"بدتمیز
عشق" از "ردابہ نورین"
قسط 1
آج یونیورسٹی میں اس کا پہلا دن تھا آج سے پہلے وہ کبھی یونیورسٹی نہیں آئ تھی۔ وہ ایک زہین
سٹوڈنٹ تھی میٹرک میں بھی 90 % نمبر لیے تھے پر خاندان بھر کی مخالفت نے اسے کسی
بڑے کالج میں ایڈمشن کی اجازت نہ دی اس لیے اس نے گورمنٹ کالج سے FA کیا تھا اور وہاں بھی بورڈ میں ٹاپ
پوزیشن حاصل کی تھی اور شاید اس وجہ سے ہی اس میں خود اعتمادی آگئی تھی۔ اور اب
اسکالر شپ پے اسے اس بڑی یونیورسٹی میں آرام سے ایڈمشن مل گیا تھا۔ آج سے پہلے اس نے صرف نام سنا تھا. اور آج یہاں
ہونا بلکل ایسا تھا جیسے خواب کا پورا ہو جانا۔ پر اس نے خواب بھی کہاں دیکھا تھا۔
اور اتنے بڑے خواب دیکھنے کی اجازت ہی کب تھی اسے۔ وہ جانتی تھی اپنے ماں باپ کے
حالات اور خاندان میں ان کی پوزیشن۔ کتنا سنا پڑا تھا اس کے ماما پاپا کو لیکن
بہرحال اسے اس گھٹن زدہ ماحول سے آزادی مل گئی تھی جہاں ہر غلطی ہر مسلے کی
قصوروار وہ ہی ہوتی تھی۔ آج تک جن تعلیمی اداروں میں اس نے پڑھا تھا وہاں
سٹوڈنٹس درمیانے طبقے کے تھے۔ لیکن اس یونیورسٹی کی بات الگ تھی۔ کراچی کی سب
سے بڑی یونیورسٹی۔ شانزے کے لیے بھی یہاں ایڈمشن لینا نہ ممکن ہوتا اگر اسے سکولر
شپ نہ ملتی۔ پورے خاندان کی مخالفت لے کر اس کے بابا جانی نے یہاں تعلیم حاصل کرنے کے فیصلے میں یس کا ساتھ
دیا اور اسے بھی ان کا ماں رکھنا تھا۔ پریہاں اکر کافی حد تک اسے اپنے فیصلے پے
پچتاوا ہوا تھا۔ کیونکہ یہاں شاید ہی کوئی سٹوڈنٹ ہو جو کسی نارمل فیملی سے تلعق
رکھتا ہو۔ یہاں کی لڑکیوں میں اور اس میں زمین آسمان کا فرق تھا وہ سب جینس شرٹ
پہنے، سلوز لیس شرٹس پہنے، بال کھولے اور فل میک اپ میں تھی جب کے شانزے سادہ سے
لباس میں اونچی سی پونی باندھے بغیر میک اپ کے کسی اور ہی دنیا کی مخلوک لگ رہی
تھی۔ لیکن اس کے باوجود اس کے چہرے پے
کہیں کوئی گھبراہٹ نہں تھی۔ آنکھوں میں ڈھیر سرے خواب سجاے وہ اتنی ہی باعتماد تھی
جتنی یہاں تعلیم حاصل کرنے والی کوئی اور لڑکی ہو سکتی تھی۔ اس کا یونیورسٹی آنے
کا مقصد صرف تعلم کا حصول تھا نہ کہ ان لوگوں کو دیکھنا اور ان جیسا بنا.
شانزے اپنے ڈیپارٹمنٹ میں پہنچ گئی تھی۔ اس سے پہلے کے
وہ کسی سے اپنی کلاس پوچھتی تبھی ایک لڑکا اس کے پاس آیا۔
ایکسٹیوز می۔۔۔!!! آپ نیو سٹوڈنٹ ہیں۔؟؟ بی ایس سی فرسٹ
سیمسٹر ؟؟
شانزے نے اثبات میں سر
ہلایا.
میرا نام پروفیسر مستنصر ہے۔ میرے ساتھ آجائیں۔
جی پر آپ۔۔۔ شانزے اپنی بات مکمل کرتی اس سے پہلے ہی وہ
اس کی بات سنے بغیر آگے بڑھ گیا تھا.
پروفیسرمستنصر کی عمر زدہ نہ تھی. 6 فٹ سے نکلتا ہوا
قد۔ صاف رنگت. سلیقے سے بنے بال. وائٹ شرٹ اور بلو جینس پہنے آستینوں کو کہنیوں تک
فولڈ کیا ہوا تھا۔ ہاتھ میں ایپل کے نیو ماڈل کا موبئل لیے وہ اس کے آگے چلتے عمر
یا ہولیے کہیں سے بھی پروفیسر نہیں لگ رہے تھے۔ بلکے اسے تو وہ کسی فلم کا ہیرو لگ
رہےتھے۔ تبھی وہ کنفیوز ہو رہی تھی.
شانزے نے سینئرز کی شرارتوں کے بہت سے قصے
سن اور پڑھ رکھے تھے.لہزا اس نے اپنے صبر کو مزید آزمانے سے گریز کیا اور سیدھا
سیدھا سوال کر لیا. آپ سچ میں پروفیسر ہیں ؟؟؟ چہرے پے دنیا بھر کی معصومیت سجاے
اپنی کالی گہری بڑی بڑی آنکھوں سے وہ
پروفیسر مستنصرکو ہی دیکھ رہی تھی۔
کیوں...!! آپ کو کوئی شک ہے کیا ؟؟ جوابن اس نے مڑ کر شانزے کی کالی گہری بڑی بڑی
آنکھوں میں دیکھا.
نہیں میرا یہ مطلب نہیں تھا دراصل آپ.....
میں کیا ؟؟ وہ ابھی بھی اس کی آنکھوں میں دیکھ رہا تھا.
بہت ینگ ہوں ؟؟ یا ہنڈسم
ہوں ؟؟
اگر بغیر فیل ہوے پڑھا جائے تو انسان ینگ ایج میں پڑھ لیتا
ہے۔
اپنی ہنسی دباتے ہوے اس
نے شانزے کی بات کو کاٹتے ہوے کہا اور اگر اب بھی یقین نہیں ہے تو پھر ہم
ڈیپارٹمنٹ کورڈنیٹر کے پاس چلتے ہیں۔ ٹھیک ہے ؟؟ اب کی بار ایک ایک لفظ کافی چبا
کر کہا گیا تھا۔
نہیں سر۔۔۔ آئ ایم ریلی سوری۔۔ میرا یہ مطلب نہیں تھا۔
اب وہ واقعی شرمندہ نظر آرہی تھی۔
اوکے تو چلیں پھر۔۔۔ کہتا وہ آگے بڑھ گیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ کافی دیر سے کلاس کے باہرکھڑی تھی. پروفیسر مستنصر
اسے باہر کھڑا کر کے گئے تھے تاکہ آنے والے ہر سٹوڈنٹ کا نام وہ لکھ سکے ایسا کرنے
کی تائید بھی اس کو پروفیسر نے ہی کی تھی. وہ چاہتے تھے کے کوئی بھی سٹوڈنٹ کلاس
سے بنا اٹینڈنس کے نہ جائے. شانزے اپنا کام پوری ایمانداری سے کر رہی تھی. سب
سٹوڈنٹ آچکے تھے لہٰذا وہ کلاس میں داخل ہوی تاکہ پروفیسر کو انفارم کرسکے.
مے ای کم ان سر ؟؟ اس نے دروازے پے کھڑے ہو کے پوچھا..
یس کم ان.. ڈائیزکے پیچھے کھڑے ادھیڑ عمر شخض نے
اندرآنے کا اشارہ کرتے ہوے کہا. شانزے کے اندازے کے مطابق انہی پروفیسر ہونا چاہیے
تھا. وہ اپنی سوچوں میں گم ڈائیز تک آئ تھی.
جی بیٹا بولیے.. نہایت نرم لہجے میں دوبارہ پوچھا گیا
تھا.
جی مجے پروفیسر مستنصر سے ملنا ہے. شانزے نے جھجھکتے
ہوے کہا.
جی بولیے... اس آدمی نے دوبارہ کہا حد درجہ شیری لہجہ
تھا.
جی... وہ مجھے... مجھے پروفسسر مستنصر... سے بات کرنی
ہے... کافی اٹک اٹک کے اس نے دوبارہ اپنی بات دوہری تھی. شانزے کا سارا اعتماد
غائب ہو چکا تھا.
جی بیٹا میں ہی ہوں پروفیسر مستنصر...
پروفیسرنے اپنی مسکراہٹ کو دبایا تھا. شاید وہ سمجھ گئے
تھے کہ شانزے کسی مذاق کا حصہ بنی ہے لیکن وہ اس سے شرمندہ نہیں کرنا چاھتے تھے.
جب کہ ان کی بات سن کرشانزے کو لگا کہ وہ زمین پے گر
جائے گی یا پھر کلاس کی چھت اس کے اوپر گر جائے گی...
جب کہ پوری کلاس میں سے کھی کھی کی آوازیں آرہی تھی. شاید پروفیسرصاحب کا
ڈرتھا تبھی کوئی کھل کے کچھ کہنا سکا تھا.
سوری سر..!! مجھے کوئی غلط فہمی ہوی تھی... شانزے نے
مری مری آواز میں کہا.
ایٹس اوکے بیٹا اپ اپنی کلاس میں جا سکتی ہیں.
تھنک یو سر... وہ جانے کے لیے پلٹی ہی تھی کےشانزے کی
نظر اس پے پڑی. آخری رو میں چہرے پے گہری مسکراہٹ سجاے وہ چیئر پے بلکل ایسے
براجمان تھا جیسے کوئی بادشاہ اپنے تخت پے بیٹھا ہو. جب کے اپنی تمام تر توجہ سے
شانزے کو ہی دیکھ رہا تھا ایک آگ تھی جو شانزے کی آنکھوں میں جل رہی تھی. جب کے اس
کی آنکھوں میں تو شرارتوں کی قوس و قزح بھکری ہوی تھی. تبھی اس نے سر پے سلوٹ کے
انداز میں ہاتھ لگایا جیسے اپنی شاندار پرفورمنز پے داد وصول کرنا چاہ رہا ہو. جب
کے شنزا نے اس کہ جانے والی نظروں سے دیکھا.
-----------------------------------------------------------------------------------
ارے یار آج تو مزہ آگیا کیا بیوقوف بنایا ہے. رانیہ نے
چیر کھنچتے ہوے بولی.. شکل دیکھی تھی اس کی بس رونا باکی رہ گیا تھا. سوری سر مجھے
غلط فہمی ہوئی ہے شاید... محسن نے نکل اترنے والے انداز میں بولا. وہ سب اب کینٹین
میں بیٹھےشانزے کا مذاق اڑا رہے تھے.
بس ہو گیا تم سب کا.....؟؟؟ میں شرط جیت چکا ہوں...
تو اب شرط کے پیسے نکالو.... وہ بھی پورے دس ہزار....
مذاق نہیں ہے شرط جیتی ہے... وہ بڑے جوش
سے بولا تھا.
مانا پڑے گا تیرا ٹیلنٹ
کیسے تو نے اس کو بیوقوف بنایا... محسن نے اس کو پیسے دیتے ہوے بولا....
جبکہ شانزے اس کے پیچھے کھڑی ساکت ہو گئی تھی. جیسے کسی
نے اس کے کانوں میں سور پھونک دیا ہو. صرف چند ہزار روپیوں کے لیے ایسے اس کا مذاق
بنایا گیا تھا.
جبکہ وہ لوگ
پھر سے اس کا مذاق اڑا رہے تھے. تبھی رانیہ کی نظر شانزے پی پر اور وہ چپ
سی ہو گئی.. جب یوسف سو اب تک پیٹھ موڑے کھڑا تھا رانیہ کی نظروں کے تعاقب میں مڑا
اور ٹھٹھک گیا. یہ تو وہ جانتا تھا آج نہیں تو کل اس سے شنزا کا سامنا کرنا ہے پر
اتنی جلدی یہ اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا.
وہ دونوں ایک دوسرے کو
دیکھتے قریب آے.
سب سن لیا کیا ؟؟ اچھا سوری... شرط جتنی تھی یار یس لیے
وو سب کیا. یوسف نے جلتے ہوے انگاروں پی پانی ڈال تھا.
اور پلیز اب تم کوئی ماں بہن والا لیکچر مت سٹارٹ کر
دینا... اور پلیز رونا تو بلکل مت کیوں مجھے چپ کرانا نہیں آتا. اور لیکچر سنے کا
ابھی موڈ نہیں ہے.. یہ بس چھوٹا سا مذاق تھا... جانتا ہوں تم مجھ پے غصہ ہو اور
تھپڑ بھی مارنا چاہتی ہو.. رایٹ ؟ لیکن اس سب سے کیا ہو گا ؟؟ میں یہیں بیٹھا رہوں
گا.. چار لوگ اور جمع ہو جائیں گئے... وننگ منی واپس کرنی پڑے گی اور تمہاری انرجی
ویسٹ ہو گی تو پھر ایسا کرتے ہیں یہ پیسے بانٹ لیتے ہیں آدھے تمہارے اڈے میرے ٹھیک
ہے ؟؟ یوسف یس بات سے لا پرواہ کے شانزے نے ابھی تک ایک بھی لفظ نہیں بولا بولتا
جا رہا تھا.
ہان تم ٹھیک کہ رہے ہو ہم یونیورسٹی سٹوڈنٹ ہیں یہاں یہ
سب مذاق چلتا ہے. اور کسی کو کیا فرق پڑتا ہے یں سب سے سب کرتے ہیں. تبھی شانزے نے
بولا اور ساتھ ہی اپنی مٹھی میں بھری لال مرچیں یوسف کے من پے دے ماریں..
یوسف یس حملے کے لیے بلکل تیار نہیں تھا. یس لیے خود کو
سمبھال نہیں پایا لیکن مرچوں نے اب اپنا اثر دکھا دیا تھا تبھی رانیہ اور محسن
یوسف کی ہیلپ کو اگے بڑھے لیکن شانزے نے انہی اپنی دوسری مٹھی دکھا کرڈرایا جس میں
ابھی بھی مرچیں بھری تھی. جبکہ یوسف اپنی آنکھیں مسلنے میں مصروف تھا.. دیکھ لوں
گا میں تمہیں.. یوسف نے آنکھیں مسلتے ہوے کہا.
شوق سے پہلے آنکھیں تو کھول لو.... شانزے حسان نام ہے
میرا.... ڈھونڈنے میں آسانی ہو گی...
وو وہاں سے جا چکی تھی جب کے یوسف کے گروپ سمیت اس پاس
کھڑے سب لوگ حیران تھے..
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
Comments
Post a Comment