قدرت کے فیصلے از مہر
زوبیہ
پارٹ 2
میں بھی آپکی طرح مایوس، ایسے ہی زندگی سے دور بھاگتا
تھا، پھر میں خود ہی خود کا سہارا بنا، اور خود کو سنبھالنے میں کامیاب ہو گیا،
اور پھر آپ سے بات ہوئی، آپ کے بارے میں پتا چلا تو سوچ لیا تھا، اس لڑکی کا سہارا
میں بنوں گا، اسے زندگی کی طرف میں لے کر آؤں گا، اور دیکھو میں دوسری بار بھی
کامیاب ٹھہرا، حسیم نے ہنستے ہوۓ
کہا
" آپ بہت اچھے ہیں حسیم، ابرش نے بھیگی
ہوئی آواز میں کہا،
"جانتا ہوں، آپ بہت بار یہ بات کہہ چکی
ہیں، کوئی اور بات کریں، حسیم نے پھر مسکراتے ہوۓ
کہا،
" اچھا چلیں میں پہلی اور دوسری والی کے
بارے میں جاننا چاہتی ہوں، بتائیں گے،؟
"ہاں ضرور، پہلے اپنے آنسو صاف کریں،
شاباش، اور آج کے بعد اس نالائق کے لئے میں کبھی آپ کو روتا ہوا نہ دیکھوں، اوکے،
" ہاں جی اوکے، ابرش نے جلدی سے آنسو
صاف کرتے ہوۓ
کہا، جیسے حسیم سامنے بیٹھا کہہ رہا ہو،
"گڈ ، تو سنیں ، ہم دونوں فرسٹ ائیر کے
سٹوڈنٹ تھے، راستے میں آتے جاتے ملاقات ہو جاتی تو بات بھی ہو جاتی تھی، ہم الگ
الگ کالج جاتے تھے، تو بس راستے میں ہی دو چار باتیں ہو جاتی تھیں، سب
سے بڑی باجی کو پتا نہیں کیسے ہماری پسندیدگی کے بارے میں کیسے خبر ہو گئی، انہوں
نے گھر والوں سے بات کی، تب مجھ سے دو بڑ ے بھائی غیر شادی شدہ تھے،اور دونوں ملک
سے باہر تھے،اور واپسی کا کوئی امکان نہیں تھا، خیر دونوں خاندان میں بات پکی ہو
گئی کہ گریجویشن کے بعد شادی ہو گی، کہنے کو تو وہ ہمارے رشتہ دار تھے،پر کی انہوں
نے ہمارے ساتھ بیگانوں سے بھی زیادہ بری، وہ وقت ہم دونوں کے لئے بہت خوبصورت تھا،
یہ دنیا جنت کا گمان لگتی ، اور یہ رنگ بہار کی طرح لگتے، پھر برا وقت بھی آیا بات
پکی ہونے کے تین ماہ بعد ریحا کے لئے ایک رشتہ آیا، حسیم سے بتانا مشکل ہو رہا
تھا، وہ اتنا بتا کر چپ ہو گیا،
"تو حسیم انکو چاہے تھا وہ منع کر دیتے،
کیوں ایسا نہیں ہوا تھا،؟
"نہیں، کیونکہ وہ مجھ سے بہتر تھا، یوکے سے
آیا تھا، اور اسکی ریحا سے شادی ہو گئی،اور وہ یوکے چلی گئی،
"اف اللّه... پھر کیا ہوا حسیم،؟
"پھر کیا یار،اب اسکے دو بچے ہیں،اور
پھر شادی کے بعد وہ کبھی پاکستان نہیں لوٹی.یہ
سب کچھ اتنی جلدی میں ہوا کہ کچھ بھی سوچنے اور کرنے کا وقت ہی نہیں ملا،پر سنا
تھا کہ ریحا نے بہت منتیں کی تھیں اپنے گھر والوں کی اسکے ساتھ ایسا نہ کریں،پر
ابرش ہمارے معاشرے میں کوئی کسی کی سنتا کب ہے،
"اف حسیم میرے پاس الفاظ نہیں ہیں کہ
میں کچھ کہہ سکوں،ابرش نے افسردہ لہجے میں کہا،
"چھوڑیں ابرش اب دل بہل چکا ہے،یہ قصہ
اب بہت پرانا ہو گیا،حسیم نے پھیکی ہنسی ہنستے ہوۓ
کہا،
"اور اب دوسری والی،میری خالہ کی بیٹی
ہے،وہ میری اور ریحا کی منگنی کے بارے اور ہماری پسندیدگی کے بارے میں جانتی ہے،
پھر بھی وہ مجھ سے پیار کرتی رہی،کب سے ؟ یہ نہ مجھے پتا ہے نہ وہ جانتی ہے،میری
فیملی انکے گھر گے تھے خالو نے وقت مانگا ہے،کیونکہ اس کے ابو اپنی بہن کی طرف کرنا
چاھتے ہیں،اوراب میری دعا ہے کہ اسکی محبت رائیگاں نہ جائے، خالو مان جائیں،اور
میں اسکو مل جاؤں،ابرش آپ بھی دعا کرنا،
"امین ، میری ہر دعا اب سے آپ کے لئے ہی
ہو گی،
اور ابرش مزے کی بات،زمن کی مجھ سے محبت والی بات بھی
باجی نے ہی مجھے بتائی تھی،باجی کو ایسی خبریں پتا نہیں کہاں سے مل جاتی ہیں،حسیم
نے ہنستے ہوۓ
کہا،
" اچھا...پتا نہیں ، پر شائد حسیم وہ آپ
سے بہت محبت کرتی ہیں نہ تو اس لئے، آپ سے متلعق ہر بات پہ نظر رکھتی ہیں،
"جی یہ تو ٹھیک کہا آپ نے،چلیں ابرش پھر
بات ہو گی،
" ٹھیک ہے، اللّه حافظ،
"فی امان اللّه، حسیم نے کہا اور کال
کاٹ دی،
________
"میرا ل دیکھو، بے شک انس میرا بھائی
ہے،
پھر بھی اسکو کوئی حق نہیں کہ وہ میرے اور تمہارے بارے
میں غلط سوچے،
"عمیر تم میرے چچا زاد ہو، میرے بہت
اچھے دوست ہو،اس سے زیا دہ مجھے کسی کو کوئی صفا ئی نہی دینی،
اور انس کی سوچ اگر ایسی ہے تو،اسے سوچنے دو،
مجھےفرق نہیں پڑتا،
میرا ل نے مسکراتے ہوۓ
کہا،
"میرال تم انس سے شادی کے لئے انکار کر
دو،
اور جاہلوں کی طرح ہنسنا بند کرو،
عمیر نے اسکے ہنسنے پر ز چ ہوتے ہوۓ
کہا،
"عمیر میں انکار نہیں کروں گی،
یہی تو وہ چاہتا ہے کہ میرے انکار کرنے پر وہ ہماری
دوستی کو کوئی اور رنگ دے کر خاندان بھر میں ہمیں رسوا کر دے،
اور دیکھنا انکار وہ خود کرے گا ،
دیکھ لینا کسی دن،
میرال نے یقین سے کہا،
" ایسا وہ کبھی نہیں کرے گا،
میں بھی یہی ہوں اور تم بھی،
دیکھ لینا اپنی آنکھوں سے،
عمیر نے اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوۓ
کہا، اور اٹھ کھڑا ہوا،
"اتنے یقین سے مت کہو عمیر،
کیونکہ ایک دن تمہارا یہ یقین ٹوٹ جائے گا،
میرآل نے کہا تو عمیر پھر سے گھاس پر بیٹھ گیا،اور
بولا،
"اللّه کرے میرال ایسا ہی ہو،
پر انس بھی اپنی بات کا بہت پکا ہے،
ہےتو میرا بڑا بھائی،پر تمہیں وہ بلکل سوٹ نہیں کرتا،
تمہیں تو شاہا ج ڈبل سوٹ کرتا ہے،
آخر میں عمیر نے شرارت سے کہا،
"شٹ اپ،
میرال نے کہا، اور دونوں ہنس دئیے،
"کیا شٹ اپ ، لو شاہا ج بھی آ گیا،
اسی سے پوچھ لیتے ہیں،
عمیر نے شاہا ج کو آتا دیکھ کر پھر سے بات شروع کر دی،.
"کیا پوچھنا ہے مجھ سے،؟
شاہاج نے بیٹھتے ہوۓ
کہا،
میرال نے عمیر کو آنکھیں دیکھیں کہ خبردار جوکوئی بکواس
کی تو،
شاہاج میرا ل کو منع کرتے دیکھ چکا تھا،
"عمیر تم بات بتاؤ شاباش،
اسے آنکھیں نکلنے دو،
شاہاج نے کہا،
میرال بے بس سی عمیر کو دیکھنے لگی،
"دیکھو نہ شاہا ج کب سے میں میرا ل کو
کہہ رہا ہوں کہ میری آنکھیں زیا دہ پیاری ہیں پر یہ مان ہی نہیں رہی،
کہتی ہے جی نہیں میری زیا دہ پیاری ہیں،
اب تم بتاؤ کس کی زیا دہ پیاری ہیں،؟
"عمیر نے میرا ل کی طرف دیکھ کر کہا،
"اوہ عمیر..،
میرال نے گہری سانس لے کر کہا،
"اسکو چھوڑو تم اپنا چہرہ میری طرف کرو،
شاہاج نے عمیر سے کہا،
"لو جی،
عمیر نے آنکھیں پٹپٹا کر شاہا ج کی طرف دیکھتے ہوۓ
کہا،
"نہ جی تم جھوٹ بولتے ہو عمیر،
کچھ دیر دونوں کی انکھوں میں جھانکنے کے بعد شاہاج نے
کہا
تو میرال کی ہنسی نکل گئی،
"تم بھی زیا دہ خوش نہ ہو، جھوٹ تو تم
بھی بولتی ہو،
شاہاج کی بات پہ اس بار عمیر ہنس دیا،
"اب میری طرف تم دونوں دیکھو،
سچ یہ ہے کہ میری آنکھیں زیا دہ پیاری ہیں
شاہاج کے کہنے پر دونوں نے اسکی طرف دیکھا،
"ہاں ہے تو یہ سچ، پر ہے تھوڑا کڑوا
"
عمیر نے لقمہ دیا اور تینو ں مسکرا دیۓ،
عمیر اور میرا ل چچا زاد، جبکہ
میرا ل اور شاہا ج خالہ زاد،تینوں ایک ہی اسکول سے ایک
ہی کلاس سے لے کر یونیورسٹی لیول تک ساتھ تھے،
تینوں میں دوستی بھی بہت تھی، بلکل ٹرائی اینگل کے تین
کونوں جیسی،
___________________________
حریم جس اسکول میں زیر تعلیم تھی، اسکا شمار شہر کے
بہترین سکولوں میں ہوتا تھا
حریم وہیں کھڑی سوچتی رہی کہ واقعی باتوں سے ہی نہیں
انہیں کچھ کر کہ بھی دکھانا ہے،
________________________
"ابرش دعا کیا کریں نہ یار میرے لئے،
ایک کو تو میں کھو چکا ہوں،اب اسکو نہیں کھونا چاہتا،
"دعا کیا کریں کہ یہ مجھے اور میں اسکو
مل جاؤں،
"میری دعائیں کہاں قبول ہوتی ہیں
حسیم"
"سنا ہےاپنی دعائیں اپنے حق میں جلدی
قبول نہیں ہوتیں،دوسروں کے لئے کی جانے والی دعائیں اللّه پاک جلدی سن لیتا ہے،
" اگر ایسا ہے حسیم تو میں ہر دعا آپ کے
لئے ہی کروں گی،
" اللّه پاک نے آپ کو پہلی سے نہیں
ملایا تو دوسری سے ضرور ملا دے،
ابرش نے کہہ کر خود ہی جلدی سے آمین بھی کہہ ڈالا،
اور دوسری طرف سے حسیم نے بھی آمین کہا،
"حسیم کیا میں پہلی والی کے بارے میں
جان سکتی ہوں،؟
"نہیں،
ہاں پر آپ کے ابا جی کو بتا سکتا ہوں، کہاں ہیں وہ،؟
ابرش میری ان سے بات کروا دیں،
حسیم نے کچھ اس انداز میں کہا کہ ابرش کھلکھلا کر ہنس
دی،
"ابرش جانتی ہیں ان تین سالوں میں آج
پہلی بار میں آپ کی اتنی خوشگوار ہنسی کی آواز سن رہا ہوں،
"اچھا....
پر اس ہنسی کو پھر سے کسی کی نظر لگ چکی ہے حسیم،
ابرش نے افسردہ لہجہ میں کہا،
"کس کی؟
میری...،
"ارے نہیں انعام واپس لوٹ آیا ہے،
میں نے اب واقعی میں خوش ہونا سیکھا تھا کہ وہ پھر سے
میری زندگی افسردہ کرنے لوٹ آیا ہے،
"آپ سے ملنے آیا تھا،؟
نہیں اپنے گھر آیا ہے جب وہ یہاں سے گیا تھا، تب اس نے
نہ صرف قصور چھوڑا تھا سر گودھا بھی چھوڑ چکا تھا،
اس تمام عرصے میں،میں نے بہت لوگوں کی باتیں برداشت کیں
ہیں،
اسکی فیملی کی، اپنی فیملی کی، خاندان بھر کی،
کوئی بھی مجھے بلا کہ راضی نہیں ہوتا تھا،
اورجانتے ہیں اس وقت میں آپ نے بہت ساتھ دیا ہے میرا،
یہ حوصلہ آپ ہی نے دیا،
بہت احسان ہے آپکا مجھ پہ،کبھی وقت آنے پر ضرور میں بھی
اپ کے کام آؤں گی،
"اوہ...اللہ نہ کرے کہ مجھ پہ کوئی وقت
آئے،
اور میں نے کوئی کسی کا ساتھ نہیں دیا،
وہ اللّه پاک ہے جس نے مجھے سہارا بنا کر آپ کے پاس
بیجھا،
اور آپکو غلط قدم اٹھانے سے باز رکھا،
ورنہ تو محترمہ بلکل ریڈی بیٹھی تھیں، خودکشی کرنے کے
لئے،
"بلکل حسیم ، شائد آپ نہ ہوتے، نہ مجھے
سمجھا تے، نہ سنبھالتے تو آج میں زندہ ہی نہ ہوتی،
"شائد نہیں، یقینا کہیں میڈم،
وہ دن مجھے بہت اچھی طرح سے یاد ہے، جس رات اپ نے کہا
تھا،
حسیم اگر کبھی اچانک سے میں مر جاؤں تو مجھے غلط مت
سمجھنا،
بلکہ اس مجبوری کو سمجھنا جس کی وجہ سے میری موت ہوئی،
اس رات آپ نے بہت مایوسی کی باتیں کی تھیں،اور پھر
اچانک سے موت خود سے تو نہیں آتی نہ،
اف بہت الجھا تھا اس رات میں،اور عین اگلے روز اتفاق سے
آپ اسکول میں مصروف تھیں،اور مجھے رہ رہ کر رات والی باتیں پریشان کرتی رہیں، اور
آپ کو کالز اور میسجز کرتا رہا،
مجھے یہ تھا کہ آپ خود کے ساتھ کچھ غلط نہ کر بیٹھیں،
ابرش میں خود ایسے وقت سے گزرا ہوں،مجھ سنبھالنے والا
کوئی نہیں تھا
میں بھی آپکی طرح مایوس، ایسے ہی زندگی سے دور بھاگتا
تھا، پھر میں خود ہی خود کا سہارا بنا، اور خود کو سنبھالنے میں کامیاب ہو گیا،
اور پھر آپ سے بات ہوئی، آپ کے بارے میں پتا چلا تو سوچ لیا تھا، اس لڑکی کا سہارا
میں بنوں گا، اسے زندگی کی طرف میں لے کر آؤں گا، اور دیکھو میں دوسری بار بھی
کامیاب ٹھہرا، حسیم نے ہنستے ہوۓ
کہا " آپ بہت اچھے ہیں حسیم، ابرش نے بھیگی ہوئی آواز میں کہا، "جانتا
ہوں، آپ بہت بار یہ بات کہہ چکی ہیں، کوئی اور بات کریں، حسیم نے پھر مسکراتے ہوۓ
کہا، " اچھا چلیں میں پہلی اور دوسری والی کے بارے میں جاننا چاہتی ہوں،
بتائیں گے،؟ "ہاں ضرور، پہلے اپنے آنسو صاف کریں، شاباش، اور آج کے بعد اس نالائق
کے لئے میں کبھی آپ کو روتا ہوا نہ دیکھوں، اوکے، " ہاں جی اوکے، ابرش نے
جلدی سے آنسو صاف کرتے ہوۓ
کہا، جیسے حسیم سامنے بیٹھا کہہ رہا ہو، "گڈ ، تو سنیں ، ہم دونوں فرسٹ ائیر
کے سٹوڈنٹ تھے، راستے میں آتے جاتے ملاقات ہو جاتی تو بات بھی ہو جاتی تھی، ہم الگ
الگ کالج جاتے تھے، تو بس راستے میں ہی دو چار باتیں ہو جاتی تھیں، سب سے بڑی باجی
کو پتا نہیں کیسے ہماری پسندیدگی کے بارے میں کیسے خبر ہو گئی، انہوں نے گھر والوں
سے بات کی، تب مجھ سے دو بڑ ے بھائی غیر شادی شدہ تھے،اور دونوں ملک سے باہر
تھے،اور واپسی کا کوئی امکان نہیں تھا، خیر دونوں خاندان میں بات پکی ہو گئی کہ
گریجویشن کے بعد شادی ہو گی، کہنے کو تو وہ ہمارے رشتہ دار تھے،پر کی انہوں نے
ہمارے ساتھ بیگانوں سے بھی زیادہ بری، وہ وقت ہم دونوں کے لئے بہت خوبصورت تھا، یہ
دنیا جنت کا گمان لگتی ، اور یہ رنگ بہار کی طرح لگتے، پھر برا وقت بھی آیا بات
پکی ہونے کے تین ماہ بعد ریحا کے لئے ایک رشتہ آیا، حسیم سے بتانا مشکل ہو رہا
تھا، وہ اتنا بتا کر چپ ہو گیا، "تو حسیم انکو چاہے تھا وہ منع کر دیتے، کیوں
ایسا نہیں ہوا تھا،؟ "نہیں، کیونکہ وہ مجھ سے بہتر تھا، یو.کے سے آیا تھا، اور
اسکی ریحا سے شادی ہو گئی،اور وہ یو.کے چلی گئی، "اف اللّه... پھر کیا ہوا
حسیم،؟ "پھر کیا یار،اب اسکے دو بچے ہیں،اور پھر شادی کے بعد وہ کبھی پاکستان
نہیں لوٹی
یہ سب کچھ اتنی جلدی میں ہوا کہ کچھ بھی سوچنے اور کرنے
کا وقت ہی نہیں ملا،
پر سنا تھا کہ ریحا نے بہت منتیں کی تھیں اپنے گھر
والوں کی اسکے ساتھ ایسا نہ کریں،
پر ابرش ہمارے معاشرے میں کوئی کسی کی سنتا کب ہے،
"اف حسیم میرے پاس الفاظ نہیں ہیں کہ
میں کچھ کہہ سکوں،
ابرش نے افسردہ لہجے میں کہا،
"چھوڑیں ابرش اب دل بہل چکا ہے،
یہ قصہ اب بہت پرانا ہو گیا،
حسیم نے پھیکی ہنسی ہنستے ہوۓ
کہا،
"اور اب دوسری والی،میری خالہ کی بیٹی
ہے،وہ میری اور ریحا کی منگنی کے بارے اور ہماری پسندیدگی کے بارے میں جانتی ہے،
پھر بھی وہ مجھ سے پیار کرتی رہی،کب سے ؟ یہ نہ مجھے پتا ہے نہ وہ جانتی ہے،
میری فیملی انکے گھر گے تھے خالو نے وقت مانگا
ہے،کیونکہ اس کے ابو اپنی بہن کی طرف کرنا چاھتے ہیں،
اوراب میری دعا ہے کہ اسکی محبت رائیگاں نہ جائے، خالو
مان جائیں،اور میں اسکو مل جاؤں،
ابرش آپ بھی دعا کرنا،
"امین ، میری ہر دعا اب سے آپ کے لئے ہی
ہو گی،
اور ابرش مزے کی بات،
زمن کی مجھ سے محبت والی بات بھی باجی نے ہی مجھے بتائی
تھی،
باجی کو ایسی خبریں پتا نہیں کہاں سے مل جاتی ہیں،
حسیم نے ہنستے ہوۓ
کہا،
" اچھا...
، پتا نہیں ، پر شائد حسیم وہ آپ سے بہت محبت
کرتی ہیں نہ تو اس لئے، آپ سے متلعق ہر بات پہ نظر رکھتی ہیں،
"جی یہ تو ٹھیک کہا آپ نے،
چلیں ابرش پھر بات ہو گی،
" ٹھیک ہے، اللّه حافظ،
"فی امان اللّه، حسیم نے کہا اور کال
کاٹ دی،
________
"میرا ل دیکھو، بے شک انس میرا بھائی
ہے،
پھر بھی اسکو کوئی حق نہیں کہ وہ میرے اور تمہارے بارے
میں غلط سوچے،
"عمیر تم میرے چچا زاد ہو، میرے بہت
اچھے دوست ہو،اس سے زیا دہ مجھے کسی کو کوئی صفا ئی نہی دینی،
اور انس کی سوچ اگر ایسی ہے تو،اسے سوچنے دو،
مجھےفرق نہیں پڑتا،
میرا ل نے مسکراتے ہوۓ
کہا،
"میرال تم انس سے شادی کے لئے انکار کر
دو،
اور جاہلوں کی طرح ہنسنا بند کرو،
عمیر نے اسکے ہنسنے پر ز چ ہوتے ہوۓ
کہا،
"عمیر میں انکار نہیں کروں گی،
یہی تو وہ چاہتا ہے کہ میرے انکار کرنے پر وہ ہماری
دوستی کو کوئی اور رنگ دے کر خاندان بھر میں ہمیں رسوا کر دے،
اور دیکھنا انکار وہ خود کرے گا ،
دیکھ لینا کسی دن،
میرال نے یقین سے کہا،
" ایسا وہ کبھی نہیں کرے گا،
میں بھی یہی ہوں اور تم بھی،
دیکھ لینا اپنی آنکھوں سے،
عمیر نے اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوۓ
کہا، اور اٹھ کھڑا ہوا،
"اتنے یقین سے مت کہو عمیر،
کیونکہ ایک دن تمہارا یہ یقین ٹوٹ جائے گا،
میرآل نے کہا تو عمیر پھر سے گھاس پر بیٹھ گیا،اور
بولا،
"اللّه کرے میرال ایسا ہی ہو،
پر انس بھی اپنی بات کا بہت پکا ہے،
ہےتو میرا بڑا بھائی،پر تمہیں وہ بلکل سوٹ نہیں کرتا،
تمہیں تو شاہا ج ڈبل سوٹ کرتا ہے،
آخر میں عمیر نے شرارت سے کہا،
"شٹ اپ،
میرال نے کہا، اور دونوں ہنس دئیے،
"کیا شٹ اپ ، لو شاہا ج بھی آ گیا،
اسی سے پوچھ لیتے ہیں،
عمیر نے شاہا ج کو آتا دیکھ کر پھر سے بات شروع کر دی،.
"کیا پوچھنا ہے مجھ سے،؟
شاہاج نے بیٹھتے ہوۓ
کہا،
میرال نے عمیر کو آنکھیں دیکھیں کہ خبردار جوکوئی بکواس
کی تو،
شاہاج میرا ل کو منع کرتے دیکھ چکا تھا،
"عمیر تم بات بتاؤ شاباش،
اسے آنکھیں نکلنے دو،
شاہاج نے کہا،
میرال بے بس سی عمیر کو دیکھنے لگی،
"دیکھو نہ شاہا ج کب سے میں میرا ل کو
کہہ رہا ہوں کہ میری آنکھیں زیا دہ پیاری ہیں پر یہ مان ہی نہیں رہی،
کہتی ہے جی نہیں میری زیا دہ پیاری ہیں،
اب تم بتاؤ کس کی زیا دہ پیاری ہیں،؟
"عمیر نے میرا ل کی طرف دیکھ کر کہا،
"اوہ عمیر..،
میرال نے گہری سانس لے کر کہا،
"اسکو چھوڑو تم اپنا چہرہ میری طرف کرو،
شاہاج نے عمیر سے کہا،
"لو جی،
عمیر نے آنکھیں پٹپٹا کر شاہا ج کی طرف دیکھتے ہوۓ
کہا،
"نہ جی تم جھوٹ بولتے ہو عمیر،
کچھ دیر دونوں کی انکھوں میں جھانکنے کے بعد شاہاج نے
کہا
تو میرال کی ہنسی نکل گئی،
"تم بھی زیا دہ خوش نہ ہو، جھوٹ تو تم
بھی بولتی ہو،
شاہاج کی بات پہ اس بار عمیر ہنس دیا،
"اب میری طرف تم دونوں دیکھو،
سچ یہ ہے کہ میری آنکھیں زیا دہ پیاری ہیں
شاہاج کے کہنے پر دونوں نے اسکی طرف دیکھا،
"ہاں ہے تو یہ سچ، پر ہے تھوڑا کڑوا
"
عمیر نے لقمہ دیا اور تینو ں مسکرا دیۓ،
عمیر اور میرا ل چچا زاد، جبکہ
میرا ل اور شاہا ج خالہ زاد،تینوں ایک ہی اسکول سے ایک
ہی کلاس سے لے کر یونیورسٹی لیول تک ساتھ تھے،
تینوں میں دوستی بھی بہت تھی، بلکل ٹرائی اینگل کے تین
کونوں جیسی،
___________________________
حریم جس اسکول میں زیر تعلیم تھی، اسکا شمار شہر کے
بہترین سکولوں میں ہوتا تھا
اسکول تین کیمپس پر متمل تھا، حریم اسکول جا کہ پرنسپل
سے ملی، اور اپنی تمام آپ بیتی سنا دی،اور ساتھ ہی آخر میں التجا کی اسے سویپر کی
نوکری پر رکھ لیں،کسی بھی کیمپس میں دے دیں، حریم کے والد اور پرنسپل کے شوہر مل
کر ایک کمپنی کو چلا رہے تھے، اسلئے دونوں ایک دوسرے کو بہت اچھی طرح سے جانتی
تھیں، پرنسپل کو اچھا لگا ک اتنی سی عمر میں حریم میں مدد کا جذبہ اس قدر ہے،کہ
خود کو مشکل میں ڈال کہ خالہ کی فیملی کو سپورٹ کرنا چاہتی ہے، انہوں نے حریم کے
بہترین تعلیمی ریکارڈ کو دیکھتے ہوۓ
کہا کہ وہ اپنی تعلیم بھی جاری رکھے اور کام کا معاوضہ بھی لیتی رہے، پر حریم نے
سہولت سے منع کر دیا کہ اب وہ پڑھنا نہیں چاہتی، اور یہ بھی کہا کہ اسکے کام کے
بارے میں کسی کو خبر نہ ہو، نہ اسکی فیملی کو نہ خالہ کی فیملی کو، پرنسپل نے اسے
بےفکر ہو کر کام پہ آنے کو کہا، اگلی صبح وہ پانچ بجے اسکول میں تھی،اور آتے ہی
اپنے کام میں لگ گئی، ساڑھے چھ بجے فارغ ہو کر پرنسپل کا انتظار کرنے لگی، اس نے
سوچ لیا تھا کہ ایک کام سے کام نہیں چلے گا،اسے کچھ اور بھی کرنا ہو گا، اسکول کے
بچے آنا شرو ع ہو چکے تھے اور اسے عجیب نظروں سے دیکھ رہے تھے، حالا نکہ کام کے
بعد اس نے کپڑے جھاڑ لئے تھے، منہ دھو لیا تھا،اور بالوں کو بھی گلے ہاتھوں سے
ٹھیک کر لیا تھا،
اسکی دوستوں اور کچھ ٹیچرز کے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ وہ اپنی خالہ کے
پاس جا رہی ہے پڑھنے کے لئیے، اور وہ یہی بتانے آئی ہے، ابیہ نے کسی کو کچھ نہیں
بتایا تھا،اس لئے سب اسکے جھوٹ کو جان نہیں پائے ابیہ کو دیکھتے ہی سب صبر کے پل
ٹوٹ گۓ
اور دونوں ایک دوسرے کے گلے لگیں کتنی ہی دیر روتی رہیں،پھر حریم اسکو چھوڑ کر آفس
میں آ گئی،کہ پرنسپل کے آنے کا وقت قریب تھا، "میم جو مش میں گھر سے لے کہ
نکلی ہوں،وہ ایک کام سےپورا ہوتا ہوا مجھے نظر نہیں آ رہا، میں چاہتی ہوں کہ اسکے
ساتھ ساتھ میں کوئی اور کام بھی کروں، حریم نے انکے آتے ہی بات کا آغاز کیا "
حریم بولو بیٹا،آپ اور کیا کر سکتی ہیں،؟ 'میم زیا دہ تو نہیں بس میں تھوڑا تھوڑا
سلائی کڑھائی کا کام جانتی ہوں، میں چاہتی ہوں آپ میرے لئے کسی فیکٹری میں بات کر
دیں،تو میں آپ کا یہ احسان بھی یاد رکھوں گی، " حریم بیٹا آپ تو جانتی ہیں نہ
کہ چھوٹے بچوں سے کام لینا ایک غیر قانونی عمل ہے، ایک کام تو میں نے آپ کو دی دیا
ہے دوسرے کے لئے مجھے مجبور نہ کریں، "پلیز میم ،میں مجبوری میں مدد کے جذبے
سے گھر سے نکلی ہوں، آپ کا بہت احسان ہو گا مجھ پہ پلیز، حریم نے نم آنکھوں سے
کہا، "ٹھیک ہے میں بات کروں گی،اور مجھے امید ہے کہ کام بھی ہو جائے گا
اسکی دوستوں اور کچھ ٹیچرز کے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ وہ اپنی خالہ کے
پاس جا رہی ہے پڑھنے کے لئیے، اور وہ یہی بتانے آئی ہے، ابیہ نے کسی کو کچھ نہیں
بتایا تھا،اس لئے سب اسکے جھوٹ کو جان نہیں پائے ابیہ کو دیکھتے ہی سب صبر کے پل
ٹوٹ گۓ
اور دونوں ایک دوسرے کے گلے لگیں کتنی ہی دیر روتی رہیں،پھر حریم اسکو چھوڑ کر آفس
میں آ گئی،کہ پرنسپل کے آنے کا وقت قریب تھا، "میم جو مش میں گھر سے لے کہ
نکلی ہوں،وہ ایک کام سےپورا ہوتا ہوا مجھے نظر نہیں آ رہا، میں چاہتی ہوں کہ اسکے
ساتھ ساتھ میں کوئی اور کام بھی کروں، حریم نے انکے آتے ہی بات کا آغاز کیا "
حریم بولو بیٹا،آپ اور کیا کر سکتی ہیں،؟ 'میم زیا دہ تو نہیں بس میں تھوڑا تھوڑا
سلائی کڑھائی کا کام جانتی ہوں، میں چاہتی ہوں آپ میرے لئے کسی فیکٹری میں بات کر
دیں،تو میں آپ کا یہ احسان بھی یاد رکھوں گی، " حریم بیٹا آپ تو جانتی ہیں نہ
کہ چھوٹے بچوں سے کام لینا ایک غیر قانونی عمل ہے، ایک کام تو میں نے آپ کو دی دیا
ہے دوسرے کے لئے مجھے مجبور نہ کریں، "پلیز میم ،میں مجبوری میں مدد کے جذبے
سے گھر سے نکلی ہوں، آپ کا بہت احسان ہو گا مجھ پہ پلیز، حریم نے نم آنکھوں سے
کہا، "ٹھیک ہے میں بات کروں گی،اور مجھے امید ہے کہ کام بھی ہو جائے گا
اسکی دوستوں اور کچھ ٹیچرز کے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ وہ اپنی خالہ کے
پاس جا رہی ہے پڑھنے کے لئیے، اور وہ یہی بتانے آئی ہے، ابیہ نے کسی کو کچھ نہیں
بتایا تھا،اس لئے سب اسکے جھوٹ کو جان نہیں پائے ابیہ کو دیکھتے ہی سب صبر کے پل
ٹوٹ گۓ
اور دونوں ایک دوسرے کے گلے لگیں کتنی ہی دیر روتی رہیں،پھر حریم اسکو چھوڑ کر آفس
میں آ گئی،کہ پرنسپل کے آنے کا وقت قریب تھا، "میم جو مش میں گھر سے لے کہ
نکلی ہوں،وہ ایک کام سےپورا ہوتا ہوا مجھے نظر نہیں آ رہا، میں چاہتی ہوں کہ اسکے
ساتھ ساتھ میں کوئی اور کام بھی کروں، حریم نے انکے آتے ہی بات کا آغاز کیا "
حریم بولو بیٹا،آپ اور کیا کر سکتی ہیں،؟ 'میم زیا دہ تو نہیں بس میں تھوڑا تھوڑا
سلائی کڑھائی کا کام جانتی ہوں، میں چاہتی ہوں آپ میرے لئے کسی فیکٹری میں بات کر
دیں،تو میں آپ کا یہ احسان بھی یاد رکھوں گی، " حریم بیٹا آپ تو جانتی ہیں نہ
کہ چھوٹے بچوں سے کام لینا ایک غیر قانونی عمل ہے، ایک کام تو میں نے آپ کو دی دیا
ہے دوسرے کے لئے مجھے مجبور نہ کریں، "پلیز میم ،میں مجبوری میں مدد کے جذبے
سے گھر سے نکلی ہوں، آپ کا بہت احسان ہو گا مجھ پہ پلیز، حریم نے نم آنکھوں سے
کہا، "ٹھیک ہے میں بات کروں گی،اور مجھے امید ہے کہ کام بھی ہو جائے گا
پر بیٹا کبھی مجھے شرمندہ مت ہونے دینا،آپ سمجھ رہی ہیں
نہ کہ میں کیا کہہ رہی ہوں،
" جی میم میں سمجھ رہی ہوں،
آپ جانتی ہیں کہ میں کس خاندان سے ہوں،اور میں ان
لڑکیوں میں سے نہیں ہوں جو اپنا اور اپنے خاندان کا نام ڈبو دیتی ہیں،آپ مکمل یقین
رکھ سکتی ہیں مجھ پہ،
حریم نے روتے ہوۓ
کہا،
"کام تو سمجھو ہو گیا بیٹا آپ کا، اب
روتی کیوں ہو؟
"میم میرے پاس الفاظ نہیں ہیں میں کس
طرح آپ کا شکریہ ادا کروں،
"شکریہ کی بات نہیں ہے بیٹا،
اللّه تمہیں تمہارے مقصد میں جلد کامیاب کرے،اور آپ
جلدی سے سر خرو ہو جاؤ،
میم نے اسے پیار کرتے ہوۓ
کہا،
"آمین،اور اپ کا بہت شکریہ،
حریم نے مشکور ہوتے ہوۓ
کہا،
_____________________________
"السلام و علیکم کیسے ہیں آپ؟
ابرش نے کال ریسیو کرنے کے بعد جلدی سے کہا،
"وعلیکم السلام،میں ٹھیک ہوں،
آپ سنائیں کیسی ہیں،؟
حسیم نے پوچھا،
"میں بھی ٹھیک ہوں، پر آپ سے بہت ناراض
ہوں،
ابرش نے روٹھے انداز میں کہا،
"آپ ناراضگی کی وجہ بتائیں میں منا لوں
گا،
حسیم نے شوخ انداز میں جواب دیا،
"حسیم آپ جانتے ہیں، پورے اٹھارہ دن بعد
آپ کال کر رہے ہیں،
اس دوران میں نے کتنی کالز اور میسجز کئے،آپ نے کسی کا
بھی جواب نہیں دیا،
بہت غصہ تھا مجھے آپ پہ،
دل تھا کبھی بات نہ کروں آپ سے،
ہیلو حسیم.......
ابرش نے حسیم کی خاموشی کو محسوس کرتے ہوۓ
کہا،
"جی ابرش میں سن رہا ہوں، آپ بولیں
" بس ناراض ہوں میں آپ سے، نہیں بات کرنی مجھے،کاٹ رہی ہوں کال، حسیم
کی خاموشی پہ ابرش نے غصّے سے کہا،. "بس نکل گیا غصہ، اب میری بات غور سے
سنیں، حسیم کی بات پہ ابرش کا ہاتھ کال ڈس کنیکٹ کرتے ہوۓ
روک گیا، اور سیل پھر سے کان کو لگا لیا، "ابرش ایسا میں نے جان بوجھ کہ کیا
تھا، "کیا،....؟ " جی مجھے پتا تھا آپ اسی طرح ری ایکٹ کریں گیں، اس کے
باوجود میں نے یہ سب جان بوجھ کہ کیا، "پر کیوں حسیم؟ " وہ اس لئے کہ
میں آپ کو بتانا چاہتا تھا، سمجھانا چاہتا تھا، آپ کا کزن ایک سا ئے کی طرح ہے،اور
آپ بلاوجہ اس کی پیچھے بھاگ رہی ہیں،جو انسان آپ کو بتا کہ جائے کہ وہ جا رہا
ہے،واپس کبھی نہ لوٹنے کے لئے،اور پھر.... اور پھر بھی اسکا انتظار کیا جائے تو یہ
بوقوفی ہے، اس کے لوٹ آنے کی آپ نے امید رکھی یہ آپ کی کم عقلی ہے،
اور جو بنا بتاۓ
چلے جائیں،جیسے میں، اسکے لوٹ آنے کی امید رہتی ہے،
آپ کو امید تھی نہ کہ میں لوٹ آؤں گا،؟
اور اب بھی وہ اگر لوٹ آیا ہے تو صرف اپنے لئے اپنی
فیملی کے لئے،
آپ کے لئے نہیں آیا وہ،
اسے پروا نہیں ہے آپکی،
ورنہ وہ آپ کو اکیلا ان حالات میں چھوڑ کہ یوں نہ چلا
جاتا،
"پلیز ایک بار اپنے آس پاس دیکھیں اس کے
علاوہ بھی بہت سے لوگ ہیں جو آپ کو اس سے بڑھ کہ چاھتے ہوں گے،
اس سے بڑھ کر آپ کو کیئر کرتے ہوں گے،
اس کے لئے آپ کو دل کی آنکھ سے دیکھنے کی ضرورت ہے
ابرش،
"مجھے صرف آپ نظر آتے ہیں حسیم،
ابرش نے آنسوؤں سے بھری آنکھوں کو بند کرتے ہوۓ
کہا،
"میں آپ کو اچھے دوستوں کی طرح چاہتا
ہوں،لورز کی طرح نہیں،
سمجھی پاگل لڑکی،
"جی سمجھ گئی، سوری حسیم،
ابرش نے آنسو صاف کرتے ہوۓ
شرمندگی سے کہا،
"ابرش آپ دوست ہیں میری،اور میں بھلا
چاہتا ہوں آپ کا،برے وقت تک آپ کے ساتھ ہوں،اچھے وقت میں بھی ہو سکتا ہوں،اگر آپ
کے "ان" کو اعتراض نہ ہوا تو،
حسیم نے شرارت سے کہا،
"حسیم اگر آپ برے وقت میں میرے ساتھ ہیں
تو اچھے وقت میں میرے "ان" کو آپ کو بھی اپنے ساتھ رکھنا ہی ہو گا،
ابرش نے سنجیدگی سے کہا،
"اوکے، ابرش پھر بات ہو گی،
اور پلیز میری آج کی میری باتوں کو آنکھیں بند کر کہ
ایک بار دل سے سوچنا ضرور،
اور فی امان اللّه،
حسیم نے جواب سنے بغیر کال کاٹ دی،
ابرش نے سیل رکھا اور رو دی،
"اے اللّه اگر وہ میرے نصیب میں نہیں
تھا،تو پھر اتنے سال انتظار کے راستے پہ کن چلنے دیا مجھے،؟
کیوں خاندان بھر کی رسوائی میرے نصیب میں لکھ دی گئی،
کیوں یا اللّه،؟
_____________________
بہت
دنوں بعد آج خالو کی طبیعت بہتر تھی، حریم بھی کچھ وقت نکال کر شہر ال کے ساتھ
خالو سے ملنے ہسپتال آئی تھی، خالو سو رہے تھے، وہ دونوں خالہ کے پاس ہی بیٹھ گے،
خالہ نے حریم کو پیار کرتے ہوۓ
گھر کے بارے میں پوچھا، باتوں کی آواز پر خالو نے آنکھیں کھول کر دائیں طرف دیکھا
نکاح والے دن کے بعد آج وہ حریم کو دیکھ رہے تھے، "حریم بیٹا، انہوں نے مسکرا
کر حریم کو آواز دی، "جی خالو کچھ چاہے آپ کو،؟ "نہیں بیٹا کچھ نہیں
چاہے، انہوں نے سر کو ہلکا سا نفی میں ہلاتے ہوۓ
کہا، "کیسی طبیعت ہے اب آپ کی،؟ حریم نے پوچھا، "ہاں کچھ بہتر ہے بیٹا،
"انشاء اللّه آنے والے دنوں میں آپ اور بھی اچھے ہو جائیں گے، دیکھئے گا آپ،
حریم نے مسکرا کر کہا، "انشاء اللّه، اگر اللّه پاک کی ذات نے چاہا تو، خالو
نے جواب دیا، " خالو سب اللّه پاک کی ذات کے چاہنے سے ہی ہوتا ہے،پر ہم اچھے
کی امید تو رکھ سکتے ہیں نا اس سے، حریم نے دلیل دیتے ہوۓ
کہا، "ہاں بلکل، اچھا یہ بتاؤ، تم خوش تو ہو نہ،کوئی تمہیں پریشان تو نہیں
کرتا نہ،؟ خالو نے بہت پیار سے اسکی طرف دیکھتے ہوۓ
پوچھا، "نہیں خالو ایسی کوئی بات نہیں ہے، خالہ سارا دن یہاں آپ کے پاس ہوتی
ہیں، عنیہ عاصم اور شہر ال اسکول اور پھر باقی کا وقت اپنی پڑھائی میں لگے رہتے
ہیں، ایسے میں مجھے تنگ کون کرے گا بھلا،؟ حریم نے پھیکی ہنسی ہنستے ہوۓ
کہا، پر آنکھوں میں نمی تیر نے لگی تھی
"اچھا ٹھیک ہے،
پرپھر بھی کوئی تنگ کرے تو مجھے ضرور بتانا،
میں تمہارے سامنے اس کی کلاس لوں گا،
خالو نے بھی مسکراتے ہوۓ
کہا،
" جی خالو ،
" شہر ال بیٹا بھائی کہاں ہے،؟ کتنے
دنوں سے اسکی نہ آواز سنی ہے نہ ہی دیکھا ہے میں نے،
کہاں ہے وو؟
خالو نے شہر ال سے شہیر کے بارے میں پوچھا،
"ابو آپکو پتا تو ہے کہ وو اپنی پڑھائی
کے معاملے میں کتنے ٹچی ہیں،
بس اسٹڈی میں ہی بزی رہتے ہیں،
ابھی پرسوں میں اور بھائی آئے تھے آپ سے ملنے پر آپ سو
رہے تھے،
شہرال نے ایک نظر حریم پر ڈال کر خالو سے کہا،
حریم نے نظریں چرا لیں،
______________________
"اف اے اللّه،یہ میں کیا دیکھ رہا ہوں،؟
وہ آئے ہمارے گھر میں،کبھی ہم انکو دیکھیں تو کبھی اپنے
گھر کو،
اےاللّه یہ خواب ہے یا حقیقت.......
یہ خواب نہیں بلکہ حقیقت ہے،اور اس حقیقت کا جلدی یقین
کر لیجیے انس صاحب
اور
حقیقت یہ ہے کہ میں اس وقت آپ کے گھر ہوں، میرا ل نے خوشگو ار انداز میں جواب دیا،
" چلیں مان لیا، میرا ل کبھی کچھ پل کے لئے ہمارے پاس بھی بیٹھ جایا کریں،
آخر کو ہم آپ کے ............ کزن ہیں، میرال نے اسکی بات کاٹ کر کہا، " چلیں
کزن ہی سہی، انس نے بغیر برا مانے کہا،اور ساتھ ہی قہقہ فضا میں چھوڑا، "اور
میرا ل کیا مصروفیات ہیں،؟ انس نے اپنی سیٹ سے اٹھ کر عین میرال کے پیچھے کھڑے
ہوتے ہوۓ
کہا، عمیر جو اتفاق سے وہاں سے گزر رہا تھا،اسے انس کا اس طرح کھڑے ہونا اچھا نہیں
لگا، غصے میں میرا ل کے بولنے سے پہلے ہی بول پڑا، "پڑھائی اور بس، کیوں ....
میرا ل تم کل والے نوٹس لینے آئی ہو نا مجھ سے؟ انس کو عمیر کی اس وقت آمد سخت
ناگوار گزری اور رخ موڑ کر کھڑا ہو گیا، "میرا ل آج اچھے موڈ میں تھی،اور
میرے بھی موڈ کا ستیا ناس کر دیا تم نے عمیر، انس اسکو دل ہی دل میں کوس رہا تھا،
" میرا ل تمہیں آنے کی ضرورت نہیں تھی، میں نے کہا تھا نہ کہ جب میرا کام ہو
جائے گا تو ڈرائیور کے ہاتھ بجھوا دوں گا، عمیر نے سخت لہجے میں میرا ل سے کہا،
"ہاں میں بھی میرا ل کو اکیلا دیکھ کر سوچ رہا تھا کہ اسکا دم چھلا کہاں ہے،؟
تم دونوں ہمیشہ ساتھ ہی پائے جاتے ہو نہ تو اس لئے، انس نے عمیر پر چوٹ کی،
"بھائی........ عمیر نے کچھ سخت کہنا چاہا،کہ میرا ل نے روک دیا، "عمیر
مجھے جلدی سے نوٹس دے دو پلیز، پھر مجھے گھر جانا ہے، "چلو میرے ساتھ، عمیر
نے کہا اور میرا ل کا ہاتھ پکڑ کر چلتا بنا، پیچھے انس دیکھ کر جلتا رہا
"عمیر تمہیں میرا ہاتھ پکڑ کر اس طرح سے نہیں آنا چاہئے تھا، "تو
تمہیں اس وحشی درندے کے پاس یونہی چھوڑ کے آ جاتا، عمیر نے غصے سے کہا، "میرا
ل تم نے نہیں دیکھا تھا، وہ غلط نیت سے تمہارے پیچھے کھڑا تھا، میں نے دیکھا تھا،
اور میں ہی جانتا ہوں،کہ کس طرح اس پل خود پہ کنٹرول کئے کھڑا تھا، برداشت سے باہر
تھا، شرم آ رہی ہے مجھے کہتے ہوۓ
کہ میرا بھائی ہے انس، اور.... اور کیا ضرورت تھی سیدھا آ کر اسی کے پاس بیٹھ کر
گپیں لگا نے کی،؟ وہ میرا بھائی ہے، میں اسکی عادت اور فطرت سے اچھی طرح سے واقف
ہوں، اور میرال یاد رکھو عادت تو بدلی جا سکتی ہے،پر فطرت کبھی نہیں بدلتی، دوبارہ
کبھی میں تمہیں اسکے آس پاس نہ دیکھوں، سمجھی تم،؟ "ہوں ...سمجھ گئی، میرال
نے آہستہ سے کہا، "میرا ل اب رو تو نہیں پلیز یار،یہ سب میں تمہارے بھلے ہی
کے لئے کہہ رہا ہوں، "ہاتھ پکڑ نے پر تمہیں اعتراض ہے
اب
آنسو صاف کرنے نہیں آؤں گا،خو ہی صاف کر لو، عمیر نے شرارت سے کہا،اور میرال ہنس
دی، "اچھا سنو ، جب بھی انس تمہارے آس پاس ہو یا تم سے بات کرنے کی کوشش کرے
تو فورا سے تم مجھے میسج کرو گی، اوکے، "وہ تو ٹھیک ہے عمیر، پر وہ تمہارا
بھائی ہے، اس کے بارے میں اتنا نیگٹیو نہ سوچا کرو.... "وہ میرا بھائی ہے،اور
اسکے بارے میں کتنا نیگٹیو سوچنا ہے یہ مجھے معلوم ہے، اوکے، " چلو تمہیں گھر
چھوڑ آتا ہوں،ویسے تقریباً چھ ماہ بعد تم ہمارے گھر آئی ہو، "ہاں تمہارے گھر
کو لوٹنے، میرال نے ایک ہاتھ سے آنکھیں صاف،اور دوسرے سے بیگ اٹھاتے ہوۓ
غصے سے کہا، "پر افسوس کچھ حاصل نہیں ہوا، عمیر نے مزے سے کہا، "عمیر تم
نہ ..... تم میری دوستی کا بہت غلط فائدہ اٹھاتے ہو، مجھے کس طرح سے ڈانٹا، حلانکہ
میں بڑی ہوں تم سے، پھر بھی.... ہاں صرف تین دن بڑی ہو، عمیر نے گاڑی کا لاک
کھولتت ہوۓ
جواب دیا، "اچھا اب بتاؤ کیا کرنے آئی تھی، وہاں تو یہ کہہ کر ٹال دیا کہ
نوٹس لینے آئی ہو، "ہاں وه شاہاج کی طبیعت خراب ہے، اکیلے اچھا نہیں لگ رہا
تھا،سوچا تمہیں ساتھ لے جاؤں، اس لئے سرپرائز کے چکر میں یونیورسٹی سے سیدھی
تمہاری طرف چلی آئی، پر یہاں آ کر پتا چلا گھر میں تم دونوں کے علاوہ کوئی نہیں
ہے،تمہارے کمرے میں جا رہی تھی کہ انس مل گیا،اور بات کرنے لگی، اس نے اپنے آنے کی
وجہ بتائی، "اچھا تمہیں کیسے پتا چلا اسکی طبیعت کا، عمیر نے گاڑی شاہاج کے
گھر کی طرف موڑتے ہوۓ
پوچھا، تم نے تو اپنی چھٹی کا کل ہی بتا دیا تھا، آج وہ بھی نہیں آیا تو میں نے
کال کی تب پتا چلا، "اچھا چلو کوئی بات نہیں ابھی جا کہ جناب کی طبیعت درست
کئیے دیتے ہیں، عمیر نے شوخی سے کہا، "اچھا تو تمہاری طبیعت درست کون کرے
گا،؟ تم نے ڈھیر سارا جو مجھے ڈانٹا وہ، "وہ تم اپنے خالہ زاد شاہاج سے کروا
دینا،ٹھیک، اب خوش، عمیر نے تھوڑا شرارت سے کہا، "ہاں لو ہو گئی ہاہا ہا
ہا...ہی ہی ہی... میرال نے دانت نکالتے ہوۓ
کہا، "چلو نقلی ہی سہی، ہنسی تو ہو، "اچھا چلو میرا ل ایک بات تو بتاؤ،
نہیں بلکہ مان لینا پلیز، عمیرکےکہنے پر میرال نے اسکی طرف سوالیہ انداز میں دیکھا
"حالانکہ وہ تمہاری خالہ کا گھر ہے،
وہاں جاتے ہوۓ
تمہیں اچھا نہیں لگا،اور مجھے ساتھ لے کر جا رہی ہو،
تو جب رخصت ہو کر شاہا ج کے سنگ جاؤ گی تب مجھے اپنے
جہیز کی کوئی چیز سمجھ کر ساتھ لے جانا،اوکے،،
عمیر نے بڑی سنجیدگی سے کہا،
"شٹ اپ عمیر،
میرال نے جھٹ سے کہا،
"لو ہو گیا میں شٹ اپ ،،
عمیر نے مسکراہٹ دبا تے ہوۓ
کہا،
"ہو ہی نہیں سکتا کہ تم شٹ اپ ہو جاؤ،
میرال نے کہا،
اور دونوں ایک دوسرے کے ہاتھ پر ہاتھ مار کر ہنس دئیے
___________
"حسیم آپ اور آپ کی فیملی بہت کیوٹ اور
خوبصورت ہے،
"ابرش اتنی دور ہونے کے باوجود بھی آپ
میری ساری فیملی کے بارے میں جان گئی ہو،
"ہاں جی یہ تو ہے،
ابرش نے مسکراتے ہوۓ
اقرار کیا،
" ابرش آپ پیدا ہی ہم سے اتنی دور ہوئی
ہو،اور اگر ہو بھی گئی ہو تو کبھی یہاں کا چکر لگاؤ تو میں آپ کو دکھاؤں کہ ہم
پہاڑی لوگ جتنے خوبصورت ہیں اتنے دل کے بھی اچھے ہوتے ہیں،
"اچھا آپ کبھی قصور نہیں آئے کیا،؟
ابرش نے جواب دینے کی بجائے الٹا اس سے پوچھا،
"ارے یار یہ نام میں نے پہلی بار آپ ہی
کے منہ سے سنا ہے،
"اچھا....
پر یہ تو بہت جانا پہچانا جاتا ہے،لاہور کے پاس ہے نہ
تو اس حوالے سے،
"ارے لاہور سے تو میں سیکنڈ ائیر کر چکا
ہوں، ریحا کی شادی کے بعد میں لاہور آ گیا تھا،
پر قصور کا نہیں پتا،
" چلیں زمن کے ساتھ کبھی آئیے گا،ہماری
طرف،بلکہ یوں کرنا کہ آپ یہاں ہی سیٹ ہو جانا ، میں اکیلی کیا کروں گی اتنی
جائیداد کا،آپ میرے کاروبار کو سنبھالنا
اور میں آپ کے اور زمن کے بچوں کو
انکی آنٹی بن کر سنبھال لوں گی،
" ہاں یہ بھی ہے،پر ابرش ایسا ممکن ہوتا
مجھے نظر نہیں آ رہا،
حسیم نے ٹھنڈی آہ بھرتے ہوۓ
کہا،
"کیوں؟ حسیم ایسا کیوں کہا آپ نے،
"یار ابرش.. کیا بتاؤں، زمن کے ابا نہیں
مان رہے،انہوں نے کہا ہے کہ وہ اپنی بہن کی طرف کر چکے ہیں،
"حسیم آپ بھی تو انکے کچھ لگتے ہیں نہ،
ابا کے علاوہ اور کون کون راضی ہے؟
"اور کوئی بھی نہیں.. بس ابا ہی اپنی
بہن کی طرف ہیں،
"تو حسیم باقی ساری فیملی مل کے ایک ابا
جی کو نہیں منا سکتے،
"کیا پتہ ابرش،
"حسیم آپ جب بھی سناتے ہیں بری خبر ہی
سناتے ہیں،
ابرش نے شکوہ کرنے کے انداز میں کہا،
"کیا کروں ابرش،قسمت میں جو لکھا ہے وہی
ہو رہا ہے اور وہی آپ سے شیر کرتا رہتا ہوں،
حسیم نے پھیکی ہنسی ہنستے ہوۓ
کہا،
"حسیم آپ دل چھوٹا نہ کریں،پریشان نہیں
ہوں، کیا پتہ کسی دن ابا جی خود ہی آپ کے لئے ہاں بول دیں،
ابرش نے تسلی دی حالانکہ اندر سے وہ خود بہت پریشان ہو
گئی تھی،
"ہاں ہو سکتا ہے،
اچھا ابرش ایک کال آ رہی ہے، پھر بات ہو گی،
"اوکے اللّه حافظ،
ابرش نے کہہ کر کال کاٹ دی،
__________________
"خالو کو نہ جانے کیسے شہیر کے جانے کے
بارے میں پتہ چل گیا،اور خالہ کو پوچھنے لگے
"شہیر. کی ماں،بیٹا کتنے دن سے گھر پر
نہیں ہے،اور تم نے مجھے بتایا بھی نہیں ہے،
خالو اپنی بیماری کو بھول کر خالہ سے ناراض ہو رہے تھے،
خالہ جواب میں چپ رہیں،.
"شہیر کی ماں تم نے پتہ کروایا کے وہ
کہاں ہے،؟
" شہر ال اور اسکے چچا نے جہاں جہاں
ممکن تھا،سب پتہ کیا، پر اسکا کوئی پتہ نہیں چلا،
اللّه جانے کہاں چلا گیا ہے،
خالہ نے روتے ہوۓ
بتایا،
" میں ٹھیک ہوتا تو خود ڈھونڈتا پر اب
کیا کروں،
چلو تم حوصلہ رکھو اور اسکے بارے میں پتہ کروا تی
رہو،کسی دن کوئی سرا غ ضرور مل جائے گا،
انہوں نے خود کو اور خالہ کو ایک ساتھ تسلی دی،
_________________________
"حریم صبح پانچ بجے اسکول میں ہوتی،اور
ساڑھے چھ بجے کام سے فارغ ہو جاتی،کہ اسکول کا کوئی بچہ اسے دیکھ نہ لے،
یہاں سے سیدھا پرنسپل کے گھر جاتی،رات کے برتن اور کیچن
کا کام کرتی،
پھر گھر آ کر ناشتہ سب کو کروا کر سلائی فیکٹری چلی
جاتی،اور شام چار بجے واپسی ہوتی،
پھر شہیر کے چچا کو بچوں کو پڑھانے بیٹھ جاتی،انکی
دیکھا دیکھی محلے کے اور بچے بھی آنے شرو ع ہو گے
حریم خوش تھی کہ وہ اپنے مقصد میں کامیابی کے ساتھ پہلے
سٹیپ پر کھڑی ہو گئی ہے اور کسی دن اپنی منزل کو بھی پا لے گی، باقی جگہوں سے حریم
کو بہت پہلے تنخواہ مل چکی تھی،پر فیکٹری سے آج ملی تھی،اب اسکے پاس اتنے پیسے تھے
کہ وہ شہر ال سے بات کر سکتی تھی، سو اس نے بات کرنے کا سوچا اور اسکا انتظار کرنے
لگی، کھانا دینے کے بعد اس نے شہر ال سے کہا کہ کھانا کھا کر اسکی بات سن کر دکان
پہ جائے،. شہرال کو بھی تجسس ہونے لگا کہ اتنے دن بعد ایسی کون سی ضروری بات ہے جو
حریم کو شہر ال سے کرنی ہے، شہرآل نے ہلکا پھلکا کھانا کھایا،اور صحن میں آ کر
کھڑا ہو گیا، "ہاں بولو کیا کہنا ہے،؟ شہر ال نے وہی انداز اپنا ئے رکھا،
"ابھی آتی ہوں، حریم کہہ کر اندر کمرے میں چلی گئی، واپس آئی تو اسکے ہاتھ
میں ایک پیکٹ تھا ، اس نے پیکٹ شہرال کی طرف بڑھا دیا، " کیا ہے اس میں؟
" خود کھول کے دیکھ لو،
حریم نے بڑھے ہوۓ
پیکٹ کو تھوڑا اور آگے کرتے ہوۓ
کہا،
" حریم تم بتا رہی ہو یا میں جاؤں،
شہرآل نے ز چ ہوتے ہوۓ
کہا،
"یہ اس نقصان کا معاوضہ ہے جو انجانے
میں ، میری وجہ سے تمہارے گھر کا ہوا ہے
حریم نے پرسکون ٹھہرے ہوۓ
انداز میں کہا،
"میں سمجھا نہیں،
شہر ال واقعی اسکی بات کا مطلب نہیں سمجھ پایا تھا،
" میرا اس گھر میں آنے کی وجہ سے،
تمہارےگھر والوں کا جو بھی نقصان ہوا، اسکو میں پورا
کروں گی،
شہیر میری وجہ سے یہ گھر چھوڑ کے چلا گیا،
تمہیں اپنی اسٹڈی کو چھوڑ کر دوکان پہ بیٹھنا پڑا، شہیر
کے حصے کی ذمہ داریوں کو میں پورا کروں گی،
پچھلے ڈیڑھ ماہ سے میں ایک سلائی کی فیکٹری میں کام کر
رہی ہوں،یہ اسی کام کے پیسے ہیں، کوئی غلط کام نہیں کر رہی، میری محنت کی کمائی
ہے،
شہرال تم کل سے اسکول جانا شر و ع کرو، دوکان پہ صرف
فارغ وقت میں بیٹھا کرو،
اور..
اور باقی گھر کی فکروں میں الجھنے کی ضرورت نہیں ہے،
شہرال خاموشی سے اسکی بات سنے گیا،
جب چپ ہوئی تو اس کے جیسے ہی ٹھہرے ہوۓ
لہجے میں بولا
"فیکٹری کی ٹائمنگ تو صبح آٹھ سے شام
چار بجے تک ہے،اس سے پہلے جن دو جگہوں پہ جاتی ہو وہ نہیں بتاؤ گی،
یہ سوال تھا یا ایک اور تیر، یا پھر پتھر،
حریم گڑ بڑا گئی،
"دیکھو حریم مجھ سے جھوٹ بولنے کی ضرورت
نہیں،میں سب جانتا ہوں،
ہو سکتا ہے تم جو ہماری فیملی کو سپورٹ کر رہی ہو،وہ
تمہاری نظر میں سب صہیح ہو،
پر تمہاری اس قربانی کا صلہ اس گھر میں تمہیں کبھی نہیں
ملے گا، نہ آج نہ کبھی،یاد رکھنا میری یہ بات،
بھائی کے جانے کی وجہ سب تمہیں مانتے ہیں، تم لاکھ اچھا
بننے کی کوشش کر لو پر یہ لوگ تمہیں ہی بھائی کے جانے کی وجہ بنائیں گے،
اور یہ پیسے خود امی کو دے کر انکو مطمئن کرنا،
شہر ال کہہ کر جانے کے لئے مڑا،
پھر پلٹ کر اسکی طرف دیکھتے ہوۓ
بولا،
"ہاں رہا سوال میرے فیوچر کا تو،اسکے
بارے میں تمہیں پریشن ہونے کی ضرورت نہیں ہے،
یہ سال ختم ہونے میں دو ماہ رہ گے ہیں، امتحان کی بلکل
تیاری نہیں میری،
تو میں نے سوچ لیا ہے اگلے سال بھرپور محنت کے ساتھ نا
ئنتھ کے ہی پیپر دے دوں،
اور
اب تم اپنے فیوچر کی فکر کرو،اس قربانی کے چکر میں نہ
کہیں آگے کی رہو اور نہ ہی پیچھے کی،
شہر ال اسکو بت بنا چھوڑ کر کب کا جا چکا تھا،
اور وہ اندھیرے میں کھڑی کتنی دیر تک اپنے فیوچر اور
پاسٹ دونوں کو ڈھو نڈتی رہی،
_____،_،_________________
"یا اللّه خیر،ابرش گہری نیند سے ہڑ بڑا
کر اٹھ بیٹھی
"لگتا ہے حسیم بہت بڑی مصیبت میں ہے، "یا اللّه پلیز اسکی
پریشانیوں کو کم کر دے،، ابرش نے ہاتھ دعا کے انداز میں اٹھائے اور حسیم کے لئے
دعا کرنے لگی، ابرش نے خواب میں حسیم کو بہت زاروقطار اور شدت سے روتے چیختے ہوۓ
دیکھا تھا، رات اس نے بہت بے چینی میں گزاری اور صبح اسکول بھی نہیں گئی، اور حسیم
کا نمبر ملانے لگی، کبھی بھی حسیم کا نمبر بند نہیں ہوا تھا، جب بھی بات ہوتی حسیم
کال کرتا اسنے کبھی ابرش کو کال کرنے کا موقع نہیں دیا تھا، ایک بار بات کے دوران
کال کٹ گئی تو ابرش نے کال کر
لی،اور حسیم نے پوچھا
آپ کا پیکج ہے، ابرش کے انکار پر اس نے کال کاٹ دی، اور
خود کال کی، اس پر ابرش نے ہنس کر کہا،
"حسیم کبھی مجھے بھی کال کرنے دیا کریں،
میرےکال کرنے پر میری دولت میں کمی نہیں ہو جائے گی،
حسیم نے بھی ہنستے ہوۓ
جواب دیا،
"ابرش آپ نے اپنا وقت اور پیسہ دونوں
بہت بری سے ضائع کئیے، وقت اس نالائق کزن کے پیچھے، اور پیسہ بھی فضول کاموں
میں،سمپل گریجو یشن کی جگہ تھوڑی محنت، تھوڑا پیسہ لگا کر کچھ اور کیا ہوتا تو زیا
دہ اچھا ہوتا، اب میرے پیچھے کالز میں مزید پیسے آپ ضائع کریں تو یہ مجھے اچھا
نہیں لگے گا،
"اور حسیم اگر میں یہ پوچھوں کہ آپ میرے
لئے اپنے پیسے کیوں ضا ئع کر رہے ہیں تو پھر،؟
"تو پھر میں یہ کہوں گا کہ یہ میں خود کے
لئے کرتا ہوں، سچ بتاؤں تو آپ میری ضرورت بنتی جا رہی ہیں ابرش،
میسج
کی ٹیون پر ابریش حال میں لوٹی، اس نے جلدی سے کھولا اور ریڈ کرنے لگی،
"ابریش بہت برا ہو گیا ہے، زمن کے ابا
جی نے میری فیملی کو دوسری بار انکار کر دیا تھا، زمن نے اس بات کا اثر اپنے ذہن
پر اس قدر لیا کہ اسکے دماغ کی شریا ن پھٹ گئی، جس سے اس کی ڈیتھ ہو گئی ہے، میں
بڑی باجی کے ساتھ امریکہ جا رہا ہوں، ایئرپورٹ پہ کھڑا باجی کے موبائل سے آپ کو
میسج کر رہا ہوں، پلیز اپنے اس دوست کے لئے دعا کرتی رہنا کہ مجھے سکون مل جائے.
********************
جاری ہے
Comments
Post a Comment