قدرت کے فیصلے از مہر
زوبیہ
پارٹ 1
" حریم تمہیں ایک
بات بتاؤں، " لو تمہیں پوچھنے کی کیا ضرورت،تم بات بتاؤ، اس نے پیکٹ سے چپس
کا ٹکڑا نکال کر منہ میں ڈالتے ہوۓ کہا، "مجھے لگتا ہے آج واپسی پر تمہارا نکاح ہے، اس نے مزے سے چپس
کھاتی حریم کو دیکھتے کہا، "میرا........، "ارے نہیں تمہیں کوئی غلط فہمی
ہوئی ہو گی، ہاتھ پیکٹ کے اندر جاتےکچھ پل کو روکا اور پھر سے چپس کھاتے ہوۓ بولی،
"نہیں حریم میں نے خود اپنے کانوں سے سنا تھا صبح،تمہاری امی کو تمہارے ابو سے
بات کرتے ہوۓ، "صبح..؟ حریم نے درمیانی فاصلے پر پیکٹ رکھتے ہوۓ ابیا
کی طرف دیکھتے ہوۓ بے یقینی سے کہا، "ہاں صبح،جب میں تمہیں اسکول کے لئے لینے گئی
تھی،جب تم مریم سے لڑ رہی تھی، اور پھر تمہیں لڑائی جھگڑوں سے فرصت ملے تو،گھر کی
خبر ہو کے گھر میں کیا ہو رہا ہے، ابیا نے تفصیل سے بتاتے ہوۓ آخر میں
اسے ڈانٹا، "نہیں ایسا نہیں ہو سکتا،ابھی مجھے بہت پڑھنا ہے،کچھ بننا ہے مجھے
خود کے لئے، اور پھر اس سب کے درمیان میں تو شادی کو کہیں ہونا بھی نہیں چاہیے،
حریم نے کہہ کر چپس کا پیکٹ پھر سے اٹھا لیا، "صبح سے میرا سانس سوچ سوچ کے
رک رہا ہے اور تمہیں کھانے کی پڑی ہے، ابیا نے ز چ ہو کر اس کے ہاتھ سے پیکٹ
کھینچا اور درمیانی فاصلے پر پٹخ دیا، "اور حریم تم کیا سوچتی ہو،؟ تمہاری
کیا خواہش ہے؟ کیا وہ اس سے انجان ہیں،؟ بلکل نہیں حریم وہ سب جانتے ہیں، اسکے
باوجود وہ اپنی خواہش کے بارے میں سوچ رہے ہیں، ابیا نے اسکے گھٹنے پر ہاتھ رکھ کر
اسکی طرف دیکھتے ہوۓ کہا
نہیں ابیہ ایسا نہیں ہو سکتا،اور وہ
بھی اتنی جلدی، میں ایسا نہیں ہونے دوں گی،
حریم نے کہا اور بازو سے آنکھیں صاف کرتی ہوئی کلاس روم کی طرف دوڑ لگا دی،
گردن موڑے حریم اسے جاتے دیکھتی رہی،
_________________________
حریم اور ابیہ دونوں ساتویں جماعت میں زیر تعلیم، اور اسکول کے پہلے دن سے ایک سارہ تھیں، ہم عمر اور محلے دار بھی تھیں،ابیہ اچھی طرح جانتی تھی کہ حریم کے بابا جو بات ایک بار کہہ دیں وہ پتھر پر لکیر ہوتی ہے،
حریم جب سے اسکول سے آئی تھی یہ سوچ سوچ کے پریشن ہو رہی تھی کہ ابیہ نے اس سے اتنا بڑا مذاق کن کیا، کیونکہ گھر میں اسکے نکاح کے بارے میں کوئی بات نہیں ہوئی تھی، اور پھر گھر میں کسی تقریب کے کوئی آثار نہیں تھے،
اسےرہ رہ کر ابیہ اور خود پر غصہ آ رہا تھا ،
ابیہ پر اس لئے کہ اس نے جھوٹ بولا،
اور
خود پر اس لئے کہ اسکی کہی ہوئی بات پر یقین کر لیا اور بلاوجہ سارا دن پریشان ہوتی رہی،
عصر اور مغرب کے درمیانی وقت کے قریب وہ کتابیں پھیلا ئے بیٹھی تھی کہ امی آ گئیں
"حریم مغرب کی نماز کے بعد تیار رہنا ہسپتال چلنا ہے تمہارے خالو سے ملنے،
"امی مجھے نہیں جانا،آپ مریم یا عنیب کو لے جائیں
حریم نے کہا اور بازو سے آنکھیں صاف کرتی ہوئی کلاس روم کی طرف دوڑ لگا دی،
گردن موڑے حریم اسے جاتے دیکھتی رہی،
_________________________
حریم اور ابیہ دونوں ساتویں جماعت میں زیر تعلیم، اور اسکول کے پہلے دن سے ایک سارہ تھیں، ہم عمر اور محلے دار بھی تھیں،ابیہ اچھی طرح جانتی تھی کہ حریم کے بابا جو بات ایک بار کہہ دیں وہ پتھر پر لکیر ہوتی ہے،
حریم جب سے اسکول سے آئی تھی یہ سوچ سوچ کے پریشن ہو رہی تھی کہ ابیہ نے اس سے اتنا بڑا مذاق کن کیا، کیونکہ گھر میں اسکے نکاح کے بارے میں کوئی بات نہیں ہوئی تھی، اور پھر گھر میں کسی تقریب کے کوئی آثار نہیں تھے،
اسےرہ رہ کر ابیہ اور خود پر غصہ آ رہا تھا ،
ابیہ پر اس لئے کہ اس نے جھوٹ بولا،
اور
خود پر اس لئے کہ اسکی کہی ہوئی بات پر یقین کر لیا اور بلاوجہ سارا دن پریشان ہوتی رہی،
عصر اور مغرب کے درمیانی وقت کے قریب وہ کتابیں پھیلا ئے بیٹھی تھی کہ امی آ گئیں
"حریم مغرب کی نماز کے بعد تیار رہنا ہسپتال چلنا ہے تمہارے خالو سے ملنے،
"امی مجھے نہیں جانا،آپ مریم یا عنیب کو لے جائیں
سارے دن کی ذہنی اذیت سے دو چار حریم
اس وقت تھکاوٹ محسوس کر رہی تھی، اس لئے منع کر دیا،
" دونوں کو ضرور لے چلتی پر تمہارا جانا زیا دہ ضروری ہے،
عالیہ بیگم نے اسکے سر پر ہاتھ پھیر تے ہوۓ کہا جس پر حریم ایک دم ٹھٹکی
"کیوں میرا جانا کیوں ضروری ہے؟ اور یہ اتنا ضروری کب سے ہو گیا ہے،؟
الا رم بجا تی چھٹی حس سے گھبراتی حریم نے پوچھا،
" ہے ضروری بتاؤں گی،اور ہاں سنو اپنا وہ عید کا نیا جوڑا پہن لینا،
عالیہ بیگم نے جاتے جاتے پلٹ کر ہدایت دی،
"امی ہم بیمار کی عیادت کو جائیں گے یا کوئی ولیمہ کی تقریب پہ،
حریم نے ایک بار پھر ماں کی باتوں پہ ز چ ہوتے ہوۓ کہا،
" دونوں ہی باتیں سمجھ لو
اور بس تم تیار رہنا،
عالیہ بیگم نے کہا اور چلی گئیں جبکہ حریم نے پیچھے سے آواز بھی دی پر وہ جا چکی تھیں،
"عید کا نیا جوڑا،تمہارا جانا ضروری، ابیہ کی نکاح والی بات،
ساری کہانی سلجھ چکی تھی،
حریم کی آنکھوں میں آنسو آ گے،
___________________
"السلام و علیکم کیسی ہیں آپ؟
"وعلیکم السلام میں الحمد اللّه خیریت سے ہوں،
آپ سنائیں کیسے ہیں،؟
" دونوں کو ضرور لے چلتی پر تمہارا جانا زیا دہ ضروری ہے،
عالیہ بیگم نے اسکے سر پر ہاتھ پھیر تے ہوۓ کہا جس پر حریم ایک دم ٹھٹکی
"کیوں میرا جانا کیوں ضروری ہے؟ اور یہ اتنا ضروری کب سے ہو گیا ہے،؟
الا رم بجا تی چھٹی حس سے گھبراتی حریم نے پوچھا،
" ہے ضروری بتاؤں گی،اور ہاں سنو اپنا وہ عید کا نیا جوڑا پہن لینا،
عالیہ بیگم نے جاتے جاتے پلٹ کر ہدایت دی،
"امی ہم بیمار کی عیادت کو جائیں گے یا کوئی ولیمہ کی تقریب پہ،
حریم نے ایک بار پھر ماں کی باتوں پہ ز چ ہوتے ہوۓ کہا،
" دونوں ہی باتیں سمجھ لو
اور بس تم تیار رہنا،
عالیہ بیگم نے کہا اور چلی گئیں جبکہ حریم نے پیچھے سے آواز بھی دی پر وہ جا چکی تھیں،
"عید کا نیا جوڑا،تمہارا جانا ضروری، ابیہ کی نکاح والی بات،
ساری کہانی سلجھ چکی تھی،
حریم کی آنکھوں میں آنسو آ گے،
___________________
"السلام و علیکم کیسی ہیں آپ؟
"وعلیکم السلام میں الحمد اللّه خیریت سے ہوں،
آپ سنائیں کیسے ہیں،؟
"میں بھی خریت سے ہوں، تو فائنلی یہ
ہماری پہلی بار کال پر بات ہو رہی ہے؟ "یس ، تو کیسا لگ رہا ہے،؟ "مجھے
تو اچھا ہی لگ رہا ہے، آپ بتائیں آپ کو کیسا لگ رہا ہے،؟ " ہوں ...مجھے کیسا
لگ رہا ہے، ابھی کچھ نہیں کہہ سکتی، بس کچھ نروس ہوں اس وقت، بےشک فیس بک اور واٹس
ایپ پر غالبا دو ماہ سے ہم لوگ چیٹ کرتے رہے ہیں ،پر آج کال پر بات کرتے ہوۓ کنفییوزڈ
ہو رہی ہوں
" ایسا کیوں ابرش؟ چلیں
ایک بات بتائیں، یقین ہے نہ مجھ پر کہ میں غلط نہیں ہو سکتا،؟ اعتبار کرتی ہیں مجھ
پر، "جی اعتبار تو کرتی ہوں،تبھی تو اپنا واٹس ایپ کا نمبر دیا، اور یقین کا
کچھ کہہ نہیں سکتی، ابرش نے مسکراہٹ دبا تے ہوۓ کہا، "اچھا اعتبار
کر لیا ہے تو پھر اس اعتبار کو قائم رکھنا بھی سیکھ لیں، یقین کو رہنے دیں، یہ
بتائیں جب آپ نے میری فیس بک کی پوسٹ کو لائک کیا اور کومنٹ میں یہ لکھا کہ کیا آپ
سے میسنجر پر بات ہو سکتی ہے تو ایسا کرنے پہ دل کیوں آمادہ ہوا؟ "وہ ...وہ
تو آپ کی پوسٹ کمال کی تھی، اور شاعری بھی زبردست تھی، تو مجھے لگا کہ آپ بھی میری
طرح اسی روگ کے مرض میں مبتلا ہیں،پھر مجھے لگا آپ سے بات کرنی چاہے، "کچھ آپ
کے دکھ سنتے ہیں کچھ اپنے دکھ آپ کو سناتے ہیں، "اوہ اچھا تو یہ بات ہے، چلیں
اعتبار تو کر لیا نا اور رہا یقین میرے غلط نہ ہونے کا تو وہ بھی آپ کو حسیم پر
دھیرے دھیرے ہونے لگے گا، حسیم کہہ کر مسکرا نے لگا، "ٹھیک ، " اور
سنائیں ابرش کیا مصروفیات ہیں آپ کی،؟ " کچھ خاص نہیں حسیم صاحب، دو سال پہلے
ایک پرائیویٹ اسکول میں جاب کرتی تھی،وقت گزاری کے لئے، آپ جانتے تو ہیں کہ گھر
میں میں امی اور ڈیڈی ہیں، ڈیڈی کا وقت گھر سے باہر گزرتا ہے اور امی سے کبھی میری
بنی نہیں، تو اس تنہائی سے جان چھڑا کر اسکول جوائن کر لیا،جو بعد میں چھوڑ دیا
تھا، اور اب پھر سے دل ہے کہ اسکول ہی جوائن کر لوں، یا یوں کہہ لیں کہ اسکول کے
آنر کو میری ضرورت آن پڑی ہے میری آرٹ بہت اچھی ہے تو اس لئے
اوہ ویری گڈ ،اچھا ہے چلی جائیں،
فیصلہ اچھا ہے آپکا پھر سے جوائن کرنے کا،
اور یہ بھی اچھا ہے کہ فضول کی فکروں سے جان چوٹ جائے گی آپکی،
حسیم نے خوش ہوتے ہوے کہا،
" جی اور پھر یہ ٹینشن ہو گی کہ کون سا سوٹ پہنا جائے میچینگ کیا ہو اسکے ساتھ،جوتا اور بیگ کی بھی ٹینشن ،
"اف ابرش ، آپکی بریک کہاں ہے؟ مجھے پریس کرنی ہے یار،
"سوری حسیم ،میں بہت زیا دہ بولتی ہوں نہ،
ابرش نے شرمندہ ہوتے ہوۓ کہا
"ارے نہیں یار،
اچھی بات ہے کہ آپ کی جھجھک ختم ہو رہی ہے،
" شائد..،چلیں حسیم صاحب پھر کبھی بات ہو گی،
اور ہاں حسیم صاحب آپ کی واٹس ایپ کی پروفائل ڈی پی بہت اچھی ہے،
"اوہ آپ کو میری پک اچھی لگی،چلیں میں اپنی کچھ تصویریں آپ کو سینڈ کرتا ہوں،
اوربدلے میں چھچھو رے لڑکوں کی طرح آپکی تصویر نہیں مانگوں گا،
آخر میں حسیم نے ہنستے ہوۓ کہا،
تو ابرش بھی ہنس دی،
"چلیں بھیج دیں،اور اللّه حافظ،
"اوکے اللّه حافظ جی،
حسیم نے کہا اور کال کاٹ دی،
________________
"عالیہ آپا میری جو خواہش ہے وہ تو ہے ہی،
آپ نے حریم سے پوچھا،
خالو نے بیڈ پر لیٹے لیٹے کہا
فیصلہ اچھا ہے آپکا پھر سے جوائن کرنے کا،
اور یہ بھی اچھا ہے کہ فضول کی فکروں سے جان چوٹ جائے گی آپکی،
حسیم نے خوش ہوتے ہوے کہا،
" جی اور پھر یہ ٹینشن ہو گی کہ کون سا سوٹ پہنا جائے میچینگ کیا ہو اسکے ساتھ،جوتا اور بیگ کی بھی ٹینشن ،
"اف ابرش ، آپکی بریک کہاں ہے؟ مجھے پریس کرنی ہے یار،
"سوری حسیم ،میں بہت زیا دہ بولتی ہوں نہ،
ابرش نے شرمندہ ہوتے ہوۓ کہا
"ارے نہیں یار،
اچھی بات ہے کہ آپ کی جھجھک ختم ہو رہی ہے،
" شائد..،چلیں حسیم صاحب پھر کبھی بات ہو گی،
اور ہاں حسیم صاحب آپ کی واٹس ایپ کی پروفائل ڈی پی بہت اچھی ہے،
"اوہ آپ کو میری پک اچھی لگی،چلیں میں اپنی کچھ تصویریں آپ کو سینڈ کرتا ہوں،
اوربدلے میں چھچھو رے لڑکوں کی طرح آپکی تصویر نہیں مانگوں گا،
آخر میں حسیم نے ہنستے ہوۓ کہا،
تو ابرش بھی ہنس دی،
"چلیں بھیج دیں،اور اللّه حافظ،
"اوکے اللّه حافظ جی،
حسیم نے کہا اور کال کاٹ دی،
________________
"عالیہ آپا میری جو خواہش ہے وہ تو ہے ہی،
آپ نے حریم سے پوچھا،
خالو نے بیڈ پر لیٹے لیٹے کہا
"ارے یار پوچھنے کی کیا
ضرورت ہے ،وہ بچی ہے ابھی ،اسے کیا پتا ان باتوں کا، حریم کے بابا نےخالو کے ہاتھ
پر اپنا ہاتھ رکھتے ہوۓ کہا، "پھر بھی یار ایک بار پوچھنے میں کیا حرج تھا، اچھا اب ہے
کہاں، میں خود پوچھ لیتا ہوں اس سے ، خالو نے ٹوٹی پھوٹی آواز میں پوچھا، وہ اپنی
خالہ کے ساتھ باہر بیٹھی ہے میں لے کر آتی ہوں، آپ تب تک شہر ال اور قاضی کا پتا
کریں، عالیہ بیگم نے کہا، اور باہر نکل گئیں، باہر حریم خالہ کے ساتھ بیٹھی باتیں
کر رہی تھی،جب انہوں نے پیغام دیا اور تینوں کمرے میں آ گئیں، "حریم بیٹا
یہاں آؤ، خالو نے دیکھتے ہی اسے ہلکی آواز میں اپنے پاس بلایا، حریم چھوٹے چھوٹے
قدم اٹھاتی ان کے پاس چلی گئی، "دیکھو بیٹا یہ بات آپکے امی ابو کو آپ سے
کرنی چاہے تھی، پر میں کہہ نہیں بلکہ پوچھ رہا ہوں، آپ کے خیال میں آپ کا جو بھی
فیصلہ ہو مجھے بتا دینا، انکار یا اقرار، جو بھی دل میں ہو کہہ دینا، پر مجھے
سمجھنے کی کوشش ضرور کرنا
حریم کو لگا اسکی سانس رک گئی
ہے، وہ گرنے والی تھی کہ اس نے جلدی سے بیڈ کی کراؤن کا سہارا لیا،اور آنکھوں کو
زور سے بند کر کہ کھولا کہ وہ دیکھ سکے محسوس کر سکے،کہ وہ زندہ ہے یا زندہ لاش،
اسکی آنکھوں کے سامنے اپنی پڑھائی کے متلعق ،کچھ بن کر اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے سے
متلعق سارے خواب ناچنے لگے، تو ابیہ کی بات سچ ہونے جا رہی تھی، نکاح پر کس سے،؟
حریم نے محسوس کیا کوئی اسے دور سے پکار رہا ہے، اس نے غور کیا تو خالو کی آواز
تھی، "بیٹی میں اس اڑھا ئی سال
کی بیماری میں آج پہلی بار محسوس کر
رہا ہوں کہ میرے پاس اب مزید وقت نہیں رہا، ہمت جواب دینے لگی ہے، وہ سانس لینے
رکے یہ بیماری اب اور مہلت نہیں دے گی، بیٹی میں چاہتا ہوں کہ سانس لیتےہوۓ مشکل
ہو رہی تھی، پر وہ بات بھی پوری کرنا چاہتے تھے، ان چند دنوں میں تمہیں اپنی بیٹی سے
بہو کے روپ میں دیکھ سکوں،اور میری خواہش ہے کہ تمہارا اور شہیر کا نکاح آج ہو جائے،
حریم نے بند ہوتی ہوئی آنکھوں سے خالو کو دیکھا لمحوں میں ریزہ ریزہ ہوتے وجود کو
پاؤں پر کھڑا رکھنے کی کوشش میں کامیاب رہی ورنہ کب کی گر چکی ہوتی، حریم نے انکار
کے لئے لب کھولے "خالو... "ہا...ں ہاں کہو...بیٹی... اور ساتھ ہی کھانسی
شروع ہو گئی اور ایک دم سے طبیعت بگڑ گئی، آنسو بہاتی ہوئی خالہ آگے بڑھیں اور
انکے سینے کو مسلنے لگیں، عالیہ بیگم ہاتھ مسلنے لگیں، حریم کے بابا نے پانی کا
گلاس لبوں کو لگایا، پیچھےکھڑی حریم نے ایک نظر خالو کو دیکھا، جو پانی سے بھری بے
بسی لئے آنکھوں سے شدید کھانسی کے عالم میں بھی اسے ہی دیکھ رہے تھے، اور دوسری
نظر خلاؤں میں دور سے آتی ابیہ کو، جس نے کہا تھا کہ آج اس کا نکاح ہے، "کاش
میں آج اسکول سے واپس گھر ہی نہ آتی، اپنے خوابوں کی تعبیر کے لئے اسکول سے ہی
کہیں بھاگ جاتی، "ابو.. حریم نے اپنے پاس کسی وجود اور پھر آواز کو محسوس
کیا، اس نے اپنے با ئیں طرف دیکھا وہاں شہیر کھڑا تھا، جو رو رہا تھا، خالو کی
حالت اب قدرے سنبھل چکی تھی،پر ابھی بھی حریم کو ہی دیکھ رہے تھے، "خالو ..
خالو میں آپ ..آپکی خوشی میں خوش ہوں، میری طرف سے انکار نہیں، حریم نے فیصلہ
سنایا اور باہر چلی گئی
سب کے چہروں پر خوشی کی لہر دوڑ گئی، شہیر
کے چاچو کے ساتھ قاضی صاحب کمرے میں داخل ہوۓ تو عالیہ بیگم حریم کے
پیچھے چلی گئیں جو ہسپتال کے لان میں لوگوں کی پرواہ کئے بغیر ہنگامہ کئے کھڑی تھی،
وہ اندر فیصلہ تو سنا آئی تھی،پر دوبارہ کمرے میں جانے کا اسکا کوئی ارادہ نہیں تھا،
عالیہ بیگم سمجھا سمجھا کہ تھک کہ اب بیٹھ چکی تھیں جب کافی دیر گزر جانے کے بعد
وہ لوگ کمرے میں نہیں آئیں تو حریم کے پاپا کو باہر آنا پڑا اور باہر کی صورتحال
دیکھ کر وہ غصے میں آ گے، پہلےکبھی ایسا نہیں ہوا تھا کہ کوئی انکی بات کو ٹال سکے
جو ایک بار انہوں نے کہہ دیا وہ ہر حال میں پورا ہو کہ رہتا، " نرم مزاجی
پیار محبت سے بہت بات ہو گئی،اب میں سختی سے پیش آؤں گا،اور یہ بھی بھول جاؤں گا
کہ ہم تینو ں کھڑے کہاں ہیں،؟ "نہیں بچی ہے سمجھ جائے گی،اسی لئیے میں نے آپ
سے کہا تھا صبح اس سے بات کر لیتے تو اچھا رہتا، عالیہ بیگم نے کھڑے ہو کر ڈرتے
ڈرتے ان سے کہا، "عالیہ سمجھاؤ اس کو ورنہ..... انہوں نے دانت پیستے ہوۓ حریم
کی طرف دیکھ کر کہا
ٹھیک ہے،
میں ابھی نکاح کے لئیے تیار ہوں پر میری ایک شرط ہے،
آپ اور خالہ کی فیملی مان لے تو مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے،
حریم نے نرم پڑتے ہوۓ باپ کی طرف دیکھتے ہوۓ کہا،
"تیری یہ ہمت،
اب تم باپ سے شرطیں منواؤ گی،
انہوں نے ہلکی آواز میں، مگر غراتے ہوۓ کہا، اور اسکی طرف بڑھے،عالیہ بیگم نے آگے بڑھ کر روک لیا،
"خدا کے لئیے اسکی بات تو سن لیں،
اور ساتھ ہی حریم کو بولنے کا کہا،
"اگر آپ ابھی نکاح چاھتے ہیں تو میں بھی آج اور ابھی رخصتی چاہتی ہوں،
حریم نے مسکراتے چہرے ک ساتھ بڑے اطمینا ن سے کہا،
اسکو یقین تھا کہ پاپا یہ کبھی نہیں چاہیں گے کیونکہ وہ اسکے خوابوں سے بخوبی اگاہ تھے،
اورایک بار انہوں نے حریم سے وعدہ بھی کیا تھا کہ اسکے خوابوں کی تعبیر تک اسکے ساتھ ہیں،
اور پھر اس چھوٹی سی عمر میں وہ حریم کی شادی کبھی نہیں چاہیں گے،اور خالو لوگ بھی،
بلکہ خاندان میں 25 سال سے پہلے شادی کا تو سوال ہی نہیں اٹھتا تھا،
سو حریم پرسکون تھی،
پر آج کا دن ہی برا تھا،سب الٹ ہوتا جا رہا تھا،
"ٹھیک ہے ہو جائے گی آج ہی تمہاری رخصتی بھی، ایسی اولاد کو اپنے گھر پر میں نے رکھنا کر کرنا بھی کیا ہے،
"چلو اب اندر،
انہوں نے سفاکی سے کہا اور چلے گے
پیچھے سے حریم نے آواز دی کہ شائد وہ نرم ہو جائیں،پر وہ ان سنی کرتے ہوۓ چلے گے
______________
ویسے تو کئی بار وہ خالہ کے گھر گئی تھی
میں ابھی نکاح کے لئیے تیار ہوں پر میری ایک شرط ہے،
آپ اور خالہ کی فیملی مان لے تو مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے،
حریم نے نرم پڑتے ہوۓ باپ کی طرف دیکھتے ہوۓ کہا،
"تیری یہ ہمت،
اب تم باپ سے شرطیں منواؤ گی،
انہوں نے ہلکی آواز میں، مگر غراتے ہوۓ کہا، اور اسکی طرف بڑھے،عالیہ بیگم نے آگے بڑھ کر روک لیا،
"خدا کے لئیے اسکی بات تو سن لیں،
اور ساتھ ہی حریم کو بولنے کا کہا،
"اگر آپ ابھی نکاح چاھتے ہیں تو میں بھی آج اور ابھی رخصتی چاہتی ہوں،
حریم نے مسکراتے چہرے ک ساتھ بڑے اطمینا ن سے کہا،
اسکو یقین تھا کہ پاپا یہ کبھی نہیں چاہیں گے کیونکہ وہ اسکے خوابوں سے بخوبی اگاہ تھے،
اورایک بار انہوں نے حریم سے وعدہ بھی کیا تھا کہ اسکے خوابوں کی تعبیر تک اسکے ساتھ ہیں،
اور پھر اس چھوٹی سی عمر میں وہ حریم کی شادی کبھی نہیں چاہیں گے،اور خالو لوگ بھی،
بلکہ خاندان میں 25 سال سے پہلے شادی کا تو سوال ہی نہیں اٹھتا تھا،
سو حریم پرسکون تھی،
پر آج کا دن ہی برا تھا،سب الٹ ہوتا جا رہا تھا،
"ٹھیک ہے ہو جائے گی آج ہی تمہاری رخصتی بھی، ایسی اولاد کو اپنے گھر پر میں نے رکھنا کر کرنا بھی کیا ہے،
"چلو اب اندر،
انہوں نے سفاکی سے کہا اور چلے گے
پیچھے سے حریم نے آواز دی کہ شائد وہ نرم ہو جائیں،پر وہ ان سنی کرتے ہوۓ چلے گے
______________
ویسے تو کئی بار وہ خالہ کے گھر گئی تھی
پر نکاح کے بعد رخصت ہو کے پہلی بار
خالہ کے گھر گئی تھی، خالو کی طبیعت پھر سے خراب ہو گئی تھی اس لئے خالہ وہیں رک
گئیں تھیں، حریم کو شہرال کے ساتھ گھر آ گئی، اس لئیے حریم کاسسرال میں خاص ویلکم
نہ ہو سکا، اور نکاح کے بعد سے شہیر کا کچھ پتا نہیں تھا، سب سے بڑی ایک بہن عنیہ،
شہیر، شہرال پھر عاصم . سب بہن بھائی زیر تعلیم تھے، عنیہ نویں جماعت میں،شہیر
آٹھویں، شہرال چھٹی اور عاصم کلاس فور میں تھا، وہ جب سے اس گھر میں آئی تھی،ایک
ہی جگہ پر بیٹھی مسلسل رو رہی تھی، عنیہ نے پہلے پہل بہت کوشش کی کہ وہ چپ ہو
جائے، جب حریم چپ نہیں ہوئی تو اسے اسکے حال پر چھوڑ کر اپنے کاموں میں مگن ہو
گئی، خالہ تھوڑی دیر کے لئیے گھر آئیں حریم انکو کو دیکھ کر اور شدت سے رو دی،
خالہ کو اس چھوٹی سی جان پر بے انتہا ترس آیا،خالہ نے اسکو بہت پیار کیا،اور
تسلیاں دیں، حریم خالہ کی گود میں ہی روتے روتے سو دی، شور کی آواز پر اسکی آنکھ
کھلی تو وہاں خالہ نہیں شہیر کھڑا اس پر چیخ رہا تھا
ایک تو اسے اپنے نا کردہ گناہ کی سزا پہ
رونا آ رہا تھا،
اوردوسرا اس وقت شدید بھوک لگی ہوئی تھی،
اور تیسرا اس وقت شہیر اسکے سر پر کھڑا چلا رہا تھا
یہ دیکھ کر حریم اور رو دی،
"یار کیا مصیبت آ گئی ہے ہمارے گھر میں،میں تو نکاح کے حق میں نہیں تھا،
اور اوپر سے یہ محترمہ رخصت بھی ہو کر آ گئیں،
"عجیب ڈرامہ بازی ہے،
"اوه لڑکی کون مر گیا ہے تمہارا ؟ کس کا سوگ منا رہی ہو یہ رونا دھونا ڈال کر،
شہیر نے پہلے حریم کو ڈانٹ کر کہا، اور پھر دروازے کو ٹھوکر مار کر عنیہ کو غصے سے کہا،
"عنیہ نکالو اسے یہاں سے ، ورنہ میں اسے اٹھا کے باہر پھینک دوں گا،
شہیر کو پہلی بار حریم اتنے غصے میں دیکھ رہی تھی،
اتنی بے عزتی ہونے پر حریم خود ہی اٹھ کر کمرے سے باہر نکلی کے پیچھے سے زور سے دروازہ بینڈ ہوا،
وہ ڈر کہ وہیں بیٹھ گئی،اور شدت سے رونے لگی،
_________________
ایک دن ابرش کی ساتھی ٹیچر ثنا نے اسے ایک لڑکے کی ایف.بی کی آئی.ڈی دکھائی پروفائل پک سے وہ لڑکا کمال کا لگ رہا، تھا،ایک نظر دیکھ کر لگتا کہ فیک ڈی.پی ہے پر اگر اسکی اپ لوڈ تصویروں کو دیکھا جائے تو مختلیف جگہ پہ مختلیف انداز میں لی گئی تھیں،
وہ فیک نہیں تھا اتنا تو پتا چل رہا تھا،
"ایف.بی فرینڈ ہے؟
ابرش کے پوچھنے پر ثنا نے بتایا کہ
ابھی نہیں پر چاہتی ہوں کہ فرینڈ بن جائے
اوردوسرا اس وقت شدید بھوک لگی ہوئی تھی،
اور تیسرا اس وقت شہیر اسکے سر پر کھڑا چلا رہا تھا
یہ دیکھ کر حریم اور رو دی،
"یار کیا مصیبت آ گئی ہے ہمارے گھر میں،میں تو نکاح کے حق میں نہیں تھا،
اور اوپر سے یہ محترمہ رخصت بھی ہو کر آ گئیں،
"عجیب ڈرامہ بازی ہے،
"اوه لڑکی کون مر گیا ہے تمہارا ؟ کس کا سوگ منا رہی ہو یہ رونا دھونا ڈال کر،
شہیر نے پہلے حریم کو ڈانٹ کر کہا، اور پھر دروازے کو ٹھوکر مار کر عنیہ کو غصے سے کہا،
"عنیہ نکالو اسے یہاں سے ، ورنہ میں اسے اٹھا کے باہر پھینک دوں گا،
شہیر کو پہلی بار حریم اتنے غصے میں دیکھ رہی تھی،
اتنی بے عزتی ہونے پر حریم خود ہی اٹھ کر کمرے سے باہر نکلی کے پیچھے سے زور سے دروازہ بینڈ ہوا،
وہ ڈر کہ وہیں بیٹھ گئی،اور شدت سے رونے لگی،
_________________
ایک دن ابرش کی ساتھی ٹیچر ثنا نے اسے ایک لڑکے کی ایف.بی کی آئی.ڈی دکھائی پروفائل پک سے وہ لڑکا کمال کا لگ رہا، تھا،ایک نظر دیکھ کر لگتا کہ فیک ڈی.پی ہے پر اگر اسکی اپ لوڈ تصویروں کو دیکھا جائے تو مختلیف جگہ پہ مختلیف انداز میں لی گئی تھیں،
وہ فیک نہیں تھا اتنا تو پتا چل رہا تھا،
"ایف.بی فرینڈ ہے؟
ابرش کے پوچھنے پر ثنا نے بتایا کہ
ابھی نہیں پر چاہتی ہوں کہ فرینڈ بن جائے
ریکویسٹ بھی بیجھی ، میسج بھی بیجھا پر
ابھی تک کوئی ریسپونس نہیں،
پھر کچھ ٹائم کے بعد ابرش نے اسکول چھوڑ دیا،
اسکول چھوڑنے کے تقریباً ایک سال بعد وہ ساتھی ٹیچر سے ملنے گئی،
تو ثنا نے باتوں میں اس لڑکے کا بتایا،
"بڑا ظالم ہے ابھی تک کوئی جواب نہیں دیا،
اورپھر ثنا نے ابرش کا بھی اکاؤنٹ بنا ڈالا،
ابرش اس لڑکے اور ثنا کی باتوں کو بھول چکی تھی،کہ ایک دن اسی لڑکے کی آئی.ڈی شو ہوئی، تو ابرش کو حیرت ہوئی، اور اس نے کچھ پوسٹ پہ لائک اور کومنٹ کر دیا،
کومنٹ میں یہ لکھا کہ آپ سے میسنجر پہ بات ہو سکتی ہے سر،؟
کچھ دن بعد اسکا میسج آ گیا،
ابرش کو خوشی بھی ہوئی اور حیرت بھی کہ اس نے ثنا کو تو کوئی جواب نہیں دیا پھر اسے کیوں؟
اور پھر میسنجر پر انکی بات ہونے لگی،
پھر ایک دن حسیم نے کہا،
"ابرش اگر آپکو برا نہ لگے تو ہم واٹس ایپ پہ بات کر سکتے ہیں، کیونکہ یہاں کبھی آپ آن لائن ہوتی ہیں تو کبھی میں،
تو ابرش نے اوکے میں جواب دے دیا،
اور اگلے ہی پل اسکا واٹس ایپ کا نمبر آ گیا، اور دونوں کی بات ہونے لگی،
اور بات ہوتے ہوتے غالبا ڈیڑھ سال ہو چلا تھا،
دونوں نے ایک دوسرے کو اپنے بارے میں حقیقت میں جو تھے وہی بتایا،
حسیم میر پور خاص کا رہنے والا تھا، چار بہنیں اور دو بھائی،سب شادی شدہ اور اپنے گھروں میں خوش،حسیم اور اس سے چھوٹی بہن غیر شادی شدہ تھے،
حسیم کسی سرکاری ادار ے کا ملازم تھا اور اچھی پوسٹ پر تھا،
ابرش اکلوتی اولاد تھی،گھر میں رزق کی فروا نی تھی، کئی دوکانوں پر مشتمل پلازہ اور بیس مر لے کا گھر،والدین کی شادی کے کئی سال بعد بھی جب وہ صاحب اولاد نہیں ہوۓ تو ابرش کے بابا اپنی سر گو دھا والی بہن کے پاس گے کہ جو سات دن پہلے بیٹے کی پیدائش ہوئی ہے انکو دے دیا جائے،اور بہن بھی نرم پر گئیں،
فیصلہ یہ ہوا کہ سوا ماہ بعد وہ اپنے بیٹے کو آ کر لے جائیں،
پھر اچانک انعام بیمار ہو گیا اور ٹھیک ہوتے ہوتے اسکی عمر چار سال کی ہو گئی،
اور پھر وہ ماموں کے پاس قصور آ گیا،
قصور آنے کے بعد ابرش کی اس دنیا میں آنے کی خوشخبری مل گئی، وہ تینو ں خوش تھے پھر جب ابرش اس دنیا میں آئی تو بابا نے یہ فیصلہ کیا کہ انعام کو ابرش سے جوڑ کہ دونوں کو اپنے پاس رکھ لیں گے، جبکہ ابرش کی ماما نے اپنے بھائی کے بیٹے حیدر کے حوالے سے خواب دیکھ رکھے تھے،
ابرش بھی جانتی تھی کہ انعام اسکا بھائی نہیں ہے ،
دونوں میں خوب دوستی تھی، اور کچی عمر کی یہ دوستی پسندیدگی میں بدل گئی،
دونوں کو جوانی کی طرف بڑھتے اور دونوں کی حد سے زیا دہ دوستی سے گھبرا کر بابا نے فیصلہ کیا کہ میٹرک کے بعد دونوں کا نکاح ہو جانا چاہے،
____________________
پھر کچھ ٹائم کے بعد ابرش نے اسکول چھوڑ دیا،
اسکول چھوڑنے کے تقریباً ایک سال بعد وہ ساتھی ٹیچر سے ملنے گئی،
تو ثنا نے باتوں میں اس لڑکے کا بتایا،
"بڑا ظالم ہے ابھی تک کوئی جواب نہیں دیا،
اورپھر ثنا نے ابرش کا بھی اکاؤنٹ بنا ڈالا،
ابرش اس لڑکے اور ثنا کی باتوں کو بھول چکی تھی،کہ ایک دن اسی لڑکے کی آئی.ڈی شو ہوئی، تو ابرش کو حیرت ہوئی، اور اس نے کچھ پوسٹ پہ لائک اور کومنٹ کر دیا،
کومنٹ میں یہ لکھا کہ آپ سے میسنجر پہ بات ہو سکتی ہے سر،؟
کچھ دن بعد اسکا میسج آ گیا،
ابرش کو خوشی بھی ہوئی اور حیرت بھی کہ اس نے ثنا کو تو کوئی جواب نہیں دیا پھر اسے کیوں؟
اور پھر میسنجر پر انکی بات ہونے لگی،
پھر ایک دن حسیم نے کہا،
"ابرش اگر آپکو برا نہ لگے تو ہم واٹس ایپ پہ بات کر سکتے ہیں، کیونکہ یہاں کبھی آپ آن لائن ہوتی ہیں تو کبھی میں،
تو ابرش نے اوکے میں جواب دے دیا،
اور اگلے ہی پل اسکا واٹس ایپ کا نمبر آ گیا، اور دونوں کی بات ہونے لگی،
اور بات ہوتے ہوتے غالبا ڈیڑھ سال ہو چلا تھا،
دونوں نے ایک دوسرے کو اپنے بارے میں حقیقت میں جو تھے وہی بتایا،
حسیم میر پور خاص کا رہنے والا تھا، چار بہنیں اور دو بھائی،سب شادی شدہ اور اپنے گھروں میں خوش،حسیم اور اس سے چھوٹی بہن غیر شادی شدہ تھے،
حسیم کسی سرکاری ادار ے کا ملازم تھا اور اچھی پوسٹ پر تھا،
ابرش اکلوتی اولاد تھی،گھر میں رزق کی فروا نی تھی، کئی دوکانوں پر مشتمل پلازہ اور بیس مر لے کا گھر،والدین کی شادی کے کئی سال بعد بھی جب وہ صاحب اولاد نہیں ہوۓ تو ابرش کے بابا اپنی سر گو دھا والی بہن کے پاس گے کہ جو سات دن پہلے بیٹے کی پیدائش ہوئی ہے انکو دے دیا جائے،اور بہن بھی نرم پر گئیں،
فیصلہ یہ ہوا کہ سوا ماہ بعد وہ اپنے بیٹے کو آ کر لے جائیں،
پھر اچانک انعام بیمار ہو گیا اور ٹھیک ہوتے ہوتے اسکی عمر چار سال کی ہو گئی،
اور پھر وہ ماموں کے پاس قصور آ گیا،
قصور آنے کے بعد ابرش کی اس دنیا میں آنے کی خوشخبری مل گئی، وہ تینو ں خوش تھے پھر جب ابرش اس دنیا میں آئی تو بابا نے یہ فیصلہ کیا کہ انعام کو ابرش سے جوڑ کہ دونوں کو اپنے پاس رکھ لیں گے، جبکہ ابرش کی ماما نے اپنے بھائی کے بیٹے حیدر کے حوالے سے خواب دیکھ رکھے تھے،
ابرش بھی جانتی تھی کہ انعام اسکا بھائی نہیں ہے ،
دونوں میں خوب دوستی تھی، اور کچی عمر کی یہ دوستی پسندیدگی میں بدل گئی،
دونوں کو جوانی کی طرف بڑھتے اور دونوں کی حد سے زیا دہ دوستی سے گھبرا کر بابا نے فیصلہ کیا کہ میٹرک کے بعد دونوں کا نکاح ہو جانا چاہے،
____________________
ابرش
کی ماما نے جب یہ بات سنی تو انہوں نے وا ویلا کھڑا کر دیا، اور انعام کو برداشت
کرنا اب انکے مشکل ہو رہا تھا، اور جب ابرش کو پتا چلا تو اس نے فیصلہ باپ کے حق
میں دے دیا، ماما سب کے خلاف ہوتی چلی گئیں انعام کو گھر سے نکل دیا ابرش کو بات
بات پہ ڈنٹتیں بابا سے علیحدد لڑتیں، ایک بار انعام واپس آیا اپنے کچھ سرٹیفکیٹ
لینے تو ابرش نے اسے گھر سے بھاگ جانے کو کہا،تب ابرش کو لگتا تھا یہ محبت ہے
انعام کے بغیر جی نہیں سکے گی، بہت روئی کہ انعام اسکو بھگا کر لے جائے، پر انعام
نہیں مانا اور قصور ہمیشہ ہمیشہ کے لئے چھوڑ کر سرگودھا چلا گیا، اسکے بعد تینوں
میں کبھی دوستی نہیں ہو سکی، بابا کا سارا وقت گھر سے باہر گزرتا، اور ماما کا
اپنے بھائیوں کی طرف، ابرش نے جیسے تیسے میٹرک کیا اور پھر پرائیویٹ طور پر گر
یجویٹ کر لیا، پھر وہ ہوتی اسکا کمرہ اور ناولز ہوتے
پھر اس تنہائی سے تنگ آ کر اس نے
پرائیویٹ اسکول جوائن کر لیا،
اور اس تمام عر صے میں انعام ایک بھولی ہوئی یاد کی طرح ذہن میں محفوظ تھا،
پھر ابرش کی دوستی حسیم سے ہو گئی، انعام کی شادی ہو رہی تھی،
ان دنوں ابرش ذہنی اذیت سے دو چار تھی، حسیم نے بہت محنت اور ہمت سے اسے سمبھالا اور زندگی کی طرف لے کر آیا،
____________________
خالو کی بیماری کی وجہ سے خالہ کے گھر کی مالی حالت بہت حد تک بگڑ چکی تھی، اور گھر کی جمع پونجی بھی خالو کی بیماری پر لگائی جا چکی تھی،پر خالو پھر بھی صحت یاب نہیں ہو رہے تھے،
نکاح کے بعد رات کے کچھ گھنٹے گھر پر گزار کر شہیر پھر سے غائب ہو چکا تھا،
حریم کی وجہ سے اسکا خالہ اور عنیہ سے شدید قسم کا جھگڑا ہوا تھا،اور وہ گھر چھوڑ کر جا چکا تھا،
حریم نے بھی کچھ دن سوگ منایا اور پھر نارمل ہونا شرو ع ہو گئی، رخصتی کے بعد سے پھر وہ اپنے گھر نہیں گئی،
گھر کی بگڑ تی مالی حالت اور خالہ کے بچوں کے تعلیمی اخراجات کو پورا کرنے کے لئے حریم میدان میں اتر آئی، حالا نکہ وہ خود ابھی بچی تھی پھر بھی اس نے خالہ کے گھر کی ڈوبتی کشتی کو بچانے کا فیصلہ کیا
اور اس تمام عر صے میں انعام ایک بھولی ہوئی یاد کی طرح ذہن میں محفوظ تھا،
پھر ابرش کی دوستی حسیم سے ہو گئی، انعام کی شادی ہو رہی تھی،
ان دنوں ابرش ذہنی اذیت سے دو چار تھی، حسیم نے بہت محنت اور ہمت سے اسے سمبھالا اور زندگی کی طرف لے کر آیا،
____________________
خالو کی بیماری کی وجہ سے خالہ کے گھر کی مالی حالت بہت حد تک بگڑ چکی تھی، اور گھر کی جمع پونجی بھی خالو کی بیماری پر لگائی جا چکی تھی،پر خالو پھر بھی صحت یاب نہیں ہو رہے تھے،
نکاح کے بعد رات کے کچھ گھنٹے گھر پر گزار کر شہیر پھر سے غائب ہو چکا تھا،
حریم کی وجہ سے اسکا خالہ اور عنیہ سے شدید قسم کا جھگڑا ہوا تھا،اور وہ گھر چھوڑ کر جا چکا تھا،
حریم نے بھی کچھ دن سوگ منایا اور پھر نارمل ہونا شرو ع ہو گئی، رخصتی کے بعد سے پھر وہ اپنے گھر نہیں گئی،
گھر کی بگڑ تی مالی حالت اور خالہ کے بچوں کے تعلیمی اخراجات کو پورا کرنے کے لئے حریم میدان میں اتر آئی، حالا نکہ وہ خود ابھی بچی تھی پھر بھی اس نے خالہ کے گھر کی ڈوبتی کشتی کو بچانے کا فیصلہ کیا
خاندان میں کسی کو اس نکاح کے بارے
میں نہیں پتہ تھا، سب یہی جانتے تھے کہ شہیر گھر کی ذمہ داریاں سمبھالنے کے قابل
نہیں تھا،اس لئے اپنی جان چھڑا کر بھاگ گیا ہے،خالہ ہسپتال میں ہونے کی وجہ سے
حریم گھر کی دیکھ بھال کے لئے خالہ کے گھر گئی ہے، بیماری سے پہلے خالو کا اپنا
میڈیکل اسٹور تھا، جس سے گھر کے اور بچوں کے اخراجات بخوبی پورے ہو رہے تھے،
بیماری کے بعد سے وہ مکمل طور پر بند تھا،حریم نے خالہ سے بات کی کہ وہ شہیر کے
چچا سے بات کر کہ کسی با اعتماد لڑکے کو شہرال کے ساتھ کھڑا کر دیں
شہر ال اسکول چھوڑ چکا تھا، وہ ناشتہ کرتا
اور باہر نکل جاتا، بہت دنوں سے حریم نوٹ کر رہی تھی، پر پوچھا نہیں، ایسے ہی ایک
دن عنیہ اور عاصم ناشتہ کر کہ اسکول جا چکے تھے، شہر ال ناشتہ کر کہ باہر نکلنے
لگا کہ حریم نے آواز دی،اور وہ پلٹ کر واپس صحن میں آ کر کھڑا ہو گیا، خالہ رات ہی
ہسپتال گی تھیں اور ابھی تک نہیں لوٹی تھیں، شہر ال کے چچا کا گھر ساتھ ہی تھا اس
لئے دونوں گھر ایک دوسرے کا سہارا تھے، "شہر ال میں جانتی ہوں تم اسکول نہیں
جاتے ہو ناشتہ کرتے ہو اور گھر سے چلے جاتے ہو، کہاں جاتے ہو تم،؟ حریم نے مطلب کی
بات کی، ویسے بھی وہ جب سے اس گھر میں آئی تھی، سب سے بس کام کی بات ہوتی تھی،
"ہاں کیونکہ میں اسکول چھوڑ چکا ہوں، اور یہ سب تمہاری وجہ سے ہوا ہے، نہ تم
ابھی اس گھر میں آتی نہ بھائی کو گھر چھوڑنا پڑتا، اور نہ مجھے اسٹور پہ بیٹھنا
پڑتا، اور میری جگہ بھائی اپنی ذمہ داریوں کو پورا کر رہے ہوتے، شہرال نے اتنے دن
کا غصہ حریم پہ نکل دیا، شہرال میں نے خالہ سے کہا تھا کہ اسکول کے بعد کا وقت تم
اسٹور پر بیٹھ جایا کرو، بیگا نے لڑکے پر ساری ذمہ داری نہیں ڈال سکتے، اور مجھے
خود یہاں آنے کا کوئی شوق نہیں تھا، لائی گئی ہوں وہ بھی مجبوری میں، اسکی آنکھوں
میں آنسو آ گے، "سنو شہر ال تم کل سے اسکول جانا شروع کرو، تمہارے گھر کا جو
بھی نقصان میری وجہ سے ہوا اسے میں پورا کروں گی، حریم نے نمی کو اندر اتارتے ہوۓ کہا،
لہجے میں نہ کوئی غصہ تھا نہ ہی کوئی احساس ،بس کچھ چبھن تھی جو اس نے شہرال کے لفظوں
میں محسوس کی تھی
جاری ہے
Comments
Post a Comment