"افسانے کی حقیقی لڑکی"
تحریر "ابصار فاطمہ"
(مکمل ناول)
(اپنی زندگی کی افسانویت اور حقیقت میں پھنسی لڑکی جو کہیں نہ کہیں ہر لڑکی جیسی ہے۔)
***************
"جب تک ہم عورتیں اپنے حقوق کے لیئے آواز نہیں اٹھائیں گی کوئی ہمیں ہمارا حق نہیں دے گا بلکہ ممکن ہے کہ ہم سے سانس لینے کا حق بھی چھین لیا جائے"
معروف سماجی رہنما بختاور احمد کا عورتوں کے عالمی دن کے موقعے پہ تقریب کے شرکاء سے خطاب
اس نے یہاں تک خبر پڑھ کر تاسف سے سر ہلایا اور اخبار سائیڈ میں رکھ دیا۔
"کاش کوئی ان عورتوں کا سمجھا سکتا کہ عورت کی اصل بادشاہت تو اس کا گھر اور بچے ہوتے ہیں۔ نہ اپنا گھر سنبھلتا ہے نہ دوسروں کا بسنے دیتی ہیں"
اسے اس قسم کی مرد مار جنگجو ٹائپ عورتوں سے سخت چڑ تھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بسمہ نے سیاہ ناگن جیسی ساحر آنکھوں پہ آئی لائنر لگایا اور پلکیں جھپکا کر ان کے مناسب حد تک قاتلانہ ہونے کا یقین سا کیا۔ آنکھوں کی ہی طرح سیاہ گھٹاوں سے چمکیلے سلکی بالوں کو آج کلپ کی قید سے آزاد کھلا چھوڑا ہوا تھا۔ ریڈ ایمبرائڈڈ ڈزائینر کرتی کے ساتھ بلیک ٹراوزرز اور بلیک اینڈ ریڈ اسٹالر جو اس نے اسٹائل سے گلے کے گرد ڈالا ہوا تھا۔ ایک نظر خود کو دوبارہ آئینے میں دیکھ کر جلدی جلدی لپ اسٹک شائنر، ہیر برش اور باڈی اسپرے ہینڈ بیگ میں ڈالا نازک سے کالی سینڈل دودھیا پاوں میں پہنی اور دوپٹے سے ذرا بڑی کالی چادر پہن کر باہر نکل آئی۔ آج وہ بڑا دل لگا کے تیار ہوئی تھی تقریبا 3 ماہ سے اسکول کی سہیلیوں کے ساتھ مل کر فئیرویل پارٹی کی تیاریاں ہورہی تھیں اور خدا خدا کر کے وہ دن آہی گیا وہ بہت پرجوش ہو رہی تھی اسکول میں آخری دن "یادگار" بنانا چاہتی تھی۔
اس نے کلائی پہ بندھی گھڑی پہ ٹائم دیکھا تو احساس ہوا کہ وہ لیٹ ہورہی ہے جلدی سے باہر بھاگی تاکہ دو گھر بعد رہنے والی کلاس فیلو فائزہ کو لے اور بس جلدی سے اسکول پہنچ جائے۔
"اے بی بی یہ تم اسکول جارہی ہو کہ کا ولیمہ ہے تمہارےبھیا کا"
دادی کی آواز نے جلدی جلدی اٹھتے قدم روک دیئے۔
اس کا سر جھک گیا کچھ جواب دیئے بغیر آگے قدم بڑھا دیئے۔
"بسمہ یہ کیا بدتمیزی ہے؟ دادی کچھ کہہ رہی ہیں تم سے۔ یہ تمیز سیکھی ہے اب تک؟"
امی کی آواز میں کافی سختی تھی۔
"امی آج فئیرویل ہے آپ کو جب یہ سوٹ لا کے دکھایا تھا تب بتایا تھا نا کہ سب لڑکیاں گھر کے کپڑے پہن کے آئیں گی"
"اگر باقیوں کے اماں باوا اندھے ہوئے بیٹھے ہیں تو کیا ہم بھی ہوجائیں؟ ایک عزت ہوتی ہے تعلیمی ادارے کی شادی بیاہ کی تقریبوں کی طرح بن ٹھن کے نہیں جایا جاتا"
دادی کا غصہ مسلسل ساتویں آسمان پہ تھا۔
" پھر کیا کروں دادی کہیں تو بدل لوں مگر یونیفارم میں کوئی نہیں آئے گا سب مذاق آڑائیں گے۔"
اس نے بیچارگی سے کہا
"دیکھو! دیکھو ذراکیسے برابر سے جواب دے رہی ہے۔ ارے ہم کونسا جا رہے ہیں کہ پتا چلے کہ کتنے یونیفارم میں آئے ہیں۔ سارا وقت تو اس سرخی پوڈر میں لگا دیا اب چلی بھی جاو ہماری ناراضگی کا خیال ہوتا تو پہلے عمل کیا ہوتا۔ جاو بی بی جاو مگر یہ سن لو شریف گھرانوں کی لڑکیاں نامحرم لڑکوں کے سامنے ایسے چٹک مٹک نہیں دکھایا کرتیں۔"
اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے جلدی سے باہر نکل آئی پھر فائزہ کو لے کر رکشے میں بیٹھنے سے لیکر اسکول پہنچنے تک شرمندہ ہوتی رہی۔ اور سوچتی رہی دادی کا لہجہ سخت ضرور تھا مگر بات تو ٹھیک تھی۔ اسے بس دادی سے یہ شکایت تھی کہ کتنی ذرا سی بات پہ انہوں نے گھما پھرا کر کتنا بڑا الزام لگادیا کہ وہ لڑکوں کو دکھانے کے لیئے تیار ہوئی تھی۔ پھر خیال آیا کہ شاید دادی نے ٹھیک ہی تو کہا تھا۔ بس دادی پرانے اور بے لوث زمانوں کی ہیں تبھی لگی لپٹی کے بغیر سیدھی بات کی۔
ویسے بھی وہ کوئی فیشن کی شوقین لڑکی تو تھی نہیں بلکہ کلاس کی بہترین طلبہ میں سے تھی اور خوبصورتی میں تو اس کی ٹکر کا شاید کوئی بھی نہیں تھا۔ گھر سے تھوڑی سختی تھی اس لیئے عام دنوں میں سادہ ہی اسکول جاتی تھی مگر پھر بھی لڑکیاں تعریف کرتے نہ تھکتیں اور رہی سہی کسر ساتھ پڑھنے والے لڑکوں کی نظروں میں موجود ستائش پوری کر دیتی۔ مگر کسی کو بھی کبھی کچھ کہنے کی ہمت نہیں ہوئی کیونکہ سب اس کی مزاج سے ڈرتے تھے اور وہ اماں ابا اور دادی کے مزاج سے ڈرتی تھی۔
دادی تو پہلے ہی مخلوط ادارے میں تعلیم پہ راضی نہیں تھیں مگر امی کے میکے میں سب انگریزی اسکولوں میں تھے اسی لیئے امی کا کہنا تھا کہ بچوں میں کوئی احساس کمتری نہ رہ جائے۔
زیادہ بحث تب شروع ہوئی جب وہ آٹھویں کا امتحان دے کر نویں میں آئی تھی۔ دادی کا روز کہنا تھا بس اب لڑکی جوان ہوگئی اب اسے کسی لڑکیوں کے اسکول میں کراو زمانہ خراب ہے۔ اسے دادی کی اس بات کی کچھ سمجھ نہیں آتی کیونکہ جب اس نے ایک بار یہ کہنے کی کوشش کی کہ وہ اسکول نہیں بدلنا چاہتی تو دادی نے ہی ڈانٹ دیا کہ بڑوں کی باتوں میں بچے نہیں بولا کرتے۔ خیر نویں جماعت کا آغاز تو عام سا ہی تھا مگر کچھ عرصے سے دل میں عجیب عجیب سی امنگیں انگڑائیاں لینے لگی تھیں
2-
نویں جماعت کا آغاز تو عام سا ہی تھا مگر کچھ عرصے سے دل میں عجیب عجیب امنگیں انگڑائیاں لینے لگی تھیں۔ اپنے سے کم صورت لڑکیوں کو چپکے چپکے اپنے بوائے فرینڈز سے باتیں کرتی دیکھ کر دل جل جاتا۔ ڈائری میں علامہ اقبال کی ایمان جگاتی شاعری کہ جگہ وصی شاہ اور پروین شاکر کی جذبوں سے لبریز شاعری نے لے لی تھی۔ غالب اور فیض کبھی سمجھ نہیں آئے اور جون ایلیا کی شاعری شاعری ہی نہیں لگتی تھی عجیب سی باتوں والی۔ مطالعہ کا شوق بھی تھا مگر اب سبق آموز کہانیوں کی جگہ خواتین کے رسالوں اور رومانوی ناولز آگئے تھے جوکہ امی اور دادی سے چھپا چھپا کر پڑھنے پڑتے۔ کیونکہ شریک جرم کوئی نہیں تھا تو مدد بھی نہیں ملتی تھی۔ دونوں بہنیں بڑی تھیں اسماء اور بشرہ جن کی شادیاں میٹرک کے فورا بعد کردی گئی تھیں کیونکہ وہ بھی حسن میں یکتا اور سلیقے میں لاثانی تھیں۔ اسی لیئے آٹھویں سے ہی رشتے آنے لگے تھے۔ ایک سب سےبڑا بھائی تھا فہد اور ایک سب سے چھوٹا اسد جو اس سے بھی دو سال چھوٹا تھا۔ کہنے کو اسد سب سے چھوٹا تھا مگر رعب بڑے بھائیوں والا ہی جماتا تھا۔ ایک دفعہ غلطی سے فائزہ کے پاس سے ایک رسالہ لانے کو کہہ دیا رسالہ تو کیا لاتا جا کے بڑے بھیا کو بتا دیا۔ اور وہ جو بڑے بھیا کے آنکھیں دکھانے پہ ہی سہم جاتی تھی پہلے تو ان کی آندھی طوفان کی طرح کمرے میں آتا دیکھ کر ہی اسکا دل اچھل کے حلق میں آگیا۔
"ویسے ہی کوئی کم دماغ آسمان پہ نہیں ہیں تمہارے جو یہ لغویات پڑھ کے اور خراب کرنے ہیں۔ اس گھر میں پہلے کبھی کسی کو یہ فضول چیزیں پڑھتے دیکھا ہے تم نے؟"
اتنا سخت لہجہ تھا بڑے بھیا کا کہ کچھ دن تو اسے ڈائجسٹوں کے بارے میں سوچتے ہوئے بھی ڈر لگتا تھا۔ مگر دن گزرنے کے ساتھ ساتھ خوف کچھ کچھ کم ہو ہی گیا۔ اب سارا دھیان اس بات پہ تھا کہ رسالے پڑھ بھی لے اور کسی کو پتا بھی نہ چلے۔ پھر ایک طریقہ سوجھ ہی گیا اب مہینے کا "ایک ہفتہ" مخصوص کر لیا تھا۔ الماری میں چھپا رسالہ دوپٹے میں چھپا کر باتھ روم لے جاتی اور فارغ ہونے تک ایک چھوٹی موٹی کہانی تو ختم ہو ہی جاتی۔ امی اور دادی اس خفیہ کاروائی کو "وہ والی" سمجھ کے طرح دے جاتیں۔
کبھی کبھی بہت شرمندگی ہوتی تھی مگر ان کہانیوں سے عجیب سا نشہ اور ذہنی سکون ملتا تھا۔ جب اونچا لمبا سحر انگیز آواز والا ہیرو، ہیروئین کی آنکھوں میں جھانک کر دھیمے لہجے میں اظہار عشق کرتا تو اس کی سانسیں بھی تیز ہوجاتیں۔ کوئی ایک رومانوی کہانی پڑھنے کے بعد کئی دن اسی کے سحر میں رہتی تھی۔ اسی لیئے اسے بچھڑنے والی دردناک انجاموں والی کہانیاں بالکل پسند نہیں تھیں۔ وہ سب سے پہلے کہانی کا اختتام دیکھتی تھی اگر تو ہیروئین شرم سے سرخ ہورہی ہوتی ہیرو کا ہاتھ تھامے مستقبل کے سہانے سپنے دیکھ رہی ہوتی یا ہیرو کے چوڑے سینے پہ طمانیت سے سر رکھے ہوتی تبھی وہ کہانی شروع کرتی تھی۔
رات ہوتے ہی تکیہ ہیرو بن جاتا اور بسمہ ہیروئین پھر پسندیدہ کہانی کے رومینٹک حصے ری ٹیلیکاسٹ ہوتے۔ کبھی کبھی ہیرو کا سراپا چننے یا نام چننے میں ہی اتنی رات بیت جاتی کہ اسے جھنجھلاہٹ ہونے لگتی۔ پھر اس کا یہ مسئلہ بھی حل ہو گیا
میٹرک کی کلاسز شروع ہوئیں تو کلاس میں دو نیو ایڈمیشنز آئے۔ دونوں ہی لڑکے تھے اور ایکدوسرے کے بالکل الٹ ایک کو دیکھ کر تو ایسا لگتا تھا جیسے کسی بہت رومانوی ناول کے شوخ سے ہیرو کو "ایز اٹ از as it is" ناول سے نکال لیا ہو۔ سلکی بال ماتھے پہ بکھرے ہوئے تھے۔ کچھ کچھ نیلی آنکھیں، صاف کھلتا ہوا رنگ۔
دوسرا بس ٹھیک ہی تھا عام لڑکوں جیسا، سانولا سا رنگ، اچھے بچوں کی طرح چھوٹے چھوٹے کٹے ہوئے بال۔ اور ہیرو ٹائپ لڑکے کے سامنے تو اور عام سا لگ رہا تھا کیونکہ دونوں ایک ہی ڈیسک پہ ایکدوسرے سے لاتعلق سے بیٹھے تھے۔ ڈیشنگ سا لڑکا تھوڑا بے چین لگ رہا تھا اور ادھر ادھر دیکھ رہا تھا مگر کوئی اور ڈیسک خالی نہیں تھی۔ بسمہ کو اندازہ ہی نہیں ہوا کہ وہ کتنی دیر سے انہی دونوں کی طرف دیکھے جارہی ہے۔ اتفاقا ہیرو ٹائپ لڑکے کی نظریں بھی ادھر ہی اٹھیں۔ بسمہ سے نظریں ملیں تو وہ ہلکا سا مسکرایا اس کے گال پہ بہت خفیف سا ڈمپل پڑا بسمہ کو لگا اس کا دل گڑبڑ نہ کردے اس نے فورا نظریں ہٹا لیں اور برابر والے لڑکے کی طرف دیکھا اسی وقت اس نے بھی بسمہ کو دیکھا اور نظر انداز کرکے دوبارہ اپنے کام میں لگ گیا۔ بسمہ کو تھوڑا عجیب لگا لڑکے اتنی آسانی سے اسے نظر انداز نہیں کیا کرتے مگر کیا فرق پڑتا ہے اتنا عام سا تو ہے اس کی توجہ کسے چاہیئے۔
اسے وقت فائزہ نے اسے کہنی ماری
"بسمہ دیکھ کتنا زبردست لڑکا ہے" وہ سرگوشی کی کوشش کر رہی تھی جو کہ کافی بلند تھی۔
"ہوتا رہے مجھے کیا" وہ اپنے جذبات اپنی قریب ترین سہیلی سے بھی چھپا گئی۔
"اففو تم انتہائی ان رومینٹک ہو۔ مگر حیرت ہے اس نے بھی تمہیں گھاس نہیں ڈالی دیکھا ہی نہیں"
اس بات پہ بسمہ چونکی
"تم کس کی بات کر رہی ہو"
"یہی پھیکے شلجم کے برابر جو بیٹھا ہے فوجی کٹ بال اور کالی سحر انگیزآنکھیں"
"ہاہاہا یہ پاور پف گرلز کا بچھڑا ہوا بھائی تجھے زبردست لگ رہا ہے فائزہ تو اپنی نظر کسی اچھے سے ڈاکٹر سے ٹھیک سے چیک کرا لے۔"
فائزہ نے جواب دینے کے لیئے منہ کھولا مگر کلاس ٹیچر کے اندر آنے پہ سب کی توجہ ان کی طرف ہوگئی۔ کلاس ٹیچر نے اٹینڈنس لینی شروع کی مگر بسمہ کا دماغ کہیں اور ہی تھا وہ حیران تھی کہ خوبصورتی بھی لوگوں کے لیئے الگ الگ ہوتی ہے کیا؟؟؟؟
3-
ٹیچر کے اٹینڈینس شروع کرنے تک اس کا دماغ اسی بات پہ اٹکا رہا۔
*** کیا خوبصورتی بھی دیکھنے والوں کے لیئے الگ الگ ہوسکتی ہے؟****
اپنی اٹینڈینس لگوا کر بھی وہ اپنے خیال میں ہی مگن رہی۔ وہ تب چونکی جب ٹیچر نے دونوں لڑکوں کا کلاس سے تعرف کروانا شروع کیا۔
"اسٹوڈنٹس! آج سے آپ لوگوں کے دو ساتھی اور بڑھ گئے ہیں مجھے امید ہے کہ آپ سب ان کی ہر طرح مدد کریں گے اور انہیں کلاس میں اجنبیت محسوس نہیں ہونے دیں گے۔
ارمغان وقار خان اور محمد اسلم فرقان
welcome to our School
( ہمارے اسکول میں آپ کوخوش آمدید)"
ارمغان وقار خان واو ۔۔۔۔۔ اس نے دل میں سوچا جیسا دیکھنے میں ہے ویسا ہی رومانوی نام ہے۔
"ارمغان بیٹا آپ کل تک ہیئر کٹنگ کرالیں اسکول میں ایسے بال آلاوڈ نہیں ہیں۔"
" ٹیچر میں ایک دن میں اتنے بال کیسے بڑھا سکتا ہوں" عام سے لڑکے کے لہجے میں اعتماد اور تھوڑی شرارت دونوں تھی۔ اسے اندازہ ہوگیا کہ ٹیچر کو کوئی غلط فہمی ہوئی ہے۔ پھر شاید اسے احساس ہوا کہ ٹیچر سے مذاق مناسب نہیں تو فوراوضاحت کردی۔
"ٹیچر ارمغان وقار خان میرا نام ہے۔ اسلم فرقان ہوگا ان کا نام"
کلاس میں دبی دبی ہنسی کی آوازیں آنے لگیں اسلم بھی مسکرا دیا اور وہ دوبارہ اس کی مسکراہٹ سے دھیان ہٹانے کی کوشش کرنے لگی۔ اسے تھوڑا عجیب لگا۔ یعنی افسانوں اور حقیقت کی دنیا میں تھوڑا فرق ہوتا ہے؟ اسے یہ فرق پسند نہیں آیا۔ اسلم ہیرو کا نام کہاں ہوتا ہے یہ تو اردو گرامر کی مثالوں میں استعمال ہوتا ہے
اسلم آتا ہے
اسلم کتاب پڑھتا ہے
اسلم نے کتاب پڑھی تھی
اسلم کتاب پڑھے گا وغیرہ وغیرہ وغیرہ
اس کے سامنے گرامر کی کاپی گھوم گئی جس میں ہر ڈفینیشن کی مثال میں اسلم نام ضرور تھا۔
اف کتنا عام نام ہے اسے تو اسم معرفہ کی جگہ اسم نکرہ میں لکھنا چاہیئے۔ ٹیچر پڑھاتی رہی اور اس کا دماغ "اسلم" پہ اٹکا رہا۔
رات جیسے ہی وہ تکیہ لے کر لیٹی اسلم کا سراپا ناچاہتے ہوئے بھی ذہن میں آگیا۔ مگر جب جب تخیل میں اسلم کا نام آتا اس کے تخیل کی پرواز میں رکاوٹ محسوس ہوتی
*اسلم* نے بسمہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں
*اسلم* دلکشی سے مسکرایا تو بسمہ کے دل نے بیٹ مس کی۔
اف ۔۔۔۔۔۔ وہ تکیہ پٹخ کر بیٹھ گئی
اسلم کی کیوں رکھ دیا اس کے اماں ابا نے اس کا نام۔
وہ اپنی سوچوں کو محسوس کرنا چاہتی تھی مگر "اسلم" نام آتے ہیں احساس جیسے منجمد سے ہوجاتے۔
جو عام ہے اس کا نام بھی عام سا ہونا چاہیئے جو خاص ہے اس کا نام بھی خاص ہونا چاہیے بھلا بتاو ارمغان وقار خان کہیں سے ارمغان وقار خان لگتا ہے؟ وہ اسلم فرقان لگتا ہے عام سا اسم نکرہ جیسا۔
پھر اسے کچھ خیال آیا۔ کیوں نہ وہ ہی مسئلہ خود حل کرلے صرف امیجینیشن تک کی تو بات ہے۔ تو خاص والے کا خاص نام رکھ لے اور عام والے کا عام نام۔ اسے یہ آسان لگا کہ کوئی اور نام سوچنے کی بجائے یہی نام ادھر ادھر کردے۔ یعنی اس کے خیالوں میں اسلم ارمغان ہو اور ارمغان اسلم ہو۔
ایک دم اسے ہنسی آگئی۔
"دونوں بچاروں کو تو پتہ ہی نہیں کہ ان کے ناموں کے ساتھ کیا اٹھا پٹخ ہورہی ہے۔ اور پتا چلے گا بھی کیوں یہ تو بس ایسے ہی وقت گزاری کے لیئے ہے۔ میں کونسا اصل میں کسی سے عشق کر رہی ہوں میں کوئی عام لڑکیوں کی طرح بدکردار ہوں جو لڑکوں سے عشق کروں گی۔"
اس نے خود کو تسلی دی اور تکیہ لے کر لیٹ گئی۔ تھوڑا بہت جو احساس جرم یا احساس گناہ تھا وہ بھی ختم سا ہوگیا۔
اب وہ اپنا پلان چیک کرنا چاہتی تھی۔
"ہیلو ہیلو ٹیسٹنگ ہیلو۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ارمغان"
اس نے آنکھیں بند کر کے سوچوں کے پرندے اڑائے
اس نے دیکھا دور دو لڑکےپیٹھ موڑے کھڑے ہیں اس کی ارمغان کہہ کر پکارنے پہ ایک نے پلٹ کر دیکھا
اف۔۔۔۔۔ یہ والا نہیں یہ تو اصلی والا ہے کالا والا
اے مسٹر گورے والےاب تمہارا نام ارمغان ہے پلیز تم پلٹ کر دیکھنا۔
اس نے دوبارہ بہت جذبات کے ساتھ پکارا
"ارمغان"
اب کے دونوں نے پلٹ کر دیکھا اس نے زور سے آنکھیں میچیں اور سر کو دو تین دفعہ جھٹکا جیسے اصل والے کو دماغ سے جھاڑناچاہتی ہو
پھر ایک دو گہری سانسیں لیں
"بسمہ کونسنٹریٹ"
اس کا دل زرا زیادہ زور سے دھڑکنے لگا پھر دھیرے سے کہا "ارمغان"
اور پلٹ کے دیکھنے والا اسے دیکھ کر مسکرایا اور ڈمپل دیکھ کر اس کا دل چاہا زور سے یاہو کا نعرہ لگائے اس نے اپنے آپ کو شاباشی دی چلو جی تجربہ کامیاب ہوگیا۔
انہی خیالات میں اسے پتا ہی نہیں چلا کہ رات کتنی بیت گئی وہ سوچتے سوچتے سو گئی۔
4-
صبح الارم بجا تو سر نیند سے بوجھل ہورہا تھا۔ دل چاہا الارم اٹھا کے کہیں پھینک دے جہاں سے اس کی منحوس کرخت آواز نہ سنائی دے۔
افوہ یہ صبح صبح اسکول کیوں جانا پڑتا ہے۔۔۔۔ وہ آنکھیں بند کیئے سوچے جارہی تھی۔
اسکول کا وقت دوپہریا رات کا بھی تو ہوسکتا ہے
یا اگر اسکول ہوتے ہی نہیں۔۔۔۔۔۔؟
تو ۔۔۔۔۔ صبح صبح اٹھ کے سب کے لیئے پراٹھے بنانے ہوتے۔
آخری خیال نے اس کی آنکھیں پٹ سے کھول دیں۔
اللہ میاں آگے کنواں پیچھے کھائی جیسی زندگی کیوں ہے ہم لڑکیوں کی۔
اسے خیال آیا ہر اتوار اس کے دونوں بھائی نیند پوری کرتے جبکہ وہ "اگلےگھر" کی تیاری کے لیئے صبح صبح گول پراٹھےبناتی۔
وہ ایک لمبی منہ تھکا دینے والی جمائی لے کر اٹھ گئی۔
اسکول پہنچ کر بھی نیند اور کچھ رات کے خیالات کا غلبہ تھا اور طبعیت سست سی ہورہی تھی۔ کلاس میں داخل ہوتے ہی پہلی رو میں وہ نظرآیا۔ بلا وجہ ہی اپنائیت کا احساس ہوا۔ جیسے عرصے سے شناسائی ہو۔دماغ میں ایک نام لہرایا "ارمغان" پھر چونکی "اونہوں !اسلم ہے یہ" سر جھٹک کر بیگ سیٹ پہ رکھ دیا۔
اور پھر روز ہی رات کو خیالات میں وہی نام کا ادل بدل ہوتا اور صبح اس کا الٹا الٹا اثر۔ کبھی اسلم کی کاپی ارمغان کو پکڑا دیتی کبھی ٹیچر ارمغان کو بلاتیں تو اسلم کو بھیج دیتی۔
اس کے خیالات بھی رومانوی ناولز جیسے تھے جس میں ارمغان (اسلم) ایک خوبصورت مغرور لڑکا ہے جس پہ اسکول کی ساری لڑکیاں مرتی ہیں مگر وہ دل ہی دل میں بسمہ کو پسند کرتا ہے مگر سب کے سامنے اسے اگنور کرتا ہے۔ جبکہ اسلم (ارمغان) عام سا چھچھورا لڑکا ہے جو بسمہ سے بات کرنے کی کوشش میں لگا رہتا ہے ہر رات ایک شدید قسم کی ٹریجڈی کے بعد وجیہہ ارمغان اظہار عشق کرتا اور اسلم اپنا عام سا منہ لیئے رہ جاتا اور بسمہ شرم سے سرخ ہوجاتی اور اس کے بعد نیند آجاتی۔
کبھی ارمغان کوئی کروڑ پتی ہوتا اور بسمہ اس کے آفس میں جاب کرتی
کبھی کوئی وڈیرہ جس کا بسمہ سے زبردستی نکاح کردیا گیا ہوتا اور کبھی مغرور کزن جو سڑک پہ اس کی بے عزتی کردیتا یا تھپڑ مار دیتا کیونکہ وہ اس سے دل ہی دل میں محبت کرتا اور کسی دوسرے سے بات کرنا برداشت نا ہوتا۔
اس کی ہر تصوراتی کہانی میں ایک کردار "اسلم" کا بھی ہوتا جو بالکل عام سا ہے مگر ہیروئین(بسمہ) کی توجہ حاصل کرنے کے لیئے الٹی سیدھی حرکتیں کرتا ہے کبھی اس کا کردار مسخرے کا ہوتا کبھی ولن کا مگر ہمیشہ عام سا۔
وقت گزرتا جارہا تھا اور بسمہ کے دل میں اصلی اسلم کے لیئے اپنائیت بڑھتی جارہی تھی وہ اس کے اردگرد رہنے کی کوشش کرتی مگر بات کرنے سے گریز کرتی۔ اسے ڈر تھا کہ اگر وہ اسلم سے بات کرے گی تو سب کو پتا چل جائے گا کہ وہ رات کو کیا سوچتی ہے۔
اصل ارمغان اس کے لیئے اسلم تھا اور بسمہ کو اس سےبلاوجہ کی چڑ تھی۔
اس کا بلاوجہ دل چاہتا کہ اسلم کے بارے میں کسی سے باتیں کرے۔ مگر کیا؟ بس یہ سوچ کے رہ جاتی کہ سب کچھ تو اس کی سوچ میں تھا اسی لیئے کبھی اپنی قریب ترین دوستوں،فائزہ اور گل بانو سے بھی کچھ نہیں کہہ پائی۔ دوسرا مسئلہ یہ تھا کہ اسے پتا تھا کہ دونوں کا ردعمل کیا ہوگا۔ فائزہ نے تو فورا اظہار عشق کا مشورہ دے دینا ہے اور گل بانو نے ایک لمبا سا لیکچر عورت اور حیا پہ سنانا ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ اگر کوئی اور لڑکی اسے ایسا کچھ بتاتی تو وہ بھی شاید ایسا ہی کوئی لیکچر دیتی جس میں عموما باتیں امی اور دادی کی باتوں کا کاپی پیسٹ ہوتیں۔ وہ اور گل بانو خیالات میں کافی حد تک ایک جیسی تھیں۔ دونوں لڑکوں سے دور دور رہتی تھیں۔ لڑکوں کے اسکول میں ساتھ پڑھنے کے باوجود دونوں بہت ضروری بات ہی لڑکوں سے کرتی تھیں۔ دونوں کا بڑا سادوپٹہ کھول کے اوڑھا ہوتا اور سر پہ اسکارف بندھا ہوتا جو اسکول آنے سے لیکر چھٹی تک ٹس سے مس نہ ہوتا۔ انہیں ہر وقت یہ لگتا کہ ہر کوئی انہیں پرکھ رہا ہے ان کی حیا اور شرافت کا ترازو لے کر اور ان کی کوشش ہوتی کہ ہر ایک کے حیا اور شرافت کے معیار پہ وہ کسی نہ کسی طرح پورا اتریں۔ چاہے کچھ بھی کیوں نہ کرنا پڑے۔ اور اپنے انہی اصولوں کی وجہ سے بسمہ مزید الجھن کا شکار تھی۔ فائزہ البتہ ان دونوں سے کافی الگ تھی۔ جو دل میں
آیا منہ پہ بول دیا۔ دوپٹہ سر پہ لے کر نکلتی مگر کب وہ دوپٹہ سر سے اتر جاتا اسے فکر ہی نہیں ہوتی اور یونہی ننگے سر گھوم پھر کے آجاتی۔ گل بانو اور بسمہ ٹوک ٹوک کے آدھی ہو جاتیں، انہیں ڈر تھا کسی نے ان کے گھر پہ بتا دیا کہ وہ ایسی لڑکی سے دوستی رکھتی ہیں تو گھر والے دوستی نہ چھڑوا دیں۔ فائزہ دیکھنے میں ٹھیک ٹھاک ہی تھی مگر اس کے باوجود لڑکوں کو فاصلے پہ رکھتی ۔ اس کا رویہ بہت عجیب لگتا جیسے وہ لڑکی ہے ہی نہیں نہ لڑکوں سے شرماتی تھی نہ انہیں اپنے طرف متوجہ کرنے کے لیئے سطحی حرکتیں کرتی تھی۔ بلکہ کافی اعتماد سے بات کر لیتی تھی۔ ٹیچرجب بھی کوئی کام لڑکوں سے کروانے کو کہتی تو یہ دونوں فائزہ کو ہی آگے کردیتیں۔
گرمیوں کی چھٹیاں گزار کر دوبارہ اسکول شروع ہوا تو کئی دن تک لگاتار گل بانو آئی ہی نہیں فائزہ اور بسمہ دونوں اپنی اپنی چھٹیوں کی کارکردگی ایک دوسرے کو سنا کر اب گل بانو کا انتظار کر رہی تھیں کہ وہ آئے تو اپنی سنائی جاسکے اوراس کی سنی جاسکے۔ جب پورا ہفتہ گزر گیا تو انہوں نے فیصلہ کیا کہ چھٹی کے وقت آٹھویں جماعت میں اس کے کزن سے پوچھا جائے۔ فائزہ تو کب سے کہہ رہی تھی مگر بسمہ ہی روک دیتی تھی۔ کہ لوگ انہیں ایک لڑکے سے بات کرتا دیکھ کر پتا نہیں کیا سمجھیں ویسے بھی گل بانو چھٹیاں گزارنے گاؤں جاتی تھی اور دو تین دن دیر ہی سے اسکول آنا شروع کرتی تھی مگر پورا ہفتہ لیٹ کبھی نہیں ہوئی۔
چھٹی کی گھنٹی بجتے ہی دونوں کو اپنا ارادہ یاد آیا فائزہ جلدی جلدی اپنا بیگ بند کر رہی تھی جبکہ بسمہ اور سست ہوگئی"بسمہ جلدی کر وہ نکل جائے گا"
" یار اس سے پوچھنا ضروری ہے کیا۔ کلاس کی لڑکیاں دیکھ لیں گی تو پتا نہیں کیا سوچیں گی تجھے پتا ہے نا کتنی گندی سوچ ہے ان کی"
" بسمہ کسی کی گندی سوچ نہیں مجھے پتا ہے تجھے اپنے جلاد بھائی کا ڈر ہے جو گل بانو کے کزن کا کلاس فیلو ہے"
بسمہ نے آنکھیں بند کرکے لمبا سانس کھینچا۔
"ٹھیک ہے مگر تو بات کرنا"
"ہاں کرلوں گی تو چل تو سہی"
وہ دونوں جلدی جلدی راہداری کے قریبی کونے کی طرف چل دیں جس طرف کلرک آفس تھا۔ طلبہ عموما اس طرف سے نہیں آتے تھے مگر ان کی کلاس بالکل آخر میں تھی کلرک آفس کے ساتھ آج جلدی کی وجہ سے وہ طلبہ والے گیٹ کی بجائے اس طرف آگئیں۔ تاکہ گلبانو کے کزن سے پہلے ہی مین گیٹ تک پہنچ جائیں اور اس سے گل بانو کا پوچھ سکیں۔ یہ آئیڈیا بھی فائزہ کا ہی تھا ورنہ بسمہ ہرگز اتنے رش میں کسی لڑکے سے بات کرنے پہ راضی نہیں تھی۔ اسے مسلسل گھبراہٹ ہورہی تھی۔ حالانکہ اسے پتا تھا کہ فائزہ خود ہی بات کرلےگی۔
کلرک آفس کے سامنے سے گزر کر وہ جیسے ہی گراونڈ میں آئیں تو انہوں نے ایک مرد اور عورت کو ادھر اتے ہوئے دیکھا داخلہ یا فیس کے کاموں سے آنے والے عموما اسی رستے سے آتے تھے۔ مرد کوئی 45 یا 50 سال کا انکل ٹائپ تھا جبکہ عورت نے کچھ پرانے سے فیشن کا بڑا سا برقعہ بمعہ نقاب پہنا ہوا تھا تو اس کی عمر کا اندازہ تو نہیں ہوا مگر چال سے وہ کوئی جوان عورت لگ رہی تھی۔ انہوں نے نوٹ کیا کہ عورت ایکدم جلدی جلدی آگے آنے لگی کہ مرد بہت پیچھے رہ گیا۔ قریب آکر عورت نے نقاب ہٹایا ان دونوں کے منہ سے ایک ساتھ حیرت سے چیخ سی نکلی۔
"گل بانو"
5-
قریب آکر اس عورت نے نقاب ہٹایا تو حیرت سے ان دونوں کی چیخ نکل گئی
"گل بانو۔۔۔۔۔۔۔۔"
" کہاں تھی اتنے دن سے؟ یہ کیا ہوگیا تجھے اتنی کمزور کیوں ہورہی ہے۔ اور یہ اسکارف کی جگہ پورا شامیانہ کیوں پہنا ہوا ہے؟"
فائزہ کے سوالات کی رفتار سے اس کی بے چینی اور پریشانی صاف جھلک رہی تھی۔
گل بانو بہت عجیب سی لگ رہی تھی کمزور بھی اور اپنی عمر سے بڑی بھی۔
"ٹھیک ہوں یار۔ تم لوگ بتاو چھٹیاں کیسی گزریں۔"
ہمیشہ دھیمے لہجے میں بات کرنے والی گل بانو کا لہجہ آج بھی دھیمہ تھا مگر صرف دھیمہ نہیں تھا کچھ اور بھی تھا اس کے لہجے میں جو بسمہ کو محسوس ہوا مگر وہ سمجھ نہیں پائی۔
"چھٹیاں تو ٹھیک گزریں ۔۔۔تو پیر کو آئے گی تو آرام سے تفصیل بتائیں گے۔ مگر یار اس بار بہت زیادہ چھٹیاں کر لیں تونے پتا ہے فزکس اور میتھس کا اتنا سارا کام ہوگیا ہے انگلش کی ٹیچر بھی لکھوا لکھوا کے آدھا کر دیتی ہیں۔"
بسمہ کو فکر تھی کہ گل بانو کی پڑھائی کا کافی حرج ہوگیا ہے۔
"یار میں اب اسکول نہیں آوں گی۔ لیونگ سرٹیفکیٹ لینے آئی ہوں"
"بانو پاگل ہے کیا تو؟ آدھے سال میں اسکول بدل رہی ہے کہیں ایڈمیشن نہیں ملے گا۔" فائزہ اس اچانک انکشاف پہ حیران بھی تھی اور ناراض بھی۔
" کہیں اور ایڈمیشن نہیں لینا بس سرٹیفکیٹ لینا ہے"
"ہوا کیا ہے بانو یار ٹھیک سے بتا نا ایسے کوئی بیچ میں پڑھائی چھوڑی جاتی ہے کیا؟"
بسمہ تو کچھ ایسی ہکا بکا ہوئی کہ بول ہی نہیں پائی فائزہ ہی نے پوچھا۔
گل بانو نظریں چرانے لگی جیسے اسی سوال سے بچنا چاہ رہی تھی۔
"میرا نکاح ہوگیا ہے گاوں میں۔"
"واو یار! ہاو رومینٹک۔۔۔ بتایا کیوں نہیں چپکے چپکے شادی کر لی"
بسمہ سرپرائز قسم کی شادی کا سن کر ایکسائٹڈ ہوگئی۔اس کی دماغ میں ڈائجسٹ کی کہانیاں گھوم گئیں پہلے اچانک نکاح پھر خوبصورت سے گبرو ٹائپ شوہر سے کچھ ناراضگی کچھ مہینے نرمی گرمی اور پھر بہت سا رومینس۔ ساتھ ہی چند سیکنڈز کے لیئے معصوم سی گل بانو کے ساتھ ایک مضبوط جوان کا سراپا لہرایا جو شاید اس سے ذرا بڑا ہی ہو۔ کہانیوں میں بھی تو عموما ایسی سچویشن میں ہیرو تھوڑا بڑا ہوتا ہے 20 یا 22 سال کا روڈ مگر اصولوں کا پکا۔
مگر کہہ کر اسے احساس ہوا کہ وہ کتنا بے موقع بات کہہ گئی۔ فائزہ اسے غصے سے گھور رہی تھی جبکہ اصل شرمندگی اسے گل بانو کی نظروں سے ہوئی جن میں ناراضگی نہیں تھی عجیب سی بے چارگی تھی۔
فائزہ نے ہونٹ بھینچ لیئے پھر کچھ لحظہ رک کے تھوڑا دھیمے لہجے میں بولی
" یار مگر پڑھائی چھوڑنے کی تو ضرورت نہیں نا اس میں کیا مسئلہ ہے"
"نہیں یار ایک تو فی الحال میری کنڈیشن ایسی نہیں اور پھر "ان" کی بھی مرضی نہیں۔"
گل بانو نے جیسے "ان" کہہ کر پیچھے آتے مرد کی طرف اشارہ کیا تو ان دونوں کو احساس ہوا کہ وہ گل بانو کا شوہر ہے۔
"کیا ہوا ہے تجھے طبعیت ٹھیک ہے نا"
ان کا دماغ اس کے شوہر پہ بھی اٹکا مگر اس کا یہ کہنا کہ "کنڈیشن ایسی نہیں" زیادہ تشویش ناک تھا۔
"وہ یار!۔۔۔۔۔۔۔۔۔" گل بانو کہہ کر تھوڑا رکی پھر جیسے تھوڑی ہمت جمع کی۔
"میں پریگننٹ ہوں" گل بانو نے ایسے کہا جیسے خود بھی نا سننا چاہتی ہو۔
"اچھا انہیں دیر ہورہی ہے ہم درخواست دے آئیں۔"
وہ جلدی سے کہہ کرآگے بڑھ گئی
بسمہ کو اپنے جسم کے رونگٹے کھڑے ہوتے محسوس ہوئے۔ یہ لفظ اس کے اور اس کی عمر کی لڑکیوں کے لیئے کتنا ممنوعہ تھا اسے اچھی طرح اندازہ تھا۔ اسے لگ رہا تھا جیسے اس نے سن کے بھی کوئی غیر اخلاقی حرکت کی ہے۔ اسے سمجھ نہیں آیا کہ یہ سب اسے رومینٹک لگنا چاہیئے یا خوفناک۔
اس کی بچپن کی دوست جو یہ تک بتاتی تھی کہ گھر میں کس وقت کیا پکا اور کس کس نے نہیں کھایا اور کیوں نہیں کھایا وہ اپنی شادی کا ایسے سرسری سا بتا کے جاچکی تھی۔ وہ دونوں وہاں سن سی کھڑی رہ گئیں۔ پھر سر جھکا کر گیٹ کی طرف بڑھ گئیں دونوں کو ہی پتا تھا کہ دونوں کی آنکھوں میں آنسو ہیں۔
6-
رکشے میں بیٹھنے تک وہ دونوں بالکل خاموش ہی رہیں پھر بسمہ ہی بولی
"یار اس کا ہسبینڈ (شوہر) کتنا ایجڈ لگ رہا تھا نا؟"
"ہمم اور بانو کتنی بیمار اور کمزور لگ رہی تھی اور ناخوش بھی۔ اوپر سے تو بھی عجیب ہے کتنا بکواس کمنٹ کیا تھا" فائزہ نے غصے میں بسمہ کی نقل اتاری "واو ہاو رومینٹک۔۔۔۔ تو پاگل ہے کیا زبردستی کی شادی رومینٹک ہوتی ہے کیا؟"
"تجھے کیسے پتا کہ زبردستی کی شادی ہے" اپنے اوپر الزام آتا دیکھ کے بسمہ بھی تھوڑے جارحانہ موڈ میں آگئی۔
"ہاں واقعی زبردستی تھوڑی ہوئی ہوگی اس 50 سال کے بڈھے سے گل بانو کا چکر چل رہا تھا نا۔ بسمہ تو اتنی بچی ہے کیا۔ گل بانو کو نہیں جانتی وہ پڑھنا چاہتی تھی ایسے اچانک شادی کرے گی؟"
" تو فضول برے برے اندازے لگا رہی ہے کچھ ایسا ہوتا تو ہمیں ضرور بتاتی۔ ویسے بھی پڑھائی چھوڑنا کوئی اتنی بڑی بات تو نہیں نا بشرہ آپی کی شادی بھی میٹرک کے امتحانوں سے ایک مہینہ پہلے ہوئی تھی دولہا بھائی نے تو امتحان دینے کی اجازت بھی دے دی تھی بشرہ آپی خود ہی نہیں گئیں وہ تو بالکل سیٹ تھیں۔"
اسے خود بھی اپنے دلائل کھوکھلے لگ رہے تھے مگر یہی سب سے سنتی آئی تھی کہ لڑکی کے لیئے بس گھر بسنا ہی اہم ہوتا ہے۔
" بسمہ تیری بشرہ آپی سے کتنی بے تکلفی ہے؟ کتنی راز کی باتیں تم لوگ ایک دوسرے سے شئیر کرتے ہو؟"
"یار دوستی تو بالکل بھی نہیں دونوں ہی بڑی بہنیں مجھے ابھی تک چھوٹا سمجھتی ہیں جب بھی آتی ہیں امی اور دادی سے ہی کوئی باتیں کرتی رہتی ہیں میں ساتھ بیٹھتی ہوں تو امی کسی نا کسی بہانے سے اٹھا دیتی ہیں بقول دادی بیاہی لڑکیوں کی باتوں سے میرا کیا لینا دینا۔ مگر بات تو ان کے گھر میں خوش ہونے کی ہے نا وہ تو یہی بتاتی ہیں کہ وہ بہت خوش ہیں بلا وجہ جھوٹ تھوڑی بولیں گے؟"
"بسمہ جب پچھلے سال بائیولوجی کی ایک ڈائیگرام پہ میڈم نوشابہ نے تجھے بہت ڈانٹا تھا اور تیرا موڈ اگلے دن تک خراب تھا منہ اتنا سوجا ہوا تھا تربوز جیسا۔۔۔ گھر پہ کس کس کو بتایا تھا؟"
بسمہ اس بالکل لا تعلق بات پہ تھوڑا چڑ گئی "اب اس بات کا گل بانو کے مسئلے سے کیا تعلق"
"بتا تو"
"نہیں گھر پہ تو کسی نے پوچھا ہی نہیں کہ موڈ کیوں خراب ہے تم دونوں کو ہی بتایا تھا" پھر تھوڑا ہنسی۔ "بتایا کب تھا منہ اور پھولا لیا تھا تاکہ تم لوگ خود پوچھو "
"بالکل یہی مسئلہ ہے بسمہ ہم ہر کسی کو سب کچھ نہیں بتا سکتے بلکہ قریبی دوستوں سے یہ امید رکھتے ہیں کہ وہ ہمارے رویئے سے ہمارا مسئلہ سمجھ لیں۔ یہی سب میں نے بانو کے رویئے میں دیکھا تیرا کیا خیال ہے وہ دوسروں سے ملے گی تو یہ سب اداسی انہیں نظر آئے گی؟ نہیں بسمہ وہ چھپا جائے گی۔ "
بسمہ چپ رہ گئی۔ باقی کا سفر خاموشی میں ہی پورا ہوگیا۔
بسمہ گھر آئی تو بھی اس کی آنکھیں لال ہورہی تھیں کسی کو سلام کیئے بغیر سیدھی اپنے اور دادی کے مشترکہ کمرے میں گھس گئی۔ پیچھے سے دادی نے کچھ کہا مگر دماغ سن ہورہا تھا کچھ سمجھ نہیں آیابیگ رکھ کر تھکن زدہ انداز میں بیٹھ گئی اب اسے رونا نہیں آرہا تھا بس سوچیں تھیں جن کی یلغار ختم ہی نہیں ہورہی تھی ایکدم دروازہ کھلا تو وہ چونکی امی ناراض سی دروازے کے بیچ کھڑی تھیں۔
"بہری ہوگئی ہو کیا باہر سے دادی اور میں آوازیں دے رہے ہیں مجال ہے جو جواب دے جاو۔ جیسے جیسے بڑی ہورہی ہو مزاج ہی آسمان پہ پہنچ رہے ہیں۔ ہوا کیا ہے کس کی میت پہ سوگ منا رہی ہو؟"
اس کا مسئلہ پوچھنے کی بجائے امی نے پہلے ہی اچھی طرح عزت افزائی کردی۔ ان کا لہجہ ہمیشہ جیسا تھا پہلے تو اسے لگتا تھا سب امیاں ایسی ہی بات کرتی ہیں مگرآج یہی لہجہ بہت تکلیف دہ لگا۔ بہت اجنبیت بھرا،وہ کچھ بول ہی نہیں سکی۔
7-
ان کا لہجہ ہمیشہ جیسا تھا پہلے تو اسے لگتا تھا سب امیاں ایسی ہی بات کرتی ہیں مگر آج یہی لہجہ بہت تکلیف دہ لگا۔ بہت اجنبیت بھرا،وہ کچھ بول ہی نہیں سکی۔
"اب کچھ بتاو گی بھی کہ ماں یونہی کھڑی بکتی رہے"
" امی وہ گل بانو نے اسکول چھوڑ دیا ہے اس کی شادی ہوگئی ہے"
نا چاہتے ہوئے بھی اس کے آنسو بہنے لگے۔
" تو اس میں رونے کی کیا بات ہے اچھی بات ہے بچی وقت سے اپنے گھر کی ہوگئی۔"
امی اس کے جذبات سے بے پروا اپنی کہتی رہیں۔
"اچھا بس اٹھو منہ ہاتھ دھو کپڑے بدل کے کھانا کھاو۔ عجیب بچے ہیں آج کل کے اتنے نازک مزاج کہ ذرا ذرا سی بات پہ آنسو بہنے کو تیار رہتے ہیں۔"
امی بڑبڑاتی ہوئی باہر نکل گئیں۔ وہ تھکے تھکے قدموں سے اٹھی اور الماری سے کپڑےنکال کے غسل خانے میں بدلنے کے لیئے کمرے سے نکلی تو آوازوں سے اندازہ ہوا کہ امی دادی کو اسی بارے میں بتا رہی ہیں۔ امی نے پتا نہیں کیا کہا تھا جس کے جواب میں دادی کی بات زیادہ واضح سنائی دی۔
" ارے ہاں بڑا ظلم ہوا ہے بچی کے ساتھ وہ تو اب پیٹ سے ہے نا" آخری بات انہوں نے آواز دبا کے کرنے کی کوشش کی مگر وہ بھی خاصی بلند تھی۔
وہ ٹھٹھک کے رک گئی
"انہیں پہلے سے معلوم تھا؟ اور یہ بھی معلوم ہے؟"
دل شکستگی کا جو احساس اب ہوا پہلے کبھی نہیں ہوا۔
"انہیں پتا ہے کہ گل بانو میری بچپن کی سہیلی ہے اور کتنی گہری دوستی ہے یہ کم از کم مجھے اس کی شادی کا تو بتا سکتی تھیں۔ ان کی اخلاقیات ہماری دوستی سے بھی زیادہ اہم ہیں۔" پہلی بار اس کے دل میں باغیانہ خیالات ابھرنے لگے۔
"کیسی ماں ہیں یہ انہیں میرے جذبات کا ذرا سا احساس نہیں" وہ بہت مایوس سی ہوگئی ورنہ پہلے خود ہی امی اور دادی کے حق میں خود کو دلیلیں دے دیتی تھی مگر آج ان کے رویئے کے لیئے کوئی دلیل نہیں مل رہی تھی۔ اسے یہ خود ساختہ اخلاقیات بہت تکلیف دے رہی تھی۔
وہ بہت مایوس سی ہوگئی تھی۔ رات جب تکیہ لے کر لیٹی تو بھی بس یہی سوچیں تھیں نا ارمغان کا خیال چڑا سکا نا اسلم کا خیال چہرے پہ مسکراہٹ لا سکا۔
آج اسے سب کچھ بہت عجیب لگ رہا تھا جیسے آج وہ کسی الگ دنیا سے اس دنیا میں آئی ہو جیسے اصل زندگی وہ نا ہو جو وہ اب تک سمجھتی رہی تھی۔ اسے ہمیشہ ان مخصوص قسم کی باتوں سے دور رکھا گیا مگر اسی کے سامنے کئی بار امی اور دادی بہت کھلے تبصرے بھی کرتیں اور ڈانٹ اسے پڑتی کہ وہ یہ سب باتیں کیوں سن رہی ہے جبکہ اسے اندازہ بھی نہیں ہوپاتا کہ وہ لوگ کب کوئی ممنوعہ موضوع شروع کردیں گی ۔ اسکول میں بائیو کا ایک چیپٹر حذف کروادیا گیا تھا جو بعد میں ان دوستوں نے چھپ کے پڑھا تھا۔ اسے تب بھی سمجھ نہیں آئی تھی کہ اگر یہ غلط باتیں ہیں تو درسی کتاب میں کیوں ہیں اور اگر کام کی باتیں ہیں تو حذف کیوں کی گئیں۔ کسی استاد کی مدد کے بغیر وہ ٹاپک کچھ زیادہ سمجھ نہیں آیا تھا مگر جتنا سمجھ آیا اس میں اسے کوئی نامناسب بات نہیں لگی تھی۔ مگر وہ کسی سے پوچھ نہیں سکی تھی ہاں ان دوستوں نے آپس میں تھوڑا بات چیت کی مگر گل بانو اور بسمہ خود ہی کافی شرمندہ سی تھیں جبکہ فائزہ کا کہنا تھا کہ اس کی امی کالج میں زولوجی پڑھاتی ہیں وہ چاہیں تو ان سے یہ ٹاپک سمجھ سکتی ہیں۔ مگر گل بانو نے منع کردیا کہ جس چیز کو بڑوں نے منع کیا ہے کچھ سوچ کے ہی کیا ہوگا۔ اس وقت بسمہ کو گل بانو کی بات صحیح لگی تھی۔ مگر آج جو کچھ ہوا اس نے اسے نئے سرے سے جھنجھوڑ دیا تھا۔ ہم سے یہ سب چھپایا جاتا ہے کیونکہ ہم بچیاں ہیں مگر گل بانو یہ سب سہہ کر آئی ہے جبکہ وہ بھی ہماری جتنی ہی بچی ہے اور امی کے لیئے یہ سب کوئی عجیب بات نہیں تھی بلکہ کوئی بہت خوشی کی بات تھی۔ ایک کے بعد ایک سوچ ایسے آرہی تھی جیسے کمپیوٹر میں وائرس آگیا ہو۔
"مگر انہیں پتا کیسے چلا۔"
سوچتے سوچتے اس کا دماغ یہاں آکر اٹک گیا۔ وہ ممکنہ رابطے سوچنے لگی گل بانو کا گھر تو اس کے گھر سے کافی دور تھا اس کی اپنی برادری کے محلے میں پھر اسے یاد آیا ہاں اسماء آپی کی دیورانی کا میکہ اسی محلے کے قریب ہے اور ان کی ایک بہن میلاد پڑھنے قریبی محلوں میں جاتی ہیں پہلے بھی ایک دفعہ اسماء آپی نے گل بانو کے کسی ذات برادری کے جھگڑے کا امی کو بتایا تھا جو اس کی ساس کو دیورانی کی والدہ نے بتایا کیونکہ ان کی بیٹی میلاد میں سن کر آئی تھیں۔ اسے تب بھی حیرت ہوئی تھی کہ کسی دوسرے کے ذاتی معاملات کیا اتنے اہم ہوتے ہیں کہ بغیر کسی وجہ بس بات برائے بات ایک دوسرے کو بتائے جائیں؟ اسے یقین ہوگیا کہ اسی ذریعے سے گل بانو کی شادی اور پریگنینسی کی خبر بھی یہاں پہنچی ہوگی۔ وہ تفصیل جاننا چاہتی تھی مگر اسے پتا تھا کہ امی یا دادی اسے کچھ نہیں بتائیں گی۔ اس کا دماغ بار بار فائزہ کی بات پہ جارہا تھا
" تو پاگل ہے کیا! زبردستی کی شادی رومینٹک ہوتی ہے کیا؟"
صبح آنکھ کھلی تو سر میں شدید درد تھا اور جسم بالکل بے جان محسوس ہورہا تھا بستر سے نکل کر غسل خانے تک جانا مشکل لگ رہا تھا چکراتے ہوئے سر پہ ہاتھ رکھا تو اندازہ ہوا اس کا جسم بخار سےجل رہا تھا۔
8-
صبح آنکھ کھلی تو سر میں شدید درد تھا اور جسم بالکل بے جان محسوس ہورہا تھا بستر سے نکل کر غسل خانے تک جانا مشکل لگ رہا تھا چکراتے ہوئے سر پہ ہاتھ رکھا تو اندازہ ہوا اس کا جسم بخار سےجل رہا تھا۔
اسکول جانے کی ہمت تو کیا ہوتی جب بستر سے اٹھنا ہی مشکل لگ رہا تھا۔ سب سے پہلا خیال یہ آیا کہ اب تو امی کو پتا چل جائے گا کہ وہ واقعی پریشان ہے اور شاید وہ اپنے سخت رویئے پہ شرمندہ ہوں۔ اس نے تھوڑا سر گھما کے دیکھا دادی حسب معمول فجر کی نماز کے بعد تسبیح پڑھتے پڑھتے سوگئیں تھی۔ وہ اس کے اسکول جانے کے وقت عموما سو رہی ہوتی تھیں سب کے جانے کے بعد امی اپنے اور ان کے لیئے چائے نکالتیں تب ٹھیک سے جاگتی تھیں۔ وہ انتظار کرنے لگی کہ امی کو کب احساس ہو کہ وہ اسکول کے لیئے تیار ہونے نہیں اٹھی اسد ویسے تو ایک ہی اسکول جاتا تھا مگر اسے بھی پتا نہیں چلتا کہ بسمہ کب اسکول گئی کب نہیں جب سے اسے لگنے لگا تھا کہ وہ بڑا ہوگیا ہے اسے بسمہ کے ساتھ اسکول جانے میں شرمندگی ہوتی تھی۔ وہ اپنے کسی دوست کے ساتھ بائک پہ اسکول چلا جاتا تھا۔ وہ بلا وجہ ہی انتظار کرتی رہی کہ امی کب پریشان ہوکے اسے دیکھنے آئیں بخار اتنا تیز تھا کہ وہ آدھی سوئی جاگی سے کیفیت میں یہ بھی بھول گئی کہ آج اتوار تھا۔ کافی دیر بعد امی اپنی اور دادی کے چائے لے کر کمرے میں آئیں تو ان کی نظر بسمہ پہ پڑی جو اس وقت غنودگی میں تھی دیکھتے ہی اندازہ ہورہا تھا کہ اس کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے اس کا چہرہ تپتا ہوا محسوس ہورہا تھا اور خشک ہونٹ نیم وا تھے جس سے وہ گہرے سانس لے رہی تھی۔امی نے چائے کی کپ سائیڈ ٹیبل پہ رکھ کر پہلے دادی کو ہلایا۔
"اماں دیکھیں تو بسمہ کی طبیعت ٹھیک نہیں لگ رہی"
دادی ہڑبڑا کے اٹھیں "ہیں کیا ہوا رات تو بھلی چنگی سوئی تھی کل اسکول میں کوئی الا بلا کھا لی ہو گی یہ ملعون اسکول والے بھی پیسے کمانے کے لالچ میں سڑی بسی چیزیں بچوں کو کھلا دیتے ہیں۔"
"بسمہ !بسمہ اٹھو بیٹا " امی نے اس کا بازو ہلایا تو اس نے بہ مشکل آنکھیں کھولیں۔
"اٹھو گڑیا! تھوڑا ناشتہ کرو تو دوا کھلاوں دیکھو کتنا تیز بخار ہورہا ہے"
امی نے کلی کروا کے چائے ڈبل روٹی دی مگر اس سے وہ بھی نہیں کھائی گئی وہ دوا کھا کے دوبارہ لیٹ گئی۔ اس کی آنکھ دوبارہ کھلی جب امی نے اٹھایا کہ فائزہ کا فون آیا ہے اسے اندازہ ہوا کہ وہ چار پانچ گھنٹے سو لی تھی۔ چہرہ اور جسم پسینے سے بھیگ رہا تھا البتہ سر میں ابھی بھی درد ہورہا تھا۔ دادی معمول کے مطابق باہر لاونج میں بیٹھی تھیں۔ امی موبائل پکڑا کر دوبارہ باہر کام کرنے کے لیئے چلی گئیں۔
اس نے نقاہت بھری آواز میں کہا "ہیلو! آگئیں اسکول سے؟ " دوسری طرف سے فائزہ کی حیرت بھری آواز آئی۔
"کیاہوگیا ؟ بخار دماغ پہ چڑھ گیا ہے کیا؟ اتوار ہے آج ۔آج بھی بھیج دے مجھے اسکول رحم کر یار تھوڑا۔ اچھا سن میں نے کال اسلیئے کی تھی کہ فزکس کا کل والا ٹاپک پوچھنا تھا میری لاسٹ کی کچھ لائنز رہ گئی تھیں ابھی آنٹی نے بتایا کہ تجھے بخار ہورہا ہے۔ کیا ہوگیا گرمی لگ گئی کیا؟"
فائزہ کافی نارمل لگ رہی تھی جیسے کل والی بات بھول گئی ہو یا اسے پروا نا ہو۔
"پتا نہیں یار ابھی ڈاکٹر کو تو نہیں دکھایا بس امی نے دو پیناڈول کھلا دی تھیں۔ اب تو کم لگ رہا ہے بخار۔ مگر یار ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔" وہ تھوڑا رکی "فائزہ یار میں رات دیر تک گل بانو کے بارے میں سوچتی رہی تمہیں پتا ہے امی اور دادی کو پہلے سے اس کی شادی کا پتا تھا اور پریگنینسی کا بھی۔"
"ہاں یار میں بھی کل یہی سوچ رہی تھی امی کو بتایا تو انہیں بھی افسوس ہوا, امی بتا رہی تھیں کہ اس عمر میں تو شادی کروانا جرم ہے۔ سچی پہلے پتا ہوتا تو اس کے بڈھے ہسبینڈ کو پولیس سےپکڑوا دیتی۔ تجھے پتا ہے میں اتنا روئی امی کے سامنے۔ شکر ہے بسمہ یار میرے امی پاپا ایسے نہیں ہیں وہ کبھی میری شادی پڑھائی ختم ہونے سے پہلے نہیں کریں گے۔"
اور بسمہ کو چند لمحوں میں احساس ہوگیا کہ اس کا اصل صدمہ اور خوف کیا تھا۔ دوسری طرف فائزہ اپنی بات کیے جارہی تھی۔
"ہاں یہ تو بتا تو کہہ رہی تھی کہ آنٹی والوں کو پتا تھا تونے پوچھا نہیں کہ انہیں کس نے بتایا۔اس بار بھی سیماء آپی کی دیورانی والوں سے پتا چلا کیا؟"
" ہاں مجھے بھی یہی لگ رہا ہے۔تجھے پتا تو ہے کہ امی مجھے ایسی باتیں نہیں بتاتیں۔"
"شادی کا بتانے میں تو کچھ ایسا نہیں جو چھپایا جائے مجھے لگ رہا ہے مسئلہ کچھ اور ہے۔ دیکھ نا شادی پہلے سے طے ہوتی تو بانو ہمیں خود ہی بتا دیتی یہ اتنی جلدی میں اور چپکے سے شادی کچھ سمجھ نہیں آرہا مجھے بہت مسئلہ لگ رہا ہے۔مجھے لگ رہا ہے اسے خود بھی نہیں پتا تھا۔ ایسا کرتے ہیں شام میں امی کے ساتھ چکر لگاتی ہوں تیری طبیعت دیکھنے کا کہہ کر۔ باتوں میں امی کو تو بتا ہی دیں گی وہ لوگ۔"
فون بند کرتے ہی بسمہ شام کا انتظار کرنے لگی۔ بخار تو اتر گیا تھا مگر ابھی بھی نقاہت اور کمزوری کافی ہورہی تھی۔ کچھ کھایا پیا ہی نہیں جارہا تھا
امی دو بار ڈبل روٹی دودھ کے ساتھ کھلانے کی کوشش کر چکی تھیں اور ساتھ ہی جھنجھلا بھی رہی تھیں۔ دادی کی بڑبڑاہٹ بھی ساتھ جاری تھی۔ "لو یہ آج کل کے بچے ذرا دم نہیں ہے۔ ان کی عمر میں ہم تو پیٹ سے ہو کر بھی سب کام کرتے تھے۔ فجر ہوتے ہی ساس مرحومہ بستر سے کھڑا کر دیتیں کہ شریف گھرانوں کی بہوئیں دن چڑھے تک کمروں میں نہیں رہتیں۔ اب حالی ہو بیماری ہو مرحومہ دوبارہ کمرے میں نہیں جانے دیتی تھیں ایسے نخرے ہمارے اٹھائے گئے ہوتے تو پل گئے تھے بچے۔"
وہ دادی کی باتیں سن سن کر کڑھتی رہی وہ اپنی ساس کے رویئے کا سگی ماں سے مقابلہ کر رہی تھیں ۔ اسے امید ہوئی شاید امی اس کی حمایت میں بولیں گی۔ صبح سے لہجہ بھی تھوڑا نرم ہی تھا۔
امی برتن اٹھا کر جانے لگیں دادی بھی پیچھے پیچھے نکلیں
"بہو تم نے لاڈ پیار کر کے نازک بنا دیا ہے چلو لڑکے تو ہوتے ہیں نخرے والے، نہ انہیں پرائے گھر جانا ہے مگر لڑکی ذات کا تو بڑا خیال رکھنا پڑتا ہے پرائے گھر میں کون سے اماں باوا ہونگے جو ایسے نخرے سہیں"
" اماں آپ خود دیکھ رہی ہیں میں کیا کروں آج کل کی اولاد ہی بے حس ہوگئی ہے تو کیا کیا جائے۔ خود دیکھ رہی ہے کہ ماں صبح سے رات تک کام میں لگی ہوتی ہے ایسے میں بیماری کے نخرے بھی اٹھانے پڑتے ہیں۔ اور ہم خود بیمار ہو جائیں تو کوئی پانی کو بھی نہیں پوچھتا بس ہر ایک کو اسکول آفس سے آکر سب تیار چاہیئے جیسے ماں تو انسان ہی نہیں۔ "
اسے دکھ اور شرمندگی کے احساس نے ایک ساتھ گھیر لیا۔ اسے شدید رونا آیا "کیا وہ جان بوجھ کے بیمار ہوئی ہے؟"
وہ اپنا دھیان ہٹانے کے لیئے فائزہ اور اس کی امی کے آنے کا سوچنے لگی وہ آئیں تو گل بانو کے معاملے کی تفصیل پتا چلے۔ اب اسے خود بھی لگ رہا تھا کہ کچھ زیادہ سنجیدہ مسئلہ ہے۔
9-
شام میں تقریبا 6 بجے کے بعد فائزہ اپنی امی (نفیس آنٹی جنہیں محلے میں میڈم نفیس کے نام سے پکارا جاتا تھا) کے ساتھ آئی۔ نفیس آنٹی اس کے لیئے جوس اور پھل بھی لے کر آئی تھیں۔
وہ نکل کر باہر لاونج میں آئی تو آنٹی نے آگے بڑھ کر غیر محسوس انداز میں اسےسہارا دیا۔
"ارے واہ بسمہ بیٹا آپ تو بہت بہادر ہیں میں تو بیمار پڑ جاوں تو بستر کی جان نہیں چھوڑتی"
یہ جملہ اگر اس کے سامنے کسی اور کو کہا جاتا تو وہ نفیس آنٹی کی بچکانہ بات پہ دل میں بہت ہنستی مگر اس وقت اسے یہ سن کر کتنا اچھا لگا یہ وہی جان سکتی تھی۔ ایسا لگا ساری کمزوری صرف رویوں کی تھی جو ذراسی شفقت ملنے پہ گم ہوگئی۔ اسے واقعی لگا کہ اس نے کوئی بہادری کا کام کیا ہے جو ٹارزن اور ہرکولیس بھی نا کر پائے ہوں۔
وہ اور فائزہ وہیں قریب کے صوفے پہ بیٹھ گئیں۔
"اور بھئی اسٹرونگ گرل (مضبوط لڑکی) اتوار کی بجائے پیر کو بخار چڑھانا تھا نا، چھٹی کرنے کا مزا بھی آتا۔" ان کی بات پہ بسمہ بے ساختہ مسکرا دی۔
"ارے بخار وخار کیا ہونا ہے بس دوست کی اچانک شادی کو دل سے لگا لیا ہے۔ آخر کو بچپن کا ساتھ ہے ہماری بچی ویسے بھی محبت کرنے والی بچی ہے اپنے پرائے کی تکلیف پہ پریشان ہوجاتی ہے۔"
یہ دادی تھیں۔
"کاش دادی یہ بات آپ نے مجھ سے کہی ہوتی۔ آپ کو نہیں پتا کہ اتنا سا خیال اور توجہ کتنی ہمت دیتا ہے۔" وہ صرف سوچ کے رہ گئی۔ پتا نہیں امی اور دادی کی اصل سوچ کیا ہے ابھی والی یا پہلے والی۔
"ویسے بھابھی بچاری بچی کے ساتھ ظلم بھی بہت ہوا ہے " توقع کے مطابق امی بغیر کسی محنت کے تفصیل بتانے کے لیئے ریڈی تھیں۔ حسب عادت انہوں نے نفیس آنٹی کو بھابھی کہا جبکہ فائزہ آنٹی کی سب سے بڑی بیٹی تھی اور آنٹی بھی ینگ ہی لگتی تھیں۔ مگر امی کے بقول ان کی شادی جلدی ہوگئی اسی لیئے بچے بڑے ورنہ تو وہ ابھی جوان ہیں۔ اور نفیس آنٹی سے کافی چھوٹی بھی۔ بلکہ امی تو محلے کی عموما شادی شدہ خواتین کو بھابھی کہتی تھیں بھلے ان کے بچے اسد سے چھوٹے ہی کیوں نا ہوں۔ ہاں کچھ خواتین جواب میں امی کو خالہ کہہ کر حساب چکا دیتی تھیں
بسمہ کل سے اپنے دماغ میں ابل ابل کر آنے والی سوچوں سے پریشان تھی۔ آج بھی امی کے بھابھی کہنے پہ پتا نہیں کہاں تک چلا گیا اس نے سر جھٹک کر امی کی بات پہ دھیان دیا۔
"ہمیں تو پچھلے مہینے سیما نے بتایا سچ اتنا دکھ ہوا کیسی چھوٹی سی بچی کے ساتھ ایسا ظلم کردیا۔اس کی دیورانی کی بہن جاتی ہے نا میلاد پڑھنے اسی سے پتا چلی سب تفصیل۔"
"تو اتنی جلدی میں شادی کرنے کی کیا ضرورت پڑ گئی تھی کچھ مہینے انتظار کر لیتے بچی میٹرک تو پورا کر لیتی۔ ایسے بیچ میں پڑھائی چھڑوائی"
"ارے بھائی کے کرتوت بھگت رہی ہے بچاری، سیما بتا رہی تھی گل بانو کے بھائی نے گاوں کی دوسری برادری کی لڑکی سے بھاگ کر شادی کر لی ہے بلکہ خدا جانے کی بھی ہے یا۔۔۔۔۔۔ بھئی انہیں شریعت کا کیا پتا کلمہ بھی آ جائے تو بڑی بات ہے۔ خیر اب وہ دونوں تو روپوش ہیں جرگے نے عوض میں پانچ لاکھ جرمانہ اور گل بانو کا نکاح لڑکی کے چاچا سے کرنے کا فیصلہ دیا۔ مجھے تو سوچ سوچ کے ایسا ترس آتا ہے بچی پہ ایسی پیاری سلجھی ہوئی بچی نمازروزے کی پابند بس بھابھی کیسے گنوار لوگ ہوتے ہیں یہ گاوں والے بھی۔ "
امی کے لہجے میں درد ہی درد تھا جو کل کہیں بھی محسوس نہیں ہوا۔ کل تک ان کے لیئے شادی ٹھیک تھی۔
اب دادی نے تفصیل کا چارج سنبھالا " بس نا پوچھو مجھے تو بتاتے شرم آ رہی ہے تین دن بچی اسپتال رہ کر آئی ایسا حال کیا ظالم نے پہلی رات"
بسمہ کا دماغ سائیں سائیں کرنے لگا اس کا شدت سے دل چاہا کہ اس کا مطلب وہ نا ہو جو اسے لگ رہا ہے مگر نفیس آنٹی کی بات نے اس کے شک پہ یقین کی مہر لگا دی۔
"خالا یہی مسئلہ ہے ہمارا، ہم قانون کو صرف تب مانتے ہیں جب اپنا مفاد ہو ورنہ سب کو پتا ہے کہ کم عمری کی شادی جرم بھی ہے اور خطرناک بھی۔ ہم اپنے ہاتھوں سے اپنی بچیوں کو مرنے کے لیئے بھیج دیتے ہیں ورنہ اس عمر میں بچی کا جسم بہت نازک ہوتا ہے ازدواجی تعلقات اور حمل کے لیئے۔"
نفیس بیٹا برا نہیں ماننا ہم اپنی بچیوں کے سامنے ایسی باتیں نہیں کرتے۔ تبھی ہماری بچیاں ابھی تک اتنی معصوم ہیں۔ زمانے کی ہوا تک نہیں لگنے دیتے ہم انہیں۔"
دادی کو ایکدم اخلاقیات یاد آگئیں۔
معافی چاہتی ہوں خالہ۔ مگر واقعی افسوس بہت ہوا اس کا حال سن کر۔ چلیں بسمہ بیٹا آپ آرام کریں ہم چلتے ہیں۔ فائزہ بیٹا بسمہ کو اس کے روم تک چھوڑ آو بچی بیٹھے بیٹھےتھک گئی ہوگی۔"
آنٹی کہتے ہوئے کھڑی ہوگئیں۔ دادی نے بے مروتی کا مزید مظاہرہ کیااور اپنا پاندان کھول کے بلاوجہ اس میں مگن ہوگئیں۔
بسمہ شرمندہ سی فائزہ کے ساتھ روم میں آگئی۔
"فائزہ سوری یار دادی بس جو منہ میں آتا ہے بول دیتی ہیں تم میری طرف سے آنٹی سے معذرت کرلینا۔"
"کوئی بات نہیں یار ہمیں پتا ہے ان کی عادت کا دوسرا امی کیونکہ روز یہ موضوع کالج میں پڑھائی ہیں تو انہیں یہ اتنا عجیب نہیں لگتا جتنا عموما خواتین کو لگتا ہے امی کے بقول ایسی باتوں میں ذومعنی اصطلاحات بات کو زیادہ نامناسب بنا دیتی ہیں۔ "فائزہ ہلکے سے ہنسی۔ " چل بس تو آرام کر کل اسکول میں ملتے ہیں "
بسمہ بستر پہ بیٹھی اسے جاتا دیکھتی رہی پھر تھکن زدہ انداز میں لیٹ گئی۔ وہ سوچنے لگی آنٹی نے ایسی کونسی ناموزوں بات کردی جو دادی نے نہیں کی تھی صرف الفاظ کا ہی تو فرق تھا بات تو ایک ہی تھی نا۔ بس مختلف بات تو یہ تھی کہ بچیوں کی کم عمری میں شادی نہیں کرنی چاہیئے تو کیا یہ بات دادی کے لیئے غیر اخلاقی تھی؟؟؟ اور اگر گل بانو اسی وجہ سے اسپتال میں داخل ہوئی تھی تو مطلب آنٹی کا موقف ٹھیک تھا۔ مگر ایسا کیسے ہوسکتا ہے یہ تو بہت نازک اور رومانوی رشتہ ہے دادی نے یا تو کسی اور حوالے سے کہا ہوگا جسے آنٹی نے یہ معنی پہنا دیئے۔ وہ تو زولوجی کی ٹیچر ہیں انہیں ٹھیک سے نہیں پتا کیا۔
10-
اسے یونہی خیال آیا کہ دادی کو تو ویسے بھی نفیس آنٹی پسند نہیں تھیں۔
اس کی ان کے پاس ایک بہت مضبوط وجہ تھی وہ یہ کہ وہ باہر مردوں کے ساتھ کام کر کے پیسے کماتی ہیں۔ دادی کے مطابق عزت دار عورت بھوکی مرجاتی ہے مگر خود کو مردوں میں لے جاکر ذلیل نہیں کرتی۔ ان کے خیال میں باہر نکل کر کام کرنے والی عورتیں صرف مردوں سے بات کرنے کے شوق میں گھر سے باہر نکلتی ہیں۔ بسمہ بھی دادی کی باتوں پہ آنکھیں بند کرکے یقین کرتی تھی مگر اس کے باوجود نفیس آنٹی سے مل کر اسے ہمیشہ بہت اچھا لگتا تھا۔ وہ ہمیشہ فائزہ سے بہت نرم لہجے میں بات کرتی تھیں دادی کے بقول اسی نرمی نے فائزہ کو بگاڑ دیا ہے لڑکیوں والی حیا شرم تو ہے ہی نہیں اس میں بے نتھا بیل بن گئی ہے۔ جبکہ امی کا خیال تھا کہ یہ صرف دکھاوا اور منافقت ہے ہر ماں اپنی اولاد سے ایسے ہی بات کرتی جیسے امی کرتی ہیں کچھ مائیں دوسروں کے سامنے منافقت دکھاتی ہیں جو امی کو نہیں آتی کرنی۔
پہلے کبھی اس نے ان باتوں پہ غور ہی نہیں کیا بس جو اور جیسا دادی اور امی نے کہہ دیا اس نے مان لیا۔ اب اسے حیرت ہورہی تھی کہ وہی باتیں الگ زاویئے سے نظر آرہی تھیں جن پہلووں پہ اس نے کبھی غور نہیں کیا آج اسے اندازہ ہو رہا تھا کہ وہ بھی سامنے کی ہی باتیں تھیں جنہیں وہ نظر انداز کرتی رہی۔ اس نے نفیس آنٹی کو کبھی برقعہ پہنے نہیں دیکھا جس پہ امی اور دادی دوسری محلے کی عورتوں کے ساتھ ان مل کے خوب باتیں بھی بناتی تھیں مگر محلے کے تقاریب میں نفیس آنٹی کا لباس امی اور ان دوسری تمام عورتوں سے زیادہ شائستہ ہی ہوا کرتا۔ وہ امی کی طرح خوبصورت نہیں تھیں مگر ان کی خود اعتمادی ان کی کم صورتی پہ حاوی رہتی۔ جبکہ امی کی کوشش ہوتی کہ جب وہ خوبصورت ہیں تو ہر تقریب میں وہی چمکتی نظر آئیں۔ ہر تقریب میں جاتے ہوئے انہیں لگتا کہ آج تو ان کی تیاری نفیس آنٹی کو جلا دے گی مگر کبھی ایسا نہیں ہوا۔ پتا نہیں کیسا مقابلہ تھا یہ یک طرفہ۔ امی کا وزن عمر کے ساتھ بڑھ رہا تھا مگر ان کی کوشش ہوتی کہ کپڑوں کا ناپ وہی پرانا رہے وہ پڑوس کی عورتوں میں بیٹھ کے فخر سے کہتی تھیں کہ بچے جوان ہوگئے مگر ان کا اور ان کی بڑی بیٹی کے کپڑوں کا ایک ناپ ہے۔ جو فرق نفیس آنٹی اور امی کی ڈریسنگ میں تھا وہی اس کی اور فائزہ کی ڈریسنگ میں تھا۔ ویسے فائزہ ہر جگہ سادہ دوپٹہ اوڑھ کے جاتی وہ بھی کبھی سر پہ کبھی گلے میں مگر ہمیشہ سادے کپڑے ہوتے چاہے کوئی تقریب ہی کیوں نا ہومگر بسمہ کو امی باہر جاتے میں بار بار ٹوک کے دوپٹہ اور اسکارف سر پہ رہنے کی تاکید کرتیں مگر شادیوں میں کبھی اسکارف نہیں پہننے دیتی تھیں۔ پچھلی ایک دو شادیوں میں تو پارلر سے ہیئر اسٹائل بھی بنوایا تھا۔
بسمہ سوچے جارہی تھی اور سوچیں تھیں کہ ختم ہی نہیں ہورہی تھیں۔ بس گل بانو کی طرف دھیان جا بھی رہا تھا تو وہ خود سے جھٹک دیتی تھی۔ رات کے کھانے تک اسے اپنی طبیعت کافی بہتر محسوس ہونے لگی تھی۔ مگر اب بھی چلتے میں یا کوئی کام کرنے میں ہاتھ کانپتے محسوس ہورہے تھے۔ مگر کھانا کھا کے وہ برتن دھونے کھڑی ہوگئی دماغ پہ ایک دھن سی سوار ہوگئی تھی کہ دادی اور امی کو دکھانا ہے کہ وہ نا تو کمزور ہے نا بے حس۔ برتن دھوتے میں دو بار وہ تھک کر بیٹھ گئی مگر تھوڑا سستا کر دوبارہ کام میں لگ گئی اور برتن پورے کر کے ہی چھوڑے۔ آہستہ آہستہ صبح کے لیئے یونیفارم پہ استری کی۔ یہ سب کر کے ہی اتنی تھکن ہوگئی کہ وہ بستر پہ لیٹتے ہی سو گئی۔
اگلی صبح سے سب پہلے جیسا روٹین تھا۔ وہ فائزہ سے گل بانو کے بارے میں بات ہی نہیں کر رہی تھی۔ وہ میاں بیوی کے رشتے کی نزاکت اور رومانویت برقرار رکھنا چاہتی اسے ڈر تھا کہ اس نے تفصیل سے بات کی تو یہ سب ختم ہوجائے گا وہ چاہتی تھی کہ دادی کی بات کامطلب وہ رہے جو وہ سمجھنا چاہتی ہے وہ نا ہو جو نفیس آنٹی نے بتایا۔ یہ کوئی اتنی سی بات نہیں تھی اس کے تصورات کی افسانوی دنیا کا دارومدار اسی نازک رومانوی تعلق پہ تھا۔ وہ جو کچھ یہ سب تصور کرتے ہوئے محسوس کرتی وہ سب سے منفرد تھا وہ اس احساس کو کھونا نہیں چاہتی تھی۔ دن رات تیزی سے گزرتے جارہے تھے میٹرک کا سال پورا ہورہا تھا۔ امی اب ہر چھوٹی بڑی تقریب میں اسے تیار کروا کر لے جاتیں اور ہر خاتون سے اس کا تعارف کرواتیں اور یہ بتانا نہ بھولتیں کہ بڑی دونوں بیٹیاں بیاہ دی ہیں اور بسمہ بھی میٹرک کرنے والی ہے بس جیسے ہی کوئی شریف خاندان ملا اس کے فرض سے بھی سبکدوش ہونا ہے۔ اس سب کے دوران پتا نہیں کیوں ناچاہتے ہوئے بھی بسمہ کا جسم کچھ سیکنڈز کے لیئے ٹھنڈا پڑ جاتا اور سانس رکتی محسوس ہوتی۔
اسے پتا بھی نہیں چلا کہ کب اس کے دل میں خوف بیٹھ گیا
سوتے میں عجیب سے خواب آتے کبھی وہ دیکھتی کہ وہ دلہن بنی ہوئی ہے اور فائزہ کہہ رہی ہوتی زبردستی کی شادی رومینٹک ہوتی ہے کیا؟ کبھی دادی کہہ رہی ہوتیں کہ ظالم نے وہ حال کیا تین دن اسپتال میں رہ کر آئی کبھی امی کہہ رہی ہوتیں اچھا ہوا بچی اپنے گھر کی ہوگئی۔ کبھی گل بانو نظر آتی مگر اسے لگتا کہ وہ گل بانو نہیں بسمہ خود ہے۔ کبھی گل بانو کی شکل بشرہ آپی سے ملنے لگتی۔
اس کے دل میں یہ خیال جڑ پکڑنے لگا کہ گھر والے شادی کرائیں گے تو اس کا بھی گل بانو جیسا حال ہوگا اور گھر والوں کو کوئی فکر نہیں ہوگی۔ اس کے دل و دماغ میں جنگ سے چھڑ گئی تھی۔ ایک طرف بچپن سے سیکھی ہوئی اقدار اور ایک طرف اس کا خوف جو اسے غیر منطقی لگ رہا تھا مگر پھر بھی وہ اس سے پیچھا نہیں چھڑا پارہی تھی۔ اسے پتا تھا کہ وہ اچھی بیٹی ہے اور والدین کی نافرمانی کبھی نہیں کرے گی مگر اسے یہ بھی لگتا تھا کہ گھر والوں نے زبردستی شادی کردی تو خوف سے اس کا دل رک جائے گا۔ گھر پہ شادی کی بات نکلتی تو وہ الجھنے لگتی۔ ایک دو دفعہ تو اس نے کہہ بھی دیا کہ امی مجھے ابھی شادی نہیں کرنی آپ لوگوں کے پاس رہنا ہے آپ کا اور ابو کا خیال رکھنا ہے۔
دوسری طرف اسکول جاتی تو جان بوجھ کر اسلم کے سامنے جاتی وہ اب چاہنے لگی تھی کہ اسلم اس سے کچھ کہے کسی طرح اسے اس ذہنی اذیت سے نکال لے۔ اس ماحول سے دور لے جائے۔ کبھی کبھی وہ سوچتی اسلم نہیں تو ارمغان ہی سہی۔ مگر زبردستی کی شادی نا ہو۔ پھر خود ہی خیال جھٹک دیتی، اتنی عام سی صورت والے بندے کے ساتھ پوری زندگی گزارنا اسے بہت مشکل لگتا تھا۔
11-
جیسے جیسے سال ختم ہورہا تھا اس کی ٹینشن برھتی جارہی تھی اسلم کچھ کہتا نہیں تھا جبکہ اس کےانداز سے ہی ظاہر تھا کہ وہ بھی بسمہ کو پسند کرتا ہے۔ دوسری طرف گھر میں دولہا ڈھنڈائی کی مہم زور پکڑتی جارہی تھی۔ ایک دو دفعہ اس نے آگے پڑھنے کا بہانہ بھی کیا جسے سختی سے رد کردیا گیا۔ بقول دادی جب اگلے گھر جاکر چولہا چوکی کرنی ہے تو پیسا ضائع کرنے کا کیا فائدہ۔ ویسے بھی باپ بیچارا تین تین دفعہ جہیز جمع کرکے آدھا ہوگیا۔ تجھے کیا پتا بے بیاہی بیٹی کیسے سل جیسی ہوتی ہے ماں باپ کے سینے پہ۔ ساتھ ہی یہ طعنہ بھی ملتا کہ دماغ آسمان پہ پہنچ گئے ہیں تعلیم حاصل کر کے۔
اسے کبھی بھی اس طعنے کی وجہ سمجھ نہیں آتی تھی۔ اسے دن میں کئی بار دادی ابو امی برے بھیا سے یہ طعنہ یا اس سے ملتا جلتا طعنہ سننے کو ملتا ہی رہتا کہ وہ سست ہے، فضول خرچ ہے، بڑوں کا ادب لحاظ نہیں ہے یا اس کا دماغ آسمان پہ ہے وغیرہ اور وہ ہر دفعہ ہر طعنے کے بعد خود کو اور محدود کر لیتی۔ کپڑے عموما امی کی پسند سے آتے تھے روز کا جیب خرچ بیس روپے ملتا تھا جو کہ اسد کو 100 روپے ملتا تھا اور فرمائش پہ ہفتے میں دو تین بار زیادہ بھی مل جاتا کیونکہ وہ لڑکا ہےاور دوستوں کے ساتھ ادھر ادھر جاتا ہے تو خرچہ کرنا ہی پڑتا ہے۔
امی ہر تقریب میں بسمہ کے لیئے چمکیلے سوٹ کے ساتھ سیل سے چمکیلی سینڈل لے آتی تھیں مگر اسکول کے جوتے کب کے خراب ہورہے تھے وہ اگر کہتی بھی تھی کہ تلا گھس گیا ہے اور پیر میں تکلیف کرتا ہے تو کوئی نا کوئی دماغ آسمان پہ ہونے کا تاریخی جملہ بول دیتا اور وہ چپ ہوجاتی۔ بھیا کے پرانے جوتوں میں سے اندر کا تلا نکال کر کئی بار بدل چکی تھی۔
جنوری شروع ہوتے ہی فائنل ایگزامز؟اور فئیرویل کی تیاریاں ایک ساتھ شروع ہوگئیں۔ فائزہ کو تو کوئی ٹینشن نہیں تھی اس کا کہنا تھا کہ اس کے پاس کافی کپڑے پڑے ہیں اور بسمہ کو پتا تھا کہ ہمیشہ کی طرح اس کے کپڑے سادہ مگر جاذب نظر ہونگے بسمہ کو اپنے کپڑوں کی فکر تھی۔ جو چمکیلے کپڑے وہ نجی تقاریب میں پہن کر جاتی تھی اگر وہ اسکول میں پہن کر آجاتی تو دوسری لڑکیوں نے بہت مذاق اڑانا تھا۔ اور اسلم کیا سوچتا کہ اسے کوئی دریسنگ سینس ہی نہیں۔ اس نے عید پہ ملی ہوئی عیدی بھی بچا کے رکھی تکہ اپنی پسند کے کپڑے لے سکے۔ اب ساری ٹینشن امی سے اجازت لینے کی تھی۔ بہت سوچ سمجھ کر اس نے آہستہ آہستہ فئیرویل کی تیاریوں کا تذکرہ امی کے سامنے کرنا شروع کردیا۔ اسے پتا تھا امی زیادہ غور سے نہیں سنیں گی اس لیئے بار بار ایک جیسی باتیں دہراتی کہ کوئی بات تو ذہن میں رہ جائے گی۔ایک دفعہ تو امی نے چڑکر کہہ دیا کہ بسمہ اجکل تم بہت دماغ کھانے لگی ہو لڑکیوں کی ہر وقت کی چیں چیں اچھی نہیں لگتی۔ کبھی وہ بتاتی کے آج ٹیچرز کے لیئے ٹائٹل نکالے کبھی یہ کہ کلاس کی دوسری لڑکیاں اپنے کپڑے دکھانے لائی تھیں اور کبھی بتاتی کہ لڑکوں نے اتنا شور مچایا کہ کوئی تیاری ہی نہیں کرنے دی۔ پھر ایک دن باتوں باتوں میں بات کو بہت سرسری سا بنا کر کہا
"امی آج ٹیچر کہہ رہی تھیں کہ آپ سب گھر کے کپڑوں میں آیئے گا۔ کلاس کی لڑکیاں بھی پوچھ رہی تھیں تم کیا پہنو گی۔" پھر خود ہی کہنے لگی
"امی میں سوچ رہی ہوں آپ نیئے سیزن کے لیئے جو کپڑے بنوائیں گی میں اس میں سے ایک رکھ لوں گی ۔ ایک بار فئیر ویل میں پہن کر گھر میں استعمال ہوجائے گا۔ اب فضول میں خرچہ کرنے کا کیا فائدہ؟"
امی حسب عادت جواب دیئے بغیر کام میں لگی رہیں۔
"امی بتائیں نا یہ ٹھیک رہے گا؟" اس نے اپنی عادت کے برخلاف اصرار کیا۔
"اف ہاں بھئی جو مرضی آئے کرو میرا دماغ نا کھاو"
وہ ایکدم ایکسائٹڈ ہوگئی۔
"امی میں ایک سوٹ فائزہ سے منگا لیتی ہوں وہ کوئی سادہ سا سوٹ لا دے گی کاٹن کا اوور نا لگے نا اسکول کے فنکشن میں۔ میں اسے کہوں گی سیل سے لے لے تھوڑے سے پیسے پڑے ہیں میرے پاس۔"
امی نے بےدھیانی میں سر ہلا دیا اور بسمہ خوشی خوشی اٹھ گئی۔
اگلے دن اسکول میں اس نے فائزہ کو پیسے دیئے اور پہلے سے سوچے ہوئے رنگ بھی بتا دیئے۔ اسے پتا تھا کہ اس کی اجلی رنگت پہ لال اور کالا رنگ بہت کھلتا ہے اور کالا رنگ دادی اور امی کو بہت دبتا ہوا اور سوگوار لگتا ہے تو انہیں کپڑے فینسی بھی نہیں لگیں گے۔ اس نے ساڑھے تین ہزار نکال کے فائزہ کو دیئے۔ فائزہ اتنے سارے پیسے دیکھ کر حیران سی ہوگئی۔
"بسمہ اتنے مہنگے کپڑے منگائے گی تو؟ میرے جیسے کپڑے بنوانے ہیں تو، وہ تو آرام سے ہزار پندرہ سو میں بن جائیں گے اور سستے بھی نہیں لگیں گے۔"
"نہیں فائزہ سستا سوٹ سستا ہی ہوتا ہے تو بس اچھا سا سوٹ لے آ میرے لیئے۔ پہلی بار تو اپنی پسند کے کپڑے منگوارہی ہوں"
"بسمہ تو ہزار بار اپنی پسند کے کپڑے پہن مگر مجھے پتا ہے کہ تو اتنا خرچہ کیوں کر رہی ہے؟"
12-
"کیا مطلب تجھے پتا ہے؟ سب ہی لڑکیاں کر رہی ہیں خرچہ میں کوئی انوکھی تو نہیں ہوں؟"
"ہاں اور وہ سب لڑکوں کو متاثر کرنے کی کوشش میں ہیں۔ تو ایسی کب سے ہوگئی۔ تجھے کیا لگتا ہے مجھے پتا نہیں چلے گا کہ تو بات مجھ سے کر رہی ہوتی ہے مگرتیری نظریں اور دھیان کہیں اور ہوتا ہے۔ اسلم کے اردگرد آتے ہی تو اوور ری ایکٹ کرنا شروع کردیتی ہے۔ دیکھ بسمہ کسی کو پسند کرنا بری بات نہیں مگر جو طریقہ تو استعمال کرنا چاہ رہی ہے یہ غلط ہے۔ تونے بھی اس کی صرف شکل کو اہمیت دی اور اسے بھی صرف اپنی شکل کی بنیاد پہ متوجہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ یہ کوئی دل کا رشتہ تو نا ہوا"
"فائزہ بور نہیں کر سوٹ لانا ہے تو بتا نہیں تو میں امبرین یا مریم سے کہہ دیتی ہوں"
"بھاڑ میں جا تو لانے سے کس نے منع کیا ہے مگر بسمہ خدا کے لیئے خود کو نمائش کی چیز نہیں بنا۔"
"یعنی تیرے علاوہ سب لڑکیاں اپنی نمائش لگاتی ہیں۔ بس توبڑی خودار کی بچی ہے"
فائزہ کے چہرے کا رنگ ایک لمحے کے لیئے بدلا تو بسمہ کو احساس ہوا کہ وہ جذبات میں بات غلط طریقے سے کہہ گئی۔
"اگر تو سچ سننا چاہتی ہے تو ہاں بالکل یہی بات ہے کسی لڑکی کے اچھے کپڑے پہننابری بات نہیں مگر کسی اور کے لیئے اپنی پسند اور اصولوں کے خلاف جاکر خود کو سجانا یا چھپانا تاکہ وہ آپ کو پسند کرسکے یہ اپنی ہی بے عزتی ہے۔ بسمہ تو قابل احترام ہے کیونکہ تو اچھی ہے تیرے کپڑے نہیں۔ تو جو پہنے گی بسمہ ہی رہے گی ذہین، ہمدرد اور حساس بسمہ اگر تو صرف شکل کو اہمیت دینے والی ہوتی تو ہم دوست نا ہوتے۔ بسمہ اپنے گھر والوں کے بنائے سطحی معیار سے نکل"
"یہی تو کرنے کی کوشش کر رہی ہوں فائزہ مجھے خوف آنے لگا ہے اپنے گھر کی گھٹن سے میری ماں نے ویسے ہی میری نمائش لگائی ہوئی ہے ایک بار بس ایک بار میں یہ سب اپنی مرضی سے اپنے لیئے کرنا چاہتی ہوں مجھے زبردستی کی شادی نہیں کرنی اور اس کے لیئے میں کچھ بھی کرنے کو تیار ہوں۔"
جذبات سے بسمہ کی آنکھیں اور چہرہ سرخ ہو گیا۔
"ٹھیک ہے لا دوں گی مگر جو کر سوچ سمجھ کے کر"
فائزہ نے پیسے بیگ میں رکھ لیئے۔ دو دن بعد اس کی پسند کا ریڈ اور بلیک ڈزائنر اسٹائل کا سوٹ اس کے پاس تھا۔
فئیرویل والے دن وہ صبح سے بے چین تھی۔ اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ صبح 6 بجے ہی تیار ہو کر اسکول پہنچ جائے مگر فئیرویل کی وجہ سے اسکول جانے کا ٹائم 11 بجے دوپہر کا تھا۔ وہ کوئی بدمزگی نہیں چاہتی تھی اسی لیئے سب کچھ بیگ میں ڈال لیا تھا
اس کے باوجود دادی سے منہ ماری ہوگئی۔ اس نے خود کو تسلی بھی دی مگر موڈ خراب ہی رہا اسکول پہنچنے تک۔ اسکول پہنچ کے وہ فورا اپنی کلاس میں آگئیں جہاں عموما لڑکیاں اپنی تیاری مکمل کر رہی تھیں۔ بسمہ نے کھلے بالوں پہ برش پھیرا اور لپ شائنر اور پروفیوم لگا کر اپنی تیاری کو فائنل ٹچ دیا۔ اسے یقین تھا کہ ایک تو آج اس کی تیاری کی وجہ سے اور موقع ایسا تھا کہ اسلم ضرور اظہار کردے گا۔ اب اسے انتظار تھا کہ اسلم کب آئے۔ وہ فائزہ کے ساتھ اسکول کے آڈیٹوریم میں آگئی جہاں فئیرویل کی تیاریاں ہورہی تھیں۔ ڈراموں اور مختلف پرفارمنس میں حصہ لینے والوں کو اسٹیج کے پیچھے بلایا جارہا تھا۔ فائزہ اور بسمہ آگے جانے لگیں رستے میں اسے اسلم دوستوں کے ساتھ کھڑا نظر آیا اس کی توجہ دوسری طرف کھڑی لڑکیوں کی طرف تھی۔ بسمہ کو عجیب بھی لگا اور برا بھی جیسے اسلم اس کی ملکیت ہو۔ پاس سے گزرنے پہ اسلم کی توجہ بسمہ کی طرف ہوئی تو بسمہ نے بھی اسے بھرپور نظروں سے دیکھا آج اس نے نظریں چرانے کی کوشش نہیں کی۔ وہ فائزہ اور اپنی باقی دوستوں کے ساتھ تھوڑا ہی آگے والی رو کی سیٹس پہ بیٹھ گئی۔
انہیں بیٹھے پانچ منٹ ہی ہوئے ہونگے کہ آٹھویں کلاس کی عمارہ ان کے پاس آئی
"بسمہ باجی ٹیچر اسد کو بلوا رہی ہیں آپ نے دیکھا ہے ابھی تھوڑی دیر پہلے یہیں تھا؟"
"نہیں تو میں نے تو نہیں دیکھا مجھ سے پہلے ہی آیا تھا، اسکول آنے کے بعد میں نے نہیں دیکھا۔ کیوں کیا ہوا؟"
"اس کے پاس حمزہ کا نمبر ہے۔ حمزہ نہیں آیا ابھی تک اور شروع کی کمپئیرنگ اسی نے کرنی ہے ٹیچرنے کہا ہے اسد سے کہو اسے کال کر کے پوچھے کہ کتنی دیر میں آئے گا۔"
"حمزہ کونسا؟ گل بانو کا کزن؟" عمارہ نے ہاں میں سر ہلا دیا۔ "چلو مجھے نظر آیا اسد تو ٹیچر کے پاس بھیج دیتی ہوں۔"
عمارہ کے جانے کے بعد وہ سب پھر اپنی باتوں میں لگ گئیں بسمہ کو رہ رہ کر یہ خیال آرہا تھا کہ اگر وہ ایسے ہی دوستوں کے ساتھ بیٹھی رہی تو اسلم سے بات کیسے ہوگی۔ بہت سوچنے کے بعد وہ پانی پینے کے بہانے سے اٹھی۔ آڈیٹوریم کے دونوں اطراف میں باہر کی طرف برآمدے میں دو دو الیکٹرک کولر لگے ہوئے تھے۔ بسمہ جان بوجھ کے اسلم کے پاس سے ہوکر اس کولر کی طرف گئی جو دور ہونے کی وجہ سے خالی ہوتا تھا۔ آڈیٹوریم سے نکلتے ہوئے اس نے دیکھا کہ اسلم بھی دوستوں سے الگ ہو کر اسی سمت آنے لگا۔ بسمہ کولرکے پاس جاکر پانی نکالنے لگی جیسے اس نے نوٹ ہی نہیں کیا کہ اسلم پیچھے آیا ہے۔ وہ آہستہ آہستہ پانی پینے لگی اسلم نے بھی آکر پانی نکالا مگر اس کے انداز سے لگ رہا تھا کہ وہ کچھ کہنا چاہ رہا ہے۔ ایک گھونٹ پی کر رک گیا۔ پھر کہا۔
"بسمہ آپ برا نا مانیں تو ایک بات کہوں؟ "
"جی بولیں"
"آپ پلیز برا نہیں مانیئے گا مگر۔۔۔۔"وہ کچھ رکا آپ پلیز دوپٹہ سرپہ اوڑھ لیں"
"جی کیا مطلب"
بسمہ کچھ غیر متوقع بات پہ حیران ہوگئی۔
"وہ اصل میں آپ کے بال بہت خوبصورت ہیں لڑکے انہیں دیکھ رہے ہیں مجھے اچھا نہیں لگ رہا"
بسمہ کو اس کا کئیر کرنا بہت اچھا لگا وہ بلاوجہ ہی شوخ ہوگئی۔
"آپ کیا سب لڑکیوں کو دوپٹے پہنواتے پھرتے ہیں۔"
"سب کو نہیں بس کسی اسپیشل کو۔" اسلم نے اپنی مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ کہا اس کا ڈمپل دیکھ کر بسمہ کا دل پھر بے قابو ہونے لگا۔ اسلم اپنا گلاس رکھ کر آگے بڑھ گیا پھر کچھ آگے جاکر رکا اور مڑ کے بولا۔
"اگر ممکن ہو تو پروگرام شروع ہونے کے بعد کلاس میں آیئے گا اپنی، آپ سے ضروری بات کرنی ہے۔" یہ کہہ کر تیزی سے اندر آڈیٹوریم میں چلا گیا۔
بسمہ بھی جلدی سے گلاس رکھ کے واپس دوستوں کے پاس آکر بیٹھ گئی۔ فئیرویل شروع ہونے کا ٹائم تو ہوگیا تھا مگر شروع نہیں ہوا تھا پتا نہیں کیا مسئلہ تھا۔ خیر کوئی آدھا پون گھنٹہ گزرنے کے بعد پروگرام اسٹارٹ ہوا مگر عمارہ کے کہنے کے برعکس حمزہ کی بجائے کوئی اور لڑکا کمپئیرنگ کے لیئے آیا تھا۔ بسمہ کو یاد تو آیا کہ عمارہ نے حمزہ کا بتایا تھا مگر زیادہ دھیان نہیں دیا اس کا دھیان صرف اس بات پہ تھا کہ کب اسے موقع ملے اور وہ کلاس میں جائے۔ آخر حمد نعت گزرنے کے بعد پہلا اسکٹ شروع ہوا اور سب کے توجہ مکمل اسٹیج کی طرف ہوگئی اس نے نوٹ کیا کہ پیچھے کی سیٹس سے اسلم اٹھ کر جان بوجھ کے اس کے سامنے کے دروازے سے باہر نکل گیا۔ بسمہ نے دو منٹ صبر کیا پھر فائزہ کے کان میں بتایا کہ اسے باتھروم جانا ہے فائزہ نے ساتھ چلنے کا کہا مگر وہ اسے تسلی دے کر اٹھ گئی کہ وہ خود ہو کر آجائے گی۔
وہ بہت محتاط ہوکر کلاس کی طرف چل پڑی سارا اسکول سنسان پڑا تھا کلاس میں پہنچی تو اسلم وہاں پہلے سے موجود تھا۔ اسے دیکھ کے وہ ایک دم اس کی طرف آیا۔
"تھینک یو سو مچ بسمہ مجھے یقین تھا تم ضرور آو گی۔ اتنی طاقت تو ہے میرے جذبوں میں"
بسمہ کا دل پہلے ہی بہت تیز دھڑک رہا تھا اس کے اتنے اچانک جذبات کے اظہار پہ دھڑکن اور بڑھ گئی۔ اسلم نے آہستہ سے اس کا ہاتھ تھام لیا۔
13-
بسمہ کو اسلم کا اتنی نرمی سے ہاتھ پکڑنا بہت اچھا لگا اس کے مضبوط ہاتھ کی گرفت بہت نرم تھی۔
بسمہ کی طرف سے کوئی خاص ردعمل نا پاکر وہ تھوڑا قریب آیا۔
"بسمہ تم بہت خوبصورت ہو کسی مقدس دیوی کی طرح" بسمہ کے گرد سحر سا طاری ہونے لگا اسلم اتنا رومانوی ہوگا اس نے صرف سوچا ہی تھا۔ یہ سب کچھ حقیقت میں ہوتا دیکھ کر اسے یقین نہیں آرہا تھا اسے لگ رہا تھا یہ بھی کوئی تصور ہے اور ابھی آکر کوئی اسے اس تصور سے نکال لے گا۔
بسمہ خفیف سا مسکرائی مگر خاموش رہی۔ اسلم کی ہمت اور بڑھ گئی۔
"پتا ہے سب مجھے ڈراتے تھے کہ تم بہت غصے والی ہو مغرور ہو، یہ ہو، وہ ہو، مگر یقین مانو مجھے کبھی یقین نہیں تھا ان سب کا، مجھے پتا تھا کہ اس مغرور چہرے والی کا دل بہت نازک جذبات سے لبریز ہوگا۔"
وہ کچھ لحظہ رکا پھر بولا
"بسمہ تمہارے بال بہت خوبصورت ہیں گھٹاوں جیسے۔ "اس نے آہستہ سے بسمہ کا دوپٹہ کھینچا جو اسلم ہی کی فرمائش پہ اس نے سر پہ اوڑھ لیا تھا۔ اتنی دیر میں پہلی بار بسمہ کو احساس ہوا کہ سب کچھ اتنا بھی اچھا نہیں جتنا لگ رہا تھا۔ اس نے دوپٹہ سختی سے پکڑ لیا۔
"ابھی تم نے ہی تو اوڑھنے کے لیئے کہا تھا" بسمہ کی آواز میں خفیف سے لرزش تھی۔
وہ ہلکے سے ہنسا۔
"وہ تو دوسروں کے لیئے نا، محبت کرنے والوں کے درمیان یہ تکلفات نہیں ہوتے۔"
بسمہ اتنی سمجھ دار تو تھی کہ یہ سمجھ سکے کہ اب جو کچھ ہونے والا تھا وہ رومینس ہرگز نہیں کہا جاسکتا ۔ ہاں اسے زبردستی کہا جاسکتا ہے اور اس لفظ "زبردستی" نے اسے اندر تک جھنجھوڑ دیا اسی سے بچنے کے لیئے تو وہ سب کرنے کے لیئے تیار تھی مگر اس سب میں یہ بھی ہوگا اس نے سوچا بھی نہیں تھا۔ وہ گھبرا کر مڑی
"فائزہ والے میرا انتظار کر رہے ہوں گے۔"
اسلم نے کلائی سختی سے پکڑ لی
"اتنی جلدی کیا ہے جس کام سے آئی ہو وہ تو پورا کرلیں۔"
"اسلم مجھے تم سے کوئی کام نہیں تھا تمہیں کوئی بات کرنی تھی جو کرنے کی بجائے تم بدتمیزی کر رہے ہو۔"اب کے بسمہ کا لہجہ سخت تھا۔
بسمہ کو دکھ، ڈر اور گھبراہٹ سب ایک ساتھ محسوس ہورہا تھا۔ دکھ اسلم کے سطحی رویئے کا، ڈر کہ پتا نہیں اسلم کیا کرنے والا ہے اور گھبراہٹ کہ کوئی اور انہیں ساتھ نا دیکھ لے۔ وہ ایک دم جیسے کسی نیند سے جاگی تھی اب اسے خود پہ حیرت ہورہی تھی کہ وہ جو بھری کلاس میں لڑکوں سے بات کرتے میں گھبراتی تھی وہ خالی کلاس میں اسلم سے ملنے اکیلی آگئی تھی۔ اس کی کلائی ابھی تک اسلم کی سخت گرفت میں تھی پہلی والی نرمی مفقود تھی۔
"محترمہ جتنی معصوم تم خود کو ثابت کرنا چاہ رہی ہو اگر اتنی ہی ہوتیں تو میرے پیچھے پیچھے اکیلے کمرے میں نا آتیں۔ بچی تو نہیں ہو کہ یہ نا پتا ہو کہ جوان لڑکا، جوان لڑکی کو اکیلے کمرے میں کیوں بلاتا ہے"
۔۔۔۔۔جوان لڑکی۔۔۔۔۔ وہ جو ابھی تک اسکول کی بچی کہلاتی تھی اسلم اسے جوان لڑکی کہہ رہا تھا۔ ابھی تک بسمہ کی محبت میں، تصور میں، لڑکپن کی معصومیت تھی اس نے اس پہلو پہ کھبی کہاں سوچا تھا۔ وہ اور گھبرا گئی
"اسلم چھوڑو ہاتھ ورنہ میں چیخنا شروع کردوں گی۔"
"واہ بھئی! آئیں بھی خود اپنی مرضی سے میں پکڑ کے تو نہیں لایا تھا اب نخرے دکھائے جارہے ہیں۔ ویسے چیخنے سے تمہارا ہی نقصان ہوگا سارے اسکول کو پتا چل جائے گا کہ تم مجھ سے ملنے آئی تھیں۔ کیا پتا کوئی اخبار تک بھی خبر پہنچا دے۔ واہ کیا مصالحے دار خبر لگے گی میٹرک کی طلبہ اپنے عاشق کے ساتھ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ "وہ بات کو آدھا چھوڑ کر ہنسنے لگا۔
"بدنامی بھی تمہاری ہی ہوگی اور شادی کے چانسز تو ختم ہی سمجھو پھراس سے بہتر ہے خاموشی سے موقع کا فائدہ اٹھاتے ہیں پھر ویسے بھی تم دوسرے کالج چلی جاو گی میں کسی دوسرے کالج ہاں تم رابطہ رکھنا چاہو گی تو موسٹ ویلکم ورنہ آج کی بات آج ختم۔"
اسکی باتوں سے لگ رہا تھا کہ اسے لگ رہا کہ وہ جس جسمانی ضرورت سے آیا ہے بسمہ بھی اسی وجہ سے آئی ہے مگر ڈر رہی ہے۔ اور اس بات کا احساس ہوتے ہی شرمندگی سے بسمہ کے آنسو بہنے لگے۔
"اسلم مجھے کسی کا کوئی فائدہ نہیں اٹھانا ہاں اکیلے میں ملنے آنا میری غلطی تھی کیونکہ میں سمجھی تھی کہ تم شریف لڑکےہو"
"او میڈم جسے تم شرافت کہہ رہی ہوآج کل وہ صرف ان لڑکوں میں ہوتی ہے جن میں کوئی اور صلاحیت نہیں ہوتی"
اس نے "کوئی اور" اتنے معنی خیز انداز میں کہا کہ بسمہ کے جسم میں سرد لہر دوڑ گئی۔
اسی وقت بسمہ کو لگا کہ فائزہ نے اسے پکارا ہے اور شاید اسلم نے بھی وہی آواز سنی اس کے چہرے پہ آنے والے چند لمحوں کی گھبراہٹ نے بسمہ کا فیصلہ آسان کردیا
"اسلم ہاتھ چھوڑو"
وہ تھوڑا زور سے بولی۔ خالی کمرے میں اس کی آواز گونج گئی۔ اسلم کی گرفت کچھ ڈھیلی ہوئی بسمہ نے اور زور سے آواز دی "فائزہ" باہر قدموں کی آواز بالکل قریب آ گئی ۔ اسلم کے چہرے کی گھبراہٹ واضح ہوگئی وہ بسمہ کی کلائی چھوڑ کے کلاس کی کھڑکی سے پیچھے تنگ راہداری میں کود گیا۔ بسمہ چند لمحے سن کھڑی رہی پھر ایکدم باہر بھاگی۔ فائزہ اور ارمغان تیز قدموں سے ادھر ہی آرہے تھے فائزہ کا چہرہ دیکھ کربسمہ کا دل رکنے لگا۔ اس کی آنکھیں سرخ ہورہی تھیں اور چہرہ آنسووں سے تر تھا۔
لمحے کے ہزارویں حصے میں اسے خیال آیا "کیا ارمغان بھی"
اتنے میں ارمغان بولا "بسمہ کہاں تھیں تم ہم تمہیں سارے اسکول میں ڈھونڈ کے آئے ہیں۔"
"کیا کیا ہے تم نے فائزہ کے ساتھ " بسمہ کا لہجہ بہت تیز تھا۔ فائزہ نے بسمہ کا ہاتھ پکڑ لیا اس سے بولا نہیں جارہا تھا۔ پہلے صرف نفی میں سر ہلایا پھر بہت مشکل سے بولی "یہ میری مدد کرہا ہے" یہ کہہ کر دوبارہ خاموش ہوگئی اس کے ہونٹ کانپ رہے تھے۔ "بسمہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ گل بانو"
"کیا ہوا فائزہ۔۔۔ جلدی بتا مجھے ڈر لگ رہا ہے "
فائزہ رو پڑی
بسمہ! بانو کی ڈیتھ ہوگئی"
14-
بسمہ کو لگا اس کے ہاتھوں پیروں کی جان نکل گئی وہ پیچھے دیوار کے سہارے بیٹھتی چلی گئی۔ فائزہ نے ایک دم اسے پکڑنے کی کوشش کی مگر بسمہ سے اٹھا ہی نہیں گیا۔ اس کے لیئے دونوں ذہنی جھٹکے بہت شدید تھے۔ ارمغان فورا بھاگ کے ذرا دور لگے الیکٹرک کولر سے پانی لے آیا۔ دونوں سہیلیاں ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے وہیں زمین پہ بیٹھی رو رہی تھیں۔ کچھ دیر بعد فائزہ نے خود کو سنبھالا۔
"ارمغان پلیز اس کے بھائی کو بلا کر لے آو اس سے کہنا بسمہ کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے رکشا لے کر آئے تو میں اسے گھر لے جاتی ہوں۔ ٹیچر نرگس کو بھی بتا دینا۔"
کچھ ہی دیر بعد رکشا آگیا اور فائزہ اسے سہارا دے کر رکشے تک لائی۔ بسمہ کا جسم ابھی بھی بے جان ہورہا تھا۔ وہ فائزہ کے کندھے پہ سر رکھ کر بیٹھ گئی۔رکشا چل پڑا۔ کچھ دیر بعد بسمہ کو خیال آیا
"فائزہ تجھے گل بانو کا کس نے بتایا"
"یار تو اٹھ کے گئی تو پیچھے سے اسد آگیا میں نے اسے بتایا کہ اس کی کلاس ٹیچر نے حمزہ کو کال کرنے کا کہا تھا ، اس کی پہلے ہی بات ہوگئی تھی حمزہ سے دو دن پہلے ڈیتھ ہوئی ہے وہ گھر والوں کے ساتھ دو دن سے گاوں میں ہے آج بانو کی فاتحہ تھی۔ "
"ہوا کیا تھا اسے"
"زیادہ تو نہیں پتا شاید ڈلیوری کے وقت جسم میں زہر پھیل گیایہی اندازہ ہوا مجھے اسد کی بات سے۔"
اس کے بعد وہ دونوں ہی چپ ہوگئیں۔ پورا رستہ بسمہ کو پورا رستہ گل بانو کے ساتھ گزارا ایک ایک لمحہ یاد آتا رہا۔ گل بانو اس کے لیئے آئیڈیل تھی ایک مکمل لڑکی کو جیسا ہونا چاہیئے دھیما مزاج، مضبوط کردار، اور زمانے کی نزاکت کو سمجھ کے چلنے والی۔ ایک دم اس کا دل بھر آیا۔ اگر گل بانو ساتھ ہوتی تو آج اس کے ساتھ یہ نا ہوتا جو ہوا گل بانو اسے پہلے ہی سنبھال لیتی۔ گل بانو نے ہمیشہ سچی دوست ہونے کا حق ادا کیا مگر جب اسے ضرورت تھی تو بسمہ کچھ بھی نہیں کرپائی۔ بسمہ کے دل میں حسرت سی اٹھی
"کاش مجھے پتا چل جاتا کہ اس کا ساتھ کیا ہوا۔ کاش میں اسے بچا سکتی"
گھر پہنچ کر فائزہ نے بسمہ کو سہارا دے کر اتارا وہ گھر میں داخل ہوئیں تو امی اور دادی اسے ایسے سہارا لے کر آتے دیکھ کر گھبرا گئیں۔ امی تیزی سے آگے آئیں۔
"کیا ہوابسمہ میرا بچہ"
"آنٹی وہ گل بانو۔۔۔۔۔۔۔۔" فائزہ بتانے لگے مگر بسمہ نے اس کا ہاتھ کھینچا
"چھوڑ فائزہ انہیں پتا ہوگا" اس کے لہجے میں تلخی بھی تھی اور شکستگی بھی۔
"کیا ہوا گل بانو کو۔ کیا پتا ہوگا۔ ارے کچھ بتاو تو لڑکیو"
"آنٹی اس کا شاید بی پی لو لگ رہا ہے بہت میں کمرے میں لٹا کے آوں پھر بتاتی ہوں۔" فائزہ نے جاتے جاتے مڑ کر جلدی سے جواب دیا۔
فائزہ اسے لٹا کر فورا باہر نکل گئی پانچ منٹ بعد واپس آئی تو پیچھے امی بھی تھیں۔ فائزہ کے ہاتھ میں گلوکوز کا گلاس تھا۔ فائزہ نے اسے گلاس پکڑایا امی خاموشی سے اس کے پاس بیٹھ گئیں۔
آہستہ سے اس کا ہاتھ پکڑ کر کچھ دیر چپ بیٹھی رہیں۔ پھر بولیں
"اسی لیئے نہیں بتاتے تجھے کچھ، فورا دل پہ لے لیتی ہے مگر سچی بات ہے اللہ گواہ ہے گل بانو کے انتقال کا ہمیں بھی نہیں پتا تھا ابھی فائزہ نے بتایا۔"
بسمہ چپ رہی مگر اس کے تاثرات سے لگ رہا تھا کہ اسے زیادہ یقین نہیں آیا۔
اس کے بعد ایک ان کہا سا معاہدہ ہوگیا سب میں کوئی گل بانو کی بات نہیں کرتا تھا۔ فائزہ اور بسمہ کو لگتا تھا کہ سہیلی ہونے کے ناتے ان کی ذمہ داری تھی کہ وہ تکلیف میں تھی تو کسی نا کسی طرح اس کی مدد کی جاتی۔ مگر کیا تکیلف تھی کتنی شدید تھی اس کا وہ اندازہ نہیں کرسکتی تھیں بس ایک احساس ندامت تھا جو مسلسل ساتھ تھا۔
امتحان شروع ہوگئے، ایسا لگنے لگا جیسے سب ٹھیک ہوگیا ہے۔ نارمل زندگی شروع ہوگئی ہے۔ مگر بسمہ کو پتا تھا سب نارمل نہیں ہے۔ اب رات رات بھر تکیے پہ سر رکھے جاگتی رہتی۔ کوئی سوچ کوئی رومانوی خیال کچھ نہیں بس جیسے جمود طاری ہوگیا ہو۔ امتحان ختم گئے تو پریکٹیکلز کی تیاری میں لگ گئی۔
مگر کچھ دنوں سے کچھ الگ ہلچل نظر آرہی تھی گھر میں۔ایک دو دفعہ گھر میں آنے والی خواتین بالکل نامانوس لگیں امی نے کہا میری پرانی جاننے والی ہیں مگر بسمہ کو لگا معاملہ کچھ اور ہے۔ ایک دن امی نے صبح صبح دونوں بہنوں کو بلا لیا اور کافی دیر بند کمرے میں کیا چلتا رہا بسمہ کو اندازہ نہیں ہوپایا۔ اتنی عقل تو تھی اس میں کہ یہ سب کسی نا کسی حوالے سے اس کی شادی سے تعلق رکھتا ہے۔ شام تک معاملہ کھل بھی گیا۔ تھیں تو وہ امی کی جاننے والی ہی مگر بسمہ کو دیکھنے آئی تھیں پہلی دفعہ والی خواتین کو بسمہ کا قد چھوٹا لگا تھا مگر دوسری دفعہ والی خواتین جو لڑکے کی بھابھی بھی تھیں اور مڈل مین کا کردار ادا کر رہی تھیں انہوں نےکل شام ہی بتایا کہ باقی گھر والوں کی ریکوائرمنٹ کے حساب سے بسمہ میں تقریبا سب خصوصیات ہیں تو آج سب فارملی بسمہ کو دیکھنے آئیں گے اسی لیئے امی نے صبح سے دونوں بہنوں کو بلایا ہوا تھا اور یہ بات چیت چل رہی تھی کہ اگر ان کی طرف سے ہاں ہوگئی تو یہاں سے کیا جواب دینا ہے۔ شام تک لڑکے والوں نے آنا تھا۔ اسماء آپی اور بشرہ آپی نے اس کے کمرے میں آکر سوٹ کھنگالنے شروع کر دیئے۔ اور بشرہ آپی نے ایک سوٹ نکالا اور بسمہ کا دل رک سا گیا۔ بلیک اینڈ ریڈ ایمبرائڈڈ سوٹ۔
"بسمہ واہ یہ تو بہت زبردست سوٹ ہے کب لیا تم نے بس یہی پہن لو، ہیں نا آپی" انہوں نے اسماء آپی سے تصدیق بھی چاہی جو انہوں نے سر ہلا کر دے دی۔
"ہاں واقعی کافی پیاری کرتی ہے" اور بسمہ کے دماغ میں آندھیاں سی چلنے لگیں۔ وہ کیا بتاتی کہ یہ سوٹ کیا سوچ کے لیا تھا۔ ایک دفعہ پہلے بھی اس نے اپنی نمائش لگائی تھی اب دوبارہ شاید یہی ہونے جارہا تھا۔ ایسا نا بھی ہو مگر اسے ایسا ہی لگ رہا تھا۔ جیسے اس کی ذات مردوں کے سامنے پیش کی جارہی ہو۔ جو تذلیل اسلم کے رویئے سے محسوس ہوئی تھی وہی آج یہی سوٹ پہن کر تیار ہونے کے مشورے پہ محسوس ہوئی۔ اسے فائزہ کی جو بات تب سمجھ نہیں آئی تھی اب سمجھ آگئی۔ جب اس نے کہا تھا بسمہ خدا کے لیئے خود کو نمائش کی چیز نا بنا۔ وہ چپ کھڑی تھی۔ اتنے میں دادی اندر آگئیں "ارے کیوں دیر لگا رہی ہو لڑکیو نکال چکو کپڑے تو یہ تیار ہو۔"
دادی یہ دیکھیں یہ سوٹ پیارا لگے گا نا ہماری بسمہ پہ"
بشرہ آپی نے انہیں بھی دکھایا
"پاگل ہوگئی ہو کیا یہ سیاہ رنگ آج پہناو گی بی بی خوشی کے موقع پہ ایسے رنگ نہیں جچتے نا ہمیں راس آتے ہیں۔ فورا رکھو اسے کوئی شوخ رنگ نکالو"
بسمہ نے سکون کا سانس لیا۔ سوٹ تو بدل گیا مگر آگہی کا جو نیا در کھلا وہ ابھی کھلا ہی تھا۔
مہمان آئے بھی اسے دیکھ کے چلے بھی گئے کافی خوش اور مطمئن بھی لگ رہے تھے مگر بسمہ کو مسلسل اپنا آپ دکان پہ سجے مال جیسا لگتا رہا۔ اس کو ہر ہر پہلو سے جانچا گیا کردار پرکھا گیا۔ بس شاید دانت گننے کی کسر رہ گئی۔ یہ سوچ آتے ہی اس کے چہرے پہ تلخ مسکراہٹ آئی۔ وہ اب کمرے میں بیٹھی چوڑیاں اتار رہی تھی۔ دادی ابھی امی کے کمرے میں تھیں جہاں سب بڑے بیٹھے فیصلہ کر رہے تھے۔ تبھی بشرہ آپی کمرے میں آئیں۔
"بسمہ! کہاں گم ہو ابھی تو تم نے اپنے ان کو دیکھا بھی نہیں" بسمہ کو ان کا انداز عجیب لگا ایسی بے تکلفی تو کبھی نہیں تھی ان سے۔
"یہ لو دیکھ لو ہمارے دولہا بھائی کیسے ہیں" بشرہ آپی نے ایک تصویر پکڑا دی اسے اور واپس مڑ گئیں۔
تصویر لینے اور ان کے جانے تک کی ذرا سی دیر میں اسے یہ تو اندازہ ہوگیا کہ فیصلہ ہوگیا ہے۔ اس نے ہاتھ میں پکڑی تصویر پہ نظر ڈالی۔
پچیس چھبیس سال کا کافی خوبرو لڑکا جو کیمرے میں دیکھ کے مسکرا رہا ہوگا مگر بسمہ کو لگا اسی کو دیکھ رہا ہے۔
کافی دیر میں پہلی بار اسے خوشگوار احساس ہوا۔
15-
بسمہ نے تصویر پلٹ کر دیکھی ایک کونے میں شاید اس کا نام لکھا تھا۔ "رانا عبدالباسط" بسمہ کو ہنسی آگئی ایک اور نام جو افسانے کے ہیرو جیسا بالکل بھی نہیں۔ پھر اس نے دل میں دہرایا بسمہ باسط اور ہلکے سے مسکرا دی۔
صورت حال تو افسانوں جیسی ہی تھی اس کا نام ایک ایسے شخص کے ساتھ جوڑ دیا گیا تھا جسے وہ جانتی بھی نہیں تھی مگر اس کی نکھری گندمی رنگت چمکیلے سیاہ بال اور سیاہ آنکھیں اس کا دل دھڑکا رہے تھے۔ اسٹوڈیو کی سوفٹ لائٹ میں وہ بالکل کسی افسانوی ہیرو جیسا ہی لگ رہا تھا۔ اس نے تصویر الماری میں رکھی کتاب میں چھپا دی۔
منگنی کی رسم دومہینے بعد رکھنے کا فیصلہ ہوا اس کے بعد گھر میں بحث جاری تھی کہ لڑکا آیا تو دونوں کو ساتھ بٹھانا ہے یا الگ الگ۔ دادی کا کہنا تھا کہ منگنی کوئی شرعی رشتہ نہیں ہوتی لڑکا بہرحال نامحرم ہے اور اسے الگ بٹھانا چاہیئے جبکہ امی اور بہنوں کا موقف تھا کہ اب یہ سب کون دیکھتا ہے اب تو لڑکا لڑکی ساتھ ہی بیٹھتے ہیں۔ ابو کی حیثیت فی الحال ٹینس میچ کے تماشائی جیسی تھی۔ گھر میں چند دن سے کنھچاو کی سی کیفیت تھی۔ روز دونوں بہنیں بچوں کو ٹیوشن بھیج کر ادھر ہی آجاتیں اور رات گئے تک ادھر ہی رہتیں۔ آج پھر یہی بحث جاری تھی۔ بسمہ خود فیصلہ نہیں کرپارہی تھی کہ وہ کیا چاہتی ہے کیا اسے ساتھ بیٹھنا اچھا لگے گا یا شرم آئے گی۔ وہ اسے قریب سے دیکھنا چاہتی تھی مگر وہ برابر بیٹھ بھی جاتا تو کونسا بسمہ نے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کے دیکھ لینا تھا۔
امی دادی کی بحث جاری تھی۔ ایک پوائنٹ پہ آکر امی کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا۔ وہ غصے میں آگئیں۔
"بس اماں اب میرا منہ نہ کھلوائیں، اخلاق بھائی اور منور بھائی کے گھر کے شادیوں میں کیا طوفان بدتمیزی ہوتا ہے وہ آپ نے نہیں دیکھا کیا۔ وہ بھی تو آپ کی اولاد ہیں مگر یہ سیدھے ہیں آپ کا احترام کرتے ہیں تو آپ ناحق کی نکتہ چینی کر رہی ہیں۔ اماں زمانے کے ساتھ چلنا پڑتا ہے ایک دن کی بلکہ چند گھنٹوں کی بات ہوگی اور ساری زندگی کے لیئے رہ جائے گی۔ مشتاق صاحب آپ ہی سمجھائیں اماں کو "
"ہاں اماں زبیدہ ٹھیک کہہ رہی ہے ہے تقریبوں میں تو یہ سب چلتا ہی ہے۔ اخلاق بھائی اور منور بھائی کے گھر کی شادیوں کی سب مثالیں دیتے ہیں آپ کیا چاہتی ہیں کہ میری آخری بیٹی کی شادی میں لوگ باتیں بنائیں"
ابو کے دو ٹوک انداز سے ہی ظاہر ہوگیا کہ وہ شروع سے ہی اسی سائیڈ تھے بس مناسب موقعے کی تلاش میں تھے۔
منگنی کی تیاریاں زور و شور سے شروع ہوگئیں لگتا تھا منگنی نہ ہو بارات ہو۔ طے یہ ہوا کہ لڑکی کا سوٹ لڑکے والے بھیجیں گے اور لڑکا کا سوٹ لڑکا اور بڑے بھیا ساتھ جا کر لے آئیں گے۔ بڑے بھیا دو دفعہ گئے اور دونوں دفعہ بھنائے ہوئے واپس آئے۔
"لاڈ صاحب کو کچھ پسند ہی نہیں آتا اور جو پسند آتا ہےاس کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہوتی ہیں۔"
"ارے عادت ہو گی نا ایسے کپڑے پہننے کی" امی فی الحال داماد کی ہر کمی کو بھی خوبی میں شمار کر رہی تھیں۔
"کوئی عادت وادت نہیں ہے گھسی ہوئی جینز پہن کے گھومتا رہتا ہے ایسے ہی اٹھ کے میرے ساتھ چل پڑتا ہے یہ تک خیال نہیں کہ نیا نیا سسرال ہے تو بندہ کچھ ڈھنگ سے پہن لے۔ اصل میں امی مفت کا مال ہے نا تبھی رال ٹپک رہی ہے۔"
بسمہ کو باسط کا اتنا مہنگے کپڑوں کی فرمائش کرنا بھی عجیب لگا مگر بڑے بھیا کا انداز بھی بہت تضحیک آمیز تھا۔ ہونے والے بہنوئی کے لیئے ابھی سے یہ خیالات ہیں تو بعد میں کیا ہوگا۔
حسب عادت وہ بس سوچ کے رہ گئی۔
16-
"تم فکر نا کرو بڑے بھیا بسمہ کے کپڑے آنے دو اگر ٹکر کا سوٹ نا آیا تو ہم بھی واپس کروا دیں گےکہ بسمہ کو پسند نہیں آیا۔ ساتھ ہی کچھ بات میں وزن پیدا کرنے کے لیئےیہ بھی کہہ دیں گے کہ بسمہ تو رورو کر آدھی ہوگئی ہے کہ دوستوں کو دکھاوں گی تو کتنی شرمندگی ہوگی۔"
اسماء آپی اپنے بے تکے مشورے سے خود ہی محظوظ ہوئیں۔
"ائیے نئیں واپس بھجوانے کی ضرورت نئیں سسرال کا معاملہ ہے اس کی۔ بس ڈھکی چھپی دو ایک کہہ لینا" دادی نے اپنے حساب سے کافی مناسب مشورہ دیا۔
بسمہ کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ ہو کیا رہا ہے ایک نیا رشتہ بننے جارہا ہے اور وہ بھی بدگمانی اور دروغ گوئی سے؟ اسے یونہی خیال آیا کہ یہی وجہ تو نہیں کہ امی ابو کی جب کوئی لڑائی یا نوک جھونک ہوتی ہے تو دونوں کو شادی کے موقعے پہ دیئے گئے تحائف اور جہیز کا سامان یاد آجاتا ہے جس سے وہ آج تک مطمئن نہیں ہوپائے۔ ابو کے بقول امی والوں کی طرف سے جو نکاح کی شیروانی آئی تھی وہ اتنے سستے معیارکی تھی کہ ایک دفعہ ہی پہننے میں سلائی خراب ہوگئی۔ جبکہ امی کا جوابی طعنہ یہ ہوتاکہ آپ کے گھر سے آنے والا زیور بھی ایک مہینے میں کالا پڑ گیا سونے کا کہہ کر لوہے کا زیور بھیج دیا تھا۔ اور اس کے بعد وقت نامعلوم تک جو بحث شروع ہوتی تو انگوٹھی، چپل، پاندان، دیگچی، بیڈ، پہناونی کے جوڑے، سرمہ دانی، لوٹا، آرسی مصحف کا آئینہ غرض دونوں طرف سے دی گئی ایک ایک چیز کی مدح سرائی ہوتی۔ جب تک کوئی اولاد کچھ ایسا نا کردیتی کہ دونوں کی توپوں کا رخ اس کی طرف ہوجائے۔ بسمہ کو لگ رہا تھا یہی سب کچھ اس کی زندگی میں بھی ہونے والا ہے نازک سا رشتہ حقیر چیزوں کی نظر ہوجائے گا۔ اس سے تو بہتر یہ لین دین ہو ہی نا۔
عجیب سی کیفیت تھی اس کی کبھی شدید خوشگوار احساس ہوتا کہ شاید اب وہ تمام رومانوی خیالات حقیقت ہونے والے ہیں اور کبھی یہ مسائل دیکھ کے پریشان ہوجاتی۔ وہ سوچتی کپڑوں کے لیئے اتنا سطحی رویہ دکھانے والا اچھا ہوسکتا ہے؟ پھر سوچتی اگر بہنوں نے یہ سب کچھ کہہ دیا جس کا وہ پلان بنا کر بیٹھی ہیں تو اس کا بھی توایسا ہی تاثر جائے گا۔کیا پتا باسط کے بارے میں بھی یہ سب کچھ غلط فہمی کا نتیجہ ہو۔ آخر بڑے بھیا بھی تو پیسے خرچ کرنے کے معاملے میں کنجوسی کی حد تک احتیاط پسند ہیں۔
17-
البتہ اسد کافی متاثر تھا باسط بھائی کی بائیک زبردست ہے، باسط بھائی کی پرفیوم کی چوائس کیااعلی ہے، باسط بھائی کلاسی کلر چوز کرتے ہیں۔
منگنی کا سامان آیاتوبسمہ کو تو سب کچھ ٹھیک ہی لگا مگر اسماء آپی اور بشرہ آپی نے ہر ہر چیز کا خوب تنقیدی جائزہ لیا۔ اسماء آپی کا کہنا تھا کہ اول تو منگنی پہ شرارے پہننا آوٹ ڈیٹڈ ہوگیا ہے اور ٹی پنک کلر بہت زیادہ پٹ گیا ہے ہر منگنی پہ دلہن یہی پہنے ہوتی ہے۔ بشرہ آپی کو جیولری پسند نہیں آئی ان کا کہنا تھا کہ جیولری کافی ہلکی ہے۔ اور یہ سب باتیں بعد میں آپس میں نہیں ہوئی بلکہ باسط کی بڑی بہن اور بڑی بھابھی جو سامان لے کر آئیں تھیں ان کے سامنے یہ سب بیان کیا گیا۔ بھابھی تو خاموشی سے سنتی رہیں جبکہ بہن کے چہرے پہ واضح ناگواری تھی۔ آخر جب ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا تو انہوں نے جتا دیا۔ کہنے کو ان کی چہرے پہ مسکراہٹ تھی مگر اس کے باوجود لہجے کا طنز واضح تھا
"چلیں شادی پہ ہم محلےکے درزی کو یہ سب تفصیل بتا کے اسی سے سلوا لیں گے۔ برانڈڈ برائیڈل سوٹ کا کیا فائدہ جب پسند ہی نا آئے۔ خیر ہر ایک کو برانڈز اور کلاسی کپڑوں کا اتنا سینس ہوتا نہیں بس جو مڈل کلاس شادیوں میں نظر آئے اسی کو ان سمجھتے ہیں۔
"اسماء دیکھو کچن میں کسی چیز کی ضرورت ہو تو اسد کو بھیج کے منگوا لو اتنی دور سے آئے ہیں یہ لوگ کوئی کمی نا ہو"
اسماء آپی نے نے جواب دینے کے لیئےمنہ کھولا ہی تھا مگر اس وقت دادی نے بروقت بات بدل دی۔ شاید ان کے خیال میں اتنا کہنا سننا کافی تھا۔
امی کو بھی شاید اندازہ ہوا کہ بات اس سے زیادہ سنجیدہ لے لی گئی ہے جتنا سوچا تھا۔
"بس بیٹا بچیاں تو انہی سب میں خوش ہوتی ہیں آپکو تو پتا ہے منگنی شادی پہ ہی بچیاں ارمان پورے کرتی ہیں اپنے پھر کہاں موقع ملتا ہے۔"
"جی آنٹی صحیح کہا مگر اسی موقع پر تو اچھی تربیت کا پتا چلتا ہے میری شادی پہ میری سسرال سے اتنا سستا سا سوٹ آگیا تھا کہ بس کیا بتاوں میں پورا ایک ہفتہ روئی مگر مجال ہے جو ہماری امی نے ایک بھی بات میرے سسرال والوں سے کہنے دی ہو۔ اب جس گھر میں جاکر رہنا ہے اس کے بارے میں بولتے ہوئے ہزار بار سوچنا پڑتا ہے نا۔ سسرال میں ایسے ہی تو نہیں میری سمجھداری کی مثالیں دی جاتیں آپ خود بتائیں میں نے پہلے ہی اپنا امیج خراب کر لیا ہوتا تو یہ مقام مل سکتا تھا؟"
بسمہ بچاری ہکا بکا بیٹھی تھی کہ کچھ نا بول کر بھی اتنی تعریفیں ہوگئیں کچھ بول دیا ہوتا تو کیا ہوتا
اگلے دن بسمہ نے فون کر کے فائزہ کو بلوا لیا۔ایک تو منگنی کا سامان دکھانا تھا اور دوسرا یہ بھی کہ دماغ میں جو کچھ چل رہا تھا وہ یہاں گھر پہ کسی کو نہیں بتا سکتی تھی۔ ایسے موقعے پہ صرف فائزہ ہی اس کی بات سمجھ سکتی تھی۔
فائزہ آئی تو اسے سامان نکال کے دیا اور خود کچھ کھانے پینے کی چیزیں لینے کچن میں آگئی۔ کچن میں جاتے ہوئے دادی پہ نظر پڑی تو دیکھتے ہی اندازہ ہوگیا کہ ان کا موڈ خراب ہے پاندان کی چھوٹی چھوٹی کٹوریاں زور زور سے پٹخ رہی تھیں۔ بسمہ چیزیں ٹرے میں رکھ کر نکلی ہی تھی کہ دادی نے آواز دے لی۔
"بی بی یہ ڈشیں بھر بھ گے کے کہاں لے جائی جارہی ہیں"
بسمہ کو کبھی کبھی دادی کا طرز تخاطب عجیب اور ہتک آمیز لگتا تھا وہ سیدھے سادھے کام کی پوچھ تاچھ ایسے کرتی تھیں جیسے کوئی خطرناک سازش کا کھوج لگا رہی ہوں۔ اور سازش بھی صرف خطرناک نا ہو بلکہ غیر اخلاقی بھی ہو۔
"دادی فائزہ آئی ہے میری چیزیں دیکھنے" اس نے حتی الامکان حد تک اپنے لہجے کو نارمل رکھا۔ اول تو ویسے بھی وہ منہ در منہ بحث کی عادی نہیں تھی۔ اور پھر فائزہ کی موجودگی میں وہ کوئی ذرا سی بھی بدمزگی نہیں چاہتی تھی۔ یہ پتا ہونے کے باوجود کہ فائزہ اس کے سب گھر والوں کو اچھی طرح جانتی ہے کبھی کبھی اس کا دل چاہتا کہ فائزہ کے سامنے اس کے گھر کا امیج بھی اتنا ہی شائستہ لگے جتنا فائزہ کے اپنے گھر کا ماحول ہے۔ مگر اس کی کسی کوشش کا کوئی فائدہ نہیں ہوا دادی کی آواز مزید تیز ہوگئی۔
"دیکھو بی بی یہ دوستیاں وغیرہ یہیں تک رکھنا سسرال والے یہ چونچلے نہیں برداشت کرتے۔ اور اس لڑکی سے اپنے دوستانے کا تو بلکل ذکر نہ کرنا۔ صحبت سے ہی انسان کے کردار کا پتا چلتا ہے اور یہ لڑکی۔۔۔۔۔ توبہ توبہ لڑکیوں والے کوئی لچھن ہی نہیں ہیں۔ اپنی سسرال میں تو جاکر جو گل کھلائے گی سو کھلائے گی تمہاری سسرال والوں کو یہ غلط فہمی نا ہوجائے کہ تم بھی اسی کی طرح دیدہ ہوائی ہو۔"
"دادی ایسی بات نہیں ہے فائزہ بہت سلجھی ہوئی لڑکی ہے اور پلیز آپ آہستہ تو بولیں وہ مہمان ہے اس وقت"
"ہونہہ اب ان کل کی چوہیوں کی بھی مہمان کے نام پہ عزت کرنی ہوگی۔ دیکھو بسمہ ہر ایک چلتے پھرتے کو یہ چیزیں نہیں دکھاتے۔ نظر بد تو سلطنتیں اجاڑ دیتی ہے تم کیا جانو۔"
اب کے بسمہ کو خاموشی سے آگے بڑھ جانے میں عافیت لگی اسے پتہ تھا بحث کا فائدہ نہیں مزید بدمزگی ہی ہوگی۔
"ارے دیکھو ذرا آج کل کی نسل کو عقل کی بات کرو تو بھاگ جاتے ہیں"
بسمہ کمرے میں آئی تو فائزہ ہنس رہی تھی۔
"کیا ہوا جن چڑھ گیا کیا اکیلی بیٹھی ہنس رہی ہو" بسمہ کو اندازہ تو ہوگیا کہ فائزہ نے سب سن لیا ہےمگر مذاق میں بات ٹالنے کی کوشش کی۔
"یار تیری دادی بڑا زبردست کریکٹر ہیں"
" تجھے برا نہیں لگا"
" برا ماننے کی کیا بات ہے جب مجھے ان کی عادت کا پتا ہے۔ اور میری دوست تو ہے تیری دادی تھوڑی ہیں جو ان کی بات پہ ناراض ہوجاوں۔ ہاں اگر تیرے میرے بارے میں یہی خیالات ہیں تو آئیندہ نہیں آوں گی تجھ سے ملنے"
"اف نہیں یار یہ بات نہیں ہے مگر یار کبھی کبھی مجھے بہت شرمندگی ہوتی ہے وہ تیرے سامنے تجھے کچھ بھی بول دیتی ہیں"
"یہ تو نے دادی پہ تھیسس لکھنا ہے کیا؟ چھوڑ بس جس وجہ سے بلایا ہے وہ بات کر"
بسمہ نے سر ہلایا اور پہلے اٹھ کر جلدی سے کمرے دروازہ بند کر کے آئی۔
"یار مجھے دونوں طرف کے لوگوں کے رویئے سمجھ نہیں آرہے"بسمہ کے لہجے میں بیچارگی تھی۔
"کیا مطلب کس قسم کے رویئے؟"
"دیکھ کوئی نیا بندہ ملنا جلنا شروع کرتا ہے جیسے نئے پڑوسی آئیں یا کوئی اور تو ہم اس سے بہت تکلف سے ملتے ہیں کوئی بات بری لگے تو بھی خاموش رہتے ہیں کوئی کم قیمت تحفہ بھی لیا دیا جاتا ہے تو بہت زیادہ شکرگزاری کا اظہار کیا جاتا ہے۔ مگر یار یہاں یہ حال ہے جہاں کوئی کمی نہیں بھی ہے وہاں بھی ڈھونڈ ڈھونڈ کر ایک دوسرے کی کمیاں نکالی جارہی ہیں ایک دوسرے کو سنایا جارہا ہے۔ تحفے حق سمجھ کے وصول کیے جارہے ہیں اور ان میں بھی سو سو خرابیاں۔ اب دیکھ یہ جو سامان ہے اس میں کیا برائی ہے؟ آپی والوں نے اتنی برائی کی باسط کے گھر والوں کے سامنے جواب میں وہ بھی لگی لپٹی رکھے بغیر مجھے سنا کے گئیں۔ جب دونوں طرف لوگوں کو ایک دوسرے پسند نہیں آئے تو رشتہ کیوں جوڑ رہے ہیں۔ میں نے کل رات ان لوگوں کے جانے کے بعداسماء آپی سے کہا بھی کہ آپی سب چیزیں ٹھیک تھیں تو برائی کرنے کی کیا ضرورت تھی تو کہنے لگیں تم ابھی نہیں سمجھو گی یہی وقت ہوتا ہے دوسروں پہ یہ ثابت کرنے کا کہ ہم کوئی گرے پڑے نہیں ابھی سے سب خاموشی سے سہتی رہو گی تو بعد میں بھگتو گی۔ یار اتنی کامن سینس تو مجھ میں ہے کہ یہ سب جوکچھ ہورہا ہے یہی بعد میں زیادہ پروبلم پیدا کرے گا۔ یار ان لوگوں کی تو اسٹریٹجی ہی بدل گئی ہے کہاں تو کیا دادی کیا امی ہر ہر بات پہ سسرال کی ماننے کے سبق دیتی تھیں کہ یہ سیکھ لو ورنہ سسرال میں جوتے پڑیں گے وہ مت کرو سسرال میں جوتے پڑیں گے ابھی سنا نا کہ دوستی تک چھوڑ دو۔ یعنی روز کے کام جو عموما گھر کی عورتوں کے آپس میں مل جل کر کرنے سے آرام سے ہوجاتے ہیں وہ تو میں گدھے کی طرح کرنا سیکھوں مگر ان کے منہ پہ ان کی برائیاں بھی کروں۔ بھائی الگ ناراض ہیں کہ باسط کی شاپنگ پہ بہت خرچا ہوگیا۔ جو بندہ ابھی دوسرے کی دلائی چیزوں پہ اس طرح اترا رہا ہے بعد میں کیا کرے گا۔ "
"بس بس بس محترمہ بریک لے لے تھوڑا۔ ایک ایک کر کے ڈسکس کرتے ہیں آج کیا اگلے پچھلے سارے رکارڈ توڑنے ہیں باتوں کے"
"بھول جاوں گی نا کوئی نا کوئی بات یہ سب باتیں مجھے اتنا ٹینس کر رہی ہیں رات رات بھر جاگ رہی ہوں۔ اور تیرے سوا کسی کو بتا بھی نہیں سکتی اور بار بار تجھ سے ملاقات کا موقع نہیں ملے گا۔"
" ہمم دیا کچھ تو گڑبڑ ہے۔"
"ابے ڈائیلاگ نا مار حل بتا"
"دیکھ یار پہلی بات تو یہ پتا چلے کے تمہارے یہ جو باسط صاحب ہیں یہ موصوف کس ڈیزائن کے بندے ہیں۔ کیونکہ رہنا تمہیں بھلے سسرال کے ساتھ ہے مگرشوہر کا رویہ اہم ہوتا ہے۔ "
"لو جی یہ کیا نئی بات بتا دی یہی تو آپی اور امی والے اتنے دن سے سمجھا رہے ہیں کہ بس باسط کو قابو میں کرلو تو سمجھ لو سب مٹھی میں"
"عقل کی اندھی شوہر کو قابو کرنا اور شوہر کے ساتھ ذہنی ہم آہنگی پیدا کرنا دو الگ باتیں ہیں"
"مجھے نہیں سمجھ آرہا اتنا گنجلک سا ہے سب کچھ"بسمہ بیچارگی سے جھنجھلا گئی۔
"بیٹا جی اول تو یہ وہ دریا ہے جس میں تیرے گھر والے تیراکی سکھائے بغیردھکا دے رہے ہیں تیرنا تجھے خود سیکھنا ہے اور کچھ چیزیں عمر اور تجربے کے ساتھ ہی سمجھ آتی ہیں جس کا تجھے موقع نہیں مل رہا 16 سال شادی کی عمر ہوتی ہے کوئی۔"
" تو کیا کروں گھر سے بھاگ جاوں کیا؟ کرنی تو ہے نا شادی"
"دیکھ ایسے میں امی زیادہ صحیح مشورہ دے سکتی ہیں اگر تو کسی بہانے ہمارے گھر آسکے کیوں کہ یہاں تو امی کی تجھ سے اکیلے بات ہو نہیں سکتی۔"
"ہونہہ اس کا سوچنا پڑے گا اب تو پرسوں منگنی ہے ہی۔ اس کے بعد ہی کسی دن آنے کی کوشش کرسکتی ہوں وہ بھی موقع ملا تو۔ فائزہ یار پتا نہیں کیا ہوگا میرا"
18-
جیسے جیسے وقت گزر رہا تھا بسمہ کی ٹینشن تو بڑھ ہی رہی تھی مگر ساتھ ہی وہ بہت خوابناک اور رومانوی سا محسوس کر رہی تھی ۔ پہلی بار باسط کو قریب سے دیکھے گی۔ منگنی سے ایک رات پہلے دادی کے سونے کے بعد خاموشی سے الماری میں سے باسط کی تصویر نکالی۔ آج وہ کسی ٹینشن کے بارے میں سوچنا ہی نہیں چاہتی تھی۔ وہ دوبارہ اپنے انہی رومانوی خیالات میں کھو جانا چاہتی تھی جو پچھلے دو سال سے اس کی رات کی مصروفیت تھے۔ وہ شکر ادا کر رہی تھی کہ باسط دیکھنے میں کافی پرکشش تھا۔ اور رنگ بھی گندمی مگر نکھرا نکھرا لگ رہا تھا۔ وہ پوری رات خیالوں میں باسط سے ہی باتیں کرتی رہی۔ منگنی کی ایکسائٹمنٹ میں نیند ہی نہیں آرہی تھی۔ ان چند اہم دنوں میں سے ایک دن جو لڑکی کی زندگی کے اہم ترین دن کہے جاتے ہیں۔ منگنی شادی اور ۔۔۔۔۔۔اس سے آگے کا سوچنے سے پہلے ہی شرم سے اس کے کان کی لوئیں تک اسے گرم محسوس ہونے لگیں۔ بالکل نا چاہتے ہوئے اسے خیال آیا کیا گل بانو کو بھی یہی سب محسوس ہوا ہوگا جب اسے پتا چلا ہوگا کہ اس کی شادی اس سے تین گنا بڑے شخص سے کی جارہی ہے۔ اس کی جذبات اتنی تیزی سے بدلے اسے خود بھی اندازہ نہیں ہوا۔ ایک آنسو چپ چاپ آنکھ سے نکل کر تکیے میں چھپ گیا۔ رات اتنی گزر گئی تھی اسے پتا ہی نہیں چلا دماغ پہ غنودگی محسوس ہورہی تھی۔ اسے احساس ہوا کہ برابر کے بیڈ پہ سے دادی اٹھی ہیں اور پھر ایکدم ہی کسی نے زور سے ہلایا۔
"بسمہ اٹھو گھر پہ کام پڑا ہے اور یہ محترمہ آدھا دن گزرنے کے باوجود سوئے جارہی ہیں۔"
یہ امی تھیں۔ وہ ہڑبڑا کے اٹھی۔ کچھ دیر تک تو اسے سمجھ نہیں آیا کہ ہوا کیا ابھی تو فجر ہوئی ہوگی۔ مگر کمرے سے باہر چہل پہل اور روشنی دیکھ کے اندازہ ہوا کہ دن نکل آیا ہے اور سب جاگ گئے ہیں۔ تب اسے اندازہ ہوا کہ دادی کے اٹھتے وقت ہی وہ شاید سو گئی تھی۔
اس پہ ایک دم عجیب سے گھبراہٹ طاری ہوگئی۔ آج شام اس کی منگنی ہے اس کا نام جزوی طور پہ ایک ایسے شخص کے ساتھ جڑ جائے گا جسے اس نے ابھی تک اصل میں دیکھا تک نہیں۔
پورا دن عجیب ہلچل سی رہی۔ ایسا لگتا تھا سب عجلت میں ہیں ہر کوئی اپنی اپنی اور الگ الگ بات کہہ رہا تھا۔ ہر ایک کا کام الگ تھا اور ہر ایک کو لگ رہا تھا کہ بس اسی کا کام سب سے اہم ہے۔ گھر کی چھت پہ ہی تقریب کا انتظام کروایا جارہا تھا۔ قناتیں،کرسیاں، ٹیبلیں، قالین صبح سے ہی نیچے چھوٹے سے صحن میں لا کر جمع کردیئے گئے تھے۔ بڑے بھیا کو لگ رہا تھا صرف وہی کام کر رہے ہیں باقی سب بس وقت ضائع کر رہے ہیں۔ حالانکہ وہ صرف شور مچارہے تھے کام سب ڈیکوریشن والے کر رہے تھے۔
اسد کو بار بار باہر کے کاموں کے لیئے دوڑایا جارہا تھا کبھی ہار اور پتیاں منگوانے کبھی مٹھائی منگوانے کبھی پیکو کے لیئے دیا ہوا دوپٹہ منگوانے۔ وہ جب کوئی کام کر کے آتا بھیا اسے ڈانٹتے کہ وہ اکیلے لگے ہوئے ہیں اور وہ گھومنے پھرنے میں لگا ہوا ہے۔ کوئی 5 بجے کے قریب آخر اسد کی بھی برداشت جواب دے گئی۔ گھر کی خواتین کو تب اندازہ ہوا جب باہر سے ایک دم جھگڑے کی آوازیں آنے لگیں۔
"آخر آپ کرتے کیا ہیں سوائے بیٹھے بیٹھے حکم چلانے کے اور شور مچانے کے۔ مجھے بسمہ نا سمجھیں جسے آپ کچھ بھی کہہ لیتے ہیں اور وہ خاموشی سے سن لیتی ہے۔ مجھ سے بات کرتے ہوئے سوچ سمجھ کے بولا کریں میں بھی اسی گھر کا مرد ہوں"
"ہیں ہیں ہیں لڑکے بڑے بھائی سے کوئی ایسے بات کرتا ہے۔ باپ کی جگہ ہوتا ہے بڑا بھائی" دادی اسد کی طرز تخاطب پہ حیران تھیں۔
"آپ کیا ٹوک رہی ہیں اسے آپ لوگوں کی ہی دی ہوئی ڈھیل ہے جو یہ میرے منہ آرہا ہے۔ میں سارا دن گدھے کی طرح خوار ہوتا ہوں تو ان صاحب کے عیش پورے ہوتے ہیں اور اب یہ مجھے آنکھیں دکھا رہا ہے۔" بھیا کی آواز اتنی بلند تھی کے اردگرد کے لوگ اپنی چھتوں پہ آگئے تھے کچھ لوگ گھر کے دروازے سے اندر جھانکنے کی کوشش کر رہے تھے۔
"یعنی آپ جو بولتے رہیں میں چپ کر کے سنتا رہوں؟ صبح سے دس چکر لگائے ہیں کام کے لیئے صرف اسی لیئے کہ ان کے ساتھ کام بانٹ سکوں۔ مگر ہر بار ان کے طعنے ہی نہیں ختم ہوتے۔کما کے لاتے ہیں تو احسان نہیں کرتے ہم پہ ہم سے بھی چاکری کرواتے ہیں اپنی۔ ان کی چالیس ہزار کی تنخواہ میں سے گھر پہ آدھی بھی خرچ نہیں ہوتی۔ میری کوئی فیس کبھی انہوں نے نہیں بھروائی۔ کپڑے جوتے کچھ بھی اس میں سے کس پہ خرچہ کرتے ہیں جو اتنا جتاتےہیں"
"بس کرو اسد گھر میں کام پڑا ہے اور تم بڑے بھائی سے بحث کرنے میں لگے ہو۔ چلو اندر بس ختم کرو" امی کھینچ کر اسد کو اندر لے گئیں۔
اسد اور بھیا کی تھوڑی بہت بحث بازی چلتی ہی رہتی تھی۔ مگر آج کا جھگڑا بہت بڑھ گیا تھا۔ بھیا کا چہرہ غصے سے لال ہورہا تھا۔ بسمہ کو ڈر لگنے لگا کہ اگر امی اسد کو اندر نا لے جاتیں تو وہ اسد کو ایک دو تھپڑ لگا ہی دیتے۔ خیر جب تک وہ کچھ چھوٹا تھا تو پٹتا ہی تھا مگر کچھ عرصے سے جس طرح وہ تن کے انہیں جواب دینے لگاتھا تو بھیا بھی اب صرف زبانی طنز پہ اکتفا کرتے تھے۔ گھر کا ماحول اور کشیدہ ہوگیا
بیوٹیشن نے آکر گھر پہ ہی بسمہ کا میک اپ کردیا۔ بسمہ تیار ہوتی رہی اور دل ہی دل میں اس کے دماغ میں کئی ماڈلز کی دلہن بنی ہوئی تصویریں آگئیں بسمہ کو یقین تھا کہ وہ بھی دلہن بن کے بہت پیاری لگے گی۔ بیوٹیشن نے اپنا کام نپٹایا بسمہ کا چہرہ آئینے کے دوسری طرف تھا اتنی دیر میں بشرہ آپی اندر آئیں
"ہائے اللہ بسمہ میری گڑیا کتنی پیاری لگ رہی ہو ماشاءاللہ " انہوں نے آگے بڑھ کے فورا اس کے سر پہ پیار کیا۔ بسمہ ہلکے سے مسکرائی اس نے آہستہ سے مڑ کے خود کو آئینے میں دیکھا
"یہ میں ہوں؟۔۔۔۔۔۔" اس کے سامنے ایک موٹے ہونٹوں والی سفید چہرے کی ایک پچیس تیس سال کی عورت نما دلہن کھڑی تھی۔
"آپی بیس بہت وائٹ نہیں ہوگیا؟ "اس نے ہچکچاتے ہوئے کہا
"ارے نہیں گڑیا برائڈل میک اپ ایسا ہی ہوتا ہے کیمرے میں اچھی آتی ہیں تصویریں۔"
بسمہ خاموش ہوگئی۔ کچھ دیر بعد ہی خاندان والے آنے لگے ہر کزن جس نے کبھی بسمہ سے سیدھے منہ بات بھی نا کی ہو وہ بھی اس کے روم میں آکر ایسے مل رہی تھی جیسے اس سے زیادہ قریبی دوست اور کوئی نہیں۔ سب سے پہلے تو عموما یہی تعریف کرتیں بسمہ کتنی پیاری لگ رہی ہو ویسے تو ماشاءاللہ ہو ہی پیاری۔ بسمہ کچھ کنفیوز سی تھی اسے ایسے ٹریٹ کیا جارہا تھا جیسے وہ کوئی جہاد جیت کے آئی ہے۔ ہر مہمان اس کا سگا بننے کی کوشش میں تھا۔ خواتین اپنے روتے بسورتے بچے لارہی تھیں آو دلہن دکھائیں آپ کو بھی دلہن چاہیئے یہ والی، پیاری ہے نا۔ وغیرہ وغیرہ۔ دولہا والوں کے آنے کا وقت گزارنا عذاب لگنے لگا تھا۔
آخر خدا خدا کر کے دولہا والے آئے بسمہ کے گرد لگا مجمع ایک دم سے چھٹ گیا سب عورتیں دولہا کو دیکھنے باہر چلی گئیں۔ بسمہ کے کمرے کے دروازے پہ پردہ ڈلا ہوا تھا اور بلکل ذرا سا کھلا ہوا تھا ہوا سے کبھی اور کھل جاتا اور کبھی بالکل بند ہوجاتا۔
مین گیٹ سے باسط کے گھر کی خواتین اندر آتی نظر آرہی تھیں ان پہ ایکسٹرا روشنی لگ رہی تھی جس سے اندازہ ہورہا تھا کے آگے مووی والا بھی ہے۔ وہیں سے تھوڑا ٹرن لے کر وہ سب چھت ک طرف جاتی سیڑھیوں پہ جارہی تھیں۔ پیچھے پیچھے مٹھائیوں کے ٹوکرے اٹھائے کچھ لڑکے اور اس کے پیچھے اندازہ ہورہا تھا باسط ہوگا کیوں کہ مووی والا ایکدم سے آگے آگیا اور ایسے اینگل پہ کھڑا ہوگیا کہ پردے کے بیچ موجود ذرا سی جگہ کے سامنے مووی والا آگیا تھا اور باقی سب اس کے پیچھے چھپ گئے۔ وہ کافی دیر کھڑا مووی بناتا رہا اور بسمہ کی آنکھیں پردے کی طرف رہیں آخر کار مووی کی لائٹس بند ہوئیں اور وہ سامنے سے ہٹا مگر سامنے خالی گیٹ بسمہ کا منہ چڑا رہا تھا۔ بسمہ کی دھڑکن ویسے ہی مسلسل تیز تھی اسے اور ٹینشن ہونے لگی۔ برابر بیٹھ کے کیسے دیکھوں گی۔وہ تھوڑی مایوس ہوگئی۔
ایک دم پردہ زیادہ کھلا اور فائزہ اندر آئی۔
"فائزہ بد تمیز یہ ٹائم ہے آ نے کا کب سے انتظار کر رہی تھی تیرا"
"ارے یار آئی ہوئی تو کافی دیر کی ہوں آنٹی والوں نے اوپر بھیج دیا تھا کہ اندر گرمی اور رش سے بسمہ کی طبیعت گھبرا رہی ہے"
"یہ لوگ اتنی عجیب حرکتیں کیوں کرتے ہیں باقی تو کسی کو نہیں روکا ابھی ابھی فوج گئی ہے یہاں سے۔"
"اچھا چھوڑ نا یہ بتا پتائی کس سے کرائی ہے سوری میک اپ کس سے کرایا ہے" فائزہ کی شرارت سمجھ گئی وہ
"سن فیس وائٹ ہورہا ہے نا بہت مجھے بھی یہی لگ رہا تھا آپی نے کہا برائیڈل میک اپ ایسا ہی ہوتا ہے"
" ہاں ہوتا تو ایسا ہی ہے ان کے پاس ایک ہی فارمولا ہوتا ہے جو یہ ہر چہرے پہ تھوپ دیتی ہیں ایج، فیس کٹ اور کومپلیکشن دیکھے بغیر. چل نا تو چل chill کر چند گھنٹوں کی بات ہے اصل میں تو تیرا وہی پیارا والا منہ ہے نا"
"مگر یار باسط تو یہی دیکھے گا نا ابھی"
"بے تکی باتوں پہ ٹینشن نا لے کچھ دیر کے خراب میک اپ سے کوئی کسی کی زندگیاں خراب نہیں ہوتیں۔ ویسے بھی صرف بیس زیادہ ہے باقی لگ تو پیاری ہی رہی ہے اور ریڈی ہوجا میں جارہی ہوں اوپر ، تھوڑی دیر میں تجھے بھی لے آئیں گے"
فائزہ کی باتوں سے وہ تھوڑا پرسکون ہوگئی اور واقعی کچھ ہی دیر بعد آپیاں اسے لینے آگئیں اور پیچھے کچھ دم چھلا ٹائپ کزنز بھی جو صرف مووی میں آنے کے شوق میں بسمہ کے ساتھ گھس گھس کے چل رہی تھیں۔
بسمہ آہستہ آہستہ سیڑھیاں چڑھتی ہوئی اوپر آئی مووی والے کے پیچھے کچھ نظر نہیں آرہا تھا سیڑھیاں ختم ہوتے ہی مووی والے نے کچھ دیر کے لیئے فلیش لائٹس بند کردیں۔ بسمہ کو ایکدم لگا اندھیرا ہوگیا مگر آہستہ آہستہ کچھ کچھ منظر واضح ہوا سامنے ہی اسٹیج پہ باسط اپنی بہن اور امی کے ساتھ بیٹھا تھا اور اس پہ پہلی نظر پڑتے ہی بسمہ کی صبح سے تیز چلتی دھڑکن ایک دم تھم گئی۔
"یہ باسط ہے؟"
اسٹیج پہ گندمی سے ذرا زیادہ گہرے رنگ کا لڑکا بیٹھا تھا بال کالے ضرور تھے مگر کچھ روکھے۔ اور عمر بھی چھبیس سے زیادہ ہی لگ رہی تھی۔
کچھ لمحوں کے لیئے اسے سمجھ ہی نہیں آیا کہ ہوا کیا ہے۔ کیا بندہ بدل گیا؟ مگر یہ کیسے ہوسکتا ہے۔ بشرہ آپی نے ہلکے سے ٹہوکا دیا۔
"چلو نا آگے۔"
وہ حیران سی ہی چل دی۔ جیسے جیسے قریب آتی گئی تو نقوش واضح ہوتے گئے۔ اسے اندازہ ہوا بندہ وہی ہے مگر تصویر میں زیادہ کمال شاید فوٹو گرافر کا تھا۔ جس نے برائٹنیس کا ظالمانہ استعمال کیا تھا۔عمر کافرق بھی اسی کمپیوٹر کے بےدریغ استعمال کا کمال لگ رہا تھا۔پہلے اس کو غصہ آیا مگر کچھ ہی دیر پہلے اپنا آئینے میں دیکھا سفید چٹا سراپا یاد آگیا۔
جب ہمیں ایک دوسرے کی اصلی شکل کے ساتھ زندگی گزارنی ہے تو اس دھوکے نما خرچے کی کیا ضرورت؟
باسط کی گہری کتھئی آنکھیں بغیر "کنٹراسٹ" کے کچھ پھیکی سی لگ رہی تھیں۔ اتنے میں اس کی بہن نے شرارتی مسکراہٹ کے ساتھ اس کی توجہ اسٹیج پہ آتی بسمہ کی طرف دلائی۔ اس وقت آنکھوں میں در آنے والی چمک کا مقابلہ کمپیوٹر سے کیا ہوا کنٹراسٹ بھی نہیں کرسکا۔ مگر بسمہ کی توجہ اس کی رنگت پہ تھی۔ ارمغان بھی اس سے تو گورا ہی ہوگا۔ کیا دیکھا میرے گھر والوں نے؟
"اففف۔۔۔ بسمہ تیری منگنی ہورہی ہے اور تو کہاں کہاں خیالات کے گھوڑے دوڑا رہی ہے" اس نے دل ہی دل میں خود کو ڈانٹا۔
ساری رسم میں اس کے جذبوں پہ جمود سا طاری رہااورباسط کے چہرے پہ بہت شریر مسکراہٹ رہی خاص طور پہ جب اس نے انگوٹھی پہنانے کے لیئے بسمہ کا ہاتھ پکڑا اور بالکل خفیف سے سر جھکا کر بسمہ کی آنکھوں میں جھانکنے کی کوشش کی۔ بسمہ نے اپنے سرد تاثرات چھپانے کے لیئے سر اور جھکا لیا۔ اس کی حرکت کو فطری شرم سمجھا گیا اور اسٹیج پہ زنانہ و مردانہ قہقہے گونج گئے۔
رسم کے بعد کافی دیر تک تصویروں کا سیشن چلتا رہا پہلے اس کی اور باسط کی الگ تصاویر کھینچی گئیں۔ پھر دونوں طرف کے رشتہ داروں کے ساتھ تصاویر کا سلسلہ شروع ہوا۔ کچھ رشتہ دار اسٹیج سے اترنے کو تیار نہیں تھے اور کچھ اسٹیج پہ آنے کو تیار نہیں تھے۔ اسی کھینچا تانی میں تقریبا بارہ بج گئے باقی سب نے اسی دوران کھانا بھی کھا لیا۔ باسط کے لیئے بھی الگ ٹیبل پہ کھانا لگا دیا گیا۔ کھانا اس کے سامنے بھی لگا ہوا تھا مگر کسی کو ٹائم نہیں تھا کہ دو منٹ بیٹھ کے اسے کھانا کھلا دے۔ دوپہر میں بھی اس نے ذرا سا ہی کھانا کھایا تھا اب بھوک اور کمزوری سے ہاتھ پاوں سن ہورہے تھے۔ ایک دو دفعہ دل میں آئی کہ مہمانوں پہ لعنت بھیجے اور خود ہی نکال کے کھانا شروع کردے۔ مگر "لوگ کیا کہیں گے" کا سوچ کے خاموش بیٹھی رہی۔ آخر جب سب خواتین نے استیج خالی کردیا تو فائزہ کو موقع ملا اس کے پاس بیٹھنے کا۔ اس نے بسمہ کے لیئے تھوڑی سی بریانی نکالی۔
"فائزہ"بسمہ نے ہلکے سے اسے آواز دی کہ کسی اور کو سنائی نا دے۔
"ہمم"
"تھوڑی اور نکال۔ مجھے بہت بھوک لگ رہی ہے"
"یہ تو کھا لے دوبارہ نکال دوں گی"
فائزہ نے آہستہ آہستہ اسے کھلانا شروع کیا۔ ایک تو میک اپ میں کھل کے کھایا نہیں جارہا تھا وہ بھی کسی دوسرے کے ہاتھ سے۔ کہاں تو اسے لگ رہا تھا کہ وہ دو تین پلیٹیں بھر کے بریانی کھا جائے گی اور کھاتے کھاتے یہ حال ہوا کہ چار پانچ نوالوں کے بعد ہی اس نے فائزہ کو روک دیا
"بس یار اب نہیں کھایا جارہا۔ بریانی بالکل بھی اچھی نہیں ہے"
"بیٹا جی بریانی ٹھیک ہے تیرا موڈ اور دماغ خراب ہے" فائزہ نے بہت ہلکی آواز میں ٹوکا۔ بسمہ کے چہرے پہ پھیکی سے مسکراہٹ آئی۔
فائزہ کو اندازہ ہوگیا تھا کہ ایکدم اس کا منہ کیوں لٹک گیا ہے۔ اس موضوع پہ تفصیلی بات چیت اس نے کچھ دن بعد تک ٹال دی۔
19-
لڑکے والے جانے کے لیئے تیار تھے جب باسط اپنی سب سے چھوٹی بہن مدیحہ کے ساتھ دوبارہ اسٹیج پہ آیا۔ فائزہ ابھی بھی بسمہ کے ساتھ ہی بیٹھی تھی۔ کافی مہمان جاچکے تھے۔ باسط کے چہرے سے لگا وہ کچھ ہچکچا رہا ہے۔ بہن نے ٹہوکا دیا۔
"دیں نا"
باسط نے ایک گفٹ آگے بڑھا دیا
"یہ آپ کے لیئے"
بسمہ نے کنفیوز ہو کر فائزہ کی طرف دیکھا۔ فائزہ نے کندھے اچکا دیئے۔
بسمہ نے ہچکچاتے ہوئے گفٹ پکڑ لیا۔ باسط ہلکے سے مسکرایا۔
"اپنا خیال رکھیئے گا"
بہت دیر پہلے دھیما ہوجانے والا دل ایک دم دوبارہ تیز دھڑکنے لگا۔ باسط اپنی بہن کے ساتھ جاچکا تھا۔
اس نے گفٹ فورا سامنے رکھی ٹیبل پہ رکھ دیا۔ جیسے خوف ہو کہ اگر گھر میں سے کسی نے دیکھ لیا تو ڈانٹ نا پڑ جائے کہ ایک لڑکے سے گفٹ لے لیا وہ بھی گھر والوں کو بتائے بغیر۔ بشرہ آپی باقی گفٹس اور چیزیں سمیٹنے آئیں تو وہ گفٹ بھی اٹھا کر نیچے کمرے میں لے گئیں۔ ان کی انداز سے لگ رہا تھا کہ وہ اسے بھی کسی اور مہمان کا گفٹ سمجھ رہی ہیں انہوں نے بسمہ سے کچھ پوچھا نہیں۔ سارے گفٹس نیچے ڈرائنگ روم کی ٹیبل پہ رکھ دیئے گئے۔ ناچاہتے ہوئے بھی بسمہ کی نظریں باسط والےگفٹ کے ساتھ ساتھ تھیں۔ 1 تو بج ہی گیا تھا سب کپڑے وغیرہ بدلنے میں لگ گئے۔ ادھر ادھر بکھرا سامان تھوڑا بہت سمیٹا گیا کہ صبح تک سونے کا انتظام ہو سکے۔ کئی دفعہ بسمہ کا گزر ڈرائنگ روم کے دروازے کے سامنے سے ہوا اور ہر باراس کی نظر باسط کے گفٹ پہ جا کر ہی ٹہری۔ رات اتنی ہوگئی تھی کہ یہ طے پایا کہ اب یہ سب گفٹس صبح کھولے جائیں گے۔ بستر پہ لیٹتے ہی کر بسمہ کو بے چینی شروع ہوگئی کہ گفٹ میں آخر ہوگا کیا۔ کبھی سوچتی اٹھ کر الماری میں چھپا دے کسی کو بتائے ہی نہیں کہ باسط نے کوئی تحفہ دیا ہے۔ کبھی سوچتی کی بس سب گفٹس میں مکس ہوگیا ہے کسی کو کیا پتا کہ کس نے دیا ہے۔ پھر دھیان آیا کہ بشرہ آپی اور اسماء آپی بچوں سمیت وہیں سورہی ہیں بچے تحفے ادھر ادھر نا کردیں۔ تھکن اتنی تھی کہ زیادہ دیر سوچ بھی نہیں پائی اور نیند میں ڈوبتی چلی گئی۔
صبح گھر میں چہل پہل سے اس کی آنکھ کھلی پہلی بار ایسا ہوا تھا جب وہ سب کے جاگنے تک سوتی رہی مگر کسی نے اسے جھنجوڑ کر اٹھایا نہیں۔ دوسرے ہی لمحے اسے گفٹ یاد آیا کچھ سوچے سمجھے بغیر وہ ایک دم بستر سے اٹھی اور بھاگ کے ڈرائنگ روم میں آگئی دونوں آپیاں اپنے بچوں کو لیئے بیٹھی تھیں اور ناشتہ کروا رہی تھیں۔ معمول کے مطابق ڈانٹ ڈپٹ چل رہی تھی مگر بسمہ کا دھیان ان کی طرف تھا ہی کب اس کی نظریں تو سب سے پہلے ٹیبل پہ رکھے گفٹس پہ گئیں سب کچھ جوں کا توں دیکھ کر اسے سکون ہوا اور جیسے ہوش آگیا۔
"وہ آپی رات جو جھمکے پہنے تھے وہ یہاں ٹیبل پہ چھوڑے کیا میں نے؟" سٹپٹا کر اس نے بے تکی بات بنا دی۔
"جھمکے؟ نہیں تو وہ تو تم نے فورا ہی اتار کر جیولری باکس میں رکھے تھے نا، وہاں نہیں ہیں؟"
اسماء آپی کی نظریں چھوٹی بیٹی پہ تھیں جسے وہ نوالا کھلانے بلکہ ٹھسانے کی کوشش میں تھیں مگر جواب بسمہ کو دیا۔
"اچھا میں وہیں دیکھ لیتی ہوں"
" یہ سب بعد میں کرنا جلدی سے ناشتہ واشتہ کر کے فارغ ہوجاو گفٹس اور لفافے کھولیں۔ بچوں نے صبح سے دماغ کھایا ہوا ہے کہ خالہ جانی کے گفٹس کھولیں۔ بھیا بھی کئی بار انہیں ڈانٹ کے جا چکے ہیں مگر آج تو یہ قابو میں ہی نہیں آرہے۔" اسماء آپی نے اس کے مڑتے مڑتے پیچھے سے تھوڑا زور سے کہا۔
وہ "جی آپی" کہہ کر غسل خانے میں گھس گئی۔ تھوڑی ہی دیر میں وہ ناشتے سے فارغ ہوکر ڈرائنگ روم میں آگئی۔ اسے دیکھتے ہی باقی سب بھی آگئے جیسے بس اسی کا انتظار ہو۔ اسے عجیب بھی لگا اور اچھا بھی۔ اتنا پروٹوکول تو اسے کبھی نہیں ملا کہنے کواسکول میں پوزیشن ہولڈر تھی مگر بھیا اور اسد کے پاس ہونے پہ جتنی سیلیبریشن ہوتی اتنی اس کے فرسٹ یا سیکنڈ آنے پہ نہیں ہوتی تھی۔ وہ اہمیت جو وہ گھر کا فرد ہونے کی حیثیت سے ہمیشہ چاہتی تھی۔ وہ اسے آج مل رہی تھی۔ یہ سب اس نے اسماء آپی اور بشرہ آپی کی شادی پہ بھی نوٹ کیا تھا جب ان سے وی آئی پی کی طرح برتاو کیا جارہا تھا۔ مگر اپنے لیئے یہ سب ہوتے دیکھنا، یہ سب بہت الگ احساس تھا۔ پہلے تو اس کی کبھی نہیں چلی باقی سب سے چھوٹی تھی اور اسد سے بڑی ہونے کے باوجود لڑکی ہونے کی وجہ سے اس کی ہی سننی پڑتی تھیں وہ مرد جو تھا۔ بقول دادی، کہ بھائی چھوٹا بھی ہو تو بڑا ہی سمجھنا چاہیئے انہیں تو بسمہ کا اسد کو نام لے کر پکارنا بھی پسند نہیں تھا۔ بسمہ تب چونکی جب فہد بھیا نے اسے کہا "بسمہ لفافے تمہارے پاس ہیں یا امی کے پاس لے آو تو پہلے وہ کھول لیں۔" ان کے ہاتھ میں کاپی پین تھا۔
"نہیں بھیا پہلے گفٹس کھولتے ہیں نا۔ آپ اور ابو بعد میں لفافوں کا حساب کرتے رہیئے گا وہ سارے امی کے پاس ہی ہیں۔"
بشرہ آپی یہ کہتے ہوئے اٹھ گئیں۔ انہوں نے سب سے پہلے باسط والا گفٹ اٹھایا۔
"سب سے پہلے تو یہ سب سے اسپیشل گفٹ کھلے گا" سب معنی خیز انداز میں ہنس پڑے
تب بسمہ کو اندازہ ہوا کہ سب کو پہلے سے پتا تھا کہ یہ گفٹ باسط نے دیا ہے۔
"ان لوگوں کو برا نہیں لگا؟" گھر کے خوش گوار ماحول پہ وہ خوش بھی تھی مگر ان کے غیر متوقع رویوں پہ حیران بھی
"یہ تو بسمہ کو ہی دو خود کھول کے دیکھے کہ ان کے انہوں نے کیا دیا" اسماء آپی نے شوخ لہجے میں کہا۔
"یہ لیں جی دلہن صاحبہ کھولیئے اپنے ہونے والے سرتاج کا تحفہ" بشرہ آپی نے فورا گفٹ اس کے سامنا کردیا۔ وہ ایک دم گڑبڑا گئی۔
"آپی آپ ہی کھول لیں"
"یار تم لوگ گفٹس دادی کے روم میں لے جا کر کھول لو ہمیں لفافوں کا حساب کرنے دو" بھیا کا جھنجھلاہٹ میں دیا ہوا مشورہ بسمہ کو غنیمت لگا کم از کم سب بڑوں کے سامنے نہیں کھولنا پڑتا گفٹ۔وہ تینوں بہنیں گفٹس لے کر دادی اور بسمہ والے کمرے میں آگئیں۔
گفٹ کھولتے ہوئے بسمہ کے ہاتھ ہولے ہولے کانپ رہے تھے۔ پہلی بار کسی لڑکے کا گفٹ کھول رہی تھی۔ ڈبہ دیکھ کر بھی اسے سمجھ نہیں آیا کہ اندر کیا ہے عموما تو اس نے یہی دیکھا تھا کہ گھر میں کوئی بھی الیکٹرانکس کا پرانا ڈبہ ہوتا اس میں سوٹ یا چوڑیاں یا کوئی بھی ایسا گفٹ پیک کر دیا جاتا جس کا ڈبہ نہیں ہوتا تھا۔ وہ سمجھی اس میں بھی کوئی ایسا گفٹ ہوگا شاید کوئی شو پیس۔ موبائل کے ڈبے میں سوٹ تو آ نہیں سکتا،ڈبہ کھول کے ایک لمحے کو وہ ششدر رہ گئی۔ اس میں بالکل نیا موبائل رکھا تھا۔
"واہ بسمہ تیرے تو عیش ہوگئے" بشرہ آپی بول پڑیں۔ اس نے موبائل آن کیا تو اندازہ ہوا اس میں سم بھی ہے سگنل پورے ہوتے ہی ٹون بجنے لگی۔ ایک ساتھ تین میسج آگئے۔ نمبر باسط کے نام سے پہلے سے سیو تھا۔
"چلو بھئ چلو یہاں تو پرسنل باتیں شروع ہونے والی ہیں" بشرہ آپی اور اسماء آپی گفٹس وہیں چھوڑ کے ہنستی ہوئی باہر نکل گئیں۔
"ہیلو باسط ہئیر"
"ہیلو بسمہ گفٹ کیسا لگا"
"اتنا ایٹیٹیوڈ تو مت دکھائیں یار آپ کا منگیتر ہوں"
بسمہ کو تینوں میسج دیکھ کے اندازہ ہوا کہ باسط شاید رات سے ہی میسج کر رہا ہے۔
اسے لگا وہ ناراض نہ ہوجائے۔ غیر ارادی طور پہ اس نے ٹائپ کرنا شروع کردیا
"سوری موبائل ابھی آن کیا۔ یہ تو بہت مہنگا گفٹ ہے" سینڈ کر دینے کے بعد سوچا کہ گھر میں سے تو کسی سے پوچھا ہی نہیں۔ بھیا کو پتا چلے گا تو وہ تو بہت ناراض ہونگے۔ پھر سوچنے لگی کیا پتا نا بھی ہوں آجکل تو سب نرالا برتاو کر رہے ہیں۔
وہ اپنی سوچوں میں ہی تھی کہ دوبارہ ٹون بجی
"جنہیں زندگی سونپ دی ہو ان کو موبائل دینا مہنگا تو نہیں "
یار یہ ایک دم اتنا فری کیوں ہوگیا؟۔ بسمہ کچھ حیران بھی تھی اور الجھن میں بھی۔ منگنی کوئی اتنا مظبوط بندھن بھی نہیں یہ تو بس ایک وعدہ ہے اس پہ اتنی جلدی اتنی بے تکلفی؟ اسے سمجھ ہی نہیں آیا کہ اس کا کیا جواب دے۔ کافی دیر وہ موبائل ہاتھ میں لیئے بیٹھی رہی۔
"بسمہ؟ آپ کو میری بات پسند نہیں آئی یا میرا تحفہ؟ "
اب بسمہ کو لگا کسی کو تو بتا ہی دے۔ یہ نا ہو ذرا سی لا پرواہی نئے بنے بنائے رشتے کو خراب کردے۔
باہر نکلتے نکلتے دروازے پہ رک گئی۔ بتاوں کسے؟ جو ڈانٹے بغیر مسئلہ حل کرسکے؟ پھر اسے خیال آیا ڈانٹ تو سب سے ہی پڑنی ہے تو امی سے پوچھ لیتی ہوں ان سے ڈانٹ کھانے کی سب سے زیادہ عادت ہے تو سب سے کم بے عزتی محسوس ہوگی۔ آنکھیں بند کرکے دو تین گہرے سانس لیئے اور ہمت جمع کرکے کچن میں چلی گئی۔
"امی !"
"ہمم"
امی چولہے پہ کچھ پکانے میں مگن تھیں۔
"یہ ب۔۔۔ کل جو تحفہ ملا اس میں سے موبائل نکلا ہے" وہ باسط کہتے کہتے جھجھک گئی۔
"ہاں بتایا مجھے بشرہ اور اسماء نے اچھے خاصے گفٹس کھولنا چھوڑ چھاڑ بھاگ کے بتانے آگئیں سب کو"
"اس پہ میسج آرہے ہیں"
"کس کے"
"جن کا گفٹ ہے" وہ اب بھی باسط کا نام لینے سے کترا گئی۔
"تو میں کیا کروں؟" امی کا مسلسل دھیان چولہے پہ رکھے بھگونے پہ تھا۔
"یہی تو میں پوچھنے آئی تھی کہ میں کیا کروں؟ مطلب جواب دوں یا نہیں"
"کرلو بات منگیتر ہے تمہارا اچھا ہے شادی سے پہلے کچھ ذہنی ہم آہنگی ہوجائے گی بس ایک حد میں رہ کر بات چیت کرنا یہ نا ہو کہ گھر کے کام پڑے ہوں اور شہزادی فون پہ لگی ہوں۔ مجھے نہیں پسند لڑکیوں کا ہر وقت فونوں میں گھسے رہنا۔" جس بات پہ ڈانٹ سننے کی توقع تھی اس پہ تو نہیں پڑی جو غلطی کی ہی نہیں تھی اب تک اس پہ ڈانٹ پڑ گئی۔ بسمہ کمرے میں آگئی۔
"تحفہ تو اچھا ہے مگر بہت مہنگا ہے" بسمہ کو کچھ سمجھ نہیں آیا کہ کیا جواب دے تو دوبارہ یہی میسج کردیا۔
"افف آپ اس پہ کب تک پریشان ہوتی رہیں گی؟ آپ سے بات بھی تو کرنی تھی آپ چاہیں تو میں موبائل واپس منگوا لوں پھر آپ کے ابو یا فہد بھائی کے موبائل پہ کال کرلیا کرونگا آپ سے بات کرنے کے لیئے۔ ٹھیک ہے؟"
"ان کے موبائل پہ تو بہت عجیب لگے گا بات کرنا"
" جی بالکل لگے گا مجھے اندازہ تھا اسی لیئے موبائل دیا آپ کو، اب داد دیں اپنے ہونے والے سرتاج کی ذہانت کی"
"اوہو بس اتنی سی بات پہ ذہانت کے دعوے کرنے لگے" بسمہ ہنس دی۔ بالکل لاشعوری طور پہ وہ ایک دم ہی مطمئن بھی ہوگئی اور کانفیڈنٹ بھی پتا نہیں امی کی اجازت کا نتیجہ تھا یا باسط کے دوستانہ رویئے کا۔
دن گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ ہوگیا کہ بسمہ جہاں جاتی موبائل ساتھ ساتھ ہوتا۔ جیسے ہاتھ پہ چپک گیا ہو۔ کئی دفعہ برتن دھوتے میں سنک میں گرتے گرتے بچا۔ کبھی آٹا گوندھتے میں آٹے سے لتھڑ جاتا۔ یا سالن پکاتے میں چکنائی سے تربتر ہوجاتا۔ پھر بڑی احتیاط سے صاف کیا جاتا۔ شروع شروع میں سب ہلکی پھلکی چھیڑ چھاڑ کرتے رہے اس کی اور باسط کی میسجنگ کے حوالے سے اور پھر ایک دم دادی سے اعتراضات شروع ہوئے اور اسد تک نے اس کار خیر میں حصہ لینا شروع کردیا۔ ان کا اعتراض صرف زیادہ میسجنگ پہ ہوتا تو الگ بات تھی مگر خود اجازت دے کر اب اسے اس قسم کی باتیں سنائی جانے لگیں جیسے اس نے اپنی پسند سے کسی سے چکر چلا لیا ہو۔
کبھی دادی اس کے ہاتھ میں موبائل دیکھ کر قرب قیامت کی پیشنگوئی کرتیں، کبھی امی باپ بھائی کے سامنے بے حیائی پہ ٹوکتیں، کبھی بھیا سستی کا بہانا قرار دیتے۔ جبکہ اس کی کوشش ہوتی کہ اس کی میسجنگ سے اس کا کام متاثر نا ہو۔ کبھی اسد طنز کرتا کہ بسمہ ہائی فائی ماڈرن لڑکی ہوتی جارہی ہے کہ کھلے عام لڑکے سے باتیں کرتی ہے۔ بہنوں کوشکایت ہوتی کہ بسمہ اب ہمیں منہ ہی نہیں لگاتی۔
ہر دفعہ کسی کی بات پہ دلبرداشتہ ہو کر سوچتی کہ اب باسط سے کہہ دے گی کہ میسجنگ بند کریں اب شادی کے بعد ہی بات ہوگی مگر شاید کوئی نشہ تھا جو چھوٹتا ہی نہیں تھا۔ پہلی بار کوئی ایسا ملا تھا جو ہر وقت اس کی ہر بات سننے کو تیار تھا جو اس کی بےوقوفانہ بات پہ بھی فدا ہوتا۔ جو ہر وقت اس کی خوبصورتی اور ذہانت کو کھلے الفاظ میں سراہتا۔ یہ رشتہ گل بانو اور فائزہ کی دوستی سے کچھ الگ ہی تھا۔اس کے رومان پرور تصورات جیسا۔
20-
بسمہ کی راتیں پھر سے تصورات میں گزرنے لگیں۔ بس یہ ہوتا کہ تصورات میں بھی وہ تھوڑا فوٹو شاپ کی مدد لے ہی لیتی۔ اسے ابھی تک باسط کی رنگت پہ تسلی نہیں ہوئی تھی۔
گھر والوں کا رویہ بدلنے کے ساتھ ہی اسے یاد آیا کہ فائزہ سے بات ہوئی تھی اس کی امی سے مشورہ کرنے کی۔ جب تک سب اچھا چل رہا تھا وہ بھولی بیٹھی تھی۔ اب اس کا ارادہ تھا کہ وہ دونوں ہی مسئلوں پہ بات کر لے گی۔ گھر والوں کا رویہ بھی اور باسط کی رنگت بھی۔ ایک دو دفعہ اس نے باسط کو مشورہ بھی دیا کہ وہ وائیٹننگ فیشل کروا لیا کرے یا پھر کوئی فئیرنیس کریم یوز کرنی شروع کردے۔ کبھی باسط مذاق میں بات ٹال جاتا اور کبھی خاموش ہوجاتا کچھ دیر کے لیئے۔ پھر وہ صفائیاں پیش کرنے کی کوشش کرتی کہ اسے مسئلہ نہیں بس لوگ مذاق اڑاتے ہیں اور اسے اچھا نہیں لگے گا کہ کوئی باسط کا مذاق اڑائے۔
کئی دفعہ سوچا کہ اسے نہیں ٹوکے گی مگر پھر کسی گورے ہیرو کو دیکھ لیتی یا گھر پہ کالوں کا مذاق اڑتا دیکھتی تو شدت سے خواہش ہوتی کہ کاش باسط کا رنگ تھوڑا صاف ہوتا۔ پہلے شاید گھر والوں نے لحاظ رکھا ہو مگر اب سب گھما پھرا کر باسط کی رنگت پہ کچھ نا کچھ بولنے ہی لگے تھے۔ اس پہ اسے اور غصہ آتا کہ دیکھ کر بھی خود وہی لوگ آئے تھے اب اسے ایسےسناتے ہیں جیسے اس نے کالے دولہا کی ضد کی تھی۔ اس پہ قنوطیت سی طاری رہنے لگی تھی اسے لگنے لگا ہر بری چیز جان بوجھ کے اس کے حصے میں رکھی جاتی ہے۔ ویسے بھی گھر والوں کو اس کی کوئی خاص پروا تھی نہیں کم از کم یہ ایک چیز تو ڈھنگ کی دے دیتے اسے۔ اب اسے پکا یقین ہونے لگا تھا کہ وہ گھر میں اضافی ہے اور اسے بوجھ سمجھ کے سر سے اتارا جا رہا ہے۔ وہی اسد جو منگنی سے پہلے باسط کی ہر چیز کی تعریفیں کرتا تھا اب بار بار اس کے کمپلیکشن کا مذاق اڑاتا۔ ایک دن وہ واقعی کافی چڑ گئی جب اسد اسے بلا وجہ چڑائے جارہا تھا۔
"تمہارے کالو صاحب کو چمکیلے رنگ پہننے کا اتنا شوق ہے فل ٹائم کنٹراس مار کے آتے ہیں "
سب اس کی بے تکی باتوں پہ ہنس رہے تھے جس پہ بسمہ کو اور غصہ آرہا تھا۔
"اوپر سے پتا نہیں کس چیز سے منہ دھو کے آتے ہیں یہ لش پش منہ چمک رہا ہوتا ہے باٹا کے جوتوں کی طرح"
"آئے ہاں کبھی کبھی تو واقعی بہت چمک رہا ہوتا ہے اس کا منہ کالا کالا۔" دادی بھی حمایت میں بول پڑیں۔
"تو نہیں کرنا تھا نا یہ کالا کالا پسند۔ بھگتنا تو مجھے پڑے گا ساری زندگی اس کا رنگ بھی اور آپ لوگوں کا طنز بھی۔"
"ارے ارے دیکھو ذرا اس کی گز بھر کی زبان اب ماں باپ کے فیصلوں پہ اعتراض ہوگا۔ بی بی اتنا اعتراض تھا تو خود کوئی شہزادہ ڈھونڈ لیا ہوتا۔ ماں باپ شکل نہیں دیکھتے یہ دیکھتے ہیں کہ بیٹی خوش کہاں رہے گی۔"
"تو مذاق بھی تو آپ لوگ ہی اڑا رہے ہیں" وہ روہانسی ہوگئی۔
"ارے بھائی ہے چھوٹا دو باتیں مذاق میں کرلیں تو ٹسوے بہانے لگیں محترمہ، ارے سسرال میں کیا کیا برا بھلا سننا پڑتا ہے وہ کیسے سہو گی"
" دادی ضروری ہے کہ ایسی سسرال دھونڈی جائے جو کچھ برا بھلاضرور کہے؟"
آج پتا نہیں اسے کیا ہوگیا تھا وہ منہ در منہ جواب دینے کو تیار بیٹھی تھی۔
"لاحول ولا پگلا گئی ہو کیا؟ کوئی جان بوجھ کے ایسی سسرال نہیں ڈھونڈتا اولاد کے لیئے مگر سسرال جگہ ہی ایسی ہے بیٹیوں کو بڑا دل مضبوط کر کے اپنا گھر چھوڑنا ہوتا ہے۔"
"دادی جو لوگ اپنی بیٹی کو محبت دے سکتے ہیں وہ بہو کو کیوں نہیں؟"
"کیونکہ بہو سگا خون نہیں ہوتی"
" نہیں دادی مسئلہ یہ ہے کہ انہیں محبت دینے کی عادت ہی نہیں،چاہے وہ بیٹی ہو یا بہو مجھے کونسا پیار دے دیا آپ لوگوں نے؟ ہاں بس یہ ہے کہ ایسا رویہ بڑے بھیا یا اسد کی بیوی کے ساتھ ہوگا تو وہ چپ کرکے نہیں سہے گی کیونکہ وہ سگا خون نہیں اپنے سگے رشتوں کی شکایت کرتے ہوئے اپنی ہی انا مجروح ہوتی ہے "
وہ صرف سوچ کے رہ گئی ایک آنسو گال تک آگیا اگلا نکلنے سے پہلے پہلے وہ اٹھ کر کمرے میں آگئی۔تکیے میں منہ دیئے کافی دیر روتی رہی۔ ہر بار روتے ہوئے اسے امید ہوتی کہ کوئی تو چپ کرانے آئے گا۔ مگر سب ایسے اپنے کاموں میں لگے رہتے کہ اسے لگتا اس کو رلانا ہی مقصد تھا شاید تبھی کسی کو اس کے رونے پہ ترس نہیں آتا تھا۔ نا کوئی منانے کی کوشش کرتا نا اپنے غلط رویئے پہ معافی مانگتا۔ آج بھی وہ روئے جارہی تھی کہ موبائل کی ٹون بجی۔ اسے اندازہ ہوگیا کہ کس کا میسج ہے مگر اس وقت وہ اس سے بالکل بات نہیں کرنا چاہتی تھی۔ سارا غصہ ہی اس سے شروع ہوا تھا۔ ناچاہتے ہوئے بھی اس نے میسج کھول لیا۔
"میری زندگی کی روشنی کہاں گم ہے؟"
"جائیں آپ مجھے ابھی بات نہیں کرنی" وہ خود کو جواب دینے سے نہیں روک پائی مگر جواب سختی سے ہی دیا۔
"ارے کیوں بھئی اتنا غصہ کیوں جناب؟"
کچھ نہیں بس اسد سے تھوڑا جھگڑا ہوگیا"
"اوہو یہ تو گڑبڑ ہوگئی۔ ہماری بسمہ کا موڈ خراب ہے اور وہ اتنی دور ہے"
" پاس ہونے پہ کیا فرق پڑنا تھا"
"وہ تو آپ پاس ہوتیں تو آپ کو پتا چلتا"
"پھر بھی کیا ہوتا" وہ اپنی ناراضگی بھول بھال کے باتوں میں لگ گئی۔
"ابھی بتاوں گا تو آپ ناراض ہوجائیں گی"
"لو یہ کیا بات ہوئی۔ بتائیں نا باسط"
"نہیں بھئی ابھی بتا دوں گا تو آپ کہیں گی باسط آپ گندی گندی باتیں کرتے ہیں"
"پہلے کبھی آپ کو کہا ہے ایسا"
" پہلے نہیں کہا مگر میں جو کروں گا وہ ابھی بتا دیا تب آپ یہ ضرور کہیں گی؟" میسج پڑھ کر بسمہ کی کان کی لوئیں تک سرخ ہوگئیں۔
"آپ بد تمیز ہیں بہت، جائیں میں واقعی بات نہیں کر رہی۔"
موبائل سائیڈ میں رکھ کر اس نے تکیے میں منہ چھپا لیا۔ دو تین دفعہ موبائل مزید بجا پھر خاموش ہوگیا۔ بسمہ کی دھڑکن بہت بڑھی ہوئی تھی اور چہرے پہ آجانے والی مسکراہٹ اب اس سے کنٹرول نہیں ہورہی تھی۔
موبائل سائیڈ میں رکھ کر اس نے تکیے میں منہ چھپا لیا۔ دو تین دفعہ موبائل مزید بجا پھر خاموش ہوگیا۔ بسمہ کی دھڑکن بہت بڑھی ہوئی تھی اور چہرے پہ آجانے والی مسکراہٹ اب اس سے کنٹرول نہیں ہورہی تھی۔
اور پھر آہستہ آہستہ باسط کے میسجز مزید شوخ ہوتے چلے گئے۔ کہیں کہیں پہ وہ صرف شوخ نہیں ہوتے بلکہ بسمہ کو لگتا کہ کافی فحش ہیں مگر وہ منع بھی کرتی تھی تو باسط مذاق میں بات اڑا دیتا۔ زیادہ سختی سے وہ کچھ کہہ بھی نہیں پاتی تھی۔ ورنہ باسط ناراض ہوجاتا تھا ایک دو دفعہ اس نے کہہ بھی دیا کہ یار تمہیں میری باتیں اتنی بری لگتی ہیں تو ہم نہیں کرتے بات۔ تم سے ایک بات برداشت نہیں ہوتی زندگی بھر مجھے کیسے برداشت کرو گی۔
پتا نہیں یہ دھمکی ہی ہوتی تھی یا نہیں مگر بسمہ کو دھمکی ہی لگتی تھی۔ پھر وہ بھی عادی ہوتی چلی گئی۔ زیادہ عجیب تب ہوا جب ایک دو بار اسماء آپی نے بغیر پوچھے اس کا موبائل دیکھا بھی اور کچھ ایسے ویسے ٹائپ کے جوک اس سے پوچھے بغیر اپنے نمبر پہ فارورڈ بھی کر لیئے۔ وہ دیکھتی رہ گئی اس کا خیال تھا کہ گھر میں کوئی ہنگامہ وغیرہ ہوگا کہ بسمہ منگیتر سے اس قسم کی باتیں کرتی ہے مگرباتوں باتوں میں اسماء آپی ایک دن کہہ گئیں
"یار بسمہ تیرے منگیتر کا سینس آف ہیومر اچھاہے شکر کر میرے میاں کی طرح بورنگ نہیں ہےوہ"۔
اس سے پتا نہیں آپی کی کیا مراد تھی مگر اسے اچھا نہیں لگا۔ اب اسے شادی شدہ خواتین کی محفل میں بیٹھنے کی بھی اجازت مل گئی تھی اور جو باتیں بڑی روانی سے یہاں کی جاتیں باسط کے میسجز اسے ان کے مقابلے میں تمیزدار لگتے تھے۔ کبھی کبھی تو وہ خود سٹپٹا کے کمرے سے نکل جاتی جتنی ذاتی باتیں بہت آرام سے زیر بحث ہوتیں۔ اور پھر وہ ان باتوں کی بھی عادی ہوتی چلی گئی۔ وقت گزرتا جارہا تھا شادی کی تاریخ بھی قریب آرہی تھی۔ باسط چاہ رہا تھا کہ شادی کا سوٹ اور کمرے کا فرنیچر پسند کرنے کے لیئے وہ اور بسمہ ساتھ جائیں اور بسمہ کا خون خشک ہورہا تھا یہ سوچ سوچ کر کہ بھیا تو جائیں گے ہی ان کے سامنے وہ بول ہی کیا سکے گی۔
پہلے تو باسط ڈائریکٹ اصرار کرتا رہا پھر ایک دن اس کی بہنیں اور دو بھابھیاں آگئیں اجازت لینے، اس وقت تو امی نے کہا ہم گھر کے مردوں سے پوچھ کے بتائیں گے مگر ویسے سب راضی تھے بس دادی کو منانا تھا۔ دادی کی بھی سب سے مضبوط دلیل یہی تھی کہ لوگ کیا کہیں گے۔ اور ہمیشہ کی طرح امی کی مرضی ہی فیصلہ ٹہری۔ مگر نہیں ہمیشہ کی طرح نہیں بسمہ کو یاد ہے جب وہ چھوٹی تھی اور دادی اتنی کمزور نہیں ہوئی تھیں، بھیا بھی اسکول میں تھے تب دادی کی کہی ہوئی بات پتھر پہ لکیر ہوتی تھی۔امی کے لیئے اس سے الگ کوئی فیصلہ کرنا تو دور کی بات اپنی ناپسندیدگی کا اظہار بھی ممنوع تھاتب تک دادا زندہ تھے گھر دادا کے نام تھا۔ دادا کے انتقال کے بعد ابو نے تھوڑابہت جو جو بھی دونوں بھائیوں کا حصہ بنتا تھا وہ دے کر اور بہن سے حصہ معاف کروا کر گھر اپنے نام کروالیا تھا۔ دونوں بھائی ویسے ہی کافی عرصہ پہلے الگ گھر لے چکے تھے۔اس کے بعد سے ہی کب یہ فیصلے کا اختیار دادی سے امی کے ہاتھ میں آیا بسمہ کو پتا نہیں چلا۔ بس کبھی کبھار امی کو کہتے سنتی کہ اماں کو غنیمت سمجھنا چاہیئے کہ انہیں ہم نے ساتھ رکھا ہوا ہے ورنہ نبھا کے تو انہوں نے کسی بہو سے نہیں رکھی۔ یہ بات براہ راست دادی کو کبھی نہیں کہی گئی مگر اس بات کا بھی خیال نہیں رکھا جاتا کہ وہ سن نا لیں۔ ایک ہی کمرے میں تو وہ اور دادی رہتے تھے۔ اس نے کئی بار باہر امی کو یہ کہتے سنا اور دادی ساتھ بیٹھی ہوتیں۔ ان کے چہرے کی تاریکی بسمہ کو اداس کرجاتی تھی۔ مگر اسے حیرت اس بات پہ ہوتی کہ اس کے باوجود دادی کے لیئے سسرال کا یہ چلن ٹھیک تھا اور ایسے ہی چلتا آیا ہے اور چلے گا۔ وہ اپنے اس چلن کو بھگت رہی تھیں مگر اپنے خیالات میں تبدیلی پہ تیار نہیں تھیں۔ سسرال میں نبھانے کے طریقے بتاتے ہوئے وہ ان کی دادی نہیں بلکہ ماں کی ساس کی حیثیت سے مشورے دیتی تھیں۔ جن میں سرفہرست سسرال میں چپ چاپ خدمت کرنے کی تلقین ہوتی۔ اس سے بھی حیرت کی بات یہ کہ امی اس نصیحت کی حامی تھیں۔ اور اب دادی کی اسی سوچ کو ان پہ استعمال کیا گیا کہ اسے جن لوگوں کے ساتھ جا کر گزارا کرنا ہے وہی ساتھ شاپنگ کرانا چاہتے ہیں تو ہم منع کرنے والے کون ہوتے ہیں۔ بقول ابوکے کہ منگنی کر کے ہم نے بیٹی آدھی تو بیاہ دی۔ سسرال کے مسئلے ہیں بہت سوچ سمجھ کے چلنا پڑتا ہے۔
خیر ایک دن باسط کے گھر سے کافی بڑا لشکر آیا اس کی تینوں بہنیں دونوں بھابھیاں بہنوں اور بھائیوں کی بڑی بیٹیاں اور گود والے بچے۔ طے یہ پایا کہ خواتین کی ٹولی بسمہ کو ساتھ لے کر جائے گی اور بھیا جاکر باسط کو شاپنگ کروائیں گے۔ دلہن کے سوٹ کے لیئے کئی دکانیں چھانی گئیں بسمہ خاموش بیٹھی تھی اور جو صلح مشورہ ہورہا تھا وہ باسط کے گھر والوں میں آپس میں ہی ہورہا تھا۔ بڑی دیر کے بعد ایک لمبے کرتے کے ساتھ اسٹائلش سا لہنگا سب کو پسند آیا ڈیزائن وغیرہ تو ٹھیک ہی تھا مگر رنگ بسمہ کو پسند نہیں آیا زیادہ، مگر جب فائنل کر کے اس سے پوچھا گیا تو وہ صرف ہاں میں ہی سر ہلا سکی۔ اب کیا بولتی؟ اتنے میں باسط کی دوسری نمبر کی بھابھی کے پاس باسط کی کال آگئی۔ باسط اور بھیا فرنیچر کی دکان پہ تھے۔ جو یہاں سے آدھا گھنٹہ دور دوسری مارکیٹ میں تھی فورا سب کچھ فائنل کر کرا کے ٹیکسی کی گئی اور سب فرنیچر کی دکان پہ پہنچ گئے۔ بسمہ کچھ حواس باختہ سی ہوگئی تھی۔ باسط اور بھیا ایک ساتھ تھے۔ بھیا کافی جھنجھلائے ہوئے تھے کیونکہ اول تو دکان ہی کافی مہنگے فرنیچر کی تھی پھر یہ بات بھی بسمہ نے سن ہی لی تھی جو پچھلی مارکیٹ سے نکلنے سے پہلے باسط کو کہی گئی تھی کہ ابھی کچھ فائنل نہیں کرنا ہم بس "پانچ منٹ" میں آتے ہیں۔ دکان پہ آتے ہی فرنیچر پسند کرنے کا چارج بڑی بہن اور بھابھی نے سنبھال لیا۔ بقول ان کے کہ کمرا بڑا ہے صرف بیڈ سائیڈ ٹیبلز اور ڈیوائڈر سے تو عجیب لگے گا۔ اور اب وہ کوئی ایسا سیٹ دیکھ رہی تھیں جس سے کمرہ بہتر طور پہ سج سکے۔ باسط کا دھیان اب فرنیچر کی بجائے بسمہ پہ تھا۔ ہر کچھ دیر بعد وہ بسمہ کے کسی سائیڈ پہ آجاتا اور بسمہ سٹپٹا کے ایک دو قدم آگے یا ایک دو قدم پیچھے ہوجاتی۔ ایک جگہ بسمہ کے پیچھے ہونے پہ وہ بھی رک گیا سب آگے نکل گئے۔
"کیا مسئلہ ہے یار تھوڑی دیر میرے ساتھ نہیں چل سکتیں۔ کھا جاوں گا کیا؟" اس نے کافی دھیمی آواز میں کہا تھا مگر پھر بھی بسمہ گھبرا گئی۔
"افف آہستہ بولیں نا بھیا نا سن لیں"
"ارے ریلیکس نا تمہارے بھیا ابھی فرنیچر کے مسئلے میں الجھے ہیں انہیں یاد بھی نہیں ہوگا کہ تم ساتھ ہو۔"
"اتنے بےچین کیوں ہورہے ہیں ایک مہینہ ہی تو رہ گیا ہے بس۔ مل لیتے آرام سے"
"اسی لیئے تو زیادہ بے چین ہوں جیسے جیسے دن قریب آرہے ہیں تمہارے بغیر رہنا مشکل لگ رہا ہے"
"اچھا نا اتنا صبر کرلیا تو اب اور کرلیں" وہ کہہ کر جلدی سے آگے بڑھ گئی۔
آخر کار بڑی مشکل سے باسط کے گھر والوں کو ایک بیڈ روم سیٹ پسند آیا جس میں بیڈ، سائیڈ ٹیبل، ڈیوائیڈراور ڈریسنگ ٹیبل کے علاوہ ایک صوفہ، شوکیس، آئرن اسٹینڈ، بلاوجہ کا لیمپ اور اس کی ٹیبل بھی تھی۔ اور وہ بھی ان کے خیال میں بس ٹھیک تھا۔ فرنیچر کی بکنگ وغیرہ کروا کے وہ لوگ باہر نکل رہے تھے تو سامنے ہی بسمہ کو اپنی ایک کلاس فیلو نظر آگئی وہ قریب کی ایک دکان پہ شاید اپنے گھر والوں کے ساتھ دکان سے باہر رکھے آئیٹمز دیکھ رہی تھی۔ ان سے کچھ دور پانچ چھ لڑکوں کا ایک ٹولا مسلسل ان پہ کمنٹس پاس کررہا تھا۔ لڑکوں کی عمریں پچیس سے تیس کے درمیان ہی تھیں۔ ایک دو فقرے انہوں نے اتنی زور سے اور ایسے کہے کہ سب کی ہی توجہ ان لڑکوں کی طرف گئی۔ باسط کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔
"شرم نہیں آتی لوگوں کو بچیوں کو بھی نہیں چھوڑتے"
بسمہ بتانے ہی والی تھی کہ یہ اس کی کلاس فیلو ہے مگر "بچیوں" سن کے وہ سن سی ہوگئی۔
21-
اس نے کچھ بھی بولنے کا ارادہ بدل دیا۔ وہاں سے پھر بھیا اور باسط کسی اور طرف چلے گئے اور خواتین کا ٹولا میچنگ کے جوتے لینے نکل گیا۔ کافی ڈھنڈائی کے بعد جوتے پسند کیئے گئے اور واپسی ہوئی۔ بسمہ چونکی تب جب ایک انجان گھر کے سامنے ٹیکسی رکی اور سب اترنے لگے۔ بڑی باجی اسے ہچکچاتا دیکھ کے بولیں آو کچھ چائے وغیرہ پی کے تھکن اتارتے ہیں تم اپنا کمرہ بھی دیکھ لینا۔ اسے بہت عجیب لگا کہ اس سے ہوچھنا تو الگ بات اسے بتانے کی بھی زحمت نہیں کی گئی کہ اسے سسرال والے گھر لے کے جارہے ہیں۔ کہنے کو یہ کوئی خاص بات نہیں تھی مگر اسے کافی تذلیل محسوس ہوئی کہ اس کی رائے کی کوئی اہمیت ہی نہیں جو جہاں لے جائے بغیر پوچھے؟
سب اندر آگئے ساس اور دیور کافی خوش دلی سے ملے۔ ساس نے فورا صدقے کے پیسے نکالے۔ میری بہو پہلی بار اپنے گھر آئی ہے۔ گاڑی میں محسوس ہونے والی تذلیل کا اثر کچھ کم ہوتا محسوس ہوا۔ سب بسمہ کے اردگرد تھے خاص طور سے بچے چاچو کی دلہن چاچو کی دلہن کرتے ہوئے اردگرد گھوم رہے تھے۔ پھر سب اس کے اردگرد بیٹھ گئے ایک دو بچے اس سے جڑ کے بیٹھے ہوئے تھے اور ٹکٹکی باندھے اسے دیکھ رہے تھے۔ ایک تو وہ بولتے میں ہی جھجھک رہی تھی ساری باتیں دوسرے ہی کر رہے تھے پھر کوئی بات کرتے کرتے ان بچوں پہ نظر پڑ جاتی تو وہ اور گڑبڑا جاتی۔ باسط کی چھوٹی بھابھی نازیہ کو شاید اندازہ ہوا کہ وہ پرسکون نہیں ہوپارہی تو اس نے اسے وہاں سے اٹھا لیا کہ چلو تمہیں گھر دکھائیں اور کمرہ بھی۔ گھر ٹھیک ہی تھا بس جیسا متوسط طبقے کے گھرانوں کا ہوتا ہے نیچے ساس سسر کا کمرہ بڑے بھائی اور بھاوج کا کمرہ اور بیچ میں تھوڑا بڑا ہال ٹائپ کمرہ جسے لاونج کے طور پہ استعمال کیا جارہا تھا۔ اوپر کے پورشن میں دو ہی کمرے بنے ہوئے تھے اور ایک کونے میں اٹیچ باتھ تھا۔ دونوں کمرے باہر سے ایک جتنے ہی لگ رہے تھے ایک نازیہ بھابھی کا کمرہ تھا دوسرا باسط کا۔ پہلے نازیہ بھابھی نے اپنا کمرہ دکھایا پھر دوسرے کمرے میں لے آئیں یہاں فرش پہ ایک سنگل میٹرس بچھا ہوا تھا اور پرانا سا کارپٹ تھا۔ ایک طرف چھوٹی میز پہ ایک لیپ ٹاپ پڑا تھا۔ ایک کرسی پہ باسط کے کپڑے پڑے ہوئے تھے۔ ظاہر ہے اس کے دماغ میں اس کمرے کا تصور الگ تھا بلکل سیٹ سجا ہوا۔ مگر پھر خیال آیا کہ فرنیچر تو لیا ہی ابھی ہے۔ مطلب باسط کےکمرے میں پہلے سےفرنیچر ہےہی نہیں؟ اس کے ذہن می پہلی بار خیال آیا کہ باسط کی تنخواہ کیا اتنی کم ہے کہ وہ تھوڑا بہت سامان بھی نہیں لے پایا کمرے کے لیئے۔ شادی کے بعد خرچے چل بھی پائیں گے یا نہیں؟ کمرے کو نا بکھرا ہوا کہا جاسکتا تھا نا سمٹا ہوا۔ نازیہ بھابھی کمرے کی حالت دیکھ کر ہنس دیں۔
"دیکھ رہی ہو اپنے منگیتر کی حالت؟ سب پھیلا کے رکھتا ہے،اب تم ہی آ کے سنبھالنا"
اور بلا وجہ ہی بسمہ کے ذہن میں ایک بات آئی
"غیر شادی شدہ فرد کیا فیملی کا حصہ نہیں ہوتا کہ اس کی ضرورتیں اس کی بیوی ہی آکے پوری کرے گی؟"
"کیا سوچ رہی ہو۔ پریشان مت ہو یار سب مردوں کی یہی عادت ہے یہ بھی آفس جاتے ہوئے سب پھیلا کر جاتے ہیں کپڑےیہاں پھینکے تولیا وہاں اف۔ چلو ادھر ہی بیٹھتے ہیں میں بتا آئی تھی زہرہ بھابھی کو وہ اوپر ہی لے آئیں گی چائے۔ نازیہ بھابھی نے بڑی والی بھابھی کا نام لے کر بتایا۔
بسمہ کی کیفیت عجیب سی تھی کمرہ اجنبی بھی تھا مگر باسط کی چیزوں کا اردگر ہونا اسے بہت رومانوی احساس دلا رہا تھا۔ نازیہ بھابھی ادھر ادھر کی باتیں کرتی رہیں مگر بسمہ کا دھیان ان کی باتوں پہ کم ہی تھا۔ وہ ایسے بیٹھی ہوئی تھی کہ دروازے کی طرف اس کی پیٹھ تھی
"ہمیں گھر سے بھگا کر ہماری منگیتر کو یرغمال بنایا ہوا ہے" اسے پیچھے سے باسط کی شوخ آوازسنائی دی۔ وہ چونک کے مڑی تو دروازے میں باسط کھڑا ہوا تھا۔
"تمہارے لیئے ہی یرغمال بنا کر لائیں ہیں جناب" نازیہ بھابھی نے بھی شرارتی انداز میں کہا۔ کہنے کو کافی رومانوی سچویشن تھی ایسی سچویشنز بسمہ نے کئی بار کہانیوں میں پڑھی تھیں۔ مگر وہ بالکل بھی ویسا محسوس نہیں کرپائی جتنا رومانوی وہ ان سچویشنز کو سمجھتی تھی۔ اسے شدید بے چینی اور اختلاج قسم کا احساس ہورہا تھا۔
"بھابھی ہم نیچے چلیں چائے بن گئی ہوگی۔ دیر بھی ہوگئی ہے"
"ہاں تم بیٹھو میں لے کر آتی ہوں۔ اپنے منگیتر سے کچھ باتیں کرلو باولا خود ہورہا ہے اور ہمیں بھی کردے گا" وہ بھی نازیہ کے ساتھ کھڑی ہوگئی
"بھابھی میں بھی ساتھ چلتی ہوں"
"اففو منگیتر ہے تمہارا کوئی بات نہیں دومنٹ بیٹھ کے بات کرلو، بے فکر رہو اوپر کوئی نہیں آئے گا" وہ پریشان کمرے کے بیچ میں کھڑی رہ گئی اور نازیہ اسے چھوڑ کے نیچے چلی گئی۔
باسط دو تین قدم بڑھ کر اس کے قریب آگیا۔ بسمہ کو اس کے پرفیوم کی خوشبو اپنے اردگرد محسوس ہوئی۔ مگر کچھ مختلف سی تھی شاید اتنی دیر باہر گھومنے پہ پسینے کی بھی مہک تھی۔ اتنے قریب اس کے جسم کی خوشبو سے اسے اپنے رونگٹے کھڑے ہوتے محسوس ہورہے تھے۔ ایک دم ہی حلق خشک ہوگیا۔ اس کی نظریں باسط کے جوتوں پہ تھیں۔
"یار سر تو اٹھاو۔ نیچے جوتے ہی دیکھتی رہو گی کیا؟ بسمہ ۔۔۔۔ " اس نے آہستہ سے بسمہ کا ہاتھ پکڑا۔ بسمہ کواس گرفت میں اور اسلم کی گرفت میں کافی فرق لگا۔باسط کی گرفت میں استحقاق تھا جیسے اسے پتا ہو کہ بسمہ ہاتھ نہیں چھڑوائے گی۔ مگر پھر بھی بسمہ نے ہاتھ چھڑانے کی کوشش کی۔
"او یار منگیتر ہوں میں تمہارا کیوں اتنا شرماتی ہو۔ ایک مہینے بعد کیا کرو گی۔تب بھی اجازت ملے گی یا نہیں"
"وہ تو نکاح کے بعد ہوگا نا"
"نکاح بھی تو ساتھ جینے کا اقرار ہے وہ تو پہلےہی کرچکے ہم۔ زندگی آپ کے نام ہے میری جان"
باسط نے آہستہ سے اپنے ہونٹوں سے اس کا گال چھوا۔
بسمہ کو بہت کراہیت کا احساس ہوا۔ وہ ایکدم پیچھے ہٹ گئی۔
"میں نیچے جارہی ہوں" وہ باسط کی طرف دیکھے بغیر کہہ کر دروازے سے نکل آئی۔ پھر کب اس نے چائے پی کب گھر واپس آئی اسے کچھ سمجھ نہیں آیا۔ مستقل اسے محسوس ہورہا تھا کہ اس کے چہرے پہ کوئی مکروہ چیز لگ گئی ہے آتے ہی واش بیسن کھول کے کھڑی ہو گئی۔ بار بار چہرے پہ پانی ڈالتی بار بار صابن رگڑتی۔ دادی نے آخر ٹوک دیا
"ارے چھوڑ دے پانی کا پیچھا۔ ایک دن کی دھول مٹی سے کالی نہیں ہوجائے گی۔ ویسے بھی وہ کیا پھیشل کرواتی ہیں دلہنیں وہ تو ہوگا ہی۔"
وہ نلکا بند کر کے گیلا چہرہ لے کر ہی پنکھے کے نیچے بیٹھ گئی۔
"ائے کیا ہوا؟ تھک گئی کیا؟"
دادی کو اس کے تاثرات سے کچھ گڑبڑ کا احساس تو ہوا مگر سمجھ نہیں آیا کہ اسے ہوا کیا ہے۔ ان کے حساب سے تو اسے خوش آنا چاہیئے تھا کہ اپنی شادی کا جوڑا خرید کے آئی تھی۔ مگر اس کے چہرے پہ پھیلی وحشت نے انہیں واقعی کافی ڈرا دیا تھا۔
"دادی بہت گرمی ہے آج، شاید اسی وجہ سے گھبراہٹ ہورہی ہے۔"
وہ اس وقت بالکل چپ رہنا چاہتی تھی مگر دادی کی نظریں جواب طلب انداز میں مسلسل اس کے چہرے پہ ہی تھیں ایسے میں بالکل چپ رہنا ناممکن ہی تھا۔ جواب دے کے وہ اٹھ کر کمرے میں آگئی۔ بستر پہ ساکت لاش کی طرح لیٹ گئی۔ اس کی نظریں چلتے پنکھے پہ تھیں مگر ذہن وہیں باسط کے کمرے میں تھا۔ بار بار وہ منظر ذہن میں آتا اور ہر بار اسے خود سے اور باسط سے پہلے سے زیادہ کراہیت محسوس ہوتی۔
اسلم کی بار میں اسے احساس شرمندگی ضرور تھا کہ اس نے اسلم پہ غلط اعتبار کیا مگر کم از کم اسے اتنا آگے نہیں بڑھنے دیا۔ اسے اطمینان تھا کہ اب اسلم اس کی زندگی سے ہمیشہ کے لیئے نکل گیا ہےمگر اب اسے شدید احساس گناہ اور احساس بے بسی تھا۔ احساس گناہ اس لیئے کیونکہ اسے لگا کہ باسط کے نامناسب میسجز پہ اگر وہ پہلے ہی سختی سے روک دیتی تو باسط کی اتنی ہمت نا ہوتی۔ اور بے بسی اس لیئے کیونکہ وہ باسط کو اپنی زندگی سے نکال نہیں سکتی تھی۔ اسے ایک نامحرم نے چھوا ایک نام کے رشتے کا سہارا لے کر اور وہ روک بھی نہیں پائی۔ وہ بے تاثر چہرہ لیئے لیٹی تھی اور آنسو نکل کر بالوں میں جذب ہورہے تھے۔ اسے یقین تھا کہ غلطی اسی کی ہے۔ اسے ہمیشہ یہی سکھایا گیا تھا کہ مرد ہمیشہ عورت کی شہہ پہ ہی کچھ کرنے کی ہمت کرتا ہے اور اب تو واضح تھا اس نے باسط سے اتنی بات چیت کی تھی تبھی باسط یہ سب کرنے کی ہمت کرپایا۔ اسے احساس ہی نہیں ہواکہ وہ کتنی دیر ایسے ہی ساکت پڑی رہی وہ چونکی تب جب مغرب کی اذان کی آواز اس کے کانوں میں آئی ایک سحر کی سی کیفیت میں اٹھی اور باتھ روم میں گھس گئی۔ شاور کھول کر کافی دیر صرف پانی بہاتی رہی جسم پہ۔ کئی دفعہ صابن لگایا۔ جب کپڑوں کی طرف ہاتھ بڑھانے کا سوچتی تو لگتا ابھی تو ٹھیک سے جسم پاک ہی نہیں ہوا اور پھر صابن لگا لیتی۔ تقریبا ڈیڑھ گھنٹے بعد جب امی نے دروازہ بجایا تو باہر آئی۔ پھر وضو کے لیئے واش بیسن پہ کھڑی ہوگئی چہرے پہ پانی ڈالنے کی باری آئی تو بس ڈالتی ہی رہی، اسے مسلسل نجاست کا احساس ہورہا تھا۔
"ہٹ بھی چک لڑکی مجھے بھی وضو کرنا ہے ٹائم نکلوائے گی کیا نماز کا"
دادی نے کہا تواس نے چونک کے جلدی جلدی وضو ختم کیا اور نماز پہ کھڑی ہوگئی۔ اسے نہیں یاد کہ اس نے کتنے سجدے کیے،کتنے رکوع اور کتنے قیام بس ذہن میں ایک بات تھی کہ کسی طرح گناہ کی معافی مل جائے۔ آخر جب بالکل تھک گئی تو مصلا سمیٹ کر بستر پہ آکر لیٹ گئی۔
اور پھر کئی دن تک یہ پانی کا کھیل چلتا رہا نہانے جاتی تو گھنٹوں لگا دیتی، ہاتھ منہ دھونے کھڑی ہوتی تو صابن ملتی رہتی، نماز پہ کھڑی ہوتی تو تھک کر ٹانگیں بے جان ہوجاتیں تب ہی مصلا چھوڑتی۔ اس کی چہرے اور ہاتھوں کی جلد خشک پپڑی کی مانند ہوگئی۔
جب کسی بھی طرح سکون نا ملا تو ایک دن چادر اوڑھی اور کہہ کے نکل آئی کہ میں فائزہ کے گھر جارہی ہوں۔ امی اور دادی اسے جاتا دیکھتی رہ گئیں۔
فائزہ اسے دروازے پہ دیکھ کر حیران بھی ہوئی اور خوش بھی۔ وہ فورا اسے لے کر اپنے کمرے میں آگئی۔
" یار تھوڑی دیر بیٹھ، امی ابھی کوئی لیکچر وغیرہ کے نوٹس بنا رہی ہیں تب تک ہم تھوڑی باتیں کر لیتے ہیں پھر امی سے جو بات کرنی ہو کرلینا۔"
فائزہ کو یاد تھا کہ بسمہ نے منگنی سے بھی پہلے اس سے کہا تھا کہ وہ آنٹی سے مشورہ کرنا چاہتی ہے وہ یہی سمجھ رہی تھی کہ بسمہ مشورے کے لیئے آئی ہے۔
"اچھا رک میں پانی وانی لاوں پھر آرام سے باتیں کرتے ہیں۔"
وہ جانے کے لیئے پلٹی مگر بسمہ نے ہاتھ پکڑ کے روک لیا اور ایک دم رونا شروع کردیا۔ فائزہ اسے ایسے روتے دیکھ کر پریشان ہوگئی۔
"بسمہ کیا ہوا یار سب ٹھیک ہے؟ باسط بھائی نے کچھ کہا؟ کچھ ہوا ہے ان کے گھر پہ؟ یا کسی نے تجھے کچھ کہا ہے؟"
بسمہ کوئی بھی جواب دینے کی بجائے روتی رہی۔ فائزہ نے مزید سوال کرنے کا ارادہ ملتوی کردیا وہ اسے روتا دیکھتی رہی۔ کافی دیر رونے کے بعد خود ہی اس کے رونے کی شدت میں کمی آگئی اور پھر جب صرف سسکیاں رہ گئیں تو فائزہ اٹھ کر پانی لے آئی۔
"چل منہ دھو کے آ پھر بتا مسئلہ کیا ہے"
بسمہ ساتھ ہی بنے واش روم سے جلدی جلدی منہ پہ ایک دو چھپاکے مار کے آگئی۔
کچھ دیر خاموش بیٹھی رہی جیسے سمجھ نا آرہا ہو کہ کہاں سے شروع کرے
"فائزہ کل باسط کے گھر والے آئے تھے مجھے ساتھ شاپنگ پہ "
"اچھا پھر سوٹ پسند نہیں آیا"
"ابے پاگل ہے کیا تیرے خیال میں اس بات پہ اتنا روءوں گی۔ مجھے کونسا اپنی پسند کے کپڑے پہننے کی عادت ہے۔"
"تو"
"وہاں سے وہ لوگ گھر لے گئے اپنے ان کی دوسری نمبر کی بھابھی کمرہ دکھانے لے گئیں تو پیچھے سے باسط آگئے۔ ان کی بھابھی ہمیں اکیلا چھوڑ کر نیچے چلی گئیں"
"اچھا پھر"
"یار انہوں نے مجھے زبردستی کس کیا میں منع بھی کر رہی تھی"
"ہمم اور تیرا دھرم بھرشٹ ہوگیا؟"
"ہاں تو ایسے کیسے؟منگنی کوئی شرعی رشتہ تو نہیں ہوتی جو انہوں نےایسے کس کرلیا"
"اچھا اور وہ جو تو ناولز پڑھتی ہے بڑے شوق سے اس میں کونسا بڑی شرعی رشتے داریاں دکھائی جاتی ہیں۔ ہر دوسرے ناول میں ہیرو ہیروئین کے معانقے و بوسے ہوتے ہیں شادی کے بغیر"
اپنی بات کے طنز کو ظاہر کرنے کی کوشش میں فائزہ بہت گاڑھی اردو استعمال کر گئی۔
"یار سچی بات ہے میں خود بھی حیران ہوں کہ یہ سب رومینٹک لگنا چاہیئے تھا مگر نہیں لگ رہا بہت شدید احساس گناہ ہورہا ہے کہ میں نے انہیں اتنا بڑھنے کی ہمت دی ہی کیوں؟ "
" یعنی تجھے لگتا ہے یہ تیری غلطی ہے"فائزہ نے بھنویں اچکا کر پوچھا
"تو نہیں ہے"
"تو نے فرمائش کی تھی کہ کس کریں مجھے"
"پاگل ہے کیا تجھے پتا ہے میں تو انہیں ہاتھ پکڑنے کا بھی نا کہوں خود ،میری تو اتنی ہمت شاید شادی کے بعد بھی نا ہو"
" تو جب تیری مرضی کے بغیر انہوں نے تجھے چھوا اور اس کی انہیں کوئی شرعی اور قانونی اجازت بھی نہیں تو غلطی ان کی ہوئی نا۔۔۔۔۔ اچھا یہ بتا اس کے بعد سے تیری باسط بھائی سے کوئی بات ہوئی؟ کیا کہہ رہے ہیں وہ اس کے بارے میں؟"
" میں نے تب سے موبائل ہی نہیں دیکھا اٹھا کر جو پرس لے کر گئی تھی اسی میں پڑا ہے ابھی تک۔ تب سے بس دماغ پہ یہ سوار ہے کہ کسی طرح یہ گناہ دھل جائے کبھی نہاتی ہوں کبھی وضو کرتی رہتی ہوں فائزہ میں پاگل ہوجاوں گی"
" تبھی اتنی ڈرائے اسکن ہورہی ہے تیری؟ بسمہ تو باسط بھائی سے بات کر ہوسکتا ہے وہ صرف اپنی محبت کی شدت کے اظہار کے طور پہ یہ سب کر گئے ہوں۔ دیکھ منگیتروں کے درمیان آج کل یہ سب اتنا عام ہے کہ عموما لوگوں کو یہ غلط لگتا ہی نہیں ہے۔ نا انہیں اندازہ ہوتا ہے کہ اس میں برائی کیا ہے۔ تیری بھی مرضی ہوتی تو بات الگ تھی مگر اب یہ صرف ان کی غلطی ہے مگر وہ بھی شاید جان بوجھ کے کی گئی غلطی نا ہو۔"
" فائزہ مگر یار یہ گناہ ہے"
"بیٹا جی رشوت لینے سے لیکر قتل تک کونسا گناہ ہے جو آج کل نہیں ہورہا؟ تیرے پاپا نے کبھی رشوت نہیں لی؟ تو نے کبھی جھوٹ نہیں بولا؟ تیری امی نے کبھی کسی کی غیبت نہیں کی؟ اگر ان سب گناہوں پہ ہم رشتے نبھانے کے لیئے کمپرومائز کر لیتے ہیں تو کم از کم باسط بھائی کو اپنا موقف بتانے کا موقع تو دے۔ باقی شادی سے انکار کرنا تیرا شرعی حق ہے تجھے لگے کہ تو ایسے بندے کے ساتھ نہیں رہ پائے گی تو منع کردے"
22-
فائزہ کی بات سن کر بسمہ سوچ میں پڑ گئی۔
"شادی سے انکار تو ممکن ہی نہیں تجھے پتا ہے۔ جو شادی مجھ سے پوچھے بغیر طے کی گئی ہے اس سے میں ایک مہینے پہلے انکار کیسے کرسکتی ہوں۔ مجھے اس کا اختیار ہی کب ہے؟"
"اچھا رک میں امی کو بلا کر لاتی ہوں تیرے مسئلے بھی نرالے ہیں۔"
بسمہ نے سر ہلا دیا
تھوڑی دیر میں ہی فائزہ، نفیس آنٹی کو لے کر آگئی۔ مختصر الفاظ میں فائزہ نے انہیں سب بتا بھی دیا اپنے مشورے سمیت۔
کچھ دیر آنٹی خاموش رہیں جیسے کچھ سوچ رہی ہوں۔
"بسمہ بیٹا مسئلہ اس سے زیادہ سنجیدہ ہے جتنا فائزہ سمجھ رہی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ تمہاری فیملی سمیت اسے کوئی مسئلہ سمجھے گا نہیں۔ اگر اسے غلطی سمجھیں گے تو تمہیں بھی اس میں شریک سمجھا جائے گا یا پھر سرے سے اسے کوئی برائی ہی نہیں سمجھیں گے۔ جبکہ میرے حساب سے یہ ہراسمینٹ ہے۔ سیدھا سیدھا جرم"
جرم کا نام سن کر بسمہ کے جسم میں سرد سے لہر دوڑ گئی۔ وہ جو اسے اب تک صرف اپنا گناہ سمجھ رہی تھی کہ تھوڑی بہت توبہ تلا سے معاملہ نمٹ جائے اسے اندازہ ہی نہیں تھا کہ باسط کا یہ عمل مجرمانہ نوعیت رکھتا ہوگا۔ اس نے اس پہلو سے سوچا ہی کب تھا وہ تو کب سے خود کو مورد الزام ٹہرا رہی تھی۔
"امی اتنی سی بات پہ بھی سزا ہوتی ہے کیا"
" فائزہ بات تو خیر اتنی سی نہیں ہے دیکھا جائے تو بڑی بات ہے۔ بسمہ کم عمر ہے مگر باسط ناتجربہ کار یا بچہ نہیں ہے کہ اسے لگا کہ منگیتر ہے تو بلا اجازت کچھ بھی کرلیا جائے۔اور باسط کی اتنی ہمت بڑھانے میں اس کے اور بسمہ کے گھر والوں دونوں کا ایک جتنا ہاتھ ہے۔ بسمہ نے اپنے عمر کے حساب سے کافی بہادری اور عقلمندی کا ثبوت دیا کہ ناصرف باسط کو وہیں روک دیا بلکہ خاموشی سے سب چھپانے کی کوشش نہیں کی۔"
"آنٹی وہ تو میں خود پریشان بہت تھی تبھی فائزہ سے بات کرنے آگئی۔ ورنہ گھر میں تو کسی کو بتانے کی میری ہمت ہی نہیں ہے۔" بسمہ نے شرمندہ سے لہجے میں کہا۔
"بسمہ بیٹا آپ نے ٹھیک کیا۔ آپ جتنا چھپاو گی باسط کو اتنا ہی موقع ملے گا آپ کی خاموشی کا غلط فائدہ اٹھانے کا۔ جیسے نامناسب میسجز بھی اس نے ہی کیئے اور انہی کی وجہ سے وہ یہ بھی سمجھا کہ آپ شادی سے پہلے بھی کسی بھی قسم کا ریلیشن رکھنے کے لیئے تیار ہونگی۔"
"مگر امی وہ صرف محبت کا اظہار بھی تو ہوسکتا ہے نا"
"فائزہ زبردستی محبت کا اظہار، محبت کا اظہار نہیں ہوتا اپنی طاقت کا غلط استعمال ہوتا ہے"
"آنٹی اب میں کیا کروں"
"یہ واقعی مشکل بات ہے جتنا میں تمہاری فیملی کو جانتی ہوں میرا نہیں خیال کہ اس کو بنیاد بنا کر وہ لوگ رشتہ ختم کریں گے یا کم از کم باسط سے کوئی بازپرس کریں گے۔ ساری غلطی بسمہ کی کہی جائے گی جبکہ اس میں اس کی کوئی غلطی نہیں یہ جس حد تک درست کرسکتی تھی اس نے کیا۔"
نفیس آنٹی سے بات کر کے بسمہ کا احساس گناہ بہت حد تک کم ہوگیا تھا مگر رشتہ ختم کرنے کی بات یا پھر باسط سے پوچھ تاچھ کی بات اسے عجیب لگ رہی تھی۔ باسط سے رشتہ توڑنا تو وہ خود بھی نہیں چاہتی تھی پچھلے 10 ماہ سے یہ تعلق تھا۔ دن بھر اس سے باتیں کی تھیں۔ مستقبل کی منصوبے بنائے تھی چھوٹی چھوٹی باتیں شئیر کی تھیں۔ ایک مہینے کے بعد اس کی شادی تھی صرف ایک اس بات کو بنیاد بنا کر یہ سب کیسے ختم کیا جاسکتا تھا۔ اول تو اس کی ہمت ہی نہیں تھی کہ وہ کسی کو یہ بتا سکے کہ اس دن کمرے میں کیا ہوا تھا۔ اسے خود احساس گناہ نا ہوتا تو وہ کبھی فائزہ کو بھی نہیں بتاتی۔
کچھ سوچ کر آنٹی بولیں
"تم ایسا کرو ایک دفعہ اچھی طرح سوچو کہ تم خود کیا کرنا چاہتی ہو۔ کہنے کو یہ جرم ہے مگر اپنی زندگی کے بارے میں سوچنے کا فیصلہ کرنے کا حق تمہیں ہے اچھی طرح سوچ سمجھ کر فیصلہ کرو۔ تم ذہین اور معاملہ فہم لڑکی ہو۔ مجھے امید ہے کہ جس حد تک تمہارے ہاتھ میں ہوا تم صحیح فیصلہ کرو گی۔ بہتر ہوگا تم ایک بار گھر میں کسی بڑے سے یا اپنی کسی بہن سے بھی مشورہ کرلو۔"
آنٹی کی بات سے لگ رہا تھا کہ انہیں بھی اندازہ ہے کہ بسمہ جتنی ہی عقلمند کیوں نا ہو گھر والوں کے آگے کچھ نہیں کرپائے گی۔
گھر آکر بسمہ کو اتنی تھکن محسوس ہونے لگی کہ وہ فورا ہی سونے لیٹ گئی۔ اور کئی گھنٹے سوتی رہی۔ جب اٹھی تو اسے اپنا آپ کافی ہلکا اور تازہ دم لگا۔ ذہن پہ کافی دن کا رکھا بوجھ کم محسوس ہورہا تھا۔اسے احساس ہوا کہ سارا تناو احساس گناہ اور شرمندگی کا تھا۔ مگر بہرحال اس حقیقت کا ادراک کرکے کہ باسط کا اقدام مجرمانہ نوعیت کا تھا وہ سنجیدگی سے اس معاملے کے بارے میں سوچ رہی تھی۔ وہ دیکھنا چاہتی تھی کہ نفیس آنٹی کا تجزیہ اس کے گھر والوں کے حوالے سے ٹھیک ہے یا نہیں۔ ایک طرف اس کی عزت نفس چاہتی تھی کہ اس کے گھر والے نفیس آنٹی کے خیالات کو غلط ثابت کردیں اور دوسری طرف اس کے جذبات چاہتے تھے کہ معاملہ بڑھے بغیر ہی ختم ہوجائے۔ وہ اپنی زندگی باسط کے ساتھ گزارنا چاہتی تھی۔ پھر اس نے آخر کار اسماء آپی سے بات کرنے کا فیصلہ کر ہی لیا۔ اسے پتا تھا کہ گھر میں امی کی چلتی ہے اور امی ہر کام اسماء آپی کی رائے کے مطابق کرتی ہیں۔ اس نے کئی دن سے الماری میں پڑے پرس میں سے موبائل نکالا۔ اس پہ باسط کے کوئی بیس پچیس میسجز اور کئی مس کالز آئی ہوئی تھیں۔ ان سب کو نظر انداز کر کے اس نے اسماء آپی کا نمبر ملایا۔
"ہیلو آپی کیسی ہیں"
"بسمہ کیا حال ہیں بھئی امی بتا رہی تھیں تم شاپنگ پہ گئی تھیں منگل کو، کیسا سوٹ لیا؟فون بھی اسی لیئے نہیں کیا میں نے اسی دن سے آنے کی کوشش کر رہی ہوں۔ شہیر کو جو موشن آنے شروع ہوئے تو سچ ہلکان ہوگیا میرا بچہ، ساتھ ساتھ میں بھی۔ اب بچہ بیمار ہو تو ماں بھی ساتھ ہی آدھی ہوجاتی ہے۔ سب دیکھتی جاو اگلے سال تم بھی ہماری طرح انہی کاموں میں لگی ہوگی"
انہوں نے اس سے فون کرنے کی وجہ پوچھنے کی بجائے اپنی ہی بات کہنی شروع کردی۔ پہلے بسمہ کے دل میں آیا کہ بس ادھر ادھر کی بات کرکے فون رکھ دے مگر پھر سوچا کہ ایک دفعہ فیصلہ کرلیا تو کرلیا اب بات کر ہی لینی چاہیئے۔
"ہاں آپی سوٹ بھی لیا تھا اور فرنیچر بھی میرے ساتھ ہی لیا۔ پھر گھر بھی دکھانے لے گئے تھے۔"
"ارے واہ اپنا روم دیکھا؟ کیسا ہے؟ اور سن باسط سے اکیلے میں بات کا موقع ملا۔ اتنا رومینٹک ہے وہ یہ موقع تو نہیں چھوڑا ہوگا شادی سے پہلے منگیتر سے ملنے کا جو رومانس ہے نا سچ بس کیا بتاوں۔ کتنی لکی ہے تو بسمہ" بسمہ کو لگا شاید آپی صرف بات ہی کرنے کی بات کر رہی ہیں اسی لیئے اس نے سوچا تھوڑا بات کلئیر کرے
"آپی موقع تو ملا مگر باسط بہت زیادہ کلوز ہورہے تھے۔ میں گھبرا کر نکل آئی تھی روم سے"
"لو یہ کیا بات ہوئی ایسا کیا کردیا بچارے نے"
"آپی ۔۔۔۔۔ انہوں نے " وہ لمحہ بھر کو رکی "انہوں نے مجھے کس کیا"
"اوہوووو مجھے پتا تھا تمہارا منگیتر کبھی بھی شاندار موقع نہیں چھوڑے گا۔ بس بھیا کو نا بتانا وہ فضول اس سے جھگڑنے پہنچ جائیں گے۔ تو بھی عجیب ہے موقع انجوائے کرنا چاہیئے تھا نا۔ چل یہ بھی ٹھیک ہی ہے تھوڑا بھرم بھی تو پڑے ہونے والے میاں پہ کہ اتنی آسانی سے ہاتھ آنے والی چیز نہیں۔" بسمہ اتنی شدید دل برداشتہ ہوئی اس نے فورا ہی کام کا بہانا کر کے کال کاٹ دی۔ اتنا تو اسے پتا تھاکہ بھیا کو غصہ بھی اس بات پہ آتا ہے جس پہ گھر والے شہہ دیں۔ ورنہ انہیں فکر نہیں ہوتی کہ گھر میں کیا چل رہا ہے۔ اس نے تھکے تھکے ہاتھوں سے باسط کو میسج ٹائپ کیا
"سوری میں بہت شرما گئی تھی۔ اسی لیئے موبائل بھی نہیں دیکھا بس اب پلیزشادی تک ہم بات نہیں کریں گے پلیز پلیز۔ اتنی بات تو مانیں گے نا میری۔"
اس نے یہ دیکھے بغیر کہ باسط نے کیا میسج کیئے تھے یہ میسج کر کے موبائل آف کردیا۔ جو ہوگا دیکھا جائے گا۔ ایک مہینہ جیسے پر لگا کے اڑ گیا۔ وہ بیوٹی پارلر کی ایک کرسی پہ بیٹھی یہی سوچ رہی تھی۔ ویسے وقت ہی کہاں ملا خریداریاں، پارلر کے چکر، مہمانوں کا آنا جانا عجیب بھگدڑ میں سارے دن گزر گئے۔ کل سادگی سے مسجد میں نکاح بھی ہوگیا تھا۔ اسے ایسا لگ رہا تھا جیسے سب کچھ کسی اور کی زندگی میں ہورہا ہو اور وہ صرف دیکھ رہی ہو۔ نکاح کے وقت پین ہاتھ میں لیئے کچھ سوچنے کا بھی ٹائم نہیں ملا ایک ٹرانس کی سی کیفیت میں سر بھی ہلا دیا دستخط بھی کردیئے رو بھی لی حالانکہ وہ اصل میں کچھ بھی محسوس ہی نہیں کرپارہی تھی۔ ٹائم تو اسے اب ملا تھا تین گھنٹے سے بیوٹیشن نے بلا کے بٹھایا ہوا تھا۔ کبھی بال کھڑے کر کے چلی جاتی کبھی منہ پہ فاونڈیشن مل جاتی۔ اپنی شکل آئینے میں دیکھ کر بسمہ کو فی الحال تو بالکل یقین نہیں تھا کہ وہ ذرا بھی اچھی لگے گی۔ ایک تو پارلر کا ماحول ہی اس کے لیئے عجیب تھا۔ اتنے بڑے پارلر میں اس کا آنا ہی پہلی بار ہوا تھا۔ جینز اور گہرے گلے والی ٹی شرٹس پہنے کم عمر ہیلپر لڑکیاں اور اسی قسم کے کپڑوں میں ملبوس گولڈن بالوں والی سینئر بیوٹیشن۔ اسی کے کپڑوں سے شرٹ کے گلے کی فراخی کا زیادہ اندازہ بھی ہورہا تھا باقی لڑکیاں تو بچاری کمزور سی تھیں۔ برائیڈل سروس والے ایریا میں باڈی ویکس کراتی دلہنیں اس کے چودہ طبق روشن کرنے کے لیئے کافی سے زیادہ ہی تھیں۔
شکر یہ ہوا کہ میک پورا ہونے کے بعد وہ واقعی اچھی لگ رہی تھی بس اپنی عمر سے کافی زیادہ لگ رہی تھی۔ وہ تیار ہو کے ویٹنگ ایریا میں آگئی جہاں کچھ خواتین اپنی دلہنوں کے ساتھ آئی بیٹھیں تھیں اور وقت گزاری کے لیئے آتی جاتی دلہنوں پہ تبصرہ کر رہی تھیں۔ ان کی باتوں سے یہ لگ رہا تھا کہ اگر کوئی کالی ہے، موٹی ہے یا عمر زیادہ ہے تو دلہن بن کر اس نے کوئی گناہ کر دیا۔ بہت سی خواتین اپنے ساتھ ایک دو خواتین کو خاص طور سے اندر لائیں بسمہ کو دکھانے کہ کتنی پیاری گڑیا جیسی دلہن بھی بیٹھی ہوئی ہے۔ بسمہ کو شدید الجھن ہورہی تھی آتی جاتی خواتین کے اس طرح دیکھنے اور تبصرے کرنے پہ۔ اسے مشکل سے آدھا گھنٹہ ہی انتظار کرنا پڑابھیا کے آنے کا اور اتنی سی دیر میں ہی وہ کافی بےزار ہوگئی۔ بھیا اسے سیدھا شادی ہال ہی لے گئے وہاں صرف دادی اور ایک رشتے کی خالہ آئی ہوئی تھیں جو بچاری باقی رشتہ داروں میں کچھ کم حیثیت تھیں اولاد بھی بس ایک بیٹی تھی جو کچھ سال پہلے بیاہ دی تھی تو شادیوں پہ انہیں چھوٹے موٹے کام کے لیئے ہی بلایا جاتا جو وہ تکلف میں کردیتیں اور بلانے والے ایسے ظاہر کرتے جیسے یہ سب کرنا ان کی ذمہ داری تھی، انہیں شادی پہ بلا کر اتنی عزت جو دی گئی تھی۔ باقی خواتین تیاریوں میں لگی ہوئی تھیں دادی اور وہ خالہ جنہیں سب بٹو خالہ کہتے تھے وہ سادے سے کپڑوں میں جلد ہی تیار ہوگئی تھیں اور انہیں گاڑی والا ہال پہنچا گیا۔
جب تک لوگ آنے شروع نہیں ہوئے تھے تو بسمہ کو لگ رہا تھا وقت گزر ہی نہیں رہا گرمی سے اس کا برا حال تھا ایک چھوٹا سا بریکٹ فین اس کے منہ پہ چل رہا تھا ای سی تھا تو مگر بار بار لائٹ آنے جانے سے اس کی کولنگ نا ہونے کے برابر تھی
اور پھر ایک دم کب لوگ آگئے بارات آگئی فوٹو شوٹ رخصتی سب بھاگتے دوڑتے ہوگیا۔ باسط کی شوخیاں عروج پہ تھیں دل کھول کے سگی اور رشتے کی سالیوں کے ہر قسم کے مذاق کا جواب دیا جارہا تھا۔ اور بسمہ کا ٹینشن اور تھکن سے برا حال تھا۔ بار بار پیٹ میں مروڑ سے اٹھ رہے تھے اور باتھروم جانا ناممکن۔ گھر آکر بھی پتا نہیں کونسی رسمیں جاری تھیں۔ بشرہ ساتھ آئی تو تھی مگر وہ اپنی چھوٹی بیٹی کو سنبھالنے میں مگن تھی اور باقی سب رشتے دار منہ دکھائی نپٹا رہے تھے۔ بہت دیر بعد رسمیں ختم ہوئیں اور اس کو اوپر کمرے میں لایا گیا تو باسط کی سب سے چھوٹی بہن نے کہا بھابھی آپ باتھ روم وغیرہ سے ہو آئیں تو تھوڑا میک اپ فریش کروالیں۔ باتھ روم آتے ہی اس کا دل چاہا منہ بھی دھو لے ٹھنڈے پانی سے، چہرہ عجیب تپتا ہوا محسوس ہورہا تھااورآنکھوں میں جلن۔ پچھلی تین چار راتوں سے گھر میں ہنگامے کی وجہ سے اس کی نیند پوری نہیں ہوئی تھی اب بھی آدھی سے زیادہ رات گزر ہی چکی تھی۔ بہت ضبط کرکے خود کو منہ دھونے سے روکا اور بس ضرورت سے فارغ ہوکر نکل آئی۔ سسرال آنے سے لے کر کمرے میں آنے تک اس کو پتا ہی نہیں تھا کہ بشرہ آپی ہیں کہاں ان کے آنے کا مطلب ہی سمجھ نہیں آیا اسے۔ باسط کی ایک کزن جس نے بیوٹیشن کا کورس کیا ہوا تھااس نے بسمہ کے میک اپ کو دوبارہ تھوڑا ٹچ اپ کیا۔ اور ایسی ایک کزن ہر خاندان میں ہوتی ہی ہے جو بچاری مفت میں ایسی سروسز فراہم کرتی ہے اور جب پیسے دے کر کام کرانے کی باری ہو تو کسی دوسری بیوٹیشن کو پیسے دے کر منہ خراب کرانے کو ترجیح دی جاتی ہے۔ بسمہ اس بچاری کے تھکن زدہ چہرے کو دیکھ رہی تھی جسے دیکھ کے اندازہ ہورہا تھا کہ آج کی برات کی ساٹھ فیصد خواتین نے اسی سے میک کرایا ہے۔
وہ لڑکی اپنا سامان سمیٹ ہی رہی تھی کے باہر اونچی آواز میں بحث اور ہنسنے کی آوازیں آنے لگیں بہت ساری نسوانی آوازوں میں ایک مردانہ آواز شاید باسط کی تھی۔ بسمہ کی دھڑکن ایکدم تیز ہوگئی ہاتھ پاوں ٹھنڈے ہوگئے۔ وہ لڑکی ہلکے سے مسکرائی اور آہستہ سے کہا بیسٹ آف لک اور باہر نکل گئی۔
کچھ ہی دیر بعد باسط کمرے میں آگیا۔ بسمہ کا چہرہ خود ہی جھک گیا۔ اسے شرم سے زیادہ کچھ عجیب سا احساس ہورہا تھا اسے سمجھ ہی نہیں آیا اپنے احساس کو کیا نام دے۔ مگر جو بھی تھا خوشگوار نہیں تھا۔ اس کا دل ہلکے ہلکے کانپ رہا تھا کہ اب باسط زبردستی کرے گا۔ ایک مہینے پہلےتک جو بھاگ جانے کا تھوڑا بہت حق اس کے پاس تھااور اس دن اس نے استعمال کیا وہ ایک کاغذ پہ دستخط کر کے وہ گنوا چکی تھی۔ اس تعلق کے متعلق اس کی ساری معلومات بس سائنس کی کتاب میں موجود ایک غیر واضح سی ڈفینیشن تک محدود تھی۔ اس سے اگلی معلومات وہ تھی جو گل بانو کی شادی پہ دادی سے سنی تھی۔ گل بانو کا تین دن اسپتال میں رہنا۔ باقی کیا تھا وہ صرف اس کا اندازہ تھا۔ اس کا دل چاہا وہ گہری نیند سوجائے جو ہونا ہے ہو، کم از کم اسے پتا نا چلے۔ آنکھ اسپتال میں کھلے یا گھر میں تب کی تب دیکھی جائے گی۔
باسط شاید اپنے ہار اور شیروانی وغیرہ اتار رہا تھا۔ کمرے میں بہت خاموشی تھی کہ نیچے کی باتوں کہ ہلکی ہلکی آوازیں اور باسط کے کپڑوں کی سسراہٹ بھی سنائی دے رہی تھی۔
"بسمہ!"
باسط نے بیڈ کے پاس آکر ہلکے سے اسے پکارا
بسمہ نے آہستہ سے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔ آج باسط کی رنگت کافی کھلتی ہوئی لگ رہی تھی۔ نقوش اس کے ویسے بھی جاذب نظر تھے ہی وہ مجموعی طور پہ کافی اچھا لگ رہا تھا۔
باسط سامنے بیٹھ گیا
"اچھا لگ رہا ہوں نا"
باسط کے لہجے میں کہیں بھی مہینہ پہلے ہونے والے واقعے کا کوئی اثر نہیں تھا۔
بسمہ نے ہلکے سے مسکرا کر سر جھکا لیا۔
"ارے کنجوس لڑکی نئے نویلے میاں کی تھوڑی سی تعریف کردو گی تو کیا ہوجائے گا۔ مانا آپ جتنے حسین نہیں مگر ہم پہ بھی لڑکیاں مرتی ہیں"
بسمہ کو ہنسی آگئی۔
باسط نے ہاتھ تھاما
"آج اجازت ہے نا محترمہ؟ مجھے تو پتا ہی نہیں تھا میری اسنو وائٹ اتنی شرمیلی ہے۔" بسمہ اپنی بدلتی کیفیت سے حیران تھی۔ اسے اب واقعی ٹھیک ٹھاک والی شرم آرہی تھی کسی بھی اور احساس کے بغیر۔
"اچھا جی پہلے اپنا گفٹ لیں گی یا میرا گفٹ دیں گی"
دلہن کو بھی کوئی گفٹ دینا ہوتا ہے۔ اف لعنت ہے مجھے کسی نے بتایا ہی نہیں بسمہ نے ہکا بکا ہو کر باسط کی شکل دیکھی۔ باسط اس کے چہرے پہ اڑتی ہوائیاں دیکھ کر ہنس پڑا۔
"یار تم اتنی ہی ہونق ہو یا آج کوئی خاص تیاری کی ہے۔" پھر اٹھ کے ڈریسنگ ٹیبل کی دراز سے ایک گفٹ باکس نکال کے لے آیا۔
"یہ تمہارا گفٹ وہ کیا کہتے ہیں اردو میں؟ منہ دکھائی، ہے نا؟ اور میرا گفٹ میں خود لے لوں گا جو اس دن آپ نے پورا نہیں لینے دیا۔"
باسط کے لہجے میں شرارت تھی
23-
بسمہ کی آنکھ کھلی تو کچھ دیر کے لیئے اسے سمجھ ہی نہیں آیا وہ کہاں ہے غیر ارادی طور پہ اس نے سر گھمایا روز کی عادت تھی ذرا دور دوسرے بستر پہ دادی کو دیکھنے کی مگر نظر اتنی دور جا ہی نہیں پائی بالکل برابر میں سوتے باسط پہ نظر پڑتے ہی وہ بوکھلا کے اٹھ گئی۔ چند لمحوں میں ہی رات ذہن میں گھوم گئی بالکل ایسے جیسے کوئی خواب دیکھا ہو۔ دھندلی دھندلی سی تصویریں ایسے یاد آرہی تھیں جیسے وہ کسی سحر کے زیر اثر تھی۔ اوپر روشن دان سے آتی روشنی دیکھ کر اندازہ ہورہا تھا کہ دن کافی نکل آیا ہے باہر سے چہل پہل کی آوازیں بھی آرہی تھیں
اس کے اٹھنے سے باسط کی نیند بھی ڈسٹرب ہوگئی۔
"کیاہوا سو جاو نا یار" باسط نے اسے قریب کرنے کی کوشش کی۔ وہ جھجھک کر دور ہو گئی۔
"سب اٹھ گئے ہونگے"
"ہاں تو"
"عجیب لگے گا نا ہم روم میں ہیں"
"ارے یار سب کو پتا ہے ہم ہی سب سے دیر سے سوئے ہونگے۔تمہیں اٹھنا ہے اٹھ جاو مجھے شدید نیند آرہی ہے۔" باسط نے بہت سیدھے سادے سے انداز میں کہا نا اس میں کوئی شوخی تھی نا ناراضگی۔
وہ بے چارگی سے بیڈ کے کونے میں ہو کر بیڈ گئی۔ منہ ہاتھ دھونے کے لیئے بھی کمرے سے باہر جانا پڑتا اور ابھی اسے بہت جھجھک محسوس ہورہی تھی۔ باسط نے بازو آنکھوں پہ رکھ کے دوبارہ سونے کی کوشش شروع کردی۔ ایک دو منٹ وہ ایسے ہی لیٹا رہا۔ پھر اٹھ کے بیٹھ گیا۔
"اچھا میں سنیہ کو بھیجتا ہوں۔" باسط نے اپنی چھوٹی بہن کا نام لیا۔ اور روم سے نکل گیا۔ تھوڑی سی دیر بعد سنیہ اور بشرہ آپی اندر آئیں۔ اور بشرہ آپی کو دیکھ کے بسمہ کے ذہن میں سب سے پہلے یہی خیال آیا کہ اب آنے کا کیا فائدہ۔ ایک تو اسے ان کے چہرے کی معنی خیز مسکراہٹ سے ہی الجھن ہورہی تھی۔ اسے پتا تھا کہ سنیہ ادھر ادھر ہوگی اور یہ کچھ نا کچھ بےتکا پوچھیں گی۔ جس کے بارے میں بسمہ بالکل بات نہیں کرنا چاہتی تھی اور کم از کم کسی ایسے شخص سے تو بالکل نہیں جس سے وہ بالکل بے تکلف نہیں تھی۔
"سنیہ نے پہلے سے الماری میں سجے اس کے جہیز کے کپڑوں میں سے ایک دو نسبتا آرام دہ سوٹ نکالے۔
"بھابھی بتائیں ابھی کونسا سوٹ پہنیں گی؟" بسمہ کے بولنے سے پہلے بشرہ آپی بول پڑیں۔
"ارے یہ کیسے بتائے گی۔ ہماری بسمہ ان معاملات میں بہت سیدھی ہے ویسے ہی پہلے دن اتنی شرم آرہی ہوتی ہے اسی لیئے تو میں ساتھ آئی تھی یہ تو کچھ بولے گی ہی نہیں۔ ایسا کریں سنیہ یہ تو بہت سادے سے سوٹ ہیں وہ سی گرین فراک نکال لیں جس پہ گوٹے کا کام ہے۔ "
بشرہ آپی نے پیچھے الماری میں ٹنگی ایک کافی بھاری سی فراک کی طرف اشارہ کیا۔ سنیہ نے سوالیہ نظروں سے بسمہ کی طرف دیکھا کیونکہ اس سے بسمہ کی کافی دوستی پہلے ہی ہوچکی تھی اور بسمہ اسے اپنی پسند کا سوٹ بتانے ہی والی تھی۔ مگر مجبورا بسمہ نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
بسمہ تیار ہو کے نیچے آئی تو پتا چلا اسماء آپی اور ایک دو کزنز ناشتہ لے کر آئی ہوئی تھیں۔ باسط بھی تھوڑی دیر میں تیار ہو کے نیچے ہال میں آگیا اور بسمہ کے ساتھ ہی بیٹھ گیا جس پہ باسط کے کزنز اور بسمہ کے گھر والوں سب نے ہی ایک زور دار "اووو" کیا۔
"لو بھئی تم نے تو ایک ہی رات میں پلو سے باندھ لیا ہمارے دیور کو" نازیہ بھابھی نے کہنے کو مذاق کیا مگر لہجے میں صرف مذاق نہیں تھا۔ بسمہ شرمندہ سی ہوگئی۔ ہنسی مذاق چلتا رہا جس کا ہدف بسمہ اور باسط دونوں تھے مگر جواب باسط ہی دے رہا تھا۔
ولیمہ ایک دن بعد تھا اسماء آپی چاہ رہی تھیں کہ بسمہ کو کل شام تک کے لیئے لے جائیں مگر باسط نہیں مان رہا تھا۔ آخر کار یہی طے ہوا کہ باسط اپنے گھر والوں کے ساتھ آج شام ہی بسمہ کو لینے آجائے گا۔
ولیمہ بھی خوش اسلوبی سے نمٹ گیا۔ مگر یہ صرف بسمہ کا خیال تھا کیونکہ دونوں اطراف میں کئی ایسی چھوٹی چھوٹی تکراریں رسموں پہ ہوئیں جن کی وجہ سے کچھ رشتہ دار کافی ناراض ہوگئے تھے۔ دونوں کو ایک دوسرے کی کیٹرنگ اور کھانا بھی زیادہ نہیں بھایا تھا۔ جس پہ بسمہ اور باسط کی غیر موجودگی میں طنزیہ باتیں ہو ہی جاتیں مگر ان دونوں کی لیئے فی الحال سب سیٹ تھا۔ باسط کی ساری توجہ بسمہ پہ تھی جہاں بسمہ ہوتی کچھ دیر بعد باسط بھی وہیں ہوتا۔ صوفے پہ تو تقریبا جڑ کے بیٹھ جاتا۔ آخر دو تین دن بعد ایک دن نازیہ بھابھی اوپر آئیں تو بسمہ کمرے میں اکیلی تھی باسط کچھ دیر کے لیئے دوستوں کے پاس گیا تھا۔ نازیہ بھابھی اندر آگئیں
"بسمہ میں ایک بات کرنا چاہ رہی تھی مگر دیکھو برا مت ماننا۔ میں بھی بہو ہوں یہاں کی میں نہیں چاہتی کہ تم اپنی سادگی میں یا کم عمری میں کسی ناخوشگوار مسئلے سے گزرو"
"نہیں بھابھی آپ کہیں آپ بڑی ہیں میرے بھلے کے لیئے ہی کہیں گی۔" ان کے لہجے نے بسمہ کو ڈرا دیا مگر اس نے کوشش کر کے اپنا لہجہ عمومی ہی رکھا۔
"دیکھو یار سیپریٹ گھر ہو یا گھر میں غیر شادی شدہ لڑکیاں نا ہوں تو یہ لپٹنا چپٹنا چل جاتا ہے مگر ساس سسر کے سامنے اچھا نہیں لگتا نا۔ باسط تو مرد ہے وہ نہیں کرے گا ان چیزوں کا خیال تم تو لڑکی ہو سمجھا کرو۔ کسی دن ساس نے ٹوک دیا تو نئی سسرال میں کیا عزت رہ جائے گی؟ لوگوں کے سامنے باسط سے تھوڑا فاصلہ رکھا کرو۔ مناسب نہیں لگتا یہ سب"
بسمہ کو اول تو ان کی بات ہی عجیب لگی پھر جس قسم کے الفاظ انہوں نے استعمال کیئے وہ کافی قابل اعتراض تھے کیونکہ بسمہ خود بھی کوشش کرتی تھی کہ باسط پاس آکر بیٹھا ہے تو تھوڑا فاصلہ کر لے سب کے سامنے باسط کااتنا قریب بیٹھنا اسے عجیب لگتا تھا۔ اور تب زیادہ لگتا جب کوئی بلکہ عموما نازیہ بھابھی ہی کوئی نا کوئی شوخ جملہ کہہ دیتی تھیں۔
"جی بھابھی میں خیال کروں گی"
بسمہ کو اتنی شرمندگی ہوئی کہ وہ زیادہ بول ہی نہیں پائی۔ اور پھر بسمہ نے اور زیادہ خیال رکھنا شروع کردیا کہ باسط اور وہ سب کے سامنے زیادہ قریب نا ہوں۔ اسے نازیہ بھابھی کے اعتراض کے طریقے نے بہت دھچکہ سا پہنچایا تھا۔ اور وہ دوبارہ ایسا کوئی اعتراض سننا نہیں چاہتی تھی۔ اور ظاہر ہے یہ بات باسط نے بھی محسوس کرلی۔ وہ ایک دن کچن میں کھڑی سلاد کاٹ رہی تھی باسط برابر میں آکر فریج سے پانی نکالنے لگا۔ وہ تھوڑا اور دور ہوگئی۔
"ارے بیگم صاحبہ کیوں مجھ سے بھاگتی پھرتی ہیں"
"اففو باسط سمجھا کرو نئی دلہن ہے لڑکیاں تم لڑکوں کی طرح بے شرم نہیں ہوتیں" ساتھ ہی کھڑی نازیہ بھابھی نے بسمہ کے بولنے سے پہلے جواب دیا۔
باسط نے ایک نظر نازیہ پہ ڈالی اور ایک بسمہ پہ۔ خاموشی سے پانی پی کر گلاس رکھا جاتے جاتے کچھ سوچ کے رکا۔
"بسمہ فارغ ہوجاو تو اوپر آنا ذرا۔"
"اوہو اب تو دن میں بھی دیور جی کو یاد ستانے لگی" نازیہ بھابھی نے حسب عادت جملہ چست کر ہی دیا اور اتنا بلند آواز میں کیا کہ باسط نے ضرور سنا ہوگا۔ بسمہ نے پہلے سوچا کہ اوپر نا جائے مگر باسط کے لہجے کی سنجیدگی کا خیال آیا تو وہ سلاد اتنی ہی چھوڑ کر اوپر آگئی۔
"جی آپ نے بلایا تھا" بسمہ کی کیفیت ایسی تھی جیسے شرارت کرنے کے بعد پرنسپل کے آفس میں اسٹوڈنٹ کی ہوتی ہے
"آو بیٹھ جاو پھر بات کرتے ہیں"
بسمہ بیڈ کے ایک سائیڈ پہ بیٹھ گئی
باسط اس کے سامنے بیٹھ گیا
"بسمہ جانو کوئی مسئلہ ہے کیا۔ شادی سے پہلے تم کتراتی تھیں وہ سمجھ آتا ہے اب کیا ہوا؟"
"باسط سب نوٹ کرتے ہیں"
" تو کرنے دو کیا فرق پڑتا ہے"
"اچھا نہیں لگتا نا نازیہ بھابھی بھی ٹوک چکیں ہیں کہ امی ناراض ہوں گی"
" یہ نازیہ بھابھی نے کہا تم سے؟ لو بھلا کہہ بھی کون رہا ہے"
"کیا مطلب"
"کچھ نہیں۔ ٹھیک ہے تم گھبراو نہیں میں خیال کروں گا آئیندہ۔ مگر پلیز تم بھی سب کے سامنے ایسے پیچھے نا ہوا کرو شوہر ہوں تمہارا عجیب لگتا ہے۔"
بسمہ نے سر ہلا دیا۔ اس نے سکون کا سانس لیا چلو ایک مسئلہ تو خیریت سے حل ہوگیااور شکر بھی کیا کہ باسط کو اوپریٹ کرتا ہے۔ مگر یہ پہلا اور چھوٹا مسئلہ تھا۔
اگلے کچھ دنوں میں کھیر پکوا کر اسے ایک طرح سے باقاعدہ گھر کے کاموں میں حصہ دے دیا گیا۔ مگر پتا نہیں نازیہ بھابھی کے ساتھ کیامسئلہ تھا وہ اسے کوئی کام خود سے نہیں کرنے دیتیں ہر کام میں خود ہی ساتھ کھڑی ہوجاتیں کئی بار بسمہ کی ترکیب بدل دی اور کھانے کا مزہ خراب ہوگیا اور جب کھانا لگتا تو کسی کے کچھ کہنے سے پہلے ہی بول پڑتیں
"بھئی آپ لوگ کچھ کہیے گا نہیں نئی نئی دلہن ہے کم عمر بھی ہے اونچ نیچ ہوجاتی ہے یہ بھی میں نے تھوڑا مدد کروا دی۔ اسے ابھی ٹھیک سے پکانا نہیں آتا نا۔" بسمہ کو سمجھ نہیں آتا کہ انہیں کیوں لگا کہ اسے پکانا نہیں آتا کچھ چیزیں تو وہ پہلے ہی جانتی تھی پھر منگنی سے شادی کے بیچ دس گیارہ مہینوں میں اس نے کافی کچھ سیکھ لیا تھا۔ وہ صرف جھنجھلا کے رہ جاتی۔ باسط کی چھٹیاں بھی ختم ہو گئی تھیں وہ تھک کے آتا تو بسمہ کو مناسب نہیں لگتا کہ وہ اتنی جلدی سسرال کی شکایتیں کرنے لگے۔
باسط آفس سے آتا تو نازیہ بھابھی اسے پانی لینے دوڑا دیتیں اور باسط کے سامنے ٹوکنا نہیں بھولتیں کہ شوہر کے آتے ہی ان چیزوں کا خیال رکھا کرو۔ کئی بار پیچھے سے آکر اسے دوپٹہ سر پہ اڑھانے لگتیں کہ جیٹھ یا سسر آرہے ہیں ایسے اچھا نہیں لگتا۔ وہ خود بھی سر پہ دوپٹا اوڑھے رکھتیں مگر وہ عموما اتنا مختصر ہوتا کہ صرف سر کے گرد ہی ہوتا۔
اس دن بھی باسط کے آنے کے ٹائم پہ دروازہ بجا بسمہ دروازہ کھولنے کے لیئے بڑھی تو فورا نازیہ بھابھی نے روک دیا۔
"تم پانی لے آو میں کھول آتی ہوں۔"
بسمہ پانی لے کر آئی تو باسط ہال کے صوفے پہ بیٹھا جوتے اتار رہا تھا۔ نازیہ بھابھی ساتھ ہی بیٹھی تھیں۔
"ارے یار آج تو بہت تھک گیا"
"لیٹ جاو یہیں تھوڑی دیر"
باسط نے بسمہ سے پانی کا گلاس لے کے پیا اور واقعی وہیں لیٹ گیا نازیہ بھابھی کے گھٹنے پہ سر رکھ کر۔ اس کا انداز اتنا عام سا تھا جیسے یہ کوئی روز کی بات ہو۔ بسمہ حیران سی کھڑی رہ گئی
شروع کے دنوں میں بسمہ کو باسط جتنا خیال رکھنے والا، رومینٹک اور مددگار طبیعت کا لگا تھا وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اسے اندازہ ہوتا جارہا تھا کہ ایسا نہیں ہے۔ بڑے بھیا کی طرح ہی اسے بحث بالکل پسند نہیں تھی۔کسی بھی چھوٹی سی بات پہ ناراض ہوکر اچھا خاصا طوفان کھڑا کردیتا تھا۔ کھانے میں چند ہی چیزیں پسند تھیں اور ان میں بھی اس کا معیار بہت انوکھا تھا کوئی بھی پکائے اسے کوئی نا کوئی کمی مل ہی جاتی تھی اور یہ صرف اس کا نہیں سسر سمیت گھر کے تمام مردوں کا مسئلہ تھا۔ بس فرق یہ تھا کہ بسمہ ان دونوں بھاوجوں سے بہتر ہی پکاتی تھی مگر باسط کے علاوہ باقی دونوں بھائی اپنی اپنی بیگمات کے کھانے خاموشی سے کھا لیتے تھے۔ لیکن اس بات کی کسر ان کے بیٹے پوری کردیتے تھے۔ بڑے بھائی عبدالصمد کے دو بیٹےاور ایک بیٹی تھے بڑا نویں میں تھا بیٹی دوسرے نمبر پہ ساتویں کلاس میں اور دوسرا بیٹا پانچویں میں۔ دوسرے نمبر کے بھائی عبدالرافع کا ایک بیٹا اور ایک بیٹی تھی ان کا بیٹا بھی اولاد میں سب سے بڑا تھا مگر صمد بھائی کا چھوٹا والا اور رافع بھائی کا بڑاوالا دونوں تقریبا ہم عمر تھے اس لیئے ایک ہی کلاس میں تھے۔ بیٹی دوسری کلاس میں تھی۔ ان تینوں لڑکوں کی فرمائشیں پوری کرنا جان جوکھم کا کام تھا۔ عجیب بات یہ تھی کہ یہی بچے بسمہ سے ناصرف بہت جلدی اٹیچ ہوگئے تھے بلکہ اس سے ضد بھی کم ہی کرتے تھے۔ سب عموما شام میں اپنی کتابیں لا کر بسمہ کے پاس ہی کام کرتے تھے سوائے سب سے بڑے فہد کے۔ اس کا رویہ بسمہ کو عجیب ہی لگتا تھا جیسے وہ بسمہ کو چاچی کی بجائے صرف لڑکی سمجھتا ہو۔ عموما اس سے کتراتا تھا مگر کئی بار بسمہ نے اسے اپنی طرف عجیب طریقے سے گھورتے ہوئے پایا۔ بسمہ کو بھی احساس تھا کہ اس سے بسمہ کی عمر کا کوئی زیادہ فرق بھی نہیں وہ خود بھی اس سے بے تکلف ہوتے میں جھجھک محسوس کرتی تھی۔ ایک دم کسی اتنے بڑے لڑکے کو باسط کے رشتے کے حوالے سے محرم کے طور پہ برتنا اس کے لیئے بہت مشکل تھا۔ بسمہ اگر اس کی موجودگی میں غیر ارادی طور پہ اپنا دوپٹہ ٹھیک کرتی یا وہ بسمہ کے اپنے کمرے میں آتے ہی شارٹس بدل کے جینز پہن لیتا تو کوئی نا کوئی ٹوک دیتا کہ چاچی بھتیجے کے رشتے میں یہ تکلف نہیں ہوتے۔ یہ سب وہ احساس تھے جو بسمہ صرف محسوس کر سکتی تھی کسی سے تذکرہ نہیں کرسکتی تھی باسط سے بھی نہیں۔ شادی سے پہلے تک جو اس کا خیال تھا کہ شاید باسط کی صورت میں اسے ایک دوست مل جائے وہ آہستہ آہستہ غلط ثابت ہوتا جارہا تھا۔ شروع شروع کا رومان آہستہ آہستہ صرف جسمانی تعلق تک محدود ہوتا جارہا تھا اور وہ بھی باسط کی مرضی اور شرائط پہ۔ بسمہ تھکی ہوئی ہو نیند پوری نا ہوئی ہو طبیعت خراب ہو اسے اس سے کوئی غرض نہیں ہوتی تھی۔ ساتھ ہی وہ اپنا دن بھر کا غصہ کام کی پریشانی سب اسی وقت بسمہ پہ اتار دیتا یہ خیال کیئے بغیر کہ بسمہ کو تکلیف ہوگی۔ وہ اپنی غرض پوری کرکے سو جاتا اور بسمہ پوری رات خوف سے جاگتی رہتی اور تکلیف سے سسکتی رہتی۔ اس کے وہ تمام رومانوی تصورات جو اس رشتے سے جڑے تھے ایک ایک کر کے ٹوٹتے جارہے تھے۔ ورنہ منگنی سے شادی کے درمیانی عرصے میں وہ کافی مطمئن ہوگئی تھی کہ باسط اس کے جذبات اور احساسات کا خیال رکھے گا اور زبردستی نہیں کرے گا۔
پہلی بار یہ تب ہوا جب آفس میں باسط کی باس سے کسی بات پہ منہ ماری ہوئی، آفس سے بھی جھنجھلایا ہوا آیا تھا، پہلے توکھانے پہ بہت چیخا چلایا کہ تم لوگ گھر میں پورا دن پڑے پڑے کرتی ہی کیا ہو جب ایک کھانا بھی ڈھنگ سے نہیں پکتا۔ چیخ چلا کرآدھا کھانا چھوڑ کر ہی اوپر چلا گیا۔ بسمہ کام نپٹا کر اوپر پہنچی تو کمرے میں سگریٹ کا دھواں بھرا ہوا تھا۔ باسط کی سانسیں تیز تھیں اور خلاوں میں کہیں گھور رہا تھا۔
"سمجھتا کیا ہے خود کو۔۔۔۔۔۔۔۔۔" باسط نے اسی طرح خلا میں گھورتے گھورتے ایک دم کہا اور کافی بےہودہ گالی دی "باس ہے تو سمجھتا ہے ہم اس کے باپ کے نوکر ہیں۔ مفت میں پیسے نہیں دیتا گدھوں کی طرح کام کراتا ہے"
بسمہ نے پہلی بار باسط کے یہ تیور دیکھے تھے وہ ڈر بھی گئی اور پریشان بھی ہوئی۔
"کیا ہوا باسط آفس میں کچھ ہوا کیا؟"
"ہوا بھی ہے تو تم کیا کر لو گی؟ تم عورتوں کو مفت کی روٹیاں توڑنے کو ملتی ہیں بے عزت تو ہم ہوتے ہیں دو دو ٹکوں کی نوکری کے لیئے، نکل کر کمانا پڑے تو عقل ٹھکانے آجائے تم لوگوں کی دو وقت کا کھانا بھی ڈھنگ سے نہیں پکتا۔" بسمہ ہکا بکا باسط کو دیکھ رہی تھی کہ اس سب میں اس کا کیا قصور ہے۔
بسمہ خاموشی سے دوسری طرف کروٹ لے کرسونے لیٹ گئی اسے پتا ہوتا کہ مسئلہ کیا ہے تو وہ اسے پرسکون کرنے کے لیئے کچھ بولتی بھی مگر باسط کے تیوروں سے لگ رہا تھا وہ کچھ بتائے گا ہی نہیں۔ بسمہ کے اس طرح خاموشی سے لیٹنے پہ وہ اور غصے میں آگیا اس کا بازو کھینچ کر سیدھا کیا
"میں گدھا ہوں جو بکواس کیئے جارہا ہوں مہارانی کو اپنے آرام کی پڑی ہے"
یہ آخری جملہ تھا جو باسط نے بولا۔ پھر صرف بسمہ کی سسکیاں گونجتی رہیں۔ اس رات بسمہ اتنی ڈر گئی اسے لگ رہا تھا وہ سوگئی تو گل بانو کی طرح مر جائے گی۔ فجر کی اذان پہ وہ اٹھی تو اس کا جسم کانپ رہا تھا۔ اچھے خاصے ٹھنڈے موسم میں وہ ٹھنڈے پانی سے ہی نہا لی وضو کر کے مصلہ بچھایا مگر کھڑے ہوکر یاد ہی نہیں آیا کیا پڑھنا ہے وہ قیام سے ہی سجدے میں چلی گئی اور پتا نہیں کتنی دیر سجدے میں سر رکھے روتی رہی۔
اور پھر یہ سب تقریبا روز کا معمول بن گیا۔ شروع شروع میں بہت تکلیف ہوتی تھی رونا بھی آتا تھا پھر آہستہ آہستہ وہ بے حس لاش ہوگئی۔ کسی سے کچھ کہہ بھی نہیں سکتی تھی۔ اس کی حالت سہمی ہوئی چڑیا جیسی ہوگئی تھی۔ آنکھوں کے گرد حلقے پڑ گئے۔ رنگت کی گلابیاں زردی میں بدل گئیں۔ شادی کو کوئی چھ یا سات مہینے گزر گئے تھے ایک دن فائزہ کی کال آئی تو اس نے بتایا کہ وہ لوگ سب شفٹ ہورہے ہیں آسٹریلیا۔ نفیس آنٹی نے اسکالر شپ اپلائی کی تھی پی ایچ ڈی کے لیئے وہ منظور ہوگئی تھی۔ ساتھ ہی فائزہ کے والد ظفر انکل ان لوگوں کے میٹرک کرنے کے دوران ہی اسٹریلیا گئے تھے جہاں ان کی جاب ہوگئی تھی۔ تو اب پوری فیملی کا وہاں جانا آسان تھا۔ فائزہ کے لیئے بہت خوشی کی بات تھی مگر بسمہ اس خبر سے اور ٹوٹ گئی۔ صرف فائزہ ہی تھی جس سے وہ اپنے دل کی بات کرسکتی تھی۔ اس سے بات کرنے کا موقع کم ہی ملتا تھا مگر ایک ڈھارس تو تھی نا۔
وہ اپنی ذات میں مقید ہوتی جارہی تھی۔ میکے جائے نا جائے کسی کو زیادہ پروا ہی نہیں ہوتی کہ پوچھے وہ کیوں نہیں آئی جب کہ باقی دونوں بہنوں کے کسی ہفتے نا آنے پہ امی خود فون کر کے پوچھتی تھیں اور اگر نا پوچھ پائیں تو اگلی دفعہ آنے سے پہلے وہ جتانے کے لیئے فون کرتیں کہ آپ لوگوں کو ہماری پروا ہی نہیں تو آنے کا کیا فائدہ؟ پھر باری باری امی، ابو، دادی، بڑے بھیا فون کرکر کے مناتے اور خاص دعوت کا اہتمام کیا جاتا۔ بسمہ کو کبھی بھی شکایت کی عادت ہی نہیں تھی تو نا وہ شکایت کرتی تھی ناکسی کو احساس ہوتا تھا کہ اس کی خیریت بھی پوچھنی چاہیئے۔
زندگی یونہی معمول پہ گزر رہی تھی۔ اتنے مہینے گزرنے کے باوجود بچے کے بارے میں پوچھ تاچھ اس لیئے شروع نہیں ہوئی تھی کیونکہ باسط نے ہی صاف الفاظ میں کہہ دیا تھا کہ دو سال تک کوئی ان سے اس متعلق ناپوچھے اس کی تنخواہ اتنی نہیں کہ بچوں کے خرچے پورے کرسکے۔ وہ کیا چاہتی ہے اس سے پوچھنے کی زحمت ہی نہیں کی۔
ایک دن معمول سے ہٹ کر دوپہر میں ہی باسط کا فون آگیا
"بسمہ آج شام میں تیار رہنا ایک دوست کے گھر دعوت ہے"
بسمہ کافی حیران ہوئی کیونکہ باسط عموما دوستوں کے گھر اسے نہیں لے کر جاتا تھا یہ سب دوست باہر ہی مل لیتے تھے۔ بس اس کی شادی پہ اس کے کچھ دوست اپنی بیگمات کو لائے تھی اور ایک آدھ ہی کے گھر شادی کے بعد دعوت ہوئی تھی۔ مگر یہ شاید وہ دوست نہیں تھا۔ شام کو آفس سے آیا تو موڈ کافی خوشگوار تھا تیارہوتے ہوتے خود ہی بتاتا جارہا تھا
" احمد اور میں نے ایک ہی اسکول سے میٹرک کیا تھا پھر یہ لوگ دوسرے محلے میں شفٹ ہوگئے تھے۔ کالج تک رابطہ تھا پھر اس کی جاب لاہور میں ہوگئی تھی باقی گھر والے تو یہیں ہوتے ہیں۔ میری آج آفس میں ملاقات ہوئی تو پتا چلا اس کی بھی شادی ہوگئی دو سال پہلے،اتنا اصرار کر کے دعوت پہ بلایا ہے میں منع ہی نہیں کرپایا۔ ویسے بھی بہت اچھی فیملی ہے ہمارا کافی آنا جانا تھا ایک دوسرے کے گھر۔ امی صرف اسی کو آنے دیتی تھیں گھر میں اتنا شریف لڑکا ہے۔ بلکہ یہ کیا اس کے سب گھر والے ہی بہت شریف اور مہذب ہیں تم ملو گی تو تمہیں بھی اچھا لگے گا۔" جتنی تفصیل سے باسط سب بتا رہا تھا اسی سے لگ رہا تھا کہ احمد اس کا کافی قریبی دوست ہے اور وہ اس سے مل کر بہت خوش بھی ہے۔
باسط کھانے کے ٹائم سے کافی پہلے ہی پہنچ گیا احمد کے گھر۔ سب سے پہلے احمد کی امی سے ملاقات ہوئی انہیں دیکھ کر بسمہ کو لگا انہیں کہیں دیکھا ہے کچھ عجیب سا ناخوشگوار سا احساس ہوا۔ انہوں نے بہت محبت سے لاونج میں لے جاکر بٹھایا احمد کی بیوی اپنی چند ماہ کے بیٹے کو بھی لائی وہ بھی کافی ملنسار لڑکی تھی۔ کچھ ہی دیر بعد احمد بھی آگیا اسے دیکھ کر بسمہ کچھ لمحے کے لیئے شاک میں رہ گئی بالکل ایسا لگ رہا تھا جیسے اسلم 26 یا27 سال کا ہوگیا ہو۔ اسے اندازہ ہوا کہ احمد کی امی میں بھی انہی نقوش کی جھلک تھی۔ ان کے بہت ملنسار رویئے کے باوجود بسمہ بہت بے چین ہوگئی۔ احمد کی بیوی ہی باتیں کیئے جارہی تھی بسمہ بس ہوں ہاں میں جواب دے رہی تھی۔
انہیں بیٹھے آدھا گھنٹا ہوا ہوگا کہ پیچھے سے کافی مانوس آواز آئی
"ارے باسط بھائی کہاں سے برآمد ہوگئے اتنے دن بعد"
آواز تھی یا کوئی بم بسمہ نے مڑ کے پیچھے دیکھا لاونج کے دروازے سے اسلم اندر آرہا تھا۔
Comments
Post a Comment