" ہیلو عاشو ! یہاں ٹیرس پر کھڑی کیا کر
رہی ہو ؟ "
" کچھ نہیں یار بس موسم انجوائے کر رہی ہوں
"
" خیر تو ہے اتنے افسردہ سے انداز میں کیوں
کہہ رہی ہو کہ موسم انجوائے کر رہی ہوں ؟ "
"اچھا
تم ہی بتاؤ میڈم علیشبہ سہیل کہ میں کیسے کہوں ؟ "
"چھوڑو یہ کیا بحث کرنے لگ گئی ہیں ہم دونوں
"
" تم سناؤ علیشبہ سہیل بھائی کی کال آئی
تھی ؟
" ہاں یار یاد آیا ان کی کال آئی تھی
" اس نے ایزی چیئر پر بیٹھتے ہوئے کہا
" وہ تو بتا رہے تھے کہ ادھر لندن میں سردی بہت ہے اور میں نے کہا کہ ادھر گرمی بہت ہے
۔ "
" اچھا تم نے پوچھا نہیں کہ کب آئیں گے وہ
پاکستان ؟ "
" کہہ رہے تھے کہ اگلے ماہ آنے کی کوشش کر
رہا ہوں ۔ "
" اوہو پھر تو بڑی زبردست خبر ہے یہ۔ چلو
علیشبہ بھابھی نیچے چلیں- "
" عاشو ٹھہرو میں تمہیں بتاتی ہوں
-"
عائشہ جان بوجھ کر علیشبہ کو بھابھی کہہ کر تنگ کرتی تھی۔
وہ دونوں آگے پیچھے بھاگتی ہوئی سیڑھیوں سے نیچے اتر آئی۔
#########
#########
"اسلام علیکم سویٹ ہارٹ کیسی ہو ؟"
"میں ٹھیک ہوں اسد تم کیسے ہو؟ "
"میں بھی ٹھیک ہوں، کیا کر رہی ہو؟"
"کچھ نہیں میں فری ہوں۔ "
"اچھا ٹھیک ہے میں تمہیں لینے آ رہا ہوں
تم تیار ہو جاؤ کہیں باہر جاتے ہیں۔ خالہ امی کو تو کوئی اعتراض نہیں ہو گا؟" اسد نے جلدی سے پوچھا۔
"نہیں یار تمہارے ساتھ بھیجنے پر بھلا امی
کو کیا اعتراض ہو سکتا ہے۔ لیکن ابو کو ہو سکتا ہے پر مجھے ان کی پرواہ نہیں ہے۔" آخر میں اس نے غصے سے کہا ۔
"اچھا تم ریڈی ہو جاؤ میں پندرہ منٹ تک آتا
ہوں ۔" اللہ حافظ کہتے ہی اس نے کال کاٹ دی اور روم سے باہر نکل گیا۔
" ہیلو ماما۔ " اسد نے لاؤنج میں موجود
ماں کو دیکھا تو ادھر ہی آ گیا۔
"ہائے بیٹا کیسے ہو ؟"
"میں بالکل ٹھیک آپ کے سامنے ہوں ! ماما
نادیہ اور نازش کہاں ہیں؟"
"بیٹا نازش یونیورسٹی گئی ہے اور نادیہ اپنے
کمرے میں ہے تم بتاؤ تمھارے ایگزام کب شروع ہو رہے ہیں؟"انھوں نے بہنوں کے بارے
میں بتاتے ہوئے سوال بھی کر ڈالا۔
"ماما چودہ تاریخ کو۔"
"تو بیٹا کیسی تیاری ہے ؟"
"بہت اچھی تیاری ہے ماما ۔اس بات کو چھوڑیں
میں آپ کو بتانے آیا تھا کہ میں باہر جا رہا ہوں۔" اس نے پلٹتے ہوئے کہا۔
"اچھا ٹھیک ہے جلدی سے جانا اور جلدی آنا۔"
"اوکے ماما۔"اس کے ساتھ ہی وہ ڈرائنگ
روم سے باہر نکل گیا ا ب وہ اپنی کار کی طرف بڑھ رہا تھا۔
######## #########
مصطفی احمد کے دو
بیٹے کمال احمد اور جمال احمد تھے ۔کمال احمد کا اپنا کپڑے کا کاروبار تھا ان
کی بیگم شگفتہ کمال ۔ان کی اولاد میں ایک بیٹی اور دو بیٹے ہیں بڑا بیٹا سہیل احمد
جو لندن میں جاب کرتا ہے اس کو اپنے کاروبار میں کوئی دلچسپی نہیں تھی اس لیے اس نے
جاب کرنے کا سوچا اور اسے اچھے تعلیمی قابلیت کی وجہ سے لندن میں بہت اچھی پوسٹ پر
جاب مل گئی۔
اس سے چھوٹا ذیشان جو بی ایس سی کر رہا تھا ۔ سب سے چھوٹی
عائشہ وہ بھی بی ایس سی کی سٹوڈنٹ تھی ۔ وہ بہت خوبصورت، دراز قد، اسمارٹ، لمبی گردن
اور سنہری آنکھیں جو کہ دھوپ میں بہت چمکتی تھیں۔ لمبے براؤن بالوں کی جب ٹیل
پونی کرتی تو اس کی خوبصورتی میں اضافہ ہو جاتا۔ اس کی سنہری آنکھیں جن میں جب وہ کاجل ڈال لیٹی
تو سب دیکھنے والے ستائشی نظر اس پر ڈالتے۔
اس کی آنکھوں کی چمک دن کی روشنی میں اور بڑھ جاتی۔
جمال احمد
بھی اپنے بھائی کے ساتھ کام کرتے تھے ۔ان کی بیگم آمنہ جمال، ان کی ایک ہی بیٹی علیشبہ
تھی، وہ ڈبل میتھ میں بی ایس سی کر رہی تھی۔ علیشبہ کی منگنی سہیل احمد سے کر دی تھی،
جب وہ لندن جا رہا تھا تا کہ وہ وہاں جا کر
گوری میموں کے چکروں میں نہ پڑے ۔ یہ چھوٹی سی فیملی مصطفی کمال کی تھی سب ہی ہنسی
خوشی اپنی اپنی دنیا میں مگن تھے۔
وقاص ولاء کا ایک ہی بیٹا تھا ۔ عاشر ولاء اور ان کی بیوی
ماہم عاشر ان کے چار بچے تھے تین بیٹیاں اور ایک بیٹا ۔ بڑی بیٹی نگارش جو شادی شدہ
تھی اور اس کا ننھا منا بیٹا بھی تھا ،اس سے چھوٹا اسد ولاء جو ایم ایس سی کے فائنل
ایئر میں تھا، تیسرے نمبر پر نادیہ تھی جس کی اپنے پھوپھو زاد کزن حیدر سے منگنی کر
دی تھی۔
سب سے چھوٹی نازش سب کی لاڈلی سیکنڈ ایئر کی طالبہ تھی جو بھائی کی جان
تھی ۔ عاشر ولاء کی دس سال پہلے کار ایکسیڈنٹ میں ڈیتھ ہو گئی تھی۔ پہلے سارا
بزنس ماہم خود دیکھتی تھی لیکن پھر شہزاد کی
سٹڈی مکمل ہوئی تو اس نے سارا بزنس سنبھال لیا حیدر بھی اس کام میں اس کی مدد کرتا تھا۔ اب سب کو اسد کی سٹڈی کمپلیٹ ہونے کا انتظار تھا
تاہم کہ وہ سارا بزنس اس کے حوالے کر سکیں اسد کی والدہ، عائشہ کی ماما اور ثانیہ کی
ماما تینوں بہنیں تھیں -
######## ######## #########
"اسلام علیکم! آپا کیا حال ہے ؟"
"میں ٹھیک ہوں شگفتہ! تم سناؤ کیسی ہو ؟
گھر میں سب کیسے ہیں؟ میری بیٹی عائشہ کیسی ہے ؟"
"سب ٹھیک ہے آپا عائشہ اور ذیشان یونیورسٹی
گئے ہیں ۔ اسد کیسا ہے کیا کر رہا ہے آجکل آپا ؟"
"کچھ نہیں بس پیپروں میں بزی ہے۔"
"اچھا ٹھیک ہے آپا میں فون رکھتی ہوں بچے
آنے والے ہیں میں کھانا وغیرہ لگواؤں ۔"
" ٹھیک ہے شگفتہ اپنا خیال رکھنا۔
" کہہ کر انھوں نے کال کاٹ دی اور خود کچن کی طرف بڑھ گیئں۔ ابھی وہ کک کو کھانے کے بارے میں ہدایات دے دہی
تھی کہ اسد کی آواز آنا شروع ہو گئی
"ماما کہاں ہیں آپ؟"
"بیٹا میں کچن میں ہوں۔ "انھوں نے بیٹے
کی آواز سن کر جواب دیا ۔
"اچھا ماما جلدی باہر آئیں بات کرنی ہے آپ
سے۔"
"آتی ہوں ماما کی جان بس دو منٹ صبر کرو۔
"
"اچھا جلدی آئیں۔ "
دو منٹ بعد وہ کچن سے باہر آئیں تو اسے ٹہلتے ہوئے دیکھا۔
"کیا ہوا بیٹا" are
you OK?
"یہاں آئیں ۔" اس نے جلدی سے ان کو
پکڑ کر صوفے پر بٹھا دیااورخودانکے پاس نیچے قدموں میں گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا-
"کیا بات ہے بیٹا مجھے تم کچھ نروس لگ رہے
ہو، کیا بات کرنی ہے ؟ "ماما نے پوچھا-
" ماما میں ثانیہ سے شادی کرنا چاہتا ہوں-
"
اسد کی بات سن کر ماہم بیگم صوفے سے اٹھ کھڑی ہوئیں-
" کیا بکواس کر رہے ہو تم اسد ؟ " بیٹے
کی طرف غصے سے دیکھتے ہوئے انھوں نے کہا -
"میں بکواس نہیں کر رہا بتا رہا ہوں آپ کو
میں ثانیہ سے بہت پیار کرتا ہوں اور اس سے شادی کرنا چاہتا ہوں-"
"مجھے وہ لڑکی نہیں پسند اسد بلکہ تمہارے
ماموں بھی اس کے لیے راضی نہیں ہوں گے اور تم جانتے ہو میں ان کے فیصلے کے بغیر کچھ
نہیں کروں گی-"
"ماما میں ان سے خود بات کر لوں گا اور آپ
یہ بھی جانتی ہیں کہ وہ مجھ سے کتنا پیار کرتے ہیں جاں ہے مجھ میں ان کی۔" اس نے مسکراتے ہوئے کہا -
"اور وہ عائشہ سے بھی بہت پیار کرتے ہیں
میرے بچے اگر تم میں ان کی جان ہے تو عائشہ بھی ان کی جان ہے- "
"ماما یہاں عائشہ کا ذکر کہاں سے آ گیا میں
آپ کو بتا رہا ہوں مجھے ہر حال میں ثانیہ سے شادی کرنی ہے-"
"ٹھیک ہے اسد تم میرے اکلوتے بیٹے ہو اور
مجھے تمہاری ہر خوشی سب سے زیادہ عزیز ہے میں علی بھائی کو منا لوں گی-"
"لو یو ماما سویٹ ماما -" کہتے ہی وہ
ان کے ساتھ لپٹ گیا -"مجھے پتہ تھا آپ
میری بات مان جائیں گی میں ثانیہ کو بتا کر آتا ہوں۔ وہ بہت خوش ہوگی-"کہتے ہیں
وہ اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا ۔
######
###### #####
"علیشبہ ، عائشہ! ذیشان کہاں ہے؟"
" ماما ہم فریش ہو کر آتی ہیں-
" وہ دونوں آہستہ آہستہ سیڑھیاں چڑھنے
لگیں۔
" عائشہ میں نے تمہیں دونوں سے کچھ پوچھا
ہے-"
" ماما بھائی اپنے کسی دوست سے ملنے گیا
ہے-"
" آنے دو آج ذرا اسے آج اس کی تو خیر نہیں
ہے میرے ہاتھوں سے-" وہ غصے سے کہتی ہوئی
کچن کی طرف چلی گئیں اور وہ دونوں ہنستے ہوئے
سیڑھیاں چڑھتے چھت پہ چلی گئی، تھوڑی دیر بعد وہ فریش ہونے کر نیچے آئیں تو شگفتہ بیگم
سہیل سے فون پر بات کر رہی تھیں۔
" عائشہ یہ لو بھائی سے باتیں کرو وہ تمھارا
پوچھ رہا ہے-"
"اسلام علیکم بھائی-" موبائل پکڑ کر کان سے لگاتے ہی سلام کیا -
"وعلیکم السلام میری گڑیا کیسی ہو؟"
"میں ٹھیک ہوں۔ آپ کیسے ہیں اور کب آ واپس
آ دہے ہیں؟ " اس نے چہکتے ہوئے پوچھا -
"میں بالکل ٹھیک ہوں اور میں کچھ دنوں تک
چکر لگاتا ہوں پاکستان کا۔"
"اچھا بھائی-"
"اور سناؤ تمھاری بھابھی کہاں ہے ؟
"
"کیوں خیریت ہے جناب سہل صاحب-"
"میں بتاتا ہوں تمہیں خیر کی بچی
-" اس نے مسکراتے ہوئے کہا وہ بھی کھلکھلا کر ہنس پڑی اور موبائل علیشبہ کی طرف
بڑھا دیا وہ موبائل لے کر صوفے پر بیٹھ کر بات کرنے لگی اور وہ کھانے میں مصروف ہو
گئی-
" ماما
! چچی کبھی تک واپس آ جائیں گی ان کے بغیر گھر سونا سونا لگ رہا ہے" آمنہ کچھ دن پہلے اپنی امی سے ملنے لاہور گئی ہوئی
تھی -
"بیٹا کل جائیں گے تمھارے چاچو لینے-"
" تھینک گاڈ ! وہ واپس آئیں گی تو میں نے
پکا ناراض ہو جانا ہے ان سے وہاں جا کر ہمیں بھول ہی جاتی ہیں-"
"بری بات عائشہ- "
"ماما میں تو مذاق کر رہی ہوں آپ تو سیریس
ہی ہو گئیں۔" اس نے کہا تو وہ مسکرا دیں
۔
"علیشبہ میڈم آ جائیں کھانا کھانے ٹھنڈا
ہو رہا ہے-" علیشبہ کی طرف دیکھ کر اس
نے مسکراتے ہوئے کہا تو وہ بھی مسکرا دی۔
###### ###### #######
"اسد بیٹے تم جاؤ میں تمھارے ماموں سے بات
کر کے ڈرائیور کے ساتھ آ جاؤں گی- "
"ٹھیک ہے ماما- " کہتے ہی اس نے کار
کو واپس وقاص ولاء کی طرف موڑ دیا۔
"اسلام علیکم بھائی-"
علی جوباہر پودوں کی گوڈی کرنے میں مصروف تھے ان کو دیکھ
کر جلدی سے کھڑے ہو گئے -
"ارے ماہم اتنی صبح صبح خیریت تو ہے سب اور
کس کے ساتھ آئی ہو؟"
" بھائی اتنے سارے سوال سانس تو لینے دیں۔"
"آؤ بیٹھو پہلے تم -" انھوں نے ماہم بیگم
کو چیئر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا اور خود ملازم کو آوازدینے لگے۔
" بھائی میں آپ سے بہت ضروری بات کرنے آئی ہوں کچھ بھی مت
بنوائیے گا-"
" ایسے کیسے نہ بنواؤں۔ جاؤ جا کر چائے بنا
کر لاؤ-" انھوں نے ملازم کی طرف دیکھ
کر کہا جو ان کی آواز پر دوڑا آیا تھا۔
"اب پہلے بتاؤ کسی کے ساتھ آئی تھیں؟
" بہن کی طرف متوجہ ہو کر انھوں نے پوچھا
-
"میں اسد کے ساتھ آئی ہوں وہ مجھے باہر چھوڑ
کر چلا گیا ہے-"
" وہ اندر کیوں نہیں آیاٗ؟"انھوں نے خفگی
سے بہن کی طرف دیکھا-
" میں نے ہی بھیج دیا اسے کیونکہ مجھے آپ
سے ضروری بات کرنی ہے-" انھوں نے جلدی
سے وضاحت دی مبادا کہیں ناراض ہی نہ ہوجائیں-
"ہاں بولو ماہم تم کچھ پریشان لگ رہی ہو-"انہوں
نے غور سے بہن طرف دیکھتے ہوئے کہا جن کے چہرے پر پریشانی رقم تھی۔
" آپ بھی سنیں گےتو آپ بھی پریشان ہو جائیں
گے۔"
"ہوا کیا ہے بتاؤ تو سہی؟ " اب کے وہ
پریشانی سے بولے-
"اسد ثانیہ سے شادی کرنا چاہتا ہے-"اب
کے انھوں نے دھماکہ کیا -
"دماغ تو نہیں خراب ہو گیا اس سے کا ؟
" انھوں نے غصے سےکھڑے ہوتے ہوئے کہا -
" مجھے وہ لڑکی بالکل اچھی نہیں لگتی بے
شک وہ میری بھانجی ہے لیکن مجھے اس کا چال چلن ، بول چال اور خاص طور پر اس کا لباس
کچھ بھی نہیں پسند ۔ میں اس لڑکی کو بیاہ کر وقاص ولاء لے آؤں اور وہ بھی اپنے شہزادے
کے لیے کبھی بھی نہیں یہ ناممکن ہے ایسا کبھی نہیں ہو گا۔اسد کی اگر شادی ہو گئی تو
صرف عائشہ کے ساتھ" آخر میں انھوں نے
اپنا حتمی فیصلہ سنایا -
"بھائی مجھے بھی وہ پسند نہیں ہے میں بھی
چاہتی ہوں کہ عائشہ ہی میری بہو بنے ۔ بھائی میرے پاس ایک آئیڈیا ہے-"
"وہ کیا ؟" انھوں نے حیرانگی سے دیکھتے
ہوئے پوچھا -
"آپ کو پتہ ہے نا کہ ثانیہ کے ابو پسند کی
شادی کے کتنا خلاف ہیں اگر کسی طرح ان کو پتہ چل جائے کہ ثانیہ اسد کو پسند کرتی ہے
تو سارا مسئلہ خود بخود حل ہو جائے گا ہمیں کچھ بھی کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔"
"ماہم میں تمہیں ایک بات بتا دوں میں اگر
اسد کی شادی کسی کے ساتھ کروں گا تو وہ لڑکی عائشہ ہی ہو گی ورنہ اسد کی شادی میں نہیں
کروں گا۔" آخر میں انھوں نے دوبارہ یاددہانی کروائی -
"بھائی میں بھی یہی چاہتی ہوں-" انھوں
نے جواب میں ان کو تسلی دی -
"چلیں پھر ٹھیک ہے ہم اتوار کو رشتہ لیکر
ان کے گھر جائیں گے-"ساتھ ہی انھوں نے اپنا پروگرام بنا ڈالا -
"اچھا ٹھیک ہے- " وہ سوچتے ہوئے ہامی
بھر رہے تھے-
###### ###### ######
"شگفتہ باجی، ماہم ثانیہ کا رشتہ لے کر آ
رہی ہیں اتوار کو ۔"
"کیا آپا ، آپ کو کس نے بتایا ؟ " کنزہ
بیگم کی بات سن کر انھوں نے افسردہ سے انداز میں پوچھا -
"اس نے خود فون کر کے بتایا ہے-"
" اچھا آپا میں تھوڑی دیر بعد آپ سے بات
کرتی ہوں، سہیل کی کال آ رہی ہے میں وہ سن لوں-" انھوں نے کہتے ہی کال کاٹ دی
-
"یہ کیا ہو گیا ہےایک سیکنڈ میں میری بچی کی ہنستی بستی زندگی برباد ہو جائے گی۔
میری عاشو کا کیا ہوگا؟ وہ تو جیتے جی مر جائے گی-" سر پر ہاتھ رکھ کر انھوں نے فکرمندی سے سوچا -
شگفتہ بیگم نے جلدی سے دوبارہ موبائل پکڑ کر علی صاحب کو
کال ملائی-
"اسلام علیکم علی بھائی- "
"وعلیکم السلام! شگفتہ کیسی ہو تم اور عائشہ
میری گڑیا کیسی ہے؟"
"میں ٹھیک ہوں بھائی اور عائشہ بھی اب تک
ٹھیک ہے-"
"کیا مطلب اب تک ٹھیک ہے-" انھوں نے
بےقراری سے پوچھا -
" بھائی جان آپ نے عائشہ کے دل میں اسد کا
پیار بھر دیا اور کہا کہ تم کسی اور کے خواب نہ دیکھو میری بچی ،میں تمھاری شادی اسد
سے کرواؤں گا وہ اب اسد سے پیار کرنے لگی ہے
،اس کی رگ و جاں میں اسد بس چکا ہے اور اب آپ اسد کا رشتہ ثانیہ کے لیے لے کر جا رہے
ہیں ،میں کیسے سنبھالوں گی اپنی بچی کو وہ ٹوٹ کر بکھر جائے گی میں نہیں سنبھال سکتی
اس کو- " وہ روتے ہوئے علی صاحب سے شکوہ کر رہی تھیں۔
اس بات سے بے خبر کی عائشہ سب سن چکی ہے وہ جو اپنی ماں
سے کوئی بات کرنے آئی تھی اس بات سے بے خبر کہ اس کی ماں آگے بے چینی سے سر پکڑ کر
بیٹھی تھی ابھی وہ آگے بڑھ کر ان کی طبیعت کے بارے میں پوچھتی اس کی ماں نے بے چینی
سے فون ملا کر بھائی سے بات شروع کردی اور گویا عائشہ کے پاؤں سے زمین کھینچ لی تھی۔
وہ بھاگتے ہوئے اپنے کمرے میں گئی بیڈ پر اوندھے گر کر روتے ہوئے وہ سوچ رہی تھی۔
"نہیں ایسا نہیں ہو سکتا ماموں میرے ساتھ
ایسا نہیں کرسکتے وہ میرے خوابوں کا شہزادہ ہے اگر وہ مجھ سے روٹھ کر چلا گیا تو میں
کیسے رہوں گی اگر ماموں کو پتہ تھا کہ وہ ثانیہ سے شادی کرنا چاہتا ہے تو مجھے اس کے
خواب کیوں دکھائے آپ تو کہتے تھے کہ آپ اپنی لاڈلی کی آنکھوں میں آنسو نہیں دیکھ سکتے تو پھر آپ نے کیوں میرے
لیےایسا کیا کیوں کیا ماموں ؟"وہ اپنے جان سے پیارے ماموں سے بے حد بدگمان ہو
رہی تھی، روتے ہوئے کب اس پر نیند کی دیوی مہربان ہوئی اسے پتہ ہی نہ چلا-
###### ####### ######
آخر اتوار کا دن بھی آ گیا جس کا ثانیہ کو بے صبری سے انتظار
تھا ،وہ دل لگا کر تیار ہوئی بلیک جینز کی ساتھ ریڈ ٹی شرٹ شولڈر کٹ بالوں کو اس نے
کھلا چھوڑ دیا۔ آنکھوں میں کاجل لگایا ہونٹوں پر ریڈ اور سرمئی لپ اسٹک مکس کر کے لگائی
اور خود کو ایک نظر آئینے میں دیکھا اور اوکے کر کے وہ باہر
آ گئی جہاں علی صاحب اور ماہم بیگم موجود تھے۔
کنزہ بھی پاس بیٹھی ان سے باتوں میں مصروف تھیں، البتہ ثانیہ کے ابو ظفر صاحب
وہاں موجود نہیں تھے۔
"آؤ ثانیہ بیٹا ۔"
"اسلام علیکم خالہ ماں۔" اس نے آگے بڑھ کر ان کو سلام کیا ۔
"اسلام علیکم ماموں۔ "
"وعلیکم السلام "
باری باری دونوں نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا ۔
"دل تو چاہ رہا ہے کہ زوردار تھپڑ اس کے
منہ پر لگاؤں ۔" انھوں نے منہ میں بڑبڑاتے ہوئے کہا ۔
"آپا بھائی صاحب کہاں ہیں نظر نہیں آ رہے۔
"
"ان کے آفس کا کوئی کام تھا وہ کر رہے تھے
میں بلاتی ہوں ان کو۔" وہ اٹھنے ہی لگی
تھی کہ وہ سامنے سے آتے ہوئے دکھائی دیئے ۔
"اسلام علیکم بھائی صاحب۔ "دونوں نے
کھڑے ہوتے ہوئے کہا ۔
" بیٹھو ماہم بیٹھو علی کیوں کھڑے ہو تم
دونوں۔"
"بھائی صاحب ہم آپ سے ایک ضروری بات کرنے
آئے ہیں۔ "
" ہاں ماہم بولو ؟ "
" بھائی صاحب میں اپنے اسد کے لیے ثانیہ
کا ہاتھ مانگنے آئی ہوں۔ "
" ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے ماہم تم جب چاہو
آ کر ثانیہ کو دلہن بنا کر لے جاؤ ۔"
" بھائی صاحب اسد کب سے میرے پیچھے پڑا ہوا
ہے کہ ماما میں ثانیہ سے شادی کرنا چاہتا ہوں ،میں اس سے بہت پیار کرتا ہوں ،میں نے
بھی کہا بیٹے تم میرے اکلوتے بیٹے ہو مجھے تمھاری خوشی عزیز ہے اور ویسے بھی بھائی
صاحب کوکیا اعتراض ہو گا۔ "
"مجھے اعتراض ہے اب۔ "
"کیا کہہ رہے ہیں آپ ؟ " کنزہ نے انھیں
حیرانگی سے ان کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا -
"کس
بات پر اعتراض ہے ظفر بھائی آپ کو ؟ " اب کی بار علی بولے تھے-
"
میں پسند کی شادی کو نہیں مانتا ، شکریہ آپ جا سکتے ہیں -" انھوں نے کھڑے ہوتے ہوئے کہا۔
وہ دونوں اٹھے اور آہستہ سے ڈرائینگ روم سے باہر نکل گئے
،دونوں کے چہرے پر دھیمی سی مسکان تھی-
####### ###### #######
گیٹ سے اندر گاڑی داخل ہوئی تو وہ بے چینی سے گاڑی کی طرف
بھاگا -
" کیا کہا ماما خالو نے ؟ " اس نے بڑی
بے صبری سے پوچھا -
" ماموں ماما کیوں خاموش ہیں آپ بتائیے کہ
کیا کہا ثانیہ کے ابو نے ؟ "اب کے اس نے علی صاحب کو سوال کیا -
"انھوں نے شادی سے انکار کر دیا ہے-
"
" واٹ!
لیکن کیوں؟ " اس کے لہجے میں بے یقینی تھی-
"وہ پسند کی شادی پر یقین نہیں رکھتے ہیں-"
"اوکے، فائن لیکن آپ کو میں ایک بات بتا
دوں میں شادی کروں گا تو صرف اور صرف ثانیہ سے بے شک اس کے لیے مجھے اس کو گھر سے کیوں
نہ بھگانا پڑے -"
" اسد !" انھوں نے کہتے ساتھ ہی ایک زو دار تھپڑ اسے دے مارا تھا۔
" ہوش میں تو ہو ! تم کیا بکواس کر رہے ہو ؟
" ماہم نے غصے سےگرجتے ہوئے کہا ۔ علی بھی ابھی تک حیرانگی سے
کھڑے اسد کی طرف دیکھ رہے تھے ۔
" وقاص ولاء کا پوتا عاشر ولاء کا بیٹا اب
لڑکی کو گھر سے بھگا کر اس سے شادی کرے گا واہ بیٹا واہ! خوب نام روشن کرو گے اپنے
باپ دادا کا۔ مگر اب تم میری ایک بات کان کھول کر سن لو تمھیں اپنی ماں اور اس لڑکی
میں سے کسی ایک کو چننا ہو گا اگر تم اس سے شادی کرو گے تو اپنی ماں کو ہمیشہ کے لیے
کھو دو گے۔ "
" ماما! " اس نے ماں کی بات پر تڑپ کر کہا -
"میں ٹھیک کہہ رہی ہوں یہ مت سمجھنا کہ یہ
میرا جذباتی فیصلہ ہے یہ میرا اٹل فیصلہ ہے اسے کوئی بھی نہیں بدل سکتا۔اب سوچ لینا
تمہیں کون چاہیئے تمھاری ماں یا وہ لڑکی ؟" وہ اپنا فیصلہ سنا کر اندر بڑھ گئی
۔
علی صاحب بھی ان کے پیچھے چل دیے-
####### ###### #######
" عاشو کیا بات ہے تم کمرے میں کیوں بیٹھی
ہو؟ "
" کچھ نہیں بھابھی میرے سر میں درد ہو رہا
ہے-"
" تم نے میڈیسن لی؟" علیشبہ نے فکرمندی سے دیکھتے ہوئے پوچھا -
" ہاں ! آپ پلیز مجھے تنہا چھوڑ دیں میں
اکیلی رہنا چاہتی ہوں۔"
" لیکن عاشو ! "
" بھابھی پلیز" leave
me alone اس نے بھیگے لہجے میں کہا تو
وہ فورا کمرے سے نکل گئی۔
" ماما عاشو کو کیا ہوا کہہ رہی ہے کہ مجھے
اکیلا چھوڑ دو ؟"علیشبہ نے فکرمندی سے ساس سے پوچھا -
" مجھے لگتا ہے علیشبہ اس نے میری کل والی
باتیں سن لی ہیں- "
" کونسی باتیں ماما ؟"
" ماہم ثانیہ کا رشتہ مانگنے گئی ہے آج اسد
کے لیے- "
" کیا ؟ ماما یہ کیا کہہ رہی ہیں آپ ؟ عاشو اسد کے بغیر نہیں رہ سکتی-" اس کے لہجے
میں بھی فکرمندی جھلک رہی تھی-
" فون بج رہا ہے دیکھو کس کا ہے اگر علی
یا ماہم میں سے کوئی ہو تو میرے پاس نہ آنا
کہہ دینا ماما بازار گئی ہیں- "
"اچھا ٹھیک ہے ماما -"
" ہیلو! اسلام علیکم- "
"وعلیکم السلام ! علیشبہ بیٹی کیسی ہو ؟" علی صاحب کی آواز ابھری -
" میں ٹھیک ہوں ماموں آپ کیسے ہیں مجھے پتہ
چلا کہ آپ اسد بھائی کا رشتہ مانگنے گئے تھے کیا کہا انھوں نے؟ " اس نے موقع دیکھتے
ہی سوال کر دیا -
" ثانیہ کے ابو نے انکار کر دیا ہے-
"
" ماموں آپ تو اسد بھائی کی شادی عائشہ کے
ساتھ کرنا چاہتے تھے نا ؟ "
" اب بھی یہی چاہتا ہوں وہ تو ہم اسد کی
ضد پر گئے تھے ،ہمیں پتہ تھا کہ بھائی صاحب
پسند کی شادی کے خلاف ہیں- "
" اوہ ! اچھا ماموں جی-" ان کے جواب سے علیشبہ کو تسلی ہوئی تھی -
" تم یہ بتاؤ بیٹا تمھاری ساس کہاں ہیں ؟
"
" ماموں ماما بازار گئی ہیں- "
" اچھا چلو جب آئے تو اسے بتانا کہ کال حسن
کی برتھ ڈے ہے۔ تم سب نے آنا ہے۔"
" اوکے ماموں ، وہ آتی ہیں تو بتا دیتی ہوں۔"
"اوکے ! اللہ حافظ -"
"کیا کہہ رہے تھے ؟" شگفتہ بیگم نے علشبہ کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔
وہ کہہ رہے تھے کہ ثانیہ کے ابو نے انکار کر دیا ہے۔ اور
ہم سب جانتے تھے اسی لئے گئے تھے رشتہ لے کر۔ اور کل حسن کی برتھ ڈے ہے اس پر انوائیٹ
کیا ہے ہم سب کو۔ "
" اچھا تم عائشہ کو مت بتانا کہ رشتہ سے
انکار ہو گیا ہے۔ "
"ٹھیک ہے ماما -"
####### ###### #######
" اسد جلدی تیار ہو جاؤ تمھارے ماموں کی
طرف جانا ہے وہ انتظار کر رہے ہوں گے۔"
" اسد۔۔۔۔۔ اسد۔۔۔" انھوں نے پھر آواز لگائی۔
" ماما مجھے نہیں جانا ، آپ جائیں-
" اس نے ڈرائنگ روم میں آ کر کہا۔
" وہ تمھارا انتظار کر رہے ہوں گے۔ تم ابھی
اٹھو اور تیار ہو جاؤ ، میں نادیہ اور نازش کو دیکھ لوں۔ بہت اٹھا لیے میں نے تمھارے
نخرے۔ اب تم وہی کرو گے جو میں کہوں گی۔ آئی
سمجھ ؟ " وہ غسے میں بولتے ہوئے باہر چلی گئی۔
وہ پیر پٹختے ہوئے اٹھا اور باتھ روم میں چلا گیا۔
" تم دونوں نے باہر نکلنا ہے کہ نہیں ؟ تم لوگوں نے مل کر میری زندگی خراب کر رکھی ہے۔
"
" کیا ہوا ماما ؟ " نادیہ نے پریشان
سی بیٹھی ماہم کو دیکھا -" ماما ٹینشن نہ لیں ماموں ہیں نا وہ سب سنبھال لیں گے۔
" اس نے ان کو تسلی دی۔
" ہائے گرلز ! کیسی لگ رہی ہوں میں ؟
" نازش نے آ کر چہکتے ہوئے پوچھا۔ " لگ رہی ہوں نا باربی ڈول ؟"
" ارے تم تو ہو ہی باربی ڈول -" نادیہ
نے اس کو پیار سے گلے لگاتے ہوئے کہا۔
" ویسے عائشہ آپی سے تو کم ہی خوبصورت لگ
رہی ہوں، ہے نا ماما ؟ "
" ماشاءاللہ ! میری عائشہ کی تو بات ہی کچھ
اور ہے۔ چلو اب اندر کیا ادھر ہی سب باتیں کرنے لگ گئی ہو۔ " انھوں نے ان تینوں
کو باتیں کرتے دیکھ کر کہا۔
" واؤ ! بھائی بڑے ڈیشنگ لگ رہے ہیں۔ بالکل
عائشہ آپی کی طرح۔آپ دونوں کی پرسنیلٹی اور جوڑی بہت زبردست ہے-"
" نازش
بکواس بند کرو اور چلو- " ہاتھ
میں پکڑے ہوئے گلاسز آنکھوں پر لگاتے ہوئے اس نے
کہا اور باہر نکل گیا -
###### ####### ######
" عائشہ بیٹا ضد نہ کرو اور چلو تمہارے ماموں
ناراض ہو جائیں گے "
" ماما مجھے نہیں جانا آپ سب لوگ جائیں
۔ "
" ٹھیک ہے ہم سب جا رہے ہیں-
" کہتے ہی وہ دروازہ بند کر کے کمرے سے
نکل گئیں-
" ماما عائشہ کو کیوں نہیں لیکر آئیں-
" ذیشان نے ماں کو اکیلے آتے دیکھا تو پوچھا
" وہ کہہ رہی ہے کہ میں نے نہیں جانا آپ
لوگ جائیں- " انہوں نے بے بسی سے جواب دیا-
" میں دیکھ کر آتا ہوں- " وہ اس کو
بلانے کو بڑھا -
" رہنے دو ،وہ نہیں آئے گی -" شگفتہ بیگم نے اسے روکا -
####### ####### ######
" اسلام علیکم بھائی صاحب -"
" وعلیکم السلام ماہم-
کیسے
ہو بچو ؟
" ہم سب گڈ ماموں آپ کیسے ہیں؟
" نادیہ نے مسکراتے ہوئے پوچھا تو انہوں
نے بھی مسکراتے ہوئے جواب دیا۔
"
اسد تم کیسے ہو ؟ اسد نے اگنور کر دیا
اور جواب نہ دیا۔
اسد میں تم سے کچھ پوچھ رہا ہوں- "
" میں ٹھیک ہوں" غصے سے جواب دے کر وہ اپنے نانا کے کمرے میں چلا گیا-
" ماموں عائشہ نہیں آئی ابھی؟ "
" نہیں بیٹا بس آنے والے ہوں گے وہ دیکھو
وہ رہی تمھاری خالہ -" شگفتہ بیگم کو گاڑی سے نکلتے دیکھ کر انہوں نے مسکراتے
ہوئے نازش سے کہا جو سنتے ہی ادھر کو بھاگی
تھی۔
سب سے سلام دعا کرنے کے بعد علی صاحب نے عائشہ کا پوچھا -" شگفتہ آپا عائشہ
نہیں آئی کیا ؟ "
" نہیں بھائی جان ہم نے بہت کہا لیکن وہ
نہیں مانی آنے کو۔ "
" اچھا آپ سب اندر چلیں میں اسے لے کر آتا
ہوں- "
" بھائی صاحب رہنے دیں۔" شگفتہ نے آگے ہو کر کہا -
" ایسے کیسے رہنے دوں؟ میری پارٹی ادھوری
ہے عائشہ کے بغیر ۔وہ رونق ہے میری پارٹی کی ۔ آپ لوگ چلیں اندر میں اپنی پریٹی ڈول
کو لیکر آتا ہوں-" اس کے ساتھ ہی وہ باہر
نکل گئے-
###### ###### #######
" چھوٹی بی بی کھانا لگا دوں آپ کے لیے؟
"
"
نہیں رضیہ مجھے بھوک نہیں ہے ۔تم جاؤجب بھوک ہو گی میں خود کھا لوں گی
" وہ ٹیرس میں موجود جھولے پر بیٹھی جھولا جھول رہی تھی جب ملازمہ اس کے پاس آئی
تھی لیکن اس کی ذہنی حالت ایسی تھی کہ اس کو کچھ بھی اچھا نہیں لگ رہا تھا-
" اے اللہ کیوں کیا آپ نے ایسا ۔کیوں میرے
خوابوں کو توڑ دیا؟ کیوں میرے خوابوں کی تعبیر نہیں دی؟ یا اللہ کیسے میں رہ پاؤں گی اس کے بناء؟" وہ سوچو میں اس قدر گم تھی کہ پتہ ہی نا چلا کب
علی صاحب اس کے پاس آ کر بیٹھ گئے ۔
" عاشو! عاشو ، بیٹا کیا ہوا کیوں نہیں آئی تم ؟ "
اور وہ ان کے گلے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر رودی ۔
" کیا ہوا ماموں کی جان ؟ کیوں رو رہی ہو
؟ تمھارے رونے سے مجھے تکلیف ہوتی ہے۔"
وہ اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے نرمی سے بولے -
" ماموں کیوں کیا آپ نے ایسا آپ نے کہا تھا
کہ تمھاری شادی اسد سے ہو گی۔ اس کے علاوہ
کسی اور کے بارے میں سوچنا بھی نہیں۔ میں نے اسے اپنے دل کے ہر کونے میں بسا لیا پھر
آپ نے کیا کیا آپ اسد کا رشتہ لیکر ثانیہ کے گھر چلے گئے میرے بارے میں ایک بار بھی
نہیں سوچا کہ میں کیسے رہ پاؤں گی اس کے بغیر تو سانس لینا بھی مشکل ہے میرے لیے۔ اب
آپ کہتے ہیں کہ تمھارے رونے سے تکلیف ہوتی ہے تب آپ کو خیال نہیں آیا تھا ۔نہیں جینا
مجھے اس کے بغیر میں مر جانا چاہتی ہوں ۔" روتے ہوئے اس کی ہچکی بندھ گئی -
" عاشو میری گڑیا میری طرف دیکھو-" انہوں نے پیار سے اس کا چہرہ اوپر کیا -
" ثانیہ کے ابو نے رشتہ دینے سے انکار کر
دیا ہے- " انھوں نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے انکشاف کیا -
" کیا آپ سچ کہ رہے ہیں؟ " اس نے بے یقینی سے پوچھا -
" ہاں بالکل۔" انہوں نے اس کی تسلی
کروائی -
" اب چلو اٹھو آج میں سب کے سامنے اس سے
بات کروں گا -" انہوں نے اپنے فیصلے سے آگاہ کیا -
" اچھا ٹھیک ہے ماموں میں کپڑے بدل کر آتی ہوں-"
" جلدی آنا ۔" انھوں نے کہا۔
######## ####### #######
"السلام و علیکم ! نانا ابو "
"وعلیکم السلام عاشو بیٹا ! تم آئی کیوں
نہیں تھی ؟ "
" نانا ابو میرا دل نہیں کر رہا تھا۔
" اس نے اداسی سے کہا -
"میں آپ سب سے ایک بات کرنا چاہتا ہوں-" علی صاحب نے صوفے سے کھڑے ہوتے ہوئے کہا ۔
"میں چاہتا ہوں کہ ایک ہفتے بعد ہم عائشہ
اور اسد کا نکاح کر دیں۔ "
"ماموں میں ثانیہ سے شادی کرنا چاہتا ہوں آپ سب لوگوں کو یہ
بات کیوں سمجھ نہیں آتی؟" اپنی بات مکمل کر کے اسد لمبے لمبے ڈگ بھرتا وہاں سے
چلا گیا۔
عائشہ نے وہاں پڑی ٹوکری سے چھری اٹھائی اور اپنی نبض کاٹنے
ہی لگی تھی کہ علی ماموں نے بھاگ کر چھری پکڑ
لی۔
" یہ کیا کر رہی ہو ؟ پاگل ہو گئی ہو کیا
؟ کیوں سب کو مارنا چاہتی ہو ؟ "
" میں سب کو نہیں بلکہ خود کو ختم کرنا چاہتی
ہوں۔ نہیں رہنا مجھے اسد کے بغیر ۔ مجھے مرنے
دیں۔ "
علی صاحب نے اسکے منہ پر تھپڑ دے مارا ۔" کتنی بار
تم سے کہہ چکا ہوں کہ تمھارے رونے سے مجھے تکلیف ہوتی ہے۔ تمہیں روتے ہوئے نہیں دیکھ
سکتا میں۔ "
" تو پھر کیوں آپ لوگوں نے میری آنکھوں میں
آنسو بھر دیئے ہیں ۔ ماموں مجھے کچھ اور نہیں صرف اسد کا نام چاہیے۔ ماموں پلیز ! میں نہیں رہ سکتی اسکے بناء۔ میں آپ کے آگے ہاتھ
جوڑتی ہوں ۔ مجھے میرا اسد دے دیں۔"
انھوں نے اسے پکڑ کر گلے لگایا اور اسد کو آواز دی۔
" اسد ۔۔۔ اسد- "
" جی " اس نے کمرے سے باہر آ کر کہا -
تمہیں شادی کرنا ہو گی
عائشہ سے۔ اب یہ چاہے میرا حکم سمجھ لو
یا میری ضد-"
" ہاں میرا بھی یہی فیصلہ ہے-" ماہم
بیگم نے بھی ان کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے کہا۔ اگلے ماہ کی 20 تاریخ کو شادی ہے عائشہ
اور اسد کی۔ یہ میرا حکم ہے اور تمہارے ماموں کا بھی۔ "
" اچھا ٹھیک ہے ماموں ، آپ سب لوگوں کی یہی
خواہش ہے تو میں تیار ہوں آپ لوگوں کی خواہش پوری کرنے کے لئے۔ لیکن ایک بات
میں ابھی آپ سب کو بتا دوں کہ آپ زبردستی اس کو میرا نام تو دے دیں گے پر خوشیاں نہیں
دے پائیں گے۔ مجھ سے یہ امید مت رکھئیے گا کہ میں اس کو خوش رکھوں گا۔ یہ صرف کاغذی
رشتہ ہو گا اور کاغذ تک ہی محدود رہے گا۔ اب آپ لوگوں کی مرضی ہے کہ اسکو ساری عمر
کا روگ دینا ہے یا کوئی خوشی دینی ہے۔ "
اس نے غصے سے کہا-
" اب کیا فیصلہ ہے تمھارا عائشہ بیٹا ؟
ٗ" ماموں نے اس سے پوچھا -
" ماموں مجھے صرف اسد کا ساتھ چاہیے۔ ساتھ
رہے گا تو پیار بھی خود ہی ہو جائے گا" عائشہ نے کہا-
"ٹھیک ہے پھر اگلے ماہ کی 20 کو شادی ہے
۔ تب تک ان کے پیپرز بھی ختم ہو جائیں گے۔"
انھوں نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا تو سب
نے خوشی سے حامی بھر لی۔
######## ####### #######
" عائشہ ابھی بھی سوچ لو ابھی ٹائم ہے ورنہ
بعد میں تم بہت پچھتاؤ گی ابھی دس دن رہتے ہیں بیٹا شادی میں-"
" ماما ایک بات تو یہ کہ میں نہیں پچھتاؤں
گی اور اگر خدانخواستہ پچھتائی بھی تو آپ کے پاس نہیں آؤں گی۔ ماما میں وعدہ کرتی ہوں
کہ جیؤں گی بھی تو اسد کے ساتھ اور مروں گی بھی تو اسد کے ساتھ۔ مجھے صرف اسکا نام
چاہئے پیار نہیں ۔ بس دعا کریں میرے لئے کہ میں اپنا ہر وعدہ پورا کر سکوں۔ "
اس نے ایک عزم سے کہا -
" بیٹا نام ہی کافی نہیں ہوتا ۔ کب تک اسکے
نام کے سہارے بیٹھی رہو گی۔ ایک دو سال وہ تمہیں برداشت کرے گا پھر طلاق دے دے گا۔
اور اگر طلاق نہ بھی دی تو جب وہ ثانیہ سے
شادی کرے گا تو کیا تم برداشت کر لو گی اسے کسی اور کا ہوتا دیکھ کر ؟ " انھوں
نے اسے سمجھانا چاہا-
" ماما مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا -"
" یہ تم ابھی کہہ رہی ہو نا شادی کے بعد
میں تم سے پوچھوں گی -"
" ماما میں شادی کے بعد بھی یہی کہوں گی
۔ مجھے اسد کا نام چاہئے بس جو مجھے 20 تاریخ کو مل جائے گا -"
محبت آگ ہے جاناں
بڑی بیتاب ہے جاناں
" ٹھیک ہے تم خوش رہو میری تو یہی دعا ہے-" اپنی لاڈلی کو سمجھانے کی بہت کوشش کے بعد وہ اٹھ
کھڑی ہوئی کیوں کہ وہ جانتی تھی کہ اب کچھ نہیں ہو سکتا۔
####### ####### #######
" آپا جلدی کریں دس بج گئے ہیں جاتے ہوئے بھی ٹائم لگے گا۔ گیارہ بجے کا ٹائم دیا
ہے انکو بارات کا- "
" نازش بیٹا آ جاؤ اپنے بھائی کو نکالو-" ماموں نے آواز لگائی-
اسد کے کہنے پر شادی بہت سادگی سے کی جا رہی تھی۔ علی صاحب
، انکی فیملی، نگارش، شہزاد اور چار گواہوں
کے علاوہ اور کوئی موجود نہیں تھا۔
"ماموں صبر کریں تیار تو ہونے دیں ہمارے اکلوتے بھائی کی شادی ہے۔
سارے ارمان پورے کرنے ہیں ہمیں-"
" تم لوگ ارمان پورے کرتے رہو میں جا رہا ہوں باراتی لے کر ۔ جب ارمان پورے ہو
جائیں تو آ جانا دولہا کو لے کر -"
" ماموں عائشہ آپ کو گھر میں گھسنے نہیں
دے گی ۔ کہے گی جائیں پہلے میرے دولہا کو لے کر آئیں۔ "
" اچھا اب بس بہت ہو گئی باتیں جلدی کرو۔
کل نادیہ کی بارات آئے گی تو اپنے ارمان پورے کر لینا -"
" رہنے دیں ماموں وہ بارات آئے گی اور ہم لے کر جا رہے ہیں اپنے اکلوتے
بھائی کی -" کانوں میں ائیر رنگ ڈالتے
ہوئے اس نے مسکراتے ہوئے کہا تو وہ بھی مسکرا دئے۔
" ماموں چلیں اب مجھے بہت سے کام کرنے ہیں
ابھی -" اسد نے آ کر غصے سے کہا۔
" اگر جانا ہے تو چلیں ورنہ میں جا رہا ہوں۔
اور ماموں میں اب بھی بتا رہا ہوں کہ آپ اس کی زندگی کے ساتھ اچھا نہیں کر رہے۔میرا
کچھ نہیں جائے گا اس کی زندگی خراب ہو جائے گی۔ آپ اس کے لئے خوشیاں چننے کی بجائے
آنسو چن رہے ہیں-"
"ٗ
اللہ رحم کرے اس پر ۔ ہو گئی ختم تمہاری تقریر -" اس کو چپ ہوتے
دیکھ کر انھوں نے مسکراتے کہا ۔ " چلو
شکر ہے تم نے اس کے بارے میں سوچا تو سہی۔"
" ماموں آپ بھی نا ۔ بھاڑ میں جائے وہ۔ میں
جا رہا ہوں آپ نے جانا ہے تو آ جائیں-" غصے سے کہتا ہوا وہ گاڑی کی طرف چلا گیا اور وہ قہقہہ لگا کر ہنس دیئے۔
" ماہم آ جاؤ تم بھی تمہارا لاڈلا گاڑی میں جا کر بیٹھ گیا ہے۔ نگارش
، شہزاد ، نازش نادیہ آ جاؤ بھئی۔"
"چلیں بھائی، چلیں ماموں- " ماہم اور نادیہ نے پوچھا -
" ہاں ہاں چلو بیٹھو گاڑی میں- " سب
لوگ بیٹھے تو گاڑیاں سڑک پر رواں دواں ہو گئی۔
######## ####### #######
" ماما بھائی آئے نہیں ہیں ابھی؟ "
"بیٹا وہ آتا ہی ہو گا ۔ بہت مشکل سے اسے
چھٹی ملی ہے۔ تم جاؤ کمرے میں پارلر والی بھی آتی ہو گی۔ آ کر تمہیں تیار کرتی ہے۔بارات
نکل پڑی ہے وہاں سے۔ وہ دیکھو آ گیا تمھارا بھائی بھی-" امی نے اسے دیکھتے ہی کہا-
" السلام و علیکم امی جان- "
سہیل کو دیکھ کر وہ بھاگ کر اس کے سینے سے لگ گئی۔
" میری گڑیا یہ تمہی ہو ؟ اور تم رو کیوں
رہی ہو ؟ نہ رو میری گڑیا تمھارے آنسو برداشت
نہیں کر سکتا تمھارا بھائی۔ دیکھو تمھاری خاطر اتنی دور سے سب چھوڑ کر آ گیا ہوں ۔ چلو جاؤ شاباش اپنے کمرے
میں اور اب رونا نہیں ہے۔ "
" ماما لے کر جائیں اسے کمرے میں اور علیشبہ
پانی پلاؤ مجھے- " علشبہ جو آواز سن کر آئی تھی ،اس کی بات سن کر سر ہلاتی واپس چلی گئی۔
تھوڑی دیر بعد بارات بھی آ گئی۔ کولڈ ڈرنک کے بعد نکاح کی
رسم ادا کی گئی۔ اسد نے قبول ہے تو کہہ دیا پر اس رشتے کو دل سے قبول نہیں کیا۔ آخر
رخصتی کا وقت بھی آ پہنچا۔
" عائشہ اپنا خیال رکھنا۔ ہم تمھارے لئے
کچھ نہیں کر سکتے صرف دعا کے علاوہ۔ خدا تمہیں خوش رکھے۔" شگفتہ بیگم نے اسے دیکھ کر دعا دی اور وہ پھوٹ پھوٹ
کر رو دی۔ لڑکی کو اپنا من پسند مل بھی جائے تو یہ وقت ایسا ہوتا ہے کہ وہ رو دیتی
ہے۔
نازش نے عائشہ کو
پکڑ کر گاڑی میں بٹھایا اور ایک طرف
خود بیٹھ گئی اور دوسری طرف نادیہ بیٹھ گئی۔ گاڑیاں پھر آگے چل دی اور کمال ہاؤس میں
اداسی چھا گئی۔
####### ####### #######
وقاص ولاء میں پہنچ کر بہو کا زبردست استقبال کیا گیا۔ سب
بہت خوش تھے۔ سب نے اس رشتے کو دل سے قبول کیا تھا کیوں کہ سب کو عائشہ بہت پسند تھی۔
اور سب کی دلی خواہش تھی کہ عائشہ ہی اسد کی دلہن بنے۔ سوائے اسد اور نگارش کے۔ ان دونوں نے اس رشتے کو قبول نہیں کیا تھا۔ نگارش
بھی اسد کی شادی ثانیہ سے کرنا چاہتی تھی۔ نگارش تو اپنے کمرے میں جا چکی تھی اور ماہم
بیگم رسمیں پوری کر رہی تھیں۔ اسد بے دلی سے بیٹھا تھا۔ نازش عائشہ کے ساتھ بیٹھی مسلسل
اس سے باتوں میں مصروف تھی۔ رسمیں پوری ہونے کے بعد نازش عائشہ کو اسکے کمرے میں چھوڑ
کر آ گئی۔ نازش کے جانے کے بعد وہ اٹھی اور ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے جیولری اتارنے لگی۔
وہ بہت خوش تھی۔ آنکھوں میں بھی خوشی تھی۔ جس شخص کو ہر دعا میں مانگا جائے اور وہ
مل جائے تو پھر ایسی ہی حالت ہوتی ہے۔ جیسی اس وقت اس کی تھی۔ اسد سے اس کو محبت نہیں
عشق تھا اور اگر عشق میں انسان کی گردن بھی اتار لی جائے تو بھی وہ عشق ہی پکارتا ہے۔
یار نہیں تو کچھ بھی نہیں۔
وہ کمرے میں داخل ہوا تو اس کو اتنے آرام سے سامنے بیٹھا
دیکھ کر بدن میں آگ بھڑک اٹھی۔ جا کر اس کو بازو سے پکڑ کر جھنجھوڑ کر کھڑا کیا
۔
" میری خوشیاں برباد کر کے بہت خوش ہو نا
تم ؟ یہ مت سمجھنا تم نے مجھے جیت لیا ہے۔ بلکہ یہ تمہاری ہار ہے۔ تم نے مجھے ہمیشہ
کے لئے کھو دیا ہے۔نفرت ہے مجھے تم سے عائشہ بیحد نفرت ۔ تم کبھی خوش نہیں رہو گی بلکہ
ترسو گی ۔ مائنڈ اٹ عائشہ احمد ۔" اس
نے اسے بازو سے پکڑ کر جھنجھوڑ دیا اور وہ گرتے گرتے بچی۔
وہ تکیہ اور کمبل اٹھا کر باہر جانے لگا تو پیچھے سے آواز
دی۔
" اسد آپ بیڈ پر سو جائیں میں صوفے پر سو جاؤں گی -"
" جسٹ شٹ اپ ! میرے معاملے میں کبھی ٹانگ مت اڑانا- " وہ
کہتے ہی ڈریسنگ روم میں چلا گیا اور وہ وہیں صوفے پر بیٹھ گئی۔ اور پھر کب آنکھ لگی اسے پتہ ہی نہ چلا۔
صبح کو بجتے دروازے
پر اسکی آنکھ کھلی۔ تکیہ اور کمبل اٹھا کر بیڈ پر رکھ دیا۔ چادر میں سلوٹیں ڈال دیں اور پھر اسد کو اٹھایا۔
"اسد اٹھیں-"
"کیا تکلیف ہے اب تمہیں ؟"
" باہر کوئی ہے-"
"تو میں کیا کروں ؟" "دیکھ لو
کون ہے -" اس نے آگے بڑھ کر دروازہ کھولا-
"گڈ مارننگ بھابھی جان -"
"گد مارننگ-"
" بھابھی! ناشتہ آپ لوگوں کا ؟"
"بھابھی بھائی کو اٹھا دیں اور ان سے کہیے
گا کہ ماما کہہ رہی ہیں کہ ناشتہ کر کے میری بات سنیں۔" وہ کہہ کر باہر نکل گئی
اور اسد اٹھ کر واش روم میں چلا جاتا ہے۔ پانچ منٹ بعد وہ چینج کر کے نکلا۔
" کہاں جا رہے ہیں ؟ " اسے باہر جاتا
دیکھ کر اس نے پوچھا۔
" تم سے مطلب ؟ میں جہاں مرضی جاؤں۔ ایک
بار میں بات کی سمجھ نہیں آتی تمہیں کہ میرے مسئلہ میں ٹانگ مت اڑایا کرو۔" وہ
کہہ کر باہر نکل گیا-
" نادیہ !"
" جی ماما ؟ "
" بیٹا عائشہ کے کمرے میں چلی جاؤ۔ پارلر
والی آئے گی تو وہی تم دونوں کو تیار کروائے گی۔"
"او کے ماما ! میں چلی جاتی ہوں۔"
السلام علیکم بھابھی!
"وا علیکم السلام ! نادیہ آؤ بیٹھو-
" عائشہ نے اس کو دیکھ کر مسکراتے ہوئے کہا تووہ وہیں صوفے پر اس کے پاس ہی بیٹھ
گئی۔
"بھابھی مجھے آپ سے ایک بات کرنی ہے-
"
" ہاں کرو -"
" بھابھی آپ جانتی ہیں کہ آپ کی اور بھائی
کی شادی کن حالات میں ہوئی اور آپ یہ بھی جانتی ہیں کہ اس شادی میں بھائی کی خوشی شامل
نہیں ہے۔ بھابھی آپ نے اس گھر میں تو جگہ بنا لی مگر بھائی کے دل میں آپ کے لئے کوئی
جگہ نہیں ہے ابھی، بھائی کے دل میں صرف
اور صرف ثانیہ ہے ۔ بھائی اس سے بہت پیار کرتے ہیں اور نگارش آپی بھی بھائی کی طرح
ثانیہ کو ہی اس گھر کی بہو بنانا چاہتی ہیں۔بھابھی وہ بھی اس رشتہ پر خوش نہیں ہیں
۔ وہ آپ کو بہت کچھ کہے گی اور بہت کچھ سنائے
گی۔ قدم قدم پر آپ کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ بھابھی پلیز بہت ہمت اور حوصلے
سے کام لیجئے گا۔ آپ نے خود اندھے کنویں میں چھلانگ لگائی ہے۔ اس کنویں میں
آپ کو روشنی صرف اسد بھائی ہی دکھا سکتے ہیں
اور کوئی نہیں۔ بھیا آپ کو جو مرضی کہتے رہیں آپ نے آگے سے کچھ نہیں کہنا۔ آپ نے بس
یہی ظاہر کرنا ہے کہ وہ جو مرضی کرتے رہیں
آپ کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ آپ صبر کا دامن ہاتھ سے مت چھوڑنا۔ اور ہاں ثانیہ کا فون
آئے تو اسے کچھ مت کہیے گا وہ جو مرضی کہتی رہے اسکو جواب نہ دینا۔ وہ بہت چالاک ہے۔
ایسی چالیں چلے گی کہ بھائی کسی طرح آپ کو طلاق دیں۔ بھابھی آپ پلیز وعدہ کریں مجھ
سے کہ حالات کتنے بھی خراب ہوں آپ گھر چھوڑ کر نہیں جائیں گی۔ اگر اپ ایک بار گھر چھوڑ
کر چلی گئی تو دوبارہ کبھی آپ کے لئے اس گھر میں جگہ نہیں بن سکے گی۔ اگر آپ نے صبر
سے کام لیا تو مجھے امید ہے کہ ایک وقت ایسا آئے گا کہ بھائی آپ سے بہت پیار کرنے لگیں
گے۔ وہ سانس بھی آپ سے پوچھ کر لیں گے۔"
" انشاء اللہ- " دونوں یک زبان ہو کر
بولیں-
" میں تم سے وعدہ کرتی ہوں نادیہ کہ چاہے
کچھ بھی ہو جائے میں گھر نہیں چھوڑوں گی۔"
ابھی وہ باتیں کر ہی رہی تھیں کہ دروازے پر دستک ہوئی۔
" ہیلو بیوٹی فل گرلز-"
" آ جاؤ فاطمہ-"
"السلام علیکم -"
" فاطمہ یہ ہے میری بھابھی عائشہ-
"
" ماشاء اللہ ! بہت پیاری بھابھی ہیں آپ
کی۔"
"نظر مت لگا دینا اب تم -" نازش نے
شرارتی انداز میں کہا۔
" نہیں بھئی میں کیوں نظر لگاؤں گی ۔ فاطمہ
آپی پہلے اسے تیار کریں پھر بھابھی کو کیجئے
گا۔"
" اچھا جی چلو بیٹھو-" فاطمہ نے مسکراتے
ہوئے اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا تو وہ ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے بیٹھ گئی۔
تھوڑی دیر بعد اسد بھی کمرے میں آ گیا۔
" بھائی کیا بات ہے بھابی کو دیکھنے کی بہت
جلدی ہے ؟ بس پندرہ منٹ تک بھابھی کو تیار
کر کے باہرلا رہے ہیں-" اس نے
شرارتی انداز میں کہا۔
" میں کپڑے لینے آیا ہوں- "
کہتے ساتھ ہی وہ ڈریسنگ روم میں گھس گیا۔
عائشہ کو تیار کر کے باہر لا کر اسد کے ساتھ بٹھا دیا گیا۔
نادیہ کی نکاح کی رسم ہوئی ۔ پانچ بجے کے بعد رخصتی ہوئی اور نادیہ اپنے گھر چلی گئی۔
عائشہ کے امی ابو اسے لینے آئے تھے وہ انکے ساتھ چلی گئی۔
######
##### ###### #####
کمال ہاؤس میں پہنچنے کے بعدوہ کمرے میں بند ہو گیا اور
وہ وہیں بیٹھی علیشبہ سے باتیں کرتی رہی۔
ہائے سویٹ ہارٹ کیسی ہو؟
میں جیسی بھی ہوں تمہیں اس سے کیا؟
تین دن کے بعد آج اس نے ثانیہ کو فون کیا۔
ہے تو پوچھ رہا ہوں
ابھی تک ناراض ہو؟
تمہارا کیا خیال ہے تم نے کوئی چھوٹا سا کام کیا ہے جو میری
اب تک ناراضگی ختم ہو گئی ہو گی۔
میری جان میں نے اپنی خوشی سے شادی نہیں کی ہے گھر والوں
کی خوشی سے کی ہے۔ یہ سب یہ بھول گئے ہیں کہ یہ سب زبردستی کر کے اسے میرے نام کے بندھن
میں باندھ سکتے ہیں لیکن مجھ سے چھین کر خوشیاں تو نہیں دے سکتےہیں۔ میں اس شادی کو
نہیں مانتا، میری شادی ہو گی تو صرف تم سے ۔
تم سچ کہہ رہے ہونا؟
ہاں ہاں بابا سچ کہہ رہا ہوں۔
اچھا تم دونوں سوتے ایک ہی بیڈ پر ہو؟
نہیں ہم الگ الگ سوتے ہیں۔
کیا مطلب ہے تمہارا؟ وہ بہت غصے اور حیران کن تاثرات کے
ساتھ پوچھتی ہے۔
ریلیکس میری جان میں بیڈ پر سویا تھا اور وہ صوفے پر۔
چھوڑو اس بات کو، تم بس ناراضگی ختم کرو۔ میں صبح آ رہا
ہوں پھر کہیں آؤٹنگ کا پلین بناتے ہیں۔
ٹھیک ہے۔ وہ ہنستے ہوئےبولی تو وہ بھی ہنس دیتا ہے۔
ایسے ہی ہنستی رہا کرو تمہیں کہہ رہا ہوں ٹھیک ہے؟ مجھے
کوئی دور نہیں کرے گا تم سے مائی لو۔ بس اپنا خیال رکھا کرو۔ تمہاری بہت ضرورت ہے مجھے
آئی لو یو آئی رئیلی لو یو، میں تم سے بہت پیار کرتا ہوں۔
آئی لو یو ٹو اسد۔
چلو ٹھیک ہے میں تمہیں بعد میں کال کرتا ہوں ۔
اوکے اللہ حافظ
ٹیک کیئر۔
عائشہ باہر کھڑی ساری باتیں سن چکی تھی۔ اب بڑی خاموشی سے
کمرے میں داخل ہوتی ہے۔
کھانا آپ کے لیے۔
مجھے بھوک نہیں ہے۔
کھا لیں آپ نے صبح سے کچھ نہیں کھایا۔ کھانے سے کیسی ناراضگی۔
اسد چپ ہو کر کھانا کھانا شروع کر دیتا ہے۔
وہ کھانا کھا چکا تو وہ برتن لیکر نیچے چلی گئی۔نیچے جا
کر پھر باتوں میں مصروف ہو جاتی ہے۔باتیں کرتے کرتے رات کا پتہ بھی نہیں چلا۔
وہ صبح چار بجے اٹھ کر سوئی۔ صبح دس بجے علیشبہ نے بڑی مشکل
سے اٹھایا۔وہ اٹھی اور تیار ہو کر اسد کو اٹھا یا۔
اسد اسد اٹھ جائیے
گھر نہیں جانا کیا؟
وہ جلدی سے اٹھ کر بیٹھ جاتا ہے۔
تقریباً پندرہ منٹ کے بعد وہ سب سے اجازت لے کر رخصت ہوتے
ہیں۔
اسد خاموشی سے گاڑی چلا رہا تھا، وہ بھی خاموشی سے بیٹھی
تھی۔
اس خاموشی کو عائشہ کے موبائل کی رنگ نے توڑا۔
السلام و علیکم ماما۔
وعلیکم السلام عائشہ بیٹاکہاں ہو تم دونوں؟
ماما ہم لوگ آ رہے ہیں۔
بیٹا اسد کا موبائل کہاں ہے اس سے پوچھو۔
اسد ماما پوچھ رہی ہیں آپ کا موبائل کہاں ہے؟
وہ چپ رہا۔
تو اس نے دوبارہ پوچھا۔
اسد میں کچھ پوچھ رہی ہوں آپ سے۔
میرے موبائل کی بیٹری ختم ہو گئی تھی تو موبائل آف ہو گیا۔
اچھابیٹا میں نے سن لیا ہے تم لوگ جلدی پہنچو، ہم نے وہاں
جانا ہے۔
اچھا ماما ہم لوگ آ رہے ہیں ۔
کال بند ہوتے ہی گاڑی میں پھر خاموشی چھاگئی۔
####### ####### #######
السلام علیکم بھابھی۔
"وعلیکم السلام ۔ پرنسز تیار ہو گئی؟"
"جی ہو گئی۔"
"ماشا اللہ بہت پیاری لگ رہی ہو۔"
"تھینکس بھابھی، جلدی کریں تیار ہو جائیں
پھر ہمیں جانا ہے۔"
"ٹھیک ہے 5 منٹ میں تیار ہو کر آتی ہوں میں۔"
"اوکے بھابھی ، جلدی آ جائیں۔"
آج نادیہ کا ولیمہ تھا تو وہ لوگ وہاں جا رہے تھے۔ سب چلے
گئے، ولیمہ ہوا۔ نادیہ بھی میکے سے ہو کر سسرال چلی گئی۔زندگی پھر روٹین پر آ گئی۔
ماہم بیگم نے اسد کو بڑی مشکل سے دس دن گھر روکا آفس نہیں جانے دیا۔
آج وہ آفس جا رہا تھا۔
"بی بی کہاں ہیں آپ؟ جلدی آ جائیں میرے کپڑے
استری کریں۔"
اسد بابا میں آپ کے کپڑے استری نہیں کر سکتی ہوں۔
بی بی پہلے آپ ہی میرے کپڑے استرے کرتی تھیں۔
بابا بیگم صاحبہ نے کہا ہے کہ آپ کے سارے کام دلہن بی بی
کیا کریں گی۔
اچھا ٹھیک ہے جائیے آپ۔
ماما ما ما کیا ہوا، کیوں شور مچا رکھا ہے۔
آپ نے بی بی سے کہا کہ وہ آئندہ میرا کوئی کام نہیں کرے
گی؟
ہاں بالکل میں نے کہا ہے۔ اب تمہاری وائف آ گئی ہے وہ کرے
کام تمہارے۔ چلو جاؤ جا کر اس سے کہو کہ وہ تمہارے کپڑے پریس کر دے۔
وہ بڑے غصے سے پاؤں پٹختا ہوا کمرے میں واپس چلا گیا۔
گڈ مارننگ ماما۔
گڈ مارننگ بیٹا ۔
آ جائے ناشتہ کریں۔
اوکے بیٹا میں آ رہی ہوں۔
وہ ان کے کمرے سے نکل کر کچن میں چلی گئی۔تھوڑی دیر بعد
سب ناشتے کی ٹیبل پر موجود تھے۔
کیا بات ہے اسد صبح سے تم نے سارا گھر سر پر ا ٹھایا ہو
ا ہےاور یہ کیا تم نے کپڑے پریس کروائے بغیر ہی پہن لیے ہیں؟
وہ اس کے کپڑوں کی دیکھ کر حیرانگی سے بولیں۔
لوگ کیا کہیں گے کہ گھر میں بہن بیگم ماں اور اتنے سارے
نوکر ہونے کے باوجود بھی کپڑے پریس کیے بغیر پہنے ہیں۔
عائشہ بیٹا تم نے اسد کے کپڑے پریس نہیں کیے؟
ماما میں نے ان کے کپڑے کل ہی پریس کر دیئے تھے اور ان کو دیئے بھی تھے لیکن وہ پینٹ شرٹ ان کو
پسند نہیں تھے اس لیے وہ نہیں پہنے۔اسد کی طرف دیکھے بغیر اس نے کہا ۔
تو بیٹا جانی آپ کوئی اور کپڑے پریس کر دیتے۔
ماما میں نے کہا تھا لیکن اسد نے کہا کہ رہنے دو۔
ماما آپ کو نہیں پتا بھائی کو بھابھی کا بہت خیال ہے اگر
بی بی نے ایسا کیا ہوتا تو یہ دوبارہ ان سے اپنے کپڑے پریس کرواتے۔اب بھابھی نے کی
ہے نا اس لیے ان کا دوبارہ کروانے کا دل نہیں چاہ رہا ہو گا۔ نازش نے مسکراتے ہوئے
شرارتی انداز میں کہا۔
تم چپ کرو ہر بات میں تمہارا بولنا ضروری نہیں ہوتا۔
اوکے ماما آپ تو فوراً ناراض ہی ہو گئی ہیں۔اس نے مصنوعی
خفگی سے کہا۔
عائشہ تم جاؤ اور اسد کے کپڑے پریس کر دو۔ وہ اٹھ کر جانے
لگی تو اسد نے روک لیا۔
رہنے دو میں وہی پہن لوں گا۔
وہ پھر وہیں کرسی پر دوبارہ بیٹھ جاتی ہے۔
اور ہاں یاد آیا اسد آج رات شہروز (نگارش کا بیٹا) کی برتھ
ڈے کا فنکشن ہے۔
ٹھیک ہے ماما میں آ جاؤں گا۔
اس نے اٹھتے ہوئے کہا۔
بیٹا جلدی آ جانا ہم تمہارا انتظار کریں گے۔
نہیں ماما آ ُپ لوگ چلے جانا، میں بعد میں آ جاؤں گا-میری
آج میٹنگ ہے تو ہو سکتا ہے میں تھوڑا لیٹ ہو جاؤں۔
ٹھیک ہے بیٹا پھر بھی جلدی آنے کی کوشش کرنا ۔تمہیں پتہ
ہے نا شہروزکا کوئی نہ کوئی ضد کرنا شروع ہو جاتا ہے۔
اوکے ماما میں آجاؤں گا۔
ڈرائنگ روم سے جاتے ہوئے اس نے کہا۔
اسد آفس چلا گیا نازش یونی چلی گئی ماہم بیگم اٹھ کر اپنے
کمرے میں چلی گئیں۔
وہ وہیں ٹانگ پر ٹانگ چڑھائے بیٹھی رہی۔ اچانک سے کیسے سب
کچھ بدل گیا کل تک میں عائشہ کمال تھی آج میں عائشہ اسد ہوں ۔
عائشہ اسد جس کے لیے میں نے خدا سے کتنی دعائیں مانگیں تھیں۔کتنی
منت مرادیں مانگی۔ آخر خدا نے میری سن لی۔
مجھے میری زندگی میرا اسد مجھے دے دیا ہے۔ بے شک اللہ غفور و رحیم ہے۔
اپنے خیالوں میں مگن وہ وہیں بیٹھی تھی کہ موبائل کی ٹون
بجی۔
یہ کس کے مو بائل کی رنگ بج رہی ہے اس نے دل ہی دل میں سوچا
اور بڑ بڑاتے ہوئے وہاں سے اٹھی تو محسوس ہوا کہ رنگ کی آواز تو اس کے کمرے سے ہی آ
رہی ہے۔ روم میں گئی تو اسد کا موبائل وہیں سامنے بیڈ پر پڑا ہوا مل گیا۔
اوہو یہ اپنا موبائل گھر بھول گئے۔
موبائل بار بار بج رہا تھا نمبر دیکھا تو تانیہ کا تھا۔
اس نے موباائل اٹھا کر کال اٹینڈ کر لی۔کال اٹینڈ کر کے کان سے لگایا ہی تھا کہ اس
نے نان اسٹاپ بولنا شروع کر دیا۔
ہیلو سویٹ ہارٹ کیسے ہو؟ اور کہا ں ہو؟ میں کب سے تمہارا
انتظار کر رہی ہوں۔ تم نے کہا تھا تم پندرہ منٹ
پہنچ جاؤ گے میرے پاس۔تم چپ کیوں ہو؟ میں تم سے بات کر رہی ہوں۔
السلام علیکم تانیہ۔
وعلیکم السلام! تم؟ اسد کا موبائل تمہارے پاس کیا کر رہا
ہے؟ اس نے بہت غصے سے اس سے پوچھا۔
اسد اپنا موبائل گھر بھول گئے ہیں۔
اچھا ٹھیک ہے۔ یہ کہہ کر اس نے کال کاٹ دی۔
کال بند ہوتے ہی اس نے موبائل واپس بیڈپر رکھ دیا۔
ادھر تانیہ اسد کو آفس میں فون کرتی ہے۔ جیسے ہی اس نے کال
اٹینڈ کی اس نے رونا شروع کر دیا۔
کیا ہوا سویٹ ہارٹ؟ رو کیوں رہی ہو؟ میں کچھ پوچھ رہا ہوں
تم سے میری جان ، کیا بات ہے؟ کسی نے کچھ کہا تم سے؟ اسد نے پیار سے اس سے پوچھا۔
ہاں کہا ہے۔
کس نے کچھ کہا بتاؤ مجھے، کس میں اتنی ہمت ہے کہ وہ میری
جان کو کچھ کہے؟
تمہاری بیوی نے۔ اس نے مجھے اتنی باتیں سنائیں۔
تانیہ پوری بات بتاؤ کیا کہا اس نے تم سے؟
میں نے تمہارے سیل فون پر کال کی تھی تو اس نے اٹھالی۔ کہنے
لگی" تمہاری ہمت کیسے ہوئی اسد کو کال کرنے کی؟ میں وائف ہوں اسکی تم کیا لگتی
ہوان کی؟ دو ٹکے کی لڑکی تمہیں تمہاری اوقات نہ یاد دلا دی تو کہنا۔ سارے خاندان کی
عزت برباد کرنے پر تلی ہوئی ہو تم" اس نے اور بھی بہت باتیں سنائی مجھے۔ وہ روتے
ہوئے اسے بتا رہی تھی اور اب اسد کا صبر بھی جواب دے گیا اور وہ چئیر سے اٹھ کر کھڑا
ہو گیا۔
تم رونا بند کرو میں جا کر پوچھتا ہوں ابھی اس سے۔
آفس سے نکلتے ہوئے اس نے کہا اور کال کاٹ دی۔
وہ گھر پہنچ کر سیدھا کمرے میں جاتا ہے تو وہ بیڈ پر لیٹی
ٹی وی دیکھنے میں مصروف تھی۔ اسد کو دیکھ کر جلدی سے اٹھ بیٹھی۔
اسد آپ اتنی جلدی آ گئے؟
وہ بازو سے پکڑ کر اسے جنجھوڑتا ہے۔
تمہاری ہمت کیسے ہوئی تانیہ کی بے عزتی کرنے کی؟ اور تمہیں
کس نے کہا کہ تم میری وائف ہو؟یہ صرف کاغذی رشتہ ہے، جسے میں کسی بھی وقت توڑ سکتا
ہوں اور اگر کوئی میری وائف بنے گی تو وہ صرف اور صرف تانیہ ہو گی۔
وہ حیرت سے اسے دیکھ رہی تھی۔
اسد میں نے کچھ نہیں کہا اس سے۔
شٹ اپ، جسٹ شٹ اپ۔ وہ ایک زوردار تھپڑ اس کے منہ پر مارتا
ہےاور جنجھوڑ کر بازو چھوڑ دیتا ہے۔تو وہ نیچے گرتی ہے۔
بیڈ کی نوک اس کے ماتھے پر لگ گئی اور خون نکلنا شروع ہو
گیا۔
اسد اس کی طرف دیکھے بغیر باہر نکل جاتا ہے۔ وہ وہیں بیٹھے
بیٹھے ماہم بیگم کو آوازیں دیتی ہے۔
ماما ماما
ہاں بیٹا ! ہائے میرے خدا یہ کیا ہو گیا؟ وہ اس کے ماتھے
سےخون نکلتا دیکھ کر گھبرا جاتیں ہیں۔
جلدی سے اپنا دوپٹہ اس کے ماتھے پر رکھ دیتی ہیں۔
کیا ہوا بیٹا ابھی تو تم ٹھیک تھی۔ کہیں اسد نے تو تمہیں
کچھ نہیں کہا؟ میں نے ابھی اس کے بولنے کی آواز سنی تھی۔
نہیں ماما انہوں نے کچھ نہیں کہا وہ تو فائل لینے آئے تھے
لے کر چلے گئے تھے تو چکر آیا اور میں گر گئی۔
اچھا میں اسے فون کرتی ہوں وہ تمہیں ہاسپٹل لے جائے۔
نہیں ماما رہنے دیں، وہ پہلے ہی بہت بزی ہیں، ہم ڈرائیور
کے ساتھ چلے جاتے ہیں۔
میں ڈرائیور سے کہہ کر گاڑ ی نکلواتی ہوں،
وہ اٹھ کر باہر گئیں اور پندرہ منٹ بعد وہ ہاسپٹل میں تھے۔
زخم زیادہ گہرا ہونے کی وجہ سے اسے دو ٹانکے لگے تھے۔
ماہم بیگم اسے گھر لا کر نگارش کو فون کرتی ہیں۔
نگارش بیٹا ہم لوگ نہیں آ سکتے شام کو۔
کیا مطلب ماما آ پ نہیں آ سکتے؟
بیٹا وہ عائشہ گر گئی تھی تو دو ٹانکے لگے ہیں اس کے ماتھے
پہ۔ اگر تم فنکشن آج کی بجائےکل کر سکو تو ہم لوگ آ جائیں گے۔
ماما یہ کیسے ہو سکتا ہے آج گیسٹ انوائیٹ کر دیئے ہیں۔ وہ
غصےسے کہتی ہے۔
بیٹا اگر نہیں ہو سکتا تو ٹھیک ہے ہم لوگ نہیں آ رہے۔
شہزاد اس کے ہاتھ
سے موبائل پکڑ لیتا ہے۔
بس ماما جیسے آپ کہہ رہی ہیں ویسے ہی ہو گا ہم فنکشن آج
کی بجائے کل کریں گے۔
چلو ٹھیک ہے بیٹااللہ حافظ۔
اللہ حافظ ماما
یہ آپ نے کیا کیا ؟ موبائل پکڑ کر رکھتے ہی وہ اس پرغصے
سے برسنا
شروع ہو گئی۔
جب تمہیں پتہ ہے نگارش شہروز کبھی بھی اس وقت تک کیک نہیں
کاٹے گا جب تک عائشہ اور اسد اس کے ساتھ نہیں ہوں گے
اس لیے چپ کرو اور فنکشن کل ہو گیا۔ میں کال کر کے سب کو بتا دیتا ہوں۔
شہزا د نے موبائل پاکٹ سے نکالتے ہوئے کہا۔
ماما ماما کہاں ہیں آپ؟
بس آ گئی ہوں ۔
چلئیے شاپنگ کرنے چلتے ہیں۔
نازش نے گھر میں
داخل ہوتے ہی بولنا شروع کر دیا۔
"ہائے بھابی کیا ہوا ماتھے پر ؟
" ڈرائنگ روم میں داخل ہوئی تو سامنے صوفے پر اسے بیٹھے دیکھ کر پوچھا
" گر گئی تھی پر ا ب ٹھیک ہوں ۔ تم فکر نہ کرو " وہ وہیں
اس کے پاس بیٹھ کر باتیں کرنے لگی۔
اسد کو بھی نگارش نے فون کر کے بتا دیا تھا۔ رات کے دس بج
رہے تھے پر وہ ابھی تک آفس سے نہیں آیا تھا۔
"عائشہ اسد کو کال کرو اور پوچھو کہ وہ کہاں
ہے ابھی تک کام ختم نہیں ہوا اس کا ؟
" ماما آپ کال کریں -" اس نے موبائل
ان کے ہاتھ میں تھما دیا۔ ماہم بیگم نے کال ملائی تو اس نے تیسری بیل پر کال اٹینڈ
کر لی۔
" کہاں ہو تم ؟ رات کے دس بج رہے ہیں ؟
" انھوں نے پوچھا
" ماما میں بس آ رہا ہوں- " کہتے ساتھ
ہی اس نے کال کاٹ دی۔ کام تو وہ بہت پہلے ختم کر چکا تھا ،پر گھر جانے سے ڈر رہا تھا کہ عائشہ نے سب بتا دیا ہو گا اور
اب ماہم بیگم اسے ڈانٹیں گی اور اب اسکی خیر نہیں ۔ وہ آخر ہمت کر کے اٹھا اور آفس
سے نکل آیا۔
" السلام علیکم ماما -"
"وعلیکم السلام بیٹا ! تم نے اتنی دیر آفس میں لگا دی ؟ "
" ماما بتایا تھا نا کہ آج ایک اہم میٹنگ
ہے میری وہ اٹینڈ کرتے دیر ہو گئی۔"
" اور ہاں عائشہ بتا رہی تھی کہ تمہاری کوئی
فائل گم ہو گئی ہے وہ ملی کہ نہیں ؟ "
اس نے بڑی حیرانگی سے عائشہ کی طرف دیکھا جس نے ہاں کہنے کا اشارہ کیا ۔
" جی ماما وہ آفس میں ہی تھی مل گئی
-" اس نے کہا-
" عائشہ سے نہیں پوچھو گے کہ اس کو کیا ہوا
ہے ؟ " انھوں نے کہا -
" جی ۔۔۔۔" اس نے ماں کی طرف دیکھا
اور پھر عائشہ کی طرف دیکھا -
" کچھ نہیں بس چکر آ گیا تھا -" عائشہ نے سر جھکائے ہوئے کہا-
" بیٹا جب تم گھر سے گئے تھے تو یہ بیڈ سے
اترتے ہوئے چکر آنے سے گر گئی اور ماتھے پر دو ٹانکے لگے ہیں ۔ میں تو سمجھی تھی کہ
تم نے کچھ کہا ہے اس کو اور میں توتمہیں فون کر کے ڈانٹنے لگی تھی پر عائشہ نے بتایا کہ تم نے کچھ نہیں کہا اسے خود
ہی چکر آ گیا تھا-" اور اسد حیرانگی سے کھڑا کبھی عائشہ کو دیکھ رہا تھا تو کبھی
ماں کو ۔
" بیٹا تم فریش ہو جاؤ پھر کھانا کھاتے ہیں
۔ نازش بیٹا تم بی بی سے کہو کھانا لگوائے -" نازش کمرے سے گئی تو وہ بھی اس کے پیچھے باہر نکل
گئیں ۔
انکے جانے کے بعد وہ اس کے پاس صوفے پر بیٹھ گیا اس کے پاس-
" سوری وہ کچھ زیادہ ہی زور کا لگ گیا تھا
تھپڑ ، اور تھینکس ماما سے بچانے کے لئے۔"
" اسد میں نے ثانیہ سے کچھ نہیں کہا تھا-" اس نے روتے ہوئے کہا ۔
" عائشہ تم پھر جھوٹ بول رہی ہو- "
" اسد میں جھوٹ نہیں بول رہی آپ سے، آپ کی
قسم میں آپ کی جھوٹی قسم نہیں کھاسکتی، کیونکہ میں آپ سے بہت پیار کرتی ہوں۔ لیکن پھر
بھی اگر آپ کو یقین نہیں تو میں ماما اور پاپا کی قسم کھا کر کہتی ہوں کہ میں نے اس
کو کچھ نہیں کہا-"
" پھر اس نے مجھ سے جھوٹ کیوں بولا ؟
"
" مجھے نہیں پتا اسد کہ اس نے کیوں جھوٹ بولا -"
" اچھا ٹھیک ہے میں خود اس سے پوچھ لوں گا
-" کہہ کر وہ اٹھا اور ڈرائنگ روم میں چلا گیا۔
####### ####### #######
اگلے دن وہ اتنا بزی رہا کہ اسے یاد ہی نہ رہا ثانیہ سے
پوچھنے کا۔ دس بجے شہروز کی برتھ ڈے کا فنکشن تھا۔ سات بج چکے تھے اور وہ ابھی تیار
ہو رہی تھی اور اسد کا انتظار کر رہی تھی ۔ وہ ابھی تک آفس سے نہیں آیا تھا۔
" عائشہ بیٹا فون کرو اسد کو آیا کیوں نہیں ؟ " ماہم بیگم نے کہا تو اس نے جھجھکتے ہوئے اسد کا فون ملایا۔
" ماما پوچھ رہی ہیں کہ آپ کب تک آ ئیں گے؟
" کال ملنے پر اس نے پوچھا -
" مجھے آفس میں دیر ہو جائے گی تم لوگ جاؤ
۔ میں بعد میں آ جاؤں گا -" کہتے ساتھ
ہی اس نے کال کاٹ دی۔
اس نے ماہم کو بتایا تو انھوں نے کہا -" چلو میں گاڑی
نکلواتی ہوں تم سب بھی آ جاؤ-"
وہ تینوں ڈرائیور کے ساتھ شہزاد کے گھر چلی گئیں۔ عائشہ
کو آتے دیکھ کر شہروز بھاگ کر اس کے ساتھ لپٹ گیا۔ اس نے بھی جھک کر اس کو اوپر اٹھا
لیا۔
"ماموں کیوں نہیں آئے ؟ " اس نے عائشہ سے پوچھا -
" بیٹا وہ تھوڑی دیر تک آ جائیں گے-"
اس نے پیار سے اس سے کہا -
"السلام و علیکم ! کیا باتیں ہو رہی ہیں
مامی بھانجے میں ؟ "
نادیہ ان دونوں کو باتوں میں مصروف دیکھ کر مسکراتے ہوئے
کہتی ہے۔
"وعلیکم السلام نادیہ، "کچھ نہیں شہروز اپنے ماموں کا پوچھ رہا تھا۔"
"ہاں بھئی اور یہ ماتھے پر کیا ہوا آپ کے؟"
"کچھ نہیں بس چکر آیا تھا اور گر گئی تھی۔"
"ایسا کہہ کر آپ سب کو بے وقوف بنا سکتی
ہیں لیکن مجھے نہیں۔بھیا نے کچھ مارا تھا نا آپ کے؟"
"تم پاگل ہو گئی ہو یار، تمہارے بھائی مجھے
کیوں ماریں گے۔"
"آپ نہیں مانیں گی پتا ہے مجھے۔"
وہ ابھی کھڑی باتیں کر رہی تھیں کہ نازش چہکتی ہوئی آ جاتی
ہے۔
"بھابی وہ دیکھیں بھائی آ گئے ، دیکھیں کتنے
ڈیشنگ لگ رہے ہیں۔"
اسد ابھی گاڑی میں ہی تھا سب سے پہلے اس کی نظر عائشہ پر
پڑتی ہے۔ عائشہ کو دیکھتے ہی وہ اس پر سے نظر ہٹانا ہی بھول گیا۔ بلیک ساڑھی جس پر
وائیٹ کلر کے سٹون لگے ہوئے تھے، وائیٹ کلر کے ائیر رنگز ، سادہ سے میک اپ کے ساتھ لائیٹ ریڈ کلر کی لپ اسٹک کے ساتھ نظر لگ
جانے کی حد تک حسین لگ رہی تھی۔
"آج میں نے واقعی انسانیت کی بھی حد پار
کر دی ، کس طرح میں نے اس کو دھکا دیا"۔ وہ دل ہی دل میں سوچ رہا تھا۔
ادھر عائشہ مسلسل اس کو اس طرح اپنی طرف دیکھتے پا کر کافی حیران اور پریشان ہو رہی تھی۔
وہ ٹکٹکی باندھے اسے ہی دیکھ رہا تھا، شاید کافی دیر تک دیکھتا رہتا لیکن موبائل کی
مسلسل بجتی رنگ ٹون نے یہ سلسلہ منقطع کر دیا ، اور وہ ہوش و حواس میں واپس آ گیا ۔ وہ کال سنتا ہوا
گاڑی سے باہر آ گیا۔ شہروز جو کافی دیر سے اس کا انتظار کر رہا تھا ، اسے دیکھتے ہی اس کی
طرف بھاگا۔
اسد نے بھی بھاگ کر اسے اپنی بانہوں میں اٹھا لیا۔
"اوۓ
ماموں کی جان کیسے ہو؟"
"میں ٹھیک ہوں، آپ کہا ں تھے؟"
"بیٹا میں آفس میں تھا۔"
وہ اسے ویسے ہی اٹھائے ہوئے ان کی طرف آ گیا-
"السلام علیکم بھا
ئی!"
"وعلیکم السلام-"
وہ بلا کی حسین لگ رہی تھی اسد نے ایک بار پھرنظر اٹھا کردیکھا، وہ بہت پیارے لگ رہی تھی-
"بھائی کیا دیکھ رہے ہیں بھابی کی طرف؟نظر لگانے
کا ارادہ ہے؟"
نادیہ نےاسد کی چو ری پکڑتےہوئے مسکرا کر کہا۔وہ بھی مسکرا
دیا۔
ماموں ہم پلے کیک کاٹیں گے-"
اسد اسے ویسے ہوئے بازوؤں میں اٹھا ئے ہوئے وہاں لے گیا۔
شہروز کی ضد تھی کہ وہ کیک اسد اور عائشہ کے ساتھ کاٹے گا۔
نگارش کو نہ چاہتے ہوئے بھی اپنے بیٹے کی ضد پوری کرنی پڑی۔
اب شہروز کیک کے سامنے چھری پکڑ کر کھڑا تھا۔ اس کے ایک
طرف عائشہ اور دوسری طرف اسد کھڑے تھے۔
شہروزنے چھری کیک پر رکھی تو اسد نے اس کے ہاتھ پر اپنا
ہاتھ رکھ دیا۔
"اب آپ بھی نکے ہاتھ۔"
عائشہ نے بھی اسد کے ہاتھ پراپنا ہاتھ رکھ دیا۔
اسد بار بار اس کی طرف دیکھ رہا تھا اور وہ بہت نروس ہو
رہی تھی۔
آخر شہروز نے چھری کیک پر رکھ دی اور کیک کاٹ دیا۔
کیک کے کٹ ہوتے ہی عائشہ نے کیک اٹھا کر اس کے منہ میں ڈالا۔
"مم ماموں تے منہ میں تالے۔" اور ہاتھ آگے کر کے اسد کے منہ میں بھی ڈال دیا۔
قسم سے کوئی شوق نہیں ،عشق کا بس
جو اک نظر تمہیں دیکھا دل بغاوت کر بیٹھا
"مم مجھے پاری ترے۔"وہ جلدی سے پکڑ
کر اسے گلے لگا لیتی ہے۔اور اس کے گال پہ دو تین بارپاری کرتی ہے۔ پاری کرنے سے عائشہ
کی لپ اسٹک شہروز کی گال پرلگ گئی۔وہیں سے اسد نے اس کو پاری کی تھی تو وہ لپ اسٹک
اسد کےہونٹوں پر لگ گئی۔
نازش نے جب دیکھا تو ہنسناشروع کر دیا۔شہروز تو پہلے ہی
ہنس رہا تھا، اب وہ دونوں ہنس رہے تھےاور اسد حیرانگی سے کھڑا ان دونوں کو دیکھ رہا
تھا۔
"کیا بات ہے کیوں اتنی ہنسی نکل رہی ہے تم دونوں
کی؟"
ان دونو ں نے کوئی جواب نہ دیا،بس ہنستے رہے۔
"نازش شہروز کیا بات ہے بیٹا کیوں اتنا ہنس
رہے ہو؟"
"بھابھی وہ دیکھیں بھائی کے ہونٹوں کی طرف۔
اس نے جیسے ہی اسد
کی طرف دیکھاتو دیکھتے ہی ہنسنا شروع کر دیا۔
وہ سب بھول کر اس کی ہنسی میں کھو گیا۔
"اف میرے خدایا ! یہ تو ہنستے ہوئے اور بھی
زیادہ خوبصورت لگتی ہے، سو بیوٹی فل۔"
"ماموں تیل تھودے۔"
"ہوں کیا کہا تم نے؟"
"شہروز جاؤ آئینہ لا کر ماموں کو دکھاؤ۔"
شہروز بھا گتے ہوئے کمرے میں گیا۔
"بھائی ایسا لگ رہا ہے آپ نے بھابی کے لپز پر
کس کیا ہے۔"
"واٹ نان سینس۔"
شہروز نے آئینہ لا کر اسے پکڑایاتو وہ خود دیکھ کر مسکرا
دیا۔
"بھابھی آپ بھائی کے لپز سے یہ صاف کر دیں۔"وہ
کہہ کر شہروز کو باہوں میں اٹھا کر خود باہر چلی گئی۔
عائشہ اسد کے پاس ہی کھڑی تھی۔
"لائیے یہ ٹشو مجھے دیں میں صاف کر دوں۔"
اسد تو پہلے ہی اس کے حسن کا دیوانہ ہوا تھا، اب اسے اتنا
پاس دیکھ کر تو بالکل ہوش و حواس کھو بیٹھا
تھا۔
اس نے چپکے سے شرارت کر دی،عائشہ کے پورے بدن میں بجلی دوڑنے
لگی۔
وہ حیرانگی سے کھڑی تھی اور سوچ رہی تھی کہ یہ وہی اسد ہے
جس کو اس کے نام سے نفرت تھی۔ یہ کیا ہو گیا ہے اسے آج؟
تھوڑی دیر بعد اس نے اپنے سے اسے علیحدہ کیا تو وہ تھوڑی
دور جا کر کھڑی ہو گئی۔
"اسد آپ ٹھیک ہیں؟ "اس نے ہمت کر کے
اس سے پوچھا ۔
"ہاں؟ ہاں۔ "اس نےمسکراتے ہوئے کہااور
کمرے سے نکل گیا۔
پارٹی کے ختم ہونے کے بعد وہ واپس گھر آ گئے۔
سب تھک گئے تھے ، آتے ہی اپنے اپنے کمروں میں چلےگئے۔
اسد کی کوئی ضروری کال آ گئی تھی ، وہ فون سننے کے لیے وہیں
گارڈن میں کھڑا ہو گیا۔
عائشہ ڈریس چینج
کر کے آئی ،ابھی بیڈ پرلیٹی ہی تھی۔ جب وہ کمرے میں آیا۔
آتے ہی ڈریسنگ روم میں چلا گیا تھوڑی دیر بعد چینج کر کے
نکلا اور بیڈ پر لیٹ گیا۔
عائشہ اس کے نکلنے سے پہلے ہی بیڈ سے اٹھ کر صوفے پر چلی
گئی تھی۔
"عائشہ ،عائشہ سو گئی ہو؟"
"نہیں تو۔"
"ادھر میرے پاس آؤ۔"وہ اس کی طرف دیکھتے
ہوئے بولا۔
"کیوں؟"
"کہہ رہا ہوں نا میرے پاس آؤ۔جلدی آؤ اورزیادہ
سوال جواب مت کرو۔"
"نہیں میں نے نہیں آنا۔"
آج اسے تڑپتا دیکھ کر وہ دل ہی دل میں خوش ہو رہی تھی۔
"عائشہ میں پیار سے کہہ رہا ہوں میرے پاس
آ جاؤ۔ورنہ تم میری وائف ہو اور میں تمہارے
ساتھ زور زبرستی بھی کر سکتا ہوں لیکن میں ایسا نہیں کرنا چا ہتا، اس لیے چپ کر کے
اٹھ کر میرے پاس آ جاؤ۔"
اپنی بات مکمل کر کےوہ دوبارہ اسے آنے کے لیے کہتا ہے۔
"میرے پاس آؤ۔"
وہ اٹھ کر اس کے پاس آ گئی ۔وہ وہیں اسے اپنے پاس بیڈ پر
لٹا لیتا ہے، رات کب گزر گئی پتا ہی نہیں چلا۔
###### ###### ######
دو ماہ بعد،،،
اسد کافی بزی رہنے لگا تھا، وہ بزنس کو بہت زیادہ بڑھانا
چاہتا تھا،اس لیے دن رات ایک کر رکھا تھا۔ اب تقریباً پانچ دن کے لیے اسے بزنس میٹنگ کے لیے دبئی جانا تھا۔
عائشہ اداسی سے اس کی پیکنگ کر رہی تھی۔ ان کی شادی کے بعد
وہ پہلی بار اتنے دنوں کے لیے کہیں جا رہا تھا۔ اس رات کے بعد ان دونوں میں تکرار کم
ہو گئی تھی۔ ایک دوسرے سے تھوڑی بہت بات بھی کر لیتے تھے۔
"اسد جانا ضروری ہے؟"
"ہاں میری بہت اہم میٹنگ ہے۔تم اداس ہو؟"
"ہا ں جی۔"
"اداس نہ ہو میں جلدی واپس آ جاؤں گا۔"
وہ اس کے پاس آ کر اسے گلے لگا کر کہتا ہے تو وہ مسکراتے
ہوئےبولی-
"ٹھیک ہے۔"
شام چھ بجے اس کی فلائیٹ تھی۔ وہ چار بجے ڈرائیور کے ساتھ
گاڑی میں نکل گیا۔
اس کے جانے سے گھر میں اداسی سی چھا گئی ،اس کا رونے کا
دل کر رہا تھا لیکن اسد کا سوچ کر نہیں روئی۔ اب اسے لگنے لگا تھا کہ اس کی زندگی میں
سب کچھ ٹھیک ہوتا جا رہا ہے۔ اسد اس سے محبت کر نے لگا ہے، لیکن اسے کیا پتہ تھی کہ
اس کی یہ خوشی عارضی ہے۔
####### ####### ######
"مبارک ہو عائشہ اسد آپ ماما بننے والی ہیں-"
اسے چکر آ
رہے تھے تو ماہم بیگم اسے ہاسپٹل لے گئی جہاں انہوں نے اتنی بڑی خوشخبری سنی۔ یہ خوشخبری سننے کے لیے کب سے ان کے کان ترس
رہے تھے۔
عائشہ کو تو ابھی تک اپنے کانوں پر یقین نہیں آ رہا تھا۔
اسے لگ رہا تھا وہ کوئی خوا ب دیکھ رہی ہے۔
ماہم بیگم نے گھر آتے ہی سب کو ہی خوشخبری سنائی اور مٹھائی
کا آرڈر بھی دے دیا۔
عائشہ بھی جلد از جلد یہ خبر اسد کو سنانا چاہتی تھی لیکن
ماہم بیگم نے اسے منع کر دیا۔ وہ چا ہتیں تھیں جب وہ واپس آئے تو اسے یہ خبر دی جائے
اور تب اس کے کیا ایکسپریشن ہوں گے جب وہ سنے گا و ہ باپ بننے والا ہے کیونکہ اسے بچے
بہت پسند تھے۔
ہر کسی کی لائف میں یہ دن بہت اہم ہوتا ہے، جب اسے پتہ چلتا
ہے کہ اس کی لائف میں کئی آ رہا ہے،جو اسے ماما پاپا کہہ کر بلائے گا۔
عائشہ کو لگ رہا تھا وہ ہواؤں میں اڑ رہی ہے۔ کتنا انتظار
کیا تھا اس نے اس دن کا ۔ آج آخر اللہ نے اسے یہ دن دکھا ہی دیا۔
وہ اٹھی اور شکرانے کے نوافل ادا کرنے کے لیے کمرے میں چلی
گئی۔
####### ####### ######
آج اسد نے وا پس آنا تھا، دس بجے اس کی فلائیٹ تھی وہ شام
سے ہی تیار ہو کر بیٹھ گئی اور اس کا ویٹ کرنے لگی۔ ایسا لگ رہا تھا کہ ٹائم گزر ہی
نہیں رہا، وہیں کا وہیں کھڑا ہے۔دو گھنٹے دو صدیوں کے برابر لگ رہے تھے، آخر دس بج
ہی گئے اور وہ آ گیا جس کا وہ شام سے بے چینی سے انتظار کر رہی تھی۔
"السلام علیکم۔"
"وعلیکم السلام ۔"
وہ بھاگ کر اس کے سینے سے لگ گئی۔
"کیا حال ہے؟"
"ٹھیک ، آپ کیسے ہیں ؟"
"میں بھی ٹھیک ہوں۔عائشہ میں تم سے کوئی بات
کرنا چاہتا ہوں ۔"
وہ سیدھی ہو کر کھڑی ہو گئی۔
"اسد میں بھی کچھ بتانا چاہتی ہوں۔"
"ہاں بتاؤ۔"
"نہیں پہلے آپ بتائیے کیا کہنا چاہتے ہیں؟"
"اچھا چلو ٹھیک ہے۔"اسد نے اس کی طرف
دیکھتے ہوئے کہا۔
"عائشہ ایک بات پوچھوں تم سے؟"
"جی پوچھیے۔"
"تم مجھ سے کتنا پیار کرتی ہو؟"
"کیا مطلب؟"
"مطلب یہ کہ اگر میں تم سے کوئی چیز مانگوں تو تم دو گی؟"
"میں آپ سے بہت پیار کرتی ہوں اسد ، اگر
میری جان بھی آپ مانگیں گے تو میں انکار نہیں کروں گی۔"
کہیں روشنی تو کہیں شام ہو گئی
میری ہر خوشی تیرے نام ہو گئی
کچھ مانگ کر تو دیکھو ہم سے کبھی
ہونٹوں پر مسکان ہتھیلی پر جان ہو گی
"اچھا چلو تو پھر سنو، تم اپنے امی ابو کے
گھر چلی جاؤ، میں تھوڑے دنوں تک تمہیں طلاق کے کاغذ بھیج دوں گا۔"
وہ آ نکھیں پھاڑ کر کھڑی اس کی باتیں سن رہی تھی۔
اس کی باتیں بم بن کر اس کے اعصا ب پر گر رہی تھیں۔
"میں ثانیہ سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔"
"لیکن اسد میں نے کون سا آپ کو روکا ہے ،
آپ کر لیں دوسری شادی بے شک اسے اسی گھر میں
لے آئیں، میں آپ کو نہیں روکوں گی۔"
وہ روتے ہوئے کہہ کر اس کے ساتھ لپٹ گئی۔
" پلیز اسد مجھے طلاق نہ دیں ، میں آپ کے
نام کےسہارے ساری زندگی گزار لوں گی۔ پلیز میرے ساتھ ایسا نہ کریں۔" روتے ہوئے
اس کی ہچکی بند ھ گئی تھی۔
"سوری عائشہ میں بھی یہی چاہتا ہوں کہ تمہیں طلاق نہ دوں لیکن ثانیہ نے یہ شرط رکھی ہے کہ میں طلاق دوں گا تو وہ میرے ساتھ شادی
کرے گی۔"
"ٹھیک ہے آپ نے پیار کیا ہے تو بات تو ماننی
پڑے گی، چلی جاؤں گی میں کل صبح کو، اور کسی کو کچھ نہیں بتاؤں گی۔ خدا نے آپ کا اور
میرا ساتھ یہیں تک لکھا تھا۔"
اس نے اپنے آنسو صاف کیے اور جا کر صوفے پر لیٹ گئی۔
خرید سکتے تو تجھے اپنی زندگی بیچ کر خرید لیتے
"اسدکیوں کچھ لوگ محبت سے نہیں قسمت سے ملا کرتے ہیں۔" رات اس نے
روتے ہوئے گزاری-
سویا تو وہ
بھی نہیں تھا ساری رات۔
عائشہ کو رلانے کا تو اس نے کبھی بھی نہیں سوچا بھی تھا- اپنی خوشی کی خاطر وہ اس
معصوم سی لڑکی کی آنکھوں میں آنسو بھر گیا۔صبح ہوتے ہی وہ اٹھ کر ناشتہ کیے بغیر آفس
چلا گیا۔اور وہ اٹھتے ہی پیکنگ میں مصروف ہو گئی۔
بیگ میں کپڑے رکھ ہی رہی تھی کہ نازش آ گئی۔
"بھابھی جان کہیں جا رہے ہیں آپ لوگ؟"
"میں اکیلی جا رہی ہوں۔"
"لیکن کہاں؟"
"اپنے امی ابو کی طرف۔"
"بھابھی کیا ہوا؟ بھائی نے کچھ کہا آپ سے؟"
"نہیں ،انہوں نے کچھ نہیں کہا، بس میں خود
تھک گئی ہوں اس بے نام رشتے کو نبھاہتے نبھاہتے، اب رہائی چاہتی ہوں۔"
اس سے نظریں ملائے بغیر اس نے جواب دیا۔
"بھابھی ا ب آپ کی زندگی میں خوشیاں آنے
والی ہیں تو اب آپ اس رشتہ کو توڑ کر جا رہی ہیں۔"
اتنے میں ماہم بیگم بھی کمرے میں آ گئیں۔
"کہاں جا رہی ہو عائشہ بیٹی؟"
عائشہ کی طرف دیکھتے ہوئے انہوں نے پوچھا۔
"ماما یہ کیا بتائے گی میں بتاتی ہوں۔مس عائشہ
کمال جو عائشہ اسد بننے کے لیے مری جا رہی تھی ، کہتی تھی کہ اگر اسد نہ ملا تو میں
مر جاؤں گی۔ یہی عائشہ آج اس رشتے کو نبھاہتے نبھاہتے تھک گئی اور توڑنا چاہتی ہے۔
واہ عائشہ میڈم واہ، پیار کو سلام ہے آپ کے۔"نازش نے تلخ ہوتے ہوئے کہا۔
"نہیں نازش تم غلط سمجھ رہی ہو میں واقعی
اسد سے بہت پیار کرتی ہوں۔"
"عائشہ ٹھیک کہہ رہی ہے بیٹا"۔ ماہم
بیگم نے بھی ہاں میں ہاں ملائی۔
"یہ اسد سے بہت پیار کرتی ہےتو اس کی خوشی کی
خاطر اتنا بڑا قدم اٹھا رہی ہے۔"
"نہیں ماما میں اپنی مرضی سے جا رہی ہوں۔"
عائشہ نے جھٹ سے کہا۔
"میں تمہاری بات مان لیتی ہوں، لیکن جب تم
دونوں باتیں کر رہے تھے وہ باتیں میں نے سن لی تھیں سوری بیٹا، میں اس وقت اسد کو یہی
خوشی کی خبر سنانے آئی تھی کہ تم دونوں کی باتیں سن کی وہیں رک گئی۔"
"ماما آپ اسد کو یہ بات نہیں بتائیں گی۔"
"ٹھیک ہے بیٹااور مجھے یقین ہے وہ تمہار ے پاس
ضرور آئے گا۔"
وہ ماہم بیگم کے سینے سے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔
"سوری بھابھی۔"
"اٹس اوکے۔"
"بھابھی پلیز اگر بھائی نے آپ کو طلاق کے
کاغذات بھیجے تو سائن کرنے سے پہلے ان کو یہ خبر سنا دیجیے گا۔"
"اوکے ٹھیک ہے۔"
####### ###### #######
جب وہ شام کو آفس سے گھر آیا تو وہ جا چکی تھی، گھر میں
مکمل خاموشی تھی۔ماما اور نازش اپنے اپنے کمروں میں تھیں۔ کمرے میں اسے گھٹن ہو رہی
تھی تو وہ کمرے سے نکل کر گارڈن میں آ گیا،وہیں بیٹھے بیٹھے آفس کا کام کرتا رہا۔ وہ
خود کو جتنا بھی مصروف کرنے کی کوشش کرتا اس کا خیا ل آ ہی جاتا۔ایک ماہ وہ اس طرح
بزی رہا۔ وکیل کو اس نے ایک ماہ کے بعد کال کی تو پتا چلا کہ وہ کہیں ملک سے باہر گئے۔
ثانیہ کو اس نے سمجھا دیا تو وہ بھی چپ کر گئی۔
وہ سارا سارا دن بزی رہتااور شام کو جب گھر جاتا تو گھر
میں بے چینی سی ہوتی۔ ماہم بیگم ارو نازش نے اس سے بول چال بند کر دی تھی۔ ایک دن وہ
ایسے ہی بیٹھا آفس کے کاموں میں مصروف تھا جب اس کے موبائل کی رنگ ٹون بجی۔
اس نے کا ل اٹینڈ کر کے ہیلو کہا۔
"کیا ہوا آپی !آپ رو کیوں رہی ہیں؟شہروز تو ٹھیک ہے؟"
"ہاں ٹھیک ہے۔"
"پھر کیا ہوا ، کیوں رو رہی ہیں؟"
"اسد تم جلدی سے میری طرف آ جاؤ۔"
"اچھا میں آ رہا ہوں آپ چپ کریں۔"
وہ سارا کام ویسے ہی چھوڑ کر تقریباً بھاگتا ہوا آفس سے
باہر نکلتا ہے۔اور بہت رش ڈرائیونگ کرتے ہوئے وہ نگارش کے گھر پہنچا۔
جب وہ ڈرائنگ روم میں آیا تو وہ صوفے پر سامنے بیٹھی رو
رہی تھی۔
"اچھا یار ! اب بتا دو کیا ہوا؟"
اب کی بار وہ غصے سے پوچھتا ہے ۔
"آپی میرا دل بہت گھبرا رہا ہے پلیز بتائیے
کیا ہو ا ہے-"
وہ پریشانی اور غصے کے ملے جلے تاثرات سے اس سے پوچھتا ہے۔
نگا رش نے سامنے میز پر پڑی ڈائری اٹھا کر اسد کے ہاتھ میں
دے دی۔
"اب یہ کیا ہے آپی؟"
میں ثانیہ کی طرف گئی تھی ، وہاں سے اس کے بیڈ پر سے اٹھا
کر لائی ہوں۔ یہ ثانیہ کی ڈائری ہے۔"
وہ دیکھ رہا تھا آنکھیں غصے اور حیرت سے بھری ہوئی تھیں۔
"ہاں اسدیہ سچ ہے تانیہ کو بلڈ کینسر ہےاور
یہ بات اسے سال پہلے ہی پتہ چل چکی تھی ۔جب اسے پتہ چلا کہ اس کا علاج نہیں ہو سکتا
تو اس نے اس طرح لڑکوں کو برباد کرنا شروع کر دیا۔ اس نے کئی ہنستے بستے گھر اجاڑ دیئے۔
اب اس کے پاس ٹائم بہت کم ہے، اس کی زندگی صرف دس یا پندرہ دن ہے ۔ اب اس کا ٹارگٹ
تم ہو ، وہ تمہیں برباد کر دینا چاہتی ہے۔اس نے جیسا چاہا تم ویسا ویسا کرتے گئے،اسد
تمہارے لیے عائشہ ہی بنی ہے، ثانیہ جیسی بے حیا لڑکی نہیں۔تم کچھ تو بولو ، چپ کیوں
کھڑے ہو۔"
نگارش نے اسے بازوؤ
ں سے پکڑ کر جھنجھوڑا۔
"آپی میں نے اس لڑکی کو چھوڑ دیا ،جو مجھے
حد سے زیادہ پیار کرتی تھی، جسے مجھ سے محبت نہیں عشق تھا۔ وہ میرے لیے جان بھی دینے
کو تیار تھی۔ میں نے اسے چھوڑ دیا۔"
وہ گھٹنوں کے بل بیٹھا رو رہا تھا ۔
"تم نے اسے طلاق تو نہیں دی نا، وہ تم سے
بہت پیا ر کرتی ہے، تم اس سے معافی مانگ لینا وہ تمہیں معاف کر دے گی۔"
اسد کہاں جا رہے ہو ، رکو تو سہی۔"
وہ اچانک وہاں سے اٹھ کر باہر کی طرف چلا گیا، گاڑی بہت
تیز سپیڈ میں چلاتا ہوا وہ ثانیہ کے گھر پہنچا، لمبے لمبے ڈگ بھرتا وہ ثانیہ کے کمرے
میں پہنچ گیا۔
ثانیہ بیڈ پر لیٹی تھی اسے دیکھ کر فوراً اٹھ کر بیٹھ گئی۔
"اسد تم یہاں کیسے؟"
اسد نے ڈائری اس
کے سامنے بیڈ پر پھینک دی ۔
"یہ ہے تمہاری حقیقت ثانیہ؟ آج سب کچھ کھل کر
میرے سامنے آ گیا ہے۔ مجھے افسوس ہو رہا ہے میں نے تمہاری خاطر اس ہیرے جیسی لڑکی کو
کھو دیا-"
"نہیں اسد!میں سچ میں تم سے بہت پیا ر کرتی
ہوں۔" وہ آگے بڑھ کر اس کا ہاتھ تھام کر بولی۔
"اچھا تم مجھ سے پیا ر کرتی ہو تو میرے لیے
جان دے سکتی ہو؟
چپ کیوں ہو
گئی؟ دو نا جواب۔
نہیں دے سکتی
تم۔
حالانکہ تمہیں پتا ہے تمہاری زندگی صرف 10 یا 15 دن کی ہے،
لیکن پھر بھی تم میرے لیے جان نہیں دے سکتی۔ اگر عائشہ کو میں نے یہ بات کہی ہوتی تو
وہ میری خاطر زہر کا پیالہ پی لیتی۔
ایک بار اس نے ایک غزل مجھے سنائی تھی، وہ خود لکھی تھی
اس نے۔
وہ غزل نہیں تھی اس کے جذبات تھے،وہ غزل سن کر ایسا لگتا
تھا کہ وہ خود بول رہی ہے۔
وہ غزل مجھے
زبانی یاد ہو گئی تھی۔
تم بھی سنو ، اس نے جیسا کہا تھا ویسا ہی ہوا۔
"سنا ہے کوئی اور بھی چاہنے لگا ہے تمہیں
ہم نے اگر ٹوٹ کر نہ چاہا تو اس کے ہو جانا
ہم نے تمہاری یاد میں آنسوؤں کا دریا بہا دیا
اس کی آنکھوں میں نمی بھی آ جائے تو اس کے ہو جانا
ہم نے تمہاری خاطر خود کو جلا دیا
اس نے اگر پہلو بھی جلا دیا تواس کے ہو جانا
ہم نے تمہا ری خاطر اپنی نیند قربان کر دی
اس نے ایک شب بھی تیرے نام کر دی تو اس کے ہو جانا"
وہ اس کو غزل سنا کر جا چکا تھا۔گھر جا کر اس نے خود کو
ایک کمرے میں بند کر لیا۔
وہ رو رہا تھا۔"کیوں کیا ثانیہ تم نے ایسا، بتاؤ کیوں
تم نے میری زندگی کی ہر خوشی چھین لی مجھ سے؟"
"میں عائشہ سے معافی بھی تو مانگ سکتا ہوں۔"
دل سے اسے آواز آئی تو وہ فوراً باہر بھاگا۔
وہ ماہم بیگم کے کمرے میں گیا تو کمرہ خالی تھا۔نازش کے
کمرے میں گیا تو وہ بھی خالی تھا۔
"ماما ،،،،،، ماما ،،،، کہا ں ہیں آپ؟"
"افضل(ملازم) افضل۔"
"جی چھوٹے صاحب۔"
"ماما اور نازش کہا ں ہیں؟"
"چھوٹے صاحب جی وہ ہسپتال گئی ہیں۔"
"What?"
"کس لیے گئی ہیں؟"
اس نےحیرانگی سے دیکھتے ہوئے اس سے پوچھا۔
"وہ جی دلہن بی بی کی طبیعت خراب ہے۔"
"کیا عائشہ کی طبیعت خراب ہے؟ کون سے ہسپتال
میں ہے پتہ ہے کچھ؟"
"نہیں چھوٹے صاحب یہ تو مجھے نہیں پتہ۔"
اس نے جلدی سے نازش کو فون کرتا ہےلیکن کال اٹینڈ نہیں کی گئی۔پھر اس نے علیشبہ کو کال
کی۔
"اسلام و علیکم بھابھی!"
"وعلیکم السلام۔"
"بھابھی عائشہ کہاں ہے؟"
"ہاسپٹل میں ہے۔"
"بھابھی کون سے ہاسپٹل میں ہیں آپ لوگ؟"
"ہم جناح ہاسپٹل میں ہیں۔"
"اچھا ٹھیک ہے۔"
وہ گاڑی میں بیٹھااور فل سپیڈ میں گاڑی بھگاتا ہوا تقریباً
آدھے گھنٹے بعد وہ ہاسپٹل کے کاریڈور میں تھا۔
سب سے پہلے اس نے
ماہم بیگم کو دیکھا-
"ماما کہا ں ہے عائشہ؟ کیا ہوا ہے اس کو؟"
"تمہیں اس سے کیا؟
"ماما پلیز مجھے معاف کر دیں پلیز ماما۔"وہ
ان کے ہاتھ پکڑ کر روتے ہوئےبولا۔
"میں عائشہ سے بھی معافی مانگ لوں گا اور
اسے اپنے ساتھ گھر واپس لے جاؤں گا۔ماما معاف کر دیں مجھے۔"
"اچھا ٹھیک ہے۔ "ماہم بیگم نے مسکراتے
ہوئے اسے پکڑ کر گلے لگا لیا-
"ماما کہا ں ہے وہ ؟کیا ہوا ہے اسے؟"
"وہ آپریشن تھیڑ میں ہے، تم یہاں بیٹھو میں
دیکھتی ہوں اسے۔"
اللہ تعالیٰ نے عائشہ کو ایک چاند سا بیٹا دیا تھا اور اسے
زندگی کی ہر خوشی دے دی تھی۔ وہ بہت خوش تھی اس چھو ٹے سے بے بی کے آنے سےوہ اپنا ہر
غم بھول چکی تھی۔
ماہم بیگم اور نازش اکٹھے کمرے سے باہر نکلتی ہیں۔
"ماما مجھے اندر جانے دیں وہ کیسی ہے میں دیکھنا
چاہتا ہوں اسے۔"
اچانک اسے اندر سے بچے کے رونے کی آواز آئی۔
"ماما یہ آواز کس کی ہے؟ ما ما بولیں نا-"
وہ بچوں کی طرح خوشی سے چہکتے ہوئے پوچھ رہا تھا۔
"ماما جو میں سوچ رہا ہوں کیا وہ سچ ہے؟"
"کیا سوچ رہے ہو تم؟" ماہم بیگم مسکراتے
ہوئے بیٹے کی طرف دیکھ کر پوچھتی ہیں۔
"ماما میں پاپا بن گیا ہوں؟"
"نہیں بھائی جان میں پھوپھی بن گئی ہوں۔"
"اوہو۔"
وہ خوشی سے اسے پیچھے کر کے اندر کی طرف بھاگا۔
ماہم بیگم اور نازش اس کی بےتابی دیکھ کر ہنس دیں۔
اس نے اندر جاتے ہی ننھے اسد کو اپنے بیٹے کو اپنی باہوں
میں اٹھا لیا، اسے کبھی گالوں سے چومتا کبھی ماتھے سے کبھی ہاتھوں کو چومنے لگا۔
عائشہ مسلسل اسے پیار کرتا دیکھ رہی تھی۔ وہ بہت خوش تھا۔وہ
وہیں عائشہ کے پاس بیٹھ گیا۔
"عائشہ سوری مجھے معاف کر دو، میں تمہیں
اور اپنے بیٹے کو گھر لے جانا چاہتا ہوں۔"
اس نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
"میں کون سا آپ سے ناراض ہوں۔"
"پکا ؟نہیں ناراض تم؟"
"اسد جن سے پیا ر کیا جاتا ہے ان سے ناراض
نہیں ہوا جاتا ہے۔" وہ مسکراتے ہوئے بولی تو وہ بھی مسکرا دیا۔
"تھینکس یار۔" اسد مسکراتے ہوئےبولا۔
"وہ کس لیے؟"
"اتنا خوبصورت اور پیارا سا بے بی دینے کے
لیے۔"
اس کی بات سن کے وہ قہقہ لگا کر ہنس دی۔
"آج دوسری بار میں نے تمہیں ہنستے ہوئے دیکھا
ہے، تم ہنستے ہوئے اور بھی پیاری لگتی ہو، ہمارا بیٹا بھی بالکل تمہارے جیسا ہے اسکا
نام میں علی رکھوں گا۔ یہ میں تمہارے لیے لے کر آیا تھا۔"
"یہ کیا ہے؟" اس نے حیرانگی سے پوچھا۔
"کھول کر دیکھو۔"
اس نے ڈبیہ اس کے
ہاتھ میں پکڑا دی-
"یہ تمہارا منہ دکھائی کا گفٹ ہے۔"
ڈبیہ میں بہت خوبصورت گولڈ کے کنگن تھے۔
"واؤ
کتنے خوبصورت ہیں۔"
"لیکن تم سے زیادہ نہیں۔ "وہ کنگن اس
کے ہاتھ میں پہنا تے ہوئے بولا۔
"اسد اب تو آپ مجھے چھوڑ کر کہیں نہیں جائیں
گے نا؟"
"یار تم نے مجھے اتنی بڑی خوشی دی اب بھلا
میں کہاں جا سکتا ہوں۔"وہ مسکراتے ہوئے بولاتو وہ بھی مسکرا دی ۔
"اب میں تمہیں اور اپنے بیٹے کو مکمل خوشی
دوں گا اور اپنا فل پیار بھی دوں گا۔ لیکن
تمہیں اس کے بدلے مجھے بھی کچھ دینا ہو گا۔"
"کیا؟ "اس نے اس کی طرف دیکھ کر پوچھا۔
"ایک خوبصورت سی بیٹی۔"
اس کی بات سن کر وہ قہقہ لگا کر ہنس دی۔وہ بھی ہنس دیا۔
آج عائشہ کی ہنسی میں قوس و قزح کے سارے رنگ موجود تھے۔
اس کی زندگی میں خوشیاں آ چکی تھیں۔اس کی محبت جیت چکی تھی۔
آخر کار خدا نے اس کا ہمسفر اس کی محبت اسے دے دی تھی خدا
سے اگر سچے دل سے کچھ مانگو تو وہ ضرور دیتا ہے۔
******************
THE
END
Comments
Post a Comment