"
بے وجہ
ہی ڈھونڈتا ھوں "
از" مہوش منیر"
پارٹ 4
وہ اٹھ کر ڈریسنگ کے پاس چلی گئ.ایمان نے سی گرین کرتے
کے ساتھ اسکن کیپری پہنی ہوئی تھی.وہ اپنا جائزہ لے رہی تھی.اس کی متورم آنکھیں اب
مزید واضح ہورہی تھی.
ڈوپٹے کو دائیں سے بائیں گزارتے ہوئے اس نے حجاب بنا کر
پنز لگا لی .ایمان چہرے پر ایک سمائل
سجاتے ہوئے شیشے میں خود کو دیکھ رہی تھی.کچھ دیر وہاں کھڑی ہوکر خود کو نارمل
کرلینے کے بعد وہ کمرے سے باہر نکل گئ.ڈائینگ روم میں پہنچتے ہی سب کی نظریں اس پر
ٹھہر گئ.
"السلام علیکم . "اس نے کھانے کی ٹیبل پر
بیٹھتے ہوئے کہا.
" وعلیکم
السلام ایمان."تمام گھر والے اس پر جواب میں سلامتی بھیج رہے تھے.
" تایا ابا سوری میں رات آپ کو مل نہیں
سکی."اس نے معذرت خواہانہ لہجے میں
کہا.
"رات کو میں بھی لیٹ ہی آیا تھا ورنہ میں خود اپنی
بیٹی کو ملنے آتا."
" تائی اماں آپ کی طبیعت کیسی ہے اب ."اس نے
فورا"انکو مخاطب کیا کیونکہ وہ تایا ابا اگلی کی بات جانتی تھی.
"ٹھیک ہوں االلہ کا شکر ہے،تم سناو اتنا عرصہ کہاں
غائب تھی کوئی خیر خبر ہی نہیں."
وہ انہی سوالوں سے بچنے کی خاطر تایا ابا کو مزید مخاطب
کرنے سے گریز کررہی تھی مگر بات پھر وہیں تھی کہ وہ کہاں گئ تھی کیوں گئ تھی کس کے
ساتھ تھی وغیرہ وغیرہ.
اس نے چونک کر شرجیل کو دیکھا وہ اسے دیکھنے میں مصروف
تھا .ایمان کو اس کا یوں دیکھنا اب ہرگز پسند نہیں تھا.
"مامو یہ بریڈ ادھر پاس کریں ."
اس وقت تنزیل کا بول پڑنا اور شرجیل کا اس پر سے نظریں
ہٹا لینا کسی نعمت سے کم نہیں لگا.
"That's For you my sweet Aani. "
اس نے بریڈ ایمان کی پلیٹ میں رکھ دیا اور وہ اسے دیکھ
کر مسکرا رہی تھی وہ محسوس کر سکتی تھی کہ وہ واقعی اس سے بہت محبت کرتا تھا.
" And that's For you
Tanziel. "
اس نے دودھ کا گلاس تنزیل کی طرف بڑھا دیا.
ٹیبل پر موجود سبھی گھر والے انہیں دیکھ کر مسکرا رہے
تھے.
"انکل میں سوچ رہا ہوں کیوں نا ہم مری چلیں کچھ
دنوں کے لیے ایمان کے ساتھ سب ٹائم اسپینڈ کرلیں گے. "شرجیل اچانک بول کر اسے اپنی موجودگی کا
احساس دلا رہا تھا.
" آیئڈیا تو اچھا ہے مگر سب لوگ کیسے جاسکیں گے
کمپنی کو بھی تو دیکھنا ہے."
" ضیاء تم
لوگ جاو میں دیکھ لوں گا سارا کام ."امتیاز صدیقی بھی بول پڑے.
" ابا میں ابھی کچھ کام نپٹا لوں پھر فری ہوکر
چلیں گے. "
آنی چلتے ہیں نا "
پلیز، آپ بور
نہیں ہوں گی."تنزیل نےحصہ بھی دودھ کا گلاس جلدی سے ختم کرتے ہوئے حصہ لیا.
" مجھے کچھ امپورٹنٹ کام ہیں میں پہلے وہ ختم کروں
گی پھر چلیں گے. "ایمان نے جتاتی ہوئی نظروں سے شرجیل کو دیکھا اور اٹھ کر
چلی گئ.
" ایمان تم ساتھ چل رہی ہو نا.. "وہ اب اس کے
کمرے میں موجود تھا.
" نہیں بتایا ہے نا کہ مجھے کچھ کام ہے اور کام
زیادہ اہم ہے . "
"چند دنوں کی تو بات ہے ہم جلدی واپس آجائیں
گے. "وہ بضد تھا.
"آنی مان جائیں نا آپ . "تنزیل بھی آچکا تھا.
" اگر نہ
مانوں تو. "
"تو میں آپ سے بات نہیں کروں گا. "وہ منہ
بسورتے ہوئے بولا.
شرجیل خاموشی سے ان کے پاس بیٹھا ہوا تھا اسکے موبائل پر
بیپ ہوئی. ایمان نے اسکی طرف دیکھا مگر وہ موبائل پر متوجہ تھا وہ فون ملاتے ہوئے
باہر چلا گیا.
" آنی
آپ چل رہی ہیں نا فائنل بتائیں. "
"ہاں بابا چلوں گی."ایمان نے اسکی پیشانی پر
بوسہ دیا.
******************
اقصی حیدر ،انکی پرسنالٹی انکا نام انکا لہجہ کس قدر
شائستہ تھا.انکے چہرے پر پھیلی مسکراہٹ انہیں دیکھ کر کتنا سکون ملتا ہے.ایمان
ابھی بھی اسکے چہرے پر نظریں جمائے ہوئے تھی.
"ایمان میں تمہیں مدعو کرنے آئی تھی میں"
سیرت النبی"کانفرنس میں جارہی تھی تو سوچا تمہیں بھی لے چلوں ."اقصی نے
چائے کا سپ لیا.
" میں ضرور آتی مگر میں مصروف ہوتی ہوں
اقصی."
"مصروفیت میں
سے تھوڑا وقت نکال لو ."اس نے
کپ رکھ دیا.
"آپ سنائیں جامعہ کیسا چل رہا ہے آپکا. "
" الحمداللہ ،ابھی انیشیل سٹیج ہے مگر کافی اچھا
چل رہا ہے."
"آپ کچھ اور بھی لیں نا اقصی."اس نے پلیٹ آگے
بڑھائی.
"نہیں اس تکلف کی اب ضرورت نہیں مجھے دیر ہورہی ہے
میں چلتی ہوں."وہ اپنی چادر سیدھی کرتی ہوئی اٹھ گئ.
"مجھے بہت خوشی ہوتی اگر تم آتی."اقصی نے
اسکے ساتھ چلتے ہوئے کہا.
" وقت ملا تو ضرور آؤں گی."
" یہ شیڈیول ہے ہر مہینے یہ کانفرنس ہوتی ہے
."
"اور خطاب کون کرتا ہے. "ایمان نے صفحہ ہاتھ
میں لیتے ہوئے پوچھا.
"ہم کچھ دوست ہیں سب مل کر کرتے ہیں."
"اب کی بار کس کا خطاب ہے اقصی."وہ بےتوقعے
سوال پوچھ رہی ہے اسے خود بھی اندازہ تھا.
" یہ ہمارے لیے بھی سرپرائز ہے."وہ گیٹ تک
پہنچ گئ تھی.
"السلام علیکم کیسی ہیں آپ."دروازے سے اندر آتا
ہوا شرجیل رک گیا.
" ایمان میں چلتی ہوں."اقصی نے شرجیل کو
دیکھتے ہی منہ پر چادر ڈال لی اور باہر چلی گئ.
" ان محترمہ کو کیا ہوا ویسے یہ زیادہ ہی شریف نہیں ہوگئ."شرجیل
اقصی کو جاتے ہوئے دیکھ رہا تھا.
" وہ شریف ہی تھی اور ہے بھی اگر کوئی ان پر نظریں
رکھیں تو انکا کوئی قصور نہیں."ایمان نے ابرو اٹھا کر کہا.
" او ہیلو
کس قسم کی باتیں کررہی ہو. "
" جیسی میرا دل کررہا ہے."
"اچھی بات ہے اب میرا دماغ نہ چاٹو جاکر کام کرو
اپنا."
وہ وہاں رکی نہیں اوپر اپنے کمرے میں چلی گئ.
اسکا فون مسلسل بج کر بند ہوگیا تھا.
تین مس بیل ایک نمبر سے آئی تھی اور سات ایک نمبر سے اس
نے پہلے تین بار آنے والے مس بیل نمبر کو کال بیک کی.
" السلام علیکم ! ایمان ضیاء از ہیئر."
" یس."اس نے اثبات میں سر ہلا دیا.
" اوکے تھینک یو شو مچ. "دو منٹ سنتے رہنے کے
بعد اس نے آخری جملہ اداکرکے فون بند کردیا.
وہ صوفے پر بیٹھ گئ،اور خود کو پرسکون کرنے کے لیے ایک
لمبا سانس لیا.
" How
it is possible."
وہ ابھی بھی بے یقینی کی کیفیت میں تھی.
اس نے اب سالار کو کال بیک کی.
"حد ہے ایمان کہاں تھی تم میں نے اتنی کالز
کی."وہ خفا ہورہا تھا.
"اچھا دو منٹ زبان بند کرو اور میری بات غور سے
سنو."
وہ بول رہی تھی اور وہ سن رہا تھا وہ اسے اے ٹو ذی ساری
سٹوری سنا رہی تھی اور وہ سن رہا تھا.
" Iman
zaya are you sure. "
" 100 percent Salaar. "
" It's
too much dangerous yar. "
" why
are you scered. "
"Because I have little
heart."
"میرا بھی چھوٹا ہی تھا مگر اب ایک
واقعہ کے بعد بڑا ہوگیا ہے. "
" ایمان جو بھی کرنا اب سوچ سمجھ کر کرنا بہت سی
باتیں تمہیں سننا پڑیں گی، بہت مشکل حالات بھی آسکتے ہیں."
" مگر اب کچھ ہو بھی تو نہیں سکتا وہ لوگ مجھے بہت
جلد بلا لیں گے مجھے جانا ہوگا اور میں جاؤں گی سالار. "اسکے لہجے میں پختگی
تھی.
"اوکے ایمان اب میں بھائی کے ساتھ باہر جارہا ہوں
بعد میں بات ہوگی."
"ٹھیک ہے اور جو میں نے بتایا ہے نا کسی کو پتہ نہ
چلے."وہ اسے تاکید کررہی تھی.
"اوکے مس ایمان نہیں بتاؤں گا ،یو کین ٹرسٹ می
ڈیئر."
شام ہورہی تھی وہ
اپنے کمرے سے نکلی اور اماں کے پاس کچن
میں چلی گئ اور ہاتھ بٹانے لگی.
اس نے ڈھکن اٹھا کر دیکھا مٹر قیمہ کی خوشبو پورے کچن
میں پھیلی ہوئی تھی.وہ چپاتی بنانے کے لیے
فریج سے آٹا نکالنے لگی.
"اماں مجھے ایک بات کرنا تھی آپ سے."
اس نے آٹے کو چپاتی کی شکل میں بنا لیا.
"ہاں کرو میں سن رہی ہوں"انہوں نے ڈھکن اٹھا
کر چولہے پر رکھے ہوئے دیگچے میں چمچ ہلاتے ہوئے کہا.
" پہلے آپ میری قسم کھائیں کسی کو نہیں بتائیں گی
آپ."
فائقہ بیگم
اسکی طرف مڑ گیئں اور تجسس سے اسکا منہ تکنے لگی.
" اماں آپ
کسی کو نہیں بتائیں گی نا. "
" تم بتاؤ پہلے کہ ایسی کونسی بات ہے جو تم کسی کو
بتانا نہیں چاہتی."انہوں نے اسے کندھوں سے پکڑ کر کرسی پر بیٹھا دیا.
وہ سوچ میں پڑگئ کہ کیا بتائے .
"اماں میں نے ایڈیشن دیے تھے ایک دفعہ فیشن
انڈسٹری میں انہیں اب ماڈل کی ضرورت ہے اور اسکے لیے انہوں نے مجھے چوز کیا
ہے."اس نے دھیان اوپر نہیں اٹھایا کیونکہ وہ اپنی ماں کا دھواں دھواں ہوتا
چہرہ نہیں دیکھ سکتی تھی.
فائقہ بیگم بغیر کسی تاثر کے اسے دیکھے جارہی تھیں.
" تمہارا
دماغ تو خراب نہیں ہوگیا لڑکی اور تم نے سوچ بھی کیسے لیا کہ ہم تمہیں اس کام کی
اجازت دے دیں گے. "
" اماں
میرا پیشن تھا مجھے وہاں کام ملے اب اگر
مجھے چانس ملا ہے نا تو میں کسی صورت پیچھے نہیں ہٹ سکتی. "
" اس قسم
کے شوق بھی ہوسکتے ہیں تمہارے مجھے کبھی اندازہ ہی نہیں ہوا ."
" اماں میں نے ایک چانس کے طور پر دیے تھے ایڈیشن،
مجھے نہیں پتہ انہوں نے مجھے کیسے ہائیر کرلیا. "اس نے اب کی بار انکے چہرے
کی طرف دیکھا جہاں بس دکھ تھا.
" تمہارے
ابا تمہیں جان سے مار دیں گے ایمان."وہ اب کرسی پر بیٹھ گیئں.
"اسی لیے تو میں نے کہا ہے آپ ابھی انہیں کچھ مت
بتائیے گا میں خود بعد میں سمجھا لوں گی انہیں."اسکے چہرے پر اطمینان تھا.
" تمہیں شرم نہیں آتی ایمان."
"شرم..."وہ خود اس لفظ کی ادائیگی کے بعد
دھواں دھواں ہوگئ.
" تمہیں
کیا بیہودہ حرکتیں کرتے ہوئے شرم نہیں آئے گی."انکے لہجے میں دکھ تھا.
"اماں میں ٹی وی اسکرین پر نہیں آرہی میگزین تک
محدود ہوں."
"تم واقعی اپنی حدیں پھلانگ لوگی مجھے لگتا
ہے."
" اماں آپکے الفاظ میری روح کو زخمی کررہے
ہیں."وہ اٹھ کر فریج کی جانب بڑھ گئ اور پانی کی بوتل منہ سے لگا لی.
" اور جو
دکھ تم ہمیں دینے جارہی ہو ایمان اسکا کیا."
" اماں میں بس اتنا کہوں گی میرا اٹھایا گیا کوئی
قدم آپکو کبھی شرمندہ نہیں ہونے دے گا."وہ بہت پرسکون انداز میں فائقہ بیگم
کو سمجھا رہی تھی.
"ابھی تو تم دفعہ ہوجاو میری نظروں سے ،اور مجھے
اپنی شکل مت دیکھانا."انکا پارہ ہائی ہوگیا اور اسکے چہرے پر پھیلا ہوا
اطمینان انہیں مزید غصہ دلا رہا تھا.
وہ اٹھ کر چلی گئ کیونکہ اسطرح انکا غصہ ہائی لیول پر
چلا جاتا.
اگلے دو دن وہ انکے سامنے نہیں گئ ،ڈائینگ سے یونی
ورسٹی اور یونی ورسٹی سے کمرے میں بس یہی اسکا معمول رہا.
"ایمان آجکل تم ذرا کھینچی کھینچی ہو ،خیریت ہے
بیٹا."ضیاء نے تیسرے دن گاڑی میں
بیٹھتے ہوئے اسے پوچھ ہی لیا.
" ابا میں ایک اکیڈمی جائن کرنا چاہتی ہوں مگر
اماں نے منع کردیا."وہ موقع کی طاق میں تھی اور وہ اسے مل گیا تھا.
"منع کیوں کردیا فائقہ نے ،یہ تو اچھی بات ہے تم
کچھ عرصے میں فری ہو جاو گی تو کچھ تو کرنا ہی تھا تمہیں."سونے پر سہاگا
ہوگیا ضیاء نے جاب اور اسکی نوعیت پوچھے بغیر اتنی آسانی سے اجازت دے دی.
"ابا آپ ایگری ہیں نا. "وہ خوش گوار حیرت میں
مبتلا ہوگئ.
" ویسے ایمان اپنی کمپنی کے بارے میں کیا خیال
ہے."گاڑی نے موڑ بدل لیا.
" نہیں
ابا وہاں میں کام نہیں کر سکوں گی بلکہ حکم چلا سکوں گی اور میں یہ نہیں کرنا چاہتی."
دونوں طرف
خاموشی تھی.
" ابا مان جائیں نا پلیز میں کمپنی بھی چکر لگا
لوں گی."ایمان نے خاموشی توڑی.
" اوکے.
"
اسے ڈراپ کر کے
ضیاء آفس چلے گئے.
" ایمان تم نے بتادیا ،کیا ری ایکشن تھا انکل آنٹی
کا."کچھ دیر بعد ایمان سالارکے ساتھ تھی.
"ابا نے کچھ نہیں کہا مگر اماں کافی ناراض ہیں .
"
" انکل نے تمہیں
کچھ نہیں کہا واو ایمان. "
ایمان مسکرا رہی تھی.
" تم نے
جھوٹ بولا ہے ان سے. "سالار بینچ پر بیٹھ کر دوسری طرف دیکھ رہا تھا.
وہ خاموش ہوگئ اور خاموشی طویل ہورہی تھی سالار کیفے
ٹیریا چلا گیا اسے تھا وہ واپس نہیں آئے گا مگر تھوڑی دیر بعد اسکے ہاتھ میں سلش
کے دو گلاس تھے.وہ واپس آکر اسکے پاس بیٹھ گیا اور ایک سلش اسکی طرف بڑھا دیا.
سارا دن عجیب بے قراری میں گزرا، اسے اچانک یاد آیا کہ
اقصی نے اسے کانفرنس میں آنے کا کہا تھا.اس نے ڈھنگ کے کپڑے پہننے کی بھی زحمت
گوارا نہ کی اسکے کپڑے معقول تھے مگر اس کانفرنس میں پہن کر جانے والے نہیں تھے
اسے دیر ہورہی تھی اس نے جلدی سے چادر نکال کر اوپر لے لی.
ایمان گاڑی کو فل اسپیڈ میں بھگا رہی تھی ،کیوں.....وہ
خود نہیں جانتی تھی بس وہ کانفرنس ختم ہونے سے پہلے وہاں پہنچنا چاہتی تھی.
آدھے گھنٹے کی ڈرائیو کے بعد وہ حال کے سامنے موجود
تھی.
وہ اندر داخل ہوئی سارا ماحول کسی خواب کی صورت تھا سب
اس سامع کو سن رہے تھے وہاں جیسے " ھو
"کا عالم تھا.اس نے ادھر ادھر نظریں دھڑائی کوئی اسکی طرف نہیں دیکھ
رہا تھا وہ لوگ جسے سن رہے تھے وہ ابھی اسکی نظروں سے اوجھل تھا وہ سامنے چلی گئ
فرنٹ رو میں اقصی کے ساتھ ایک سیٹ خالی تھی.
"مسلمان االلہ تعالی کی آیتوں پر گونگے ،بہرے اور
اندھے ہوکر نہیں گر پڑھتے. "
ایمان نے نظریں اٹھا کر دیکھا وہ دیکھتی ہی رہ گئ ،کتنا
سحر تھا اسکی آواز میں وہ کچھ لمحات کے لیے پلکیں
جھپکنا بھول گئ.
" مسلمان کو چاہئیے کہ قرآن پاک کو سمجھنے کے لئے
بہت محنت کرے. مرزا غلام احمد قادیانی نے
جب دعوی نبوت کیا تو ثبوت میں قرآن کی اس آیت کو پیش کیا.
"االلہ یصطفی من الملکة رسلا ومن الناس ."
یہ آیت سورة الحج میں پچھتروے نمبر پر ہے ،قرآن کھول کر
ابھی دیکھ لیجیئے ."اسکی نظریں ایمان سے ٹکرائیں ایمان نے جلدی سے نگاہیں
جھکا لی اور موبائل پر قرآن کی ایپ کھول کر اس کی بتائی گئ آیت پر پہنچ گئ.
کچھ دیر کے توقف کے بعد وہ بولنے لگا تھا مگر ایمان نے
ہاتھ کھڑا کردیا.
" اسکا مطلب سمجھا دیں."وہ پہلی بار کسی دینی
تقریب میں آئی تھی اور اتنا سا پوچھنا اسکا حق تھا مگر پورا ہال اسے دیکھنے لگ
پڑا.
" یعنی االلہ تعالی فرشتوں اور انسانوں میں سے
رسول چنتا رہے گا وغیرہ وغیرہ، دیکھیں ذرا بات کس رخ میں کی گئ ہے :االلہ نبی چنتا
رہے گا مگر کب تک،؟----جب تک وہ رسالت مآب محمد مصطفی صلی االلہ علیه وآله وسلم کو
مبعوث نہیں فرمائے گا مگر جب وہ پیدا ہوگا وہ مہر لگانے والا ہوگا نبیوں اور
رسولوں کے سلسلے پر. ان کے بعد کوئی نبی کوئی رسول نہیں آئے گا،جو نبوت کا دعوی
کرےگا وہ مرتد ہوگا جھوٹا ہوگا.مسلمان ایسا نہیں ہوتا کہ آنکھوں پر پٹی باندھ لے
جو دل میں آئے کہہ دے اور قرآن سے ثابت کردے اور جو مسلمان کہلانے کے قابل نہ ہو
اسے نبی ماننے والوں کو بھی مسلمان کہنے کا حق نہیں."
وہ ابھی اسٹیج پر کھڑا ہوکر بول رہا تھا کہ ایمان کی
گود میں پڑے موبائل نے اسکی آواز کا سحر توڑ دیا وہ بھی اب چونک کر ایمان کو دیکھ
رہاتھا ،وہ ایمان کا موبائل نہیں تھا اقصی نے آنکھ کے اشارے سے وہ موبائل اسٹیج پر
کھڑے شخص کو دینے کو کہا.اس نے موبائل کو دیکھا.
" Text :Aaon. "
ایمان اسٹیج پر چلی گئ اور موبائل اسکی طرف بڑھا دیا
،اس شخص کی نظریں اس سے ٹکرائیں ،اسکا اٹھا ہوا ناک جو اٹل ارادوں کا پتہ دے رہا
تھا.اسکی عقابی آنکھیں جیسے وہ مدتوں سے محافظ رہ چکا ہو ،اسکا بڑھا ہوا ہاتھ ایسے
جیسے وہ کسی قلعے کے محاصرے پر تعینات رہ چکا ہو.اس نے موبائل اسکے ہاتھ میں پکڑا
دیا اور اسٹیج سے اتر آئی .
کانفرنس بھی ختم ہوچکی تھی وہ جلدی سے نیچے اتر گیا
آہستہ آہستہ ساری کرسیاں خالی ہورہی تھی .
" جزاک
االلہ ایمان کہ تم آگئ. "اقصی اسکے پاس آکر کھڑی ہوگئ.
مگر وہ اسے سن نہیں رہی تھی.
" ایک آخری خواہش ہے جامعہ آنا اور ترجمہ بھی
سیکھنا . "
" اس سے
کیا ہوگا. "ایمان نے بچوں جیسا سوال پوچھا.
" اس سے یہ ہوگا کہ جیسے آج سب نے تمہیں ایک چھوٹی
سی بات کے پتہ نہ ہونے پر دیکھا آئیندہ کوئی ایسے نہیں دیکھے گا ."
ایمان نے سر ہلا دیا.اسکے بعد اقصی چلی گئ.
" کتنا
عجیب میسج تھا . "وہ خودکلامی کر رہی تھی.
" Text:Aaon "
" شاید اس لڑکے کا نام عون تھا اس لیے لکھا ہو."
"اس ڈیز پر ایک ڈائری بھی تو تھی شاید اسی کی تھی
جاتے ہوئے چھوڑ گیا ہے. "اس نے مڑ کر دیکھا وہاں کوئی بھی نہیں تھا.وہ جلدی
سے اسٹیج پر چڑھ گئ.وہ ڈائری وہی پر تھی اس نے اٹھا لی.وہ بہت تیزی میں ہال سے
باہر آئی مگر وہ جاچکا تھا.
"میں اسے ڈھونڈوں گی اور اسکی امانت اسے لوٹا دوں
گی. "وہ اپنی گاڑی میں آگئی. اور گھر کی طرف موڑ بدلنے کی بجائے شرجیل کے
آفس چلی گئ.
" ٹھیک ہے میں کچھ کرتا ہوں ،انہیں سمجھاو کہ وقت چاہئے تھوڑا سا ہمیں. "
" میں ابا سے کرتا ہوں بات مگر میں جانتا ہوں وہ
اب مزید ایک پیسہ نہیں دیں گے وہ پہلے ہی تنگ آچکے ہیں . "
" ہاں اس
کے شیئرز ہیں مگر وہ کسی صورت نہیں دےگی،اپنا حق نہیں چھوڑے گی ."وہ کچھ توقف
کے بعد بولا.
ایمان نے بہت تیزی سے آفس ڈور کھولا اسکا سانس پھولا
ہوا تھا.شرجیل نے اسے دیکھتے ہی فون رکھ دیا.
"ارے ایمان تم یہاں اور بھی اس وقت ،ہم گھر ہی
آرہے تھے."
" میں گھر سے نہیں آرہی اس لیے یہاں تمہارے پاس
آئی ہوں . "
"میں سمجھا نہیں ،کہاں سے آرہی ہو تم شام کے سات
بج رہے ہیں ."
" ایک کام کے لیے آئی ہوں اگر آپکی اجازت ہوتو
بولوں."ایمان کا لہجہ طنز سے بھرپور تھا.
" ہاں جی جناب بولیں."
" سرچ کرو کہ آج "سیرت النبی کانفرنس "
میں چیف گیسٹ کون آیا تھا."
" مجھے نہیں پتہ کون آیا تھا اور نہ ہی اتنی چھوٹی
موٹی انفارمیشن سرچ کی جاسکتی ہے . "
" ٹھیک ہے
دفعہ ہوجاؤ پھر. "اسے ایک دم غصہ آگیا.
" تم میرے آفس آئی ہو نا تو تم دفعہ ہو گی میں
نہیں. "
وہ اسکا منہ تکتی رہ گئ.اور اٹھ کر چلی گئ.
" ایمان رکو، رکو."وہ اسے تنگ کررہا تھا مگر
وہ اس موڈ میں نہیں تھی.
وہ اپنی گاڑی میں بیٹھ گئ.شرجیل نے اسے بازو سے پکڑ کر
باہر نکالا اور اپنی گاڑی میں لے گیا.
اس نے اسے دھکا دینے کے انداز میں گاڑی میں دھکیلا.
"یہ کیا بدتمیزی ہے شرجیل. "
"شش.
"اس نے اسکے ہونٹوں پر ہاتھ رکھا.
وہ بہت پھرتی سے گاڑی میں بیٹھا اور گاڑی فل اسپیڈ میں
دوڑا دی.
" ہوا کیا ہے پاگل ہوگئے ہو مرنے کا ارادہ ہے کیا
اتنی تیز گاڑی کیوں چلا رہے ہو."
وہ خاموش تھا.
" تم لے
کر کہاں جارہے ہو یہ راستہ گھر کو نہیں جاتا.
"
"کہا نا خاموش ہو جاو. "
گاڑی ایک پورچ میں جاکر رک گئ.ایمان کی سمجھ میں نہیں
آرہا تھا کہ وہ اسے یہاں کیوں لے آیا تھا.
" باہر آو
ایمان تم تو ڈر گئ ہو. "اس نے ایمان کا ہاتھ پکڑنا چاہا مگر وہ چینخ
پڑی .
" ہاتھ مت
لگانا مجھے ."
" کیوں،
تم میری ہونے والی بیوی ہو اتنا حق تو ہے. "وہ ڈھیٹ بنتے ہوئے بولا.
"ہونے والی بیوی ہوں ابھی ہوئی نہیں اور دور رہنا
مجھ سے سمجھے. "
" نہیں تم سمجھاو مجھے ذرا تفصیل کے ساتھ باہر
آکر. "شرجیل نے اسے کھینچتے ہوئے باہر نکال لیا.
اور اسی طرح اسے گھر کے اندر لے گیا.
وہ اسے ایک انیکسی میں گھسیٹا ہوا لے گیا وہ اسکی
آوازیں نہیں سن رہا تھا .انیکسی میں لے جا کر اس نے دروازے کو چٹکنی چڑھا دی.ایمان
ایک جھٹکے سے اپنا ہاتھ چھڑوانا چاہتی تھی مگر وہ ایک لڑکی تھی ایک تناور شخص کی
قید میں،اس شخص کی قید میں جسکی وہ عزت بننے والی تھی.
"کیا عزت کا رکھوالا کبھی یوں اسطرح بھی عزت رول
سکتا تھا."وہ ابھی تک سکتے میں تھی.
" یہ کیا
حرکت ہے شرجیل مجھے یہاں اسطرح لانے کا کیا مقصد تھا تمہارا؟ "
" مائی سویٹ ہارٹ ! جسٹ ریلیکس بس ایک کام تھا تم
سے ،کرو اور جاو."
"مجھے جانے دو پلیز شام ہورہی ہے اماں انتظار کررہی
ہوں گی، جانے دو مجھے. "اسکا لہجہ ملتجی تھا.
" ارے ابھی شام ہی تو ہوئی ہے رات تھوڑے نا ہوئی ہے. "
"دیکھو میں تمہارے آگے ہاتھ جوڑتی ہوں."وہ
پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھی.
"ارے رو نہیں یار میں تمہیں کیا کہہ رہا ہوں بس
یہاں سائن کرو اور چلی جاو، سمپل ."اس نے کندھے اچکا دیے.
ایمان نے
سر اٹھا کر ایک بار اسے دیکھا اور ایک بار شرجیل کو.
" گبھراو مت یہ بس تمہاری طرف سے میری مرضی کے
مطابق تھوڑی سی انویسٹمنٹ ہے ایمان. "
" کیسی
انویسٹمنٹ . "وہ اب رونا بھول چکی تھی.
" رائل کمپنی کے ٹوئنٹی پرسنٹ شئیرز جو انکل نے تمہارے
نام کیے ہیں انکی اتھورائزیشن مجھے دے
دو،سیل ہوں گے تو نفع نقصان کی شیئرنگ کر
لیں گے. "
"یہ بات آفس میں بھی ہوسکتی تھی ،مگر میں اپنے
شئیرز تمہیں کیوں دوں گی. " وہ کچھ توقف کے بعد بولی.
"مجھے ضرورت ہے انکی اور یہ میری شرافت ہے جو تم
سے پوچھ کر میں شیئز کو بیچ رہا ہوں."
" جو کرنا ہے کرلو میں ابا کو بتاؤں گی آگے وہ جو
مناسب سمجھیں، اب مجھے جانے دو رات کے آٹھ بج رہے ہیں. "وہ مصالحت کی ہر ممکن
کوشش کررہی تھی.
" اگر تو اس معاملے کے بارے میں کسی کو بھنک بھی
لگی نا تو تمہاری سوچ ہے کیا بنے گا تمہارے ساتھ. "
وہ اس کا منہ دیکھتی رہ گئ ،کیا یہ وہی شخص تھا جسکے
ساتھ وہ منسوب تھی ،جو ہر دکھ سکھ کا ساتھیبننے والا تھا.
" میں
تمہیں نہیں دے رہی اور نہ تمہارے پاس کوئی اختیار ہے کہ تم مجھے ایمان ضیاء کو
مجبور سکو. "اسکا دکھ غصے میں بدل گیا.
" مس
ایمان ضیاء اختیار تو شاید نہیں ہے مگر میں تمہیں مجبور ضرور سکتا ہوں وہ بھی ابھی
اسی وقت. "
"کیا کرلو گے تم،تم جیسا گھٹیا شخص اور کر ہی کیا
سکتا ہے شرجیل صدیقی ."وہ اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے اسے للکار رہی تھی .
" پھر
مجھ جیسا شخص تمہیں بتائے کہ وہ کیا کرسکتا. "اسکے چہرے پر ذلیلوں جیسی ہنسی
تھی.
" تم کتنے گرے ہوئے ہو شرجیل تم کچھ مہینوں سے
واقعی مجھے مشقوق لگ رہے تھے. "
"تم میری بدلی ہوئی حالت کو چھوڑو اور یہ
سلیمانی چادر اتاردو."اس کا لہجہ تحکمانہ تھا.
اس نے کچھ نہ سمجھنے کے انداز میں شرجیل کو دیکھا.
" مجھے کوفت ہورہی ہے تمہیں اسطرح دیکھتے ہوئے.
"اسکا ہاتھ ایمان کی چادر کی طرف بڑھا
" میرے قریب بھی مت آنا ورنہ میں بھی بہت برا پیش
آوں گی."
" لو آگیا ،اپنا مارشل آرٹ دکھاو اب اس کی کلاسز
بھی تو لی تھی نا."
" شرجیل کیا کررہے ہو پاگل ہوگئے ہو جانے دو مجھے.
"
"آج تو میرا برتھ ڈے ہے اور تم وہ کروگی جو میں
کہوں گا. "
"تم کس قدر گھٹیا انسان ہو شرجیل ،کبھی تمہارا یہ
چہرہ میرے سامنے کیوں نہ آیا کیوں مجھے رسوا کرنا چاہتے ہو ،کیا بگاڑا ہے تمہارا .
"اسکا غصہ ساتویں آسمان پر تھا.
"ڈیئر کزن میرا تمہیں رسوا کرنے کا کوئی ارادہ
نہیں ہے لیکن تم مجھے مجبور کررہی ہو. "
"بکواس بند کرو. "
" آج تم پر اقصی حیدر کا سایہ آگیا ہے کیا، باتیں
بھی ویسی اور چادر بھی ویسی. "وہ اسکا مذاق اڑا رہا تھا.
" یہی دکھ ہے کہ میں اسکے جیسی نہیں ہوں. "
وہ اسکی طرف بڑھ رہا تھا اسے سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ
وہ کیا کرے ،ادھر ادھر نگاہیں دوڑانے سے
بھی اسے کچھ نہ ملا موبائل بھی گاڑی میں
رہ گیا تھا.
"کاش میرے پاس اس وقت ریوالور ہوتا ایک منٹ سے
پہلے شوٹ کردیتی تم جیسے ذلیل انسان کو. "وہ دل ہی میں دل میں پچھتا بھی رہی
تھی کہ کیوں وہاں چلی گئ وہ ضیاء کے آفس بھی جاسکتی تھی .مگر اب منظر بدل چکا تھا
وہ آفس میں نہیں کسی رپوش ایریا کی انیکسی میں کھڑی تھی وہ کسی کو مدد کے لیے پکار
بھی نہیں سکتی تھی وہ پکار بھی لے تو کوئی نہیں آئے گا اس بات کا اسے بھی یقین
تھا.
وہاں سے بھاگنے
کے لیے اس کمرے سے نکلنا ضروری تھا لیکن وہ یہ بھی جانتی تھی کہ اس پیپر پر سائن
کیے بغیر وہ یہاں سے نہیں جاسکتی مگر وہ کمزور ہوتے ہوئے بھی خود کو مضبوط کررہی
تھی.اسے اپنی عزت اور حق دونوں کو بچانا تھا.
ایک لمحہ کے لیے اس کی آنکھوں کے سامنے وہ معطر شخص آیا
اسکے چہرے پر چھایا ہوا نور اسکی پاکیزہ آنکھیں اور اب اسکے سامنے کھڑا ہوا وہ شخص
جس کی ذات میں بس حرص تھی لالچ تھا اور آنکھوں سے گھن آرہی تھی جو کسی بھی لمحے
میں اس نازک چڑیا کے پر کاٹ سکتا تھا اسے تمام عمر کے لیے اپاہج بنا سکتا تھا.صبح
سے اپنے کیرئیر کو لے کر جو اسکی آنکھوں میں رنگ تھے اب سارے اتر گئے تھے اسے سب ڈوبٹا
ہوا نظر آرہا تھا وہ کٹہرے میں کھڑی تھی اور ساری دنیا اس پر انگلیاں اٹھا رہی
تھی.عزت بچانا کبھی کبھار کتنا مشکل ہوجایا کرتا ہے اور اس لمحے کتنی اذیت ہوتی ہے
ایمان سے بہتر کوئی نہیں جان سکتا تھا مگر اسے خود کو کچلنے نہیں دینا تھا.
جاری ہے
Comments
Post a Comment