آنسو بہہ نکلے-
نوری تم ہمت مت ہارو...اللہ تمہاری مدد کرے گا اس سے مدد مانگو اور پھر میں ہوں نا تمہارے ساتھ- کل ہم پولیس اسٹیشن چلیں گے اور تمہارے شوہر کے خلاف ایف-آئی-آر درج کروائیں گے- پھر تمہاری بیٹی تمہیں مل جائی گی.... فکر نہ کرو بس اللہ سے گلے شکوے نہ کرنا بلکہ اسکی مدد مانگو- وہ اسے سمجھاتے ہوئے بولی تھی اور پھر دونوں کھانا کھاکر خوابوں کی دنیا میں جاچکیں تھیں--
★★★★★★★★★★★★★★★★★★★
نورالعین آپ صبح صبح یہاں...خیریت ہے- نورالعین 10 بجے میں ان دونوں کے پاس اسکے گھر پہنچ گئی-
جی وہ میں نے آپ سے ایک بات کرنی تھی..آپ مانیں گی؟
جی بات ماننے والی ہوئی تو ضرور مانوں گی نورالعین...آپ بتائیں کیا بات ہے-
میں آپکے ساتھ مل کر نوری کی مدد کرنا چاہتی ہوں...میرا بھائی پولیس آفیسر ہے- میں ان سے بات کرکے آپکے پاس آئی ہوں- انہوں نے کہا ہے وہ نوری کی مدد کریں گے اور اسکی بیٹی کو اسکے پاس لائیں گے- نورالعین اپنا مؤقف بیان کرچکی تھی-
یہ تو بہت اچھی بات ہے...ہم آج پولیس اسٹیشن جانے والے تھے- پر اب جانا نہیں پڑے گا- نوری دیکھو اللہ نے تمہاری مدد کردی ہے- وہ اب نوری کو بلا رہی تھی جو اپنے کپڑے استری کررہی تھی-
نورالعین باجی آپ...نوری اسے دیکھ کر خوش ہوگئی تھی کیونکہ اسے وہ باتونی لڑکی بہت اچھی لگی تھی جو ہر کسی کے دل میں جگہ بنانا جانتی تھی-
ہاں میں ہوں اور اب ہم سب تمہاری مدد کریں گے- نوری اس معاشرے میں جینے کیلئے مضبوط بننا پڑتا ہے- میری ماں بھی اس دور سے گزر چکی ہے....میں تو اس وقت بہت چھوٹی تھی پر مجھے میری ماما نے سب بتایا تھا...تب بھی وہ اتنے سال ہم بچوں کیلئے جیتی رہیں تھیں- تمہیں بھی اپنی بیٹی کیلئے جینا پڑے گا ورنہ اسکا مستقبل تاریک ہوجائے گا- نورالعین کی باتوں پر نوری کی آنکھیں چمک اٹھیں تھیں- اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ اس دنیا میں اب بھی اچھے لوگ باقی تھے...اور اگر یہی اچھے لوگ ختم ہوجاتے تو یہ دنیا بھی ختم ہوجاتی-
نورالعین ہم تمہارے بھائی سے کب مل سکتے ہیں اس سلسلے میں....کیونکہ نوری جلد از جلد اپنی بچی لینا چاہتی ہے-
آج ہی مل لیں...ابھی بول دوں بھائی کو یا شام کو ملیں گی- نورالعین کو بھی جلدی پڑی تھی کیونکہ اس نے کل اپنے سسرال واپس چلے جانا تھا-
نوری تم بتاؤ...وہ اب نوری سے پوچھ رہی تھی-
ابھی مل لیتے ہیں باجی- شام کو پھر آپکو جانا بھی ہے-
ٹھیک ہے اپنے بھائی سے آپ پوچھ لیں کہاں مل سکتے ہیں- اسنے کچھ سوچتے ہوئے نورالعین کو ہاں بول دیا-
★★★★★★★★★★★★★★★★★★★
نورالعین اپنے بھائی کو اسکے گھر بلا چکی تھی اور اب وہ تینوں لاؤنج میں بیٹھیں باتیں کر رہیں تھیں- انکو بیٹھے کافی وقت گزر چکا تھا پر نورالعین کا بھائی نہیں آیا تھا-
نورالعین آپ نے صیح ایڈریس بتایا تھا گھر کا؟
جی ہمارا گھر بھی مین رو سے آگے ہی ہے- وہ سمجھ گئے تھے-
میں جب تک چائے بنالاتی ہوں تم دونوں باتیں کرو اور اگر دروازہ بجے تو کھول دینا- وہ ان دونوں کو ہدایت دے کر کچن میں جا چکی-
باجی آپکے ایک ہی بھائی ہیں-
ہاں بس ایک ہی بھائی ہے جو ابھی آرہا ہوگا- نورالعین ہنستے ہوئے بولی-
شاید آگئے...گاڑی کی آواز تو آئی ہے- چلو باہر چل کر دیکھتے ہیں- وہ دونوں لاؤنج سے اب باہر گیٹ کی طرف آچکیں تھیں- نورالعین نے گیٹ کھولا-
بھائی شکر آپ آگئے...ہم تھک گئے تھے آپکا انتظار کرتے کرتے--
اچھا...سوری میری بہنا--وہ اپنی بہن کے سر پہ چپت مارتے ہوئے بولا-
نوری یہ ہیں میرے بھائی اور بھائی یہ نوری ہیں جنکی بیٹی آپ نے واپس لانی ہے- نورالعین دونوں کا تعارف کروا رہی تھی-
جی ضرور میں آپکی بیٹی کو واپس لاؤں گا...بس آپ نے اللہ سے ہر وقت اپنی مدد کی دعا مانگنی ہے- وہ اب ان دونوں کے ساتھ چلتا لاؤنج میں آچکا تھا-
جی ضرور...آپ بیٹھیں میں باجی کو بلا کر لاتی ہوں- نوری کچن کی طرف بھاگ گئی تھی-
کیا ہوا نوری؟ اتنا بوکھلائی ہوی کیوں ہو- وہ چائے کپوں میں ال رہی تھی-
وہ باجی نورالعین باجی کے بھائی آگئے ہیں اور ان کو دیکھ کر ایسا لگ رہا ہے کہ وہ شہزادے ہیں- نوری بولتی ہی چلی گئی تھی-
اچھا زیادہ باتیں نہ بناؤ...یہ ٹرے اٹھاؤ اور لے جاؤ- میں چائے لے کر آتی ہوں- نوری اسکے کہنے پر کھانے کی ٹرے اٹھا کر جا چکی تھی اور وہ بھی اپنا وپٹہ سر پر پھیلاتے ہوئے کچن سے باہر آگئی تھی-
باجی آگئیں...نوری کے بولنے پر وہ پیچھے مڑا تھا اور نظریں جھپکانا بھول گیا تھا- کچن سے آتی وہ بھی اسے دیکھ چکی تھی-- اسے دیکھتے ہی چائے کی ٹرے اسکے ہاتھ سے گر زمین بوس ہوچکی تھی- اور گرم چائے اسکے پاؤں کو جھلسا گئی تھی پر اسے رہ برابر بھی فرق نہیں پڑا-
انسپکٹر مصطفی ہمدانی......اس کے منہ سے نفرت بھرے انداز میں یہ نام ہی ادا ہو پایا تھا- مصطفی اسکے پیروں پہ چائے گرتے دیکھ فوراً آگے بڑھا پر وہ اسکے آنے سے پہلے ہی منہ پر ہاتھ رکھے روتے ہوئے اپنے کمرے میں جاچکی تھی-
★★★★★★★★★★★★★★★★★★★
سجل مری کی وادیوں کو ہمیشہ چھوڑ کر جاچکی تھی- اسے اب پیچھے مڑ کر دیکھنا بھی گنوارا نہ تھا کیوں کہ پیچھے کچھ بھی باقی نہ بچا تھا...سب جل کر راکھ ہوگیا تھا اور راکھ کرنے والا مصطفی ہمدانی تھا جو اسکی زندگی کا پہلا اور آخری مرد تھا جس سے وہ بے انتہا نفرت کرتی تھی- وہ مری سے اسلام آباد کا سفر بس سے طے کرکے آئی تھی- اسے اسلام آباد اپنے باپ کے گھر جانا تھا جو اسکے لیے واحد سر چھپانے کی جگہ بچا تھا-
وہ اس گھر آچکی تھی- اور اپنی آنے والی زندگی کا سوچ رہی تھی- اسکے باپ کی ایک انڈسٹری تھی جو بلکل ختم ہوچکی تھی- اسے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کیا کرے...کیسے اپنا پیٹ بھرے- اسکے پاس صرف اتنے پیسے تھے کہ وہ پورا مہینہ  روٹی لیکر کھا سکتی تھی- اور اسنے پورا مہینہ اسی پہ گزارا کیا تھا- وہ روز صبح اپنے باپ کی انڈسٹری جاتی تھی اور اپنے باپ کے ایک واحد دوست سے ملتی تھی جو اسکی مدد کرنے کو تیار تھے کیونکہ وہ اسکے باپ کے احسان مند تھے-
سجل نے چھ مہینے لگا کر اس پوری عمارت کو تبدیل کروا دیا تھا- نیچے کا سارا پورشن شاہ انڈسٹری کیلئے تھا اور اوپر کے دو پورشن میں وہ بے سہارا عورتوں کیلئے ادارہ کھول چکی تھی- اسکے باپ کے دوست کو اس نے انڈسٹری کا ہیڈ بنادیا تھا- وہ انڈسٹری کو صبح10 سے 11 اور رات کو 8 سے 9 کے وقت دیکھتی تھی- اسے بزنس میں کبھی انٹرسٹ نہیں تھا...بس وہ ساری یٹیلز چیک کرتی اور اپنا ادارہ چلاتی تھی جسکی وجہ سے اسکی انڈسٹری کو بھی کافی منافع ہوا تھا...اور ایک سال بعد اسکی محنت رنگ لائی تھی- شاہ انڈسٹری کا نام پاکستانی انڈسٹریس میں ٹاپ پر تھا..اور اسکی ایک برانچ کراچی میں بھی کھولی جا چکی تھی- اسنے یہ سب اپنے اللہ پر یقین رکھتے اور اس سے مدد مانگتے ہوئے شروع کیا تھا- اور آج وہ اس ایک اللہ کی شکر گزار بندی تھی- اس پورے سال میں اسنے کئی بار مصطفی سے نفرت کی تھی اور کئی بار اسے لگا تھا کہ اسے مصطفی ہمدانی سے محبت ہوچکی ہے- وہ جب اس سے پہلی بار کے ملنے کا سوچتی تھی تو خوش ہوجاتی تھی...پر جب اسے اسکی زہر میں وبی باتیں یاد آتیں تھی تو اسے نفرت ہونے لگتی تھی- وہ اب ائری لکھنا بھی چھوڑ چکی تھی کیونکہ اسکی پرانی ائری اب تک نہیں ملی تھی-
وہ نہیں جانتی تھی کہ نورالعین اسکی بہن تھی...اور اب وہ بیٹھی اس وقت کو کوس رہی تھی کہ اس نے اسکے بھائی کا نام کیوں نہ پوچھا اور ایک انجان شخص کو گھر پر بلانے کیلئے راضی کیسے ہوگئی- وہ اسکو دیکھ کر اپنا جلتا پیر بھی بھول چکی تھی...جس شخص سے وہ نفرت کرتی تھی...جس شخص کو زندگی بھر دیکھنا نہ چاہتی تھی- آج تقدیر نے اسے اسی شخص سے واپس ملا دیاتھا-
★★★★★★★★★★★★★★★★★★★
مسٹر اینڈ مسز اقبال ملک میں آپ لوگوں کو ایک دفعہ صاف الفاظوں میں بتا چکی ہوں کہ میں یہ پوری عمارت دور کی بات صرف شاہ انڈسٹری  بھی آپکو بیچنا نہیں چاہتی ہوں- چاہے آپ میری جان ہی کیوں نہ لے لیں- یہ پوری عمارت میرے مرنے کے بعد غریبوں اور بے سہارا لوگوں کیلئے ہی چلے گی-- اب آپ لوگ جاسکتے ہیں- وہ دروازے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولی تھی اور اتنی عزت افزائی پر اقبال ملک طیش میں آگئے-
ہنہہ جانتی نہیں ہو تم مجھے لڑکی...اقبال ملک کو نا کرکے تم نے اچھا نہیں کیا...انکی مسز ان کا ہاتھ کھینچ کر باہر لے گئیں- اور وہ سر تھام کر وہیں کرسی پر بیٹھ گئی- پہلے وہ مصطفی ہمدانی کے چکر سے نہیں نکل پارہی تھی اور اب ایک دوسری آفت اسکے سر پہ کھڑی تھی-
باجی...میری بیٹی مجھے واپس مل گئی ہے- نوری خوشی خوشی اسکو بتانے آئی تھی ساتھ نورالعین بھی تھی-
بہت مبارک ہو نوری...میں گھر جارہی ہوں- تم چلو گی؟ سجل نورالعین کو نظر انداز کرتے ہوئے باہر جانے لگی-
نہیں باجی...اب میں یہیں رہوں گی...آپ جائیں آرام کریں خدا حافظ- نوری کے کہنے کے ساتھ ہی وہ باہر نکل گئی- نورالعین جانتی تھی کہ وہ کیوں اس سے بات نہیں کررہی-
وہ باہر مین رو پر کھڑی ٹیکسی کا انتظار کر رہی تھی جب پیچھے سے نورالعین آئی تھی-
سجل آپ کو ہم چھوڑ دیتے ہیں- مجھے آپ سے ایک ضروری بات بھی کرنی ہے- نورالعین گاڑی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولی جہاں مصطفی ہمدانی اسکے انتظار میں کھڑا اسکی باتیں سن چکا تھا-
مجھے آپکی کوئی بات نہیں سننی..نہ ہی آپکی مدد کی ضرورت ہے- ہاں آپکے بھائی نے نوری کی مدد کی اسکے لیے شکریہ کے علاوہ میں کچھ نہیں کہنا چاہتی خدا حافظ- وہ کہ کر مصطفی ہمدانی کے سائیڈ سے گزر کر جاچکی تھی-
بھائی وہ آپکو.... نورالعین کی بات ادھوری رہ گئی-
سن لیا ہے...چلیں گھر..تم نے جانا بھی ہے- وہ اسکی بات کاٹ کر بولا-
جی..وہ دونوں بھی اپنی گاڑی میں جاچکے تھے-
★★★★★★★★★★★★★★★★★★★
ہیلو انسپکٹر مصطفی ہمدانی...کیسے ہیں آپ؟ وہ بیکری میں سوئیٹس لینے آیا تھا...اور ماریہ اقبال اسے دیکھ چکی تھی- اسی لیے اسکی طرف چلی آئی-
ٹھیک ہوں آپ سنائیں اور آپکے والد صاحب کیسے ہیں؟ مصطفی زبردستی کی مسکراہٹ سجائے بول رہا تھا-
ٹھیک ہیں...بس کچھ پریشان ہیں- آپکو بتایا بھی تھا انھوں نے-
کیا بتایا تھا؟ وہ انجان بنتے ہوئے بولا-
یہی کہ وہ شاہ انڈسٹری لینا چاہ رہے ہیں پر وہ لڑکی بیچنے کیلئے نہیں مان رہی تو اب....ماریہ نے بات ادھوری چھوڑی-
تو کیا؟؟ مصطفی ہمدانی کو کچھ غلط ہونے کا احساس ہورہا تھا جبھی فوراً بولا-
نہیں کچھ نہیں..میں چلتی ہوں- پھر ملاقت ہوگی- بائے....وہ اسے کچھ کہنے کا موقع دیے بغیر فوراً جا چکی- اور سجل ان دونوں کو ساتھ دیکھ چکی تھی- وہ ماریہ کو نہیں جانتی تھی اور نہ ہی اسنے انکی باتیں سنی تھیں- اسے بس مصطفی ہمدانی کو دیکھ کر نفرت ہوئی تھی اور وہ اب سمجھی کہ مصطفی ہمدانی ہر لڑکی کے ساتھ پہلے ہنس ہنس کر باتیں کرتا ہے اور پھر اسکی ساری زندگی کانٹوں سے بھردیتا ہے-
وہ سوچتے ہوئے باہر نکلی تھی جب مصطفی اسے دیکھ چکا تھا- وہ فوراً گاڑی سے اتر کر اسکے پاس چلا آیا-
سجل مجھے تم سے بات کرنی ہے- مصطفی ہمدانی اسکے راستے میں آگیا- اور آج پورے ایک سال بعد اس سے مخاطب ہوا تھا-
اچھا...انسپکٹر مصطفی ہمدانی اب بھی کوئی بات رہ گئی ہے تمہاری- وہ طنزیہ انداز میں بولی-
ہاں سجل میں بہت....
بس بہت ہوگیا مصطفی ہمدانی...اب میں تمہاری کسی باتوں میں نہیں آنے والی کیونکہ تم ایک گھٹیا انسان ہو- لڑکیوں کو اکیلا دیکھ کر ان سے باہر ہنس ہنس کر باتیں کرتے ہو اور پھر انکو ساری دنیا کے سامنے بدنام کردیتے ہو- دیکھ لو میں پہلی لڑکی ہوں جو بدنام ہونے کے بجائے آج شہرت کی بلندیوں پر پہنچی ہوئی ہوں- وہ اسے طیش دلا کر خود بول کر چلی گئی- اور مصطفی ہمدانی اپنی مٹھیاں بھینچتا گاڑی میں آبیٹھا تھا--
★★★★★★★★★★★★★★★★★★★
بھائی آپ اس سے بات کیوں نہیں کرتے ہیں- وہ تو اب تک کچھ جانتی ہی نہیں ہے-- نورالعین آج پھر اپنے بھائی کے پاس چلی آئی...
وہ مجھے دیکھنا نہیں چاہتی سننا دور کی بات ہے نور...اور کون لڑکی ایسے شخص سے بات کرنا پسند کرے گی جس نے اسکی زندگی برباد کردی ہو- مصطفی ہمدانی نورالعین کو سب کچھ بتا چکاتھا- اسی لیے بے جھجک اپنی بہن سے بات کر رہا  تھا-
آپ نے ایسا کچھ بھی نہیں کیا ہے بھائی- وہ آج بھی پاکیزہ لڑکی ہے...آپ نے صرف بابا کا انتقام لیا ہے-
ہاں وہ پاکیزہ لڑکی ہے نور لیکن صرف ہم دونوں کی نظر میں...باقی ساری دنیا کے سامنے وہ میری بیوی بن کر یہاں آئی تھی- اور بابا کے انتقام میں اب میں خود جل رہا ہوں...اس نے مجھے کہا تھا کہ میں اس کو ساری زندگی نہیں بھول پاؤں گا اور ایسا ہی ہوگیا ہے-
بھائی آپ ٹینشن نہ لیں...سب ٹھیک ہوجائے گا- اللہ بہتر کرے گا- نورالعین اسے دلاسہ دے رہی تھی-
میری راتوں کی نیند حرام ہوچکی ہے...ساری رات اسی کو سوچتے گزادیتا ہوں پر وہ اب تک مجھ سے نفرت کرتی ہے- مصطفی اپنا سر دباتے ہوئے بولا-
تبھی تو کہہ رہی ہوں اس سے بات کریں...ایسا کریں آپ اسکے گھر چلیں جائیں- شاید وہ آپکی بات سن لے- نورالعین مشورے دے رہی تھی اور مصطفی ہمدانی نے کچھ سوچ کر سر اثبات میں ہلا دیا-
★★★★★★★★★★★★★★★★★★★
سجل باجی وہ آدمی آج بھی آیا تھا...انور صاحب نے اسے بھگا دیا- نوری اسکے باپ کے دوست اور انڈسٹری کے ہیڈ کا نام لیتے ہوئے بولی-
کون...کون آیا تھا ؟ سجل کو لگا تھا کہ مصطفی آیا تھا- اسکی راتوں کی نیند اور دن کا چین اڑ چکا تھا- اسے ہر وقت یہی لگتا تھا کہ مصطفی اسکا آفس اور گھر دیکھ چکا ہے تو واپس آکر اسے زبردستی اپنے ساتھ لے جائے گا-
باجی وہ کل صاحب جو آپکے پاس آئے تھے...نام مجھے نہیں یاد ہے- نوری کی بات پہ وہ سر تھام کر بیٹھ گئی....اقبال ملک اسکی جان نہیں چھوڑ رہا تھا اور دوسری طرف وہ مصطفی ہمدانی کی وجہ سے ٹینشن میں تھی...اسی سمجھ نہیں آرہی تھی کیا کرے- ہر طرف اسکے لیے مسائل کھڑے تھے-
باجی آپ نورالعین باجی کے بھائی سے بات کریں...وہ آپکی مدد کریں گے اور اس بڈھے کو عقل دلائیں گے جیسے میرے شوہر کو پیٹ پیٹ کر اسکا بوتھا ہی ٹھکانے لگا دیا- وہ اسے مشوروں سے نواز رہی تھی...اگر وہ جانتی ہوتی کہ سجل شاہ کا سب سے بڑا دشمن ہی مصطفی ہمدانی ہے تو کبھی یہ بات اسکے سامنے نہ کرتی-
مجھے کسی کی مدد نہیں چاہیے نوری..جاؤ تم اپنی بیٹی کو لے کر آؤ سکول سے-- وہ اسے جانے کا کہ کر خود نیچے انڈسٹری میں آگئی-
انور انکل میں اس شخص اقبال ملک کا کیا کروں...جان نہیں چھوڑ رہا ہے- وہ اپنے باپ کے دوست کے پاس آگئی تھی جو فائل دیکھنے میں مصروف تھے-
ہاں بیٹا..وہ دھمکیاں دے کر گیا ہے- انور صاحب بھی پریشان تھے-
کیسی دھمکیاں انکل؟؟
یہی کہ وہ کچھ بھی کرے گا اس کمپنی کو حاصل کرنے کیلئے اور بتارہا تھا کہ وہ انسپکٹر مصطفی ہمدانی سے بھی مدد لے گا...وہ ہمیشہ سے انکی مدد کرتا آیا ہے اور بیٹا آپ تو جانتی ہیں کہ انسپکٹر مصطفی ہمدانی کوئی عام شخصیت نہیں ہے- وہ تو بڑے سے بڑے آدمی اور دشمنوں کو عدالتوں میں گھسیٹتا آیا ہے اور ہم عام لوگ کبھی بھی اسکا مقابلہ نہیں کرسکتے ہیں- سجل کو انکی بات سن کر دھچکا لگا تھا-
تو مطلب اب یہ شخص مجھے ایسے برباد کرے گا- وہ سوچتے ہوئے واپس اوپر چلی آئی-
★★★★★★★★★★★★★★★★★★★
اقبال صاحب کیا بات ہے؟ کھانا بھی نہیں کھایا آپ نے....مسز اقبال انکے پاس آکر دودھ کا گلاس دیتی ہوئیں بولیں-
میں ٹھیک ہوں بس تھوڑا سا پریشان ہوں....اس لڑکی نے تو قسم کھا لی ہے اپنی انڈسٹری نہ دینے کی اور یہ مصطفی بھی اب کہیں نہیں ملتا ہے- اقبال صاحب غصے سے بولے-
چھوڑیں نا آپ اس انڈسٹری کو اور بھی بہت جگہیں ہیں جہاں آپ اپنی کمپنی کھول سکتے ہیں- مسز اقبال انکو سمجھارہی تھیں-
آپ کچھ نہیں جانتی ہیں ورنہ یہ بات کبھی نہ کہتیں- شاہ انڈسٹری کی عمارت جس جگہ کھڑی ہے وہ بہت شاندار جگہ ہے اور وہ عمارت بہت اچھی بنائی ہے اس لڑکی نے 6 مہینے میں...جو کام ہمارے ورکرز دو ، تین سالوں میں کرسکتے ہیں وہی کام اس لڑکی نے دن رات کرکے 6 مہینے میں کروایا ہے-
اوہ اب مجھے سمجھ آیا کہ کیوں آپ پیچھے پڑے ہیں اس جگہ کے- تبھی آپ ایک فلور بھی لینے کیلئے تیار ہیں-
جی بلکل پر وہ لڑکی مان نہیں رہی ہے- ٹھیک ہے نا مانے...ہمارا نام بھی اقبال ملک ہے...گھی سیدھی انگلی سے نا نکلے تو انگلی ٹیڑھی کرنی پڑتی ہے- اقبال ملک مسکراتے ہوئے بولے تھے اور مسز اقبال انکو نا سمجھی سے دیکھنے لگیں-
کیا مطلب آپکا؟ آپ اس لڑکی کے ساتھ زبردستی کریں گے--
ہاں یہی سمجھ لو بیگم....اقبال صاحب کھڑے ہو کر کمرے سے جاچکے تھے-
★★★★★★★★★★★★★★★★★★★
آج موسم بے حد سرد تھا..وہ کمبل میں دبکے آفس فائلیں دیکھ رہی تھی جب ہی ور بیل بجی-
اس وقت کون ہوسکتا ہے؟ وہ گھڑی کی طرف دیکھ کر خود سے بولی- رات کے 12 بجے کون آسکتا ہے- وہ سوچتی ہوئی اٹھی اور شال اچھی طرح سے لپیٹ کر باہر آگئی-
کون ہے...اس نے دروازہ کھولنے سے پہلے احتیاطاً پوچھ لیا پر باہر سے کوئی آواز نہ آئی-
کون ہے؟؟ اس نے دوبارہ پوچھا پر کسی نے کوئی جواب نہ دیا-
وہ اب دروزے کے درمیانی سراخ میں سے دیکھنے لگی پر اسے کوئی نہ نظر آیا- اسے اپنے آپ پر غصہ آرہا تھا کہ گار کو کیوں اس نے بھاگا دیا تھا-
وہ واپس مڑنے لگی تبھی دوبارہ ور بیل بجی...اس نے غصے میں آکر دروازہ کھول دیا پر سامنے کھڑی ہستی اسکے ہوش اڑانے کیلئے کافی تھی-
میں ہوں انسپکٹر مصطفی ہمدانی-- یاد ہوں نا سجل شاہ- وہ اندر آچکا تھا اور سجل کے اتنی سردی کے باوجود پسینے چھوٹ گئے-
اتنے پسینے تو تمہیں اپنے گھر سے میرے ساتھ جاتے ہوئے بھی نہیں آئے تھے پر اب کیوں آرہے ہیں-- مصطفی ہمدانی دل جلانے والی مسکراہٹ کے ساتھ بولا اور سجل کا دل سچ میں جل کر راکھ ہوگیا-
کیوں آئے ہو تم یہاں....کس حیثیت سے...کرنا تھا نا بدنام مجھے-- اب کردیا ہے تو دفعہ کیوں نہیں ہوجاتے تم میری زندگی سے مصطفی ہمدانی-- وہ گلہ پھاڑ کر چیخی-
آہستہ بولو سجل..ورنہ میرا ہاتھ اٹھ سکتا ہے- مصطفی کو اسکے چیخنے پر غصہ آگیا- وہ اسکا ہاتھ دبوچ کر اسے لاؤنج میں لے آیا-
میرے گھر میں اب تم میرے ساتھ ہی زبردستی کروگے مصطفی ہمدانی- سجل کا چہرہ غصے سے لال ہوچکا تھا-
سجل میں صرف بات کرنے آیا ہوں تم سے...تم کیا آدھا گھنٹہ بیٹھ کر تحمل سے میری بات نہیں سن سکتی ہو- مصطفی اب اپنے غصے پر قابو رکھتے ہوئے بولا-
بلکل بھی نہیں مجھے تمہاری شکل نہیں دیکھنی اور تم کہ رہے ہو کہ آدھا گھنٹہ بیٹھ کر تحمل سے تمہاری باتیں سن لوں- وہ طنزاً بولی-
سجل پلیز..... وہ التجائیہ انداز میں بولا-
مصطفی ہمدانی اگر تم میرے گھر سے نہ گئے تو میں پولیس کو کال کردوں گی...پھر تمہارا ہی کردار مشکوک ہوجائےگا...جس سے مجھے بلکل بھی فرق نہیں پڑے گا- وہ موبائل ہاتھ میں لے کر اب نمبر ائل کرنے لگی تھی-
ٹھیک ہے ....میں جا رہا ہوں اور وعدہ کرتا ہوں کہ تمہیں اس گھر سے ہمیشہ کیلئے رخصت کرکے لے جاؤں گا....خدا حافظ- وہ کہ کر جا چکا تھا اور سجل اسکے الفاظوں پر غور کرتی سر تھام کر بیٹھ گئی-
★★★★★★★★★★★★★★★★★★★
جی کہیے اقبال صاحب کس سلسلے میں آپ نے مجھے یہاں بلوایا ہے؟ مصطفی ہمدانی انکے بلوانے پر کافی شاپ میں اب انکے ساتھ بیٹھا تھا-
مصطفی بیٹا آپ میری مدد کریں گے؟ اقبال ملک اصل موضوع کی طرف آچکے تھے-
جی ضرور کہیے کیسی مدد چاہیے آپکو؟ مصطفی نا سمجھی سے انکی طرف دیکھتے ہوئے بولا-
بیٹا میں آپ سے شاہ انڈسٹری کے بارے میں پہلے بھی بات کرچکا ہوں- وہ انڈسٹری جس لڑکی کی ہے وہ خود اس کو نہیں چلا رہی ہے بلکہ اسکے باپ کا دوست چلا رہا ہے اور اس نے مجھ سے ایک ہفتے پہلے ایڈوانس پیسے لے لیے تھے پر اب وہ مکر رہا ہے- میرے کہنے پر پیسے بھی واپس نہیں دے رہا اور نہ ہی انڈسٹری میرے حوالے کررہا ہے- اقبال ملک اپنی چال چل چکے تھے اور اب آگے کا کام انھوں نے مصطفی ہمدانی پر تھوپ دیا-
اقبال صاحب کوئی ایسے کیسے کرسکتا ہے- آپ نے اس لڑکی سے بات کی کہ وہ آدمی آپکے پیسے لے چکا ہے اور آپکو دے نہیں رہا ہے- مصطفی ہمدانی جانتا تھا کہ وہ انڈسٹری کس کی ہے...پر اقبال ملک کے سامنے انجان بن گیا-
اس لڑکی کا کہنا ہے کہ میں جھوٹا ہوں- اس نے مجھے اپنے سارے ورکرز کے سامنے بے عزت کرکے نکلوایا تھا....اسکے بعد دوبارہ جانے کی ہمت نہ ہوئی- اسی لیے میں نے تم سے مدد مانگی ہے-
جی میں ضرور کروں گا آپکی مدد...چلیں ابھی میرے ساتھ- اسی وقت ان سے بات کرتے ہیں- انسپکٹر مصطفی ہمدانی کھڑا ہوچکا تھا...اقبال ملک کو اپنا منصوبہ کامیاب ہوتا دکھائی دینے لگا-
★★★★★★★★★★★★★★★★★★★
آپ دوبارہ کس لیے آئے ہیں...آپکو ایک بات سمجھ نہیں آتی کہ مجھے یہ انڈسٹری نہیں بیچنی ہے- سجل انور صاحب کے بلانے پر نیچی آئی تھی جبھی اقبال ملک دوبارہ آگئے....لیکن اکیلے نہیں ان کے ساتھ انسپکٹر مصطفی ہمدانی بھی تھا پر وہ پہلے باہر کھڑا انکی باتیں سننا چاہتا تھا-
بیٹی آپ غصہ کیوں ہورہی ہیں..میں اپنے پیسے لینے آیا ہوں- اقبال صاحب جانتے تھے مصطفی ہمدانی باہر کھڑا ہے تبھی اپنے لہجے کو پیار میں سموتے ہوئے بولے-
کونسے پیسے اقبال صاحب...آپکا دماغ تو نہیں چل گیا ہے- سجل کو انکی باتوں پر غصہ آگیا-
وہی پیسے جو انور صاحب مجھ سے لے چکے ہیں- اور یہ بات آپ بھی اچھے سے جانتی ہیں...انجان مت بنیں- اقبال ملک انور صاحب کی طرف اشارہ کرکے بولے جو چپ چاپ بیٹھے تھے-
بکواس بند کریں...آپ جھوٹ بول کر کیا سمجھتے ہیں کہ ہم سے ہماری انڈسٹری چھین لیں گے تو یہ ناممکن ہے...میں اگر اسے بیچنا چاہوں بھی تو آپ جیسے شخص کو کبھی نہیں بیچوں گی اور نہ ہی اتنی گڑی ہوی ہوں کہ آپ کے پیسے لوٹ کر کھا جاؤں- سجل غصے سے بولتی چلی گئی- تب ہی مصطفی اندر چلا آیا اور سجل اسکو دیکھ کر اپنے حوش و حواس کھونے لگی تھی پر اسے اپنے آپ پر قابو رکھنا پڑا...آج وہ اگر اس شخص کے سامنے کمزور پڑ جاتی تو کبھی اٹھ نہ پاتی-
انور صاحب جائیے کافی اور سنیکس کا انتظام کیجئے...آج انسپکٹر مصطفی ہمدانی خود چل کر آئے ہیں- سجل ہیڈ کی کرسی پر براجمان ہوتے ہوئے بولی اور مصطفی جو سمجھ رہا تھا کہ وہ اسے دیکھ کر چیخے گی..چلائے گی- پر وہ تو بلکل نارمل تھی جیسے پچھلے کئی سالوں میں ان کے درمیان کچھ بھی نہ ہوا ہو-
تشریف رکھیے انسپکٹر مصطفی ہمدانی...آپکا کیسے آنا ہوا- اسکے اعتماد کے آگے مصطفی کو اپنا اعتماد کمزور پڑتا محسوس ہوا-
میں انکے ساتھ آیا ہوں- اقبال صاحب کا کہنا ہے کہ آپ انکے پیسے لے کر ان سے وعدے کرچکی ہیں کہ یہ انڈسٹری انکو دے دیں گی اور اب نہ انکو پیسے واپس دے رہی ہیں اور نہ ہی یہ انڈسٹری انکے نام کر رہی ہیں-
اوہ...چلیں میں مانتی ہوں کہ میں نے ایسا کیا ہے تو آپ بتائیں کیا ثبوت ہیں آپکے پاس کہ میں نے ان سے ایسا معاہدہ کیا ہے اور اب میں اپنے معاہدے سے مکر رہی ہوں- سجل بہت ہین تھی اور یہ بات مصطفی ہمدانی کو آج پتہ لگی تھی...یہی ہانت اور اسکا کانفیڈنٹ اسے یہاں تک لے آیا تھا ورنہ کوئی لڑکی اپنے ساتھ اتنا برا ہونے کے بعد بھی اتنی بہادر نہ ہوسکتی تھی جتنی سجل تھی- آج مصطفی ہمدانی کو اپنی محبت پر رشک آرہا تھا- اس نے اپنی 28 سالہ زندگی میں ایسی لڑکی نہ دیکھی تھی-
اقبال صاحب آپ معاہدہ نامہ دکھائیں جو آپ نے اس لڑکی کے ساتھ کیا تھا- مصطفی اب اقبال ملک کی طرف مڑا تھا جن کے چہرے پہ ہوائیاں اڑی ہوی تھیں-
مصطفی بیٹا جس نے پیسے کھانے ہو وہ معاہدہ نامہ نہیں بناتے ہیں- اقبال ملک بمشکل بولے پر انکی بات سجل سن چکی تھی-
اچھا...اقبال ملک صاحب آپ جب اس انڈسٹری کے کڑوڑوں پیسے دے رہے تھے اس وقت آپکی عقل نہیں چلی تھی کہ آپ معاہدہ نامہ بنوا لیتے- یا یوں کہیے کہ جھوٹے لوگ صرف جھوٹ بول سکتے ہیں ہر چیزکو نہیں سوچ سکتے- وہ استہزایہ انداز میں ہنستے ہوئے بولی-
انسپکٹر مصطفی ہمدانی آپکی ہانت کے تو چڑچے ہیں...انکی بات سنتے وقت آپکی ہانت گھاس چڑھنے گئی تھی- سجل اب اسکی طرف مڑی-
ہاں شاید چڑھنے گئی تھی تبھی میں ان سے پوچھنا بھول گیا...خیر آپکا وقت ضائع کیا اس کیلئے معذرت- اب مجھے اجازت دیجئیے- مصطفی ہمدانی اٹھ کھڑا ہوا تھا-
اوہ ہو میرا وقت کے ساتھ ساتھ آپ پیسے بھی ضائع کرکے جارہے ہیں- میں محنت سے کماتی ہوں اسلیے آپ دونوں کھا کر جائیں پلیز...وہ خود اٹھ چکی تھی اور انور صاحب اسکی کرسی پر آکر بیٹھ گئے-
کھا کر جائیں پلیز اقبال صاحب اور آپ بھی انسپکٹر مصطفی ہمدانی کیونکہ آپ پہلی دفعہ میرے آفس آئے ہیں...اور مجھے اچھا نہیں لگے گا آپکو ایسا جاتا دیکھ کر- وہ مصطفی ہمدانی کے روبرو آکر کھڑے ہوکر اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولی تھی- اور مڑ کر آفس سے نکلتی چلی گئی-
★★★★★★★★★★★★★★★
اقبال صاحب آپکو جھوٹ بولتے ہوئے رہ برابر بھی شرم نہ آئی....اب میں آئندہ آپکی کوئی مدد نہیں کروں گا اور اگر آپ نے اب اس لڑکی کو تنگ کیا تو میں اسکی مدد کرنے کیلئے کھڑا ہوں گا- ویسے تو اس جیسی لڑکی کو میری مدد کی بھی ضرورت نہیں ہے...آج سے آپکی میں کبھی بھی مدد نہیں کروں گا خدا حافظ- وہ انکو سنا کر اپنی گاڑی میں بیٹھ کر جاچکا تھا اور اقبال ملک کو اپنے پلان کی ناکامی پر غصہ آرہا تھا- اب انکے پاس انسپکٹر مصطفی ہمدانی بھی نہیں رہا جو انکی مدد کرسکتا- انھوں نے خود اپنے پیروں پر کھلاڑی ماری تھی- اب انہیں ہر ایک ایک چیز کو ہن میں رکھ کر منصوبہ بنانا تھا ورنہ وہ کبھی بھی یہ انڈسٹری حاصل نہ کرپاتے- وہ رشک بھری نظروں سے اس عمارت کو دیکھ کر جا چکے تھے کیونکہ انھوں نے اپنا منصوبہ جلد ہی پایہ تکمیل تک پہنچانا تھا-
★★★★★★★★★★★★★
جاری ہے
CLICK ON READ MORE TO CONTINUE READING




Comments