"خوشبو دھنک
کی"
آخری حصہ
روشنی کو سوتے کوئی لطیف سہ لمس اپنی پیشانی پر محسوس ہوا
وہ کمسا کر چونک اٹھی۔ اور جبھی اسکی آواز بند کرنے کو کسی نے اسکے منہ پر مضبوط ہتھیلی
جمائی۔۔روشنی نے نیم اندھیرے کمرے میں اپنی ماں کو اپنے پاس سوتے دیکھا اور رومیو کے
پیچھے بالکونی تک گئی۔ بالکونی میں جاتے ساری لائٹس رومیو نے بند کر دی۔۔۔
"شو کیوں نہیں کر رہی میں سارا دن انتظار
کرتا ہوں اب آئے گا تمہارا پروگرام مگر کبھی نہیں آتا۔۔جانتی ہو نہ صرف ایک یہی ذریعہ
ہے ہم دونوں جو ایک دوسرے کی آواز سن لیتے ہیں۔"
"آپ جانتے ہیں کوئی نہیں مانے گا پہلے اور
اب کے حالات میں فرق ہے۔" اپنا سر رومیو کے شانے پر رکھتے وہ نیم واہ آنکھوں سے
اسے دیکھنے لگی۔۔ رومیو کی شرٹ کے تین بٹین کھلے تھے۔ ہلکی ہلکی ہوا سے رومیو کے کشادہ
سینے کے بال اڑ رہے تھے۔۔
اپنی انگلی اور انگوٹھے سے دو تین بال پکڑے۔ روشنی پورا
دن کی باتیں بتانے لگی۔۔ اسکی اس حرکت سے رومیو
کے چہرے پر مسکراہٹ بکھر گئی۔
"مجھے مس کرتی ہو۔؟" روشنی کے گرد اپنی
مظبوط بازوں کا حصار بتاتے رومیو نے خمار آلودہ آواز میں پوچھا۔۔
"تھوڑا سہ۔۔" رومیو کی محبت بھری سرگوشیاں
سنتے روشنی نے گھبرا کر کہا۔۔
********
آج عدت ختم ہونے پر حنا جنید کے ہمراہ انشراح سے ملنے آئی
تو مسز جبران اس سے اپنا دکھ شئیر کرنے لگی۔ "احد کے جانے کے بعد انشراح کو جو
چپ لگی ہے یہ نہ ہی کسی ڈاکٹر کے علاج سے ٹوٹ سکتی ہے نا ہی کسی دوا سے انشراح کو محبت
اور اعتبار، کی ضرورت ہے ناکہ کے اس بے تکی میڈیسن کی۔" آسیہ نے انشراح کی بند
آنکھیں کو دیکھ کر کہا۔
"یا تو پورا دن سوتی رہتی ہے یا پھر چھت
کو گھورتی رہتی ہے بولتی ہے تو صرف یہ کہ اسے گھر جانا ہے۔۔ اس چپ سے تو بہتر ہے۔ وہ
رو لیتی کچھ دن مچل لیتی مگر یہ چپ تو چابق کی طرح مجھے لگتی ہے۔ ہم نے اس کے منع کرنے
کے باوجود بھی اسکا نکاح احد سے ہی کروا دیا یہ ہماری سزا ہے اسکی یہ حالت ہم اس عمر
میں دیکھیں۔" آسیہ کی بات پر حنا نے تاسف سے آسیہ اور رحم سے انشراح کی طرف دیکھا۔۔
اسکے بکھرے بال سنوارتے حنا نے اپنی بچپن کی دوست کی پیشانی
چومی اور اسکے مٹی مٹی مہندی والے ہاتھ پکڑ کر دیکھے حنا کے کچھ خاموش آنسو ٹوٹ کر
انشراح کے ہاتھ پر گرے۔
"ناشکری ہو تم انشراح بہت ہی خوش نصیب ہوتے
ہیں وہ لوگ جن کی محبت آسانی سے انہیں مل جاتی ہے۔" حنا اپنی ہی کہی بات کر کے
سسک اٹھی انشراح کا نرم ہاتھ آنکھوں سے لگاتے وہ تڑپ رہی تھی۔ سر جنید نے انشراح کے
سر پر پیار دیا اور نرمی سے حنا کا ہاتھ پکڑے باہر لائے۔۔
"حنا پاگل مت بنو۔ صاف کرو اپنے آنسو اسکی
فیملی پہلے پریشان ہے تم ان کو اور پریشان کر دیتی ہو یوں اس طرح خود ضبط مت کھو۔مجھے
یقین نہیں آتا انشراح جیسی بہادر لڑکی نے چھوٹا سہ دکھ اپنا روگ بنا لیا ہے دنیا کسی
ایک انسان پر تو ختم نہیں ہوتی۔۔ یہ بات تمہیں اب انشراح کو سمجھانی چاہیئے نہ کہ تم
رونے کا سیشن ہی چلا لو۔۔" سر جنید نے حنا کو ڈانٹا۔
"آپ کیا سمجھتے ہیں محبت کو، آپ نے کبھی
کسی سے محبت کی ہو تو جانیں، وہ جو بے جان مجسمہ بنی سانس لے رہی ہے وہ جی نہیں رہی
مر چکی ہے جو زندہ ہے وہ محبت ہے یہ صرف محبت کرنے والے کو معلوم ہوتا ہے درد کہاں
ہو رہا ہے مجھے تو لگتا ہے میری ہی نظر اسے لگ گئی ہے بہت دکھ تھا مجھے اس نکاح کا،
جس کو انشراح نے میرے بنا کر لیا۔ لوگوں کا
حسد کھا گیا ہے اسکی قسمت کو۔۔ محبت کو نظر لگتے دیر نہیں لگتی کیونکہ دنیا کا خوبصورت
ترین احساس ہی وہی ہے۔۔"
"یہ سب کتابی باتیں ہیں کچھ دن بعد نارمل
ہو جائے گی ابھی وہ شاکڈ ہے بس۔! اور جب سے حادثہ ہوا ہے کمرے میں بند ہے اب باہر نکلے
گی تو فریش ہو گی۔۔ تم سمجھتی ہو مجھے اسکی پروا نہیں۔ ایسا نہیں ہے۔مجھے بھی برا لگا
وہ بہت اچھی سٹوڈنٹ ہے اور دل کی بھی بہت اچھی انفیکٹ بہت سادہ دل کی؟، مگر بات ہماری
پسند نا پسند کی نہیں ہے اللہ کی رضا کی اس ذات کی مرضی کی ہے یہ اسکے کھیل ہیں وہی
جانے " سر جنید نے کندھے اچکاتے کہا۔
حنا نے دکھ سے اسکی طرف دیکھا۔
"آپ نہیں سمجھ سکتے۔ آپ نے کبھی محبت کی
ہو جانو نہ، وہ کبھی ٹھیک نہیں ہو گی وہ ایسے ہی دکھ کی تصویر بنی یہیں مر جائے گی۔"
"تم نے آنے سے پہلے کونسی فلم دیکھی تھی۔"
سر جنید نے ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ پوچھا۔
"چپ رہیں آپ۔۔!" حنا یک دم پھٹ پڑی۔
"آپ نے کبھی کسی سے محبت نہیں کی اس لئے
آپ اس دکھ کو نہیں جانتے۔" جنید کا کالر مٹھیوں میں جکڑے وہ بھنچے ہوئے لہجے میں
بولی وہ وہی ششد رہ گیا۔۔
"جب تک کسی اپنے پے نہیں گزرتی انسان دکھ
کو نہیں سمجھ سکتا کبھی کسی سے محبت کریئے گا جنید صاحب آپ جان جائیں گے محبت کس طرح
جلاتی ہے؟ وہ جسے آپ اندر نیم مردہ دیکھ کر آ رہے ہیں آپ وہ آج کی لیلہ ہے۔ مجھ سے
پوچھیں وہ کیا سہہ رہی ہے جانتے ہیں اگر میری منگنی ابا آپ کے بجائے کسی اور سے کرواتے
تو میں زہر کھا لیتی مر جاتی مگر منگنی نہ کرتی۔ اور انشراح نے تو اپنی محبت پا کر
تا عمر کے کئے کھو دی ہے وہ کیسے نارمل ہو گی؟؟ نہیں، آپ نہیں، سمجھ سکتے! کبھی نہیں
سمجھیں گے۔۔" حنا نے نفی میں سر ہلاتے اسکا کالر چھوڑا دو قدم ہٹی اور ہاتھ کی
پشت سے آنسو رگڑتی واپس اندر چلی گئی۔۔۔ وہ تو اس کے آنسوؤں میں تحس نحس ہوا وہی کھڑا
رہا کتنی ہی دیر وہ ایک ہی سمت میں دیکھتا رہا حنا واپس آئی تو اسے ہوش آیا وہ اسکی
طرف دیکھے بنا باہر کو جا رہی تھی اپنے کالر ٹھیک کر کے جنید نے اسے جاتے دیکھا اور
ہلکا سہ مسکرایا اور چہرے پر ہاتھ پھیرتا اسکے تعاقب میں چلنے لگا۔۔
*********
"انشراح کو گھر آئے بھی چار مہینے سے زائد
دن ہو گئے تھے۔ مگر اس میں کوئی بہتری نہیں آئی، وہ پورا دن کمرے میں بند جانے کیا
کرتی ہے۔۔بہت ہی مشکل سے سمجھا بجھا کر نبیل کو واپس بھیجا تھا۔ اس طرح تو اسکی نوکری
چلی جاتی۔ اب بھی اسی کا فون بند ہوا ہے کہہ رہا تھا انشراح کو اپنے پاس بلانے کے لئے
پیپر جمع کروا آیا ہے۔!" آسیہ نے جبران صاحب کو بتایا۔
"تم اسے بینا کے گھر بھیج دو مجھے لگتا ہے
احد کی یادوں کے ساتھ ہی وہ نارمل ہو سکے گی۔"
"کیسی یادیں صرف چند دن کا ساتھ تھا میں
اپنی بیٹی کو وہاں نہیں بھیجوں گی چاہے کچھ بھی ہو جائے ساری زندگی میری بچی کے سامنے
پڑی ہے یہ تو میری غلطی ہے اسکے کھیلنے کی عمر میں اسکے ہاتھ پیلے کر دیئے ورنہ ہمارا
یہ گھر جو ہر وقت سفاء ماتم بنا رہتا ہے اسی کی ہنسی سے گلستان لگتا تھا۔۔ بس میں اب
اسکی دوبارہ شادی کروا دوں گی۔" آسیہ کی بات پر عمر بھک سے اڑا۔
"کچھ خدا کا خوف کریں امی احد کوئی غیر تو
نہ تھا اور وہ بچاری اس وقت اپنے آپ پانی پینے لائق نہیں ہے اسے یہ تک نہیں معلوم زندگی
نے اسے کس قسم کا دغا دے دیا ہے اور آپ اسکی دوسری شادی کی بات کر رہی ہیں۔"
"عمر بلکل ٹھیک کہہ رہا ہے امی ہماری بہن
ہم پر بوجھ نہیں ہے۔ جو بار بار اسکی شادی کروا کر اسے نکال دیتی ہیں۔ اگر آپ نے یہی
کرنا ہے تو اس سے بہتر ہے ہم اسے نبیل بھائی کے پاس ہی بھیج دیں۔ کم سے کم اسکے زندہ
رہنے کی امید تو ہو گی۔" حارث نے ماں کو کہا۔
"تم لوگ وقت کے تقاضے کو نہیں سمجھ رہے اور
میں کونسا ابھی شادی کر رہی ہوں ابھی تو عدت ختم ہوئی ہے۔ رشتہ دیکھتے بھی وقت لگتا
ہے۔ اور پھر انشراح کی جو حالت ہے اسے محبت کی ضرورت ہے اور ویسی محبت اسے صرف ایک
ہی شخص دے سکتا ہے۔ جانے والا تو چلا گیا وہ تو لوٹ کر نہیں آ سکتا۔! مگر کوئی ہے جو
اسے احد بن کر چاہ سکتا ہے اسے زندگی کی طرف واپس لا سکتا ہے"
"ایسا کون ہے؟" گہری سوچ میں ڈوبے جبران
حاکم نے پوچھا۔ اسی وقت باہر بیل ہوئی حارث نے دروازہ کھولا تو سامنے بینا اور موحد
تھے بہت سارے فروٹس اور چیزوں کے شاپر پکڑے۔
"منع بھی کرتا ہوں کیوں لاتی ہو یہ سب؟"
جبران حاکم نے مصنوعی خفا ہوتے بہن کو پیار دیا۔۔ اور جانے وہ اس وقت شرمندگی سے نظر
نہیں ملا پا رہے تھے یا زمین سے کچھ تلاش رہے تھے۔جیسے زمین انکا کچھ نگل گئی ہو۔
"یہ میں آپکے لئے نہیں اپنی بیٹی کے لئے لاتی
ہوں بیٹھو موحد میں اشراح سے مل آوں۔"
موحد نے اثبات میں سر ہلایا آسیہ جبران نے دور تک بینا کو انشراح کے کمرے میں جاتے
دیکھا اور پھر بہت محبت اور خلوص سے موحد کو دیکھنے لگی۔۔
"کیا دیکھ رہی ہیں ممانی؟" موحد نے
مسکرا کر پوچھا۔ تو آسیہ نے اسکا چہرہ اپنے ہاتھوں میں بھر لیا۔
"بلکل احد ہو تم! کبھی کبھی دل کرتا ہے تمہیں
احد کہہ کر بلاوں وہی نین نقش وہی کھڑی مغرور ناک وہی سب کچھ ویسے ہی شگرفی ہونٹ۔"
آسیہ نے آنسو پیتے اسکی کشادہ سرخ پیشانی چومی بس تمہاری آنکھوں کا رنگ ہی احد سے جدا
ہے یہ ہمیں دوکھا کھانے نہیں دیتا۔
"آپ کو پتہ ہے ممانی مما مجھے ابھی بھی اکثر
احد کہہ دیتی ہیں پھر یک دم چپ ہو جاتی ہیں۔ اگر آپ سب کی خوشی احد بھائی ہی ہیں تو
میں اپنا نام احد سکندر رکھ لیتا ہوں اور رہی آنکھوں کی بات تو جانتی ہیں نا کاسمیٹک
سرجری سے یہ بھی بدل جاتی ہیں۔"
موحد نے آسیہ کے آنسو صاف کرتے بات کو مزاق کا رنگ دیا۔۔
مگر جبران حاکم چونک اٹھے۔۔۔ اور موحد کو بے تکان تکنے لگے موحد نے انکی نظر خود پر
مرکوز دیکھی تو مسکرایا۔ "کیا بات ہے ماموں آپ بھی اب اسی طرح مجھے دیکھیں گے۔"
"نہیں وہ بس ویسے ہی،" وہ گڑبڑائے اور
بات بدلنے کو آسیہ کی طرف متوجہ ہوئے۔
"عالیہ آ گئی ہے آفس سے تو اسے بولیں چائے بنائے۔۔"
"آ تو گئی ہے مگر سو رہی ہے۔ میں بنا لیتی
ہوں۔ جب تک بیٹا تم۔انشراح سے مل لو۔" آسیہ نے کہا۔ اور اٹھ کر چلی گئی۔۔ عمر
نے شرمندگی سے ماں کو جاتے دیکھا۔وہ اس عمر میں بھی کام پر لگی تھی۔ وہ کسی سے بھی
شکوہ تو نہ کرتی تھی مگر انکی تھکن اور جھریوں زدہ ہاتھ دیکھ کر عمر کے دل کو ملال
ہوتا۔ کاش نبیل کی طرح اس نے بھی شادی جیسا اہم فیصلہ خود کرنے کے بجائے اپنے ماں باپ
سے کہا ہوتا۔۔
"انشراح سے نہیں ملنا۔؟" موحد کو خلاؤں
میں گھورتے دیکھ جبران حاکم نے پوچھا موحد کی صورت میں انہیں پھر سے احد مل سکتا تھا۔۔
"نہیں بس مما مل لیں ابھی نہیں۔۔۔مجھ میں
اسکا سامنہ کرنے کہ۔ہمت نہیں۔!" موحد کی افسردہ سی آواز پر سب خاموش ہو گئے۔۔
*******
روبیل نے گھڑی پر وقت دیکھا اور شاپنگ مال کی دوسری دوکان
میں چلی گئی۔ اس نے بارہا اپنے شوہر کو کال
کی مگر فون بار بار کٹ جاتا۔۔۔
"ایم سوری مجھے دیر ہو گئی تھی وہ دراصل
گھر میں۔۔۔۔"
سامنے سے بھاگ کر آتے اسکے شوہر نے کہا تو روبیل نے ہاتھ
اٹھا کر بولنے سے روکا۔
"یہ ٹرالی لے جائیں اور بل بنوا لیں۔۔"
روبیل کا سنجیدہ لہجہ دیکھتے اسکا شوہر خاموشی سے چلا گیا۔۔
سامان گاڑی میں رکھواتے اسکے شوہر نے اپنی بیٹی کو پکڑ کر
چوما۔۔ اور سیٹ بیلٹ باندھتے اور روبیل کی طرف دیکھا۔۔"ایم سوری روبی۔۔"۔
"اٹس اوکے کونسا پہلی بار ہوا ہے۔ کہہ دیں
کہ انشراح کے پاس تھا اسے ضرورت ہے میری۔۔۔"
"روبیل۔۔۔"اسکے شوہر نے تحیر سے اسکی
طرف دیکھا۔۔ "تم جانتی ہو ہماری بیٹی بڑی ہو رہی ہے وہ باتیں نوٹ کرتی ہے انکو
دہراتی ہے۔ تم ہر وقت انشراح کا نام مت لیا کرو تمہارے ساتھ گزرے ماہ و سال میں تم
نے مجھ سے زیادہ انشراح کا نام لیا ہے حلانکہ جب وہ بہت چھوٹی تھی اسے تو معلوم بھی
نہیں ہوگا دنیا میں کوئی روبیل اس سے شدید حسد اور نفرت کی حد پار کر چکی ہے۔۔ کان
پک چکے ہیں میرے کبھی انشراح کے علاوہ بھی بات کر لیا کرو۔ لاتعداد بار کہا ہے وہ نکل
چکی ہے ہماری زندگی سے اسکا مجھ پر وہ حق نہیں جو تم رکھتی ہو۔۔۔ تم میری بیٹی کی ماں
ہو۔ تمہاری جگہ کوئی کیسے لے سکتا ہے؟۔ جب تک تم خود یہ جگہ خالی نہ کرو۔ مگر جو مقام
انشراح کا میرے دل میں ہے اس تک کوئی عورت نہیں پہنچ سکتی کجا کہ وہ میرے قدموں میں
عمر گزار دے۔ وہ میری کچی عمر کی پکی محبت ہے۔ جس سے تعلق نہ رکھتے ہوئے بھی میری ڈور
اس سے بندھ چکی ہے۔ اور اس سچ کو تم نہیں جھٹلا سکتی۔ اگر تم چیزوں کو انکے مقام سے
ہٹانے کی کوشش کرو گی تو سب سے زیادہ زخم تمہارے ہاتھ میں ہی آئیں گے۔ اور سب سے زیادہ
خسارے میں بھی تم رہو گی۔ بہتر ہے جو چیز جیسی ہے اسے ویسی رہنے دو۔ چیزوں کو مت بدلو۔
مرد صرف اسی عورت کے ساتھ تا عمر رہتا ہے جس کا لہجہ دھیما ہو اس میں حیا باقی ہو کیونکہ
وہ اس عورت میں اپنی بیٹی کی جوانی تلاش کرتا ہے اور جب مرد کو لگے عورت ناقص عقل ہے
اور اپنی حیا کھو چکی ہے تو وہ محبت کی بھی پروا نہیں کرتا۔"۔ سنجیدگی سے کہتے
روبیل کے شوہر نے گاڑی گھر کے سامنے ایک جھٹکے سے روکی۔۔اور سامان اندر شفٹ کروانے
لگا۔۔
************
رومیو جنگل
میں پہاڑی علاقے کی طرف بہتے جھرنے میں پیر ڈالے لیٹا تھا اپنی چوڑی چھاتی پر ہرنی
کا بچہ بٹھائے اسے پیار کر رہا تھا۔۔عبدللہ نے دور سے اسے دیکھا اور منہ پھلائے سیخ
پلٹائی "ویسے رومیو یہ زیادتی ہے کل بھی
کھانا میں نے بنایا تھا اور آج بھی تم نے مجھے کہا ہے۔" عبدللہ دانت کچکچا کر
بولا۔
اسکی بات پر رومیو بڑی دلکشی سے مسکرایا اور دھوپ میں چندیا
کر اسے دیکھا ٹھنڈی دھوپ بھی اسکی آنکھوں میں چب رہی تھی وہ دھوپ سے الرجک تھا۔۔
"وہ کیا ہے نا میرے ہاتھ میں زائقہ بہت ہے
پھر آپ کھانا کھاتے یا نہ کھاتے مگر دشمن خوشبو سونگھتے آتے اور ہمیں بھون کر کھا جاتے۔
مگر آپ کو سات توپوں کی سلامی ہے چاچو اتنا بدزائقہ کھانا بناتے ہیں کہ اسکی خوشبو
سونگھ کر جنگل کے جراثم بھی مر جاتے ہیں۔۔دشمن نے کیا آنا۔"
عبدللہ نے دانت پیسے۔ تم کیا ڈال لیتے اس گوشت میں جو بھی
جانور ملتا ہے اسے آگ پر بھون کر کھانا پڑتا ہے نمک مرچ مصالحہ نہ تو ہمارے پاس ہے
نا ہی وہ سب کھانے آئے ہیں ہم۔۔! یہ گوشت بھی صرف پیٹ بھرنے کو ہے۔۔"
"پیٹ بھرنا تو وہ ہے جو آپ کا دیا کھانا
کھا کر میں کرتا ہوں۔ مگر کھانا بنانے والے انسان کے ہاتھ اور اخلاق کا بھی کوئی زائقہ
ہوتا ہے۔ ضروری نہیں نمک اور ہلدی ہی کھانا شاندار بنائے" رومیو نے برخستہ کہا۔
"اچھا جی پھر تو آپ نہ ہی بنائیں کھانا اکٹر
سے بھرے کریلے تو میں کبھی نہیں کھا سکتا۔۔ یہی ذائقہ آنا ہے آپکے اخلاق کا۔"
"کم اون چاچو ڈونٹ بی جیلس میں زرا فریش
ہو لوں آپ کھانا لگائیں۔" رومیو جنگل
کو فائیو سٹار ہوٹل سمجھ کر آڈر دیتا اٹھا اور ہرن کے بچے کو پیار کرتا شرٹ اتار کر
وہیں جھرنے میں کود گیا۔۔
"تم نے بتایا نہیں تمہیں روسی زبان کیسے
آتی ہے؟" عبدللہ نے اسکے لئے ہرن کا گوشت
پتوں پر رکھا جو وہ ابھی بھون کر لایا تھا۔ اور جھرنے میں پیر لٹکا کر بیٹھتے پوچھا۔۔
"نہیں آتی۔ آپ سے کس نے کہا مجھے آتی ہے۔"
رومیو ہنستے ہوئے آیا اور عبدللہ کے کھلے منہ کے سامنے رکا ہاتھ دیکھا پھر گوشت کا
ٹکڑا کھینچ کر منہ میں ڈالا اور دوسری طرف تیرنے لگا۔۔
"مگر اس دن وہ سب۔۔۔۔"
"جھوٹ تھا ہوا میں چلائی گولی تھی جو نشانے
پر لگی۔۔" وہ باہر آتے شرارت سے بولا اور
شرٹ پہنے بنا کھانے لگا۔۔۔ "اونہہ ہوں شرم کر لو یہ ہرن فی میل ہے۔اور
کیا پتہ کوئی فی میل سنیک بھی یہی کہیں چھپی ہو۔" عبدللہ نے شرارت سے کہا۔
"آہ پھر تو آج رات آپکی بہو کے پاس جانے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی یہی
سارا انتظام ہو گیا۔۔ انسان کی زندگی میں گرل فرینڈ ہونا بھی ایک فینٹسی ہے۔اور اچھی
گرل فرینڈ اللہ کی عطا کردہ وہ نعمت ہے جن کا ہم شکر ادا کرنا بھول جاتے ہیں۔ ویسے
چاچو آپ بھی کافی دیر سے سنگل ہیں۔۔"
"اپنا کھاو ورنہ ابھی اسے فون پر سب بتا
دوں گا۔۔ تمہاری یہ نعمت والی فلاسفی۔" خفگی سے عبدللہ نے اسے دیکھتے کہا۔ رومیو
قہقہہ لگاتے کھانے میں مصروف ہو گیا۔۔۔۔"میں باز آیا گرل فرینڈ سے میری بیوی بہت
پیاری ہے۔۔"
**********
رومیو رات کے اندھیرے میں روشنی سے ملنے آج پھر گیا تھا۔
باتھروم سے شاور کی آواز آ رہی تھی اور کمرہ خالی تھا کھڑکی کے سب پٹ بند کرنے کے بعد
رومیو نے کمرے کے دروازے کو بھی لاک کیا۔۔۔ روشنی نم بالوں پر ٹاول لئے باہر نکلی اسکی
ناک سرخ ہو رہی تھی۔ جیسے وہ بہت سارا روئی ہو۔۔
رومیو کو بستر پر گرے دیکھ کر اسے اگنور کرتی وہ آئینے کے
سامنے گئی اور بال سلجھانے لگی کبھی گیلے بالوں کے بکھراتی تو کبھی سنوارتی۔۔۔ بل آخر
رومیو کو اٹھ کر خود روشنی کے پاس جانا پڑا۔وہ روشنی کے نم بال چھوتے اور اسکا رخ اپنی
طرف کر رہا تھا روشنی نے خفگی سے ہاتھ جھٹکے۔۔
"اوہ تو میڈم ناراض ہیں۔۔؟" رومیو نے
سوال کیا اور بننے لگا۔
" کیا نہیں ہونا چاہیئے؟پتہ ہے نہ دو ہفتوں
کے بعد آئے ہیں میں کتنا مس کس طرح رہتی ہوں کچھ اندازہ ہے۔۔"
"یار ایک تو قسمت سے تمہارا کمرہ پہلی بار
خالی مل ہی گیا ہے تو تم لڑنے لگ جاو۔۔ یہ پیار کے پل انجوائے مت کرنا۔ بہت لڑاکا بیوی
ہو۔ بزی تھا میری جاناں بہت زیادہ بزی تھا۔۔ مجھے پتہ ہے تم مس کرتی ہو تمہارے لئے
ہی تو خطرہ لے کر آتا ہوں۔" روشنی کو اپنے ساتھ لگاتے وہ پیار کرنے لگا۔
"مجھے ہر وقت ڈر لگا رہتا ہے آپ کو کچھ ہو
نہ جائے۔"
"کچھ نہیں ہوگا جب تک میری جان کی دعائیں
میرے ساتھ ہیں۔" اسکی آنکھیں بے خودی میں چومتے وہ بے اختیار ہونے لگا۔۔
*********
رومیو کے بال پیشانی سے ہٹاتے روشنی نے جھک کر بوسہ لیا۔۔
"گڈ مارننگ۔۔"
"صبح بخیر میری زندگی۔۔" صبح صبح روشنی
کی گود میں اپنا سر رکھے وہ اسکا پیارا چہرہ دیکھ کر فریش ہونے لگا۔۔جو اسی کی دی محبت
سے چمک رہا تھا۔ رومیو کے اسکی طرف دیکھنے پر وہ شرما گئی اور نظر رومیو کے ہاتھوں
کی طرف کرلی۔
"ساری رات نہیں سوئی نہ تم؟" یک دم
رومیو نے اسکی سرخ خمار آلودہ آنکھیں دیکھتے پوچھا۔۔ "سو تو جاتی مگر آپ کو دیکھنے
سے فرست ہی نہ ملی۔۔" جس طرح رومیو کے بال سنوارتے وہ محبت سے بولی وہ اسی طرح
محبت سے اسے دیکھنے لگا۔ موبائل کی وائبریشن پر دونوں کا تسلسل ٹوٹا موبائل پر میسج
اور وقت دیکھتے وہ فورا اٹھا۔۔
"شٹ یار مجھے ابھی جانا ہوگا۔ " وہ
ہڑبڑی میں اٹھ کر اپنی شرٹ پہنے کھڑکی کی طرف گیا۔
"پھر کب آئیں گے؟" کھڑکی کےقریب جاتے
روشنی نے پوچھا۔
"اپنا خیال رکھنا میری جان اور پریشان مت
ہونا جلدی آوں گا۔" اس قدر ایمر جنسی میں بھی روشنی کو بہت نرمی سے پیار کرتے
اور گلے لگائے وہ مل رہا تھا۔۔
"آپ بھی اپنا خیال رکھیں گے صرف میرے لئے۔۔"
رومیو کا ہاتھ پکڑے وہ بے چینی سے بولی۔۔
"تمہارے لئے ہمیشہ۔۔!" کہتے ہوئے رومیو
نے زبردستی ہاتھ اسکی گرفت سے نکالا اور نیچے کود گیا۔۔
*********
موحد کے سر سے گرتی پانی کی بوندیں دیکھ کر بینا نے اندازہ
لگایا وہ عجلت میں تیار ہوا ہے۔۔ مگر پھر بھی وہ آج اس سے ہر حال میں بات کرنا چاہتی
تھی وہ کب تک اس گھر میں پورا دن تن تنہا رہے گی اور بلائی بلائی گھومتی رہے۔
"موحد ناشتہ تو کرلو۔" بینا بہانے سے
بولی۔۔" جانتی تھی وہ جلدی میں ہے "ابھی مرنے کا بھی وقت نہیں اٹس این ایمرجنسی"
بولتے ہی وہ تیزی سے باہر نکل گیا۔۔ بینا نے مایوسی سے خالی گھر کو دیکھا اور ناشتہ
کئے بنا اپنے کمرے میں واپس چلی گئی دل ہر چیز سے اچاٹ ہونے لگا تھا۔۔۔
**********
"انشراح نہیں اٹھی؟" آسیہ نے عالیہ
سے پوچھا۔۔ "صبح کی چار بار دیکھ چکی ہوں وہ سو رہی ہے۔ سونے دیں آرام کرنے دیں
آرام اسکے لئے اچھا ہے" عالیہ نے ٹالتے کہا ورنہ صبح صبح بلا وجہ عمر انشراح کے
نخرے اٹھانے لگ جاتا اور عالیہ کو ناشتہ بنانے کا حکم دے دیتا۔۔
"اگر سونے سے اسکی طبعیت ٹھیک ہونی ہوتی
تو اب تک ہو چکی ہوتی اسے نیند کی نہیں ہم سب کی ضرورت ہے۔" عالیہ کو جتاتے عمر
کھڑا ہوا اور انشراح کے کمرے کی طرف چلا گیا۔۔
ہلکا سہ دروازہ کھٹکھٹانے کے بعد عمر نے دروازہ دھکیلا دروازہ
کھلتا چلا گیا۔۔ مگر سامنے کا منظر دیکھ کر اسکا دل دھک سے رہ گیا۔۔۔
********
جاری ہے
Episode 9
"انشراح بچے کیا
ہوا ہے۔۔؟" کھانسی کا دورہ پڑتے دیکھ
عمر پریشان سہ ہو گیا اور انشراح کی طرف گیا۔۔ انشراح کے منہ سے ابکائی آ رہی تھی وہ
ہاتھ اٹھا کر اسے اپنی طرف آنے سے روک دوسرا ہاتھ منہ پر رکھے واش روم کی طرف بھاگی۔۔
واش روم کمپاڈ پر جھک گئی۔ بہت زیادہ ابکائی کرتے وہ بے حال ہو رہی تھی۔ عمر اسکے شانے
دبا کر اسے کمرے تک لایا ا آسیہ عالیہ کو آواز دیتے اسے سنبھال رہا تھا۔عمر کی آواز
پر سب لوگ اکھٹے ہو گئے۔ "عالیہ پانی لاو " عمر کے کہنے پر وہ پانی لائی۔۔انشراح
کا چہرہ تھپتھپا کر اسے اٹھاتے عمر نے پانی منہ کو لگایا۔۔ اسکی طبعیت سنبھلتے دیکھ
عمر نے پوچھا
"گڑیا
تم ٹھیک ہو۔ یہ سب کیسے ہوا تھا؟"
"مجھے
گھر جانا ہے۔۔" اکھڑے سانس کے ساتھ کہتے
انشراح نے سر واپس تکیئے پر گرا لیا۔۔۔ کھانسی ابھی تک ہو رہی تھی۔ آسیہ نے جلدی سے
انشراح کی کمر سہلائی۔ "کیا ہوتا جا رہا ہے میری بچی کو عمر،" وہ رو دینے
کو تھی۔۔۔ "تم سے پوچھا تھا نہ میں نے انشراح اٹھی یا نہیں؟" عالیہ کی بازو
دبوچ کر عمر نے سخت لہجے میں پوچھا۔
"وہ
عمر میں آئی تھی تو یہ سو رہی تھی ہو سکتا ہے ابھی اٹھی ہو اور کھانسنے لگ گئی۔جبھی
اسکی طبیعت بگڑ گئی۔ " عالیہ نے ہونٹ تھوک سے تر کرتے گھبرا کر جھوٹ بول دیا ورنہ
کیونکہ آج سے پہلے اس نے عمر کو اتنے غصے میں نہیں دیکھا تھا۔
"سو
رہی تھی کہاں آدھی بستر سے لٹک کر حالت دیکھی ہے تم نے میری بہن کی۔؟ مجھے نہیں ضرورت
تمہاری نوکری کی مجھے میری بہن کی ضرورت ہے گھر رہو اور اسکا خیال رکھو۔ اس گھر کی
فرد ہونے کی باعث تمہارا فرض ہے سب کا خیال رکھنا۔ ناکہ وہ نوکری تم پر فرض ہے۔
"
"عمر
میں گھر نہیں بیٹھ سکتی۔!" وہ دبا دبا چلائی۔۔
اس سے پہلے عمر کچھ کہتا
آسیہ کی گود سے سر اٹھاتے انشراح کارپٹ کی طرف جھکی اور وومٹ کرنے لگی۔۔وومٹ کرتے وہ
بے ہوش ہو گئی انشراح کی حالت دیکھتے سب کے ہاتھ پیر پھولنے لگے۔۔
"
میں ڈاکٹر کو فون کرتا ہوں۔۔۔"عمر نے کہتے ڈاکٹر زیدی کا نمبر ملایا۔۔
"نہیں
عمر مجھے لگتا ہے اسے ہمیں ہوسپٹل ہی لے کر جانا ہوگا" آسیہ کے کہنے پر عمر نے
گاڑی نکالی اور انشراح کے بے سد بے ہوش وجود کو اٹھایا۔۔
*******
"سارا
دن گھر میں بور ہوتی ہوں بھابی وہ بلا وجہ اوپر نیچے کے چکر لگاتی کہیں کوئی کام ڈھونڈتی
رہتی ہوں۔ مگر کوئی کام ملتا ہی نہیں۔! مگر اوپر نیچے کے بے جا چکروں سے گھٹنوں میں
درد رہنے لگا تھا۔۔ احد کی مما نے آسیہ کو بتایا۔ اسی لئے میں ڈاکٹر نورین کے پاس آئی
تھی۔ مگر عمر کو باہر ٹہلتے دیکھا تو معلوم چلا انشراح کی پھر سے طبعیت بگڑ گئی ہے۔۔
میں بہت پریشانی میں اندر آئی مگر سچ بھابی اندر داخل ہوتے جو خبر ملی ہے۔ میرے تو
پیر ہی زمین پر نہیں ٹہر رہے بھابی مجھے ایسا لگ رہا ہے میرا احد مجھے واپس مل گیا
ہے۔ میرا احد کہیں گیا نہیں ہے بھابی وہ یہی ہے ہمارے بیچ انشراح کی گود میں۔۔"
بینا اپنی ہی خوشی میں بول رہی تھی مگر آسیہ کے چہرے پر ایک رنگ آ رہا تھا تو دوسرا
جا رہا تھا۔۔ "تم انشراح کے پاس رکو بینا میں ابھی آتی ہوں۔انشراح کے پاپا کو
بھی فون کرنا ہے اور ثانیہ کو بھی بتانا ہے۔" آسیہ کا نرم سہ لہجہ تھا اس لئے
بینا جوش سے بولی۔"آپ آرام سے سب کو خوش خبری دیں میں اپنی جان کے پاس ہی ہوں۔"
وہ سوئی ہوئی انشراح کے الجھے بکھرے بال چہرے سے ہٹاتی محبت سے بولی۔۔۔ آسیہ خاموشی
سے باہر نکل گئی۔۔۔
احد کی مما نے انشراح
کا معصوم چہرہ دیکھا آنکھوں کے گرد گہرے ہلکے تھے چہرے پر زردی کھنڈی تھی تو ہونٹ پر
سفید خشکی کی تہہ جمی تھی۔ پھولوں میں پلی اس نازک سی تتلی کا ایک شخص کے جانے سے کیا
حال ہو گیا تھا۔ مگر جو نور اس وقت اسکے چہرے پر تھا وہ اسے ابھی بھی منفرد بنا رہا
تھا۔۔ "تم میرے احد کی محبت ہو میری جان تمہیں کبھی کوئی غم نہ ستائے۔۔ میں تمہاری
شکر گزار اور احسان مند ہوں تم نے مجھے میرا احد واپس لوٹا دیا۔" بہت ہی نرمی
سے اپنے ممتا سے بھرے لب انشراح کی پیشانی پر رکھتے بینا نے اپنے آنسو صاف کئے۔"ایک
بھی دن اب تمہیں وہاں نہیں رہنے دوں گی۔تم میری بیٹی ہو میرے احد کی دلہن۔"
********
"آپ کو اپنی بہن سے آج ہی بات کرنی ہوگی میری
بیٹی کی زندگی کا سوال ہے اگر موحد خود میں کچھ تبدیلی کے بعد احد بن کر ہماری انشراح
کو زندگی کی طرف لا سکتا ہے تو ہی وہ احد کے بچے کو جنم دے گی ورنہ اسے یہ داغ میں
کبھی اپنی پیشانی پر نہ لگانے دوں گی عمر ہی کیا ہے ہماری بیٹی کی؟ احد کے بچے کو پیدا
کرنے کے بعد کون شادی کرے گا اس سے؟؟ کون ہاتھ بڑھائے گا اسکی طرف؟ ؟ اگر آپ سے یہ
بات نہ ہوئی تو میں انشراح کو نبیل کے پاس بھیج دوں گی۔ ہوں ۔۔ ٹھیک ہے۔۔۔ جلدی آئیے
وہ ابھی یہی ہے۔۔" رسیور رکھتے آسیہ پلٹی تو بینا کھڑی تھی۔
"وہ
بھابی انشراح کے لئے پرہیزی کا چارٹ ڈاکٹر سے بنوانا تھا۔جب تک وہ اسکی طبعیت ٹھیک
نہیں ہو جاتی۔۔۔" کہہ کر بنا آسیہ کا جواب سنے بینا چلی گئی جبکہ آسیہ سر پکڑ
کر بیٹھ گئی۔۔۔
*********
"رومیو
سر آپکی دی گئی ریکارڈنگ کی ٹرانسلیشن آ چکی ہے۔" لڑکے نے فوری اطلاع دی۔
"اوکے
تم جاو۔" ڈسک لڑکے سے لیتے رومیو نے لیپ ٹوپ پر لگائی اور سننے لگا۔۔۔ ڈسک بند کرتے رومیو پلٹا اور اپنے سامان کی چیکنگ
کرنے لگا۔۔۔ "عبدللہ میں آج ہی رات کو جا رہا ہوں۔ تین چار مہینے لگ جائیں گے
ساری تیاری مکمل ہے۔!"
"اللہ
تمہاری مدد کرے گا۔اور ہمارے ملک کی حفاظت" عبداللہ نے پر یقین لہجے میں کہتے
دعا کے لئے ہاتھ بلند کئے۔۔۔
********
انشراح کو بریڈ کے ساتھ
سوپ لگا کر کھلاتے بینا نے تیسری بار بھی اسکا منہ خود کھولا تو ہنس دی۔" انشراح
مجھے ایسا لگ رہا ہے میں ایک سال کی انشراح کو کھلا رہی ہوں چلو خود کھاو۔۔" ہنس
کر کہتے بینا نے ٹرے گھمائی۔۔
"احد
گھر آ گئے؟" انشراح کے معصوم سوال پر بینا کی ہنسی رکی۔۔ " نہیں میرے بچے
وہ نہیں آیا۔۔
"گھر
جانا ہے۔احد آ گئے ہیں" انشراح نے بینا کا آنچل تھام کر کہا۔ بینا کی آنکھیں بھر
آئی۔۔ "کچھ دن اور پھر احد اور میں تمہیں خود لینے آئیں گے۔۔" انشراح کو
پیار کرتے بینا نے وہ فیصلہ چند منٹوں میں کر لیا جو پچھلے کئ گھنٹوں سے وہ نہیں کر
پا رہی تھی۔۔ "کیا برا ہے اگر میرے احد کی محبت موحد کو مل جائے۔ میں آج ہی موحد
سے بات کروں گی میں کسی طور اپنے احد کی نشانی نہیں گوا سکتی۔۔"
********
"ناممکن۔۔" موحد تو اپنی ماں کی بات سنتے
اچھل پڑا۔ "آپ ہوش میں ہیں مما آپ چاہتی ہیں میں اپنی آنکھوں کی سرجری کروا لوں
انکا رنگ بدل کر اپنا نام بدل لوں؟ پھر اپنے ہی بھائی کی بیوی سے نکاح کر لوں۔؟ آپ
جانتی ہے احد کی روح کو آپکی بات سے کتنی تکلیف ہورہی گی۔"
"تو
انشراح کو ہر وقت اسکی راہ دیکھتے خود کو ہلکان کرتے کیا وہ دکھی نہیں ہوگا۔ یہ کیسی
محبت ہے اسکی موحد وہ خود تو خوش ہے مگر انشراح کی خوشی میں وہ خوش نہیں ہوتا جبکہ
وہ اسی کی محبت ہے۔۔؟"
"مما
پلیز آپ کو میری شادی کا شوق ہے تو پورا کر دوں گا آپکا یہ شوق بھی، مگر جو آپ کہہ
رہی ہیں یہ میں کسی قیمت پر نہیں کروں گا۔۔"
"کیوں
نہیں کرو گے موحد کیا کمی ہے انشراح میں۔۔؟ یہی کہ وہ ایک بیوہ ہے بیٹا چند دن ہی وہ
احد کے ساتھ رہی ہے اس بات سے فرق نہیں پڑتا۔ دیکھ لینا آئندہ زندگی میں تمہیں یہ بات
یاد بھی نہ ہوگی۔۔"
"او
ہو مما میری سوچ اتنی سطحی ہر گز نہیں ہے جو آپ سمجھ رہی ہیں۔ انشراح سے بہتر لڑکی
میری نظر میں کوئی نہیں ہے۔"اپنی ماں کا یاتھ پکڑے وہ ٹہرے ہوئے لہجے میں بولا۔۔
"وہ جو ہے تو صرف ہمارے احد کی۔۔ ہمارے گھر کی عزت بہت رہ لیا اس نے وہاں ہم آج
ہی اسے لے آئیں گے مگر صرف میرے بھائی کے نام سے۔۔ مما مجھے کسی کے بیوہ یا طلاق یافتہ
ہونے سے فرق نہیں پڑھتا مجھے فرق اس بات سے پڑھتا ہے کہ ہم انشراح کو دوکھا دیں اور
احد کے یقین پر ایک بار پھر پتھر پھینک دیں۔ وہ کس قدر مجھ سے خفا تھا جب انشراح نے
ناراضگی میں میرا نام نکاح کے وقت لیا آپ ہی بتائیں مما یہ مناسب رہے گا؟ میں روزِ
محشر کس طرح اپنی بھائی کا سامنہ کروں گا؟"
"احد
تو چلا گیا اب اسکی یہ نشانی بھی چلی جائے گی۔" بے بسی سے کہتے بینا نے اپنے بھائی
سے ہونے والی بات اور آسیہ کی غلطی سے سنی گئی باتیں بتا دی۔۔۔
"انشراح
کی حالت بہت بری ہے موحد وہ لوگ اسکے ساتھ کچھ بھی کر دیں گے تو اسے سمجھ بھی نہیں
آئے گی اگر وہ اپنے حواس میں ہوتی تو جانتی اللہ نے اسے کتنی بڑی نعمت دی ہے مگر وہ
تو احد کے انتظار میں ہی تھی۔۔ اگر اسے احد مل جائے میرے چاند تو وہ ٹھیک ہو جائے گی
ہم سادگی سے نکاح کر لیتے ہیں تم پر ابھی تعلق بنانے پر زور نہیں ہے مگر ابھی اسے تمہارے
نام تمہارے مان تمہارے سہارے کی ضرورت ہے۔"
بینا کی بات سن کر موحد
نے سر ہاتھوں میں گرا لیا۔۔۔ مما ٹھنڈے دماغ سے سوچیں اور مجھے بھی وقت دیں اسطرح ہتھیلی
پر سرسو مت جمائیں۔ کوئی نہ کوئی راستہ نکل آئے گا۔ ابھی تو انشراح کی عدت ختم ہوئی ہے اسے تازہ ہوا کی ضرورت ہے مجھے
لگتا ہے وہ اب بہتر محسوس کرے گی۔۔
"موحد تم انشراح سے محبت کرتے ہو نا اب سے نہیں
تب سے جب سے وہ ہنسنے لگی ہے جب سے وہ بولنے لگی ہے جب سے وہ تمہارا نام لینا سیکھی
تھی۔" بینا کے انکشاف پر موحد ششد رہ گیا۔ بے ساختہ نظر چرا کر اپنے ہاتھ میں
موجود اپنی ماں کا ہاتھ چھوڑا۔
"
بے کار بات ہے یہ مجھے اس بارے میں بات نہیں کرنی۔۔" اپنی جگہ سے اٹھتے موحد نے
نظر ملائے بنا کہا۔۔
"موحد
سب کو اسکی پہلی محبت نہیں ملتی اگر کسی اپنی خاموش محبت بنا مانگے مل جائے تو پا لینے
میں ہی عقل مندی ہے۔"
موحد نے پلٹ کر ماں کی
طرف دیکھا "وجہ وہ نہیں ہے جو آپ سمجھ رہی ہیں وجہ کچھ اور ہے مما یہ نہیں ہو
ہی نہیں سکتا۔" موحد نے بے بسی سے نفی میں سر ہلایا۔" مجھے معلوم تھا میرا
جگری یار میری بھائی میری جان کا ٹکڑا وہ بھی انشراح سے محبت کرتا ہے اور میری محبت
اس سے کئی گناہ زیادہ ہے اور یہ وہ محبت تھی جو
خود وہ بھی نہیں جانتا تھا ہر چیز خریدتے وقت پہلے انشراح کے لئے لینا اٹھتے
اسے گڈ مارننگ کا میسج کرنا سونے سے پہلے اس سے مل کر آنا اگر بہت دیر ہو جائے تو اسے
فون کر کے اٹھا کر بات کرنا۔ اسےبپورے دن کی ریپورٹ دینا کسی بھی ایمرجنسی میں ہمیشہ
اسی سے دعا کے لئے کہنا۔ اپنی شریک حیات کیسی چاہیئے اس کی خوبیاں بتاتے وہ اکثر انشراح
کا خاکہ بتا جاتا تھا مگر اس بات پر وہ غور نہیں کرتا تھا وہ کب کیا کہہ رہا تھا کب
کیا دیکھ رہا ہے۔ انشراح کے زرا سہ پھسل جانے پر بیچ راہ میں رک کر اسکا پیر چیک کرنا
کہیں کوئی موچ تو نہیں یہ سب تو میں نہیں کر سکتا مما مگر میری محبت بھائی کی محبت
سے جان لیوا ثابت ہوتی میں نے بہت سے دیپ انشراح کی معصوم آنکھوں میں اپنے جگر کے لئے
جلتے دیکھے تھے اس لئے میں نے اس تک جانے کے سب راہ بہت پہلے بند کر دیئے تھے خود کو
پابند کر کے بند باندھ دیئے تھے۔۔"
"کیا
مطلب؟" بینا نے نا سمجھی سے پوچھا ۔
"میں
شادی کر چکا ہوں مما اب نہیں تین سال پہلے سے میری ایک بہت پیاری بیٹی بھی ہے۔"
"موحد۔۔۔۔۔۔"
منہ پر ہاتھ جمائے بینا نے اسکے مسکراتے چہرے کو دیکھا۔۔
"تم
میری نہایت نالائق اولاد ثابت ہوئے ہو سب میں احد کی نشانی اور انشراح کو کیسے یہاں
لاوں گی بچے؟ وہ سب ہمارے احد کی نشانی کو ختم کردیں گے۔"
"کچھ
نہیں ہوگا مما احد کو گئے بہت مہینے ہوگئے
اب اس نشانی کو ختم کرنا ناممکن ہوگا۔۔کوئی کچھ نہیں کر سکتا کوئی کچھ نہیں کر پائے
گا جب تک اللہ نہ چاہیئے۔" مسکراہٹ دبا کر موحد نے حل پیش کیا۔۔
"ہاہ
یہ تو میں نے سوچا ہی نہیں۔۔۔" یک دم بینا نے سکھ کی سانس لی۔۔۔۔۔مگر احد کی کمی
بہت بری طرح چھبی۔۔ یہ وہ خلش تھی جس کا نہ بار بار اشتہار لگ سکتا تھا۔ نہ ازالہ ہو
سکتا تھا۔۔
"آپ
میری شادی والی بات سے ناراض تو نہیں؟" موحد نے زمین پر بیٹھ کر ماں کے گھٹنے
پر سر رکھتے پوچھا۔۔
"ناراض
ہو کر بھی کیا فائدہ بیٹا جو ہونا تھا وہ تو ہوگیا خفا تو انسان تب ہو جب بات منوانی
ہو بیتی ہوئی بات سے کیا خفا ہونا۔۔۔" پیار سے موحد کے بالوں میں انگلیاں چلاتے
بینا نے کہا۔۔۔
"میری
بہو کو کہاں چھپا کر رکھا ہے کبھی اسے مجھ سے تو ملواؤ میں سارا دن اکیلی بور ہوتی
ہوں شکر ہے کوئی دادو تو کہے گا۔۔مجھ سے ضد تو کرے گا۔۔"
"کرے
گا نہیں کرے گی بیٹی ہے میری۔۔بہت خوبصورت میرے جیسی۔ تھوڑی سی نک چڑیاپنی مما جیسی۔ بہت پیارا بابا بولتی
ہے۔ اور جب سے چلنے لگی ہے کسی ایک جگہ ٹک کر نہیں بیٹھتی۔۔" نیند میں ڈوبی موحد
کی آواز سنتے بینا اور بے چین ہوئی۔۔۔
"موحد
بعد میں سونا اٹھو فورا اسے کے کر آو۔۔۔"
"سو
گئی ہو وہ صبح لے آوں؟؟" موحد نے منہ اٹھا کر جمائی لیتے کہا۔۔۔۔اپنی ماں کے بگڑتے
تاثرات دیکھتے وہ نفی میں سر ہلانے لگا۔۔" نہیں ابھی جاوں ؟ یعنی ماریں گی؟"
وہ مصنوعی حیرانگی سے پوچھنے لگا۔۔"نکلو میرے گھر سے میری پوتی اور بہو کو فورا
لاو۔۔۔"
"جی
اچھا ۔۔"موحد سعادت مندی کی انتہا کرتے اٹھا۔۔۔
********
"تمہیں
پتہ ہے ہماری شادی کی ڈیٹ فیکس ہو رہی ہے۔؟" جنید نے کوریڈور سے گزرتی حنا کی
بازو تھام کر کہا۔ حنا نے ایک خونخوار نظر اپنے بازو کی طرف دیکھا جو اسکے مظبوط ہاتھ
کی گرفت میں تھی ناخن جنید کے ہاتھ پر لگاتے اس نے اپنی بازو چھڑوائی۔۔۔
"بچوں
والی حرکتیں مت کرو، ہونے والی مسز۔" ایک جھٹکے سے اسکا بازو چھوڑتے وہ سنجیدگی سے بولا۔ "بڑی آئی مجھے محبت کا چپٹر پڑھانے
والی ایک مہینے سے تمہیں منا رہا ہوں تم ہو کے مانتی نہیں کوئی اسطرح ناراض ہوتا ہے
کیا؟ جانتی تمہاری اس ناراضگی نے کیا تباہی مچائی ہے ؟؟ مجھ جیسے اچھے بھلے سٹون مین
کے دل کی دنیا تہس نہس کردی ہے۔ خاموشی سے شاپنگ مکمل کرو اب تم مجھے منہ پھلا کر گھمتی
نظر مت آو پہلے ہی خوبصورت نہیں ہو اب تو ویسے ہی زہر لگتی ہو۔" ڈانٹ کے درمیان
اظہار محبت کرتے وہ خفگی سے چلا گیا۔۔ حنا اسکا منہ دیکھتی رہ گئی۔۔پھر یک دم ہنس دی۔۔۔"پاگل
ہیں یہ بھی میرے جیسے کوئی ایسے بھی آئی لو یو بولتا ہے؟؟" جنید کی پشت کو دیکھتے وہ سوچنے لگی۔۔
**********
"موحد
کہاں لے جا رہے ہو اس وقت، کچھ بولو گے بھی کس بات کی جلدی اور تم اپنے گھر کیوں نہیں
ہو۔؟"
"خاموشی
سے نہیں چل سکتی؟" موحد نے آنکھیں نکال کر کہا۔۔
"میں اس وقت سیلپنگ سوٹ میں ہوں۔۔" روبیل
نے دانت کچکچا کر کہا مگر وہ اپنی بیٹی کو شانے سے لگائے روبیل کو کھینچ رہا تھا۔۔
"مجھ
پر اعتبار نہیں کیا چلو تو سہی۔"
"اوہو
پیارے پیا تم پر تو سب سے زیادہ اعتبار ہے۔ مگر چینج تو کرنے دو ایسے ہی جا رہے ہیں
ہم۔"
"رہنے
دو گھر جا کر سونا ہی ہے۔" موحد نے ہاتھ جھلاتے کہا۔ " کون سے گھر، کس کے
گھر ہم جا کہاں رہے ہیں۔۔"
"ارے
چلو تو سہی بے بی آج تمہاری ساری شکاعتیں ختم ہو جائیں گی۔۔ وہاں پہنچو گی تو خوشی
سے ناچو گی۔" اپنئ بیٹی کو بیک سیٹ پر لٹانے کے بعد موحد نے روبیل کے منہ پر ہاتھ
جماتے گاڑی میں ڈالا۔۔ جو پھر کچھ بولنے کو منہ کھول رہی تھی۔۔
"انسان
ہوں میں، انفیکٹ تمہاری بیوی میجر موحد سکندر۔
تم ظالموں کی طرح کھینچ رہے ہو۔۔ دیکھو ساری کلائی سرخ کردی۔" ڈرائیو کرتے
موحد کے سامنے روبیل نے کلائی کی۔۔ اسکی کلائی کو دیکھے بنا چوم کر چھوڑتے موحد کو
شرارت سوجی۔۔ "تمہیں جس سے سب سے زیادہ محبت ہے اسی سے ملوانے لے جا رہا ہوں۔۔۔"
"یعنی تم سے؟" روبیل نے نا سمجھی سے کہا۔۔"نہیں
مجھ سے زیادہ تمہیں انشراح سے محبت ہے اسی سے ملنے جا رہے ہیں ہم!۔۔۔۔ "
"موحد
کیا بول رہے ہو۔۔۔۔۔؟ میں اُس لڑکی کو دیکھنا بھی نہیں چاہتی۔"
"دیکھنا
تو پڑے گا آخر کو میری پہلی محبت ہے وہ۔۔!" شرارت سے کہتے موحد نے گاڑی گھر کے
سامنے روکی اور اسے نکلنے کا اشارہ کرتے اپنی بیٹی اٹھائی۔۔ مگر وہ ہاتھ باندھے منہ
پھلائے بیٹھی رہی۔۔
"چلو
یار پلیز مجھے بہت نیند آئی ہے۔ بہت تھک چکا ہوں میں دو گھروں کے چکر لگا لگا کر اب
تم یہی رہو گی میرے گھر میں ملکہ بن کر میرے ساتھ میرے دل کے قریب۔ میں نے مما کو سب
بتا دیا وہ بہت بے صبری سے اپنی بہو اور پوتی کا انتظار کر رہی ہیں۔ چلو گی نہ میرے
ساتھ اپنے گھر ہماری جنت میں۔؟" موحد نے اپنا ہاتھ اسکے سامنے پھیلایا روبیل ہونق
تاثرات لئے اترتی اسکا ہاتھ تھامے اسکی تقلید میں چلنے لگی۔۔۔ "ویلکم ٹو یور سسرال
بے بی۔" موحد کی پیاری سی بات پر وہ جھنپ کر سکڑنے لگی۔۔مگر بظاہر مصنوعی خفگی
سے بولی "بہت بد تمیز ہو پیا مجھے تیار
تو ہو دیتے کیا سوچیں گی مما ایسے ہی سسرال آ گئی۔؟"
"مما
کیا سوچیں گی؟" موحد نے حیرانگی سے اسکی طرف دیکھا۔ "وہ میری مما ہے کچھ
نہیں سوچیں گی۔۔"
"ہماری
مما۔۔ تمہارا کچھ بھی پیا تمہارے اکیلے کا نہیں ہے۔! میرا بھی ہے۔ شریک حیات ہوں تمہاری۔!
اس لئے وہ میری بھی مما ہیں۔ سمجھے تم،"
روبیل کی بات پر قہقہہ
لگاتے موحد نے گھر کا ڈور کھولا۔۔
*******
جاری ہے
آخری قسط
"میری بہو تو پیاری ہے۔ تم نے خوامخو ہی
چھپا کر رکھا تھا۔ یہ تم نے بہت ظلم کیا ہے مجھ پر موحد۔۔" بینا نے ایک بار
پھر روبیل کے چاند سے چہرے کو پیار سے دیکھتے کہا۔۔۔
"مما میں سونے جاوں؟" موحد نے
دسویں بار جھلا کر پوچھا۔۔
"ہاں تم جاو ہم دونوں بہت ساری باتیں کریں
گے پھر میری پوتی بھی تو ہے موحد تم صبح جا کر میری بیٹی کو بھی لے آنا دیکھنا
کیسی رونق ہوتی ہمارے گھر میں۔" بینا کی بات پر روبیل حیران ہوئی۔ "آپکی
بیٹی مطلب موھد کی بہن؟ مجھے تو پتہ ہی نہیں تھا موحد کی کوئی بہن بھی ہے۔!"
روبیل نے غصہ دباتے نرمی سے کہا درحقیقت اسے موحد کی غلط بیانی پر غصہ تھا جس نے
کہا تھا اسکے صرف دو بھائی تھے۔ جن میں سے ایک روبیل کے نکاح سے پہلے شہید ہو چکا
تھا تو دوسرا احد۔!
"ارے نہیں بیٹا وہ موحد کی بہن نہیں
بھابی ہے۔ میرے احد کی دلہن۔! میرے بھائی کی اکلوتی بیٹی انشراح تم ملو گی تو بہت
پسند کرو گی اسے بہت معصوم بہت پیاری ہے۔" بینا اپنی ہی دھن میں بولتی جا رہی
تھی اور تصور میں انشراح کا مرجھایا چہرہ تھا مگر روبیل اسکے چہرے پر پھیلتی
ناگواری موحد نے بغور دیکھی۔۔۔
*******
"آپی یہ کیسے ممکن ہے کہ احد کو گئے
پانچ مہینے ہو گئے اور انشراح نے خوشخبری اب دی؟"
"ہوں۔۔ پتہ نہیں پہلے چیک اپ نہیں
کروایا۔" عالیہ نے سر جھٹک کر کہا۔
"مگر آپی وہ تو جیسی تھی ویسی ہی ہیں نہ
تو انکے وزن میں کوئی کمی یا زیادتی ہوئی ہے نہ صحت میں، ۔اور جب سے احد گیا ہے وہ
بار بار بیمار ہوتی رہی ہے بہت ساری لیڈی ڈاکٹرز عدت میں اسے چیک کرنے آتی رہی
ہیں۔ کیا کسی کو بھی یہ بات پتہ نہیں چلی کیسے ممکن ہے؟"
"تم کیا کہنا چاہتی ہو زمل میں پہلے
پریشان ہوں تم مزید مت کرو۔" عالیہ نے اپنا دکھتا سر دباتے کہا۔
"اوہو، آپی میں آپکی پریشانی ہی ختم کر
رہی ہوں۔ کیا ایسا ممکن ہے انشراح کے پاگل پن کا کسی نے فائدہ اٹھایا ہو۔ یا وہ یہ
سب ناٹک کر رہی ہو اسکا افیئر کسی سے چل رہا ہو جبھی اس نے احد سے نکاح کے وقت
انکار کیا تھا۔ ہاں موحد۔۔! ہو سکتا ہے وہ موحد ہی ہو اسی کا تو کل رشتہ آیا ہے
انشراح کے لئے۔"
"وہ جب کی بات ہے جب یہ روبیل نامی بلا
ہم سب سے اوجھل تھی۔ جب سے موحد کے ولیمے کی خبر آئی ہے میرا تو سوچ سوچ کر دماغ
ہی پھٹا جا رہا ہے کہ کیا وہ انشراح نامی بلا ساری عمر میرے سر پر رہے گی میں سوچ
بھی نہیں سکتی تھی عمر جاہل مردوں کی طرح میری نوکری پر بین لگا کر مجھے گھر بٹھا
دے گا میں نے اسے کبھی جارحانہ رویئے میں نہیں دیکھا تھا۔ اب دیکھتی ہوں تو سوچتی
ہوں کاش کسی طرح یہ انشراح میری زندگی سے نکل جائے۔۔"
"آپی اس کے لئے آپکو ایک چیز کی ضرورت
ہے۔۔"زمل نے آنکھیں گھما کر کہا۔۔اور آہستہ آہستہ سور عالیہ کے کانوں میں
پھونکنے لگی۔۔۔
*******
"معافی چاہتی ہوں بینا مگر انشراح
تمہارے ساتھ نہیں جا سکتی وہ عدت میں ہے۔"آسیہ نے چبتے لہجے میں کہا۔۔۔
"مگر عدت تو ختم ہو گئی بھابی اب کیسی
عدت؟"
"بینا تم تو سمجھدار ہو جو لڑکی حاملہ
ہو تو اسکی عدت جب ہی ختم ہوتی جب تک ڈلیوری نہ ہو جائے، چاہے وہ شوہر کے جانے دو
دن بعد ہی ہو۔۔" آسیہ نے پھنکار کر کہا۔ "مگر بھابی انشراح سے ملنے اس
دن اسکے ٹیچرز آئے تھے موحد بھی کل آیا تھا اور جب ہوسپٹل گئے تھے وہاں بھی ڈاکٹرز
تھے۔ پھر موحد تو اسکے گھر کا مرد ہے۔" بینا نے ہاتھ مسلتے کہا۔
"یہ تب کی بات ہے جب ہمیں معلوم نہ تھا
کہ اسکے پیر بھاری ہو چکے ہیں۔اب معلوم ہے تو اللہ کی نافرمانی جانتے بوجھتے کریں
گے تو جہنم میں کی آگ میں جلسیں گے۔"
"مگر بھابی اسے ہماری ضرورت ہے۔"
بینا نے ہار مانے بنا کمزور سی دلیل دی۔
عالیہ نے ہاتھ میں پکڑی ریپورٹس دیکھی اور مسکراہٹ
دباتے اپنی ساس کے پاس گئی۔
"کیسی ہیں بینا پھوپھو؟" وہ خوشدلی
سے مخاطب ہوئی،
"شکر ہے میرے مالک کا بیٹا۔"
"آپ سب سے مجھے بات کرنی تھی۔"
عالیہ نے کہتے سب کو آوازیں دی۔۔"
شام کے سائے لہرا رہے تھے عالیہ کی آواز پر اس شام میں
لہراتی انشراح بھی اپنے کمرے سے باہر آئی۔۔
اپنے کھلے پائنچوں والی سفید شلوار اور پنک ملگجی قمیض پہنے، سفید شفون کا
ڈوپٹہ زمین سے لگ رہا تھا تو ڈھیلی پونی
سے بال نکل رہے تھے۔۔ زرد ہوئے چہرے پر ممتا سے بھرپور نور تھا۔۔وہ اس حالت میں
بھی قیامت ڈھا رہی تھی۔
"آو انشراح تمہارے بنا تو یہ بات نا
مکمل ہے۔"عالیہ نے انشراح کو کاوئچ پر بٹھاتے کہا۔۔
"کیا بات کرنی تھی تمہیں؟" عمر نے
حیرت سے اسکی طرف دیکھ کر پوچھا۔۔
"یہ لو یہ پڑھو۔۔" عالیہ نے فائل
عمر کے سامنے کی۔
"یہ سب تو انشراح کی ریپورٹس ہیں مجھے
کیوں دیکھا رہی ہو؟" عمر نے حیرانگی سے پوچھا۔۔ انشراح نے بھی عالیہ کی سمت
بے تاثر چہرے سے دیکھا۔۔
"عمر آپ یہ پڑھیں جہاں ٹو ویکس اولڈ
پریگننسی لکھا ہے۔ جبکہ احد کو گئے پانچ مہینے ہو چکے ہیں۔"
"عالیہ تم کہنا کیا چاہتی ہو۔" عمر
نے فائل ایک طرف اچھالتے گرج دار آواز میں کہا۔ بینا نے زمین پر بکھری فائل کے
صفحے پکڑے تو منہ پر ہاتھ رکھے آسیہ کے سامنے کئے۔۔۔
"آواز نیچے رکھو عمر جبران! آواز اونچی صرف عزت دار مردوں کی ہوتی
ہے۔"
"عالیہ حد میں رہو اپنی تم میری معصوم
اور پاکیزہ بہن پر الزام لگا رہی ہو۔۔" عمر نے انشراح کی طرف دیکھتے کہا جس
کی نظر دروازے کی طرف تھی۔۔۔
"پوچھو اپنی معصوم اور پاک باز بہن سے
کس کا گناہ ہے یہ۔؟" عالیہ کی بات پر
عمر کا زور دار تھپڑ اسکے گال پر نشان چھوڑ گیا۔ خبردار جو ایک لفظ بھی کہا۔ یہ سب
ڈاکٹر کی غلطی بھی ہو سکتی ہے۔ڈاکٹرز خدا نہیں ہوتے جن سے غلطی نہ ہو۔ تم نے بنا
سوچے سمجھے میری بہن پر انگلی اٹھائی ہے۔۔ میں تمہیں کبھی معاف نہیں کروں
گا۔"
"عالیہ بیٹی عمر ٹھیک کہہ رہا ہے یہ سب
ڈاکٹرز کی غلطی بھی ہو سکتی ہے تم ہم سے تو بات کرتی انشراح تو کہیں جاتی بھی نہیں
نہ ہی کوئی یہاں آتا ہے۔۔" حارث کی نظر سر پکڑ کر کھڑی ہوتی انشراح کی طرف
اٹھی تو اسے فورا سنبھالا۔۔ سبھی انشراح کی طرف لپکے جبکہ عالیہ نفرت سے پھنکاری۔
"یہ سب ڈرامے ہیں ابھی ڈاکٹرز کو گھر بلاو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو
جائے گا۔۔۔"
"یاد رکھنا اگر تمہاری بات جھوٹ نکلی تو
آج کی رات تمہاری اس گھر میں آخری رات ہوگی۔۔" عمر نے بازو چھوڑ کر ایک جھٹکے
سے عالیہ کو دور کیا۔۔۔
********
"آپ لوگ ان کے سامنے کوئی سٹریس والی
بات نہ کریں انکا بی پی بہت ہائی تھا۔۔ میں نے سب سیمپل لے لئے ہیں کل تک ریپورٹس
مل جائیں گی۔۔۔" ڈاکٹر نے آسیہ سے کہا۔۔۔ "اور الٹراساوئنڈ کیسے کریں
گی۔" آسیہ نے مظبوط لہجے میں پوچھا۔
"اسکی کوئی ضرورت تو نہیں ہے مگر کل صبح
میں اپنی کچھ نرسز اور ایک اچھی ڈاکٹر کو بھیج دوں گی وہ سب مشینز کے ساتھ آ جائیں
گی فکر کی ضرورت نہیں۔" ڈاکٹر نے پیشہ ورانہ مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔۔۔
********
"ہونہہ دیکھ لی اوقات اپنی پہلی اور
معصوم محبت کی۔" روبیل کمرے میں ٹہل رہی تھی موحد کے آتے اس پر برسی پچھلے
تین سالوں کی بھڑاس نکالنے کا اب موقعہ ملا تھا۔
"میں کچھ نہیں سننا چاہتا ابھی مجھے
اکیلا چھوڑ دو۔" روبیل سے نظر ملائے بنا موحد نے کہا۔ "ہونہہ تم کیسے
سنو گے اسکے خلاف اس نے سننے لائق چھوڑا ہی کیا ہے۔۔۔" روبیل زہر خندہ
بولی۔" اگر ممی وہاں نہ ہوتی تو وہ الٹراساوئند کی غلط ریپورٹ ہاتھ میں تھما
دیتے اور تم پتہ نہیں کس کے گناہ کو احد کی نشانی مان کر گلے لگاتے رہتے۔۔"
"بس کرو روبیل یہ نفرت کے اظہار کا وقت
نہیں میں کچھ دیر سکون کے لئے اندر آیا ہوں میرا دماغ پھٹ رہا ہے اگر تم مجھے سکون
نہیں دے سکتی تو لیو می الون بلکہ تم کیوں میں ہی چلا جاتا ہوں۔زندگی ناٹک بنا دی
ہے میری۔۔۔" بڑبڑاتے وہ کمرے سے نکل گیا۔۔ روبیل نے اپنے سلکی بال ایک ادا سے
جھٹکے چہرے پر بہت پیاری مسکان سجاتے وہ اپنی بیٹی کو لئے باہر نکل گئی۔۔۔ "آ
جا میرا بچہ دادو کے پاس جائے گا۔۔ ہے نا۔۔؟" اسے گدگداتے وہ بینا کے کمرے کی طرف گئی۔۔
*******
"انشراح گڑیا مجھے بتاو کس نے برا کیا
تمہارے ساتھ؟ 'ماں ہوں تمہاری تم پر اٹھتی انگلیاں نہیں دیکھ سکتی۔۔" آسیہ نے
اسکا چہرہ تھام کر پوچھا۔۔۔ انشراح نے بے تاثر چہرے سے ماں کی طرف دیکھا جیسے
سمجھنے کی کوشش کر رہی ہو وہ کیا کہہ رہی
ہیں۔۔
"یہ اس طرح نہیں بولے گی۔" کہتے
ہوئے عالیہ اگے بڑھی اور انشراح کو جھٹکے کے ساتھ کھڑا کیا۔۔ "سچ بولو کس کے
ساتھ مل کر منہ کالا کیا ہے کون ہے وہ جس کے ساتھ رنگ رلیاں منانے کے لئے تم یہ
پاگل پن کا ناٹک کر رہی ہو۔۔" انشراح پر بری طرح برستی وہ اس نازک سی گڑیا کو
ایک جھٹکے سے گرا گئی۔۔انشراح کا سر بیڈ کی پائنی کے ساتھ لگا۔۔ عمر ایک پل کو آگے
بڑھا پھر فورا کمرے سے نکل گیا۔۔۔ اور اسکے پیچھے حارث بھی! "انشراح اٹھو
تمہیں چوٹ تو نہیں لگی۔۔" جبران حاکم اپنے بوڑھے ہاتھوں سے اسے اٹھانے لگے۔۔
سر پر ہلکی سی چوٹ کا نشان تھا۔ اور آنکھوں میں آنسو۔ "بہو زرا پیار سے بات
کرو وہ سب بتا دے گی۔ مگر ابھی وہ ٹھیک نہیں ہے اسے تو معلوم بھی نہیں ہے اسکے ساتھ
کیا ہو گیا ہے کیا ہو چکا ہے۔" اپنے پلو سے انشراح کی پیشانی دباتے آسیہ نے
سسکتے لہجے میں کہا۔۔
"آپ سب کے سامنے وہ پاگل پن کا ناٹک کر
سکتی ہے مگر میرے نہیں کیونکہ آپ لوگوں کی طرح میری آنکھوں پر اندھی محبت کی پٹی
نہیں بندھی۔۔ جو سچ اور جھوٹ میں فرق کرنا ہی چھوڑ دے۔ " عالیہ اسے کھنچتے
زبردستی باہر لے گئی اور لیونگ روم کے بیچ گرا دیا۔۔
"عالیہ اسکی حالت کی تو پروا
کرلو۔۔چھوڑو میری بچی کو میں ماں ہوں اسکی اسکا اچھا برا سب جانتی ہوں۔" آسیہ
نے بت بنی زمین پر گری انشراح کو ساتھ لگاتے کہا۔۔ "عمر عمر یہاں آو آج یا تو
اس گھر میں رہوں گی یا تمہاری یہ پاک باز بہن۔۔" عالیہ نے چلاتے کہا۔۔
"کیا پرابلم ہے کیوں چلا رہی ہو۔" عمر نے ناگواری سے اسے دیکھتے
پوچھا۔۔۔
" اگر یہ یہاں رہے گی تو میں یہ گھر
چھوڑ کر چلی جاوں گی۔۔"
"میری بہن اپنے حواس میں نہیں ہے اگر
میں اسکی طرف دیکھنے اسے اپنے ساتھ لگانے سے گریز کر رہوں تو اسکا مطلب یہ نہیں کہ
تمہارے لگائے گئے الزاموں پر یقین کر چکا ہوں۔ شرمندہ ہوں میں اس سے۔۔ نظر ملانے
لائق نہیں رہا میں اسکی حفاطت نہیں کر سکا۔۔۔" عمر کی بات پر آسیہ اور جبران
حاکم کی سوئی ہوئیی امید پھر سے جاگ گئی۔۔
"عمر ہم آج ہی اس سب کو ختم کروا دیتے
ہیں دیکھو میری بچی کتنی تکلیف میں ہے۔۔"
"آج کیوں ابھی کیوں نہیں۔" تب سے
چپ حارث نے سرخ چہرہ لئے کہا۔۔
"ہاں چلو ابھی چلتے ہیں۔۔" آسیہ نے
انشراح کی بازو پکڑ کر اٹھانا چاہا تو انشراح نے ہاتھ جھٹک دیا۔۔ آسیہ کے ساتھ سب
بھی چونک اٹھے۔۔
"میں پاگل نہیں ہوں۔ نہ ہی میرے حواس گم
ہیں۔ مجھے کہیں نہیں جانا خبردار جو کسی نے میرے بچے کی طرف سخت نظر بھی
ڈالی۔۔۔" انگلی اٹھاتے دانتوں پر دانت جمائے وہ سخت لہجے میں بولی۔۔
انشراح کی بات پر سب ہی ساکت رہ گئے سب کے چہرے کے رنگ
فق ہو گئے جبکہ عالیہ کے چہرے پر مسکراہٹ دوڑ گئی۔۔ "ویل ڈن ویل ڈن دیکھ لیا
سب نے پیاری معصوم انشراح کا ناٹک میری بات پر تو یقین نہیں تھا اب سب کو یقین آ
گیا ہوگا پاگل انشراح نہیں ہم سب ہیں اور یہ میڈم پچھلے پانچ مہینوں سے ہمیں پاگل
بنا رہی ہیں۔۔"
"انشراح تم نے ہمیں دھوکا دیا؟؟"
آسیہ نے صدمے سے پوچھا۔۔
"ہاں دیا ہے دھوکا۔ اگر آپ سب کو لگتا
ہے میں نے دھوکا دیا ہے تو دیا ہے۔۔ میری زندگی پر میرا کوئی حق نہیں کیا میرا جو
دل آئے گا میں کروں گی خبرادر جو کوئی بری نظر میرے بچے کیطرف آئی۔۔"
"تم ایک ناجائز بچے کے لئے بوڑھے ماں
باپ اور جوان بھائیوں کے سامنے اپنے حق کے لئے لڑ رہی ہو۔۔؟"
آسیہ نے حیرت سے پوچھا۔ "میرا بچہ ناجائز نہیں ہے
نکاح کیا ہے میں نے اس کے باپ سے یہ میری محبت ہے۔۔"
"بلاو اسکے باپ کو اور بولو اسے تمہیں
ابھی لے جائے ورنہ میں بھول جاوں گا کہ تم میری اکلوتی بہن ہو وہی بہن جسے میں نے
ہمیشہ اپنی بیٹی سمجھا۔۔ عمر نے سخت لہجے میں کہا۔۔انشراح اٹھی اور خاموشی سے اپنے
کمرے میں چلی گئی۔۔
"ہونہہ دیکھ لی پاکبازی۔۔اتنا ہی شوق
تھا تو ہم سے کہا ہوتا ہم عزت سے رخصت کر دیتے" عالیہ نے پھر سے بولنا شروع
کیا مگر اسے چھوڑ کر سب جبران حاکم کی طرف لپکے جو سر ہاتھوں میں گرائے روتے ہی جا
رہے تھے۔۔۔
*********
"آپکا ملایا ہوا نمبر اس وقت بند ہے آپ
سے درخواست ہے تھوڑی دیر بعد کوشش کریں۔" انشراح نے پھر سے یہی سنا تو خفگی
سے فون کو دیکھتے رکھا اور بستر پر لیٹ گئی۔۔۔ اپنے پیٹ پر نرمی سے ہاتھ پھرتے
اسکے چہرے پر بہت دھیمی اور پیاری سی مسکان تھی۔۔
"جب تک آپ کے مما بابا ہیں تب تک آپکو
کچھ نہیں ہوگا۔۔" عہد لیتے وہ مظبوط لہجے میں بولی آنے والی کڑی دھوپ سے
انجان۔۔
********
"بُلایا نہیں تم نے اپنے نام نیہاد شوہر کو
آج تین دن ہو گئے کل نبیل اور ثانیہ آ رہے ہیں انکے آنے سے پہلے چلی جانا میں نہیں
چاہتی تم اپنے اس بھائی کہ سامنے جاو جس نے باپ سے زیادہ تمہیں محبت دی۔۔ اپنی
شفقت کی چھاوں میں پالا اور آخر میں تم اسکی عزت کو داغدار کر دیا تم اس سے نظر
ملانے لائق نہیں رہی ہو۔ نظر چرانے سے بہتر ہے چلی جاو۔۔۔" آسیہ نے سخت لہجے
میں کہا۔۔۔
"ابھی اسکا فون بند ہے جس دن اون ہوگا
وہ ضرور آئے گا۔"
"نہیں آئے گا جو لوگ محبتوں کے اظہار
بند کمروں اور رات کے اندھیروں میں کرتے ہیں۔ وہ لوگ پلٹ کر عزت دینے نہیں
آتے۔"
"میں نے کوئی گناہ نہیں کیا نکاح کیا ہے
ان سے۔۔"
"وہ نکاح جس کا کوئی ثبوت اور گواہ بھی
نہیں۔۔" آسیہ نے بھنچے ہوئے لہجے میں کہا۔۔
"اوہو سر مت کھائیں میرا پلیز۔۔ابھی
میرے پاس کسی سوال کا جواب نہیں آپ جا سکتی ہیں۔۔" انشراح ہٹ دھرمی سے بولی۔۔
"بہت اچھے یعنی تم نبیل سے نظر ملا کر
بات کر سکتی ہو بہت ہمت چاہیئے ہوتی ہے گناہ کرنے کے بعد سکون سے سو جانے کے لئے،
اور جس میں یہ ہمت آ جائے اسے دنیا کی کوئی برائی بری نہیں لگی شرم اسکے لئے مر
جاتی ہے اور حیا سے اسکے تعلق ٹوٹ جاتے ہیں۔" آسیہ کی بات سر سے گزار کر
انشراح نے دروازہ بند کیا اور ایک بار پھر نمبر ڈائل کیا جو مسلسل بند جا رہا
تھا۔۔۔۔
********
"اگر تم سچ نہیں بتاو گی تو تم اس گھر
میں نہیں رہ سکتی۔۔ میں مان لوں گا میری ایک ہی بیٹی ہے دوسری کا جنازہ پڑھے بنا
میں عزت کے نام پر صبر کر لوں گا۔۔" نبیل کی سرخ انگارہ آنکھیں دیکھتے انشراح
سر جھکا گئی۔۔
"آپ مجھے اس گھر سے نکال دیں۔۔"
انشراح نے فیصلہ سنایا سر جھکا تھا اور آواز بند ہو رہی تھی۔۔
"یعنی تم سچ نہیں بتاؤ گی؟؟" نبیل
نے حیرانگی سے اپنی بہن کو دیکھتے پوچھا۔۔
"ابھی نہیں جب تک وہ خود نہیں آ جاتے
میں نے انکی جان کی قسم کھائی ہے اور وہ قسم میرے لئے سب سے بڑھ کر ہے۔۔ مجھے وقت
دے دیں اگر وقت نہیں دے سکتے تو اپنی زندگی اپنے گھر سے نکال دیں میں کہیں اور چلی
جاؤں گی کبھی نہیں آوں گی۔۔" نرم سے بھرائے لہجے میں کہتے انشراح نے نبیل کی
طرف دیکھا جو پچھلے چار گھنٹوں سے اس کے ساتھ سر کھپا رہا تھا۔۔
"بہت بہتر۔۔" نبیل نے اثبات میں سر
ہلایا۔۔
"اپنا سامان پیک کرلو آج سے تمہارا کوئی
باپ نہیں کوئی بھائی نہیں کوئی مان نہیں کوئی رشتہ نہیں۔ تم جا سکتی ہو۔۔"
کھڑکی کی طرف رخ کئے نبیل نے سخت لہجے میں کہا۔ " چلی جاو اس سے پہلے کسی
جاہل مرد کی طرح میرا تم پر ہاتھ اٹھا جائے۔۔" انشراح نے ایک نظر اپنے ماں
جائے کی طرف دیکھا جو اسکی طرف پشت کئے ہاتھ باندھے کھڑا تھا امید تھی کہ اسکے آنے
پر سب ٹھیک ہو جائے مگر وہ تو سب سے زیادہ سخت گیر ثابت ہوا تھا۔۔۔ایک پر شکوہ نظر
ثانیہ کے حیران چہرے پر ڈالتے وہ انکے کمرے سے نکل گئی۔۔
اپنا سب سامان پیک کیا اور سوٹ کیس گھسٹتی نبیل کے کمرے
میں گئی۔۔ اس نے پری کو ہاتھ لگانا چاہا جب نبیل نے پلٹے بنا کہا۔ میری بیٹی کو
ہاتھ لگا اسے اپنا جیسا مت کرنا چلی جاو اپنے ہاتھ روکتے ثانیہ کی طرف گئی جو اسے
ان دیکھا کرتی کمرے سے نکل گئی۔۔
"میں جا رہی ہوں بھائی مگر اب آپ اپنی
بات پر قائم رہیئے گا آپکی صرف ایک ہی بیٹی ہے دوسری کی قبر بھی آپکو بھول چکی
ہے۔۔۔" گھر سے نکلتے انشراح نے ایک نظر گھر کی بلند عمارت کی طرف دیکھا نبیل
نے اسکے دیکھنے پر کھڑکی بند کردی وہ آنسو پیتی گھر کی حدود سے نکل گئی۔۔۔
********
لگاتار ہوتی بیل جب بند ہونے کا نام نہیں لے رہی
تو روبیل نے باہر کھڑے ڈھیٹ کو منہ کو کچھ نوازا اور اے سی میں سوئی اپنی بیٹی کو
چیک کیا دوپہر کی شدید جھلسا دینے والی گرمی میں روبیل اور اسکی بیٹی سوئی تھی
بینا کسی ہمسائے کے ہاں گئی تھی۔اور موحد ڈیوٹی پر تھا۔ وہ اپنے گاؤن کی ڈوری بند
کرتی باہر گئی۔ سامنے ہوش روبہ پری چہرہ لئے لڑکی کو دیکھ کر سوالیہ نشان سے آبرو
اچکائی۔۔ جس کے معصوم اور پاکیزہ حسن کو دیکھ کر وہ پہلی ہی نظر میں اسکی اسیر ہو
چکی تھی۔۔وہ تو لڑکی تھی تو کوئی مرد کیونکر نہ اس پر فدا ہوا ہوگا۔۔ عجیب قیامت
تھی وہ خفا تھی اداس تھی پریشان تھی مگر پھر بھی وہ قیامت ڈھا رہی تھی۔
"یس میں آپکی کیا مدد کر سکتی
ہوں۔؟" روبیل نے پوچھا۔
"میں انشراح یہ میری پھوپھو کا گھر
ہے۔!" روبیل کو کہتے انشراح اندر آنے کو تھی جب روبیل گھر کا دروازہ بند کرتی
باہر آئی۔
"یہ گھر تمہاری پھوپھو کا نہیں میرا ہے۔
بہتر ہوگا تم چلی جاو" روبیل کے بے وجہ سپاٹ لہجے پر انشراح ششد رہ گئی۔۔
"آپ کون ہیں؟" انشراح نے حیرانگی
سے پوچھا۔
"روبیل حریف" روبیل نے تمسخر اڑاتے
کہا۔
"آہ ہاں آپ ہیں روبیل بھابی ہیں۔ مجھے
بتایا تھا مما نے میں موحد کی کزن ہوں اور بھابی بھی۔ احد میرے ہسبنڈ ہیں۔ موحد کے
جڑواں بھائی ہیں وہ"
"ہسبنڈ ہیں نہیں تھے اب وہ چلے گئے
ہمیشہ والی فلائٹ سے۔" روبیل نے ہاتھ سے جہاز اڑاتے منہ گول کر کے سیٹی
بجائی۔
"پھوپھو پھوپھو۔۔ پھوپھو۔۔۔
موحد۔۔" روبیل کی اس حرکت سے گھبرا کر انشراح چلانے لگی مگر روبیل ڈھٹائی سے
کھڑی رہی۔۔
"کوئی نہیں ہے نہ کوئی آئے گا تم نے جو
رسوائی انکی زمانے میں کی ہے وہ تمہاری شکل بھی دیکھنا نہیں چاہتے چلی جاو اس سے
پہلے تمہیں دھکے دے کر نکالوں۔۔۔ناو گٹ اوٹ مجھے میرے گھر میں کوئی کاٹ کباڑ نہیں
چاہیئے۔۔" روبیل نے اسکے سوٹ کیس کو ایک پاوں سے دور کیا۔ اور چٹکی بجاتے
دوسری طرف کا رستہ دیا۔۔ انشراح آنسو پیتی اپنا سوٹ کیس لئے وہاں سے نکل گئی۔۔۔
*******
جنگل کے بیچ بنے چھوٹے سے ہٹ نما لکڑی کے خوبصورت گھر
کا گیٹ کھلا تھا ہر طرف سوکھے بنجر پتے بکھرے تھے۔ وہ اپنے پیروں تلے انکو روندتی
شکستہ قدموں سے اندر داخل ہوئی۔ دو دن کی جنگل میں شدید خواری خوف و حراس میں گزار
کر وہ گھر ڈھونڈنے میں کامیاب ہو چکی مگر ان سب میں وہ اپنا تمام سامان کھو چکی
تھی اور تمام ہمت بھی بھوک سے نکلتی جان اور چھالے ڈلے پیر اسکی حالت کا پتہ دیتے
تھے۔ قدم قدم پیاس سے اٹھاتے وہ مردہ قدموں سے اندر داخل ہوئی اس کو فکر تو اس بات
کی تھی اس کے اندر پل رہی نئی زندگی سلامت رہے وہ کسی کی محبت تھی اسکی وفا کی
نشانی تھی اس کے ہونے کا ثبوت تھا۔۔ درختوں سے باندھا لکڑی کا جھولہ تیز اندھی سے
ہل رہا تھا۔ عبدللہ نے نماز پڑھ کر سلام پھیرا اور دعا کے لئے ہاتھ بلند کئے۔۔جیسے
ہی دعا مانگ کر وہ پلٹا کچن سے نکلتے انیس اور فائز کو دیکھ کر چونکا وہ دونوں
حیران کھڑے تھے۔ عبدللہ نے انکی نظروں کے تعاقب میں باہر سے آتی اندھی کے ساتھ
بجلی کو دیکھا تو آنکھیں سکڑ لی۔ "یہ یہاں کہا کر رہی ہے۔؟"
"آپ کا رومیو کہاں ہے۔؟" انشراح نے
مشکل سانس لیتے بھنچے لہجے میں پوچھا پچھلے ایک مہینے سے ان کا فون بند ہے۔ میں
پریشانی میں وہاں مر رہی تھی،ان سب نے مجھے نکال دیا ہے۔۔ انشراح کی بات پر لخطہ
بھر کو سب حیران ہوئے۔
"تمہارا رومیو پاکستان نہیں ہے یہاں آو
آ گئی ہو تو مل لو۔۔۔" عبدللہ نے محبت سے اسے دیکھتے کہا۔۔۔
"وہ جہاں بھی ہیں ان کی ہمت کیسے ہوئی
فون بند کرنے کی اور مجھے اس حال میں اکیلا چھوڑنے کی جب مجھے سب سے زیادہ انہی کی
ضرورت ہے۔ جانتے ہیں پہلے نبیل بھائی نے مجھے نکال دیا پھر موحد کی وائف نے سب کا
گھر ہے میرا گھر نہیں ہے کیونکہ میرا شوہر نہیں ہے میری کوکھ میں موجود گوشت کے
ٹکڑے کو وہ سب ناجائز سمجھتے ہیں میرا گناہ کہتے ہیں ۔ بلائیں انہیں وہ ابھی میرے
ساتھ گھر چلیں میں سب کو بتاوں گی میرے احد زندہ ہیں انہیں کچھ نہیں ہوا وہ سب
ڈرامہ تھا جھوٹ تھا دنیا کی نظر میں دھول جھونکنے کو فریب تھا۔۔۔" انشراح نے
سسکتے اسے ساری بات بتا دی۔۔۔
"مجھے افسوس ہے جو بھی ہوا بیٹا۔ تم نے
اچھا کیا جو یہاں آ گئی۔۔ میں احد کا چہچا ہی نہیں باپ بھی ہوں اور تم اس وقت اپنے
باپ کے گھر ہو یہاں سے تمہیں کوئی نہیں نکالے گا جب تک احد نہیں آتا تمہاری حفاظت
میری ذمے داری ہے۔۔ کچھ وقت کی بات پے جب وہ لوٹ آئے گا تو سب ٹھیک ہو جائے گا سب
کو سچ معلوم چل جائے گا۔۔"
"اگر وہ زندہ لوٹ آئے تو۔"انشراح
نے دل میں سوچا۔
********
سب لوگ ہوسپٹل میں احد کی اچانک شہادت پر ماتم کناں تھے
ایسے میں سب ہی بھول چکے تھے جس کا سب سے زیادہ نقصان ہوا ہے وہ اندر اکیلی ہے اور
خود سے لڑ رہی ہے اپنے پیا کی راہ میں آنکھیں بچھائے ہے وہ نہ آیا تو مر جائے گی
وہ جس کہ ناراضگی اسے موت کی حدود تک لے گئی تھی اسکے بنا جینے کا تصور بھی محال
تھا۔۔۔ وہ اپنی الٹ پلٹ ہوئی بے یقین دنیا میں گھمتی باہر سے آتی ناگفتہ آوازیں سن
رہی تھی۔ جب کوئی برقعہ پوش عورت اندر کمرے میں داخل ہوئی آتے ہی انشراح کے منہ پر
ہاتھ جمائے۔۔
"ششی بولنا مت۔۔" احد کی آواز پر
انشراح چونکی اسکے ختم ہوتے حواس لوٹنے لگی دل جو احد کے چلے جانے سے روٹھ رہا تھا
پھر سے ترتیب میں دھڑکنے لگا۔ احد نے چہرے سے نقاب اٹھایا اسے دیکھے وہ کھل
اٹھی۔"احد آپ آ گئے مجھے پتہ تھا۔آپ آ جائیں گے۔آپ مجھ سے خفا ہو ہی نہیں
سکتے۔" انشراح پر یقین بھیگے لہجے میں کہتی بستر سے اٹھی اور احد کے مقابل
آئی۔
"شش میری جاناں زیادہ وقت نہیں ہے میرے
پاس، میری بات دھیان سے سنو اور اس پر عمل کرو اگر نہیں کیا تو مجھے کچھ بھی ہو
سکتا ہے۔ دشمن میرے خون کے پیاسے ہیں اور میں انکے، ہم میں سے کسی ایک کی موت واجب ہو چکی ہے۔۔۔۔سنو جاناں،
مجھے اپنی جان کو بتانا تھا اسکا احد ابھی باقی ہے۔ تم پریشان ہونا اور کسی سے مت
کہنا میں زندہ ہوں میری مصنوعی موت کو تم درد ناک بنا دو تاکہ میڈیا میں ہر طرف
سبھی پر یقین ہو جائیں احد سکندر نہیں رہا۔۔"
"احد وہ پھوپھو وہ کیسے۔۔۔" احد نے
انشراح کے لبوں پر انگلی رکھی۔ "تمہاری پھو پھو رہ لیں گی۔۔انہیں عادت ہے
تمہیں عادت نہیں ہے اپنے احد کے بنا جینے کی مجھے معلوم تھا جو لڑکی میری ناراضگی
سے بے حال ہو جائے میری موت سے وہ کب تک زندہ رہے گی۔ اگر مجھے تم پر زرہ برابر
بھی یقین ہوتا کہ تم میرے بعد اپنا خیال رکھو گی تو تمہیں بھی کبھی نہ بتاتا۔ یہ
لو فون اس فون سے تم میرے ساتھ رابطے میں رہنا اور ایک بات ہر وقت جھوٹا مت رونا
بلکہ خاموش رہنا اس طرح تمہارے منہ سے کوئی ایسی بات نہیں نکلے گی جس سے کسی کو شک
ہو۔۔"
"احد یہ سب مجھے سمجھ نہیں آ رہا آپ
کہاں جا رہے ہیں کہاں رہیں گے اور کیسے کیا ہو گا۔۔؟" آنسو پیتے انشراح نے
گھبرا کا اسکا کا ہاتھ جکڑ لیا۔۔۔
چند سیکنڈ خاموشی سے اسکے جھکے سے اور آس سے بھری زلفوں
کو وہ دیکھتا رہا پھر بہت اچانک اسے کھنچ کر اپنے سینے میں بھینچ لیا۔۔۔ "
کبھی مت سوچنا احد تم سے بے وفائی کرے گا۔۔میں تم سے خفا ہو کر نہیں جا رہا میری
مجبوری ہے جاناں ہم ساتھ رہیں گے جیسے سب کپل رہتے ہیں مگر ابھی نہیں،، ابھی اللہ
نے میرے لئے بہت سے کاموں کی لسٹ بنائی ہے۔" انشراح کی کمر اور الجھے سہلاتے
وہ بہت محبت اور نرمی سے سمجھا رہا تھا۔۔۔ "اپنا خیال رکھنا اور میڈیا میں
گھر دوستوں کسی میں کوئی بھی تاثرات یا کچھ بھی شئیر مت کرنا۔ کوئی بھی یہ نہ سوچے
تم میری کمزوری ہو اگر کسی کو میرے رو پوش ہونے اور نقلی لاش کا تھوڑا بھی شک ہوا
وہ لوگ تمہیں مہرہ بنائیں گے۔اور تب مجھے باہر آنا ہوگا۔ گھر سے کسی صورت مت
نکلنا۔ کسی بھی پرنٹ میڈیا یا آفیسر سے مت ملنا۔ صرف خاموش رہنا ابھی مجھے جانا
ہوگا میں کل رات تم سے ملنے آوں گا تم کسی طرح اس ہوسپٹل سے گھر چلی جاو اور ٹیرس
کی کھڑکی کھلی رکھنا۔۔" بمشکل اسے الگ کرتے احد نے کہا۔۔۔ مگر وہ جب بھی اسے
چھوڑنے کو تیار نہ تھی۔۔"خاموش رہنا بنا کسی بھی طرح کے تاثرات دے کر تمہارا
احد مر چکا ہے اب جو زندہ ہے وہ رومیو ہے۔۔ بہت سی ماؤں کی اُجڑی گود کا
رکھوالا،" انشراح کی پیشانی اور بھیگی آنکھوں پر اپنی محبت کی مہر ثبت کرتے
احد نے اسکی کلائیاں دیکھی۔ " گھر جاتے تم وہ منہ دیکھائی کے تحفے میں جو
بینگل دیئے تھے وہ پہن لینا ان میں مائیکرو چپ ہے اس سے مجھے تمہاری لوکیشن پتہ
چلتی رہے گی۔۔ اسکی چارج بلب کی روشنی اور دھوپ سے ہوتی ہے انہیں مت اتارنا ورنہ
میرے لئے تم سے ملنا مشکل ہو جائے گا اور اس فون کے بارے میں کسی سے کچھ بھی مت
کہنا مجھے یقین ہے تمہارے فون کو ٹریپ کیا گیا ہے اس سے جو بھی فون کالز جو بھی
میسج ہوں گی انکی رپورٹس وہاں ان لوگوں کے پاس ہوگی جنہوں نے مجھ پر قاتلانہ حملہ
کیا میں بچ گیا۔۔ مگر میری وجہ سے بہت سے معصوم لوگ زندہ جل چکے ہیں۔۔"
دروازہ کھلنے کی آواز پر احد رکا۔۔" انشراح باہر جو جلی ہوئی ڈیڈ باڈی ہے اسے
نہیں دیکھنا تمہاری طبعیت خراب ہو جائے گی۔چلتا ہوں کوئی آ رہا ہے زندگی رہی پھر
ملیں گے۔" انشراح کا گال تھپک کر احد کھڑکی کی طرف گیا انشراح جلدی سے فون
چھپا کر اسی پوزیشن میں لیٹ گئی۔۔۔
*********
"تمہیں میں بول کر گیا گھر چلی جانا
ابھی تک میکے میں ہو۔؟" بالکونی میں کھڑے احد نے اسے چاند کی روشنی میں
گھورا۔
"میں کیسے جاتی؟ وہ سب تو مجھے عدت میں
سمجھ کر یہاں لے آئے ہیں۔"
"تو عدت وہاں نہیں ہوتی جانتی ہو یہاں
پائپ کتنا اونچا ہے اور وہاں گراونڈ فلور ہے پورے دس منٹ لگ گئے مجھے یہاں تیسرے
فلور تک پائپ چڑنے میں۔" احد نے مزید اسے غصے سے گھورا۔۔۔
"وہاں وہ موحد ہیں انکی وجہ سے عمر
بھائی مجھے اپنے گھر لے آئے۔ اور آہستہ بولیں کمرے میں عالیہ بھابی سو رہی ہیں۔
انہوں نے سن لیا تو قیامت آ جائے گی۔۔"
"شرعی بیوی ہو میری اٹھا لینے دو قیامت
جانتی بھی ہو مجھے کتنی اذیت ہوئی جب معلوم ہوا تم میرے گھر میرے کمرے میں موجود
نہیں ہو میں اپنی جاناں کو دیکھنے وہاں گیا تھا تمہارا جی پی بھی ایکٹیو نہیں تھا
پھر وہاں سے یہ کنگن لئے اور سوچا اب میڈم کو اپنے سسرال جا کر خود ہی پہنا دوں
پہلے جو نہیں پہنائے تھے۔۔" اپنی پاکٹ سے کنگن نکال کر انشراح کو پہناتے وہ
نرم سے لہجے میں کہہ رہا تھا۔۔
"آپ نے میرا نمبر روشنی کے نام سے کیوں
سیو کیا ہے؟" انشراح نے اسکا فون چیک کرتے حیرانگی سے پوچھا۔
"میری شکی مزاج بیوی۔" احد نے
شرارت سے اسکی طرف دیکھا۔ " تم نے ایف ایم پر کچھ پروگرام روشنی کے نام سے کئے
تھے ناں، جبھی مجھے تمہارا یہ نام بہت پسند آیا تھا اور تم میری زندگی میں واحد
اُجالا واحد روشنی ہو تمہیں سے میری زندگی میں سویرا ہے۔اور پھر اگر کسی کا ہاتھ
"میں" یا میرا فون لگ جائے تو انکا باپ بھی نہیں جان پائے گا روشنی کون
ہے۔" احد کی بات پر انشراح خوش ہوئی۔"میرے رومیو آپ بہت سمجھدار
ہیں۔"
"ہاں جبھی تو تم سے جلدی محبت ہو گئی
ورنہ تم نے تو مجھے خفا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔اگر ناراضگی میں مجھ سے
کوئی فیصلہ ہو جاتا تو؟ اک پل تو رہ نہیں سکتی میرے بنا بعد میں کیا کرتی۔"
احد کی بات پر انشراح نے شرمندگی سے چہرہ جھکایا۔۔
"مسکراہٹ دبا کر وہ اسے اپنے حصار میں
لینے لگا۔۔
پوری رات اسکے حصار میں گھری وہ اسکی نرم گرم سرگوشیاں
سنتی رہی اسکے سینے کی گرمی میں اٹھتی مدہوشکن تپش اسے تحفظ کا احساس دلاتی رہی۔۔۔
صبح ساڑھے پانچ بجے کے قریب کمرے میں کھٹکا ہوا وہ دونوں چونکے۔۔وہ الارم بج رہا
تھا۔۔
"آپ جائیں عالیہ بھابی اٹھ گئی ہو گی
انہیں آفس جانا ہوگا۔ مجھے کمرے میں نہیں دیکھا تو یہیں آ جائیں گی"
"اس ٹائم؟" اپنی ریسٹ واچ پر ٹائم
دیکھنے کے بعد اس احد نے واچ والی بازو انشراح کے سامنے کی جو اسکے دوسرے بازو کے
حالے میں چھپی تھی۔۔۔ "انکو تیار ہونے میں بہت وقت لگتا ہے اس لئے وہ جلدی
اٹھتی ہیں"
"آنے دو۔" احد نے دیوار سے ٹیک
لگاتے ٹانگیں مزید زمین پر پھیلائی۔۔
"احد وہ سب کو سب بتا دیں گی۔۔مجھے اندر
جانا ہوگا ورنہ سب کو معلوم ہو جائے گا میں پاگل نہیں ہوں۔"
"کیا مطلب ؟" اپنی ایک آنکھ ہلکی
سی کھولے وہ حیرانگی سے پوچھنے لگا۔۔
"وہ دراصل میری چپ سے سب کو یہی لگا۔ اب
سب سائیکوجسٹ سے میرے سیشن کروانا چاہتے ہیں بلکہ کل وہ ایک آئی بھی
تھی۔۔"انشراح کے بتانے پر پہلے وہ حیران ہوا پھر ہنستا ہی چلا گیا۔۔
"ویسے تم اتنی بھی معصوم نہیں ہو جتنی
نظر آتی ہو ڈاکٹر کو بھی دوکھا دے گئی۔" احد کی بات پر وہ خفا ہوتی اسکا حصار
توڑتی اندر کو جانے لگی۔ "اچھا سنو جاناں۔۔" اپنا ایک کان کُھجاتے دوسرے
سے اسکی کلائی تھامے احد نے اسے پیار سے روکا۔۔
"بولیں۔۔" اس سے پہلے وہ پیار بھری
بات کہہ کر اسے کوئی لطیف سہ لمس چکھاتا بالکونی کے دروازے کا ہینڈل ہلتے دیکھ احد
نے اسکی کلائی چھوڑی اور پائپ سے فورا نیچے جانے لگا جس طرف احد تھا اس طرف پیٹھ
کئے انشراح سپاٹ چہرے بنائے دوسری طرف دیکھنے لگی۔۔۔۔چہرے پر گزری رات کا کوئی
شعبہ کوئی تاثر باقی نہ تھا۔۔
"ہماری گڑیا کیا سوئی نہیں رات
بھر۔" عمر کی بات پر ایک پل کو انشراح کی رنگت فق ہوئی اگلے ہی پل وہ خود کو
سنبھال چکی تھی مگر ہاتھوں میں لرزش باقی تھی کہیں عمر احد کو دیکھ نہ لے۔۔انشراح
نے اپنی آنکھیں اٹھا کر 'دو بار' معصومیت سے عمر کے سامنے جھپکائی۔۔
"اندر آو یہاں تو بہت سردی ہے۔۔میری
پیاری ڈول یہاں کیوں آ گئی۔۔وہ تو تم کمرے میں نہیں تھی تو عالیہ نے مجھے اٹھایا
ورنہ اسے تو خیال ہی نہ آیا تھا تم یہاں ہوگی" انشراح کو لئے عمر کمرے تک
گیا۔۔۔ اور اسے نرمی سے بستر تک لے گیا۔۔ اسکے سوجے پپٹوں والی آنکھیں دیکھ کر عمر
کو بہت ملال آیا اس نے عالیہ جیسی لاپروا لڑکی کو کیسے اپنی نازک بہن کا خیال
رکھنے کو کہہ دیا۔۔شائد وہ دکھ سے جاگتی رہی ہو،یا احد کی راہ دیکھتی رہی ہو۔۔ عمر
نے سوچا اس بات سے بے خبر کہ وہ احد ہی کے
ساتھ اسکی محبت کے حصار میں گھری پوری رات جاگتی رہی ہے۔۔
*********
اپنے بھرے پورے جسم کو گرم شال میں چھپائے انشراح جھولے
پر بیٹھی سوکھے پتوں کو دیکھ رہی تھی۔ اسکی خوبصورت سرمئی آنکھیں اداسی کرب انتظار
جیسے جذبات سے بے رونق ہو رہی تھی۔ اسے یہاں آئے سات مہینے گزر چکے تھے مگر نہ تو
انشراح کے گھر والوں میں سے کسی نے اسے فون کیا تھا نا ڈھونڈا تھا نہ ہی احد سے
کوئی رابطہ ہو پایا تھا معاضی کی گزری حیسن یادوں کو یاد کرتے ہوئے اس نے یہ مہینے
بہت مشکل سے گزارے تھے نہ ہی اسے ماں باپ بھائی بھابی کسی کی محبت ملی تھی نہ احد
کی محبت ساری زندگی نازک آبگینے کی طرح محبت سمیٹنے والی انشراح کو اس وقت سب نے
دھتکار دیا جب اسے سب کی محبت کی سب سے زیادہ ضرورت تھی۔ عبدللہ نے ایک باپ اور
بڑے بھائی کی طرح اسکا بہت خیال رکھا تھا انئیس اور فائز نے بھی بہت ساتھ دیا مگر
اس کے اندر کہیں کوئی خلش کوئی وہم بیٹھ چکا تھا کہ وہ دنیا میں اب اکیلی کر دی
گئی ہے کوئی محبت کرنے والا رشتہ جان چھڑکنے والا باقی نہ تھا۔ احد کو لوٹ آنے کی
اب کوئی امید نہ تھی وہ سچ میں پاگل ہو جاتی یا خودکشی کر لیتی اگر اس کے پاس احد
کی نشانی نہ ہوتی وہ مر سکتی تھی مگر اسے نقصان پہنچانے کا سوچ بھی نہ سکتی تھی وہ
اسکے احد کی محبت تھی اسکا آنش تھا یہی اب اسکے جینے کی وجہ تھی۔
انشراح نے جھولے پر رکھی فائز کی بنائی بد ذائقہ کافی
کی طرف دیکھا اسے سوکھے سے ڈھانپ کر وہ پھر سے گزری میٹھی یادوں میں چلی گئی جن
میں وہ اور احد تھے۔ بچپن کی محبت تھی بھائیوں کا مان تھا باپ کی شفقت تھی۔ ماں کی
ممتا تھی تو بھابی کی بے مشال دوستی تھی۔۔ مگر اب کچھ بھی ویسا قیمتی نہ تھا
ماسوائے ان یادوں کے۔۔۔
"کہاں چلے گئے ہیں احد مجھے اور اسے
آپکی ضرورت ہے پلیز اللہ تعالی میرے احد زندہ سلامت واپس بھیج دیں میرا انکے سوا
کوئی نہیں ہے۔۔ بند آنکھوں سمیت وہ سسک رہی تھی سرد شام کے سائے لہرا رہے تھے ہوا
تیز ہوتی جا رہی تھی اندھی میں اکیلی بیٹھی وہ اپنا ضبط کھونے لگی وہ بند آنکھوں
سے گرم سیال بہانے لگی۔۔کچھ دیر بعد انشراح کو لوہے کا گیٹ کھلنے کی آواز آئی مگر
وہ کسی اور ہی دھن میں سسکتی احد کو رب سے مانگتی رہی آنے والے نے بہت ہی محبت سے
اسکے انمول آنسوؤں اپنی پوروں سے چن لئے۔۔۔"آ گیا ہے تمہارا احد جیسا گیا تھا
بلکل ویسا کیوں ہلکان کر رہی ہو خود کو جاناں اور ہمارے بے بی کو بھی کیا حالت بنائی
ہے اپنی۔؟" احد نے اسکی تپتی پیشانی پر نرم بوسہ لیا تو انشراح نے پٹ سے
آنکھیں کھولی۔ "احد۔۔۔۔۔ آپ آ گئے میں نے آپ کو بہت مس کیا بہت زیادہ۔"
بے ساختہ ہچکیوں سے روتے وہ اسکی مظبوط شانے سے لگ گئی۔۔ "اب مجھے چھوڑ کر مت
جائیے گا مجھے سب نے چھوڑ دیا ہے میں بہت اکیلی رہ گئی ہوں۔۔" بچوں کی طرح
اسے خود پر بیتی واردات سناتے وہ سارا غبار بہانے لگی درمیان کے مہینے کہیں گم ہو
گئے تھے رہ گئے تھے تو صرف وہ دونوں اور انکی محبت۔۔۔
"سب ٹھیک ہو جائے گا جاناں کیوں پریشان
ہو۔ مجھے معاف کردو مجھے دیر ہو گئی۔۔ آئندہ ایسا نہیں ہوگا۔۔" اسے تحفظ دیتے
احد کا دکھ سے دل کٹنے لگا۔۔ کیا حال بنا دیا تھا وقت نے اسکی معصوم سی کانچ کی
گڑیا کا۔۔
"انشر؛" احد نے بہت محبت سے اسے پکارہ۔۔
"بہت کیوٹ ہو گئی ہو کیا تم ہمیشہ ایسی
نہیں رہ سکتی۔۔" احد کی اس بات نے اس کے وجود میں عمر بھر کی شگفتی پیدا کر دی
وہ بے ساختہ کھلکھلا کر ہنس پڑی۔ "آپ کا مطلب ہے یوں اس طرح موٹی؟"
"نہیں اب اتنی بھی موٹی نہیں ہوئی ہو،
بس زرا ہگ ٹھیک سے نہیں ہو رہا۔" اسکی شال درست کرتے احد کی نظر سویٹر پر
گئی۔
"یہ جینٹس سوئٹر کس کا پہنا ہے۔؟"
یک دم سنجیدہ ہوتے احد نے ابرو اچکا کر پوچھا۔۔۔
"یہ تو انئیس بھائی کا ہے ابھی ہی دیا
ہے۔ سردی ہے نا"
"سالے کو لگا ہوگا میں مر چکا ہوں، تو
میری خوبصورت بیوی پر لائن مار رہا تھا ابھی اسکے سارے کس بل نکالتا ہوں۔"
اپنے کف فولڈ کرتے وہ دانت کچکچاتے اٹھا۔۔
"احد ابھی تو آئے ہیں ابھی لڑائی شروع
کردی میری غلطی ہے مجھے لینا ہی نہیں چاہیئے تھا ان سب نے میرا بہت خیال رکھا وہ
مجھے بہن سمجھتا ہے اپنی۔"
"بہن ہی سمجھے تو بہتر ہے جو میرا ہے وہ
صرف میرا ہے۔۔" خفگی سے کہتے احد نے اسکے وجود کو دیکھا۔ جو بمشکل چل رہی تھی
اور کوئی ڈھول ہی لگ رہی تھی۔۔انشراح کے چلنے پر احد کے چہرے پر بہت پیاری اور
میٹھی مسکان دوڑ گئی۔۔
"ہاہ کوئی اتنا بھی کیوٹ نہ لگے کہ کیوٹ
لگنے کی بھی کوئی حد ہی ختم ہو جائے۔" مسکرا کر کہتے احد نے اسے سہارا دیا۔۔
جب وہ نہیں تھا تو وہ چل رہی تھی اب وہ ہے تو اسے مشکلات اٹھانے اور تکلیف سہنے کی
ضرورت ہی کیا تھی۔۔
*********
"نبیل احد ہمارا احد زندہ ہے۔۔۔"
ثانیہ نے نیوز چینل پر نیوز دیکھتے اسے فون کیا۔۔
"ہاں ہاں میں سچ کہہ رہی ہوں بلکل ہوش
میں ہوں اپ جلدی سے نیوز اون کریں دیکھیں نہ اس نے کتنا بڑا کام کیا ہے اپنا نام
بدل کر ملک کے ہزاروں قید بچوں کو چھڑوایا ہے جو لوگوں کے ظلم سہنے کو کبھی پارک
اور کبھی سکولوں سے کڈنیپ ہو چکے تھے۔۔اب اپنے اپنے گھر واپس آ چکے ہیں۔۔"
"انشراح جانتی تھی وہ زندہ ہے۔۔؟"
نبیل کی سنجیدہ آواز پر ثانیہ کی ساری خوشی ملیامیٹ ہو چکی تھی اب انشراح کا سامنہ
نبیل کس طرح کریں گے؟ اپنی ہی نازو پلی کو اب کہاں سے ڈھونڈیں گے؟ یہ سوچتے ثانیہ
نے سر پکڑ لیا۔۔ساری خوشی سب کچھ غارت ہو چکا تھا۔۔۔احد کا سامنا اب محال تھا۔
********
احد کے چہرے کو بارہا چومتے بینا کی آنکھیں بار بار
بھیگ جاتی۔۔
"میرا بچہ میرا لال مجھے تم ہر فخر ہے
تم نے جو کیا ہے تم عظیم ہو۔۔" اپنی ماں سے ملنے کے بعد وہ انہیں پیاسہ ہی
چھوڑ کر موحد سے اس طرح ملا جیسے وہ جانے کب کا بچھڑا تھا اب صدیوں بعد ملے ہیں تو
کبھی جدا نہ ہوں۔
"آپ مجھے تو بتاتے مجھے بھی نہ بتایا۔
چاچو سے میں بہت لڑوں گا۔ایسے بھی کوئی کرتا ہے آخر میرا بھی حق تھا اس راز میں
شامل ہونے کا۔" موحد نے نہایت خفگی سے کہا۔۔
موحد کو مناتے وہ اسے پیار کرنے لگا "مان جا جگر
اتنی محنت تو مجھے اپنی بیوی کو منانے میں نہیں لگتی وہ تو فورا مان جاتی
ہے۔"
اتنے
میں نک سک سے تیار ہوئی روبیل آئی ساتھ میں اپنی بیٹی کی انگلی پکڑے تھی۔ احد کو
دیکھتی وہ شاکڈ ہوئی موحد کے ساتھ بیٹھا وہ موحد ہی کا ہم شکل تھا صرف اسکی
مسکراتی آنکھوں کا رنگ جدا تھا۔ اگر وہ الگ نہ ہوتا تو پہنچاننے میں کوئی بھی
دوکھا کھا جاتا۔
"اسلام و علیکم۔ جیٹھ جی" روبیل نے
ہنس کر اسے اپنی طرف مخاطب کیا۔ احد نے ایک نگاہ غلیط اس پر ڈالی اور سر کے اشارے
سے بنا اسے دیکھے سلام کا جواب دیا۔ احد کی بے رخی روبیل کو تو لگی مگر موحد اور
بینا بھی چونک اٹھے۔
"اوکے مما میں چلتا ہوں۔" احد یک
دم کہنے پر موحد اور بینا چونک اٹھے۔
"کہاں جانا ہے میرے چاند؟ ابھی تو آئے ہو، میں نے جی بھر کے دیکھا بھی
نہیں اور میں نے بھائی صاحب کو فون کیا ہے وہ سب بھی آتے ہوںگے۔"
"سوری مما مگر میں جن لوگوں سے ملنا
چاہتا تھا مل لیا یعنی آپ سے اور اپنے جگر سے اور میں کسی سے ملنا نہیں چاہتا نہ
ہی میرا ان سب سے اب کوئی تعلق ہے۔!" احد نے رکھائی سے کہا۔۔
"احد بیٹا تم یہ کیا بول رہے ہو؟ ان سب
نے کیا کہا ہے اور روبیل وہ تو تم سے پہلی بار ملی ہے۔" بینا کی بات پر احد
کے چہرے پر تلخ مسکراہٹ آ گئی۔ اسکے سامنے انشراح کا وہی چہرہ گھوم گیا جو تین دن
پہلے اسے اچانک دیکھنے پر سامنے آیا تھا۔ سب رشتے ہونے کے باوجود اسکی زندگی جنگل
کے ویرانے میں رہ رہی تھی اگر کوئی جانور اسے نقصان پہنچاتا تو کون احد کے نقصان
کا ازالہ کرتا اگر عبدللہ اسکا خیال نہ رکھتا اس پر یقین نہ کرتا تو کون اسکی
حفاظت کرتا۔اگر جو اسکا آنش انشراح کی کوکھ میں نہ پل رہا ہوتا تو وہ اپنے آپ کو
ختم کر لیتی کوئی تھا جو اسکے نقصان کا ازالہ کرتا یا کہیں سے اسکی زندگی واپس لے
آتا۔جس حال میں اس نے اکیلے سروائیو کیا تھا اگر کہیں کسی موڑ پر وہ زندگی سے تھک
جاتی ہمت ہار جاتی وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ انشراح کے گھر والے اسے کبھی دربدر
کر دیں گے اور پھر اسے تلاشنے کی ایک کوشش بھی نہ کریں گے۔۔۔
"میں روبیل بھابی سے اب مل رہا ہوں مگر
یہ۔۔۔" احد نے ٹہرے لہجے میں کہا۔ "یہ "میری انشراح" سے بہت
پہلے مل چکی ہیں۔! انفیکٹ جب نبیل بھائی نے اسے سچ بتانے یا گھر سے چلے جانے کو
کہا تو وہ یہی آئی تھی جہاں اسے بری طرح دھتکار کر نکال دیا گیا۔ آپ ہی بتائیں میں
وہاں کیسے رہ سکتا ہوں جہاں میری بیوی کے لئے کوئی جگہ نہ ہو کوئی بھی غیرت مند
شخص اپنی بیوی کو اپنی عزت مانتا ہوگا اور اسکی عزت جو نہ کرے وہ اسی کی توہین
ہوئی نہ، روبیل کا کہنا ہے یہ گھر اسکا ہے اور میری عزت کے لئے یہاں کوئی جگہ
نہیں۔،"
"احد انشراح یہاں نہیں آئی اور اگر اسے
معلوم تھا تم زندہ ہو تو اس نے ہمیں کیوں نہیں بتایا؟، وہ یہاں نہیں آئی سچ کہتی
ہوں روبیل ایسی نہیں ہے وہ تو کبھی انشراح سے ملی تک نہیں۔" بینا نے اسکی
صفائی دی مگر اس دوران موحد روبیل کو نہایت چبتی نظر سے دیکھ رہا تھا
جو اڑی ہوئی رنگت کے ساتھ موحد کی طرف دیکھ رہی تھی۔
"انشراح یہاں آئی تھی؟" موحد نے
اسکے مقابل کھڑے ہوتے سنجیدہ لہجے میں پوچھا۔۔
"وہ موحد۔۔"
"انشراح یہاں آئی تھی یا نہیں۔۔؟"
موحد نے قدرے زور دے کر پوچھا۔۔
"وہ دراصل جب وہ۔۔۔" روبیل نے
ہلکلاتے کہا۔
"ہاں یا ناں، وہ آئی تھی یا
نہیں۔۔" موحد کی آواز اتنی اونچی تھی کہ اسکی بیٹی سہم کر بینا کے آنچل میں
چھپ گئی۔۔
"آئی تھی۔۔" روبیل نے چہرہ ہاتھوں
میں چھپائے کہا۔
"تمہاری ہمت کیسے ہوئی انشراح کو نکالنے
تم کون ہوتی ہو اور کیا حیثیت رکھتی ہو؟" موحد کی دھاڑ پھر روبیل کی روح تک
لرز گئی۔
"موحد بیوی سے بات کرنے کا یہ کونسا
طریقہ ہے۔رہنے دو جو بھی ہوا اب وہ بدل نہیں سکتا۔اب وہ کسی صورت یہاں آنے کو تیار
نہیں وہ بہت سہم چکی ہے۔"
احد نے اسکے شانے پر ہاتھ رکھتے کہا۔۔ مما میں چلتا ہوں
اپنا خیال رکھئے گا۔۔
"احد انشراح کہاں ہے۔" بینا نے
روہانسی آواز میں پوچھا جانے وہ کب سے کہاں تھی اور کس حال میں تھی۔
"وہ عبدللہ چاچو کے گھر ہے جنگل میں۔
اسی گھر میں جو انہوں نے اپنے ہاتھ سے بنایا تھا یہ گھر چھوڑنے کے بعد۔!"
"عبدللہ کے پاس ہے؟" بینا نے
حیرانگی سے پوچھا۔۔
"مگر وہ تو پیدا بھی نہیں ہوئی تھی جب
عبدللہ تمہاری خالہ کے چلے جانے کے بعد افسردہ ہو کر یہاں سے چلا گیا تھا۔ بہت
محبت کرتا تھا وہ اس سے، مگر اسکی جدائی کے بعد وہاں ٹہر نہ سکا اسے یہاں کے ہر
کونے سے اسکی خوشبو آتی تھی۔۔"
"جانتا ہوں۔۔۔ میں نے ہی ان سے ملوایا
تھا۔ سوچتا ہوں اگر انشراح کو اس جگہ کا یا انکا نہ معلوم ہوتا تو کس جگہ جاتی
خودکشی کرتی یا کسی ایسے انسان کے ہاتھ لگ جاتی جو اسے تباہ کر دیتا۔" آخری
بات احد نے گھر کی دہلیز پر کھڑے نبیل کو دیکھتے کہی۔ ثانیہ کے دل کو کچھ ہوا وہ
کیسے اپنے شریک حیات کا جھکا سر دیکھ سکتی تھی وہ صفائی دینے کو آگے بڑھی۔
"احد اس نے کچھ بتایا بھی تو نہ تھا۔ وہ
تب بتا دیتی تو یہ سب نہ ہوتا۔ اس وقت جو بھی ہوا سب شرمناک تھا ہم سب تم سے اور
انشراح سے شرمندہ ہیں۔"
"آپ کی شرمندگی سے بات تو نہیں بنتی۔جو
تکلیف میری بیوی کو اس قدر نازک حالت میں آئی وہ کوئی چھوٹی بات تو نہ تھی۔،"
احد نے دوبدو کہا۔ آج وہ انشراح کے ساتھ
ہوئی زیادتی کی جنگ لڑنے ہی کھڑا ہوا تھا۔
"تمہاری بیوی پہلے میری بیٹی ہے۔۔اور تم
ہونے والے کرنل صاحب ہمیں ان سے ملنے سے نہیں روک سکتے۔" احد کے شانے سے ڈسٹ
جھاڑتے نبیل نے کہا۔ بہت بڑے عہدے پر چلے گئے ہو غلط تو تم دونوں نے ہمارے ساتھ
بھی کیا ہے،" نبیل نے ایک پل کو کہتے گہری سانس لی۔ "مگر ہم کیونکہ ماں
باپ ہیں تو ہماری غلطی نا قابل معافی ہے اور وہ ہماری بیٹی ہے اسی لئے خفا ہے۔!
کیا ماں باپ سے غلطی نہیں ہو سکتی کیا وہ اولاد کی طرح انسان نہیں ہوتی؟ ماں باپ
سے بھی غلطیاں ہوتی ہیں غلط فیصلے اکثر ان سے بھی ہو جایا کرتے ہیں۔ مگر جب اولاد
کو گرم ہوا چھو کر جاتی ہے تو سب سے زیادہ دکھ ماں باپ کو ہی ہوتا ان سے زیادہ دکھ
دنیا کا کوئی دوسرا رشتہ نہیں اٹھا سکتا۔ وہ چاہتی ہے ہم سب اس سے معافی مانگ لیں
تو میں خود اس سے معافی مانگنے کو تیار ہوں مگر اس سے ناطہ توڑ کر میں دنیا کی پری
سے منہ نہیں موڑ سکتا۔۔ مجھے خوشی ہے کہ تم میری بہن سے محبت کرتے ہو اور وہ
تمہارے لئے بہترین شریک حیات ثابت ہوئی ہے۔ ورنہ جس دن نکاح ہوا تھا مجھے تو تم
دونوں کی شکل دیکھ کر لگ رہا تھا کچھ غلط ہو چکا ہے۔" آخر تک نبیل کا لہجہ سنجیدہ
سے نرم ہوا اور چہرے پر ہلکی سی مسکان تھی۔۔
"تو کرنل صاحب کب ملوا رہے ہیں مجھے
میری گڑیا سے اب آپکی اجازت ہے نا؟" نبیل نے اسے اپنے ساتھ لگا کر زور سے
بھنچتے کہا۔۔
"میری کیا مجال میں آپ کو روکوں مگر وہ
نہیں مانے گی اور وہ جس حالت میں ہے اس سے زور زبردستی نہیں کر سکتا۔۔"
"اوہ۔۔ یعنی بھائی کو سزا دے گی وہ بہت
بڑی ہو گئی ہے نا۔" نبیل نے اپنی داڑھی کُھجاتے کہا۔۔۔"کوئی بات نہیں
کچھ ہی ہفتوں کی بات ہے پھر سب ٹھیک ہو جائے گا۔" نبیل نے خود کو اور سب کو
تسلی دی۔
********
احد کے ساتھ موحد کو دیکھ کر جہاں انشراح حیران ہوئی
وہیں موحد بھی اسکی بکھری الجھی حالت دیکھتے ششد رہ گیا۔۔یہ وہ نازو پلی انشراح تو
نہ تھی یہ تو کوئی اور ہی لڑکی تھی۔ یہ کہیں سے بھی ہرگز وہ پھول نہ لگتی تھی جس
کی خوشبو ہر رنگ کو معطر کر دیتی یہ تو کوئی اجڑی شاخ تھی۔ "آپ؟" انشراح
اتنا ہی کہہ سکی۔ "کیسی ہو؟" موحد نے دل میں اٹھتے درد کو دباتے نارمل
لہجے میں پوچھا۔۔ "آپ کو کیسی لگ رہی ہوں۔؟" انشراح نے مسکرا کر پوچھا۔۔
انشراح کا اشارہ اپنے پرانے کپڑوں کی طرف تھا جو بارہا پہن کر اب ختم ہو چکا تھا
اپنی رنگت کھو چکا تھا۔ اور کسی صورت پہننے لائق نہ تھا۔ الجھے بال تھے جن کی لمبی
رف چوٹیا ہوئی تھی موحد کو یاد تھا انشراح کے بال چھوٹے تھے اور ہمیشہ سے کٹنگ
ہوئے ہی تھے۔ اب کے لگتا تھا بہت دیر سے کاٹے نہیں گئے ہیں۔ مگر اس گھر میں آئینہ
نہ تھا اگر ہوتا تو انشراح اپنا عکس دیکھ کر جانتی اسکی تو صورت بھی وہ نہیں رہی
پھر تو شائد وہ احد کے سامنے جانے سے بھی کتراتی۔۔
"بہت زیادہ کیوٹ۔" احد نے اسکی
چادر ٹھیک کرتے کہا جو اس نے اپنے گرد لپٹی تھی مگر کچن میں کام کرتے ایک طرف سے
ہٹ چکی تھی۔ احد کی بات پر انشراح مسکرا دی اور موحد کی ساکت آنکھوں میں دیکھنے
لگی۔ "ارے انہیں کیا ہوا ہے؟" انشراح نے حیرانگی سے پوچھا۔
"کچھ نہیں۔" اپنے سرخ چہرے کو
چھپاتے موحد باہر نکل گیا انشراح کا حیرانگی
سے منہ کھلا رہ گیا۔ "کیا بنا رہی ہو؟" انشراح کے گرد بازو
پھیلاتے احد نے اسکا دھیان موحد کے رویئے کی طرف سے ہٹایا۔ "کچھ بھی نہیں مجھے
تو کچھ آتا ہی نہیں ہے۔ مجھے کافی پینی تھی وہی بنانے کی کوشش کر رہی ہوں۔"
"زیادہ کافی مت پیا کرو تمہارے لئے اچھی
نہیں ہے۔ اور وہ تمہارے وہ شیف آج کہاں ہیں؟" احد نے فائز اور انئیس کا
پوچھا۔
"انکو عبدللہ بابا نے کہیں بھیجا ہے۔
گھر میں کوئی تھا ہی نہیں آپ بھی تو نہیں تھے میں نے سوچا خود ہی بنا لوں مگر کچھ
سمجھ ہی نہیں آ رہا کہاں کیا رکھا ہے۔"
"تم جاو میں بناتا ہوں تمہارے اس شیف سے
تو بہتر ہی بناوں گا۔"
"مجھے یقین ہے۔" مسکراہٹ دباتے
انشراح نے کہا۔ اور کچن سے باہر نکل گئی۔۔
******
"آپ یہاں اس طرح کیوں بیٹھے ہیں؟"
انشراح نے شاخ سے لڑتے موحد کو دیکھ کر حیرانگی سے پوچھا جو گھر کی باہری سیڑھیوں
میں بیٹھا تھا جو گھر کی طرح وہ بھی لکڑی سے بنائی گئی تھی۔ جواب نا ملنے پر وہ
موحد کے پاس ہی بیٹھ گئی۔ موحد نے محسوس کیا اسے وہاں بیٹھنے میں مشکل پیش آ رہی تھی
اب فرار کے سب راستے ختم ہو چکے تھے اسے معلوم تھا اب وہ پوچھے گی اور ہر سوال کا
جواب دینا واجب ہو جائے گا۔
"آپ بھی مجھ سے خفا ہیں نا لیکن میں نے
کچھ نہیں کیا۔!" انشراح کی معصومیت پر موحد کے بھنچے لبوں پر مسکراہٹ آ گئی
جیسے چھپانے کو وہ منہ دوسری طرف موڑ گیا۔۔ " اگر آپ نے مجھ بات ہی نہیں کرنی
تھی تو یہاں مت آتے جس طرح باقی سب نے مجھے اکیلا چھوڑا آپ بھی چھوڑ رہے ہیں تو
ٹھیک ہے میرا کوئی دوست نہیں۔" اداسی سے کہتی وہ لکڑی کے فرش پر ہاتھ رکھ کر
اٹھنے کی کوشش کرنے لگی۔۔۔
موحد نے مسکراتے ہوئے اسکی طرف دیکھا۔ "مجھے بھلا
تم کیا لگ رہی ہو؟" موحد کی مسکراتی آواز پر انشراح نے خفگی سے دیکھا۔
"ہماری نیبر تھی ناں مس کولکتہ والی وہ
بھی اسی طرح گول مٹول تھی اور بلکل اسی طرح اٹھنے کی کوشش کرتی تھی۔۔"
"موحد۔۔!!" انشراح اسکی بات سن کر
روہانسی ہو گئی۔"وہ تو بہت موٹی تھی اور مجھے اچھے سے یاد ہے وہ زیادہ کھانے
سے ہی مر گئی تھی۔ میں اتنی بری نہیں لگ سکتی احد نے بولا ہے میں بہت کیوٹ لگتی
ہوں۔"
"احد بھائی کو تو عادت ہے جھوٹ بولنے کی
ہم سب سے جھوٹ بولا تمہیں بھی شامل کر لیا۔ فیٹ گرل۔۔" موحد نے خفگی سے کہا۔۔
"ہاہ کیا خاک سچ بولتی آپ مجھ سے ایک
بار بھی ملنے نہیں آئے اور جب میں گھر گئی تو آپکی وائف نے مجھے میرے ہی گھر سے
نکال دیا جانتے ہیں میں بہت روئی تھی تھی اور چلتے چلتے تھک گئی تھی دو دن لگائے
میں نے یہ گھر ڈھونڈنے میں۔" روانی میں سارا سچ موحد سے کہہ گئی۔ موحد کی نظر
شرم سے جھک گئی۔۔
"میں شرمندہ ہوں انشراح میں معافی
مانگتا ہوں اس گھر پر ہم سب سے پہلے تمہارا حق ہے۔ اگر میں وہاں ہوتا تو کبھی یہ
نہ ہوتا اسی لئے اب میں نے وہ گھر چھوڑ دیا ہے۔ کیا تم مجھے یہاں رہنے کی اجازت دو
گی۔۔" موحد کی بات پر انشراح الگ پریشان ہوگئی۔"آپ یہاں رہیں گے؟ ایسا
تھوڑی ہوتا ہے میرا تو گھر نہیں ہے آپکا تو ہے پھوپھو کیا سوچیں گی؟ انکو آپکی
بیٹی کو آپکی ضرورت ہے اور یہاں رہنا کوئی آسان تھوڑی ہے دھوپ نکلتی ہے تو شدید،
ٹھنڈ آتی ہے تو بے تحاشہ،! اور ہوا تو اس طرح چلتی ہے سب کچھ اڑا کر لے جاتی ہے
اور یہ گھر کبھی کہیں سے خراب ہو جاتا ہے کبھی کہیں سے عبدللہ بابا ہر وقت اسی کو
جوڑنے میں مصروف رہتے ہیں۔ اور کھانا وہ تو صرف وہی ہوگا جو شہر سے آئے گا ضرورت
کا کچھ بھی کبھی بھی وقت پر دستیاب نہیں ہوگا۔ اور کپڑے دھونے بھی آپکو پانچ کلو
میٹر دور پیدل جانا ہوگا وہاں اوپر۔۔" انشراح نے انگلی سے اونچی ڈھلوان کی
طرف اشارہ کیا۔ وہاں صاف پانی کی نالی ہے۔ اور پینے کو بھی وہی سے لانا ہوگا۔ یہ
سب سہنا آسان نہیں ہے آپ بیوقوف ہوںگے جو یہاں بے مقصد رہیں گے۔ آپ اپنے گھر چلے
جانا۔" انشراح نے موحد سے نظر ملائے بنا کہا۔ احد نے خاموشی سے تین مگ کافی
کے رکھے اور ایک پتھر کھینچ کر انشراح کے سامنے بیٹھ گیا۔۔ "تمہیں اپنا گھر
چاہیئے نا؟" احد کے سوال پر موحد نے بھی اسکی طرف دیکھا۔
"سب کا گھر نہیں ہوتا۔اور گھر کا میں
کیا کروں گی صرف آپ ہی ہیں میری زندگی میں آپ جہاں رہیں گے میں بھی رہ لوں گی۔
کافی ٹھنڈی ہو رہی ہے وہ پیئیں۔" انشراح نے بات بدل دی۔ "احد نے اسے
پیار سے دیکھتے اسکے سامنے مگ کیا۔
"تم نے کہا تھا یہاں زندگی آسان نہیں
اگر تم یہاں رہ سکتی ہو تو مجھے بھی کوئی مسئلہ نہیں ہے۔" موحد نے سنجیدہ
لہجے میں کہا اور اپنی جگہ سے اٹھا۔
"موحد میں اب وہ عام لڑکی نہیں ہوں جو
نازک دوشیزہ تھی جس کو سوئی لگ جائے تو دن رات اسکا افسوس مناتی تھی میں احد سکندر
کی بیوی ہوں۔اور احد کی وائف ہونا آسان بات نہیں ہے احد سے محبت کرنا بھی آسان
نہیں ہے۔ اُن کو سمجھنا بھی آسان نہیں ہے. یہ صرف انشراح ہی کر سکتی ہے۔ آپ انشراح
نہیں ہیں اور اس لئے آپ یہاں نہیں رہ سکتے۔"
موحد انشراح کی بات مسکرایا۔ اور واپس اسی کے قریب بیٹھ
گیا۔" اب میں سمجھ سکتا ہوں احد بھائی تمہیں کیوٹ کیوں کہتے ہیں۔! تم تو ان
کے آبرش بن کر اتری ہو سہی کہتے ہیں لوگ ہیرے کی پہچان صرف جوہری ہی جانتا
ہے۔" موحد نے مسکراتے اسکا گال کھنیچا۔۔احد اسکی بات سے مسکرا دیا۔
*******
ریان کے رونے کی آواز پر انشراح کی آنکھ کھلی دن یا رات
کا جانے کونسا پہر تھا وہ نہیں جانتی تھی مگر آنکھ کھلتے سامنے ہوسپٹل کہ سفید بے
داغ چھت تھی۔ انشراح نے اپنے پہلو میں لیٹے ریان کو اٹھانے کی کوشش کی مگر جب بات
نہ بنی تو سامنے دیوار کے ساتھ لگی چیئر پر گردن لٹکا کر سوئے احد کو دیکھا انشراح
کو اس پر بے حد ترس آیا جانے وہ کتنا گھن چکر بنا تھا جو ریان کی رونے کی آواز پر
بھی نہ اٹھ رہا تھا۔۔اور وہ کمزوری اور
نقاہت زدہ تھی خود سے اٹھ بھی نہ پا رہی تھی۔۔مگر اس وقت مجبوری تو یہ تھی ریان رو
رہا تھا اور اسکا رونا انشراح سے سنا نہیں جا رہا تھا۔۔"میرے بچے کو بھوکی
لگی ہے نا مما ابھی اٹھاتی ہے۔" ریان کو تھپکتے وہ پھر سے اٹھنے کی کوشش کرنے
لگی۔۔ مگر جب بھی بات نہ بن سکی تو بے بسی سے رونے لگی کتنی ضرورت تھی اسے اپنے
ماں باپ بھائی بھابی سب کی اور کوئی اسکے پاس نہ تھا زندگی کس موڑ پر وہ آ گئی تھی
ایک شخص جو اسکی زندگی تھا اس کے لئے اسے اپنوں سے دور ہونا پڑا تھا۔۔ "آہ
کاش مما آپ میرے پاس ہوتی۔۔" انشراح سسکی، جب کسی نے ریان کو اسکے پاس سے
اٹھا کر اپنے سینے سے لگا لیا۔۔۔ اور وہ جانے کیسے اس لمس سے خاموش ہونے لگا۔۔
"احد مجھے اٹھنے میں ہیلپ کروا دیں اسے
بھوک لگی ہے۔" کہتے ہوئے انشراح نے دوسری طرف دیکھا تو سامنے نبیل تھا جو
اسکے ننھے سے ریان کو ساتھ لگائے تھپک رہا تھا۔ نبیل کو دیکھ کر انشراح نے منہ دوسری
طرف کر لیا۔۔۔" سونو آپکی مما تو ماموں سے خفا ہیں وہ اب کہیں گی میرا بیٹا
یہاں دو اور چلے جاو آپ نے مجھے اپنے گھر سے چلے جانے کو کہا تھا۔" نبیل کی
بات پر انشراح نے بنا دیکھے کہا۔ "ریان اپنے ماموں جان سے کہہ دو یہ ہوسپٹل
مما کا نہیں ہے مما کا تو اس دنیا میں کچھ نہیں ہے وہ کیسے کسی کو کہیں سے جانے کو
کہہ سکتی ہیں۔ آپ یہاں رہ سکتے ہیں۔"
"ریان اپنی مما سے بولو نہ ماموں کو ایک
ہگ کر دیں ماموں کی زندگی اپنی گڑیا کے بنا زندگی سے تھکنے لگے ہیں۔" ریان کو
نرمی سے چومتے نبیل نے کہا اور انشراح کے سر پر پیار دیا۔ "اب ماں بنی ہو تو
خود کو میری جگہ پر رکھ کر سوچو چندا اُس وقت میں مجبور تھا تم سچ کہتی تو سر
آنکھوں پر تمام تکلیف کا مرحلہ گزارتی مگر جب بات عزت پر آئے تو جان سے پیاری
بیٹیاں بھی قربان کرنی پڑتی ہے۔ بیٹی بری نہیں ہوتی، مگر جب وہ باپ کی عزت پر داغ
لگائے تو بری لگنے لگ جاتی ہے مگر تم میری جان مجھے ایک دن بھی بری نہیں لگی تھی
میں ایک پل بھی چین سے نہیں گزار پایا تھا۔ ہر وقت میرا ضمیر مجھے ملامت کرتا تھا
مگر پھر وہی بات یاد آ جاتی کہ تم نے ہمارے ساتھ۔۔۔!! لیکن کیا میری بیٹی مجھے
معاف کر سکتی ہے؟ دیکھو نہ تمہاری بے رخی پر میرا ننھا سہ گڈا بھی رو رہا
ہے۔"
"وہ اس لئے نہیں رو رہا اسے بھوک لگی
ہے۔" سو سو کرتے انشراح نے اسکی بات کاٹ کر کہا۔ "اچھا۔۔" نبیل نے
اسکی بات پر سر کھجایا۔۔اس سے پہلے انشراح اسے نبیل سے مانگتی عمر حارث انشراح کے
بابا سب ہی اندر داخل ہوئے۔ باری باری انشراح کو پیار کرتے ننھے مہمان سے لاڈ کرنے
لگے۔۔"یہ بلکل میرے جیسا ہے" عمر نے کہا۔
"آپکی تو آنکھیں خراب ہیں یہ میرے جیسا
حارث نے خفگی سے اسے لیتے کہا۔
انشراح کی ہنسی نکل گئی۔۔۔"زیادہ ہنسو مت بتاو ہم
میں سے کس پر گیا ہے؟" نبیل نے پوچھا۔۔
"مجھے تو پتہ ہی نہیں میں نے ابھی دیکھا
ہی نہیں ہے۔آپ سب دیں گے تو میں دیکھوں گی اور نام بھی اسکے آنے سے پہلے ہی احد نے
رکھ دیا تھا۔" سب کی آوازوں پر احد کی نیند پر خلل ڈل گیا وہ مندی مندی
آنکھیں کھول کر دیکھنے لگا۔۔ سب سے پہلے اسکی نظر قہقہے لگاتی اپنی زندگی پر گئی۔
جو تکییوں کے سہارے بیٹھی تھی۔ اس تکلیف میں بھی وہ ہنستی چلی جا رہی تھی۔جس کی یہ
جانی پہچانی کھنکھتی ہنسی وہ دیکھنے کو ترس گیا تھا وہ بہت عرصے بعد کھل کر دل سے
ہنس رہی تھی۔۔۔ اسے دیکھ کر وہ بھی مسکراتے آنکھیں صاف کرکے اٹھاتا آیا اور حارث
سے ریان کو لیتے انشراح کے پاس گیا۔"یہ میرا ہے اور صرف میرے جیسا پے۔ ہے
ناں، جان؟ انشراح سے پوچھتے اور اسکے پاس بیٹھتے وہ اسے دیکھانے لگا۔ احد کی بات
پر سب کے منہ کھل گئے۔اور موحد کو شرارت سوجی۔ "بھائی ہوسکتا ہے یہ اپنے چاچو
پر چلا گیا ہو اور آپکو غلط فہمی لا حق ہو رہی ہو کہ آپ پر گیا ہے۔" موحد کی
بات پر احد نے اسے گھورا۔"ہاں احد موحد ٹھیک کہہ رہے ہیں یہ دیکھیں اسکی
آنکھیں تو بھوری ہیں بلکل موحد جیسی۔" انشراح کے فیصلے پر موحد نے دانت نکال
کر سب کو دیکھائے۔۔
"ہو سکتا ہے کچھ دن بعد اسکی آنکھوں کا
رنگ سرمئی ہو جائے۔۔"احد کی بات پر ایک بار پھر انشراح کی ہنسی نکل
گئی۔"اب تو جو ہونا تھا ہوگیا مجھے یہ رنگ پسند ہے یہ میرے بیٹے کا جو
ہے۔" اسکی آنکھوں پر نرمی سے لب رکھتے انشراح نے کہا
********
ریان کی ننھی کلکاریاں سنتے وہ ہنس کی توتلی زبان میں
بات کر رہی تھی جب احد کمرے میں داخل ہوا۔ اسے دیکھتے انشراح کھل اٹھی۔
"دو دن بعد شکل دیکھا رہی ہیں کہاں تھے
آپ بنا بتائے جب مرضی غائب ہو جاتے ہیں۔" ڈیوٹی پر تھا جاناں دھیان نہیں رہا۔
طبعیت ٹھیک ہے تمہاری؟"
"میں ٹھیک ہوں مجھے آپکو کچھ بتانا تھا۔
میری دوست تھی ناں حنا اسکی شادی ہو گئی ہے اور مجھے اب معلوم ہوا۔"
"ویل یہ تو بہت اچھا ہوا اب ان دونوں کی
بلا وجہ والی لڑائی ختم ہو چکی ہو گی۔" احد کی بات پر وہ متفق ہوئی "ہاں
مجھے بھی اسکی آواز سے یہی لگ رہا تھا وہ بہت خوش ہے میری طرح۔" احد کو
دیکھتے وہ پیار سے بولی آگلے ہی پل وہ رخ موڑ گئی جب بوٹ اتارنے کے بعد وہ خون
آلودہ پاوں سے چلتے واش روم تک گیا۔ "سسی" انشراح کے دل کو کچوکا لگا۔۔
ریان کو چھوڑتی جلدی سے فرسٹ ایڈ بوکس لے آئی۔
"اسکی ضرورت نہیں تھی۔" احد نے
ٹاول سے منہ خشک کرتے کہا اور ٹاول اسے دیا۔۔"کیوں ضرورت نہیں تھی۔؟"
انشراح نے خفا لہجے میں کہا اور اسے بیٹھا
کر اسکے پیروں میں مرہم لگانے لگی۔۔"جلتا ہے یہ چھوڑ دو۔"
"آپکے زخم ٹھیک بھی اسی سے ہوتے
ہیں۔" انشراح نے رعب جماتے کہا اور ہاتھ دھونے گئی۔۔جب واپس آئی احد نے دیکھا
اسکی آنکھیں اور ناک ہلکی سی سرخ تھی وہ اسکے سامنے مظبوط بن جاتی تھی مگر اکیلے
میں ہی روتی تھی۔۔"کچھ کھائیں گے؟" انشراح نے مسکراتے پوچھا۔ "اوں
ہوں، صرف نیند لوں گا۔"
احد کی بات سن کر وہ اسکے سر کے قریب بیٹھ گئی اسکی
بالوں میں انگلیا چلاتے وہ حیران ہوئی جب ریان کی ہلکی سی آواز پر وہ آنکھیں کھول
کر اسے اٹھانے لگا۔۔اور اپنے سینے پر گرائے اپنے ساتھ سلانے لگا۔۔۔"آپ سو
جائیں یہ بار بار ڈسٹرب کرے گا میں باہر لے جاتی ہوں۔"انشراح کی بات پر احد
نے اسکی کلائی تھام کر اسکا ہاتھ ہونٹوں سے لگایا۔اور ریان کے بنا بالوں والے سر
پر بوسہ لیا۔"تم دونوں میری جان ہو اور میں تم دونوں کی کسی بات سے ڈسٹرب
نہیں ہوتا۔"
"انشراح گھر چلیں؟" احد کے یک دم
کہنے پر انشراح کی مسکراہٹ کو بریک لگا۔ "گھر ؟؟ یہ بھی تو گھر ہے۔!!"
"نہیں یہ نبیل عمر اور حارث کا گھر ہے
ممانی جان کا گھر ہے تمہارا میرا ریان کا گھر وہ ہے جہاں مما ہیں موحد ہے۔ پلیز
یار انکار مت کرنا۔ ہم کب تک یہاں رہیں گے تمہاری طبعیت خراب رہتی تھی اس لئے میں
نبیل بھائی کے اسرار پر تمہیں یہاں لے آیا۔ مگر اب بہت رہ لیا یہاں ہم اپنے گھر
چلتے ہیں ناں،"
"احد وہاں تو موحد کی وائف ہے ہم کیسے
جا سکتے ہیں۔"
"ایسی کی تیسی موحد کی وائف کی اسے اسکے
کئے کی سزا مل چکی ہے۔ پچھلے چھ ماہ سے موحد نے اسکی طرف دیکھا تک نہیں وہ تو اب
انتظار کرتی ہے کب تم انکا پیچ اپ کرواو صرف تم ہی ہو جو میرے بھائی کی بکھری
زندگی سمیت سکتی ہو۔"
"میں کیسے؟" انشراح نے حیرانگی سے
پوچھا۔۔
"تم سے بہت پیار کرتا ہے موحد دوست
مانتا ہے تمہیں اور پھر بچپن سے تم اسکی دوست ہو، اپنی ہر بات وہ تم سے کرتا تھا۔
میرا حوالے سے اسکی محبت اور زیادہ ہو گئی وہ کیسے سہہ لیتا کہ تمہیں اس گھر سے
جانے کو کہہ دیا جائے جہاں کھیلتے تمہارا بچپن، جوانی تک پروان چڑھا۔ جو بھی ہوا
غلط تھا غلط فہمی میں ہوا اسے لگا تم نے مجھے دوکھا دیا ہے یا اس گھر کی عزت کو
کچلا ہے اس لئے یہ سب ہوا ورنہ اسکی تم سے کوئی ذاتی دشمنی تو نہ تھی۔ اب کیا تم
جاو گی؟ میرے بھائی کے لئے اسکی میرڈ لائف کے لئے۔"
"میں جاوں گی۔" انشراح نے نظر جھکا
کر کہا۔۔
"تھنک یو مائے لو۔۔ مجھے فخر ہے کہ تم
میری ہو۔ " احد نے اسکا ہاتھ دباتے کہا۔۔۔ انشراح اسکے کہنے پر شرما گئی۔۔
********
دستک دیتے بینا روبیل کے کمرے میں داخل ہوئی جو الماری
میں گھسی تھی انکے آنے پر انہیں سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگی۔ "جاو روبیل
انشراح سے معافی مانگ لو یہ میں اس لئے نہیں کہہ رہی کہ وہ میری بھتجی ہے یا اس
گھر کی بڑی بہو ہے۔" بینا نے فورا بولنا شروع کیا۔ "میرے لئے تم دونوں
کا مقام ایک سہ ہے۔ جس طرح میں نے احد کو پیدا کیا اسی تکلیف کو سہتے میں نے موحد
کو بھی پیدا کیا پھر تم دونوں میں کیسا فرق اور تفریق؟ میں یہ اس لئے کہہ رہی ہوں
صرف ایک یہی راستہ ہے موحد تک جانے کا انشراح نے کبھی موحد کو اس نظر سے نہیں
دیکھا جس طرح وہ احد کو دیکھتی ہے۔ نا ہی اس نے کبھی ایسا سوچا ہوگا۔ موحد کے دل
میں اگر کوئی بات تھی بھی تو وہ اب تک ختم ہو جانی چاہیئے تھی کیونکہ اسکی زندگی
میں تم جیسی حسین بیوی تھی، بیڑیاں ڈالنے کو بیٹی تھی اس نے تم تک جانے والا رستہ
ہی انشراح کو بھولنے کے لئے چنا تھا اگر تم ساتھ دیتی تو اب تک اسکے گھر کی طرح دل
میں بھی تم ہوتی۔ لیکن تم اس کی زندگی میں تھی مگر دل تک رسائی نہ حاصل کر سکی اس
میں بھی قصور تمہارا ہے تم اسے زبردستی خود سے جوڑ کر انشراح سے توڑ رہی تھی مرد
کو جہاں اکٹر دیکھائی جائے وہ وہاں عورت سے زیادہ انا دیکھاتا ہے تم اسے محبت سے
اپنی طرف مائل کرتی اور اسکی محبت سے دل وسیع کر کے محبت کرتی تو انشراح نام کی
خوشبو کب سے موحد کے دل سے نکل جاتی تم قصور وار ہو سزا بھی تمہیں ملے گی۔ اب
تمہیں اسکا دل جیتنا ہے۔ ایک بار انشراح سے محبت کرکے دیکھو وہ دنیا تمہارے قدموں
میں ڈھیر کردے گا اور ایسا کرتے کب وہ تمہارا اسیر بنے گا وہ خود بھی نہ جان ہائے
گا پھر دنیا کی کوئی طاقت اسے تم سے نہیں توڑ پائے گی ماسوائے موت کے۔!" بینا
کی باتیں روبیل کے دل کو لگی۔
"میں ضرور معافی مانگو گی مما وہ تو
ویسے بھی بے قصور ہے وہ تو جانتی بھی نہیں ہوگی موحد اسکے لئے کیا فیل کرتے ہیں۔
میں انشراح سے محبت بھی کروں گی کیونکہ ایک یہی طریقہ ہے اپنے دل سے عناد نکالنے
کا، مجھے موحد سے زیادہ عزیز کچھ بھی نہیں ہے وہ جس سے محبت کریں گے اس سے محبت
کرنا میرا فرض ہوگا۔"
"بہت سمجھدار ہو تم مجھے یقین ہے جلد ہی
سب ٹھیک ہو جائے گا۔" بینا نے اسے دعا دی۔
"مجھے بھی کیونکہ میں صبح جب انشراح سے
ملی تو تب جانا حسن اور سادگی میں وہ خود سے انجان ہے۔ وہ بہت معصوم اور سادہ ہے
میں سمجھتی تھی انشراح کوئی بہت چالاک اور
انا پرست ماڈرن لڑکی ہوگی مگر میرے سب دعوے مفروضے اس لڑکی نے بےکار کر دیئے صرف
ایک مسکراہٹ سے حلانکہ جس نے آپکو دھتکار کے نکالہ ہو اسکی طرف دیکھنا محال ہوتا
ہے مگر میں شرم سے گڑ گئی جب وہ وہ صبح آتے ہی میرے گلے لگ گئی۔ ان چھ مہینوں میں
پہلی بار موحد نے میری طرف دیکھا تو کیونکہ میرا وجود انشراح کی گرفت میں
تھا۔ میں جانتی ہوں وہ مجھے معاف کر چکی
ہے اب صرف مجھے اس محبت کا انتظار ہے جو مجھے انشراح سے ہوگی اور اسکے دل سے نکلتی
وہ محبت اللہ موحد کے دل میں میرے لئے ڈال دے گا۔"
"آمین۔" بینا نے صادق دل سے دعا
دی۔
*********
After 3 years.......
تین سال بعد۔۔۔۔
ڈزائنر بوتیک میں کھڑی وہ چھوٹی سی بچی کا فراک دیکھ
رہی تھی۔۔"موحد یہ دیکھیں یہ بلکل ہماری بیٹی کے لئے بنا ہے بہت ہی پیارا ہے
میری تو نظر ہی نہیں ہٹ رہی کتنی پیاری لگی گی نا عنایہ اپنے ماموں کی شادی میں
پہن کر۔" روبیل نے پیار سے سرخ سنڈریلا فراک کو دیکھتے کہا۔۔ "یہ تو
ٹھیک ہے مگر تم کیا پہن رہی ہو؟" موحد نے ایک انگلی اسکی تھوڑی پر رکھ کر
پوچھا۔۔ "ایز یو لائک۔" روبیل نے شرارت سے کہا۔۔ یعنی تم نے سوچ لیا ہے
تم باقی ہر انسان کی شاپنگ کرو گی ماسوائے اپنے۔" موحد کے پرسوچ لہجے پر وہ
ہنستی اسے چھوڑ کر آگے بڑھی اور ڈریس پیک کروانے لگی۔۔
**********
"انشراح یہ دیکھو،" روبیل نے
انشراح کو مخاطب کرتے کہا جو ریان کو ڈانٹ رہی تھی۔
"جب تم سے بہن اٹھائی نہیں جاتی تو
اٹھاتے کیوں ہو بلاوں بابا کو صرف انکی ہی بات مانتے ہو مما کی کوئی ویلیو
نہیں۔؟" اپنے بیٹے کو ڈانٹ کر وہ روتی مچلتی اپنی بیٹی اس سے لینے لگی۔۔جو
ابھی گرتے گرتے بچی تھی۔
"ارے چہچی کا بے بی چہچی کی ہی بات مانے
گا۔۔" ریان کو اپنی گود میں لیتے اس نے انشراح کے غصے سے بھرے چہرے کی طرف
دیکھا اور آنکھوں سے ریلکس رہنے کو کہا۔ ریان کو اپنے سینے سے لگائے وہ شاپنگ بیگ
انشراح کو دینے لگی۔۔" یہ سب تو صرف ریان اور عنایہ اور ہدیہ کی چیزیں ہیں تم
اپنے لئے کیا لائی ہو اور میرے لئے کچھ بھی نہیں؟" انشراح نے حیرانگی سے
پوچھا۔ "آپکی ساری شاپنگ میں پہلے ہی کر چکی ہوں اور صرف میں ہی نہیں احد
نبیل موحد حارث بہت لوگوں نے کی ہے اس لئے یہ حیرانگی بند کریں۔" روبیل کے بے
ساختہ کہنے پر وہ ہنستی چلی گئی۔"اور تمہارے لئے وہ کب لو گی کیا وہ آسمان سے
اترے گا۔؟"
"نہیں میرے چاند سے۔۔" روبیل کے
کہنے پر وہ فراک سے نظر ہٹا کر اسکی طرف دیکھنے لگی۔ "موحد اندر آ رہا تھا
اسکے آتے ہی روبیل کا دھیان اپنی بیٹی ہدیہ کی طرف گیا جو اسے آتا دیکھ بھاگ کر
پانی لینے چلی گئی تھی۔" مما کا بچہ۔" دور سے ہی روبیل نے اسے فلائی کس
دی۔ "یہ لو تمہاری شاپنگ۔"
"میری ؟" روبیل نے حیران ہونے کی
کوشش کی، حالانکہ وہ اسکے سامنے ہی سب خرید رہا تھا۔" بچوں سے فرست ملے تو
معلوم ہو نا، اب پہن لینا۔ یہ بھی اپنی سہیلی کو نہ پکڑا دینا۔" انشراح کی
ناک کھینچ کر کہتے وہ روبیل کو شاپنگ بیگ دینے لگا۔۔ "میں دوسروں کا تحفہ
لیتی بھی نہیں،" انشراح نے منہ بنا کر کہا۔۔
"اور جو پچھلی بار میری بیوی کی ریڈ
ساڑھی اسکے پہننے سے پہلے پہن لی تھی وہ کیا تھا وہ بھی تحفہ ہی تھا۔بلکہ سپیشل
تحفہ،" موحد نے آنکھیں نکال۔کر کہا۔ "وہ میری بہن نے مجھے دی تھی آپکا
اس بات سے کیا تعلق اور ایک گھنٹے کے لئے پہنی تھی ڈنر کے بعد فورا احد کی ڈانٹ
کھاتے اتار دی تھی۔۔ پھر بھی آپ احسان جتاتے نہیں تھکتے۔۔" انشراح نے خفا
لہجے میں کہا۔
"تم میری بہن کو تنگ مت کرو۔بہت پٹو
گے۔۔" انشراح کو ساتھ لگاتے روبیل نے موحد سے کہا۔
"اچھا جی۔" موحد کہتے اٹھا۔
"ویسے انشراح ایک بات ہے تم سے زیادہ وہ
ساڑھی میری روبی کو اچھی لگتی ہے اسکی ایک وجہ ہے ایک تو اسکی ٹمی کم ہے۔دوسرا
اسکی ہائیٹ بھی تم سے زیادہ ہے۔ پھر میک اوور میں وہ تو مہارت رکھتی ہی ہے تمہاری
طرح نہیں لائنر پکڑ کر کوئی لگا دے کوئی لگا دے کہتی رہے۔" موحد نے جس طرح
کہا انشراح کی ناک غصے سے سرخ ہو گئی۔۔" وہ تو شرارت کرکے چلا گیا مگر انشراح
نے دل پر لے لی۔
"آئندہ میں لائنر تو کیا سرا میک اپ خود
کروں گی۔" اسکے کہنے پر روبیل نے بمشکل ہنسی روکی۔ اسے معلوم تھا اسے میک اپ
کرنا نہیں آتا خود کرے گی تو کچھ اور ہی بن جائے گی۔" وہ مزاق کرکے گیا ہے
چھیڑ رہا تھا تاکہ تم میک اپ نہ کرو۔"
"کیوں میں کیوں نہ کروں۔" انشراح
نے خفگی سے پوچھا۔
"میری جان جیٹھ جی تو ویسے ہی تم پر دل
و جان سے فدا ہیں اور تمہارا حسن وہ تو سادگی میں بھی ایسی قیامت رکھتا ہے کسی کو
بھی ڈھیر کر سکتا ہے۔ تمہیں کیا ضرورت ہے ہماری طرح میک اپ میں الجھنے
کی۔"
"مگر وہ مجھے موٹی بول کر گیا ہے۔"
انشراح نے دکھ سے کہا۔
"موٹی تو نہیں بولا بس ٹمی کا کچھ کہہ
کر گیا ہے۔اور ابھی عنایہ کو پیدا ہوئے دن ہی کتنے ہوئے ہیں مشکل سے پنتالیس دن ہی
گزرے ہیں۔۔تم اپنی صحت کا خیال کرو۔جیٹھ جی کو دیکھا نہیں دن رات صرف تمہارے کھانے
کی فکر میں ہلکان رہتے ہیں۔۔
"احد کی تو عادت ہے ایسے ہی ہیں۔"
انشراح کا چہرہ اسکے نام سے سرخ ہونے لگا روبیل نے اُسے رشک اور محبت سے
دیکھا۔۔"یہی عادت ناں تم پر کھلے عام پیار جتانے والی سب کے سامنے لحاظ نہیں
کرتے تو اکیلے میں تو۔۔۔"
"پلیز چپ ہو جاو۔اُنکی باتیں مت
کرو۔" انشراح نے شرم سے گلنار ہوتے اسکے منہ پر ہاتھ رکھا اور روبیل اسکی
معصومیت پر مسکرا دی۔۔
روبیل کو لگا اُسکا فیصلہ بلکل درست تھا انشراح سے محبت
کرنے سے اسکی زندگی اسکے گھر میں جو سکون آیا ہے وہ کبھی اسے نہ ملا تھا۔ موحد کے
دل میں جگہ بنانے والا راستہ انشراح کے دل سے جاتا تھا تو وہ کیونکر اس لڑکی سے
محبت کرتی جس سے محبت کرنا اسکی نصیب میں لکھ دیا گیا تھا۔۔۔ہر وقت چیخ چلا کر
انشراح سے علانِ نفرت کرنے سے وہ موحد کے دل سے اتر رہی تھی۔ موحد کے دل میں بسنے کے کئے انشراح کو دل میں
بسانے والا سودا اسکے لئے سود مند ثابت ہوا تھا۔وہ اپنے رب کا جس قدر شکر ادا کرتی
کم تھا۔
*********
حارث کی شادی پر سب ہی بہت خوش تھے انشراح کا منہ پھولا
تھا۔"احد آپ نے مجھے ساڑھی نہیں پہننے دی دیکھیں کتنی لڑکیوں نے پہنی
ہے۔!"
"میں نہیں دیکھتا مجھے تمہیں دیکھنے سے
فرست نہیں۔"احد نے اُسے دیکھے بنا کہا اسکا دھیان اپنی عنایہ کی طرف تھا۔
انشراح نے منہ پھلا کر سٹیج کی طرف دیکھا جہاں روبیل نے بھی ساڑھی پہنی تھی اور اس
وقت کپل ڈانس کرتے بہت سے کپل میں روبیل اور موحد کا بھی کپل تھا۔ اسے گھمتے دیکھ
انشراح کو خیال آیا۔۔"احد آپکو زرا بھی ڈانس نہیں آتا۔ وہ دیکھیں روبی اور
موحد کتنے پیارے لگ رہے ہیں۔ سارا اور حارث سے بھی زیادہ۔" لخطہ بھر کو نظر
اٹھا کر احد نے سٹیج کی طرف دیکھا اور اسی وقت جھکا لی۔۔اپنی بیٹی سے باتیں کرتے
وہ اسکی بند مٹھی میں اپنی انگلی دیکھتے خوش ہو رہا تھا۔
"سنو جاناں،" اچانک احد نے اسے
پرانی ٹون میں مخاطب کیا۔" آدمی کی عزت کا پتہ اسکی بیوی بہن اور بیٹی کے
لباس سے چلتا جس قدر چھوٹا عریاں لباس ہوگا اس قدر آدمی کی عزت ہوگی۔اور مجھے اپنی
عزت پر کوئی کمپرومائز نہیں ہے۔ اور جو میرا ہے وہ میرا ہے وہ میں کسی کو دیکھنے
کے لئے بھی نہیں دیتا۔" احد کی بات پر وہ خفا ہوئی۔
"نکاح نہ پڑھوا لوں آج پھر آپ سے جو
آپکا ہے سب کو معلوم ہو جائے آپکا ہے۔"
"ناٹ بیڈ آئیڈیا روشنی جی آپکا رومیو تو
ہر دن آپ سے نکاح کو تیار ہے۔"احد کے اظہار پر انشراح کی بے ساختہ ہنسی نکل
گئی۔زندگی سے بھرپور اسے ہنستے دیکھ وہ بھی مسکرایا۔۔۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
***********تمت بالخیر ***********
Comments
Post a Comment