Faqat aik bar keh do by Faryal Batool Part 1

Faqat aik bar keh do novel by Faryal Batool Part 1

"فقط ایک بار کہہ دو"
از
   "فریال بتول"
پارٹ1
رات کے اس پہر وہ تہجد کی نماز ادا کرکے دعا مانگ رہی تھی چہرہ آنسوؤں سے بھیگا تھا اور زبان پر بس ایک دعا ''یا اللہ جب تک تو نہیں چاہ سکتا میں نہیں چاہ سکتی جب تک تو نہیں چاہتا میں اس شخص کو نہیں پا سکتی یا اللہ تونے میرے دل میں اس انسان کے لیےمحبت اور تڑپ پیدا کی یا اللہ وہ مجھے ضائع نا کردے یا اللہ اسے میری قدر کرنا سکھانا''وہ بس روئے جا رہی تھی اور دعا مانگ رہی تھی''یا اللہ میں اسے کھونا نہیں چاہتی یا اللہ دعا قسمت بدلتی ھے تو میری  قسمت میں بھی اسے لکھ دے اور مجھے اس کی قسمت میں لکھ دے''اتنے میں باہر سے آواز آئی''ردا بیٹے سو جاؤ صبح تمھیں کالج جانا ہے''اس کی سسکیاں اصغر صاحب نے سن لی تھیں لیکن دعائیں نہیں سن سکے تھے اصغر صاحب ردا کے والد تھے اور ردا ان کی سب سے بڑی بیٹی تھی اس سے چھوٹے ان کے دو بیٹے تھے علی اور زین علی قرآن پاک حفظ کر رہا تھا اور زین ابھی سکول میں پڑھتا تھا ردا جب سونے کے لیے بستر پر لیٹی تو مبائل بجا اسے اپنے میسج کا جواب ملا تھا جو اس نے سعد کو 4 دن پہلے کیا تھا سعد ایک فوجی تھا جس سے اس کی بات صرف شروع ہوئی تھی اور وہ اس سے محبت کرنے لگی تھی اسے بتانا چاہتی تھی لیکن شاید سعد کا کسی لڑکی نے دل توڑا تھا اس لیے وہ ڈرتی تھی کہ کہیں وہ یہ نا سمجھے کے وہ اس کے ساتھ ٹائم پاس یا فلرٹ کررہی ہے کیونکہ یہ سب اج کل عام سی بات تھی وہ سعد سے بہت سمبھل کر بات کرتی تھی کہ کہیں اسے اس کی کوئی بات بری نہ لگ جائے اور وہ ہمیشہ میسج کا جواب دینے 4 یا 5 دن بعد آتا تھا اور میسج کا جواب دینے کے بعد وہ غائب ہو جاتا تھا وہ بس اسکی باتوں پر ہنستا تھا اور ردا اس خوشی پر سارا دن عید مناتی تھی جو اسے سعد کے جواب دینے سے ملتی تھی وہ ہمیشہ اس سے ایسی باتیں کرنے کی کوشش کرتی تھی جس سے اسے احساس ہو کہ وہ اس سے محبت کرتی ہے لیکن شاید وہ اتنا مصروف رہتا تھا کہ اس کے پاس اتنا وقت نہیں تھا کے وہ ان سب چیزوں پر توجہ دیتا لیکن آج خلاف توقع وہ میسج کا جواب دینے کے بعد رک گیا تھا ردا ہمیشہ اس سے سلام سے بات شروع کرتی تھی آج بھی یہی ہوا تھا ردا نے سلام کیا تو سعد نے سلام کا جواب دیا آج ردا سوچ رہی تھی کہ وہ سعد سے اسکے بارے میں کچھ پوچھے اور اسکی شخصیت کہ بارے میں کچھ اندازہ لگائے کیونکہ پہلے جب بھی بات ہوئی تھی سعد کی کسی پوسٹ کے حوالے سے ہوئی تھی ردا نے بات شروع کی''کیسے ہیں آپ؟''ردا کا خیال تھا وہ اسے ''ٹھیک''کہہ کر ٹرخا دے گا لیکن سعد نے کہا ''میں ٹھیک ہوں آپ کیسی ہیں؟''ردا کی تو خوشی کی کوئی انتہا نہ تھی پہلی محبت اور وہ بھی ایسی کہ آخری اور بے پناہ چاہت اسنے بیڈ سے چھلانگ لگائی اور اپنی ہنسی روکی کیونکہ اصغر صاحب باہر قرآن پاک پڑھ رہے تھے اور ردا  نے کپکپاتے ہاتھوں کے ساتھ جواب لکھنا شروع کیا''میں بلکل ٹھیک ہوں،آپ جو حفاضط کرتے ہو'' سعد ردا کی بات پر خوب ہنسا ردا نہیں چاہتی تھی کہ سعد چلا جائے اس لئیے اس نے کچھ بھی سوچے سمجھے بغیر پوچھ لیا''آپ کی ذات کیا ہے؟''ردا کو اپنی عقل پر افسوس اور اپنے سوال پر شدید غصہ آیا لیکن سعد کے جواب نے اسکا سارا غصہ اور افسوس ہوا میں اڑا دیا سعد نے سمائل کے ساتھ جواب دیا تھا ''پاکستانی''ردا کو خوب ہنسی آئی اور سعد کہہ رہا تھا
''nothing more or nothing less''
اور ردا اپنے جزبات پر قابو رکھتے ہوئے بس اتنا کہہ سکی''جی بالکل'' اور اس کے بعد سعد چلا گیا اور فجرکی اذان ہوئی تو ردا پھر سے جائےنماز پر کھڑی ہو گئ دعا مانگتے ہوئے اسے اپنے اللہ پر بہت پیار آیا وہ بس رونے لگی اور کہنے لگی''یا اللہ پاک آپ مجھ سی اتنا پیار کرتے ہیں کہ اپنے میری دعا اسی وقت قبول کر لی اور اسے میرے پاس بھیج دیا یا اللہ تیرے رحم و کرم کی کوئی انتہا نہیں'' اور بس اسنے اللہ کا شکر ادا کیا اور کالج کی تیاری کرنے لگی ردا اسلام آباد میں رہتی تھی اس کی عمر 17 سال تھی اور سعد کے بقول وہ 24 سال کا تھا آج ردا بہت خوش تھی اسے ایک بہت خوبصورت تحفہ اسکے اللہ نے دیا تھا ردا کیلئے سعد کسی قیمتی چیز سے کم نہیں تھا وہ اسکی عاشق تھی اور اسے اسکے سامنے کچھ اور نظر نہیں آتا تھا وہ اسکی پہلی تمنا اور آخری خواہش تھا لیکن وہ اس بات سے بے خبر تھا وہ بہت کچھ سوچتی تھی کہ وہ سعد سے کیا کہے گی،کیا نہیں لیکن جب بولنے کا وقت آتا تھا اسکی کچھ سمجھ میں نہیں آتا تھا کے وہ سعد سے کیا کہے شاید یہ کہنا ٹھیک تھا کہ وہ سعد سے اندھی محبت کرتی ہے جب ردا کالج کے اندر داخل ہوئی تو عائشہ اسے سامنے ہی مل گئ عائشہ ردا کی
        تھی اور وہ دونوں سکول سے لے کر آج تک ایک best friend
دوسرے کے ساتھ تھیں اور ان دونوں کے کالج میں بہت سے نام پڑ TWO IDIOTS چکے تھے جیسے کہ  
اور باقی سب راز ہی رہیں تو اچھا ہے عائشہ عام سی شکل و صورت کی مالک تھی سیدھے سیاہ بال پونی ٹیل میں بندھے ہوتے تھے اور بادامی رنگت کی اس لڑکی کی اپنی ہی کشش تھی بلاشبہ ردا اور عائشہ دونوں کے اندر ایک دوسرے کی جان بستی تھی ردا عائشہ کے مقابلے میں زیادہ خوبصورت تھی گھنگھرالے بھورے ہاف باندھے جو بہت خوبصورت لگتے تھے اس کی سیاہ موٹی مغلعی آنکھیں جن میں چاند کی سی چمک تھی اور چہرہ تو ملائی کا بنا لگتا تھا ملائم اور چمکدار کالج کی لڑکیاں تو لڑکیاں ٹیچرز بھی اس کی دیوانی ہو چکی تھیں ردا نے عائشہ کے سلام کا جواب دیا اور اسے اپنی خوشی کی وجہ بتائی ردا عائشہ سے اپنی ہر بات کرتی تھی اور عائشہ ردا سے عائشہ کو کوئی خیال آیا اور اس نے ردا سے پوچھا ''ویسے ہمارے سعد بھائی رہتے کہاں ہیں؟''ردا اس کے سوال پر بلش ہوئی تھی اس کے گال گلابی پڑے تھے اور ہونٹوں پر بے اختیار مسکراہٹ آئی تھی اس کی مسکراہٹ بہت قاتلانہ تھی ردا نے اس کے کندھے پر ایک ہلکی سی چپت لگائی اور کہا ''لاہور سے'' عائشہ نے چھیڑنے والے انداز میں کہا''او ہووووووووو لاہور''پھر کچھ یاد آیا اور عائشہ نے زور سے ردا کو کھینچا ''تو مادام آپ اسی لئیے کسی نہ کسی بات سی لاہور کا ذکر نکال لیتی ہیں''عائشہ نے اسے گھورا ردا نے جلدی سے کہا''ہاں تو تم بھی تو ہر وقت فیصل آباد ،فیصل آباد کرتی رہتی ہو''وائشہ نے بامشکل اپنی مسکراہٹ دباتے ہوئے اس سے کہا''چلو کلاس کا ٹائم ہو گیا ہے ورنہ مس تابندہ پھر سے عینک والا جن بن جائیں گی''اور جب وہ دونوں کلاس میں پہنچی تو مس تابندہ کلاس میں نہیں تھیں وہ آج لیٹ ہو گئی تھیں اور حسب معمول آمنہ کسی نئ طالبہ پر اپنا رعب جمانے میں مصروف تھی آمنہ کالج کی آوارہ لڑکیوں میں سرفہرست تھی اور بہت بدتمیز تھی لیکن ردا اور عائشہ کا کبھی اس سے پالا نہیں پڑا تھا وہ دونوں وہ دونوں اس بات سے بےخبر تھیں کہ آج ان کی باری ہے اور آج آمنہ کی ساری اکڑ نکل جائے گی آمنہ نے جیسے ہی ردا اور عائشہ کو دیکھا تو ان دونوں کی طرف آگئی اور دونوں کا راستہ روک لیا اور ردا کے بالوں کی ایک لٹ جو ماتھے پر گرتی تھی اسے اپنی انگلی پر لپیٹنے لگی اور ردا کا بازو کو زور سے کھینچا اور اسکے کان میں سرگوشی کی''اے لڑکی کالج میں تیرے حسن کے یہ چرچے سن سن کے میرے کان پک گئے ہیں سوچ رہی ہوں کہ آج سے یہ چرچے ہوں کے کالج کی سب سے حسین لڑکی سب سے ذیادہ بدصورت لڑکی میں تبدیل ہو گئی''ردا ڈرتی تو کسی کے باپ سے بھی نہیں تھی لیکن ردا کو اس کی بات سے تھوڑا سا خوف آیا تھا آمنہ نے ایک چھوٹا سا کٹر اس کے چہرے کے سامنے لہرایا اس نے ردا کا گال اس چھوٹے سے کٹر سے سہلانا شروع کر دیا ردا نے اسے انگلی اٹھا کر تنبیہہ کی''میں تمہیں صرف ایک دفعہ کہہ رہی ہوں اسے دور کرو مجھسے ورنہ اسکے بعد جو ہو گا اسکی ذمہ دار تم خود ہو گی ''آمنہ نے یسے کھا جانے والی نظروں سے گھورا آمنہ نے ردا کے منہ پر وہ کٹر مارنے کے لئیے ہاتھ بڑھایا اس سے پہلے کے وہ کچھ کرتی ردا نے ایک زور دار تھپڑ یس کے گال پر رسید کر دیا اور آمنہ کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا جس کالج میں آمنہ کے سامنے کسی کی زبان نہیں کھلتی تھی کیونکہ اس کہ والد کالج کے ٹرسٹی تھے 2 ہفتے پہلے آئی ردا نے اسے ایک زور دار تھپڑ لگا دیا تھا آمنہ کو نہیں پتا تھا کہ مس تابندہ اس کی حرکت دیکھ چکی ہیں اس سے پہلے کہ وہ ردا کو کوئی دھمکی دیتی مس تابندہ آمنہ کی کوئی بات سنے بغیر اسے پرنسپل کے آفس کی طرف لے گئیں ردا غصے کی تھوڑی تیز تھی لیکن آج تو حد ہی ہوگئی تھی کالج کے پہلے دن سے آمنہ اسے گھورتی تھی اور یہ بات وہ جانتی تھی لیکن اسے امید نہیں تھی کہ 2 ہفتے بعد یہ سب کچھ ہو گا ردا شدید غصے میں اپنی سیٹ پر بیٹھ گئی آرزو اس کے پاس آئی اور اس کا شکریہ ادا کیا اور چلی گئی آرزو وہی لڑکی تھی جسے آمنہ تھوڑی دیر مہلے پریشان کر رہی تھی مس تابندہ کلاس میں واپس آچکی تھیں اور کالج میں سارا وقت اس کا خراب گزرا تھا کیونکہ اس کا موڈ آف ہو چکا تھا اس کا سارا وقت کلاسز لیتے ہوئے خراب گزرا تھا جب بریک ہوئی تو عائشہ ردا کو کنٹین لے گئی عائشہ ردا کا موڈ ٹھیک کرنے کے لئیے کافی دیر سے سوچ رہی تھی کے وہ کیا کرے اور ایک دم سے عائشہ کو کچھ یاد آیا ''تم کہہ رہی تھی کے آج تمھاری بات ہوئی ہے سعد بھائی سے مجھے ساری تفصیل سنائو'' اس نے ردا سے کہا ردا کی آنکھوں کی چمک واپس آگئی تھی بس اتنی سی بات کی دیر تھی ''عائشہ جب مین دعا مانگ رہی تھی نہ میرے دل میں بار بار آ رہا تھا کہ میں اللہ تعالی سے دعا کروں کے میری بات آج سعد سے کروا دیں کسی بھی طرح لیکن مجھے حیا آ رہی تھی لیکن شاید اللہ نے میری زبان پر آنے ہی نہیں دیا اور قبول کر لیا اور میری بات سعد سے کروادی تم یقین کرو کہ میں سعد کے بارے میں سوچ ہی رہی تھی کہ سعد کا میسج آ گیا''اس نے عائشہ کو بتایا عائشہ کو ردا پر اکثر رشک آتا تھا آج بھی آیا تھا ''ہائے جب ہم کسی کو یاد کر رہے ہوں اور اس کی کال یا میسج آجائے تو کتنی خوشی ہوتی ہے''عائشہ نے بس اتنا کہا اور وہ افسردہ ہو گئی ردا سمجھ گئی تھی کہ وہ کیوں چپ ہوئی تھی اسے براق یاد آیا تھا براق عائشہ کا فرسٹ کزن تھا وہ اسے پسند کرتی تھی براق کی ایک چھوٹی بہن تھی شفق براق کے والدین کا ایک کار ایکسڈنٹ میں انتقال ہو گیا تھا براق کا ایک ریسٹورنٹ براق اور شفق فیصل آباد میں رہتے تھے عائشہ کے ابو براق کو پسند کر تے تھے اور کوئی مناسب وقت دیکھ کر وہ اس سے عائشہ کے لئیے بات بھی کرنا چاہتے تھے لیکن وہ وقت انہیں کبھی نہیں ملا تھا براق بھی عائشہ کو پسند کرتا تھا لیکن کہتا نہیں تھا بس اسے محسوس کراتا تھا اور عاشہ کو اسکی یہی بات سب سے بری لگتی تھی کہ وہ زبان ہوتے ہوئے بھی اسکا استعمال نہیں کرتا تھا اور ایسی کوئی بھی بات سن کر بہت دکھ ہوتا تھا اور ابھی بھی یہی ہوا تھا ''اچھا مجھے یاد آیا شفق کا رزلٹ آنا تھا میٹرک کا کیا بنا اس کا؟'' ردا نے بات بدلنے کی کوشش کی عائشہ جیسے حال میں واپس آئی تھی ''ہاں بتانا تھا تمہیں یاد نہیں رہا ذہن سے نکل گیا تھا ٹاپ کیا ہے اسنے اور سکالرشپ بھی ملا ہے ہمارے کالج میں ہی ایڈمشن لے رہی ہے وہ''عائشہ لاپرواہی سے بولی تھی ''او ہووو تو اسکا مطلب ہے براق بھائی اور تمہیں ملنے اور بات کرنے کےلئیے بہانے نہیں دھونڈنے پڑے گیں'' ردا اسے چھیڑنے لگی ''رہنے دو وہ سڑیل تو ایک میسج کر کے راضی نہیں بات کرنا تو بہت دور کی بات ہے شفق کے لئیے فون کیا تھا میں نے تو بتا دوں مادام آپ کو کہ وہ صرف شفق کو چھوڑنے کے لیے اسلام آباد آرہا ہے اور کچھ نہیں''عائشہ کو غصہ آیا تھا ردا نے اپنی ہنسی روکی ''چلو کوئی بات نہیں تم کسی سے کم ہو کیا دیکھ لینا خودہی رک جائیں گے '' عائشہ کو اور ابال چڑھا''اگر وہ رک گیا نا تو میں اس صدمے سے ہی مر جائوں گی ''ردا کو مزاق سوج رہا تھا''ویسے عائشہ میں ایک بات سوچ رہی تھی'' ،''کیا؟''عائشہ نے بغیر کسی دلچسپی کے پوچھا ردا نے اٹھتے ہوئے پوچھا'' یہی کہ کیا تم براق بھائی سے شادی کے بعد سدھر جائو گی؟''عائشہ کے حواس اس وقت درست نہیں تھے اس لیے اس نے بغیر سوچے سمجھے بول دیا ''استغفر اللہ''اور ردا وہاں سے بھاگ گئی اور جب تک عائشہ کو سمجھ میں آیا وہ حفصہ کو بتا چکی تھی حفصہ عائشہ کی کزن تھی اور تھوڑی اسلامی سی تھی اسلامی ردا بھی تھی لیکن وہ حفصہ کی طرح بات بات پر عائشہ کو ٹوکتی نہیں تھی عائشہ حفصہ کو کچھ خاص پسند نہیں کرتی تھی اور کہتی تھی کیوں کہ وہ کالج میں بھی نقاب کرتی تھی عائشہ  alienاسے
کو اسکے نقاب سے کوئی مسئلہ نہیں تھا نقاب ردا بھی کرتی تھی لیکن وہ کالج میں اتار دیتی تھی اور تھا گرلز کیمپس لیکن حفصہ کو بےچینی محسوس ہوتی تھی اس لیے وہ کرتی تھی حفصہ بات بات پر عائشہ کو ڈانٹ دیتی تھی یا کوئی درس سنا دیتی تھی جس کی وجہ سی وہ اس سے چڑتی تھی لیکن حفصہ ردا کو بالکل اپنی چھوٹی بہنوں کی طرح سمجھتی تھی اور اب ردا نے جان بوجھ کے یہ ظاہر کیا تھا کہ اس نے حفصہ کو بتا دیا ہے لیکن ردا نے حفصہ سے کہا تھا ''آج ہفتہ ہے عائشہ کو نہ بتانا''اور اسے ہنسی آئی تھی ردا عائشہ کو تنگ کر رہی تھی عائشہ اور ردا نے اپنی کلاسز لے لی تھیں اس لیے وہ دونوں گھر چلی گئیں اور گھر آکے سب سے پہلے اپنا انباکس دیکھتی تھی کہ کہیں سعد کا کوئی میسج نہ ہو لیکن ہوتا ہی نہیں تھی جو بات ردا کو عائشہ کی سب سے بری لگتی تھی وہ یس کو بار بار دھراتی تھی جب بھی ردا پڑھنے بیٹھتی عائشہ کو کوئی نہ کوئی کام یاد آجاتا اور وہ اسے بار بار تنگ کرتی رہتی صبح اتوار تھی اور ردا کا ارادہ دیر تک سونے کا تھا سارے دن کی تھکی ہاری ردا نے جب دوبارہ انباکس دیکھا اس امید میں کہ سعد کا کوئی میسج ہو گا لیکن کوئی میسج نہیں تھا وہ افسردہ ہوگئی ایک دم زین بھاگتا ہوا اندر آیا اور کہنے لگا ''آپی آپ کی وہ والی دوست جو بہت اونچا بولتی ہے وہ آئی ہیں ''ردا خوش ہوگئی ''عائشہ آئی ہے'' زین نے منہ بنایا ''جی وہی آئی ہیں''ردا اسے سمجھانے لگی ''ایسے نہیں کہتے بڑی ہے وہ تم سے کیا سوچے گی اگر اس نے سن لیا تو''زین نے منہ پھلایا ''وہ مجھے اچھی نہیں لگتی یہی سوچے گی''زین کو سمجھانا بے کار تھا وہ پہلے بھی کئی بار کوشش کر چکی تھی ردا زین کو وہیں چھوڑ کر باہر آگئی عائشہ اکثر ردا کے گھر آجایا کرتی تھی عائشہ کے ابو کو اکثر کام کے سلسلے میں شہر سے باہر جانا پڑتا تھا اور تب عائشہ ردا کے پاس آجایا کرتی تھی وہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ بہت اچھا وقت گزار لیتی تھیں عائشہ ردا کو بتا رہی تھی کہ پیر کو شفق آجائے گی اور ردا سونے کا نام نہیں لے رہی تھی اور بارر بار گھڑی کو دیکھ رہی تھی عائشہ نے کافی دفعہ نوٹ کیا ''ردا کوئی مسئلہ ہے جو بار بار گھڑی کو دیکھ رہی ہو گھڑی میں کوئی مسئلہ یا تمہیں کوئی مسئلہ ہے''ردا ہلکا سا مسکرائی اور گردن نفی میں ہلا دی ''نہیں کوئی مسئلہ نہیں ہے 12 بجنے والے ہیں اب تم سو جائو میں بھی ابھی تھوڑی دیر تک سو جاتی ہوں''عائشہ کو کچھ عجیب لگا تھا اس کی مسکراہٹ میں وہ صرف سعد کی کسی بات پر یا اس کے کسی ذکر پر ایسے مسکراتی تھی لیکن وہ پھر بھی چپ کر کے لیٹ گئی تھوڑی دیر بعد اس نے دیکھا تو ردا موبائل پر کچھ کر رہی تھی وہ سعد کو برتھ ڈے وش کر رہی تھی عائشہ کو بھی یاد آیا آج 17 فروری تھا اور ظاہر سی بات تھی 12 بجے کے بعد 18 فروری شروع ہو جانا تھا اور 18 فروری کو سعد کا برتھ ڈے تھا جو ان ساری باتوں سی بےخبر اپنی ہی دنیا میں کہیں پر مصروف تھا سعد کو میسج کرنے کے بعد ردا سعد کی تصویریں دیکھنے لگی تھی ردا کو لگا تھا عائشہ سو گئی ہے لیکن وہ غلط تھی عائشہ جاگ رہی تھی اور سب کچھ دیکھ رہی تھی ''تو اس لیے تم مجھے کہہ رہی تھی تم سو جائو میں بعد میں سو جائوں گی'' عائشہ نے آہستہ سے سرگوشی کی ردا کو حیرت ہوئی تھی وہ سمجھ رہی تھی عائشہ کب کی سو چکی ہے لیکن وہ تو جاگ رہی تھی ''سعد کا برتھ ڈے تھا اور میں اسے وش کر کے سونا چاہتی تھی اسی لیے جاگ رہی تھی اور بار بار گھڑی دیکھ رہی تھی'' ردا نے اپنی حیرت چھپاتے ہوئے بس اتنا کہا اور مبائل پرے رکھ کر سونے کے لیے لیٹ گئی عائشہ تھوڑی الجھ گئی ''تم سعد سے جو کرتی ہو وہ کیا ہے؟'' ردا کو اس کی بات سمجھ میں نہیں آئی تھی''کیا مطلب؟'' ردا نے نا سمجھنے والے انداز میں پوچھا''میرا مطلب ہے تم سعد کی اتنی پرواہ کرتی ہو جب بھی دعا مانگتی ہو تو سب سے پہلے اس کی خیریت کی مانگتی ہو یہ میری نظر میں تو پیار نہیں ہے کیونکہ میری نظر میں پیار جتایا جاتا ہے جسکو چاہتے ہیں اس کو بتایا جاتا ہے سب سے پہلے لیکن تم نے سعد کو نہیں بتایا کیوں؟اور پھر اس احساس کو تم کیا نام دو گی؟''ردا نے ایک گہری سانس لی اور ایک نرم سی مسکراہٹ اس کے لبوں پر ٹہر گئی اسے اس شخص کے لئیے کچھ کہنا ہمیشہ کم لگتا تھا ''عائشہ ہر بات بتائی نہیں جاتی کچھ باتیں محسوس کرنے کے لئیے ہوتی انہیں ہم تب تک نہیں سمجھ سکتے جب تک انہیں محسوس نہ کر لیں اور رہی بات پیار کی تو پیار جتا کر کرنے کا کیا فائدہ وہ تو پھر دکھاوا ہوا نا''ردا نے عائشہ کو بڑے پیار سے اپنے دل کا حال سنایا تھا لیکن عائشہ کو پتا نہیں چلا تھا عائشہ رشک آیا تھا ردا پر نہیں سعد پر اس پاک محبت پر جو ردا سعد سے کرتی تھی ''اور پیار ایک احساس ہے جو نہ کبھی رکا ہے، اور نہ کبھی رکے گا،یہ وہ پیاس ہے جو کبھی بجھتی نہیں،یہ احساس صرف روح سے محسوس کیا جاتا ہے،پیار کو پیار رہنے دو اسے کوئی نام نہ دو''اور عائشہ کو لگا یس نے محبت کا مطلب سمجھ لیا ہو صحیح انسان سے صحیح لفظوں میں ''اور جو تم سعد کا انتظار کرتی ہو؟ وہ''عائشہ پھر سے الجھی تھی ردا بے اختیار مسکرائی اسے سعد کا نام سننا اچھا لگتا تھا ''انتظار ہمیشہ لمبا ہوتا ہے چاہے کسی چیز کا ہو یا انسان کا''اور جب ٹائم دیکھا تو 12:30 ہو چکے تھے''پاگل لڑکی سو جاہو مجھے تہجد کے لئیے بھی اٹھنا ہے صبح'' ردا پریشانی سے بولی تھی اسے ڈر تھا کہ کہیں اس کی تہجد کی نماز نا نکل جائے کیونکہ ردا نے سن رکھا تھا کہ تہجد کی نماز اپنی بات منوا کر رہتی ہے اور وہ بھی اپنی بات منوانا چاہتی تھی لیکن ردا بے چاری کو یہ نہیں پتا تھا کہ جو میسج اس نے سعد کو کیا تھا وہ تو اسے ملا ہی نہیں۔
جب ردا تہجد کے لیے اٹھی تو اسے تھوڑی دیر ھو گئی تھی تہجد کی نماز پڑھی اور دعا مانگی آج وہ دل میں دعا مانگ رہی تھی اور خاموشی سے آنسو بہا رہی تھی کہ اسے خود بھی اپنی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی اگر وہ اسی طرح سسکیاں لے کر دعا مانگتی تو عائشہ اٹھ جاتی دعا مانگ کر ردا ابھی مبائل دیکھنے ہی لگی تھی کے فجر کی اذان ہو گئی اس نے سوچا پہلے نماز پڑھ لوں بعد میں دیکھوں لوں گی ردا نے فجر کی نماز پڑھی اس نے عائشہ کو نہیں اٹھایا تھا کیونکہ وہ جانتی تھی کہ عاعشہ نہیں اٹھے گی اس لیے کوئی فائدہ نہیں تھا اس پر وقت ضائع کرنے کا کیونکہ عائشہ نماز صرف تب پڑھتی تھی جب اسے ضرورت محسوس ہوتی تھی ردا نے جب انباکس کھولا تو اسکے تو جیسے پائوں کے نیچے سے زمین ہی نکل گئی جو میسج اس نے سعد کو کیا تھا وہ تو ابھی تک گیا ہی نہیں تھا نیٹورک میں کوئی مسئلہ تھا ردا نے وہ میسج ڈیلیٹ کیا اور دوبارہ میسج کیا اسے لگا وہ میسج چلا گیا ہے اور وہ دوبارہ سونے کی لئیے لیٹی لیکن شاید واقع یس کے نصیب میں انتظار لکھا تھا بہت لمبا انتظار اتوار کی وجہ سی ردا لیٹ اٹھی تھی اوراس نے سب سے پہلے مبائل پکڑا تھا لیکن جب اسنے انباکس کھولا تو اس کی دل کیا وہ رونا شروع کر دے میسج ابھی تک نہیں گیا تھا ردا نے بڑے حوصلے کے ساتھ دوبارہ میسج ڈیلیٹ کیا اور ایک اور میسج کیا جب وہ ناشتے کی میز پر پہنچی تو ''خیر ہے رات کو تو بالکل ٹھیک تھی اب کیا ہوگا ؟''عائشہ نے ردا کا چہرہ بغور دیکھتے ہوئے پوچھا جس پر        فی الحال 12 بجے ہوئے تھے ردا نے عائشہ کی بات کا کوئی جواب نہیں دیا اور خاموشی سے ناشتہ کرنے لگی جب وہ دونوں ناشتہ کرکے کمرے میں آئیں تو ردا پھر سے انباکس چیک کرنے لگی لیکن اس بار اسے مایوسی نہیں ہوئی تھی اسے صبر کا پھل ملا تھا ''تھینکس اے ملیین''سعد کا جواب آیا تھا اور ردا کی تو جیسے جان میں جان آ گئی تھی ردا واپس آگئی تھی جیسی وہ تھی ''مینشن ناٹ وش یو مینی مینی ہیپی برتھ ڈے انجوائے یور ڈے''ردا نے سعد کو ایک اور میسج کیا جواب فوری آیا تھا ''تھینکس '' اس مسکراہٹ کے ساتھ جو ردا کا دل خوش کر دیتی تھی ''جسٹ ٹیک کیئر '' ردا نے جواب دیا اور اسے جواب میں پھر سے وہی مسکراہٹ ملی تھی اس کے بعد سعد چلا گیا تھا عائشہ بڑے غور سے ردا کے چہرے پر آتے جاتے ان رنگوں کو دیکھ رہی تھی وہ سمجھ گئی تھی ردا سعد سے بات کر رہی تھی ''سعد سے بات ہوئی ہے؟'' لیکن اس نے پھر بھی پوچھا ردا کا چہرہ کھل اٹھا تھا سعد کے ذکر پر اس وقت عائشہ کو سعد کی اہمیت سمجھ میں آئی تھی ردا کے نزدیک ''اور تمھارا ناشتے پر کیوں منہ لٹکا ہوا تھا؟'' عائشہ کو یاد آیا ردا نے فر فر ساری روداد سنادی عائشہ ہنستے ہنستے ایک دم کرنٹ کھا کر اٹھی''یا اللہ''ردا کو لگا عائشہ کو پاگل پن کا کوئی دورہ پڑا ہے ''کیا ہوا ہے؟''ردا نے پوچھا لیکن وہ عائشہ ھی کیا جو کسی کی بات سن لے بس پاگلوں کی طرح کچھ ڈھونڈ رہی تھی ''میرا مبائل دیکھا ہے تم نے؟'' بڑی معصومیت سے ردا سے پوچھا ''یاد آ گیا میں بھی یہاں پر ہوں؟'' ردا نے جواب دینے کے بجائے الٹا سوال کیا''بتائو نا دیکھا ہے؟''ردا نے اپنی ہنسی روکی ''ہاں دیکھا ہے'' عائشہ کی تو جیسے جان میں جان آئی ''کہاں پہ؟''اسکو جیسے بہت جلدی تھی ''تمہارے ہاتھ میں'' ردا نے بہت کوشش کی لیکن عائشہ کی شکل دیکھ اس سے اپنی ہنسی نہیں روکی گئی عائشہ نے بھی بڑی مشکل سے اپنی ہنسی روکی ''ہاں تو جب بندہ پریشان ہوتا ہے تو ہوجاتا ہے اس سے ایسا تو کیا ہوا اس میں ہنسنے والی تو کوئی بات نہیں''وہ بات سمبھالنے کی کوشش کر رہی تھی لیکن اندر ہی اندر وہ خود بھی ہنس رہی تھی موبائل پر کوچھ دیکھا اور پھر وہی پریشانی چہرے پر سجا کر ردا کے سامنے بیٹھ گئی ''تم میری سب سے اچھی بہن ہو سب سے اچھے والی میری تو کوئی بہن بھی نہیں ہے بس تم ہی ہو      قسم سے اگر اس ایلین میں زرا سی بھی عقل والی ہوتی تو میں تم سے کبھی یہ کام نہیں کہتی تم تو سب سے زیادہ اچھی والی بہن ہو نہ میری تم تو کتنی اچھی ہو کتنی معصوم ہو''،''زیادہ مکھن لگانے کی ضرورت نہیں ہے کام بولو''،''نہیں تم واقع بہت معصوم ہو'' ردا کو لگا عائشہ نے سنا نہیں ''تمہیں تو یہ بھی نہیں پتا میں تمہیں مکھن نہیں ملائی لگا رہی ہوں''،''کیا؟'' ردا کو لگا عائشہ کو واقع کوئی دورہ پڑا ہے عائشہ جیسے اپنے آپ سے بولی تھی ''نہیں نہیں بس چھوٹا سا کام ہے بتائو نا کر دو گی نا پلیز'' عائشہ نے معصوم سی شکل بنائی ''بتائو کیا کرنا ہے ؟''ردا کو تھوڑی گڑبڑ محسوس ہوئی '' میری پیاری ردا وہ مس عنایہ والی اسائنمنٹ کر دو''بڑی معصوم سی التجا کی تھی عائشہ نے ردا کا دل کیا وہ عائشہ کو دیوار میں دی مارے مس عنایہ نیو ٹیچر تھیں لیکن وہ کافی زیادہ کام اٹھا کر دے دیتی تھیں اور عائشہ ہمیشہ کسی نہ کسی کو ڈھونڈ کر اس سے اپنی اسائنمنٹ کرواتی تھی اور اب وہ ردا کو قربانی کا بکرہ بنانے کا سوچ رہی تھی ''پاگل لڑکی آج آخری دن ہے کل اسائنمنٹ جمع کروانی ہے  تم نے سارا ہفتہ کیا کیا ہے اگراسائنمنٹ نہیں کی اور میں نہیں کرنے والی میں نے اپنی اتنی مشکل سے کی ہے تم خود کرو گی عقل آجائے گی تمہیں''،''ردا پلیز کر دو مجھ سے نہیں ہو گی''عائشہ ردا کی منتیں کر رہی تھی ''تم نے سارا ہفتہ کیا کیا ہے زرا بتانا پسند کروگی؟'' ردا نے آنکھیں سکوڑ کر عائشہ کو گھورا عائشہ کے رخسار گلابی پڑے ''وہ وہ'' اسے سمجھ نہیں آیا وہ کیا کہے ''اب وہ وہ کرتی رہو گی یا کچھ بولو گی بھی''،''وہ براق آ رہا ہے نا تو میں اسی خوشی میں بھول گئی'' عائشہ نے ایک چھوٹی سی سفارش پیش کی ''بھول گئی تھی لیکن اب تو یاد ہے نا چلو شاباش ابھی شروع کرو رات تک ختم ہو جائے گی''ردا نے بڑے آرام سےاس کے زخموں پر نمک چھڑکا تھا عائشہ کو اسائنمئٹ سے سخت نفرت تھی پھر چاہے وہ کسی بھی ٹیچر نے دی ہو ''ردا تم واقع میں چڑیل ہو''عائشہ نے اسے کشن مارتے ہوئے کہا ''سو تو ہوں''ردا عائشہ کے چڑنے سے مزے لے رہی تھی عائشہ منہ بنا کر اسائنمنٹ کرنے لگی رات تک لگی رہے اور ابھی اسائنمنٹ ختم کر کے بیٹھی ہی تھی کہ شفق کی کال آگئی ''اسلام علیکم'' اسکا انداز بہت میٹھا تھا ''وعلیکم اسلام'' عائشہ نے بھی اپنی تھکن سے آری آواز کو بہتر محسوس کیا ''کیسی ہیں آپ عائشہ آپی؟'' اس کا لہجہ اپنائیت سے بھرپور تھا ''بالکل ٹھیک ہوں تم کیسی ہو؟'' عائشہ کے حال احوال اب قدر درست ہو چکے تھے ''میں بالکل ٹھیک ہوں اچھا آپی آپ نے کہا تھا نا کہ میں آپ کو ٹائم کا بتادوں'' شفق نے عائشہ کو یاد کرایا ''ہاں ابھی نکل رہے ہو تم دونوں''عائشہ نے گھڑی دیکھی ابھی 9 بجے تھے ''جی بس آدھے گھنٹے تک نکل جائیں گے''،''تم لوگ صبح آجاتے براق پہلے ہی تھکا ہو گا اور اب رات کے وقت ڈرائیو کرے گا''عائشہ کو براق کی فکر ہو رہی تھی''آپی ویسے تو آپ ہر وقت بھائی سے لڑتی رہتیں ہیں اور اب آپ کو ان کی فکر ہو رہی ہے'' شفق کو نہیں پتا تھا کہ اس نے اتنی دور ہوتے ہوئے بھی ایک چھوٹی سی شرارت چھیڑدی تھی عائشہ کو سمجھ آیا کہ وہ کیا بولے شفق نے عائشہ کی خاموشی محسوس کی تو اسے لگا کہ چاید عائشہ کو برا لگ گیا''اینی ویز آپی بھائی نے ہی کہا ہے کی ہم رات کو نکلیں گے میں نے بھی ان سے کہا تھا آپ فکر نہ کریں آنا تو دن میں بھی تھا رات میں اجائیں گے'' شفق نے بڑے آرام سے بات بدل دی ''ہاں اس نے کچھ سوچ کر ہی کہا ہو گا'' عائشہ کو براق کے فکر تھی لیکن اس نے پھر بھی تسلی کر لی چلو وہ براق سے مل تو لے گی نہ پھر چاہے رات ہو یا دن ہو اسے فرق نہیں پڑتا تھا ''اچھا آپی میں تھوڑی مصروف تھی آپ سے بعد میں بات کرتی ہوں''شفق کی ابھی کافی تیاری رہتی تھی ''ہاں ٹھیک ہے تم اپنا کام کر لو'' الوداعی کلمات کا تبادلہ ہوا اور فون بند ہو گیا عائشہ خوش تھی کیونکہ وہ کچھ ہی دیر بعد براق سے ملنے والی تھی ردا جب کمرے میں آئی تو عائشہ اس کی طرف متوجہ ہوئی عائشہ ردا کو دیکھ کر ایک نرم سی مسکراہٹ کے ساتھ ہنسے جا رہی تھی ردا کو لگا اس کے منہ پر کچھ لگا ہوا ہے اسنے آئنے میں اپنا عکس دیکھا لیکن کچھ بھی نہیں تھا ردا کو لگا اسائنمنٹ کا کوئی گہرا اثر پڑا ہے عائشہ کے سر پر یا پھر صبح والا دورہ دوبارہ پڑا ہے ردا کو اب اکتاہٹ ہونے لگ گئی تھی ''عائشہ پاگل ہو گئی ہو یا اسیئنمنٹ کا صدمہ لاحق ہوگیا ہے نہیں ہوئی تو دے دو مجھے میں کر دیتی ہوں لیکن مجھے دیکھ کر پاگلوں کے طرح ہنسنا بند کرو پلیز''ردا نے چڑ کر عائشہ سے کہا ''یاد آگیا تمہیں کہ میں بے چاری ننھی سی جان کب سے اسائنمنٹ میں لگی ہوئی تھی ؟ چڑیل نے تب نہیں پوچھا جب ہو نہیں رہی تھی اور جب کر لی ہے تو کہہ رہی ہے دے دو اور کس نے کہا کہ میں تمہیں دیکھ کر ہنس رہی ہوں چڑیلوں کو دیکھ کر ڈرتے ہیں ہنستے نہیں ہیں'' عائشہ غصہ کرنے کی کوشش کر رہی تھی لیکن اس سے اپنی ہنسی نہیں روکی جا رہی تھی وہ بولتے ہوئے بھی ہنسے جا رہی تھی ردا کو عائشہ کی باتوں پر غصہ نہیں آتا تھا پھر چاہے وہ کچھ کہہ لیتی ردا کو ہمیشہ اس پر تب غصہ آتا تھا جب وہھ کسی مسئلے میں پھنس جاتی تھی ائر عائشہ بےوقوفوں والی ترکیبیں بتاتی تھی لیکن ردا کو عائشہ کی حرکتوں پر ہمیشہ ہنسی آتی تھی اور ابھی بھی ردا کو اس کی حرکتوں پر ہنسی آرہی تھی ''پاگل لڑکی بتائو گی بھی ہوا کیا ہے'' ردا بھی ہنسنے لگی تھی کیونکہ عائشہ کو ردا کی باتوں کا اثر نہیں ہو رہا تھا ''وہ سفق کی کال آئی تھی وہ بس نکلنے والے ہوں گے اب تو'' عائشہ نے بڑی مشکل سے اپنی ہنسی پر قابو پانے کی ناکام کوشش کے ساتھ ردا کو بتایا ردا کو لگا عائشہ کا دماغ واقع میں خراب ہوگیا ہے ''تو اس میں پاگلوں کی طرح ہنسنے کی کیا ضرورت ہے ''،''ردا میں جان بوجھ کے نہیں کر رہی مجھے خودبخود ہنسی آرہی ہے نہیں رک رہی''کوئی 15 منٹ عائشہ یہ تماشہ کرتے رہی پھر ردا کی ڈانٹ سن کر عائشہ کی حواس درست ہوئے پھر یاد آیا کہ اسے تو ابو کو کال کر کے پوچھنا تھا وہ گھر پہنچے کی نہیں ورنہ براق اور شفق کہاں جاتے اب ردا کے گھر تو آنے سے رہے عائشہ نے اپنے ابو کو کال کی تو پتا چلا کہ وہ تو 2 گھنٹے پہلے ہی گھر پہنچ گئے تھے اور انہوں نے اسے کال تھی لیکن عائشہ نے نہیں اٹھائی تھی ردا کو اب موقع ملا  تھا کہ وہ تحمل سے سعد سے بات کر سکے عائشہ کے ہوتے ہوئے وہ بات نہیں کر سکتی تھی کیونکہ عائشہ اس کے سر پر سوار رہتی تھی اور ردا کچھ نہ کچھ الٹا سیدھا کر دیتی تھی ردا نے جب انباکس کھولا تو اتفاق سے سعد بھی اس وقت آن لائن تھا ''آپ جنت کے پتے ناول ضرور پڑھنا اس میں ایک فوجی ہے بالکل آپ کے جیسا ہے'' ردا نے سعد کو میسج کیا ''اچھا '' ،''فوجی ہے لیکن میں بین الاقوامی مصنفین کے زیادہ تر پڑھتا ہوں'' سعد نے جواب دیا''وہ واقع آپ کے جیسا ہے ''ردا چاہتی تھی کہ وہ پڑھے ''فی الحال ٹائم نہیں ہے ٹائم ملا تو ضرور پڑھوں گا'' سعد نے حامی بھر لی تھی ردا خوش ہو گئی ''کیسا فوجی ہے وہ؟'' سعد نے پوچھا ''میں نے بتا دیا تو آپ کو سمجھ نہیں آئے گا آپ خود پڑھ لینا اور اگر پڑھنے کہ بعد میری کلاس لینے کا ارادہ ہے تو ابھی بتا دو''ردا بتانا نہیں چاہتی تھی ورنا اس کا راز فاش ہو جاتا سعد اس کی بات پر ھنسا تھا ''فکر نا کرو اچھا کردار ہے وہ برا نہیں ہے '' سعد اس کی بات پر ہنسا اور چلا گیا ردا کو سعد واقع میں جنت کے پتے کے جہان سکندر جیسا لگتا تھا کیونکہ وہ بھی حیا کو لفٹ کم ہی کراتا تھا اور سعد بھی یہی کرتا تھا ردا کو اکثر لگتا تھا کہ سعد نے جنت کے پتے پڑھ رکھا ہے اور جیسے جہان نے حیا کو آزمایا تھا سعد بھی ردا کو آزما رہا تھا بالکل اسی طرح سعد کو ردا کھونا نہیں چاہتی تھی وہ اس کے لیئے بالکل سیپ میں سے نکلے کسی موتی کی طرح تھا جو بہت قیمتی تھا عائشہ کہتی تھی ردا کو چپ کروانے والا آج تک کوئی پیدا نہیں ہوا تھا لیکن یہ بات صرف ردا جانتی تھی کہ چاہے وہ کسی کو کچھ بھی بول دے لیکن سعد سے بات کرنے کے لئیے وہ جو بھی سوچتی تھی وہ سعد سے وہ سب کچھ نہیں کہہ پاتی تھی چپ ہو جاتی تھی ردا کی نظر میں اسے چپ کروانے والا پیدا ہوگیا تھا جو اسے کچھ کہے بنا چپ کرادیتا تھا ردا کو تب بہت خوشی ہوتی تھی جب سعد اس کی کسی بات پر ہنستا تھا اسے یہ احساس خوش کرتا تھا کہ سعد کی مسکراہٹ کی وجہ وہ بنی پھر چاہے اسے کچھ بھی کیوں نہ کہنا پڑتا وہ کچھ بھی بول کر اسے ہنسا دیتی تھی ردا ہمیشہ سعد سے بات کرنے کے بعد یہ سوچتی تھی کہ اسے احساس ہوتا بھی ہوگا کہ یہ لڑکی کیوں اتنی عجیب عجیب باتیں کرتی ہے پھر وہ خود ہی یہ سوچ کر اپنا دل بہلا لیتی کہ اگر سعد کو پتا ہوتا تو وہ اس سے کبھی ایسے بات نہیں کر سکتی تھی جیسے اب کرتی تھی ردا ہمیشہ اپنے اس سوال کا جواب ڈھونڈتی تھی کی جب سعد کو پتا چلے گا کہ ردا اس سے محبت بلکہ محبت چھوڑو عشق کرتی ہے کیونکہ ردا واقع سعد کی عاشق تھی اور یہ ٹائٹل عائشہ کا دیا ہوا تھا جب سعد اس سے پوچھے گا کہ اس نے اسے کیوں نہیں بتایا تب وہ کیا کہے گی اس کی تو ویسے ہی زبان نہیں کھلتی تھی اور یہ ہی سوچتے سوچتے ردا کو نیند نے کب اپنے آغوش میں لے لیا ردا کو پتا ہی نہیں چلا
براق شفق کا سامان گاڑی میں رکھ رہا تھا اور بار بار شفق کو آوازیں دے رہا تھا کی اب باہر آجائو لیکن وہ چفق ہی کیا جو ایک بار میں کسی کی بات مان لے ''چفق اب تم باہر آئوگی یا میں اندر آئوں'' وہ لیٹ ہو رہے تھے شفق کی وجہ سے ''یا اللہ شفق باہر آجائے یا اللہ شفق باہر آجائے یا اللہ'' براق جان بوجھ کے شفق کو باہر بلانے کے لیئے اونچا اونچا کہہ رہا تھا جتنی جلدی عائشہ کو براق سے ملنے کی تھی اس سے کہی زیادہ بے چینی براق کو عائشہ کو دیکھنے کی تھی لیکن اگر شفق باہر آتی تو وہ اسلام آباد پہنچتے''بھائی آرہی ہوں کیا ہو گیا اپنا ناول ڈھونڈ رہی تھی'' شفق نے خفا ہوتے ہوئے کہا''اور یہ ناول تم کوئے بیس ہزار دفعہ پڑھ چکی ہو ہے نا؟''براق نے ناول کو گھورتے ہوئے کہا''بھائی یہ ناول اتنا اچھا ہے اتنا اچھا ہے کہ میں اسے بار بار پڑھ کر بھی نہیں تھکتی''اور سفق بس ایک لمبی سی تقریر اپنے ناول کی تعریف میں شروع کرنے لگی تھی کہ براق نے اس کے سامنے ہاتھ جوڑ لیے ''میری ماں آج ہم اسلام آباد جانے کو رہنے دیتے ہیں آپ کے ناول کی تعریف کر لیتے ہیں''،''اچھا دادا ابو اب چلو اور میرے ناول کو کچھ نہ کہنا'' اب جب اللہ کر کے وہ فیصل آباد سے نکلے تھے تو شفق میڈم چپ کر کے بیٹھ گئی تھیں اور براق کو شدید نیند آرہی تھی ''اللہ پوچھے اس مصنف کو جس نے یہ ناول لکھا ہے'' شفق ناول میں سر دیئے بیٹھی تھی اسے براق کی بات کا کوئی اثر نہیں ہوا تھا''شفق اگر تم نے ابھی یہ ناول بند نہ کیا تو میں اسے باہر پھینک دوں گا''براق چاہتا تھا کہ شفق کوئی بات کرے پھر چاہے وہ کچھ بھی بولے تاکہ اسے نیند نہ آئے جو اسے اس وقت شدید آرہی تھی ''او ہو بھائی آپ میرے ناول کے دشمن کیوں بنے رہتے ہو مجھے تو کبھی کبھی آپ فارس طہیرغازی کی طرح لگتے ہو'' شفق غصے سے بول کر بس براق کو گھور رہی تھی اور سوچ رہی تھی کہ بھائی نے سارا موڈ خراب کر دیا اب ناول پڑھنے کا کوئی فائدہ نہیں اس نے ناول پیچھے والی سیٹ پر رکھ دیا''ویسے یہ فارس اور جو بھی تم نے نام لیا کون ہے؟'' براق نے پہلی دفعہ یہ نام سنا تھا اسی لیئے پوچھا ''ہیں؟'' شفق ایک دم سے براق کی طرف منہ کر کے بیٹھ گئی ''بھائی فارس طہیر غازی ایک ناول کا ہیرو ہے اور بہت اچھا ہے بس آپ کے طرح سڑیل نہیں ہے '' بولتے بولتے شفق کو اپنے ناول کی بےعزتی یاد آئی تھی'' بس دیکھ لو تمھارے ناولز میں ہیروز بھی میرے جیسے ہیں''براق جان بوجھ کے شفق کو چھیڑ رہا تھا ''جی نہیں جب فارس کسی کا دل دکھاتا ہے یا دکھتی رگ پر ہاتھ رکھتا ہے اور آپ میں اور کچھ بھی اس کے جیسا نہیں نے اس لیے رہنے دیں'' شفق کی واقع دکھتی رگ براق نے دبا دی تھی لیکن وہ بول تو رہی تھی پھر چاہے غصے میں ہی بول رہی تھی ''جو بھی ہے میں اس ناول کا ہیرو ہوں تم ایسے نہیں کہہ سکتی'' شفق نے بس براق کو گھورا اور ہنس پڑی ''بھائی آپ واقع میں اس کے جیسے ہو اسی کی طرح چڑا کر موڈ ٹھیک کرتے ہو'' شفق اپنی ناراضگی بھول گئی تھی وہ چاہے اپنے بھائی سے کتنا بھی لڑ لے لیکن اس کا بھائی کبھی اسے ناراض نہیں رہنے دیتا تھا ''آخر ہیرو جو ہوں'' وہ اس کا موڈ ٹھیک کر رہا تھا شفق اسے ناول کا ہیرو تو بنا چکی تھی لیکن وہ یہ نہیں جانتی تھی کہ اس کے بھائی سے بڑا عاشق اسے کسی ناول میں بھی نہیں ملے گا جو پیار بھی کرتا تھا اور اپنی محبوبہ کو تنگ بھی کرتا تھا کہ اسے اس کی کوئی پرواہ نہیں براق سے اگر کوئی پوچھتا کی اسے عائشہ سے محبت کب ہوئی تھی تو وہ ایک سیکنڈ بھی ضائع کیے بغیر بتا سکتا تھا کہ اسے عائشہ سے محبت تب ہوئی تھی جب اس نے اسے پہلی دفعہ دیکھا تھا  ماضی کی یادیں کسی فلم کی طرح اس کے آنکھوں کے سامنے چلنے لگیں براق پہلی بار عید کرنے کے لئیے فیصل آباد سے اسلام آباد آیا تھا ندیم چچا کے کہنے پر(ندیم چچا عائشہ کے ابو تھے)ندیم چچا براق کو دیکھ کر بہت خوش تھے براق اور شفق عید سے دو دن پہلے اسلام آباد آئے تھے عائشہ کا اگلے دن میٹرک کا آخری پیپر تھا براق فون پر بات کرنے کے لئیے باہر آیا تھا اندر سگنل کا کوئی مسئلہ تھا وہ جب باہر آیا تو ایک لڑکی رٹے مارمار کے پیپر کی تیاری کر رہی تھی خیر چھوڑو مجھے بہت ضروری کال کرنی ہے براق نے دل میں سوچا اس سے پہلے کہ وہ کال کرتا کال آگئی تھی ''او ہو اندر جا کے بات نہیں کر سکتے ہو دیکھ رہے ہو نا میں پڑھ رہی ہوں  پھر بھی یہاں پر کھڑے ہو'' عاہشہ اس بھڑک اٹھی تھی اسے پیپر یاد نہیں ہو رہا تھا ''دیکھیں مادام جو بھی آپ کا نام ہے آپ کو چاہیے کہ آپ رٹے مار کر یاد کرنے کے بجائے سمجھ کر یاد کریں تو زیادہ بہتر ہو گا''براق نے ایک لمحہ ضائع کیے بغیر کہا کسی لڑکی کی یہ مجال کہ وہ براق کو باتیں سنائے عائشہ کو شدید غصہ آیا وہ اسے کتاب مارنے کے لئیے آگے آئی تو اس کا پائوں پھسلا اور گری تو سر بہت زور سے میز میں لگا ''آہ ''،''زرا دیکھوں تو '' براق اس کی طرف جھکا ''نہیں بچت ہو گئی ہے بچ گیا ہے میز ''عائشہ کو اور غصہ آیا اس نے کتاب براق کے سینے پر ماری ''انسان ہو کے جانور ہو خودغرض کہیں کے''اور اٹھ کر یندر چلی گئی براق کو اسے زچ کر کے بہت مزا آیا تھا وہ اس لڑکی کو نہیں جانتا تھا کال دوبارہ آنے لگی تھی براق باہر چلا گیا براق کو لگا اس نے اس لڑکی کو کافی زیادہ تنگ کر دیا ہے لیکن میں اس کے بارے میں کیوں سوچھ رہا ہوں میں تو اس کو جانتا بھی نہیں جب رات کو سب ڈنر کے لیے اکٹھے ہوئے تو عائشہ وہاں پر نہیں تھی ''عائشہ کہاں ہے؟'' ندیم چچا نے پوچھا ''چاچو وہ پیپر کی تیاری کر رہی ہیں'' براق کو کرنٹ لگا اس نے عاہشہ کو کبھی نہیں دیکھا تھا اس لیے پہچانا نہیں اسے لگا تھا وہ عائشہ کی کوئی دوست ہے ''جائو بیٹا عائشہ کو بلا کرلائو اسے کہو بعد میں پڑھ لے''ندیم چچا نے شفق سے کہا ''کوئی ضرورت نہیں نے میری تیاری مکمل ہو گئی ہے '' عائشہ وہاں پر نمودار ہوئی براق کو دیکھ کر اس کے قدم تھمے جیسے براق نے عائشہ کو کبھی نہیں دیکھا تھا ویسے ہی عائشہ نے براق کو کبھی نہیں دیکھا تھا اس نے بھی یہی سمجھا تھا کہ براق کا کوئی اسلام آباد کا دوست ہے وہ ان دونوں کے آنے سے پہلے ابا نے عائشہ کو ایک لمبی چوڑی تقریر کی تھی جس کا مفہوم یہ تھا کہ ان دونوں کے ساتھ اچھے سے رہنا ہے اور کو بدتمیزی یا لڑائی نہیں کرنی اور اس نے تو براق کو خیر اس نے بھی کم نہیں کیا تھا مجھے پرواہ نہیں بھاڑ میں جائے وہ البتہ شفق سے اس کی قافی اچھی دوستی ہو گئی تھی جب وہ کھانا کھا رہی تھی اس نے اپنے اوپر کسی کی نظریں محسوس کیں براق اسے ہی دیکھ رہا تھا ایک پل کے لیے دونوں کے نظریں ملیں پھر دونوں کھانے کی طرف متوجہ ہوگئے لیکن یہ لمحہ ان دونوں کے علاوہ ندیم صاحب کی نظروں سے بھی گزرا تھا کھانا خاموشی سے کھایا گیا اس کے بعد ندیم صاحب براق سے کچھ ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگ گئے عائشہ اور شفق بھی وہیں بیٹھی تھیں شفق کوئی ناول پڑھ رہی تھی عائشہ مبائل پر مصروف تھی براق وقتاً فوقتاً ایک نظر عائشہ پر ڈال لیتا تھا وہ دکھنے میں معصوم لگتی تھی لیکن اس بات کا اندازہ براق کو ہو گیا تھا کہ وہ صرف دکھنے میں معصوم تھی ندیم صاحب کسی نہ کسی بات پر عائشہ کو متوجہ کرنے کی کوشش کر رہے تھے لیکن وہ لفٹ ہی نہیں کرا رہی تھی اور بار بار جب وہ ندیم صاحب کی باتوں پر سر اٹھاتی تو براق اور اس کی نظریں ملتیں براق کو عائشہ کی باتوں سے لگا کہ عائشہ اس سے ناراض ہے ندیم صاحب اور شفق اپنے کمروں میں چلے گئے عائشہ بھی اپنے کمرے میں جا رہی تھی کہ براق اس کے پیچھے آیا اور ایک طرٖف سے نکل کر اس کے سامنے آگیا عائشہ دوسری طرف سے نکلنے لگی تو براق پھر اس کے سامنے آگیا عائشہ دوبارہ دوسری طرف سے نکلنے لگی تو وہ پھر سامنے آگیا ''کیا مصیبت ہے؟''عائشہ کو اس پہ ویسے ہی غصہ تھا اور اب وہ پھر تنگ کر رہا تھا ''وہ مجھے لگا میں نے تمہیں کافی تنگ کیا ہے اسی لیے معافی مانگنے آیا تھا'' براق کو بولتے ہوئے تھوڑی سی جھجک محسوس ہوئی اس نے کبھی کسی لڑکی سے معافی نہیں مانگی تھی عائشہ سینے پر ہاتھ لپیٹے اس کے سامنے کھڑی تھی ''اچھا تو پھر مانگو معافی ''عائشہ نے بھوئیں سکیڑ کر اسے دیکھتے ہوئے کہا''جب یہ کہہ دیا تو اس کا مطلب مانگ لی معافی''براق نے عائشہ کا چہرہ غور سے دیکھتے ہوئے کہا ''تم ہو ہی جاہل بدلحاظ اتنا بھی نہیں پتا لڑکی سے بات کیسے کرتے ہیں ''،''ہٹو'' عائشہ نے اسے ایک طرف دھکیلا اور اپنے کمرے میں آگئی
 ''یا اللہ سارے مسئلے آج ہی ہونے ہیں'' عائشہ لیٹ ہو گئی تھی اور اب جلدی جلدی سینٹر جانے کی تیاری کر رہی تھی جب تیار ہو گئی تو شکر ادا کیا کہ ابھی آدھا گھنٹا باقی ہے پیپر شروع ہونے میں وین آنے والی تھی اسی لیے گھر سے باہر نکل آئی تھی اور انتظار کر رہی تھی '' وین نے بھی آج ہی لیٹ ہونا تھا ویسے پورا گھنٹا پہلے آکر بیل دینا شروع کر دیتا ہے یا اللہ آج آخری پیپر ہے آج ہی کیوں سارے مسئلے ہو رہے ہیں'' براق کسی کام سے باہر جا رہا تھا عائشہ کی آواز سن کر گیٹ پر ہی رک گیا اور دیکھنے لگ کیا کہ وہ کیا کر رہی ہے براق کو اس پر ہنسی آرہی تھی اتنے میں ایک گاڑی عائشہ کے سامنے آکر رکی شیشہ ہٹا ''کہاں جانا ہے میری جان؟''اندر بیٹھے ہوئے آدمی نے بڑے پیار سے آگے ہو کر پوچھا عائشہ کا تو پارہ چڑھ گیا بڑے آرام سے آگے آئی ہٹے ہوئے شیشے کے دروازے پر ہاتھ رکھا اور جھک کر بولی ''جہنم میں جانا ہے چلے گا میرے ساتھ ؟'' اس آدمی کے تاثرات بدلے وہ تھوڑا پیچھے کو ہوا ''لڑکی دیکھتے ہی تیرے جیسوں کے دماغ میں گندگی بھر جاتی ہے اپنی بہن کو لے جا ساتھ'' عائشہ اس آدمی پر پھٹ پڑی تھی اس آدمی نے فٹافٹ گاڑی آگے بڑھادی ''نکل'' عائشہ نے اس کی گاڑی کو ٹھوکر لگائی ''جاہل بے غیرت شرم نہیں آتی ہے'' وہ ابھی بھی چیخے جا رہی تھی ''مرجا جا کے کہیں''عائشہ کا غصہ ٹھنڈا نہیں ہو رہا تھا جب وہ آدمی آیا تھا تو براق آنے لگا تھا اس سے نمٹنے کے لئیے لیکن عائشہ تو عائشہ تھی اس نے خود ہی اپنا حصاب برابر کر لیا تھا براق اس کے پہلو میں آکر کھڈا ہوگیا ''سابت ہوا تم مجھ سے بھی زیادہ جاہل اور بدلحاظ ہو'' براق نے عائشہ کے کان میں کہا اس سے پہلے کہ عائشہ براق کو کچھ سناتی وین آگئی تھی اس لئیے وہ چلی گئی
جب عائشہ واپس آئی تو اس کا موڈ بہت اچھا تھا اس کا آخری پیپر تھا اور بہت اچھا ہوا تھا کل عید تھی اور وہ پیپر دے کر بہت تھک چکی تھی اسی لئیے جاکر سو گئی تاکہ کل کا پورا دن اس کا اچھا گزرے وہ یہ نہیں جانتی تھی کہ کل بہت کچھ ہونے والا تھا
عائشہ جب اٹھی تو 8 بجے تھے عائشہ جب فریش ہو کر کمرے سے باہر آئی تو ندیم صاحب اور شفق بیٹھے ہوئے تھے براق نہیں تھا اچھا ہوا نہیں ہے اسے دیکھ کر تو ویسے ہی غصہ چڑھنے لگ جاتا ہے عائشہ نے دل میں سوچا''آپی آپ کا پیپر کیسا ہوا؟''شفق نے پوچھا 'ٹھیک تھا عائشہ نے مختصر سا جواب دیا براق آکر بالکل عائشہ کے سامنے بیٹھ گیا عائشہ مہندی بہت اچھی لگاتی تھی شفق نے اس نے کہہ رکھا تھا کہ اسے مہندی لگوانی ہے عائشہ کو وہاں سے بھاگنے کا بہانا مل گیا تھا ''شفق تم نے مہندی لگوانی تھی نا چلو آجائو'' ،''جی'' شفق عائشہ کے ساتھ چلی گئی براق کو کچھ عجیب لگا تھا پتا نہیں کیا اسے کچھ چبھا تھا عائشہ کے وہاں سے اٹھ کر جانے سے مجھے شاید وہ اچھی لگنے لگی ہے براق سوچ رہا تھا اللہ معاف کرے میں اور یہ جنگلی بلی
شفق کو مہندی لگاتے ہوئے عائشہ کا دیہان بار بار باہر کی طرف جا رہا تھا مین اس جاہل کے بارے میں کیوں سوچ رہی ہوں بھاڑ مین جائے وہ عائشہ نے اپنا سر جھٹکا عائشہ کے اٹھنے سے پہلے سب نے ڈنر کر لیا تھا عائشہ کا دل نہیں کیا اس لئیے اس نے نہیں کھایا اور سو گئی
صبح جب براق عید کی نماز پڑھ کر واپس آیا تو گیراج میں گلابی رنگ کے فراق میں ایک لڑکی کھڑی تھی ہلکے سے میک اپ اور کھلے بالوں میں بلاشبہ تھوڑی سی محنت کے بعد وہ بہت خوبصورت لگ رہی تھی ایک منٹ یہ ہے کون براق نے اسے نہیں پہچانا وہ لڑکی شفق کے ساتھ کھڑی تھی اور سیلفی لے رہی تھی اور براق پیچھے کھڑا یہ سارا منظر دیکھ رہا تھا شفق اندر چلی گئی تو وہ جب قریب آیا اور غور سے دیکھا تو یہ تو وہی جنگلی بلی تھی جو بہت خوبصورت لگ رہی تھی ''ماشاءاللہ''براق نے عائشہ کے کان میں کہا تو وہ ڈر گئی اور ایک دم سے پیچھے مڑنے لگی تھی کہ اس کا پائوں مڈ گیا براق نے اسے فوراً پکڑ لیا کوئی اور ہوتا تو وق نہیں پکڑتا اور اس کے گرنے پر خوب ہنستا لیکن اب وہ کوئی اور نہیں رہی تھی وہ اسے اپنی لگنے لگی تھی براق کی عائشہ ،عائشہ جلدی سے سیدھی ہوئی اور اندر بھاگ گئی ''بھائی بھائی''جب شفق نے پکارا تو وہ واپس آیا اور اسے یاد آیا کہ وہ اسلام آباد جا رہے ہیں وہ اس خوبصورت یاد سے نکل آیا تھا ''ہاں بولو'' ''کہاں گم ہو گئے تھے بھائی''شفق کافی دیر سے بولے جا رہی تھی لیکن براق کہیں اور مصروف نہیں تھا اسے اس بات کا اندازہ ہو گیا تھا ''کہیں نہیں بس تمہاری باتیں سن رہا تھا '' براق نے ایک چھوٹی سی صفائی دی
عائشہ سوچ رہی تھی براق سے وہ 4 مہینے بعد مل رہی ہے پتا نہیں کیسا ہوگا وہ کتنا بدل گیا ہو گا کہیں اس نے کوئی گرل فرینڈ نا بنا لی ہو وہ تو ہے ہی جاہل جی نہیں ایسا نہیں ہو سکتا میں اس سے پیار کرتی ہوں اور وہ بھی میرے لئیے جزبات رکھتا ہے کسی اور لڑکی کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہو سکتا عائشہ نے اپنے دل کے شک کو خود ہی صفائی دی عائشہ کے لئیے یہ سوچنا بھی بہت تکلیف دہ تھا کہ براک کسی اور لڑکی میں دلچسپی لے سکتا ہے ہمیشہ اس پر شک کرتی پھر خود ہی اس کی صفائیاں ڈھونڈتی براق عائشہ سے پیار تو بیت کرتا تھا لیکن چاہتا تھا کہ پہلے عاہشہ اعتراف کرے پھر وہ اسے بتائے گا اور عائشہ بھی یہی سوچتی تھی کہ براق پہلے بولے گا وہ خود نہیں بولے گی وہ سوچتی تھی اگر وہ پہلے بول دے اور براق کو پتا بھی نا ہو اس بارے میں یا وہ اسے پسند نا کرتا ہو تو وہ کیا کر لے گی اور یہیں پر عائشہ کی سوئی اٹک جاتی تھی خیر وہ اپنے آپ کو یہ کہہ کر دلاسا دیتی تھی کہ عزتِ نفس بھی کوئی چیز ہوتی ہے عائشہ انہیں سوچوں میں گم تھی کہ اس کے کمرے کا دروازہ بجا-
*************************
جاری ہے

Comments