Be waja he dhoodta hoon by Mehwish Munir Part 5



Be waja he dhoodta hoon by Mehwish Munir Part 5
"  بے وجہ ہی ڈھونڈتا ھوں  "
از" مہوش منیر"
پارٹ 5
اس مصیبت کی گھڑی میں اسے اپنی ہر گذشتہ بات ہر غلطی یاد آرہی تھی.اسے زعیم کے ساتھ لاسٹ ٹائم باہر جانے والی بات یاد آگئ.
"  السلام علیکم !ایمان کہاں ہے پھوپھو ."اس نے آتے ہی ادھر ادھر نظریں دھڑائی .فائقہ بیگم اسکے انداز پر پہلے حیران ہوئیں لیکن جیسے ہی اس نے ایمان کا پوچھا وہ سمجھ گئیں کہ وہ ایمان کے لیے ہی آیا ہے.
"دیکھ لو یہیں کہیں ہوگی مجھے نظر نہیں آئی ایک گھنٹے سے. "فائقہ بیگم نے کٹنگ بورڈ پر سبزی کاٹتے ہوئے کہا.
انکے جواب پر اس نے سر ہلا دیا اور ٹی وی لاؤنچ کی طرف چلا گیا وہاں ایمان کو میگزین میں نظریں جمائے ہوئے دیکھ کر اسکے چہرے پر مسکراہٹ آگئ. اس نے گرے شرٹ اور بلیو جینز کے ساتھ برانڈڈ شوز پہنے ہوئے ہاتھ میں رولکس برانڈ کی وریسٹ واچ پہنے ہوئے وہ مہذب لگ سکتا تھا مگر اسکے کندھوں تک آتے ہوئے بال  اور منہ میں ڈالی ہوئی چار پانچ ببلز اسے مہذب کی بجائے آوارہ شو کروا رہے تھے.اپنی دھن میں چلتا ہوا  منہ چلاتا ہوا ایمان تک پہنچ چکا تھا.
" ہائے ایمان کیسی ہو. "اس نے صوفے پر بیٹھتے ہوئے کہا.
"ارے تم اتنی جلدی آگئے زعیم ابھی تو کال کی تھی تمہیں . "اس نے میگزین جلدی سے بند کیا." ہاں میں آفس سے نکل رہا تھا اس وقت تو سوچا پہلے تم سے مل آؤ پھر گھر جاؤں. ویسے آج کہاں کا پلین ہے . "اس نے ایمان کے ہاتھ سے میگزین پکڑلیا.
"  آج منال چلتے ہیں پھر پہاڑیوں کی طرف چلیں گے ."
"ٹھیک ہے محترمہ اب آپ ریڈی ہوجائیں شام سے پہلے واپس بھی آنا ہے. "اس نے آنکھوں کےاشارے سے  اٹھنے کا کہا.جینز اور ٹاپ میں ملبوس وہ کسی شاپنگ مال کا اسٹیچو لگ رہی تھی.وہ آئینے میں اپنا سراپا دیکھ رہی تھی  اسکی پشت پر گرے ہوئے بال اسکے حسن کو چار چاند لگا رہے تھے.ایمان بلش آن ناک اور رخساروں پر پھیر رہی تھی.ائیررنگز پہن کر اس نے ہینڈ بیگ اٹھا لیا اور باہر جاتے جاتے رک گئ جب فائقہ بیگم اسکے سامنے کھڑی ہوگئیں." کہاں جارہی ہو ."انہوں نے تنقیدی نظروں سے اسکا جائزہ لیتے ہوئے کہا."زعیم آیا ہے تو ظاہری سی بات ہے اسکے ساتھ جارہی ہوں ."
"   اب تم بچی نہیں ہو اور اسطرح آئے روز کبھی اسکے ساتھ کبھی شرجیل کے ساتھ باہر چلے جانا،بالکل بھی اچھا نہیں ہے. "وہ بہت شفقت سے اسے سمجھارہی تھیں." اماں شرجیل میرا کزن ہے اور زعیم منگیتر ہے اور  کیا برائی ہے انکے ساتھ جانے میں."اسکےلہجہ میں تلخی آگئ.
" تم نے آج تک اپنی غلطی مانی بھی ہے ایمان."انہوں نے ایک ایک لفظ چبا کر بولا." اف اماں آج تک بابا کو مجھ سے کوئی پرابلم نہیں ہوئی اور آپ.... "اس نے بات ادھوری چھوڑ دی اور کمرے سے نکل گئ.
وہ شرجیل کے ساتھ بھی یونہی باہر چلی جایا کرتی تھی آج تک اسے اس سے کوئی خطرہ محسوس نہیں ہوا تھا وہ اسکی نظر میں ایک اچھا انسان نہ سہی مگر اس سے یہ توقع ہر گز نہیں تھی.وہ اکثر اسکے ساتھ ہی آیا جایا کرتی تھی ،روز کھانے کی میز پر ان دونوں کی تکرار روٹھ جانا منا لینا لیکن یوں اچانک سے اسطرح کا رویہ......ابھی وہ سوچ ہی رہی تھی کہ شرجیل جو اسے کب سے بیٹھے دیکھے جارہا تھا اٹھتےہی اس نے ایمان کا بازو پکڑ لیا.وہ ابھی کشمکش میں تھی وہ بھول چکی تھی کہ وہ بھی یہاں ہی تھا.ایمان نے الجھی ہوئی نظروں سے اسے دیکھا."  میرے پاس اتنا وقت نہیں ہے ایمان ضیاء کہ تمہارے چہرے کے بگڑتے ہوئے زاویوں کو دیکھوں میری بات مانو ورنہ میں اپنی منوا لوں گا."
" شرجیل صدیقی ابھی کسی  مرد میں اتنی ہمت پیدا نہیں ہوئی کہ وہ ایمان کا غلط استعمال کرسکے مگر جب اسکے ضمیر پر خدا کی لعنت پر جائے تو ایسے شخص کے بارے میں جانور کا لفظ بھی استعمال نہیں کیا جاسکتا.  (اسے اپنے نام کا مطلب آج سمجھ میں آیا تھا  ) ".
"بکواس بند کرو اور چلو ادھر سائن کرو . "وہ ایمان کو تقریبا"گھسیٹے ہوئے سائیڈ ٹیبل تک لے کر گیا تھا.ایمان نے خود کو اس کی گرفت سے چھڑانا چاہا مگر وہ ایک جھٹکے سے زمین بوس ہوگئ شرجیل نے اسے اسطرح تھپڑ مارا تھا کہ زمین پر گرتے ہی اسکی چادر اسکے سر سے اتر کر زمین پر ڈھلک گئ.اتنی زور سے رسید کیے گئے تھپڑ سے اسے تکلیف نہیں ہوئی تھی جتنی اپنی چادر کے اتر جانے پر ہوئی تھی.وہ بلک بلک کر رو دی.
آخر کیا تھا یہ.....اسکی زندگی میں آئی ہوئی عیش و عشرت جسے وہ ہرجگہ لوگوں پر رعب چلا کر اپنے ہونے کا ثبوت دیا کرتی تھی.ماضی کی بہت سی باتیں اسے یاد آرہی تھیں.جامعہ میں مائرہ کے ساتھ کی گئ اسلامک کانفرنس میں بحث جہاں اس نے مائرہ کو اپنی دوستوں میں ذلیل کیا تھا.
"آپ لوگوں کو میں مسلسل نوٹ کررہی تھی آپ کانفرنس کے دوران بدنظمی پیدا کررہے تھے. "مائرہ ایمان کانفرنس ختم ہوتے ہی اس کے سر پر کھڑی تھی.
"ہم نے کیا کیا ہے ہم تو بس اینجائے کررہے تھے.  "
" یہ اسلامک کانفرنس ہے مدرسہ ہے یہاں اینجائے کرنے نہیں اصلاح کے لیے آیا جاتا ہے. "
"ہر انسان کا اپنا پوائنٹ آف ویو ہوتا ہے اور ہمارا اپنا ہے ہم بس یہاں ایک دوست کے انسسٹ کرنے پر آئے تھے اصلاح کے لیے نہیں ."
" بہتر. "مائرہ خاموش ہوگئ اور ایک  قہر آلود نظر اسکے حلیے پر ڈالی.
"کیا دیکھ رہی ہو مجھے گھور گھور کر کبھی لڑکی نہیں دیکھی. "
" دیکھی ہیں مگر جامعہ میں نہیں بلکہ ....... "مائرہ نے جملہ ادھورا چھوڑ دیا اور ایمان کا پارہ ہائی ہونے میں ایک سیکنڈ لگا تھا.
"  کیا مطلب ہے تمہارا ایک بڑی سی چادر لے کر تم خود کو پارسا اور مجھے ایسی ویسی سمجھتی ہو،سمجھتی کیا ہو خود کو تم ."اس نے جھٹکے سے مائرہ کا بازو دبوچ لیا.مائرہ کے ماتھے پر شکنیں آگئی مگر اس نے بازو کو مضبوط گرفت میں پایا.
" میں نے ایسا ویسا کچھ نہیں آپ خود بات کو غلط رنگ دے رہی ہیں میرا ہر گز مطلب یہ نہیں تھا."مائرہ نے بازو چھڑوانے کی کوشش کی مگر وہ اس لڑکی کی گرفت پر حیران تھی کتنی مضبوطی سے اس نے مائرہ کو پکڑ رکھا تھا.
"  ایمان لیو ہر. "اقصی نے ایمان کو دوسرے بازو سے پکڑ لیا.
" اقصی اس نے مجھے ،میرے گیٹ اپ کی بنیاد پر ایسا ویسا کہا اسکو میں نہیں چھوڑوں گی."
" میں نے کہا چھوڑو اسے تمہیں نظر نہیں آتا تمہاری ہی ایج کی ہے تم نے اسے کچھ کہا تو اسے غصہ آیا ہوگا. "
"  مگر اس نے ایسا کہا کیوں مجھے خون پی جاؤں گی اس کا."اس نے جھٹکے سے مائرہ کو آزاد کردیا اور اس نے گہرا سانس خارج کیا.
"ایمان ہر جگہ ہر بات پر نہیں لڑا جاتا خود میں برداشت پیدا کرو اس نے تمہیں کہا تو بجائے اسکے کہ کسی نے ہمت کی تمہیں تمہاری غلطی باور کرانے کی تم اسکی بات ہضم کرو تم نے اسے کتنا بے عزت کردیا ہے آنے جانے والی کتنی لڑکیوں نے تم دونوں کو دیکھا ہے. "اقصی تاسف سے ایمان کو دیکھتے ہوئے بولی." مگر اقصی...."خاموش ہوجاؤ ایمان اس نے ایمان کو جھڑک دیا.
" مائرہ میں معافی مانگتی ہوں ایمان کی طرف سے مگر آپ کو بھی رائٹ نہیں پہنچتا یوں کسی کے بارے میں بات کرنے کا."
" بات ٹھیک ہے آپکی مگر انہیں نے میری چادر کو آڑے ہاتھ لیا تھا میں اسے لے کر پارسا نہ سہی مگر خود کو محفوظ خیال کرتی ہوں اس لیے میں اپنے رب کے بعد اس محافظ کی تذلیل برداشت نہیں کرپائی."
اقصی ایمان کا ڈیفینڈ کررہی تھی مگر مائرہ کی بات سن کر خاموش ہوگئ اور معذرت خواہ نظروں سے دیکھتے ہوئے وہاں سے ایمان کو لے کر چلی گئ.
آج اسے سمجھ آگئی تھی کہ مائرہ کس محافظ کی بات کر رہی تھی اس نے محسوس کیا جب تک چادر اس پر تھی وہ خود کو محفوظ خیال کررہی تھی مگر اترتے ہی وہ کمزور ہونے لگی."مقعافات عمل "انسان کی روح کو دہلا کر رکھ دیا کرتا ہے اسکے ساتھ بھی وہی ہونے والا تھا.
جب تک مشکل نہ سر پر پڑے انسان معاملے کی سنگنیت اور نوعیت سے آگاہ نہیں ہوتا مگر جیسے ہی وہ مصیبت آن پڑتی ہے اسے ہر بات سمجھ آجاتی ہے پھر بہت بڑے مسئلے کا حل پلک جھپکنے سے پہلے نہ سہی مگر نکل ضرور آتا ہے.مگر جب بات عورت کی عزت کی آتی ہے، اسے اتنی ہمت دی گئ ہے کہ وہ اپنے آگے آئے ہوئے پہاڑ کو بھی توڑ کر راستہ بنا سکتی ہے .عورت کمزور نہیں  ہوتی ،بنت حوا کمزور ہو بھی نہیں سکتی.
ایمان کی سمجھ میں واقعی کچھ نہیں آرہا تھا معمولی سے شیئرز  کے لیے اتنی گھٹیا حرکت اسکا ذہن ماؤف ہوکر رہ گیا.
موبائل کی رنگ ٹون بجی ایمان نے چونک کر اسے دیکھا ایمان کا دماغ بہت تیزی سے چل رہا تھا.رنگ ٹون نے اسے راستہ دکھا دیا اب بس وہ دعا مانگ رہی تھی ،کچھ دعائیں اسی وقت قبول ہوجائیں تو اس سے بڑی کوئی نعمت نہیں ہوا کرتی.وہ رب چاہے تو قطرے کو دریا بنا دے ،ایک سرنگ جس میں سانپ بہت مشکل سے گزر سکتا ہوں وہاں سے انسان کو گزرنے کی جگہ دے دےوہ تو پھر اشرف  المخلوقات تھی.اسے راستہ نکالنا تھامگر وہاں کوئی امید کی کرن نہیں تھی.
" میرے واپس آنے تک سوچ لو کہ تمہیں کیا کرنا ہے ،رات کے نو تو بج ہی چکے ہیں ٹھیک ایک دو گھنٹے بعد کوئی تمہیں گھر گھسنے نہیں دے گا . "اسکا ایک ایک لفظ ایمان کی قوت سماعت کو مفلوج کررہا تھا.
وہ باہر چلا گیا ایمان اس کے پیچھے ہولی .دروازہ ٹھپ کرکے بند ہوگیا.
" ہیلو مسٹر اجمیر مجھے وقت دیجئے مزید میں آپکی پیمنٹ بہت جلدی کردوں گا ."وہ دروازے کی دوسری طرف ہوگیا اسکی پشت دروازے کی طرف تھی.
"  میں تمہیں بہت وقت دے چکا ہوں اب مزید کی توقع مت رکھو مجھے کل صبح تک پیمنٹ چاہیئے  آج رات کا وقت ہے تمہارے پاس میں ایک مہینے کا ٹائم پہلے ہی تمہیں دے چکا ہوں . "اجمیر کا لہجہ سخت تھا.
" جو اصل پیمنٹ ہے اجمیر شاہ وہ تو میں کردوں گا اگر تم کہو مگر اوپر کے جو پیسے ہیں وہ تمہارے کام سے زیادہ معاوضہ ہے وہ میں افورڈ نہیں کرسکتا. "
" یہ سب پہلے فائنلاز ہوگیا تھا شرجیل صدیقی اینڈ فار یور کائنڈ انفارمیشن تم نے یہ کانٹریکٹ بھی سائن کیا تھا.  "اس نے اسکے سر پر ایک اور بم پھوڑا وہ تو بھول گیا تھا کہ کوئی کانٹریکٹ بھی سائن ہوا تھا.
"  اجمیر ٹرائے ٹو انڈر اسٹینڈ میرے پاس واقعی ایک روپیہ نہیں میں کوشش کر تو رہا ہوں بس چند دن دے دیں آپکی رقم آپ تک پہنچ جائے گی. "
اجمیر اسکی کوئی بات سننے کو تیار نہیں تھا اس نے کال کاٹ دی.شرجیل فون کو گھورتا رہ گیا."  اچھی بھلی زندگی گزر رہی تھی میں نے غلط جگہ ٹانگ اڑا لی اب بھگتنا تو پڑے گا شرجیل صدیقی. "وہ سوچ کر رہ گیا.
اس نے ایک اور جگہ کال ملائی مسلسل بیلز ہوتی رہی مگر دوسری طرف کسی نے فون نہیں اٹھایا اس نے لینڈ لائن پر کال کی لیکن کریڈل بج بج کر تھک گیا کسی نے فون نہ اٹھایا.پانچ منٹ کے وقفے کے بعد اس نے دوبارہ کال کی.بار بار بیل ہونے کے بعد کال اٹھالی گئ تھی.دوسری طرف اسکی سیکرٹری موجود تھی." ہیلو ماریہ "اسکی رکی ہوئی سانس بحال ہوگئ.اس نے بے اختیار آسمان کو دیکھا.
" کون......"دوسری طرف نیند میں ڈوبی ہوئی آواز تھی."شرجیل صدیقی. "نام سنتے ہی وہ اٹھ بیٹھی اس نے اپنے پیروں کی سمت اوپر کی طرف دیکھا جہاں وال کلاک تھی.اس وقت کال وہ بھی شرجیل کی وہ حیران ہوگئ." جی سر بولیں. "شرجیل کی طرف مکمل خاموشی تھی.
" ابھی کہاں ہو ماریہ."وہ اسکے سوال پر حیران سی ہوگئ مگر خاموش رہی."ابھی کہاں ہو تم میں تم سے پوچھ رہا ہوں. "اسے بے اختیار غصہ آگیا.
" بستر پر "ماریہ نے فورا"جواب دے دیا.
"  جلدی سے اٹھو اور میری بات سنو پورے ہوش و ہواس میں رہتے ہوئے. میری بات ختم ہونے کے بعد میں تمہیں جس اکاؤنٹ کی تفصیلات دؤں گا اور میل ایڈریس دؤں گا تم بتائی گئ آن لائن لوکیشن پر جو میں تمہیں کہوں ٹھیک دو گھنٹے میں میل کر دینا."
" اوکے سر آپ بتائیں کیا کرنا ہے. "اس نے بالوں کو ایک کیچر میں مقید کرلیا اور اسٹڈی روم میں چلی گئ.اسکے گھر میں دو ہی کمرے تھے ایک اسٹڈی اور دوسرا وہ کمرہ جہاں سب گھر والے سوتے تھے.
"اجمیر کے ساتھ ڈیلنگ چل رہی تھی نا وہ کل صبح تک پیمنٹ پر انسسٹ کررہا ہے جینا حرام کردیا ہے اس نے میرا. "
" آپ بتائیں کرنا کیا ہے. "اس نے اکتاتے ہوئے پوچھا.اسکے بعد وہ خاموش ہوگئ اور شرجیل نے اسے ساری بات سمجھا دی.پندرہ منٹ کی طویل گفتگو کے بعد بھی ماریہ الجھی ہوئی تھی.
"یہ کام آپ خود بھی تو کر سکتے ہیں سر پھر مجھے کیوں کہہ رہے ہیں. "اسے شرجیل کی کوئی بات بری لگی.شرجیل نے گہرا سانس لیا اسے لگ رہا تھا کہ وہ بس بول رہا ہے اور ماریہ سو گئ ہے.
"  میں ابھی کہیں اور بزی ہوں ماریہ اور تمہیں ایکسٹرا پے ان سب چیزوں کے لیے ہی کیا جاتا ہے."شرجیل نے جتاتے ہوئے کہا."  اوکے آپ کو دو گھنٹے بعد کال بیک کرؤں گی."اس نے کال کاٹ دی.
آدھے گھنٹے سے وہ دروازہ کھلنے کے انتظار میں تھی ایمان وہیں اس کمرے میں ہی تھی وہ جاتے ہوئے دروازہ باہر سے بند کرگیا تھا. مگر اسکے بند کرنے سے پہلے ایمان نے باہر جھانک لیا تھا.اسکےمطلب کا راستہ نظر نہیں آسکتا تھا اور جو نظر آگیا تھا وہ اسکے لیے کافی تھا عقل سب کو دی جاتی ہے بس اسے استعمال کرنے کا ہنر آنا چاھیے لیکن ہر کوئی حکیم لقمان نہیں ہوتا. شرجیل کا باہر رہنے کا دورانیہ کافی لمبا ہورہا تھا  بس دو منٹ لگے اسے منصوبہ تیار کرنے میں کہ دروازہ کھلتے ہی وہ کب کہاں ہوگی.وہ سوچ چکی تھی ٹھیک دو منٹ بعد وہ کہاں ہوگی. اچانک اسکی نظر اس چیز پر پڑی جو اس سب کی ذمہ دار تھی عون کی ڈائری....
کبھی مایوس مت ہونا........
اندھیرا کتنا گہرا ہو،
سحر کی راہ میں حائل، کبھی بھی ہو نہیں سکتا،
سویرا ہو کر رہتا ہے،کبھی مایوس مت ہونا،
امیدوں کے سمندر میں ،تلاطم آتے رہتے ہیں ،
سفینے ڈوبٹے بھی ہیں،
سفر لیکن نہیں رکتا، مسافر ٹوٹ جاتے ہیں،
مگر مانجھی نہیں تھکتا،سفر طے ہو کے رہتاہے،
کبھی مایوس مت ہونا،،،،،،
خدا حاضر ہے ناظر بھی، وہی ہے حال سےواقف،
وہی سینوں کے اندر بھی،مصیبت کے اندھیروں میں،
کبھی تم مانگ کر دیکھو،
تمہاری آنکھ کے آنسو، یوں ہی گرنے نہیں دے گا،
تمہاری آس کا گاگر، کبھی ڈھلنے  نہیں دے گا،
ہوا کتنی مخالف ہو،تمہیں مڑنے نہیں دے گا،
کبھی مایوس مت ہونا،،،،،،
وہاں انصاف کی چکی ،ذرا دھیرے سے چلتی ہے،
مگر چکی کے باٹوں میں، بہت باریک پستا ہے،
تمہارے ایک کا بدلہ وہاں ستر سے ملتا ہے،
نیت تلتی ہے پلڑوں میں، عمل ناپے نہیں جاتے،
وہاں جو ہاتھ اٹھتے ہیں، کبھی خالی نہیں آتے
ذرا سی دیر لگتی ہے، مگر وہ دے کر رہتا ہے،
کبھی مایوس مت ہونا،،،،،،
دریدہ دامنوں کو وہ ،رفو کرتا ہے رحمت  سے،
اگر کش کول ٹوٹا ہو،تو وہ بھرتا ہے نعمت سے،
کبھی ایوب کی خاطر ،زمیں چشمہ ابلتی ہے،
کہیں یونس کے ہونٹوں پر،اگر فریاد اٹھتی ہے،
کسی بنجر جزیرے پر،کدو کی بیل اگتی ہے،
جو سایہ بھی ہے ،پانی بھی،علاج ناتوانی بھی،
کبھی مایوس مت ہونا،،،،،،
تمہارے دل کی ٹیسوں کو،یوں دکھنے نہیں دےگا،
تمنا کا دریا ....................
کبھی بجھنے نہیں دے گا،
کبھی وہ آس کا دریا ،کہیں رکنے نہیں دے گا،
کبھی مایوس مت ہونا،،،،،،،
ایمان نے ڈائری کے دونوں صفحے پڑھ ڈالے وہ شخص جسے وہ جانتی نہ تھی وہ اسکے حال سے واقف تھا وہ اسے ہمت دے رہا تھا کہ کبھی مایوس مت ہونا اسے خود کو مضبوط کرنے میں چند نینو سیکنڈ لگے.
دروازہ کھلا وہ ابلیس کا دوسرا روپ لگ رہا تھا کیونکہ اسے ابھی تک ایمان سے ہی امید تھی کہ وہ  اسکےشئیرز استعمال کرنے کی اجازت خوشی سے نہ ہی مگر زبردستی دے دے گی اس کا پلین بی جو وہ ماریہ کو سمجھا کر آیا تھا ناکام بھی ہوسکتا تھا اسی لیے وہاں کوئی رحم کوئی  اپنا نہیں تھا وہ ایک شکاری تھا مگر افسوس شکار کون تھا ایمان .
وہ دروازہ بند کرنے کو مڑا اسکا ہاتھ ابھی بمشکل چٹکنی تک پہنچا تھا کہ اسکو بہت سے رنگ نظر آئے اسکی آنکھیں چندھیا گئ اسی لمحے ایک اور ضرب لگی وہ اپنی جگہ پر گھوم کر رہ گیا وہ کوئی آہنی شے نہیں تھی جس سے اسے ضرب لگائی گئ تھی وہ کوئی ہیوی گلدان نہیں تھا وہ ایک لڑکی کے دونوں ہاتھ تھے جنہیں جوڑ کر اس نے شرجیل جیسے اچھے خاصے شخص کو ہلا کر رکھ دیا تھا. وہ چند سیکنڈ کے لیے سمجھ نہیں پایا  کہ ابھی اسے کیا لگا تھا مگر اب وہ سمجھنے کے لیے پیچھے مڑا اسکے پیٹ میں ایک کے بعد دوسری ٹانگ رسید کی گئ تھی.پہلے حملے پر چاہے اس نے سر نہیں پکڑا مگر اب وہ زمین کی طرف جھک گیا تھا.یہ موقع کسی غنیمت سے کم نہیں تھا ایمان نے ایک اور لات اسکی پشت پر اپنی پوری طاقت کے ساتھ رسیدکی.دروازے کی چٹکنی پہلے ہی اتری ہوئی تھی، دروازہ کھلتےہی وہ بھاگنے کے انداز میں باہر نکلی اسکی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کسطرف جائے گھر میں کہیں کہیں بتیاں جلی ہوئی تھی نیم تاریکی اگر اسے نقصان پہنچا سکتی تھی مگر وہاں اسے فائدہ بھی مل سکتا لیکن ابھی وہ نقصان کو افورڈ نہیں کرنا چاہتی تھی .ایمان نے سیڑھیوں کی طرف  بڑھنا شروع  کردیا سیڑھیاں اوپر چڑھتے ہوئے اسے پیچھے کسی قسم کی آہٹ سنائی نہیں دی جیسے وہ اس اندھیری نگری میں اکیلی ہو .شرجیل کا دو منٹ سے بھی کم خود کو نارمل کرنا اور اس دوران میں آنے والے گیپ نے اسے شرجیل کی پہنچ سے تھوڑا دور کردیا تھا.اس گھر میں دو طرف سیڑھیاں تھی وہ دائیں طرف نہیں گئ کیونکہ شرجیل دائیں طرف ہی جاتا ایمان بائیں طرف کو مڑگئ مگر دونوں سائیڈذ ایک جگہ جاکر مل گئ تھیں لیکن وہیں بائیں جانب ایک اور راستہ تھا عجیب بھول بھلیاں تھی اس گھر میں ،وہ پچاس سے زیادہ سیڑھیاں چڑھ کے آچکی تھی اسکے بعد ایک اور راستہ تھا وہاں روشنی نہیں تھی بس اندھیرا تھا رب کی ذات تھی اور وہ تھی.
" کبھی مایوس مت ہونا.....اندھیرا کتنا گہرا ہو  "
کہیں اندر سے یہ آواز اسے سنبھالے ہوئے تھی مگر اس کے پاؤں میں لڑکھڑاہٹ آگئ ایمان کے سامنے ایک قد آدم کھڑا تھا وہ اندھیرے میں بھی نظر آرہا تھا  وہ جس سے بچ رہی تھی وہ اسکے سامنے کھڑا تھا  وہ وہیں بیٹھ گئ کچھ دیر اسے دیکھتی رہی مگر وہاں کوئی حرکت نہیں تھی . اس نے سکون کا سانس لیا وہ کوئی انسان نہیں ایک مجسمہ تھا.ایمان اٹھ گئ اسے وقت ضائع کرنے کی عادت نہیں تھی مگر وہ کررہی تھی.اسکا سانس پھول چکا تھا کچھ دیر یونہی بے حس و حرکت پڑے رہنے کے بعد وہ کھڑی ہوگئ اسکے پیچھے تھوڑی بہت موومنٹ ہو رہی تھی اور اسے منظر سے غائب ہوجانا چاہئے تھا وہ بھاگنے کے انداز میں  چل پڑی ایمان اس پوزیشن میں جتنا تیز چل سکتی وہ چل رہی تھی مسلسل پانچ سے سات منٹ چلتے رہنے کے بعد وہ جہاں پہنچی تھی وہ گھر کا عقبی حصہ تھا اندھیرے میں ٹٹولتے اور دھکے کھاتے ہوئے وہ شرجیل کی پہنچ سے دور ہوگئ تھی عقبی حصے کا جائزہ لیتے ہوئے وہ فرار کا راستہ ڈھونڈ رہی تھی مگر وہاں سے نکلنے کے لیے ایمان کو بہت حوصلے کی ضرورت تھی.گھر کی عقبی سائیڈ پر صنوبر اور شیشم کے بڑے بڑے درخت تھے اسے اس جنگل نما گھر کی بھول بھلیوں سے ان درختوں سے خوف آرہا تھا صنوبر کے بیچ و بیچ گزرتے ہوئے اسے خیال آیا "  اگر میں اس دیوار سے کود جاؤں تو اس کال کوٹھری سے تو نکل جاؤں گی".ایمان ان درختوں کے پیچھے مڑ گئ وہ گھوم کر رہ گئ دیواریں بہت بڑی تھی اور انہیں بھی بار سے کور کیا گیا تھا جہاں بار نہیں تھی وہاں کانچ لگے ہوئے تھے واپسی کا راستہ بھی بند اسے اب کوئی بیچ کا راستہ چاہئے تھا  وہ اس بار کور سے تو شاید کود ہی جاتی مگر تمام دیواریں پلین تھی وہ اوپر چڑھنے کی کوشش کررہی تھی لیکن پاؤں تو دور کی بات اسکے ہاتھ بھی نہیں ٹھہر رہے تھے ."  اے میرے خدا کیسی آزمائش میں  ڈال دیا مجھے کاش اس رات کی صبح ہونے سے پہلے میں مر جاؤں،ابا اور اماں کتنے پریشان ہورہے ہوں گے سارا خاندان اکٹھا ہوچکا ہوگا االلہ ....مدد فرما میری میں کسی کی بھی نظروں کے سامنے خود کو تار تار نہیں ہونے دینا چاہتی میں اپنے گھر والوں کی نظروں میں گرگئ تو وہ موت سے بدتر مقام ہوگا".اسکی نظریں وسیع و عریض آسمان کی طرف اٹھی ہوئی تھی اسکی آنکھوں میں ٹھہری ہوئی نمی  اب اسکے چہرے کو بھگو رہی تھی ایمان  اس قید خانے میں محصور ہوکر رہ گئی تھی اور کوئی جاهء فرار نہیں تھی. وہ چلتے چلتے ان درختوں سے نکل گئ کسی شہزادی کی طرح ایک دیو نے اسے پنجرے  میں قید کرلیا تھا وہ اس تنگ پنجرے سے تو نکل آئی تھی مگر اس محل سے نکلنا بہت مشکل تھا دیو کبھی بھی اسے دوبارہ قید کرنے کے لیے آسکتا تھا لیکن اس  شہزادی کو قید سے نکالنے کے لیے کوئی  شہزادہ نہیں آسکتا تھا کیونکہ وہ کسی زمانے کی شہزادی نہیں بلکہ وہ ایک عام لڑکی تھی. اسے یوں محسوس  ہورہا تھا نجانے کب سے وہ  اس قید میں ،ان بھول بھلیوں میں کھو کر رہ گئ ہے .
اچانک اسکی نظر دائیں جانب کے تہہ خانے پر پڑی اس طرف کو جاتا ہوا سارا راستہ اس بنگلے کی طرح اندھیروں میں تھااسے ایک اور راستہ مل گیا دیوراوں پر ہاتھ لگا لگا کر وہ بتیاں جلانے میں کامیاب ہوگئ روشنی بس اتنی تھی کہ وہ خود کو دیکھ سکتی تھی وہ دروازے کی طرف بڑھ گئ جو باہرکی جانب کھلتا تھا وہ دوڑ کر وہاں پہنچ گئ مگر پھر اسکی قسمت اسے دھوکہ دے گئ اور وہ دھوکہ کھا گئ مگر اب اس دروازے سے باہر سے  جانے کے علاوہ راستہ نہیں تھا.وہ اس تہہ خانے سے کچھ ڈھونڈ رہی تھی کچھ ایسا جس سے وہ اس دروازے کا لاک کھول سکے ایک طرف کاٹھ کباڑ کی چیزیں پڑی تھیں وہ وہاں ہاتھ مار رہی تھی اسے بہت  عجیب و غریب آلات بھی ملے مگر ان میں سے کوئی بھی اسے دروازہ کھولنے میں مدد نہیں دے سکتا تھا اسکا حوصلہ پھر ٹوٹ گیا وہ مسلسل سسکیاں لے رہی تھی اٹھتے ہوئے اس کا ہاتھ کسی چیز کو لگا وہ پھر بیٹھ گئ چیزیں ادھر ادھر کر کے اسے ایک لوہے کی سلاخ ملی ایمان اس سلاخ کو لاک میں لگا رہی تھی بہت کوشش کے بعد وہ لاک کھولنے میں کامیاب ہوگئ وہ جلدی سے باہر نکل گئ وہاں ہر طرف اندھیرا تھا اس تہہ خانے سے نکلتے ہی ایک ان دیکھا ویران راستہ تھا ایک جنگل کی مانند وسیع اور ویران وہاں کوئی انسان نہیں تھا  کہاں جارہا تھا وہ نہیں جانتی تھی وہ چل رہی تھی مگر اسکی رفتار نارمل ہوچکی تھی  وہ ایک ڈھلوان دار راستہ تھا وہ اوپر نیچے کے راستے طے کررہی تھی  اسکے ٹخنوں سے اوپر تک گھاس تھا جس میں طرح طرح کے کیڑے اور حشرات رینگ رہے تھے ، کیا نہیں تھا وہاں ویرانی ،خوف،خود ترسی اور بےبسی. اسکے آنسو خشک ہوچکے تھے دس منٹ چلتے رہنے کے بعد  سڑک کے دونوں طرف پھیلے ہوئے چھوٹے چھوٹے پتھر ،اسکے پاؤں میں آئی ہوئی لرزش ،اس سے پہلے کہ وہ سنبھل پاتی اس کا پاؤں ایک گڑھے میں چلا گیا اس نے سنبھلنے کی بہت کوشش کی مگر منہ کے بل ٹھوکر کھا کر گر گئ اسکی رکی ہوئی سسکیاں پھر شدت اختیار کرگئ وہ پھوٹ پھوٹ کررو دی ایمان کی کہنیاں زمین سے رگڑی گئیں ان سے خون نکلنے لگ پڑا اس نے دونوں ہاتھوں سے اپنی کہنیاں پکڑ لیں .اس نے پیچھے مڑ کر ایک بار نہ دیکھا اسے وہم تھا کہ اگروہ پیچھے مڑ کر دیکھے گی تو وہ فرار شہزادی پتھر ہوجائے گی اور اسکی ساری زندگی انہی جھاڑیوں اور ویرانیوں میں گزر جائے گی.
"  جانتی ہو مایوسی کیا ہوتی ہے؟جب تم اندھیرے راستے پر کھو جاؤ ،تم بھاگ بھاگ کر تھک جاؤ ،تم سستانے کے لیے بیٹھو پھر ہمت کرکے دوڑ لگا لو مگر پھر بھی تمہیں راستہ نہ ملے،تمہیں جب امید نہ رہے کہ کوئی خضر بھی آئے گا تمہیں بچانے؛ جب تمہارا دماغ مفلوج ہوکر رہ جائے-جب تم بھول جاؤ کہ کوئی خدا بھی ہے وہی خدا جو نافرمانوں کا بھی ہے اور صالحین کا بھی ،اس وقت تم چینخو گی چلاؤ گی تمہیں محسوس ہونے لگے گا کہ تم تنہا ہو بالکل اکیلی ہو اس اندھیر نگری میں بالکل  اکیلی وہاں کوئی مکاں لامکاں نظر نہ آئے اور تم یہ خواہش کرو کہ کاش میں مر جاؤں -یہ ہے مایوسی.....یہ ہے کفر جب تمہیں کوئی امید نہ رہے کہ وہ رب جس نے اب تک تمہیں سنبھال رکھا تھا پہلے کبھی رسوا نہیں ہونے دیا تھا وہ اب بھی تمہیں بچا لےگا."
کون ہے ایمان ضیاء،کیا حقیقت ہے اسکی،بس اتنی ہی اوقات تھی ایمان کی کہ مصیبت آئی نہیں اور حوصلہ ٹوٹ گیا.آس پاس پھیلی ہوئی پہاڑیاں وہاں پتوں کی سرسراہٹ جنگلی جانوروں کی آوازیں اسکے اندر چلتا ہوا احتساب گھر والوں کی یاد ،فائقہ کے ساتھ ہونے والی بحث کانفرنس شرجیل کا آفس ہر چیز ایک فلم کی طرح اسکی آنکھوں کے آگے گھوم رہی تھی.کچھ لمحے واقعی سخت پتھر کے ساتھ ٹکڑا جانے والی بازگشت جیسے ہوتے ہیں.
وہ ایک جھٹکے سے اٹھ گئ  اس نے ہاتھ کے ساتھ رگڑ کے اپنے آنسو صاف کیے پھر وہ جلدی سے اس ڈھلوان سے نیچے اترنے لگی آہستہ آہستہ وہ اونچائی سے نیچے کی طرف آرہی تھی جگہ جگہ چھوٹے بڑے کھڈے بنے ہوئے تھے اب وہ سنبھل کر چلنے کی بجائے تیز تیز چل رہی تھی پانچ سے سات منٹ کے بعد وہ سڑک تک آگئ دونوں طرف پہاڑ پھیلے ہوئے تھے وہ نہیں جانتی تھی کہ رات کا کونسا وقت چل رہا ہے شاید گیارہ بج چکے تھے.وہ اب بس اپنے اندر کے خوف پر قابو پاتے ہوئے چل رہی تھی اور دل میں اپنے رب کو یاد کررہی تھی.
"جی پھو پھو بولیں خیریت اس وقت آپ نے یاد کیا."اس نے جائے نماز تہہ کرتے ہوئے پوچھا.
"  جی پھو پھو ٹھیک ہے میں زعیم کو بھیجتی ہوں ویسے خیریت ہے نا."
"ہاں بیٹا خیریت ہی ہے بس تم ابھی اپنی اماں اور زعیم کو بھیجو اہم بات ہے ."فائقہ بیگم نے اسے کہتے ہی فون کاٹ دیا .وہ اسی وقت اپنے کمرے سے نکل گئ ."  زعیم پھو پھو کی طرف سے فون آیا ہے وہ تمہیں اوراماں کو آنے کا کہہ رہی ہیں تم اٹھو میں اماں کو بھی اٹھاتی ہوں. "وہ جس طرح تیزی سے آئی تھی اسی طرح جانے لگی تھی مگر زعیم نے اسے روک لیا.
" رات کے گیارہ بجے پھوپھو کی کال خیریت تو ہے نا."اسے تشویش ہوئی.
"   انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ کیا مسئلہ ہے بس انہوں نے ابا کو نہ بتانے اور آپ لوگوں کو جلدی  وہاں بھیجنے کا کہا ہے. "
" ٹھیک ہے اماں کو خاموشی سے اٹھاؤ االلہ خیر کرے گا انشاءاللہ. "زعیم نے وریسٹ واچ ہاتھ میں پہنی اور موبائل جیب میں ڈالتے ہوئے اٹھ گیا.
" ہیلو زعیم کہاں ہو تم،مسئلہ ہوگیاہے بہت بڑا. "وہ پاگلوں کی طرح بنگلے کے باہر چکر لگا رہا تھا."  کیا ہوا ہے کیسا مسئلہ، ہم وہی آرہے ہیں مگر پہلے تم بات بتاؤ کیا ہوا ہے. "گیارہ بج چکے تھے زعیم شرجیل کی آواز سن کر کمرے سے نکلتے نکلتے رک گیا تھا.
"  مسئلہ تھوڑا سا سڑیس ہے مجھے کل صبح تک ہر حال میں کچھ رقم کا بندوبست کرنا ہے اور میرے پاس ایک روپیہ نہیں ہے."
"اور یقینا "ابھی تمہارا بندوبست نہیں ہوا اور تمہیں ہیلپ چاہئے.  "اس نے بالکل صحیح اندازہ لگایا تھا."ہاں  میں  بھی یہی کہنے والا تھا."
"مگر بہت معذرت کے ساتھ میں تمہاری کسی قسم کی کوئی مدد نہیں کرسکتا."
" میرے پاس ایک آخری آپشن تم ہو پلیز ایسا مت کہو مجھے مدد کی واقعی ضرورت ہے زعیم میں بہت مجبور ہوں. "زعیم کچھ دیر خاموش رہا اسکی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ رات کے اس وقت پھوپھو کی کال پھر شرجیل کی شاید انکو پیسوں کی ضرورت تھی لیکن اگر فائقہ بیگم کو پیسوں کی ضرورت ہوتی تو وہ خود کہتیں شرجیل کے تھرو نہیں.
"کتنے پیسے چاہئیے ہیں ذرا جلدی بولو میں آتے ہوئے لے آتا ہوں." وہ کچھ توقف کے بعد بولا.
" تین کروڑ ."زعیم کو لگا اسے سننے میں غلطی ہوئی ہے اتنی بڑی رقم ."کتنے پیسے کہا تم نے شرجیل تین کروڑ."اس نے تصدیق کرنا چاہی.
" ہاں صبح تک ،بہت ارجنٹ ہے زعیم ورنہ میں تمہیں کبھی نہ کہتا پلیز ارینج کردو میں بہت جلد تمہارے پیسے لوٹا دؤں گا."اسکی تصدیق سن کر زعیم گھوم کر رہ گیا اتنی رقم راتوں رات وہ کہاں سے لاتا اسکا منع کردینے کو دل چاہا مگر وہ اسکی مجبوری سمجھ رہا تھا اس نے شرجیل کو منع نہ کیا.
"  میری کچھ سیونگس ہیں وہ میں تمہیں دے دیتا ہوں مگر وہ اتنی زیادہ نہیں ہیں  کہ تمہاری اتنی بڑی ضرورت پوری کرسکیں."زعیم نے صاف صاف لفظوں میں کہا ."  کتنے پیسے ہیں تمہارے پاس جلدی بتاؤ میں پھر کہیں اور سے پتہ کرؤں " ."  میرے پاس ملا جلا کر پچاس لاکھ ہیں اور اس سے زیادہ ایک روپیہ بھی نہیں میرے پاس. "وہ لیپ ٹاپ کی بورڈ پر جلدی میں ہاتھ مار رہا تھا.
" یار پچاس لاکھ کا اور ارینج کردو میں واقعی مجبور ہوں مانگنے پر ،پلیز کسی اور سے پوچھ دو. "شرجیل اسکی منت سماجت کررہا تھا.
" میرے پاس جو تھا میں تمہیں دینے کو تیار ہوں مگر اس سے زیادہ کچھ نہیں ،آگے چوائس تمہاری ہے."شرجیل کا جواب سنے بغیر زعیم نے کال کاٹ دی.وہ جلدی جلدی سیڑھیاں اترتا ہوا گاڑی تک جا پہنچا  صبیحہ بیگم اسکا گاڑی میں انتظار کررہی تھیں. معذرت کے ساتھ دیکھتے ہوئے وہ فرنٹ ڈور کھول کر بیٹھ گیا.گاڑی چلاتے ہوئے اسکا دماغ شرجیل کی باتوں میں الجھا رہا.صبیحہ بیگم کی خاموشی بھی طویل ہو رہی تھی وہ بھی فائقہ کی فون کال کے متلعق ہی سوچ رہی تھیں.
"اماں پھوپھو نے رات کے اس وقت آپکو اور مجھے کیوں بلایا ہے کوئی مسئلہ تو نہیں خیریت ہے نا. "اسٹیئرنگ گھماتے ہوئے اس نے پوچھا.
"میں بھی یہی سوچ رہی ہوں االلہ خیر کرے اب. "  "مطلب آپکو انہوں نے نہیں بتایا کہ کیا بات ہے "اس نے حیرانگی سے کہا.
" نہیں میری بات نہیں ہوئی تمہاری بہن سے ہی بات ہوئی ہے فائقہ کی. "انہوں نے سرسری انداز میں کہا.زعیم بھی خاموش ہوگیا وہ وقتا"فوقتا" انہیں مخاطب کرتا رہا صبیحہ کا موڈ بھی پہلے سے بہتر ہوگیا تھا.آدھے گھنٹے کی مسافت کے بعد وہ فائقہ کے دروازے پر بیلز دے رہے تھے گارڈ نے دروازہ کھولا اور وہ اندر چلے گئے اندر جانے پر منظر سمجھ سے باہر تھا ضیاء کا منہ غصے سے لال تھا فائقہ سفید ہوئی صوفے پر پڑی تھی امتیاز اور شہر بانو منہ میں انگلیاں دیے بیٹھے تھے وہ فوری طور پر سمجھ نہیں پائے کہ یوں اس وقت ایسا کیا ہوگیا کہ سب دم سادھے پڑے ہیں.زعیم نے سلام میں پہل کی ضیاء اور باقی سب نے اسے سر ہلا کر سلام کا جواب دیا.دس منٹ وہ بیٹھے رہے کسی کی زبان سے ایک لفظ نہیں نکلا وہ باری باری سب کا منہ تک رہا تھا مگر خاموشی کا دورانیہ طویل تھا.
" فائقہ کیا ہوا ہے تم سب اسطرح کیوں بیٹھے ہو بالکل خاموش خیریت تو ہے نا."صبیحہ بیگم نے فائقہ کو مخاطب کیا.اور وہ نگاہیں چرا کر رہ گئیں.
"  بات غور سے سنو صبیحہ اور زعیم ایمان دوپہر میں گھر سے گئ تھی اور ابھی تک نہیں لوٹی ."زعیم کے چودہ طبق روشن ہوگئے اسے سب گھومتا ہوا محسوس ہوا." ہم اپنی بیٹی کو غلط نہیں سمجھ رہے مگر پھر بھی میں نے اور ضیاء نے ضروری سمجھا کے تم لوگوں کو بتادیا جائے آخر تم لوگوں کی امانت ہے ایمان."امتیاز بغیر توقف کے بول رہے تھے اور ضیاء نظریں جھکائے مجرم بنے بیٹھے تھے.
"رات کو اس وقت آپ بتارہے ہیں کہ وہ گھر نہیں پہنچی پہلے آپ لوگ سوئے ہوئے تھے. "اسکا پارہ یک دم ہائی ہوا."اور شرجیل کہاں ہے اس نے بھی مجھے نہیں بتایا ابھی میری بات ہوئی تھی اس سے . "
امتیاز نے شہربانو کو مشقوق نظروں سے دیکھا."وہ آفس کے کام میں مصروف تھا اس لیے آنے میں دیر ہوگئ ہے اسے اور شرجیل کو ایمان کے غائب ہونے کی خبر نہیں ملی. "شہربانو اپنے بیٹے کے دفاع میں بول پڑی.
"  تم لوگوں میں سے کوئی تو جانتا ہوگا کہ وہ کب اور کہاں گئ ہے ،آخر وہ جا کہاں سکتی ہے. "صبیحہ بھی بول پڑیں زعیم جانتا تھا اب ان کو چپ کروانا مشکل ہوجائے گا.
"فائقہ بیٹیاں ماں پر ہی جاتی ہیں خیر سے تم تو ایسی نہیں تھی مگر بیٹی کی تربیت کیسی کی . "
"آپا ایسا کچھ نہیں وہ یقینا"کسی مشکل میں ہوگی ورنہ وہ ایسا کبھی نہ کرتی. "فائقہ بیگم کو اپنی آواز کہیں بہت دور سے آتی ہوئی سنائی دی. ضیاء مزید صبیحہ کی باتیں برداشت نہیں کر سکتے تھے وہ اٹھ کر باہر چلے گئے.
" پھوپھو اسکو فون کیا آپ نے کہیں وہ واقعی مصیبت میں تو نہیں."زعیم کی پریشانی میں اضافہ ہورہا تھا.
" وہ کال اٹینڈ نہیں کررہی شام سے فون ملا ملا کر ہم تھک گئے ہیں. "
"  وہ گئ کہاں ہے اتنا تو بتا کر ہی گئ ہوگی کچھ ایسا کے اسے برا لگا ہوا،کہیں آپ لوگوں نے اسکے ساتھ کچھ ...."اس نے اپنا جملہ مکمل کرنے سے پہلےامتیاز اور شہربانو کو تنقیدی نظروں سے دیکھا.
" نہیں ایسا کچھ نہیں ہوا بیٹا وہ بس کانفرنس کا کہہ کر گئ تھی اور کانفرنس شام سے پہلے ختم ہوجانی تھی مگر وہ ابھی تک نہ واپس آئی ہے اور نہ ہی کوئی اطلاع. "فائقہ بیگم بے بسی سے بولیں انکے چہرے پر واضح پریشانی تھی.مگر اب اسکا انتظار کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا.وہ انکے پاس سے اٹھ گیا اور اوپر ایمان کے کمرے کی طرف چلا گیا.
******************
   جاری ہے

Comments