Zakhm by Fatima Khan


Zakhm by Fatima Khan
افسانہ "زخم"
از "فاطمہ خان"

ایک چھوٹا سا افسانہ ہمارے معاشرے کے ایک تلخ حقیقت امید ہے آپ سب کو ضرور پسند آئے گا
"اماں اماں اس نے مجھے آج پر مارا ہے یہاں دیکھوں یہاں بھی مارا ہے مجھے بہت درد ہو رہا ہے اماں مجھے اس جہنم سے بچا لے میں مر جاؤ گئی اماں مجھ سے اب برداشت نہیں ہوتا "
انعم بلک بلک کر اپنی ماں کے سامنے رو رہی تھی آج اس کے شوہر نے اس پر پر سے تشدد کیا تھا روز کی طرح آج بھی اسے بے دردی سے مارا تھا اماں اس سے ملنے آئی تھی اماں کو دیکھتے ہی اس کا ضبط جواب دے گیا تھا "میری جان میری بیٹی اللّٰہ تجھے صبر دے دیکھ تجھے سب برداشت کرنا پڑے گا اللّٰہ نے عورت کو بہت بڑا دل دیا ہے میری بچی وہ غصے میں ہوتا ہے تم برداشت سے کام لے اللّٰہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے "
اماں نے اس کے زحموں سے نظر چراتے ہوئے اسے ہر بار کی طرح نصیحت کی
انعم نے ایک دکھ بھری نگاہ اپنی ماں پر ڈالی
"برداشت اور کتنا برداشت کروں اماں میں بھی انسان ہوں میرا بھی دل ہے میں روز اس شخص کے ہاتھوں ذلیل ہوتی رہتی ہوں اپنی عزت نفس کو اپنے پاؤں تلے دبا کر پھر سے اس کی پوجا کرتی ہوں کب....تک اماں آخر کب مجھے میرے صبر کا پھل ملے گا بولو نا اماں میں کب تک اس کی مار کھا کھا کر برداشت کروں گی"
انعم کی برداشت آج جواب دے گئی تھی وہ چلا چلا کر رو رہی تھی اس کے رونے میں شدت آ رہی تھی
اماں نے نظریں چرا لی وہ اپنی بیٹی کے لیے کچھ نہیں کر سکتی تھی پوری عمر شوہر سے مار کھا کر اس عمر میں اپنی بیٹی کو گھر لے جا کر بہوں اور بیٹے کے ہاتھوں ذلیل نہیں ہونا چاہتی تھی
اماں نے اٹھ کر اس کے ہاتھ پر چند روپے رکھے اور کمرے سے نکل گئی وہ اس وقت اپنی معصوم بیٹی کا دکھ نہیں دیکھنا چاہتی تھی
انعم نے اپنی ہتھیلی پر چند ہزار کے نوٹوں کو نفرت سے دیکھا
"مجھے نہیں چاہئے یہ خیرات لے جاؤ اسے بھی اپنے ساتھ تم جیسے ماں باپ بیٹوں کو سنبھال نہیں سکتے تو پیدا ہی کیوں کرتے ہوں کیوں انہیں پیدا کرتے ہی نہیں مار ڈالتے"
اس نے اماں کے سامنے آ کر وہ پیسے ان کے ہاتھ پر رکھ دیے اس کے ایک ایک لفظ میں نفرت تھی دکھ تھا چہرے پر رات پڑنے والے درندگی کے نشان صاف واضح تھے مگر اس کا کوئی اماں نہیں تھا ایک ماں تھی جو کبھی کبھار آ کر اس کی ہتھیلی پر چند پیسے رکھ کر اس کے حالات سے نظریں چرا کر چلی جاتی
پہلی بار مار کھانے پر گھر گئی تو بھائی اور بھابھی نے اسے ہی غلط کہا مرد کی قربانیاں گنوائی اس کے سامنے اور ہاتھ سے پکڑ کر اسے اس کے شوہر کے گھر واپس لے آئے اس کے بعد اس کے شوہر اسلم کو کھولی چھوٹ مل گئی ہر دن بنا بات کے اسے مارتا پیٹتا اور وہ ہمیشہ اس کی مار برداشت کر جاتی
.......................
وہ دو بھائی بہن تھے اماں ابا نے بہت لاڈ پیار سے رکھا تھا انہیں ابا جتنے بھی اچھے ہوتے اماں پر ہاتھ اٹھانا اپنی مردانگی سمجھتے تھے جہالت کا دور تھا اماں مار کھا کر پھر سے اس کی خدمت میں لگ جاتی وقت گزرنے کے ساتھ ابا میاں کو جب  احساس ہوا کہ اب وہ زندگی کے اس موڑ پر آ گے ہیں جہاں پر بیوی کا سہارا ہی ان کا اصلی سہارا تھا ابا میاں نے اپنا رویہ بدل دیا مار البتہ کم کم کرنے لگے اب عادت تو اتنی جلدی جانے سے رہی زہریلے الفاظ سے اب بھی انہیں گھائل کرتے رہتے اماں کو عادت سی ہو گئی تھی یہ سب اپنے کی
انعم اور ولی کو اچھی تعلیم دی ولی ابا کی دکان سنبھالنے لگا ابا بھی اکثر اوقات بیمار رہنے لگے ایسے میں اسلم کا رشتہ آیا انعم کے لیے اپنے ماں باپ کا اکلوتا بیٹا تھا اماں ابا اس کے وفات پا چکے تھے اماں ابا کو اور کیا چاہیے تھا نا آگے نا پیچھے کوئی تھا چھٹ منگنی پھٹ بیاہ کر دیا
اللہ نے انعم کو حسن بھی بےشمار دے رکھا تھا یہ لمبے کمر کو چھوتے بال بڑی بڑی گھول گھول آنکھیں مناسب قد سفید رنگت جب ہنستی تو ڈمپل پڑتے
اسلم اس کی خوبصورتی دیکھ کر پہلے تو بہت خوش تھا پھر شادی کے کچھ دنوں بعد اسے انعم کی خوبصورتی سے جلن کونے لگی وہ اس پر شک کرنے لگا وہ کسی سے ہنس کر بات کر لیتی تو اسلم کو لگتا اس کا اس شخص کے ساتھ چکر چل رہا تھا
ایسے میں ایک دن اسلم کے دوست نے اس کی شادی کی دعوت کر دی
.........................
وہ ڈیرسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑی اپنے بال بنا رہی تھی
"انعم کتنا ٹائم لگے گا یار میرا دوست کی فیملی ہمارا انتظار کر رہی ہوں گئی اب تیار ہو بھی چکو "
اسلم نے باہر لاؤنچ میں بیٹھے ٹی وی دیکھتے ہوئے زور سے آواز لگائی
"بس تیار ہو گئی ہوں آتی ہوں یہ بال بنا دوں زرا "
انعم نے اجلت میں جواب دیا
اسلم سے انتظار نہیں ہو رہا تھا اس لیے روم میں چلا آیا سامنے اپنی پیاری سی بیوی پر نظر پڑتے ہی اس کے ماتھے پر شکن آ گئے
"یہ تم اتنا تیار کس خوشی میں ہوئی ہوں ہم دعوت میں جا رہے ہیں یا کسی تمہارے اپنے کی شادی میں "
وہ اس کے پیچھے آ کر غصّے سے ڈھارا
انعم سہم کر پیچھے مڑی
"میں نے تو صرف لیپ سٹک لگائی ہے آپ کہتے ہوں تو ابھی ہٹا دیتی ہوں"
اس نے ڈر کر جلدی سے ہونٹوں پر ہاتھ پھیرا
اسلم نے آگے بڑھ کر اسے کے ہاتھ ہٹاے اور اس کے ہونٹوں کو بےدردی سے اپنے ہاتھوں سے رگڑا
انعم نے درد سے آنکھیں بند کر دی
"ابھی کے ابھی جا کر اپنا منہ دھو آئندہ تمہیں ایسے تیار نہ دیکھوں"
اس نے اپنا ہاتھ ہٹا کر سخت لہجے میں کہا
انعم وہی کھڑی اسلم کا یہ روپ دیکھ رہی تھی
"سنا نہیں کیا بکواس کی ہے میں نے جاؤ جلدی منہ دھو کر آؤ "
اس نے اپنے آنسو اندار کو دھکیلتے ہوئے واشروم کو ڈور لگائی
جلدی جلدی منہ دھو کر باہر نکلی اسلم نے ایک سخت نظر اس پر ڈالی پھر اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کیا
.........................
"ماشاءاللہ ماشاءاللہ اسلم تم نے تو بہت بڑا ہاتھ مارا ہے بھابھی تو سادگی میں بھی قیامت دھار رہی ہے "
اسلم کے دوست امجد نے مزاق کیا کبھی ایسا ہی مذاق اسلم بھی اس کی بیوی کو دیکھ کر کر تا تھا مگر آج جب بات اپنی بیوی پر آئی تو اس کے تن بدن میں آگ لگ گئی
اس نے زبردستی مسکرا کر اپنے دوست کو دیکھا جو انعم کو ہی دیکھ رہا تھا
"بھابھی آپ میرے اس نالائق دوست کو کہا سے مل گئی "
اس نے انعم کو مخاطب کرتے ہوئے پوچا
انعم نے گربڑا کر اسلم کو دیکھا
جو اسے ہی سخت نظروں سے گھورنے رہا تھا
انعم نے امجد کو مسکرا کر دیکھا بولی کچھ بھی نہیں وہ اس وقت بہت کراکرا سا جواب دینا چاہتی تھی اس شخص کو مگر اسلم کے دوست ہونے کے ناطے خاموشی سے اس کی بکواس سہ گئی
بس اس کی وہی مسکراہٹ اسلم کو زہر لگی
وہ سارا وقت غائب دماغی کے ساتھ ہوٹل میں بیٹھا رہا امجد اور اس کی بیوی نے انہیں ہوٹل میں ہی دعوت دی تھی
کسی طرح کھانا کھا کر اسلم نے اجازت لی
امجد نے جاتے جاتے بھی انعم کی تعریف کرنا نہیں بھولا
....................
" کم ذات عورت تمہیں شرم نہیں آئی میرے دوست کے سامنے ہنس ہنس کر بات کرتے ہوئے "
اسلم نے گھر آتے ہی اسے بالوں سے پکڑ کر سامنے کیا اور زور سے اس کے منہ پر تھپڑ رسید کیا انعم اس حملے کے لیے تیار نہیں تھی لڑکارا کر پیچھے ہوئی
"مہ ... میں نے ...کیا ...کیا ہے ...اسلم مجھے کیوں مار رہے ہیں آپ "
انعم نے اپنے بال چھوڑوانے کی ناکام کوشش کی
"تم نے کیا کیا ہے مجھ سے پوچھ رہی ہے تم نے کیا کیا ہے ہنس ہنس کر اپنی اداؤں سے میرے دوست کو دیکھ کر رہی تھی اسے خوش کروا رہی تھی اور مجھ سے پوچھتی ہے تم نے کیا کیا ہے "
اسلم نے زور سے اس کے بال کھینچ کر اس کا منہ بےدردی سے اپنے ہاتھ میں پکڑ کر کہا
"میں نے کچھ نہیں کیا اسلم وہ آپ کا دوست ہی ایسا تھا میں نے تو جواب تک نہیں دیا کچھ نہیں کہا کیونکہ وہ آپ کا دوست تھا ....خدا کے لیے میرے بال چھوڑے"
اس نے درد سے بلبلا کر کہا
"وہ تیرا باپ تھا یا تمہارا بھائی جو تم ہنسی اس کے سامنے بول جواب دے "
وہ کیا جواب دیتی اسے تو خود سمجھ نہیں آرہا تھا وہ کیا کرے
اس کے بعد اسلم نے سامنے پڑا ویپر اٹھایا اور انعم پر شروع ہو گیا وہ چیغی چلائی خدا کے واسطے دیے اس درندے پر کسی چیز کا عصر نہیں ہوا
.................
صبح ہوتے ہی وہ اسلم کے جانے کے بعد اماں ابا کے گھر آ گئی اس کی حالات دیکھ کر اماں کا کلیجا منہ کو آیا جگہ جگہ پر زخم کے نشانات تھے ابا نے دیکھا تو آنکھ آئی ایک وقت تھا ایسے ہی بےدردی سے اس نے بھی تو اپنی بیوی کو مارا تھا
آج اللّٰہ نے اس کی بیٹی کو بھی وہی دن دیکھائے
ولی اور اس کی بیوی نے دیکھا تو الٹا اسی کو برا بھلا کہا
"تمہاری ضرورت کیا تھی اس کے دوست کو ہنس کر جواب دینے کی یہ تربیت تو نہیں کی تھی اماں ابا نے تمہاری کہ تم غیر مردوں کو ہنس کر جواب دوں '
ولی نے تلخی سے کہا
"بھائی خدا کی قسم میں نے ان کے دوست سےبات نہیں کی تھی "
انعم نے اپنی صفائی میں جواب دیا
"دیکھوں انعم کوئی بھی شوہر اتنا بے غیرت نہیں ہوتا کہ اپنی بیوی کو کسی مرد کے ساتھ ہنستے ہوئے دیکھ کر برداشت کر لے بہتری اسی میں ہے چپ چاپ واپس چلی جاؤ لوگوں کو پتا چلا تو تمہیں ہی برا کہے گئے اور ہمارے ساتھ ہنسے گئے"
بھابھی نے آرام سے سمجھایا اس کے لہجے میں چھپی تلخی کو انعم اچھے سے سمجھ گئی
"انعم تمہاری بھابھی ٹھیک کہ رہی ہے ایسے ہماری بہت بدنامی ہو گئی تمہیں ایسے نہیں انا چاہیے تھا شاباش اٹھو میں تمہیں تمہارے گھر چھوڑ آؤ "
بھائی نے اپنی بیوی کی بات پر سر ہلا کر کہا
اماں ابا نے بھی نظریں چرا لی انعم کے لاکھ انکار کر بھی بھائی بھائی اسے چھوڑ آئے
اور اسی دن سے اسلم کے دل سے ہر خوف اور ڈر نکل گیا اب وہ بلا وجہ ہی انعم پر ہاتھ اٹھانے لگ گیا تھا
میں نے تم سے کہا بھی تھا میرے سفید کپڑے استری کر دینا تم نے یہ نیلے والے کیوں پریس کیے "
وہ غصّے سے چلاتا ہوا کچن میں داخل ہوا
"آپ نے کہا تھا نیلے والے کر دینا "
وہ منمونائی
"اچھا تو تم یہ کہنا چاہتی ہوں میں جھوٹ بول رہا ہوں ہاں بولو جواب دو"
اس نے آگے بڑھ کر اسے بالوں سے پکڑ کر اپنی طرف کھینچا
وہ درد سے چلا اٹھی
"خدا کا واسطہ ہے مجھ پر رحم کرے میں انسان ہوں کوئی بھیڑ بکری نہیں ہوں مجھے بھی تکلیف ہوتی ہے "
آج پانچ ماہ میں پہلی بار انعم نے اپنے حق کے لیے آواز اٹھائی تھی
"اچھا تمہیں تکلیف ہوتی ہے ابھی بتاتا ہوں تمہیں مجھ سے زبان درازی کرتی ہے تو مجھے آگے سے جواب دیتی ہے "
اسلم نے اسے بالوں سے کھینچ کر باہر کو کھسیٹھا لے آیا پھر جھٹکے سے زمین پر پھینکا
وہ منہ کے بل زمین پر گری اس کا دایاں ہاتھ بہت بری طرح مڑا تھا شاید ٹوٹ گیا تھا
وہ سخت تکلیف سے چلا رہی تھی مگر وہاں پرواہ کیسے تھی
اسلم نے آگے بڑھ کر لاتوں سے مارنا شروع کر دیا
ہاتھ کا درد سارے دردوں پر بھاری تھا انعم کو اپنی جان نکلتی محسوس ہوئی
اسلم مار پیٹ کر جب تھک گیا تو بنا ناشتہ کیے وہی نیلا سوٹ پہن کر تیار ہو کر چلا گیا انعم وہی بیٹھی اپنے دردوں پر آنسو بھاتی رہ گئی
اس نے بہت مشکل سے خود کو گھسیٹ کر اٹھایا دائیں ہاتھ پر زور پڑھنے کی وجہ سے اس کے ہاتھ میں درد مزید تیز ہوا
اس نے درد سے اپنا نچلا ہونٹ کاٹا
"اللّٰہ اللّٰہ جی میری مدد کرے میں مر جاؤ گئی یہاں مجھے سیدھا راستہ دیکھا میرے مولا تو تو غفور الرحیم ہے سارے جہانوں کا بادشاہ ستر ماؤں سے زیادہ پیار کرنے والا میرے حال پر رحم کر میرے مولا میں تیری بہت گنہگار بندی ہوں مجھے اس عذاب سے رہائی عطا کر میرے مالک "
وہ تکلیف سے اوپر نظر اٹھا کر زور زور سے روئی
ہاتھ کے درد نے اسے پاگل کر دیا تھا خود کو زبردستی اٹھایا اسے اب خود ہی ہسپتال جانا تھا گھر رہتی تو اتنی تکلیف سے مار جاتی
..................
ابھی دو گلیاں ہی چلی تھی اس کا سر چکرانے لگا رات سے اس نے کچھ نہیں کھایا تھا صبح ناشتے کے وقت کھانے کی جگہ تازہ تازہ مار کھا چکی تھی اس کے نصیب میں بلا وجہ کے مار لکھی گئی تھی
اپنے خیالوں میں گم تھی کے سامنے سے آتے ہوئے کار سے تکرا گئی سامنے والے نے بہت مشکل سے گاڑی کو روکا
پہلے ہی سر بھاری تھا ایک زارا سے ٹکر پر وہ اپنے ہوش گنوا بیٹھی
جب ہوش میں آئی تو خود کو ہاسپٹل کے بیڈ پر لیٹے پایا
"تھینکس گاڈ آپ کو ہوش تو ایا میں کب سے آپ کے ہوش میں آنے کا انتظار کر رہا تھا "
سامنے کرسی پر بیٹھے شخص نے اخبار فولڈ کر کے ٹیبل پر رکھ کر اسے مخاطب کیا
"آپ کون ہے میں میں یہاں کیسے آئی"
اس نے اٹھنے کی کوشش کی مگر ہاتھ پر نظر پڑتے ہی وہی روک گئی اس کا ہاتھ سفید پلستر میں قید تھا
وہ اس سب میں اپنے ہاتھ کا درد فراموش کر بیٹھی تھی حرکت کرتے ہی درد جاگ اٹھا
تکلیف کے آثار اس کے چہرے پر صاف دکھائی دے رہے تھے
سامنے کھڑے شخص نے ہمدردی سے اسے دیکھا
"صبح آپ میری ہی گاڑی کے ٹکرا گئی تھی آپ کو یہاں ہسپتال لے آیا شاید آپ پہلے سے زحمی تھی چونکہ ڈاکٹر نے بتایا ہے کہ آپ کے جسم پر زخم کے نشانات آکسیڈنٹ کی وجہ سے نہیں ہے "
اس نے ساری تفصیل سے انعم کو آگاہ کیا
"میرا نام عیسیٰ ہے اگر آپ مناسب سمجھیں تو اپنے گھر کا نمبر دے دے میں فون کر کے انہیں آپ کے زخمی ہونے کی اطلاع دے سکوں"
"میں خود چلی جاؤ گی آپ مجھے یہ بتائیں ٹائم کیا ہو رہا ہے "
انعم نے آرام سے اٹھنے کی کوشش کی
"ابھی تو رات کے آٹھ بچ رہے ہیں "
"رات ہو گئی اور مجھے پتا ہی نہیں چلا "
انعم ایک دم گھبرا کر اٹھی اسے اپنے سارے درد بھول گئے یاد تھا تو یہ ہی کے وہ صبح سے گھر سے نکلی تھی
"کاش میں گھر سے نکلتی ہی نا کاش اللّٰہ جی "
اس نے روتے ہوئے خود سے کہا سامنے کھڑے عیسیٰ نے حیرت سے اسے دیکھا
"دیکھیں آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے پلیز آپ آرام سے بیٹھ جائے مجھے فون نمبر دے میں آپ کے گھر اطلاع کر دوں"
اس نے آرام سے اسے سمجھایا
پر انعم نے سنے کی کوشش ہی نہیں کی اسے گھر جانے کی جلدی تھی وہ اٹھ کر دورازے تک آئی
عیسیٰ کو بھی اس کے پیچھے جانا پڑا
وہ آگے آگے بھاگ رہی تھی عیسیٰ نے زبردستی اسے روک کر گاڑی میں بیٹھیا
"میم آپ سمجھ کیوں نہیں اسی حالات میں آپ کاچلنا ٹھیک نہیں ہے آپ کو آرام کی ضرورت ہے چلے میں چھوڑ آتا ہوں آپ کو "
انعم نے خوفزدہ نظروں سے اسے دیکھا
عیسیٰ کو اس لڑکی کی حالات پر ترس آیا
.....................
بس یہی روک کے
انعم نے گھر کے سامنے گاڑی روکنے کا کہا
عیسیٰ نے اتر کا اس کی طرف کا دروازا کھولا وہ ایک قدم ہی باہر نکال پائی تھی کہ گھر کا دروازہ کھولا
سامنے کا منظر دیکھ کر اسلم کے آنکھوں میں خون اتار آیا
"بد کردار عورت میرے جانے کے بعد تو اپنے یاروں سے ملنے جاتی ہے مجھے دھوکہ دیتی رہی ہے تو "
اسلم نے آگے بڑھ کر اس کے پلستر والے ہاتھ سے پکڑ کر کھینچا
وہ ایک دم درد سے چلا اٹھی
عیسیٰ نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے روکنے کی کوشش کی
"یہ کیا کر رہے ہیں آپ !آپ کو نظر نہیں آ رہا میم کو چھوٹ لگی ہے "
عیسیٰ نے غصے سے اس کا ہاتھ چھٹکا
"اوئے تم پیچھے ہٹو میری بیوی کے ساتھ رنگ رنگیاں مناتے ہوئے تمہیں زرا شرم نہیں آئی "
اسلم نے آگے بڑھ کر اسے گریبان سے پکڑا
"اسلم چھوڑیں اسے خدا کا واسطہ ہے یہاں کھڑے ہو کر اپنا اور میرا تماشا مت بنائیں "
انعم نے باہر نکل کر ایک ہاتھ سے اسلم کا ہاتھ پکڑا
اسلم نے بےدردی سے اس کا ہاتھ پیچھے کیا
اس پاس کے لوگ بھی شور کا آواز سن کر گھروں سے باہر نکل آئے
عیسیٰ بچارہ حیران کھڑا سب دیکھ رہا تھا سے تو سمجھ ہی نہیں آیا کہ یہ اس کے ساتھ ہو کیا گیا وہ تو ہمدردی میں اسے گھر تک چھوڑنے آیا تھا یہاں کی صورتحال دیکھ کر بوکھلا ہی گیا
"تجھے تو میں بعد میں دیکھتا ہوں بدذات عورت پہلے تیرے عاشق سے تو نیمٹ لوں"
اسلم نے نفرت سے اسے لات ماری
عیسیٰ کی ہمت یہ دیکھ کر جواب دے گئی اس نے اپنا گریبان اس کے ہاتھوں سے چھڑایا دو تین موھکے اس کے پیٹ میں مارے
اس پاس کھڑے لوگ تماشا دیکھنے میں مگن تھے
اسلم نے آگے بڑھ کر انعم کو بالوں سے پکڑ کر اس کے منہ پر تھپڑ مارا
"یہ دن دیکھنے کے لیے میں نے تمہیں بیاہ کر اپنے گھر لایا تھا کہ تیرے عاشقوں سے یہاں کھڑا مار کھاؤ "
وہ غصّے سے بےقابو ہو رہا تھا
محلے کے جاہل لوگ تھے
ایک آدمی بولا
"بھائی صاحب میری سنو تو ابھی تین لفظ بول کر فارغ کروں اسے گندگی کے ڈھیر کو اپنے گھر رکھ کر کیوں اپنے آنے والی نسلوں کو برباد کرنا چاہتے ہوں "
عیسیٰ نے پیچھے مڑ کر نفرت سے لوگوں کے ہجوم کو دیکھا
اسلم غصے میں تھا سب سے غیرت دلانے رہے تھے
اسلم نے او دیکھا نہ تاؤ فوراً سے انعم کو طلاق دے بیٹھا
"میں تمہیں طلاق دیتا ہوں طلاق دیتا ہوں طلاق دیتا ہوں "
اسلم نے اسے ایک جھٹکے سے پیچھے کی طرف دھکا دیا وہ لڑکارا کر پیچھے گاڑی سے جا لگی
"آپ سب دیکھ کیا رہے ہوں اس شخص کو اسے جانے مت دینا پکڑوں ماروں ایسے "
اسلم نے محلے والوں کی طرف دیکھ کر جوش میں کہا
اس سے پہلے کے کوئی اس کی طرف بڑھتا عیسیٰ نے اپنی جیب نے پستول نکال کر اسلم کی طرف پکڑی
"بس بہت ہو چکا تماشا اب کے کوئی آگے بڑھا تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہو گا "
عیسیٰ نے نظریں گھوما کر سب کو خبردار کیا سب لوگ اپنے گھروں کی طرف کسکے
اسلم بھی سب بھول بھال کر گھر میں گھس گیا
انعم اب بھی اسی حالات میں کھڑی تھی
عیسیٰ کو اس پر جی بھر کر ترس آیا
آگے بڑھ کر اسے گاڑی میں بیٹھیا
"چلے آپ کو آپکے ماں باپ کے گھر چھوڑ آؤ یہاں رہنا اب آپ کے لیے مناسب نہیں ہے
انعم ہوش میں ہوتی تو کچھ سمجھتی
اس نے گاڑی کی سیٹ سے سر ٹکایا اور اپنی آنکھیں موند لی
وہ تو اس وقت کچھ بھی سوچنے سمجھنے کی پوزیشن میں نہیں تھی
عیسیٰ نے ایک نظر اس کے چہرے کو دیکھا پھر تاسف سے سر ہلا کر گاڑی سٹارٹ کی
اپنا منہ کالا کر کے اب یہاں کیا لینے آئی ہوں تم "
ولی اس کو اندار آتے دیکھ کر چلایا
اس کے یہاں پہنچنے سے پہلے ہی اسلم انہیں فون کر کے ساری بات اپنے حساب سے بتا دی تھی
بھابھی تو سن کر شاک میں چلی گئی ولی کے جی بھر کے کان بھرے اور ولی صاحب اپنی بیوی کے اشاروں پر چلنے والے غلام تھے جو بیوی نے کہا اس پر آمین کہ دیا
انعم کے پاؤں وہی روک گئے عیسیٰ جو دروازے سے ہی واپس لوٹ کر جانے والا تھا وہی روک گیا
"تو گویا اس لڑکی کی قسمت میں ابھی اور زلت برداشت کرنی لکھی گئی تھی "
اس نے افسوس سے سوچا
"بھائی... آپ یہ کیا کہ رہے ہیں.... میں ایسی نہیں ہو ... یہ دیکھ رہے ہیں میرے ہاتھوں پر زخم میرے ہاتھ پر پلیستر یہ اس انسان کا دیا ہوا ہے سب میں تو آپ کی بہن ہو آپ کو میرے بجائے اس جھوٹے شخص پر کسے یقین ہو سکتا ہے "
اس نے بےیقنی سے اپنے ماں جائے کو دیکھا
ولی کی آنکھوں میں شک تھا بےیقنی تھی
"اچھا تو کہاں تھی تم پورا دن رات کے اندھیرے میں تم اس شہر کے ساتھ کہا سے آئی تھی "
بھابھی نے آگے بڑھ کر اس کی آنکھوں میں دیکھ کر طنز لہجے میں کہا
عیسیٰ نے آگے آ کر ان سب کو دیکھا پھر گہری سانس لے کر اس کے بھائی کی طرف بڑھا
"دیکھیے آپ سب کو غلط فہمی ہوئی ہے اگر آپ کو یقین نہیں ہے تو میں آپ کو ہسپتال لے کر جاتا ہو وہاں جا کر آپ کو ساری حقیقت خود پتا چل جائے گا آپ کی بہن بےقصور ہے وہ شخص آپ کی بہن کے قابل ہی نہیں تھا اتنے بےدردی سے اس نے آپ کی بہن کو مارا ہے اب کے سامنے"
عیسیٰ نے نرمی سے ولی کو سمجھنے کی کوشش کی
"ہاں تو بھائی میرے کون سا شوہر اپنی بیوی کو غیر مرد کے ساتھ دیکھ کر برداشت کر سکتا ہے اسلم بھائی نے جو کیا اس کی جگہ کوئی بھی غیرت مند شخص ہوتا ایسا ہی کرتا "
بھابھی نے وہی سے ہاتھ نچا نچا کر تیز لہجے میں کہا
عیسیٰ نے ایک سخت نظر اس فساد کی جڑ کو دیکھا
"آنٹی انکل پلیز آپ میری بات سنے میں جو کہ رہا ہوں وہ سچ ہے آپ کی بیٹی بےقصور ہے میرا یقین کرے "
عیسیٰ نے سامنے کھڑے اس کے اماں ابا کو مخاطب کر کے کہا
انعم خاموش تماشائی بنی سب سن اور دیکھ رہی تھی
"ٹھیک ہے آپ کہتے ہو تو ہم مان لیتے ہیں انعم بےقصور ہے مگر بھائی میرے کون یقین کرے گا اس کی باتوں کا کون سچ سمجھے گا میری اپنے گھر میں بیٹی ہے اس پر کتنا برا عصر پڑے گا "
بھابھی نے پھر سے اپنی زبان کے جوہر دکھائے
انعم نے زخمی نظروں سے بھابھی کو دیکھا ایک عورت دوسرے عورت کا درد نہیں سمجھ رہی تھی
"آپ سب اب کیا چاہتے ہیں "
عیسیٰ نے بہت مشکل سے اپنے غصے کو کنٹرول کیا نہیں تو اس کا دل کر رہا تھا وہ سامنے کھڑے ہر بندے کو گولی مار ڈالے
"اس کو اس کے شوہر کے گھر چھوڑ آؤ اسلم کا فون آیا تھا اس نے غصے میں ایک بار طلاق دی ہے تلافی ممکن ہے "
بھابھی نے اپنے محصوص جاہلانہ انداز میں ہاتھ ہلا ہلا کر جواب دیا
"آپ ہوش میں تو ہے اس شخص نے بھری محفل میں آپ کی نند کو طلاق دی ہے ایک بار نہیں تین بار اور آپ کہ رہی ہے انہیں واپس اس نامحرم کے پاس لے جاؤ آپ کا کوئی دین ایمان بھی کیا آپ جود ایک عورت ہو کر دوسری عورت کو اتنا گھٹیا  مشورہ دے رہی ہے "
عیسیٰ نے غصے سے چلا کر جواب دیا
اس کا دل کر رہا تھا سامنے کھڑی اس عورت کو پاگل کتوں کے سامنے ڈال دے جو اتنی غلط بات کر رہی تھی
"تم ہوتے کون ہوں ہمارے معاملات میں مداخلت کرنے والے "
ولی نے اس کی طرف دیکھ کر طنزیہ انداز میں کہا
"میں کون ہوں میں ایک مسلمان ہو ایک اللّٰہ کو ماننے والا کسی مظلوم پر ظلم ہوتے نہیں برداشت کر سکتا کل کو اللّٰہ کے سامنے بھی پیش ہونا ہے مجھے آپ کی طرح جھوٹا نہیں ہو میں "
عیسیٰ نے چبا چبا کر ایک لفظ پر زور دیا
"بس کر جاؤ بھائی اتنے ہی کوئی نیک ہوتے تو میری نند کے ساتھ رنگ رلیاں نہ مانتے پکڑے گئے ہوتے بہتری ایسی میں ہے اس کو اس کے اصلی گھر میں واپس چھوڑ آؤ اور ہو سکے تو اس کے شوہر سے معافی بھی مانگ لینا یہ تو اس شخص کا اتنا بڑا دل ہے جو اس نے سب جان کر بھاگ اس بدکردار کو اپنے گھر میں جگہ دینے کا فیصلہ کیا ہے "
بھابھی نے آگے بڑھ کر انعم کو ہاتھ سے تھام کر گھر کے داخلی دروازے کی طرف بڑھی
انعم نے بےبس کھڑے اپنے ماں باپ کو دیکھا
عیسیٰ نے کچھ سوچ کر باہر کے طرف قدم بڑھائے
"ٹھیک ہے میں آپ کی نند کو اس کے شوہر کے گھر چھوڑ آتا ہوں اور ساتھ ہی معافی بھی مانگ لوں گا واقعی غلطی میری تھی بدکردار آپ کی بہن ہی تھی وہ شخص تو بہت اعظم ہے "
اسپاٹ لہجے میں کہتا وہ آگے بڑھا بھابھی نے انعم کو بھی اس کے پیچھے روانہ کیا
"بھابھی بھابی اماں ابا خدا کا واسطہ ہے میرے ساتھ یہ ظلم مت کریں "
انعم نے وہی سے زور سے چلا کر کہا
"یہ سب تمہیں پہلے سوچنا چاہیے تھا تمہارے لیے اس گھر میں کوئی جگہ نہیں ہے"
بھابھی نے شفاقی سے تلخ لہجے میں جواب دیا
"میم پلیز چلے میرے پاس زیادہ وقت نہیں ہے مجھے اور بھی کام ہے کرنے کو "
عیسیٰ نے بت بنی انعم کو مخاطب کیا
اس نے ایک زحمی نظر اپنے خون کے رشتوں پر ڈالی پھر مارے قدم اٹھاتی آگے بڑھنے لگی
......................
چند سال بعد....
"انعم جلدی بھی کریں یار اور کتنا انتظار کروائیں گی آپ میں اور ہمارا بیٹا آپ کا انتظار کر کر آدھے ہو گئے ہیں"
عیسیٰ کی شوخ سی آواز انعم کے جانور سے ٹکرائی اس نے مسکرا کے آئنے میں اپنے آپ کو دیکھا کچھ سالوں میں کتنا کچھ بدل گیا تھا وہ آج کیا سے کیا بن گئی تھی
ماضی کو یاد کر کے بےاحتیار اس کے آنکھوں سے آنسو نکل پڑے
"یہ ہماری پیاری سی بیوی اپنے ان خوبصورت آنکھوں پر کیوں ظلم کر رہی ہے "
عیسیٰ نے اس کے چہرے کو آئنے میں دیکھ کر سنجیدگی سے کہا
انعم پیچھے مڑی چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی عیسیٰ کے سامنے جا کر کھڑی ہو گئی
اس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی اپنے محبوب شوہر کو دیکھنے کے بعد اطمینان تھا سکون تھا
"میں دنیا کی سب سے خوش قسمت لڑکی ہو جیسے آپ جیسا جیون ساتھی ملا ہے میں اللّٰہ کا جتنا شکر ادا کروں کم ہے "
اس نے پیار سے عیسیٰ کے گالوں کو چھو کر کہا
عیسیٰ دھیمے سے مسکرا دیا
"اور میں بھی بہت خوش قسمت ہوں جیسے آپ جیسی نیک اور اچھی بیوی ملی ہے نا جانے آپ کی صورت میں مجھے اللّٰہ نے میرے کس نیکی کا اجر عطا کیا ہے "
"اب چلے لیٹ آپ کر رہی ہے مما سے ڈانٹ مجھے پڑنی ہے اپنی لاڈلی بہو کو تو وہ کچھ کہتی ہی نہیں ہے سارا غصہ مجھ بچارے پر ہی اترتا ہے آپ دونوں کا "
عیسیٰ نے شرارت سے اس کی ناک دبا کر آہیں بھری
"مما پاپا آپ کی باتیں حتم ہو گئی ہوں تو چلے وہاں دادو ہمارا انتظار کر رہی ہوں گئی"
سالار نے اندار جھانک کر معصوم سی شکل بنائی
"بیٹا میں تو کب کا تیار ہو آپ کی مما ہی دیر کر رہی ہیں "
"ہاں ہاں میں دیر کر رہی ہوں کہا بھی آپ سے سب ایسے ہی چلتے ہیں دعوت ہی تو ہے اتنا تیار ہونے کی کیا ضرورت ہے مگر نہیں آپ ہی کا حکم تھا اچھے سے تیار ہو جاؤ اب تیار ہونے میں وقت تو لگتا ہی ہے نا"
انعم نے جلدی جلدی بالوں کو باندھا
"آپ جانتی ہے مجھے آپ ہر دوں میں اچھی لگتی ہوں سادگی میں بھی آپ میرے دل پر بجلیاں گراتی ہے تیار ہو کر تو قیامت ہی لگتی ہے "
عیسیٰ نے پیار سے اس کے آئنے میں ابھرنے والے عکس کو دیکھا
"ہاہاہا اب بھی ناں "
انعم نے شرما کر آنکھیں چرا لی
سالار اپنا پیغام دے کر واپس ٹی وی لاؤنچ میں چلا گیا جہاں اس کا فیورٹ کارٹون لگا ہوا تھا
" انعم اب جیسی بھی ہے مجھے اچھی لگتی ہے اللّٰہ نے آپ کو بہت فرصت میں بنایا ہے اس کا یہ مطلب نہیں آپ خود پر ہر بناؤ سنگھار حرام کر دے یہ سب آپ عورتوں کے لئے ہی تو ہے اس کا فایدہ اٹھایا کریں میں اپنی بیوی کو سب سے منفرد دیکھنا چاہتا ہوں میں چاہتا ہوں میں جب آپ کے ساتھ چلو تو لوگ ہمیں دیکھ کر کہے کہ اللّٰہ نے عیسیٰ کو بہت خوبصورت تحفے سے نوازا ہے آپ کا وجود میرے لیے فحر کا بائث ہے مجھے آپ کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنا اچھا لگتا ہے اللّٰہ نے مرد کو عورت کا نگہبان بنایا ہے ان کا مالک بنایا ہے ان کی خوشی کا خیال رکھنا ہم مردوں پر لازم ہے "
عیسیٰ نے اپنی خوبصورت آواز سے انعم کے کانوں میں سرگوشی کی
انعم نے آگے بڑھ کر عیسیٰ کا ہاتھ تھام کر اپنی آنکھوں سے لگایا یہ اس کا محبت کرنے کا انداز تھا اسے جب بھی عیسیٰ پر پیار آتا وہ ایسے ہی اظہار کرتی تھی
عیسیٰ نے اس کا ہاتھ تھام کر اسے اپنے ساتھ لگایا
"عیسیٰ انعم کے بنا نامکمل ہے"
"انعم بھی اپنے عیسیٰ کے بغیر ادھوری ہے "
.......................
یہ سب اتنا آسان نہیں تھا سب کچھ اتنی آسانی سے نہیں ہو سکا تھا اس دن کے لیے انعم نے بہت سی قربانیاں دی تھی اپنا سب کچھ چھوڑ کر اس زندگی کا انتخاب کیا تھا
عیسیٰ انعم کو لے کر پولیس سٹیشن گیا تھا
انعم سے بیان لیا گیا تھا
عدالتوں میں پیش ہونا پڑا تھا
اسلم کو اس کے کیے کی سزا دینی تھی تاکہ آئندہ کوئی اسلم حوا کی بیٹی پر ظلم نہیں کر سکے 😏
اسلم کو سزا مل گئی تھی اس نے اپنے جرم کا اعتراف کیا تھا انعم بےگناہ ثابت ہو گئی تھی
انعم کے گھر والوں نے اسے اپنے ساتھ لے جانا چاہا تو انعم نے انکار کر دیا تھا وہ دارالعلوم میں رہنا چاہتی تھی اپنے گھر والوں کا ظالمانہ سلوک وہ دیکھ ہی چکی تھی
اپنے اتنے ظالم بھی ہوتے ہیں اس کا اندازہ انعم کو پیچھلے سات ماہ میں ہو گیا تھا
اس وقت اس کا ہاتھ تھام کر اسے دوبارہ سے زندگی کی طرف لانے والا مرد عیسیٰ تھا اس نے اپنے پیار سے محبت سے توجہ سے انعم کو واپس جینا سکھایا دیا تھا
اس وقت اس کی ساس نے ایک پارٹی منعقد کی تھی جہاں بہت سی بےسہارا عورتوں کو ان کے حقوق دیلایے جانے تھے
انعم نے اس تنظیم میں بھر چڑ کر حصہ لیا تھا
.... ...................
"میں انعم عیسیٰ ! وہ عورت جیسے اس کے اپنوں نے ہی بےسہارا کر دیا تھا جس کے اپنے ہی اس کے دشمن بن گئے تھے آج آپ سب کو میں اپنی کہانی بتانے جا رہی ہوں وہ کہانی جو آج کل اکثر گھروں کی کہانی بنتی جا رہی ہیں "
وہ اس وقت بےسہارا عورتوں کے سامنے کھڑی تھی آج وہ ان عورتوں کے پاس آئی تھی جن کے سارے رشتے موجود ہوتے ہوئے بھی وہ بےسہارا تھی
" میرا باپ میری ماں کو مارتا پیٹتا تھا میری ماں یہ سب بہت خاموشی سے برداشت کرتی رہی کیونکہ ان کے پاس واپسی کا کوئی راستہ نہیں تھا اماں کو یقین سا تھا ایک دن ان کا صبر رنگ لے ایے گا ان کا شوہر ان کا ہو جائے گا انہوں مارنا چھوڑ دے گا
ہاں ایسا ہوا جانتے ہیں کب جب میرے باپ کے پاس کوئی راستہ نہیں بچا تھا جب جوانی حتم ہو گئی تھی بڑھاپے نے ان کو کمزور کر دلا تھا تب انہیں میری ماں کی قربانیاں نظر آئی انہیں احساس ہوا میری ماں بہت نیک خاتون ہے
سب ٹھیک ہو گیا میری ماں خوش تھی ان کا شوہر انہیں مل گیا تھا وہ معصوم عورت جان بوجھ کر خود کو تسلی دیتی رہی کہ ان کو ان کے صبر کا پھل مل گیا حالانکہ اس عمر میں ان کی ساری خواہشات ویسے بھی مر چکی تھی
حیر پھر شروع ہوئی میری کہانی میری شادی ہوئی شوہر نے شادی کے کچھ دنوں بعد مارا پیٹا میں گھر واپس چلی گئی بھائی بھابھی نے کہا لوگ کیا کہے گے مرد تو مارتے ہی ہے بدلے میں کما کر بھی تو وہی دیتے ہیں نا
اماں نے سمجھایا تمہارے ابا نے بھی تو مجھے بہت مارا دیکھوں آج سب ٹھیک ہو گیا تم بھی صبر کروں سب ٹھیک ہو جائے گا مرد ہے مار سکتا ہے پیار بھی تو کرتا ہے تم سے
مجھے واپس جانا پڑا نا جاتی تو کہاں جاتی اپنے ماں باپ بھائی ہی اپنے نہیں رہے تھے
مار پیٹ کا سلسلہ چلتا رہا
ایک دن اتنا مارا کے ہاتھ تین جگہوں سے ٹوٹ گیا باہر نکلی درد برداشت سے باہر تھا نہ ایکسیڈنٹ ہو گیا رات گئے ہوش آیا گھر آئی شوہر نے مارا غیر مرد ساتھ تھا نا مار تو بنتی تھی ایک غیرمند شوہر کیسے برداشت کر سکتا تھا طلاق دے دی بھائی بھابھی نے بھی واپس بیجا غصے میں دی گئی تھی طلاق بلا غصے میں دی گئی طلاق بھی طلاق ہوتی ہے کیا ..... طلاق تو شاید لوگ مزاق میں دیا کرتے ہیں
اج کے دور میں ہر گھر میں مرد روز بیوی کو طلاق دیتا رہتا ہے پھر مکر جاتا ہے غصے میں بھی طلاق ہوتی ہے بلا
وہ لڑکیاں ان مردوں کے ساتھ رہنے پر مجبور ہوتی ہے مرد نے انکار کر دیا طلاق دی ہی نہیں عورت کی بات کا کیا یقین عورت سچ بولتی ہی کب ہے مرد سچا ہے ناں "
انعم نے اپنے آنسوں کو صاف کیا پاس پڑا پانی ایک ہی سانس میں پی لیا ماضی کو یاد کر کے اس کا دل پھٹ رہا تھا اس نے گہری سانس لی پھر سے اپنی بات جاری کی
"پھر اللّٰہ نے میری سن لی میری زندگی میں عیسیٰ آیا وہ مرد جس کے ساتھ بقول میرا سابقہ شوہر اور میرے گھر والوں کے میں رنگ ریلیاں مناتی رہی تھی میرے زخم انہوں نظر نہیں آئے میرا رات دیر سے آنا انہیں نظر آ گیا
پولیس سٹیشن گئی اپنے سابقہ شوہر کے خلاف مقدمہ درج کیا عدالت گئی بار بار گئی آخر میں جیت میری ہوئی اس درندے کو سزا ہو گئی
عیسیٰ نے اپنا نام دیا مقام دیا اور آج میں اس مقام پر پہنچ گئی
میری ماں ایک بار راستے میں ملی مجھے ان کی حالت دیکھ کر مجھے اپنے آپ کر قابو نہیں ہو پایا بھاگ کر ان کے گلے لگ گئی
معلوم ہوا بھائی بھابھی علیحدہ ہو گئے بھائی بھابھی کو ایک بار غصے میں طلاق بھی دے چکے چونکہ غصّے میں تھا اس لیے طلاق تو ہوئی ہی نہیں نہ وہ آج بھی ساتھ ہے
اماں ابا بے بس بنے تماشا دیکھتے رہے کیا بولتے جب بولنے کا وقت تھا تب نہیں بولے اب کیا خاک بولتے
ان سب میں قصور پتا ہے کس کا ہے ہمارے ماں باپ کا ان کی تربیت کا
بیٹوں کی ہر ناجائز خواہشات پوری کرتے وقت وہ بھول جاتے ہیں کہ وہ اپنے بیٹے کو اپنے ہاتھوں سے تباہ کر رہے ہیں
مرد تو عیسیٰ بھی ہے مرد میرا بھائی بھی ہیں مرد اسلم بھی تھا مرد میرا باپ بھی ہے مرد میرا اور بھی ہے
فرق صرف تربیت کا ہے عیسیٰ کو بچپن سے سکھایا گیا تھا مرد عورت پر ہاتھ نہیں اٹھاتے مرد عورت کے نگہبان ہوتے ہیں تخافظ دیتے ہیں
مرد میرا بھائی بھی تھا جب جب مجھے مارتا اماں کہتی بڑا بھائی ہے غلط بات پر مارتا ہے تم غلط کام ہی مت کیا کروں وہ تو مرد ہے گرم خون ہے غیرت مند ہے غلطی پر تو مارے گا ہی
عیسیٰ کو سب کچھ اچھا نہیں لگتا جو برا لگتا ہے پیار سے محبت سے اس کام سے منا کر دیتے ہیں تاکہ مجھے بڑا نہ لگے
اسلم تو مجھے کبھی بتاتا بھی نہیں تھا بس مجھے سمجھانے کے لیے ہاتھ اٹھا لیتا غیرت مند تھا نا
قصور مردوں کا بھی ہے وہ انصاف ہی نہیں کر پاتے بیوی اور ماں میں
میں یہ نہیں کہتی سارے مرد بڑے ہوتے ہیں عورتیں بھی خراب ہوتی ہے عورتیں بھی غلط ہوتی ہے
مرد سارے برے نہیں ہوتے بری ہوتی ہے تو ان کی سوچ "
عیسیٰ نے آگے بڑھ کر انعم کو کندھے سے تھام کر خود سے لگایا وہ اپنی بیوی کی آنکھوں میں مزید آنسو برداشت نہیں کر سکتا تھا۔
عیسیٰ اس کے ماضی کو نہیں بدل سکتا تھا وہ سب اس کی ماضی کا ایک تلخ حقیقت تھی مگر عیسی نے اس کے حال کو بہت خوبصورت بنا دیا تھا۔
انعم اللّٰہ کا جتنا شکر ادا کرتی کم تھا۔
اللّٰہ نے ایک برے شحص کے بدلے ایک نیک اور سچا محبت کرنے والا شخص عطا کیا تھا ۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ختم شد

Comments