Dil jis se zindah hay afsana by Sabahat Ara




دل جس سےزندہ ہے
از
صباحت_آراء
) ستائیس رجب کے حوالے سے خصوصی افسانہ (
 "امی... امی جی!" سعد باہر سے آواز دی.
"جی بیٹا!" وہ کچن سے نکل کر برآمدے میں آکر کھڑی ہوئی.
"امی! اوپر آکر دیکھیں تو ہم نے کتنا خوبصورت چراغاں کیا ہے."
"ہاں بھئی بہت ہی خوبصورت..." وہ مسکراتی ہوئی اوپر پہنچی تو بارہ ربیع الاول کی اس مقدس رات کے پسِ منظر میں تمام دیئے ٹمٹماتے ستاروں کی مانند جگمگ جگمگ کررہے تھے. نُور نے اس روح پرور منظر کو غور سے دیکھا تو روشنیوں کے دھندلکے میں اُس ذہن برسوں کی طرف لوٹ گیا...
.....جب رات بے حد طوفانی تھی آسمان گہرے سرخ بادلوں سے ڈھکا ہوا تھا. بجلی بار بار چاروں اور تڑپ رہی تھی. سرد ہوا کھلی کھڑکیوں سے دندناتی ہوئ آتی اور اس سے ٹکرا کر بکھر جاتی۔ نور سرِ شام ہی آکر آرام کرسی میں گرگئی تھی اور ابھی تک اُسی طرح ساکت بیٹھی تھی. باہر سے زیادہ گہرا اور شوریدہ سر طوفان اس کے اپنے اندر آیا ہوا تھا. اور ان جھکڑوں اور آندھیوں کے شور میں اسے اپنی سسکیوں کی آوازیں صاف سنائی دے رہیں تھیں۔
"اف!... یہ... یہ ایلس نے کیا کہہ دیا تھا؟۔۔ الفاظ تھے کہ بچھو کے ڈنگ... آخر... اس نے اتنی بڑی بات... اس نے.... اتنی آسانی سے کیسے کہہ دی!... غم و غصے میں مٹھیاں بھینچ کر اپنا سر دونوں ہاتھوں میں تھام لیا.
وہ ایک یتیم و یسیر بچی تھی. اماں نے بڑے پیار سے اس کو اسکول میں داخل کروایا تھا. وہ سارا دن محنت مزدوری کرکے نور کو پڑھا رہی تھیں. مگر ہائے رے قسمت کہ جب وہ پانچویں جماعت میں پہنچی تو اماں بھی چند ماہ بیمار رہ کر اسے داغ مفارقت دے گئیں. ایک دور کے عزیز اُسے اپنے گھر لے آئے. وہ سیلانی آدمی تھے. جب تلک زندہ رہے اسے تحفظ اور بنیادی زندگی کی ضرورتیں تو میسر رہیں. انٹر کے بعد وہ بھی ساتھ چھوڑ گئے. بچپن سے سرکاری وظائف پر پڑھنے والی یہ بچی اتنی لائق نکلی لہ ایف ایس سی میں بھی ٹاپ کرگئی اور میڈیکل کالج جوائن کرکے وہ ہوسٹل چلی آئی اور پھر ہر تعلیمی میدان مارتی ہوئی وہ حکومت کی جانب سے سپیشلائزیشن کے لیے انگلینڈ چلی آئی. یہاں آکر اس کی دوستی ایک انگریز لڑکے جمی سے ہوگئی. جمی اسی کی طرح سہما ہوا سنجیدی اور مہذب لڑکا تھا. انہی صفات کی بناء پر نور کو یہ احساس بھی نہ ہوا کہ اتنی مقدس دوستی کے باوجود جمی کب اسکی رفاقتوں کا اسیر ہوگیا. یہ عقدہ تو نور پر اس دن کھلا جب جمی نے نور کو "پرپوز" کردیا. وہ تو ششدر رہ گئی. "مگر... یہ کیسے ہوسکتا ہے جمی؟" وہ حیران ہوکر بولی. "کیوں نہیں ہوسکتا تمہارا پاکستان میں کون ہے... اور..." وہ بولا.
"مگر جمی..." وہ کہنا چاہتی تھی لیکن جمی نے اُس کی بات کاٹ دی. "بھئی جلد بازی کی ضرورت نہیں تم اچھی طرح سوچ سمجھ لو اور جب اس نے اپنی تمام روم میٹ ایلس کو ساری بات بتائی تو اس نے کہا. " جمی اچھا لڑکا ہے. میری مانو تو کرلو قبول یہ آفر.."
"مگر ایلس یہ کیسے ہوسکتا ہے وہ عیسائی ہے اور میں مسلمان.." بلآخر اس نے وہ بات کہہ ہی ڈالی جو وہ جمی سے بھی کہنا چاہ رہی تھی.
"اونہہ مسلمان! تو کیا ہوا؟۔۔۔ میں نے تو تم میں مسلمانوں والی کوئی خاص بات نہیں دیکھی اپنا مذہب بدل ڈالو." مگر ایلس کا جملہ تو بعد میں مکمل ہوا اور نور کا ہاتھ پہلے اٹھا اور ایلس کے منہ ہر طمانچے کا نشان چھوڑ گیا. غصے سے سرخ چہرہ لیے وہ کچھ دیر اسے گھورتی رہی اور پھر بھاگتی ہوئی آکر کرسی میں گر گئی. اسکے ہاتھوں پیروں سے جان نکل رہی تھی. پورا وجود گویا دھماکوں کی زد میں تھا اس پر رعشہ طاری تھا. یہ درست تھا کہ اس نے زندگی میں نماز بہت کم پڑھی تھی. جب تک اماں تھیں وہ سپارہ پڑھنے بھی جاتی تھی پھر یہ سلسلہ بھی منقطع ہوگیا. اگر اماں اسے اسکول داخل نہ کرواتیں تو اور اگر وہ وظائف نہ لیتی تو شاید یہ تعلیمی سلسلہ بھی ٹوٹ جاتا. اسکول میں اسلامیات کو اس نے صرف ایک مضمون کی طرح پڑھا اور یاد تو کرلیا تھا مگر... کیا وہ اپنے مذہط سے اتنی دور ہوچکی تھی کہ ایلس نے اتنے آرام سے اسے اتنی بڑی بات کہہ دی. وہ کانپ اٹھی... میں یعنی نور... اپنا مذہب بدل ڈالوں.. میں آقائے دو جہاںؐ کی سرپرستی سے نکل جاؤں نہیں...نہیں... اسکا پورا وجود پسینے میں نہا گیا.. وہ تھر تھر کانپنے لگی. دور کہیں سے اسے مدہم مدہم آوازیں سنائی دینے لگیں. وہ درود شریف پڑھنے کی آوازیں تھیں. اسنے محسوس کیا کہ خود نور کی آواز بھی اس مقدس اور خوبصورت عمل میں شامل ہوگئی. اس نے آنکھیں موند لیں. آنسو بارش کے قطروں کی طرح بند آنکھوں سے برس رہے تھے. اس کی ہچکیاں بندھ گئیں. کالی کملی والے سرکارؐ کی سرپرستی سے جدائ کے روح فرسا تصور نے ہی اسے ادھ موا کرڈالا تھا. میرے خدا... میرے مولا... مجھے معاف کردے. اپنے پیارے نبیؐ کی ذاتِ اقدس پر اس کائنات کی ساری محبتیں نچھاور... اس دنیا کے تمام خزانوں کو میں ان کے مبارک قدموں کی خاک کے ایک ذرے کے برابر بھی نہ جانوں.. وہ اٹھی اور سجدے میں گرگئ... مجھے معاف کردے میرے رب مجھے معاف کردے... میں بھٹک گئ تھی میرے آقاؐ! مجھے معاف اپنی پناہ میں لے لیں. آپؐ ہی تو مجھ جیسوں کے لجپال ہیں۔ وہ تڑپتی رہی، سسکتی رہی حتیٰ کہ فجر کے وقت کسی نے اس کے شانوں پر ڈھلکا دوپٹہ اٹھا کر اسکے سر پر رکھا اور شفقت سے ہاتھ پھیرا تو اس نے چونک کر سر اٹھایا، وہاں کوئ دکھائ نہ دیا۔ جلدی سے اٹھ کر سارا کمرہ دیکھ ڈالا وہاں کوئ نہ تھا۔ فجر کا وقت تھا وہ وضو کرکے نماز کے لیے کھڑی تھی۔
”امی۔۔۔ امی۔۔ آپ کی من پسند نعت ٹی وی پر آرہی ہے۔“ فائزہ کی آواز پر وہ چونک گئ۔ آنسوٶں سے جل تھل چہرہ صاف کرتے ہوۓ اندر آئ تو نعت کی روح پرور آواز اسکے دل میں اتر گئ ایک بار پھر اسکی آنکھوں میں نمی اتر آئ اور اس کے لب نعت کے الفاظ کے ساتھ ہم آہنگ ہوگئے۔
؎دل جس سے زندہ ہے، وہ تمنا تمؐ ہی تو ہو
    ہم جس میں بس رہے ہیں وہ دنیا تمؐ ہی تو ہو
جو چوٹ اسے ایلس نے لگائ تھی وہ بہت شدید تھی اور یہ لہر اس کے پورے وجود میں اتر کر اسکے دل ہی نہیں عملی زندگی کو بھی بدل گئ، وہ سرتاپا اسلام کے ضابطہء حیات میں ڈھل گئ۔
#ختم_شد

Comments