"خوشبو دھنک
کی"
قسط 3 تا 7
ذکر میرا کئے وہ جاتا ہے
اور مرا نام بھی چھپاتا ہے
غیر کو دے کے مشورے سارے
میری مشکل کا حل بتاتا ہے
جانے کیا شوق ہے کہ دل کی گلی
بارہا روز روز
آتا ہے
کبھی محفل میں آنکھ مل جائے
اجنبی سا سلام آتا ہے
مہرباں تھا تو دل چرایا تھا
اب وہ ظالم نظر
چراتا ہے
یاد کرنا ہے کام اس دل کا
اس میں ہر کام بُھول جاتا ہے
اب جسے تو بنا چکا اپنا
وہ کہاں اور کا ہو پاتا ہے
یہ محبت عجیب رشتہ ہے
جو ہوا گم، وہ اس کو پاتا ہے
وقت سے یوں نباہ کرتا ہوں
دیکھ لیتا ہوں جو دکھاتا ہے
مانگتا ہوں دعا میں اس کے لئے
جب کوئی شخص مسکراتا ہے
لفظ بے جان ہیں مگر ابرک
زندگی ان میں کھینچ لاتا ہے
"کیا میٹنگ چل رہی ہے دونوں بہن بھائی
میں؟" قریب آتے احد نے پوچھا۔
"ہماری پرسنل بات ہے آپ کون ہوتے
ہیں؟" انشراح بے رخی سے بولی۔
" ہم آپ کے ہیں کون والے، ہم" احد
نے جتاتے کہا اور اور اپنی جیپ کی طرف اشارہ کیا۔
"بیٹھ جاو تم بھی کیا یاد کرو گی ایک
ملیٹری کی جیپ میں بیٹھی تھی۔" احد
نے احسان جتاتے کہا۔
" مجھے کوئی شوق نہیں، جو لوگ شوقین ہیں
انہیں بٹھائیں سمجھے آپ" انشراح نے کہا۔
" وہ تو بیٹھتے ہی ہیں۔ مگر آج تم پر
سپیشل عنایت کرنی ہے۔"
انشراح کا تن بدن سلگ اٹھا وہ کس قدر کھلے عام اپنے
افئیر کے بارے میں بتا رہا تھا۔ "میں اپنے بھائی کے ساتھ جا رہی ہوں مجھے شوق
نہیں آپ کے ساتھ جانے کا، آپ ان پر عنایت کریں جنہیں شوق ہے۔
"اور خدانخواستہ مجھے ملیٹری کی گاڑی
یوز کرنے کا بخار چڑا تو میرا ایک اور کزن بھی میجر کے عہدے پر ہے۔
موحد کا ذکر سنتے احد کے چہرے کے سب تاثرات تن گئے۔
" وہ آپ کے کزن برادر ہوتے ہیں۔ ان کے
ساتھ بیٹھ کر آپ وہ فخر محسوس نہیں کر سکیں گی جو میرے ساتھ کریں گی۔"احد نے
جتا کر کہا۔
نبیل نے پریشانی سے پیشانی مسلی۔ اس نے کبھی انشراح کو
احد یا کسی سے بھی لڑتے نہیں دیکھا تھا۔ نبیل کے بعد انشراح سے سب سے قریب ترین
احد ہی تھا عمر میں اگیارہ سال کے فرق کے باوجود احد اور انشراح کی دوستی مثالی
تھی۔ نبیل اور سب نے بہت قریب سے انشراح
کے چہرے پر وہ گلنار پھیلتے دیکھا تھا جو احد سے نکاح کی بات پر اچانک آیا تھا۔ وہ
تو نا سمجھ تھی مگر نبیل تو اس گلنار کا مطلب سمجھتا تھا۔ پھر ایسا کیا ہو گیا تھا
کہ وہ احد کی دشمن بن گئی تھی اگر وہ احد کو قریب سے نہ جانتا ہوتا تو کبھی اس دن
بنا تفتیش کے نکاح نہ ہونے دیتا کیونکہ انشراح صرف تب ہی ضد کرتی تھی جب اسے کسی
بات سے کوئی تکلیف پہنچے اور احد سے اسے کیا تکلیف پہنچی تھی؟ یہ گھتی ابھی سلجھنی
باقی تھی۔
************
روبیل آج بھی ہاتھ میں کافی کا مگ پکڑے گلاس وال کے
ساتھ کھڑی ہو کے باہر کا منظر دیکھ رہی تھی ،
باہر بارش آہستہ آہستہ منظر بھگو رہی تھی قطرہ قطرہ وہ
بھی اس ساون میں ڈوب رہی تھی سرد پھترائی
آنکھوں کے پردوں میں چھپی نمی ہر درد سے ہر انجام سے لاپروا تھی کافی ٹھنڈی ہو چکی
تھی مگر وہ وہاں ہی کھڑی رہی!،
اپنے شوہر کے انتظار میں جیسے شبہ ہو وہ آج ضرور آئے
گا، سفید سلیولس ٹوپ سے نکلتی دودھیا بازو بلو جینز جس کو ٹخنوں سے اوپر تک فولڈ
کیا تھا پیروں میں بلی کی کھال سے بنے سرخ جوتے پہنے تھے سرد ہوا کے جھونکے سے
اڑتے اس نے ہاتھ سے اپنے بال جھٹکے تو اس
کے ہاتھوں میں ہیری جیسی بریسلیٹ چمکی جیسے کسی نے شادی کی پہلی رات بہت محبت سے
اپنی محبوب بیوی کو دی ہو
کالی آنکھوں کی پتلیاں سکڑے وہ باہر سے اندر آنے والے
کو دیکھ دہی تھی اسکے خوبصورت ہونٹوں پے مسکراہٹ پھیل گئی سرخ لپ سٹیک سے سجے ہونٹ
ٹھنڈی کافی کو منہ لگانے لگی مگر ایک گھونٹ لے کے وہ بد مزہ ہوئی مگر اس کے شوہر
نے آتے ہی باہیں پھلائی اور وہ سب چھوڑ کے بھاگ کر اسکے سینے سے لگ گئی گھنی
مونچھوں تلے تھوڑے سرخ اور تھوڑے بروان ہونٹ مسکرائے دیکھنے میں ایسا لگتا تھا
جیسی یہ ہونٹ کبھی گلابی رہ چکے ہوں۔ وہ اسکی کمر کو سہلاتے ہوئے بولا "کیسی
ہو؟؟"
روبیل نے کالی سیاہ آنکھیں، خم دار پلکوں کو ناراضگی سے
اٹھایا جو مسکارے سے بھری تھی۔۔اور شکواہ کناں انداز میں بڑے لاڈ سے بولی .
"تم کل کیوں نہیں آئے میں نے بارہا کالز
کی تم نے ایک بھی پک نہیں کی۔" وہ روٹھی روٹھی بولی۔
اور اسکا شوہر مسکرا دیا پھر سنجیدہ ہو کر بولا.
"انشراح اپ سیٹ تھی اور"۔ پوری بات
سننے سے پہلے روبیل نے اپنے شوہر کے ہونٹوں پے اپنی نرم دودھیا ہتھیلی رکھ دی .
"پلیز میں 'انشراح نامہ' سننے کی لئے نہیں اتنا انتظار کرتی۔"
روبیل کے شوہر نے لب بھنچے۔ "روبیل تم ایک بات
ٹھیک سے سمجھ لو مجھے وہ انسان بلکل اچھا نہیں لگتا جو انشراح یا میری فیملی کے
کسی بھی ممبر کے بارے میں الٹی سیدھی بات کرے۔"
روبیل تو کل سے غصہ دبائے بیٹھی تھی فورا چیخی۔
" تو میں کون ہوں؟ تمہاری تین سال پرانی
بیوی ابھی تک میں تمہاری فیملی نہیں بنی ہماری ایک بیٹی یے۔ اور تم مجھے اپنی
فیملی میں کاونٹ ہی نہیں کرتے"
"بس کرو خاموش ہو جاو روبیل تم بھی میری
فیملی ہو مگر تم یہ بات مت بھولنا تم نے یہ نکاح مجھ سے زبردستی کیا ہے۔ یہ نکاح
کر کے میں نے تم پر احسان کیا ہے ورنہ تم اپنی جان دے دیتی، میں نہیں چاہتا تھا
میری دوست اپنی جان میری وجہ سے دے اور خبردار"۔۔ وہ انگلی اٹھا کر وارن کرنے
لگا۔ "جو تم نے آئندہ ہماری بیٹی کو کسی لڑائی میں کھینچا" بے رخی سے
بولتا اپنے کمرے میں گیا اور اپنی بیٹی کو اٹھاتا گھر سے باہر نکل گیا، روبیل بے
حد شاکی نظروں سے اسے دیکھتی رہ گئی۔
وہ ایک گھنٹے بعد واپس آیا تو روبیل وہی اسی طرح منجمند
کھڑی تھی اپنی بیٹی کو گود سے اتارتے وہ روبیل کے پاس گیا اور آہستگی سے بولا۔
"سوری میں کچھ زیادہ ہی بول گیا تھا۔"
"اٹس اوکے" روبیل نے پلٹتے کہا اور
اپنی بیٹی کی طرف متوجہ ہوئی جو بہت سی چیزوں کی شاپنگ کے بعد خوشی سے کھیل رہی
تھی۔ وہ جانتی تھی وہ نرم دل انسان ہے اسے ضرور منائے گا۔
《 *******》
"کیپٹن رومیو کو لائن ملاو اسے کہو
ہمارا "کبیرخ" خطرے میں ہے۔" باروعب وردی والے میجر نے سامنے کھڑے
باآدب جونیر کیپٹن کو مطلاع کیا۔
"سر رومیو جی تو چھٹی پے ہیں۔"
دوسرا آفسر تربز کا شکار ہوا۔
میجر کی آنکھوں کی پتلیاں سکڑ گئی اس نے بولنے والے
افسر کو گھور کر دیکھا۔
جیسے یقین کر رہا ہو وہ سچ ہی بول رہا ہے کیونکہ رومیو
نے اپنے پانچ سال کے شاندار ریکارڈ میں چھٹی نہ کی تھی وہ صرف تب تب آرمی سے دور
ہوا تھا جب جب وہ گولی لگنے یا کسی بم باری میں زخمی ہو جاتا اور اسے وہ دن ہوسپٹل
میں گزارنے پڑتے چھوٹی سی عمر میں میجر کا رینک حاصل کرنے کے پیچھے لا تعداد بار
رومیو نے اپنی قیمی جان بے دھڑک ہو کر خطرے میں ڈالی تھی تاکہ پاکستان کی ہر ماں
بہن اور بیٹی بے فکر ہو کر سوئے۔ پاک فوج
جاگ رہی ہے تو ہر عورت ہر بیٹی کی عزت
آبرو جان و مال سلامت ہے۔
"سب ٹھیک تو تھا، رومیو نے چھٹی کیسے
لی؟ آفیسر ابھی تک حیرانگی میں تھا۔
"وہ سر" کیپٹن ہچکچا کر بتانے لگا۔
"رومیو صاحب اپنی وائف کے ساتھ ہیں یہ
ضروری تھا۔ انہیں عبدللہ سر نے خود چھٹی دی ہے۔!"
"اوکے تم جاو میں اس سے خود رابطہ کرتا
ہوں اس وقت اسکا یہاں ہونا بے حد ضروری ہے۔"
'"سر رہنے دیں ہم سب ہیں یہاں تو، انکی
پرسنل لائف بھی ہے کیا اچھا ہے کہ ہم اسے ڈسٹرب کریں۔ " کیپٹن نے ڈرتے ہوئے
کہا۔
ایک فوجی کا کچھ بھی پرسنل نہیں ہوتا نا ہی اسکی کوئی محبت
ہوتی اسکی محبت صرف وطن کی مٹی اسکی شان ہوتی ہے، میرا ذاتی خیال ہے کہ ہمیں شادی
کا بھی حق نہیں یہ ہماری جاب کا تقاضہ نہیں ہم عام مردوں کی طرح فیملی مین نہیں
ہوتے نا ہی ہمیں کوئی حق ہے ہم کسی کی بیٹی کے جذبات سے کھیلیں ہم نے کونسا تا عمر
زندہ رہنا ہوتا ہے۔" آفیسر نے بے لچک لہجے میں کہا۔
"غلط بلکل غلط" یک دم رومیو کی
آواز پر سب پلٹے۔
"میرا خیال ہے ایک فوجی کو کم سے کم چار
شادیاں کرنی چاہیئے" رومیو کی بات پر آفیسر نے اسے گھورا جبکہ کیپٹن کے چہرے
پر مسکراہٹ پھیل گئی۔
"کیونکہ ہم اتنے بڑے ملک کی خدمت کر رہے
ہیں کیا چار لوگ مل کر ہماری نہیں کر سکتے۔؟" رومیو نے معصومیت سے پوچھا؛
اللہ نے تو ہمارے لئے ستر حوروں کا انتظام کیا ہے کیا ہی اچھا ہو ستر نہیں تو سات
پریاں دنیا میں تو ملیں زخم بھی جلدی بھر جایا کریں گے۔۔"
آفیسر رومیو کو منہ کھولے دیکھ رہا تھا اس نے سوچا بھی
نہ تھا رومیو ایسی سوچ کا مالک ہوگا۔
"بیک ٹو میشن ٹائم از ٹف باقی باتیں بعد
میں وہ بھی اگر زندہ رہے تو،" آنکھ
دباتے رومیو نے کہا وہ اگلے ہی سیکنڈ وہ ایک کرخت سنجیدہ میجر کی شکل اختیار کر
چکا تھا۔
******
"بھابی آپ نے دیکھا عمر بھائی نے اپنی
گرل فرینڈ مجھ سے چھپا کر رکھی، میں سچ کہتی ہوں اگر مجھے وہ پسند نہ آئی تو شادی
نہیں ہو گی بس۔!"
عمر نے مسکراہٹ دبائی اور انشراح کو اپنے ساتھ
لگایا۔
"ٹھیک ہے میری دادی اماں تمہاری پسند کی
لڑکی سے ہی شادی کروں گا مگر تم جان بوجھ کر اسے ریجیکٹ نہیں کرو گی۔" عمر نے
کہا۔
" میں کیوں جان بوجھ کر کروں گی"
انشراح نے خفگی سے کہا۔
"مجھے پتہ ہے تم خفا ہو اس لئے کرو
گی۔" عمر نے کہا۔
"دیکھا آپ نے بھابی اپنے دیور کو یہ
ابھی سے بدل گئے ہیں اب انکو مجھ میں برائیاں نظر آئیں گی۔" وہ روٹھی ہوئی
چھوٹی سی بچی لگی۔۔ ثانیہ کو اس پے بے حد پیار آیا اسے اپنی پہلی ڈیٹ یاد آئی جو
نبیل کے ساتھ تھی۔
چھوٹا سہ ڈنر تھا شادی سے پہلے جب رشتہ طے ہونے والا
تھا تو ثانیہ نے ایک بار ہونے والے منگتر کو ایک دفعہ ملنے کی آفر کی جیسے بہت
احسان سے نبیل نے ایکسپٹ کر لی۔
جب وہ آیا تو اسکے ساتھ ایک پنک پھولے ہو ئے فراک میں
گلابی ہی رنگت والی گپلو سی بچی تھی جس نے
نبیل کی انگلی پکڑی تھی بالوں کی دو پونیاں جھلاتی ہر چیز سے غافل تھی۔
ثانیہ نے گڑیا جیسی بچی کی طرف دیکھا جو انگلی سے نبیل
کو فش ٹینک کے پاس جانے کا کہہ رہی تھی ثانیہ مبہوت ہو کے دیکھنے لگ گئی اور بے
ساختہ "ماشاللہ" بول پڑی وہ بچی اب فش ٹینک پے انگیاں لگاتی خوش ہو رہی
تھی نبیل نے اسکی پونی ٹھیک کی اسکے گال چوم کے دو زانو بیٹھ کے اسے گھٹنے پے بٹھا
کے فشز کے نام بتانے لگ گیا۔
کافی دیر بھی جب وہ اسکے پاس نہ آیا تو سمجھ گئی وہ اس
بچی سے بہت مانوس ہے اور اپنے یہاں آنے کا مقصد یکسر بھول چکا ہے۔ ثانیہ نے جلدی
سے پرس سے چھوٹا شیشہ نکالا لپ گلوز تیز کیا کاجل گہرا کر کے بیس کا جائزہ لیا۔اور
سج سج کرتی قدم اٹھاتی چل پڑی اور فیش ٹینک کے قریب زرا فاصلے پے جا کے کھڑی ہو کے
ہاتھوں میں آیا ٹھنڈا پسینہ صاف کرنے لگی۔
پھر اعتماد سے بولی۔ "اسلام وعیکم"
کھنکتی زندہ دل آواز پے نبیل چونک کے متوجہ ہوا۔
ثانیہ کی تصویر وہ دیکھ چکا تھا پہچانتے ہی نبیل نے
سلام کا جواب دیا۔ "وعیلکم سلام" ساتھ ہی سر سے اشارہ کیا۔
مسکراتے ہوئے ثانیہ انشراح کی طرف متوجہ ہوئی۔
"ہیلو پریٹی گرل" ثانیہ نے اپنا ہاتھ سامنے کیا۔
وہ ہاتھ دیکھ کر نبیل کی طرف دیکھنے لگ گئی۔ انشراح
ضرورت سے زیادہ ذہین اور سمجھدار تھی۔ وہ اجنبیوں سے قطعی بات نہ کرتی۔ ثانیہ کی
ہتھیلی دیکھتے اس نے نبیل کے کان میں کچھ کہا انشراح کا ننھا سا ہاتھ اس وقت نبیل
کے چہرے پر ثانیہ کو بہت خوبصورت لگا۔ثانیہ کا دل چاہا وہ اس ننھے ہاتھ کو پکڑ کر چوم لے۔ نبیل نے کچھ کہا تو
انشراح نے ثانیہ کا ہاتھ تھام کر "ہائے" بولا۔
"آپ فیشز دیکھ رہی ہو؟" ثانیہ نے
مسکرا کے کہا۔۔ مغرور سے انداز میں "جی" کہہ کے انشراح پھر فش ٹینک کی
طرف متوجہ ہو گی۔
"وہ دراصل انشراح کو فیشز پسند
ہیں" نبیل نے شرمندہ سی وضاحت کی۔
"مجھے بھی" ثانیہ نے مسکراتے کہا
اور انشراح کی طرف متوجہ ہوتے بولی۔
"پنک گرل میرے پاس اس سے بھی زیادہ فشیز
ہیں مانو بھی ہے آپ کو پسند ہے؟" اس بار انشراح کی سرمئی آنکھیں چمکی وہ فورا
نبیل کے گھٹنے سے اتر کے ثانیہ کو پیار سے دیکھنے لگ گئی۔ثانیہ نے جھک کر اسے گود
میں اٹھایا۔اور اسکی سرمئی آنکھ چومتے اسکے ننھے ننھے ہاتھوں کو چومنے لگی۔
نبیل بھی کھڑا ہو گیا اب انکا رخ میز کی جانب تھا۔
" "آپ نے وہ سب لینی ہیں۔؟"
ثانیہ نے پوچھا۔
"آپ سچ میں دیں گی مجھے؟" انشراح
نے معصومیت سے پوچھا۔
"بلکل میری ڈول اب میں آپ کے گھر رہنے
آوں گی تو ساتھ ساری فیشز بھی لے آوں گی اور مانو بھی۔"
"آپ رہنے آو گی؟" انشراح کی آنکھوں
میں اور چمک آئی۔
"بلکل اگر آپ کے بھائی چاہیں
تو۔۔۔۔۔"
"بھائی تو صرف میری بات مانتے ہیں آپ آ
جائیں۔" انشراح کی زبان میں اسکا مان بول رہا تھا۔
" کیا واقعی آ جاؤں؟" شرارت سے
بولتے ثانیہ کی نظر نبیل تک گئی۔ جو انشراح کو دیکھتے مسکرا رہا تھا۔ ثانیہ کے
دیکھنے پر دونوں کی نظر ملی۔
نبیل نے ثانیہ کی گود میں بیٹھی انشراح کو اپنے پاس بلا
کر اپنی ساتھ والی چیئر پر بٹھایا۔اور جھک کر انشراح کے کان میں کچھ کہا۔ تو
انشراح "یس" بولتی ثانیہ سے بولی۔
"بھائی کہہ رہے ہیں آپ آ جائیں آپ انکی
گڑیا کی پسند ہیں، کہا تھا نا میں نے بھائی صرف وہ کرتے ہیں جو میں
بولوں۔"
"بھابی سن رہی ہیں آپ؟" انشراح خفا
سی بولی۔
ثانیہ چونکی ،مستقبل میں واپس آئی!
"بھابی آپ مسکرا رہی ہیں میں نے رونے لگ
جانا ہے۔" وہ خفا ہوئی،
"پوچھیں ان سے کیوں اپنی گرل فرینڈ مجھ سے چھپائی تھی اب اگر وہ مجھے پسند نہ آئی
تو کیا ہوگا؟"
"شادی ہوگی وہ بھی میری اور عالیہ
کی" عمر نے مزہ لیتے کہا۔
" میں نہیں آ رہی آپکی شادی میں کٹی ہے
آپ سب سے آپ دونوں مجھ سے پیار ہی نہیں کرتے بھائی نے اپنی گرل فرینڈ چھپائی اور
آپ پتا نہیں کون سے خوابوں میں ڈوبی مسکرا رہی ہیں۔" کشن گود سے اٹھا کر صوفے
پر پھینکتے وہ اٹھی دوسرے صوفے پر ثانیہ تھی اس نے انشراح کا ہاتھ تھام کر اپنے
پاس گرا لیا۔
"ارے نہیں میری پرنسیز میرے لئے شہاب
اور پری سے پہلے تم میری بیٹی ہو!"
"سچی بھابی پکا نا۔" وہ رخ موڑ کے
وعدہ چاہنے لگی۔
"پکا میری ڈول۔" ثانیہ نے اسکے بال
بکھرائے۔
"بھابی آئی لو یو۔" وہ خوش ہوئی
"می ٹو میری جان" دونوں کھلکلائی۔
" تم کچھ بھی کرلو شادی میں اپنی پیاری
عالیہ سے ہی کروں گا" انشراح کا موڈ ٹھیک ہوتا دیکھ عمر نے پھر چھیڑا۔
" کر لیں ایک بار نہیں تین بار کرلیں۔
میں نے کونسا آنا ہے۔" وہ بے رخی سے بولی۔
" ہاں تو میں نے کونسا بلانا ہے"۔
کشن انشراح کی طرف اچھالتے عمر نے کہا۔
ایک دو تین چار پانچ۔ صرف پانچ سیکنڈ انشراح نے عمر کی
طرف دیکھا۔ اور پھر جیسے اسکے آنسوؤں چھلکنے لگے۔ وہ غصے سے اٹھ کر چلی گئی۔
"مائی گاڈ انشراح کب بڑی ہوگی"
اسکے پیچھے لپکتے عمر نے کہا۔
مگر عمر کے آنے سے پہلے انشراح اپنا روم لاک کر چکی
تھی۔
دروازہ بجاتے بجاتے سارا گھر اکھٹا ہو گیا مگر انشراح
نے دروازہ نہ کھولا۔
" عمر بھائی آپ کو ایسا مزاق ہر گز
انشراح سے نہیں کرنا چاہیئے تھا۔ اب میں نبیل سے کیا کہوں گی وہ تو یہی پوچھیں گے
اس وقت انشراح کے پاس کون تھا اور انکو پتہ چلا میرے سامنے وہ روتی اندر گئی ہے
تو۔۔۔۔"
عمر تو خود پریشان تھا اسکا مزاق اس قدر مہنگا پڑ چکا
تھا۔ پھر بھی ثانیہ کو حوصلہ دینے کو بولا۔
"اتنے بھی جلاد نہیں ہیں نبیل بھائی بس
تھوڑا ڈانٹیں گے اور بس"
" صرف آپ ہی کھائیں گے ڈانٹ، اور
بس" ثانیہ نے عمر کی نقل اتارتے کہا اور نبیل کا نمبر ملایا۔اب صرف ایک وہی
تھا جو یہ دروازہ کھلوا سکتا تھا۔
*******
اپنے سرخ روئے روئے چہرے کے ساتھ نبیل کو عمر کی شکایت
ہچکیوں سمیت لگاتے ثانیہ کو انشراح اٹھارہ سال کی لڑکی نہیں وہی چھوٹی سی بچی لگی
جس کا کھلونا ٹوٹ گیا ہو اور وہ لڑ مرنے کو تیار ہو۔ یہی تو تھا انشراح کا بچپن
اپنی ہر چیز ہر کھلونے سے وہ جذباتی لگاؤ لگا لیتی اور اسکے ٹوٹ جانے پر رو رو کر
گھر سر پر اٹھا لیتی۔ وہ جس طرح اپنی چیزیں سنبھال کر رکھتی ہر عام چیز بھی ثانیہ
کو خاص لگتی۔
" پوچھیں ان سے " انشراح نے خاموش
بیٹھے عمر کی طرف اشارہ کر کے کہا۔
" یہ میرے ساتھ ایسے ہی کریں گے پتہ تھا
مجھے، اب حارث بھائی کی شادی میری پسند سے
ہو گی اس پے ہم ان کو نہیں بلائیں گے۔" انشراح نے سزا پیش کی۔
" یہ دیکھو میرے ہاتھ، بس آج میری خطا
معاف کردو آئندہ تمہاری پسند سے ہی شادی کروں گا جب بھی گرل فرینڈ ملی تمہیں ضرور
بتاؤں گا۔ بس اس بار میری شادی میں شرکت کر کے میری عزت رکھ لیں شہزادی صاحبہ اور
میرے چھوٹے سے بھائی کی شادی خانہ بربادی میں شرکت کی اجازت دے دیں۔" عمر نے
دونوں ہاتھ جوڑ کر انشراح کے سامنے کئے۔
"نبیل بھائی آپ سن رہے ہیں اپنے بھائی
کی باتیں۔" انشراح نے خفگی سے کہا۔
"یہ جو تمہارا سگھا بھائی ہے نا اس نے
تم سے پوچھ کر نہیں شادی کی تھی تب تو گھر میں کوئی طوفان نہ آیا تھا رنگ میں بھنگ
ڈالنے کو میں ہی ملا تھا تمہیں؟" عمر نے نہایت خفا لہجے میں کہا۔
"میرے بھائی آپ کے جیسے نہیں ہیں میری
پسند سے ہی شادی کی تھی ہے نا بھائی؟ ہے نا بھابی بتائیں ان کو؟"
عمر نے ہاتھ اپنے بالوں میں پھیرا "شاباش مجھے تو
پہلے ہی شک تھا یہ لو میرج ہے ہم بھی معصوم نکلے لو کو ارینج نہ کرنا آیا اور یہ
ظالم دنیا۔۔"
" بس کرو عمر فورا میری بیٹی سے سوری
کرو۔"
نبیل نے روعب سے کہا۔ انشراح کے آنسو دیکھ کر وہ کسی
مزاق میں نہیں آتا تھا۔
" سوری جی" عمر نے منہ پھلائے کہا۔
اسکا منہ لٹک گیا۔
انشراح کو عمر کا لٹکا منہ دیکھ کر دکھ ہوا۔ نبیل کے
پاس سے اٹھ کر انشراح عمر کے پاس گئی۔
"مجھے تنگ نہ کیا کریں مجھے غصہ آ جاتا
ہے۔ بھائی آپ خفا تو نہیں؟" انشراح نے معصومیت سے پلکیں جھپکا کر پوچھا۔
" اگر میں کہوں ہاں تو؟" عمر ابھی
بھی شرارت کے موڈ میں تھا۔
" تو۔۔۔ میں سوری کر لوں گی"
"نہیں میں بلکل نہیں ناراض اپنی گڑیا سے
تم تو ہماری جان ہو میں تو تنگ کر رہا تھا صرف ایک تم ہی تو ہو جسے تنگ کر کے پیار
کرنے میں مزہ آتا ہے۔ ہماری بے رنگ سی زندگی میں چمکتی فینسی لائٹ" انشراح کی
ناک ہلاتے عمر نے کہا۔
"مجھے آئسکریم کھانے جانا ہے۔"
انشراح نے عمر سے فرمائش کی۔
" آئسکریم نہیں کھانی ٹھنڈ ہے"
نبیل اٹھ کر انشراح کے پاس گیا۔ اور اپنے بازو کے حصار میں لیتے بہت ہی نرمی اور
محبت سے انشراح کو کہا ساتھ ہی اس کے جمے ہوئے آنسو صاف کئے۔۔ ورنہ اسے آئسکرئم
سےٹوکنا آسان نہ تھا وہ پھر سے ناراض ہو جاتی۔
"میرا بہت دل ہے آئسکرئم کھانے کو
بھائی۔ "
" کھانے دو چڑیل کو رو رو کر کمزوری
محسوس کر رہی ہو گی۔"
عمر نے پھر جلتی پر تیل پھینکا۔
"عمر جاو یہاں سے ابھی" نبیل کی
دھاڑ پر عمر سعادت مندی سے باہر چلا گیا مگر جاتے جاتے وہ نبیل سے آنکھ بچا کر
انشراح کو زبان دیکھانا نہ بھولا۔
********
"ہیلو میں ہوں آپ کے ساتھ
"روشنی" اور آپ سن رہے ہیں ریڈیو96.7 تو آج آپ لوگ اپنے لورز ہسبنڈز
وائف گرل فرئنڈ منگیتر گھر والی باہر والی کو کچھ کہنا چاہتے ہیں تو جلدی سے کال
ملائیے دیر مت کرئیے۔ ہم سن رہیں آپ کا پیغام یہاں سب سن رہے ہیں لیکن دیکھ کوئی
نہیں رہا، تو دل کھول کے بولئے جب تک کال نہیں ملتی آپ سنیئے یہ سونگ،"
میرے رشک قمر تو نے پہلی نظر جب نظر سے ملائی مزہ آ
گیا۔
ٹون ٹون کال بجی۔۔ لائن پے جامد خاموشی تھی روشنی جلدی
سے اپنی زندہ دلی آواز میں بولی،
"آپ 96.7 پے اون لائن ہیں سر میڈم کیا
کہنا چاہیں گے آپ؟
اپنی گھر والی محبوبہ گرل فرنڈ بوائے فرئنڈ۔"
دوسری طرف سے بھاری مرادنہ آواز میں "شٹ اپ" کہا گیا۔ روشنی چونک کے چپ
ہو گئی.
اپنا
بے ہودہ سونگ بند کرو۔اس قدر تھرڈ کلاس سونگ لگتے ہیں اس شو میں۔"
روشنی رومیو کی آواز تو پہچان گئی تھی مگر وہ لائیو شو
میں تھی اپنے لسنرز کی وجہ سے رومیو کو کچھ کہہ نہ سکی۔
"سر آپ اپنی فرمائش کا سونگ لگوا رہے
ہیں؟" روشنی نے ڈرتے ڈرتے کہا ورنہ جو بے عزتی وہ سہہ چکی تھی صد شکر کے
ریڈیو میں تصویر نہیں ہوتی ورنہ وہ شرم سے ڈوب جاتی۔
"ہاں میری وائف کے لئے۔"
"جی سر کونسا۔"
"لمبی جدائی"
سونگ لگ گیا۔۔
"ہونہہ بیوی کا عاشق مجھے شٹ اپ بول رہا
تھا خود بہت نعت لگوائی ہے." دانت کچکچاتے روشنی نے اگلی کال لی۔
*************
جاری ہے
Episode#4
جب سے انشراح کا نکاح احد سے ہوا تھا نبیل نے ایک دن
بھی پہلے کی طرح نہ انشراح کو ہنستے دیکھا نہ کھکھلاتے نہ ہی اسے فرمائش کرتے وہ
اکثر کھوئی کھوئی رہتی اور جانے کن سوچوں میں رہتی وہ اکثر سوچتا وہ ایسا کیا کرے
جس سے انشراح کا موڈ بہتر ہو جائے مگر کوئی حل پیش نظر نہ آیا۔ ہر وقت نبیل کے کان
احد ایسا ہے احد نے یہ کیا یہ دیا کہہ کر کھانے والی جانے کیوں احد سے چڑنے لگی
تھی نفرت کا اظہار تو وہ کرتی تھی مگر نفرت کی کوئی رمق نبیل کو انشراح کے وجود
میں ڈھونڈنے سے بھی نہ ملی وہ خفا تھی اور کیونکر تھی نبیل نہیں جانتا تھا۔
عمر کی شادی کے دن قریب تھے نبیل کا خیال تھا شادی کے
ماحول میں وہ کچھ بہتر ہو جائے گی، اسکی ہر وقت ہونٹوں پر رینگتی الوہی مسکان لوٹ
آئے گی۔
"یہ میری چھوٹی گڑیا کے لئے ہے اور یہ
بڑی" نبیل نے خوبصورت سے ٹاپس سامنے کئے ڈائمنڈ کے چمکتے ٹاپس پر نظر اٹھتے
ہی انشراح نے دونوں پکڑ لئے۔
" بھائی آپ نے ایک جیسے کیوں لے لئے پری
تو بہت چھوٹی ہے جب تک یہ پہننے لائق ہوگی یہ اولڈ فیشن ہو جائیں گی، اس سے اچھا
آپ پری کے لئے کوئی برسلیٹ یا چھوٹی سی رینگ لے آتے۔" انشراح نے اپنے طور
نبیل کو سہی مشورہ دیا۔ نبیل یک دم ہنس دیا۔
"کیا ہوا بھائی میں نے کیا فنی کہا ہے
جو یوں ہنس رہے ہیں؟ انشراح نے حیرانگی سے پوچھا۔
" احمق میری دو بیٹیاں ہیں دونوں کے لئے
الگ الگ چیز کیسے پسند کروں؟ یہ بہت مشکل ہے۔ جب پری بڑی ہو گی تو پہن لے گی۔ الگ
چیز لینے سے چیزوں کے ساتھ ساتھ انسانوں میں بھی فرق آ جاتا ہے۔اور بیٹیوں میں فرق
نہیں کرتے پری بڑی ہوئی تو یہ ٹاپس تمہارے کانوں میں دیکھے گی تو اسکے دماغ میں
آئے گا میرے بابا میرے لئے کب یہی لائیں گے حلانکہ اسے اسکا گفٹ مل چکا ہوگا"
" مجھے آپ کی بات سمجھ نہیں آئی بھائی
"
"میری پیاری گڑیا اسے پہن لو زیادہ مت
سوچو لاو میں پہنا دوں" نبیل نے اسے اپنے پاس بلایا۔
" میں انکو کبھی نہیں اتاروں گی بھائی
کبھی نہیں" انشراح نے لاڈ ومحبت سے نبیل کو کہا۔
ثانیہ اب کے چھیڑنے والے انداز میں بولی۔
"اپنی شادی پر بھی نہیں اتارو گی؟"
" نہیں اتاروں گی پکا پرامس"
انشراح نے کہا۔
انشراح کی معصومیت پر دونوں مسکرا دیئے۔
" کتنی شاپنگ رہ گئی آپ کی؟" نبیل
نے ثانیہ سے پوچھا
"میری تو سب ہو گئی پری کے شوز رہتے ہیں
اور انشراح کے ڈریسزز ڈیزائنر سے پک کرنے ہیں، وہ کل یاد سے پک کر لیجئے گا کیونکہ
پرسوں سے سب فنکشنز شروع ہوں گے ایک دفعہ ماپ چیک ہوں جائیں گے۔"
" آپ نے میرے ڈریسزز بنوائے ہیں
بھابی"؟ انشراح نے چونک کر پوچھا۔
" ایسا کو سکتا ہے میں نہ بنواتی؟"
انشراح کو اپنے ساتھ لگاتے ثانیہ نے کہا۔
" میری تو تمام شاپنگ بھائی نے کروا دی
تھی" انشراح نے کہا "جو آپ نے بنوائے ہیں انکے ساتھ کی میچنگ کہاں سے
لاوں گی؟" انشراح نے دھل کر سوچتے کہا۔۔
" جیولیری میں نے لے لی ہے۔ باقی چیزوں
کے لئے نبیل کے ساتھ چلی جانا کل رات سکون سے شاپنگ کرنا۔"
" آپ مجھے پہلے ہی بتا دیتی۔"
انشراح نے کہا۔
"کیوں بتاتی اپنی گڑیا کو؟ کیا میرا
کوئی حق نہیں ہے؟ انشراح کی تھوڑی چھوتے
ثانیہ نے کہا۔
" آپ تو بہت پیاری ہیں بھابی دنیا کی
بسٹ بھابی میری بسٹ دوست بھی اور نبیل بھائی کے لئے بھی بسٹ۔" بہت دن بعد
انشراح کا موڈ کچھ بہتر ہوتے دیکھ ثانیہ اور نبیل وہی بیٹھے اسکی باتیں سننے لگے-
**********
"میرا میچنگ کا بریسلیٹ نہیں ملا
بھابی۔" رات کو روہانسے تاثرات کے ساتھ انشراح نے بتایا۔
"اوہو کس ڈریس کے ساتھ" ثانیہ نے
فکر مندی سے پوچھا۔
"یہ برات والی ساڑی کے ساتھ مجھے یہ بہت
پسند آئی ہے بھابی میں اب کچھ اور نہیں پہنوں گی"
"انشراح" ساڑی دیکھتے ثانیہ کی
آنکھوں میں چمک آئی۔
"میرے پاس کچھ ہے رکو ایک منٹ
آئی۔" ثانیہ اٹھ کر اپنے کمرے کی طرف گئی چند منٹ بعد آئی تو اس کے ہاتھ کی
ایک مٹھی بند تھی۔
" کیا ہے اس میں۔" ثانیہ نے انشراح
کے سامنے کرتے پوچھا۔
"بریسلیٹ ؟" کسی امید سے انشراح نے
پوچھا۔
"نا، نا" ثانیہ نے نفی میں سر ہلایا۔۔
"اگر بریسلیٹ نہیں ہے تو کچھ نہیں لینا
مجھے" خفا ہوتے انشراح نے کہا۔
نبیل نے ثانیہ کی مٹھی کھولی اور ثانیہ کو مصنوعی
گھورا، اور انشراح کا ہاتھ پکڑتے اس میں کچھ رکھا اور مٹھی دبا دی۔
" ہم دونوں کا قصور نہیں ہے انشراح بچے،
تم یہ پہن لینا" نبیل کی نرمی اور محبت سے کہی گئی بات ہر انشراح نے جونہی بے
دلی سے مٹھی کھولی تو دیکھتی ہی رہ گئی۔۔
"بھابی یہ یہ تو آپکی شادی کا ہے
پنجاگلہ دس از امیزنگ بھائی اوہ مائی آئی لو یو" انشراح نے ثانیہ کے گال پکڑ
کر بوسے لئے۔
" یہ بہت پیارا ہے پنجاگلہ بہت پیارا ہے
میں اس قدر خوبصورت پنجاگلہ کبھی نہیں دیکھا ہے۔میں یہ واپس کردوں گی بھابی یہ تو
آپکی نانو نے آپکی مما کو دیا تھا اور انہوں نے آپکو۔۔۔"
"ارے ارے اتنی باتیں آ گئی ہیں۔۔۔رکھو
تم اپنے پاس! واپس کرنے کی کیا بات ہے سب میری بیٹی کا ہی تو ہے۔" ثانیہ سے
پہلے نبیل نے کہا۔ اور انشراح کا سر ہلاتے کھڑا ہوا۔
"اب خوش ہو اپنی بھابی پر خفا تو نہیں
ہو؟ جانتی ہو صبح میں بہت پریشان ہو گئی تھی جب تم ناراض تھی۔ مجھے لگا تمہیں
ڈریسز پسند نہیں آئے۔۔" ثانیہ نے
انشراح کے سفید مرمری ہاتھوں میں اپنی ماں کا دیا پنجاگلہ دیکھتے پوچھا۔
" نہیں بھابی میں خفا نہیں تھی بس شاپنگ
کیسے ہو گی یہی پرابلم تھی اب تو ہو گئی۔۔مگر یہ زیور آپکی مما کا ہے نا؟"
" اب میری جان کا ہے۔" انشراح کے
پیشانی پر پیار کرتی ثانیہ اٹھی۔
انشراح نے پلٹتی ثانیہ کا آنچل پکڑا۔
"میں یہ واپس کردوں گی بھابی یہ آپکی
امانت ہے۔"
"میں نبیل کی بات نہیں ٹال سکتی۔"
ثانیہ نے دبے لفظوں میں کہا۔
"تو میری ٹال رہی ہیں؟ یعنی وہ مجھ سے
زیادہ ضروری ہیں۔" مصنوعی خفگی سے انشراح نے کہا۔
"ارے میری مانو بلی کر دینا واپس نہیں
مانتی کسی کی بھی اپنی ہی منوا کر چھوڑتی ہو ۔"
ثانیہ کی آنکھوں میں لوٹتی روشنیاں دیکھ انشراح کے دل
میں سکون کی میٹھی پھوار برسنے لگی۔
بے شک اس کے لئے ثانیہ کی محبت اللہ کا دیا تحفہ تھی
مگر وہ اس محبت کا ناجائز فائدہ نہیں اٹھانا چاہتی تھی۔ جس سے ثانیہ کے دل میں
انشراح کی قدرو قیمت کم ہو جائے۔
******
ماہر بیوٹیشن کے ہاتھوں میک اپ کروا کر انشراح کے چاند
سے چہرے پر انوکھی چاندی بکھر رہی تھی ثانیہ کا دیا پنجاگلہ پکڑے وہ پورے گھر میں
گھومتی ثانیہ کو ڈھونڈ رہی تھی مایوس ہوتے
وہ نبیل کے پاس گئی۔۔
" بھائی یہ تو بند ہی نہیں ہو رہا اسکا
لاک خراب ہو گیا ہے۔اور بھابی ہیں کہ عید کا چاند ہو گئی ہیں۔کب ہم لوگ برات لے کر
جائیں گے۔؟" بنا احد کو دیکھے انشراح نے کہا۔
" دیکھاو تو،" نبیل نے لاک چیک کیا
اور تھوڑی تردید کے بعد اسے پہنا دیا۔
"لو ہو گیا بند اتنی سی بات تھی۔ اور
میری گڑیا خوامخو پریشان ہو رہی تھی۔"
"بھائی ہم نئی بھابی لینے کب جائیں
گے؟پلیز جلدی کریں مجھ سے اب اور انتظار نہیں ہو رہا" بے ساختہ مسکرا کر کہتے
انشراح نے نبیل کی دوسری طرف دیکھا جبھی انشراح کی مسکراہٹ سکڑی اور نبیل کی بازو
پر اسکی گرفت سخت ہوگئی۔ احد اسے جانے کیوں چبتی نگاہوں سے دیکھ رہا تھا۔
"میں آتی ہوں بھائی مجھے کچھ یاد آ گیا
ہے۔" احد کی چبتی نظروں کی تپش سے بچنے کے لئے وہ اپنے کمرے میں بھاگ گئی۔
*****
شاندار استقبال کے بعد بارات حال میں داخل ہو چکی تھی!
انشراح تتلی کی طرح یہاں سے وہاں ساڑھی سنبھالتی اڑ رہی تھی عالیہ اسے بہت پیاری
لگی تھی عالیہ اور عمر سے سٹیج پر کھٹی میٹھی نوک جھوک کے بعد انشراح کو عالیہ کا
کوئی کزن تنگ کرنے لگا سٹیج پر بیٹھی وہ تابڑ توڑ جوابات دے رہی تھی۔ عمر اور حارث
بھی انشراح کا ساتھ دینے کے لئے جملے کس رہے تھے۔ احد ایک کونے میں کھڑا سلگتی
نگاہ سے انشراح کو دیکھ رہا تھا۔ انشراح کو اس کی یہ نگاہ بلکل سمجھ نہیں آئی وہ
اس قدر خوفناک طریقے سے اسے کیونکر دیکھ رہا تھا۔
"عالیہ باجی آپکی نند تو بڑی کوئی تیز
دھار کی چھری ہے بچ کر رہئے گا" عالیہ کے منچلے کزن نے اسے چھیڑا۔
"مجھے بچ کر رہنے کی ضرورت نہیں،"
عالیہ نے بد لحاظی کو خوش اخلاقی کے جامے میں پہنا کر پیش کیا۔"بلکہ یہ آفر
تم کسی اور کو پیش کرو"
"کسے پیش کریں؟ خود کو؟"وہ ڈھٹائی
سے بولا۔ اور انشراح کی بدلتی رنگت دیکھ مزید گویا ہوا۔"ٹھیک ہے! آپ کے لئے
یہ چھری ہم گردن پر چلا لیں گے۔"
"تمہیں چلانے کی ضرورت نہیں ہے یہ چھری
کوئی اور پہلے ہی اپنے دل پر چلا چکا ہے۔" عمر نے انشراح کی بند ہوتی مٹھیاں
دیکھ کہا۔
"اوہو ہمیں بھی ملوا دیں اس خوش نصیب
سے"
"یہ ہیں نہ اپنے میجر صاحب"
عمر کی بات سے پہلے اس کے کزن نے موحد کی طرف اشارہ کیا۔
"ارے نہیں یہ والے میجر صاحب کی تو
بھابی ہیں وہ ہیں نہ جو نبیل بھائی کے ساتھ کھڑے ہیں۔"
"یعنی ایک کے ساتھ ایک فری"
عالیہ کے بھائی کی بات پر انشراح کا دل کٹ گیا۔ وہ سوچ
بھی نہیں سکتی تھی عالیہ کی فیملی اس قدر بولڈ اور منہ پھٹ ہوگی۔ نا کوئی تہذیب
تھی اور نہ ہی مزاق کی کوئی حدود! اب وہ صرف بے دلی سے بیٹھی تھی۔۔۔۔
"بلکل ایک کے ایک فری والی آفر ہے مگر
احد کو نہیں مجھے۔ احد کو تو جو ملا ہے وہ اسکی خوش نصیبی تھی اور مجھے جو ملا ہے
اس پر مجھے صبر کرنا ہے۔" عمر نے فورا بدلہ لیا۔ وہ کیسے برداشت کر لیتا اسکی
نازک ادام بہن پر کوئی وار کرے۔ میسج پر احد کو مختصر سی بات بتا کر عمر نے اسے
سٹیج کی طرف بلایا۔
"ہائے دل ہی ٹوٹ گیا میرا جیجو اب تو
کوئی فائدہ نہیں ہے۔ میں تو فری میں ہاتھ نہیں آتی سب اچھی چیزیں تو آپی اڑا لیتی
ہیں میں بھی کوئی ایسی عام نہیں۔" عالیہ کی بہن نے کہا۔ "ویسے میں نے
سنا ہے نکاح کے وقت دو دفعہ انشراح نے انکار کیا تھا کیوں کیا وجہ تھی ؟ اس قدر تو
خوبصورت اور ہنڈسم ہیں احد جی، ان پر تو راہ چلتی لڑکی کا بھی دل آ جائے ہاں اگر
انکار والی آفر ابھی بھی کھلی ہے تو کیا میں ۔۔۔۔" معنی خیزی سے کہتی وہ خاموش ہوئی۔ انشراح کو
لگا وہ چکرا کر گر جائے گی یا سانس رک جائے گی وہ یہ سب نہیں سن سکتی تھی کوئی جو
اسے اس وقت انکے درمیان سے نکال دے اور وہ کبھی ان کے درمیان آنے کی غلطی نہ کرے
۔۔
"کیا ہو رہا ہے مسز؟ ہو گئی شادی بھابی
لے کر گھر نہیں چلنا گھر میں تو بہت آکسائڈ تھی۔
اب یہاں سر جھکائے بیٹھی ہو۔" سٹیج پر بیٹھتے احد
نے انشراح کے ساتھ پھنس کر جگہ بنائی اور نامحسوس طریقے سے اسکے شانے کے گرد ہاتھ
پھیلاتے کہا۔ انشراح کی ہرنی جیسی بڑی بڑی سرمئی سے آنکھوں سے موتی گرے۔ اس قدر
بھیڑ میں فرشتہ بھی بنا تھا تو کون جو زخم دینے کا خطاوار تھا۔۔
"کیا ہوا تم کیوں رو رہی ہو مسز؟ رخصتی
تمہاری تھوڑی ہے تمہاری بھابی کی ہے۔"
کس قدر مان اپنائیت اور چاہت تھی اسکی محبت میں، کس قدر نرمی اور محبت سے اشک چنے تھے احد نے
مگر یہ سب جھوٹ تھا فریب تھا دکھاوا وقتی تھا انشراح کے گال دہک اٹھے اس قدر دو غلہ
پن؟ وہ جھوٹا فریبی انسان جو آئسکریم پالر میں بیٹھا اس لڑکی سے قہقہے لگا رہا
تھا۔ اور وہ اس لڑکی کا احد کے ہاتھ کو چومنا، پھر کالج کے باہر کھڑی لڑکی سے
آنکھوں کے اشارے سے بات کرنا وہ کیا ،کیا فراموش کرتی اور کیونکر کرتی۔
"ٹھیک ہو؟" پانی کا گلاس انشراح کے
منہ کو لگاتے احد نے پوچھا۔
"انشراح نے اثبات میں سر ہلایا ایک اس
کے مجازی خدا کے پاس ہونے پر کس طرح ہر شخص کی زبان بند ہو چکی تھی کوئی بھی اب
سوال اٹھانے والا نہ تھا احد کے عمل نے سب کی زبان تالو سے لگا دی تھی۔ کچھ دیر
پہلے جب اسے خوش اخلاقی کے لبادے میں سب لوگ سرے عام اس پر تہمت لگا رہے تھے تو
ایک وہی تھا جس کا ہونا برا تھا اور وہی تھا جس کا نام اسے معتبر کر گیا
تھا۔۔۔
******
"تمہاری بہن اور بھائی کو اس طرح انشراح
سے بات نہیں کرنی چاہیئے تھی، نکاح والی بات تم سے اس لئے شئیر نہیں کی تھی کہ تم
اپنی بہن کو بتا دیتی یہ میرا فیملی میٹر ہے اور میری بہن کی عزت کا سوال
ہے۔" عمر نے دلہن بنی عالیہ کو گھورا۔
"یہ تم کس لہجے میں بات کر رہے ہو عمر؟
اتنا تو خیال کر لیتے آج ہی ہماری شادی ہوئی ہے۔ اور تم میری زندگی کے سب سے
خوبصورت لمحات کو اپنی بہن کی وجہ سے خراب نہیں کر سکتے۔ ایسی بھی کوئی آفت نہیں
اس پر ٹوٹ پڑی تھی ۔"
" بند کرو اپنی یہ زبان تم عالیہ، آج ہی
تم میری زندگی میں شامل ہوئی ہو اور آج ہی اپنی اہمیت میری نظر میں ختم کررہی
ہو، اگر مجھے پتہ ہوتا تمہارے دل میں
انشراح کے خلاف اس قدر عناد ہے تو میں تم سے شادی ہی نہ کرتا مجھے میری بہن سے
عزیز کچھ بھی نہیں۔!" عمر نے بے رخی
سے کہا۔
" میں کچھ بھی نہیں۔؟سب کچھ تمہاری بہن
ہی ہے" عالیہ نے صدمے سے کہا۔
"تو کیوں لائے ہو مجھے چھوڑ آتے وہی کہہ
دیتے تمہاری شہزادی بہن سے وہی سب کے سامنے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگ لیتی۔ مجھے
نہیں معلوم تھا عمر وہ سب کے سامنے انشراح سے پوچھ لے گی مجھے فکر تھی انشراح کی
پریشان تھی میں اور اس پریشانی میں میرے منہ سے نکل گئی ایک زرا سی بات۔"
عالیہ نے آخر تک بات اور لہجہ بدلتے کہا۔
"یہ ایک زرا سی بات نہیں ہے عالیہ"
عمر نے بے بسی سے کہا۔
" انشراح اتنی آسانی سے نہیں روتی اور
کسی کے سامنے تو بلکل بھی نہیں، تم نے دیکھا اس کے آنسو گرے تھے اور وہ میرے دل پر
گرے تھے۔ میں شرمندہ ہو چکا ہوں اسکی نظر میں کس طرح اپنی گڑیا سے نظر ملاوں گا۔
کس طرح بابا نبیل بھائی کا سامنہ کروں گا۔ آج تک ہم نے اسکی آنکھ بھیگنے نہیں دی
اور اب۔۔ "
"تم فکر مت کرو عمر صبح میں انشراح کو
خود منا لوں گی اور معافی بھی مانگ لوں گی۔" عالیہ نے شیریں لہجے میں کہا۔
"تھنکس عالیہ تھنک یو" عمر نے اسکا
حنائی ہاتھ تھامتے کہا۔
*******
بہت دن بعد احد کو رغبت سے کھاتے دیکھ اسکی مما
مسکرائی۔
"شکر ہے تمہاری بھی دو گھڑی شکل دیکھنے
کو ملی ورنہ میں ترس جاتی ہوں احد، آرمی میں تو موحد بھی ہے مگر اس کے ساتھ تو پھر
بات ہو جاتی ایسا تو کبھی تمہارے بابا اور چاچو نے بھی نہ کیا تھا لگتا ہے ایک
ساری آرمی تمہارے کندھے پر چل رہی ہے۔" اپنی مما کی بات کر وہ مسکرایا۔
"اپنے ہاتھ سے کھلا دیں مما پھر جانے
نصیب ہو نہ ہو۔ آپ ترس جائیں گی کھلانے کو۔"
"ہش پاگل ایسی باتیں مت کرو اب مجھ میں
کچھ کھونے کا حوصلہ نہیں میرے چاند تم تو میرے جگر کا وہ ٹکڑا ہو جسے جتنی بھی
محبت دو تو لگتا ہے خاک برابر نہیں۔" نوالہ احد کے منہ ڈالتے مما نے کہا۔
اسی وقت ہشاش بشاش سہ یونیفارم میں تیار موحد ٹیبل کے
گرد آ کر بیٹھا اور جبھی احد یک دم کھڑا ہوا۔
"اچھا مما چلتا ہوں" پیار لینے کو
احد نے سر جھکایا۔ اور باہر نکل گیا۔۔ موحد کا مسکراتا چہرہ تاریک ہو گیا اس کی
بھوری خفا آنکھوں نے دور تک احد کو جاتے
دیکھا۔ ایک ساتھ جانے اور آنے والے اب رستہ بدل چکے تھے وہ دنیا میں ایک ساتھ آئے
تھے ایک سی شکل و صورت لئے ایک سی ذہانت لئے فرق تھا تو صرف آنکھوں کے بے معنی سے
رنگ کا۔ مگر اب فاصلے اس قدر بڑھ چکے تھے کہ موحد کو گزری زندگی خواب سی لگتی۔۔
******
"تم لوگ ہنی مون پر کب جا رہے ہو؟"
مسز جبران نے عالیہ سے پوچھا۔
"بس کچھ ہی دن تک" عالیہ نے
مسکراتے سرسری سہ جواب دیا۔
"ویسے کہاں جا رہے ہیں آپ بھائی ناران
کاغان کوہاٹ نتھیا گلی انشراح نے پر جوش سے لہجے میں پوچھا۔
"فرانس" عمر نے ایک لفظی جواب دیا۔
"واہ بھائی فرانس میں بھی چلوں؟ "
"کیوں نہیں ضرور" عمر نے بنا سوچے
سمجھے کہا۔
"فرانس تو ہم بھی جا رہے ہیں کیوں نہ
انشراح ہمارے ساتھ چلے" نبیل نے دھماکہ کیا۔
"آپ بھی ہنی مون پر جا رہے ہیں؟"
انشراح نے معصومیت سے پوچھا۔
ثانیہ کو اچھو لگا۔
"نہیں میری جان میرا ٹرانسفر وہاں ہو
چکا ہے۔ اس لئے میں نے سوچا اپنی گڑیا کو بھی لے جاوں۔"
عالیہ کے چہرے پر پھیلی ناگواری تو کسی نے دیکھی نہیں
مگر انشراح کے چہرے پر بجھتے دیئے سب نے دیکھے۔
"بھائی میں تو نہیں جا سکتی ہمیشہ کے
لئے وہاں،، اور یہاں میں کیسے رہوں گی آپ کے بنا یہاں؟
مجھے عادت نہیں ہے آپ کے بنا رہنے کی۔" پر شکوہ لہجے میں کہتے وہ اٹھی اور ناشتہ
چھوڑتی اپنے کمرے بند ہو گئی۔
*********
جیسے جیسے نبیل کے جانے کے دن قریب آ رہے تھے انشراح
خود ساختہ خول میں سمٹتی جا رہی تھی۔ عمر حارث جبران صاحب کسی کی محبت بھی اسے اس
مصنوعی خول سے نہ نکال سکی۔
آخر کار آسیہ جبران کو انشراح کی تنہائی کا حل مل گیا۔
"جانے سے پہلے انشراح کی رخصتی کر
دو۔" آسیہ جبران کی بات نے انشراح کے
سر پر دھماکہ کیا۔ عالیہ کی خوشی کی انتہا نہ رہی بنا محنت کئے انشراح سے جان چھوٹ
رہی تھی۔ بلا جواز اچھا بن کر پورا دن اسکے چونچلے اٹھانے کا اب ڈرامہ نہیں کرنا
ہوگا.
"مگر انشراح بہت چھوٹی ہے میں کیسے اس
پر یہ ظلم کر دوں؟" نبیل نے کہا۔
"کوئی نہیں چھوٹی میری تو پندرہ سال کی
عمر میں شادی ہوئی تھی اور تمہاری دادو کی تو اس سے بھی کم کیا ہم پر ظلم ہوا ہے
ہم خوش نہیں رہے؟ میں ماں ہوں انشراح کی دشمن نہیں۔ پردیس جا رہے ہو اتنی آسانی سے
کام چھوڑ کر یہاں نہیں آ پاؤ گے بار بار بہتر
ہے اسے کسی مظبوط سہارے کے ساتھ چھوڑ کر جاو۔ تم جاو تو اسے سنبھالنے والا تو کوئی
ہو۔"
"لیکن مما وہ۔۔۔۔"
"لیکن ویکن چھوڑو کل بھی تو یہی ہونا ہے
آج کیوں نہیں" وہ فصلہ کن لہجے میں بولی۔
******
"آپ مجھے ساتھ لے جائیں مگر یہ مت
کریں" انشراح نے بے بسی سے کہا۔
"مما کی بات نہیں ٹال سکتا اور پھر
تمہاری احد سے ناراضگی بھی تو ختم کروانی ہے۔"
"میں مر جاؤں گی بھائی مجھے انکے حوالے
مت کریں۔" بے بسی سی بے سی تھی،
نبیل نے انشراح کو اپنی پناہ میں لیتے کہا۔
"میری گڑیا کو جب بھی ضرورت ہوئی میں آ
جاؤں گا۔ اور مجھے احد پر یقین ہے وہ کبھی میری بیٹی کے ساتھ کچھ غلط نہیں کر سکتا
دیکھا نہیں تمہارے انکار کے بعد بھی کیسے آرام سے نکاح کر لیا۔"
"مجھے ان سے ڈر لگتا ہے بھائی مجھے اپنی
قسمت سے ڈر لگتاہے" انشراح نے خوف زدہ لہجے میں کہا۔
"کیا کوئی بات ہے انشراح؟ جو تم اپنے
بھائی سے چھپائی کیا ہوا تم دونوں کے درمیان؟"
انشراح کے سامنے پھر وہی منظر گھوم گیا اور اپنی ماں کا
وہ تھپڑ، "ایسی کوئی بات نہیں بھائی آپ جسے خوش ہیں میں بھی خوش ہوں۔"
دل میں اٹھتا مٹھا سہ درد دباتے انشراح نے کہا۔ اور بہت تھکے ہوئے انداز میں پیشانی
نبیل کے شانے سے ٹکا دی۔
"میرا پیارا بچہ جب بھی ضرورت ہوئی مجھے
اپنے قریب ہی پاؤ گی" انشراح کو پیار کرتے نبیل نے کہا۔
******
نبیل آتے ہوئے پھول والے کو آڈر دے آئیے گا" یہ
ثانیہ کی چوتھی کال اس نے دفتر میں رسیو کی تھی۔۔ اور فرمابرداری "جی
اچھا" کہہ دیا اور "ہاں اسے ڈیٹ بتا دیجئے گا،، یہ نہ ہو وہ انتظام نہ
کر سکے"
"جی اور کچھ؟"نبیل نے تحمل سے
پوچھا۔
"نہیں بس آپ یہی کر دیں تو بہت
ہے۔" کہہ کر کھٹک سے فون رکھ دیا گیا، اسکے ٹھیک آدھے گھنٹے بعد نبیل کو
ثانیہ کی کال پھر سے موصول ہوئی۔۔
"جی حکم!" وہاں فرمابرداری کی
انتہا تھی، جسے محسوس کئے بنا کہا گیا۔ "لائیٹنگ والے کو اچھے سے گھر کا
حدودروبہ سمجھا دیجئے گا"
"جی کہہ دوں گا اور کچھ۔۔؟"
"آپ سمجھ گئے نہ میری بات۔؟" وہاں
بہت فکر مندی سے پوچھا گیا۔۔
"جی اچھے سے سمجھ گیا اور کچھ۔۔؟"
"نہیں آپ یہی کر لیں تو بہت ہے؟"
کہہ کر کھٹک سے فون رکھ دیا گیا۔
نبیل نے مسکرا کر پین پکڑا اور لسٹ میں یہ بھی لکھ
لیا۔۔اسکے ٹھیک ایک گھنٹے بعد پھر نبیل کو کال
موصول ہوئی "نبیل کھانا ون ڈش ہونا چاہئے لوگ کھاتے کم ہی پھینکتے زیادہ ہیں مٹن کی کوئی ڈش
کر لیجئے گا چکن یا بیف ون ڈش میں اچھا نہیں لگتا۔"
پھر
پندرہ منٹ بعد پھر کال ملا کے بتایا گیا کے
"ون ڈش کا مطلب یہ نہیں ہے کہ میٹھا
نہیں بنانا میٹھے میں فرنی یا آئسکرئم کا آڈر کر لیجئے گا۔" پھر ایک گھنٹے
بعد کال ملانے پے نبیل کا نمبر بند تھا۔
"کتنے لاپروا ہیں نبیل ہماری انشراح کی
شادی ہے اور انکو فکر نہیں میں اکیلی کہاں، کہاں جاوں؟"
شہاب نے بے دلی سے ٹی وی اوف کیا اور ماں سے بولا۔
"آپ پاپا کو کام کرنے دیں گی تو وہ فری
ہو کر شادی کا کام کریں گے۔جیسے آپ انکو فون پر فون کر رہی ہیں ایسے وہ کوئی کام
نہیں ٹھیک سے نہیں کر پائیں گے نا آفس کا نہ ہی شادی کا۔" وہ خفگی سے بولا۔۔
"چپ پاپا کے چمچے دو لگاوں گی کان کے
نیچے، اتنے کام ہیں کون کرے گا؟" وہ جھلاتے ہوئے چلی گی شہاب نے اپنا سر پیٹ
لیا۔۔ افف ایک تو یہ لڑکیاں بھی ناں،، کام ان سے ٹھیک ہوتا نہیں بس گھر میں جنگ
کروا لو۔۔"
*******
"صرف دو چھٹیاں چاہئے؟" پرنسپل آفس
میں بیٹھے سر جنید نے پوچھا۔
"جی سر۔"
"ویسے خیرت تھی۔کوئی پریشانی ہے کیا؟
پرنسپل کو ایپلیکیشن پر سائن کرتے دیکھ سر جنید نے پوچھا۔
"وہ سر دراصل۔۔۔ سر میری شادی ہے
تو۔۔۔۔"
انشراح کی بات سر جنید کو اچھو لگا۔
"اتنی زیادہ چھٹیاں اپنی شادی
پر؟۔"
"سر آج مایوں ہے اور کل مہندی ہے۔ اور
یہ رات کے فکشن ہیں۔ بلا جواز چھٹی نہیں کر سکتی۔ یہ دو چھٹیاں اس لئے لی ہیں
کیونکہ پالر میں بہت وقت لگ جاتا ہے اور کوئی آنے بھی نہیں دے گا۔"
"انٹرسٹئنگ" سر جنید نے متاثر کن
لہجے میں کہا۔
"سنو لڑکی" انشراح کو باہر نکلتے
دیکھ سر جنید نے کہا شرارت انکی آنکھوں میں ناچ رہی تھی۔
"جی سر"
"اپنی دوست اور اسکے منگیتر کو نہیں
بلایا۔" سر جنید کی بات پر پرنسیل سر مسکرائے۔
"بلایا ہے نا تاکہ میری دوست کی غلط
فہمی دور ہو جائے۔" ہلکی سی ہنسی سے کہتے انشراح باہر چلی گئی۔
*******************
جاری ہے
Episode 5
اپنے مہندی لگے ہاتھ اور چہرے پر پھیلا ابٹن دیکھتے
انشراح کی آنکھ سے اشک بہنے لگے۔ آج جس بہادری کا مظاہرہ اس نے سب کے سامنے مسکرا
کر کیا تھا یہ آسان نہ تھا نا چاہتے ہوئے بھی مسکرانا ہنسنا اور احد کے نام ہر
شرمانا یہ سب کرنا عجیب تھا۔ سلگتے احساسات کے ساتھ انشراح نے سر اپنے تکیئے پر
ٹکایا۔
"مجھے انتظار ہے اپنی اس بربادی کا مما
جو میری قسمت میں لکھی گئی ہیں آپ نے ایک ایسے انسان کے لئے مجھ پر ہاتھ اٹھایا
تھا جو دوستی کے بھی لائق نہیں تھا ایک بار بھی اپنی بیٹی سے انکار کی وجہ نہ
پوچھی ایک بار نہ سوچا انشراح نے ایسا کیونکر کیا ہوگا۔ دیکھ لیجئے گا مما جب میں
احد کی بے رخی بے ،وفائی سے زخمی ہوئی واپس اس دہلیز پر واپس آئی تو سب سے زیادہ
آپ ہی روئیں گی۔۔"
********
"بہت مبارک ہو اللہ تمہارے نصیب اچھے
کرے اور ہمارے لئے بھی دعا کرنا۔" سر جنید نے انشراح اور احد کے ساتھ بیٹھتے کہا دوسری طرف
حنا بیٹھی مسکرا رہی تھی۔
"میں نے کیا دعا کرنی ہے سر آپ دونوں تو
پہلے منگنی شدہ ہیں۔"
"منگنی شدہ ہیں مگر محبت سے نابلد تمہیں یہی دعا
کرنی ہے لڑکی کہ حنا کو اپنے منگیتر کی عزت کرنی آ جائے"
"اور یہ بھی کہ یہ مجھے سب کے سامنے
سٹوڈنٹ یا چھوٹی بچی نہ سمجھا کریں۔"منہ پھلائے حنا نے کہا۔
"کیا سمجھا کروں پھر؟" سر جنید نے
ابرو اچکا کر پوچھا۔
"کیا اعلان کروں تم میری منگیتر ہو یا
ماتھے پر تمہارے نام کا ٹیگ لگا لوں؟"
"اچھا آئیڈیا ہے۔ کر ہی نہ لیں
آپ۔"
خفگی سے کہتے حنا انشراح کی طرف متوجہ ہوئی "یہ
گفٹ میری طرف سے۔"
"میری نہیں ہماری" سر جنید نے تصیح
کی۔
"آپ کچھ نہیں لائے؟" حنا نے
حیرانگی سے پوچھا
جنید نے خالی ہاتھ سامنے پھیلائے۔
"بہت شارٹ نوٹس پر دعوت نامہ ملا ہے۔ اور تم مجھ
سے الگ تھوڑی ہو۔؟"
"بہت بے مروت ہیں آپ ابا کے سب رشتے دار
نہ۔۔۔۔" حنا پھر سے شروع ہونے لگی۔
"بس کردو تم دلہن کے ساتھ ایک عدد دولہا
بھی ہے اس سے تو کوئی بات کر لینے دو ہر وقت پٹر پٹر کرتی رہتی ہو۔" بری طرح
حنا کو ڈانٹتے وہ احد کی طرف متوجہ ہوا جو بہت تحمل سے ضبط کرتے بیٹھا تھا۔
"کیا بہت خوش ہو؟ آج بھی انکار کر دیتی
مجھے تو یقین تھا آج بھی انکار کرو گی آج تو تمہارے ساتھ کسی اور کی بھی خواہش
پوری ہو جاتی مگر تمہاری ہاں نے سب ملیا میٹ کر دیا ہوگا۔۔۔"
جیسے ہی سٹیج خالی ہوا احد نے انشراح کے حنائی ہاتھوں
کو گھورتے کہا۔ مجال تھی جو ایک بار بھی اس نے نظر اٹھا کر انشراح کی طرف دیکھا
ہو۔ ہر مہمان ہر فرد سے انشراح کی وقفے وقفے سے تعریف سن لینے کے بعد بھی اس نے
انشراح پر ایک نگاہ غلیط بھی نہ ڈالی تھی جیسے اسے اس حوروں جیسے معصوم اور پاک
روپ سے کوئی سروکار نہ ہو۔ اپنی تباہی کا
تماشہ دیکھنے کو وہ پور پور اسی کے لئے ہی تو سجی تھی۔۔مگر احد کو اس بات سے کوئی
سروکار نا تھا اسے یاد تھا تو اتنا اسکی بہترین دوست نے بارہا انکار کے بعد اسکی
مردانگی ہر طرح لگائی تھی۔ اس کے وجود کی نفی کی تھی۔ یہ انکار رشتہ طے کرتے وقت
ہوتا تو احد کو برا نہ لگتا مگر عین نکاح کے وقت انکار اور موحد سے اظہار یہ احد
کے وجود پر گھونسہ تھا۔
"شکر کریں میجر صاحب ہاں کردی اگر آج
بھی انکار کر دیتی تو آئینے میں شکل دیکھنے کے قابل نہ رہتے لوگ تو سوال کرتے ہی
مگر آپ آئینے کے سامنے کھڑے خود سے ہی خود کی کمی پوچھتے رہتے۔" بہت ضبط کرتے
انشراح نے ٹہرے اور پرسکون لہجے میں کہا۔
انشراح کی بات پر احد نے لب سختی سے سی لئے۔
*******
رخصتی کے وقت ایک عجیب ہل چل سی مچی تھی۔
سب سے ملتے وقت
انشراح ضبط کی انتہا پر تھی وہ سوچ چکی تھی اب جو بربادی ہی لکھی ہے تو ہنس کر سہے
گی۔ وہ کونسا تمام عمر کے لئے جا رہی تھی
ایک نہ ایک دن احد کا دوکھا سب کے سامنے آ جاتا اور
کوئی بھی اسے احد جیسے آدمی کے ساتھ نہ رہنے دیتا وہ سپاٹ لہجے میں بات کر رہی
تھی۔ بات کرتے رسمی سہ مسکرا دیتی۔
"ارے تھوڑا سہ تو رو لو ایسے ہوا کے
گھوڑے پر سوار بھاگتی جا رہی ہو۔" نمرہ جو کہ احد اور انشراح کی مشترکہ کزن
تھی اس نے چھیڑا۔
نمرہ کی احد سے پسندیدگی انشراح سے ہرگز نہ چھپی تھی اس
لئے وہ نمرہ کی طرف دیکھ کر مسکرائی۔
"رونے کے لئے اور بہت لوگ موجود ہیں۔
مجھے رونا نہیں آ رہا تو زبردستی رو کر کیا کروں؟"
"اُف اس قدر باتونی دلہن کیا بنے گا احد
کا۔" عمر نے چھیڑا
"جو بنے گا آپ بھی کھا لیجئے گا۔"
احد نے بھی لقمہ دیا۔
"نا بھئی ہم نے تو اپنی بلا اتار دی اب
آپ جانے اور آپ کا نصیب۔"عالیہ نے کہا۔
عالیہ کہ بات انشراح کو اس وقت دھکا لگی وہ جا تو رہی تھی پھر اس وقت یہ عجیب
سے الفاظ نوازنے کی کیا ضرورت تھی۔
" یہ تو ہماری پری ہے۔ خبرادر جو کسی نے
ہماری پری کو کچھ کہا۔" عمر نے فورا انشراح کو پیار کرتے کہا۔
نبیل کو لگ رہا تھا وہ اپنا دل چیر کر احد کے حوالے کر
رہا ہے۔ وہ چلی جائے گی تو اسکی ہنسی بھی لے جائے بچپن سے لے کر اب تک کیا کیا نہ
یادیں تھی وہ انشراح کو پہلی پہلی بار دیکھنا بلی کے بچے جتنا بچہ اسکی گود دے کر
اسکے بابا نے کہا تھا یہ ہمارے گھر کی پری ہے۔ کس قدر دیر سے آئی تھی اور کس قدر
جلدی جا رہی تھی۔ انشراح کا چلنا بولنا پہلی بار اسے بھائی کہنا پہلا قدم اسکے
پیروں پر نازک ننھے ننھے پیر رکھ کر چلنا، رات رات بھر بھوک سے بار بار رونا وہ کس
قدر مانوس تھا اسے اپنی اولاد بنا بیٹھا تھا یہ تو اس نے سوچا بھی نہ تھا یہ پری
ایک دن پرائی ہو جائے گی وہ اس طرح ہنستی ہنستی چلی جائے گی۔ عمر اور حارث سے لڑ
کر نبیل کو شکایت لگانا۔ آدھی رات کو الٹی سیدھی فرمائش کرنا۔
سکول اور کالج سے آتے ہی انشراح کو اپنی گود میں لئے
لئے پھرنا وہ کبھی ایک بھائی کے کندھے پر ہوتی تو کبھی دوسرے اکثر تو اسے پکڑنے کے
لئے آپس میں تینوں کی تکرار ہو جاتی اب وہ جا رہی تھی ہمیشہ کے لئے اب تو اسے
دیکھنے کے لئے بھی کسی اور اجازت درکار ہو گی۔ کیا وہ رہ پائے گا اس کے بنا۔ کون
اٹھائے گا اس قدر اسکی پری کے نخرے کون دے گا اسے محبت اتنا مان جھکے ہوئے کندھوں
کے ساتھ نبیل نے قرآن پکڑا تھا اور عین گاڑی میں بیٹھتے وقت انشراح رکی اور نبیل
کے سینے سے لگی۔ سارے بند توڑتے نبیل گٹا گٹا سہ رویا ماحول میں ایک عجیب سوگواریت
پھیل چکی تھی۔
"نبیل سنبھالیے خود کو" ثانیہ نے
اسکا شانہ سہلاتے کہا۔
مگر وہ کسی دلاسے سے چپ نہ ہوا۔ سرخ چہرے کے ساتھ وہ
لگاتار بہتے اشک صاف کر رہا تھا اور ساتھ میں اپنی بہن کو بھی رلا رہا تھا۔ ہاں
صرف نبیل ایک یہی انسان اسکا ضبط توڑ سکتا تھا اسکا ماں جایا جو بھائی سے زیادہ
اسکا باپ تھا۔
"آپ جب یہاں آیا کریں گے میں روز آیا
کروں گی۔" انشراح نے نبیل کو حوصلہ دیتے کہا اور اپنے نازک ہاتھوں سے اسکا
چہرہ صاف کیا۔ انشراح کے ہاتھ اور پیشانی
پر بوسہ لیتے نبیل کی حالت غیر ہوتی جا رہی تھی۔ نبیل کو اس طرح ٹوٹتا دیکھ سب کی
آنکھیں جھلملا گئی۔
"یہ دیکھیں بھائی میں نے آپ کے دیئے
ٹاپس نہیں اتارے انکے اوپر سے جھمکے پہن لئے ہیں۔"
انشراح کی بات پر نبیل روتے میں ہلکا سہ مسکرا دیا۔اسے
اپنے سینے سے لگائے وہ مچلتے دل کو سکون دینے لگا۔
"گڈ بوائے" اپنے کامدار آنچل سے
نبیل کا چہرہ صاف کرتے انشراح نے کہا۔ اسکی آنکھوں میں ہلکی سی نمی کی تحریر تھی۔
وہ کسی کے سامنے رونا نہیں چاہتی کم سے کم اس وقت نہیں۔ وہ کون سا تا عمر کے لئے
جا رہی تھی جو روتی ایک نہ ایک دن اسے لوٹ آنا تھا۔
"میرے بھائی کا دھیان رکھنا ہے آپ دونوں
نے۔" عمر اور حارث کو انشراح نے انگلی اٹھا کر وارن کیا۔
"کیوں ثانیہ بھابی کہیں جا رہی ہیں اور
عمر بچارہ اسے کیوں عالیہ بھابی سے مار پڑوانی ہے؟" حارث نے ہنستے کہا۔
احد نے بے زاری سے گھڑی دیکھی۔ احد کی بے زاری اور
ناگواری دیکھتے نبیل نے اسے کار میں بٹھایا۔ بہت سی دعاؤں اور محبتوں کے حصار میں
وہ ایک ان چاہی زندگی کی طرف چلی گئی
*****
بے شمار رسموں کے بعد انشراح کو اس کے کمرے میں لے جایا
گیا۔ وہ تنہا بیٹھی اپنی بربادی اور تباہی کے اگلی داستان کے بارے میں سوچ رہی تھی
جب احد کمرے میں داخل ہوا۔ آتے ہی وہ الماری کی طرف گیا جیسے وہ کمرے میں اکیلا ہو
اور کوئی ذی نفس موجود نہ ہو۔ اپنے کمرے سے نکالتے وہ فریش ہونے گیا۔ انشراح کی
نظر بے ساختہ واش روم کے دروازے تک گئی اور اسکا لاک کھٹکتا دیکھ جھک گئی اپنے
گیلے بالوں میں ٹاول لگاتے وہ عجلت میں باہر آیا اور بال بنانے لگا ریسٹ واچ پہننے
کے بعد احد نے پرفیوم اٹھایا مگر پھر کچھ سوچ کر واپس رکھ دیا۔ الماری کی طرف واپس
جاتے احد نے ایک بیگ نکالا اور موبائل پر کسی کو میسج کرنے لگا۔ لیپ ٹوپ کھول کر
کچھ چیک کرتے وہ بار بار موبائل کی طرف متوجہ ہو رہا تھا۔ انشراح بت بنی منتظر تھی
کب وہ اس کی ذات کے پرخچے اڑانے آئے اور کب وہ چیخ چلا کر اسکا سچ سب کو بیان کرے
مگر سب کچھ ایک چھوٹے سے بیگ میں پیک کرتے احد نے بیگ پہنا اور انشراح کی طرف گیا۔
انشراح کے سامنے وہ جیسے بیٹھا انشراح کے ہاتھ پیر سن
ہونے لگے احد کے جھکنے پر اسکی روح فنا ہونے لگی۔
یہ وہ کیا کر رہا تھا کیا کرنے جا رہا تھا۔ وہ سوچ ہی
رہی تھی جب احد نے ہاتھ بڑھا کر انشراح کے پیچھے پڑے تکیوں کو ہٹایا اور ایک
جیولری کیس نکالتے بنا کچھ کہے انشراح کے سامنے رکھا کھڑکی کی طرف جاتے وہ رکا جو
اپنی توہین محسوس کرتے اسے گھور رہی تھی احد کے دیکھنے پر سٹپٹائی اور نظر جھکا۔
احد نے آج پہلی نظر اسے دیکھا تھا اور دیکھتا ہی رہ گیا
تھا۔ اسکے چہرے پر پھیلتی سرخی احد کو اپنی ملکیت ہونے کا اعزاز بخش رہی تھی اسکے
کمرے میں سجی سنوری بیٹھی اسکی دوست اب اسکی شریک حیات تھی مگر ایک عجیب سی خلش
تھی جو نہ دیکھائی دیتی نہ ختم ہوتی۔
"میں صبح تک واپس آنے کی کوشش کروں گا
جب تک میں واپس نہ آوں دروازہ مت کھولنا۔ مہمانوں کی وجہ سے میں اس طرف سے نہیں جا
سکتا اسی میں ہم دونوں کے گھر کی عزت ہے۔" بہت ہی تحمل اور ٹہرے ہوئے انداز
میں کہتے احد کھڑکی سے باہر کود گیا۔ انشراح کھڑکی کے ہلتے پٹ دیکھتی رہ گئی۔
اور پھر ہاتھ بڑھا کر بھیک میں دیا گیا منہ دیکھائی کا
تحفہ اٹھایا۔۔ جسے بہت محبت سے احد نے خریدا تھا انشراح کو یاد تھا یہ بہت سال
پرانا ہے اور جب احد نے کہا تھا میں اپنی وائف کو یہ دوں گا۔
جیولری باکس کھولتے انشراح نے وہی کڑے دیکھے جس پر احد
اور مسز احد لاک میں ننھا سہ کندا تھا۔ باکس بند کرتے انشراح نے سائڈ ٹیبل پر رکھا
اور چینج کر کے سو گئی۔ آج کی مشکل رات اتنی آسانی سے کٹ جائے گی یہ اسکے وہم و گمان
میں بھی نہ تھا۔
*******
صبح کے سات بج رہے تھے بمشکل رات کٹ جانے کی نوید ملتے
نبیل کچن کی طرف گیا۔ مگر اس سے پہلے حارث اور عمر کھٹ پٹ کرتے موجود تھے۔
"ثانی جلدی سے بریک فاسٹ بنوا لو ہمیں
انشراح کی طرف جانا ہے"
"بریک فاسٹ تیار ہے جناب آپ ہی دیر سے
اٹھے ہیں۔" ثانیہ نے ہنستے کہا۔
"آپکی طرح سب نے ہی جاگ کر رات گزاری ہے
اور صبح سے یہ دونوں میری ہیلپ کروا کر دنیا کا سب سے لزیز بریک فاسٹ بنوا رہے
ہیں۔"
"ویری نائس میں بس پانچ منٹ میں
آیا۔" مسکراتے ہوئے نبیل اپنے کمرے کی طرف گیا۔
*****
"ابھی تک تو سب سوئے ہیں۔ میں انشراح کو
اٹھاتی ہوں" پھوپھو نے سب کو اچانک صبح صبح دیکھتے کیا۔
نبیل نے گھڑی کی طرف دیکھا جہاں گھڑی صبح کے ساڑھے سات
بجا رہی تھی۔ "اب اتنا بھی جلدی نہیں آئے ہم" بنا شرمندہ ہوئے نبیل نے
حارث کا لٹکا چہرہ دیکھتے کہا۔۔۔
*******
ہلکی سی دستک کی آواز پر انشراح کی آنکھ کھلی۔ پھوپھو
کی آواز پہنچانتے اسے یاد آیا وہ کہاں ہے اور کیونکر ہے۔ساتھ ہی گزری رات احد کی
دی گئی ہدایت یاد آئی۔ گھڑی دیکھنے کے بعد اپنے پہلو بے سد سوتے احد کی طرف دیکھ
کر وہ چونکی اور آہستگی سے اٹھ کر دروازہ کھولا۔
"ایم سوری بیٹا، مگر وہ تمہارے بھائی
آئے ہیں میرا خیال ہے رات بھر وہ سوئے نہیں احد کو بھی اٹھا دو۔" بینا نے
ہلکی سی روشنی میں اوندھے سوئے ہوئے احد کو پیار سے دیکھتے کہا۔انشراح کی پیشانی
چومتی وہ جانے لگی جب وہ بولی۔
"میں بھائی سے مل لیتی ہوں۔" کہتے
ہوئے انشراح باہر آنے لگی پھوپھو نے روک دیا۔
"اوں ہوں بیٹا اکیلے جاو گی تو تمہارے
بھائی کیا سوچیں گے۔ احد کو اٹھا دو اور اچھے سے تیار ہو کر آنا۔" انشراح کا
گال تھپتھپاتے وہ نرمی سے بولی۔
"جی اچھا پھوپھو" انشراح نے سعادت
مندی سے کہا۔
"جلدی آنا سب رات جاگتے رہے ہیں۔ سبھی
کی آنکھیں سرخ ہیں۔"پھو پھو ہنستے ہوئے بتانے لگی۔ پھر دعائیں دیتی چلی گئی۔
دروازہ بند کرتے انشراح نے گہری سانس لی۔
"یہ کب آئے اور سونے کے کئے یہی جگہ ملی
تھی۔" احد کو گھورتے وہ اپنے لئے ڈریس منتخب کرنے لگی۔
*********
ولیمے کی شاندار تقریب کے بعد سب لوگ احد کے گھر تھے
کچھ ہی دیر تک نبیل اور ثانیہ چلے جاتے انشراح کا دل عجیب بجھا بجھا سہ تھا۔
"میری گڑیا کا دھیان رکھنا احد میں نے بہت پیار اور محبت سے انشراح کو پالا
ہے بلکل ایک تتلی کی طرح جس کے رنگوں کو نہ میں نے خراب ہونے دیا ہے نہ کسی بھورے
کو اسکی اور دیکھنے دیا ہے۔ اب یہ تمہارے پاس ہے تو اسکا خیال رکھنا 'میں نے اپنی
بہن یا بیٹی تمہیں نہیں دی'، ہمیں نے اپنے دل کو چیر کر اسکا سب سے قیمتی حصہ
تمہیں دیا ہے۔" ائیرپورٹ کے لئے نکلتے نبیل نے احد سے کہا انشراح تو سسک
اٹھی۔
"بھائی مجھ سے نہیں رہا جائے گا"
انشراح نے کس قدر بے بسی سے کہا۔
"مجھے ایسا لگتا ہے میرا بھائی نہیں
میری خوش بختی مجھ سے دور جا رہی ہے" کسی خوف کے احساس نے انشراح نے کہا۔
"ہشش پگلی خوش بخت تو میری گڑیا خود ہے۔
ہم ہر روز بات کریں گے اور جب بھی ہو میں ملنے آیا کروں گا۔"
"سارا پیار بھائی کے لئے ہے اور میرے
لئے کیا ہے؟" ثانیہ نے اسکا دھیان بٹانے کو کہا۔
"آپ جیسی بھابی تو کسی کی بھی نہیں ہوتی
ثانی بھابی آپ میری سب سے اچھی دوست ہیں سب سے پیاری بھابی میں آپ کو بہت مس کروں
گی مجھے پری اور شہاب بھی بہت یاد آئیں گے۔" انشراح نے روہانسی آواز میں کہا
آنسو تھے کہ تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہے
تھے۔
"نبیل وقت کم ہے بیٹے خیریت سے جاو
انشراح اب اکیلی نہیں ماشاللہ سے بہت مظبوط سہارا ہے اس کے ساتھ" مسز جبران
نے پیار سے احد کو دیکھتے کہا۔ جو پاکٹس میں ہاتھ ڈالے خاموش تماشائی بنا تھا۔۔
"یس آپ بے فکر ہو کر جائیں انشراح میری
ذمے داری ہے اور میں اسے فراموش نہیں کر سکتا۔"
نبیل اور ثانیہ ایک بار پھر سب سے ملے اور گاڑی میں
بیٹھنے لگے۔ انشراح اس طرح گری جیسی اب کبھی نہ اٹھے گی نبیل اسی وقت گاڑی سے
اترا۔ "کم اون نبیل بھائی آپ جانتے ہیں یہ اسی طرح کرے گی میں سنبھال لوں گا
آپ جائیں۔" احد کے حوصلہ دینے پر نبیل واپس بیٹھ گیا۔ دل بے چین سہ تھا ایک
دفعہ پھر پلٹ کر نبیل نے آنکھ بھر کر اپنی نازک سی گڑیا کو دیکھا اور بیٹھ گیا عمر
حارث مسز جبران پھوپھو موحد سب ساتھ جا رہے تھے ماسوائے احد اور انشراح کے،
ائیرپورٹ پر انشراح کو لے جا کر کوئی آزمائش نبیل اپنے
لئے کھڑی نہیں کر سکتا تھا۔ وہ اس وقت بکھرتی تو اسے چھوڑ کر جانے کی ہمت وہ نہیں
لا سکتا تھا۔
کچھ دیر پہلے جہاں نبیل کھڑا تھا وہاں زمین پر مٹی ہاتھ میں لیتے انشراح اس طرح روئی کے
گھونسلوں میں چھپے پرندے بھی سہم اٹھے۔ احد جو اسے چھوڑ کر اندر جا رہا تھا فورا
انشراح کے پاس دوزانو بیٹھا۔
"انشراح اٹھو کسی کے جانے کے بعد یوں
نہیں روتے بد شگنی ہوتی ہے سنبھالو خود کو، نبیل بھائی ہمیشہ کے لئے نہیں گئے چند
سال کا کانٹریکٹ ہے ختم ہو گا تو آ جائیں گے۔"
اسے ٹوٹتا بکھرتا دیکھ وہ پہلے والا احد بن چکا تھا جو
اسکا دوست تھا۔ اسکا ہم نوا تھا۔
"مجھے چھوڑ دیں مجھے نہیں رہنا یہاں میں
نہیں رہ سکتی وہ میرا سب کچھ ہیں۔" انشراح نے اپنا آپ چھڑوایا۔
"بس کردو انشراح اب تم چھوٹی بچی تو
نہیں ہو۔" احد اسے سمجھانا چاہتا تھا اس سے پہلے ہی انشراح نے اپنے حواس کھو
دیئے۔
"انشراح اٹھو آنکھیں کھولو یار
دیکھو۔"
احد نے گھبرا کر اسکے ہاتھ پیر مسلے۔۔ انشراح کو وہاں
سے اٹھاتے احد روم تک لے گیا۔ اور ڈاکٹر کو کال کی۔ ان سب میں احد کے ہاتھ پیر جس
طرح پھولے یہ وہی جانتا تھا اپنی بے رخی کے باوجود وہ اسکے دل کے کس مقام پر ہے وہ
خود حیران اور ششد سہ رہ گیا تھا۔ کیا یہ نکاح کا اثر تھا؟ یا کوئی دل میں چھپی
پہلی جنگاری جو اب انشراح کو کچھ ہو جانے کے خیال سے اٹھی تھی۔۔ جو لڑکی اسکی دوست
ہو کر اظہار محبت تو اس سے کرے مگر نکاح کی خواہش اسکے بھائی سے رکھے۔
پھر زبردستی اسے نکاح کے بندھن میں باندھ دیا جائے۔ اور
بار بار اسے جتاتی بھی رہے کہ وہ ان چاہا ساتھ ہے تو کیا ایسی لڑکی کے لئے یہ
فیلئنگز بدلنا معجزہ ہے یا پھر زیادتی؟ وہ خود کو مظلوم تصور کرنے لگا۔ جو بھی تھا
احد یہ سوچ کر مسکرایا وہ اسکی ہے اور اسکی دسترس میں ہے۔ وہ اگر چاہے تو اسے
آسانی سے پا سکتا ہے۔
{*********}
"یہ بہت زیادہ سٹریس کے زیرے اثر ہیں۔
بی پی بہت ہائی ہے آپ کو اللہ کا شکر ادا کرنا چاہئے کہ یہ اب ٹھیک ہیں۔ انکو برین
ہیمریج بھی ہو سکتا تھا۔ آئی تھنک یہ کسی قسم کا ٹارچر برداشت کر رہی ہیں۔ بہت
چھوٹی ہیں اور کم عمر ہیں اور ماشاللہ سے دلہن کے لباس میں ہیں۔
پھر بھی ایسا کچھ ہوا ہے جس کو انکا دل اور دماغ ماننے
سے انکاری ہے۔ از شی یور وائف نا؟" ڈاکٹر نے تقریری انداز میں معائنہ کرنے کے
بعد کہا۔
"جی" احد نے اثبات میں سر ہلاتے
جواب دیا۔
" آپ انکی ٹینشن ریلیف کرنے کی کوشش
کریں ،انہیں بہت محبت، بھر پور توجہ اور
خوراک کی ضرورت ہے، انکی ڈائٹ بھی بہت خراب لگ رہی ہے۔" ڈاکٹر نے انشراح کے
کمزور سراپے کو دیکھتے کہا اور میڈسن لکھ کر دی۔
"بعض لڑکیاں اپنے گھر والوں سے بہت
اٹیچڈ ہوتی ہیں شائد یہ ایمچور ہونے کی وجہ سے وہی ٹینشن لے رہی ہوں۔ یہ ڈریپ ختم
ہو تو کچھ دیر اور سوئیں گی ممکن ہے کل دوپہر تک سوتی رہیں اب ٹینشن کی بات نہیں
جب بھی اٹھیں تو انہیں کھانے کے بعد دودھ کے ساتھ یہ میڈیسن کھلا دیجئے گا۔"
"شکریہ ڈاکٹر آپ نے رات کے اس پہر میری
فریاد سنی اور میری وائف کو کچھ ہونے سے بچا لیا۔۔" احد نے ممنون ہوتے کہا۔
" اٹس مائے جاب سر اپنی وائف کا خیال
رکھیں اگر ضرورت ہوئی تو پھر یاد کر لیجئے گا۔اللہ حافظ"
"تھنکس ونس ایگئین اینڈ اللہ حافظ"
احد نے گیٹ تک انکو چھوڑتے کہا۔
اور انشراح کے کمرے کی طرف چل دیا جہاں وہ اسکے دل اور
وجود کو زخمی کرنے کے بعد خود بے خبری کی نیند سو رہی تھی۔
"سو مسز احد آپ جیت گئیں میں ہار
گیا۔" انشراح کے قریب چئیر کھنچتے احد بیٹھا اور اسکے بے خبر وجود کو
کہا۔
"انسان کو اتنا بھی برا نہیں ہونا
چاہیئے لٹل گرل تھنکس گاڈ اس دن انا اور بدلے کی آگ میں ہی سہی تم سے نکاح تو کیا
ورنہ آج بہت پچھتاتا۔"
ڈریپ قطرہ قطرہ اندر جا رہی تھی۔
"اٹھ جاو زندگی بہت سی باتیں کرنی
ہیں۔" انشراح کا ڈریپ والا ہاتھ اپنے لبوں سے چھوتے احد کافی دیر باتیں کرتا
رہا۔۔ جب ڈریپ ختم ہو گئی تو اسے اتار کر کل والا اخبار لیتا سامنے کاوئچ پر چلا
گیا۔ اخبار میں مخلتف خبریں پڑھتے وہ ہر دوسرے منٹ انشراح کے روئے روئے خراب میک
اپ والے چہرے کو دیکھتا جس پر معصومیت کے بہت سے رنگ پھیلے تھے اپنی زندگی میں
اچانک آنے والے خوشنما حادثے کو محسوس کرتے
وہ بہت ہی میٹھی سے نیند میں چلا گیا۔۔
******
انشراح، پری، شہاب، نبیل اور ثانیہ کے چلے جانے کے بعد
گھر میں یک دم سناٹا چھا گیا۔۔ انشراح کی دل کش ہنسی پری اور شہاب کی شرارتیں
ثانیہ کی سب سے چھیڑ چھاڑ پورا دن بچوں کے پیچھے ہلکان ہوتے بھاگنا سب ختم ہو چکا
تھا۔ صبح ہی صبح انشراح کے نام کا شور مچانے والا نبیل اب اسکی جگہ بھی خالی تھی
بہت ہی سوگوار سے ماحول میں ناشتہ رکھتے مسز جبران کو ثانیہ کی یاد آئی جو جب سے
آئی تھی ایک دن بھی مسز جبران کچن میں نہ گئی تھی۔
"عالیہ سے کہتے اٹھ جاتی سب کے ساتھ ہی
ناشتہ کر لیتی" مسز جبران نے سنجیدگی
سے عمر کو دیکھتے کہا۔
"وہ تو صبح ہی صبح آفس چلی گئی
ہے۔"
"ابھی صرف ایک مہینہ ہوا ہے شادی کو کل
ہی تو نبیل بھائی اور ثانیہ بھابی گھر خالی چھوڑ کر گئے ہیں اور وہ آفس چلی
گئی؟"سب کو حیرت کا جھٹکا لگا مگر حارث خود کو بولنے سے نہ روک سکا۔
"میں سویا تھا وہ تو صبح اٹھ کر ملی
نہیں تو میسج کیا تو پتہ چلا میڈم آفس ہیں۔اور میں لیٹ ہوں۔" سر جھٹکتے عمر
نے کہا۔
"آپ بھول جائیں مما اب ثانیہ بھابی والی
عیاشی دنیا کا دستور ہے یہاں تو سگھی بہنیں ایک جیسی نہیں ہوتی وہ تو پھر بہو
ہے۔ہر انسان ایک جیسا نہیں ہوتا۔" ٹیبل سے اٹھتے عمر نے حارث کی بات سنی۔
*******
کھڑکی سے آتی سنہری دھوپ انشراح کو آنکھ پر چبتی محسوس
ہوئی۔ آنکھ مسلتے وہ اٹھی اور سب سے پہلی نظر اسکی ہاتھ پر لگے بینڈچ پر گئی اپنے
بھاری ہوتے سر کے ساتھ وہ بمشکل اٹھی اور آہستہ آہستہ ماحول سے مانوس ہونے
لگی" یہ کیسے لگی مجھے" بینڈچ کو دیکھتے انشراح نے سوچا اور نظر گھمائی
تو سامنے کاوئچ پر گردن لٹکا کر سوتے احد کو دیکھا۔
اپنے ہاتھوں کی چھنک سے یاد آیا اسکا ولیمہ تھا اور
نبیل کے جانے کے بعد وہ بے ہوش ہو چکی تھی۔
ابھی وہ اٹھنے کا سوچ ہی رہی تھی جب احد کی گود سے
اخبار کا رول گرا جس کی آواز پر وہ ہڑبڑا کر اٹھا۔
اور سب سے پہلے نظر بستر سے اٹھتی انشراح پر گئی۔
"لیٹی رہو تمہیں آرام کی ضرورت ہے۔" بے ساختہ اسے
کہتے احد نے اٹھنے سے روکا۔
انشراح خاموشی سے لیٹ گئی ایک بار پھر آنکھیں نبیل کی
یاد میں بھیگنے لگی۔
"تم فریش ہو جاو پھر باہر چلتے
ہیں۔" اپنے انگوٹھے کی پور سے انشراح کے آنسو صاف کرتے احد نے نرمی سے کہا۔
اور اسکے لئے کپڑے منتخب کرنے لگا۔۔
"یہ ساڑھی مت پہنا کرو بہت بری لگتی ہے
مجھے جانتی ہو عمر کی برات پر تم نے ساڑھی پہنی تھی بہت بری لگ رہی تھی ایسا لگ
رہا تھا سب میری عزت پر گندی نظر جمائے ہیں۔ جب تمہیں عالیہ کے سب کزن چھیڑ رہے تو
مجھے بہت غصہ آیا تھا اگر شادی کا ماحول نہ ہوتا تو ان سب کے دانت توڑ دیتا۔ اور
وہ سب اسی بے ہودہ ساڑھی کی وجہ سے ہوا تھا۔" احد نے دو تین ساڑھیوں کو
ریجیکٹ کرنے کے بعد ایک ٹیل فراک منتخب کی اور جیسے ہی پلٹا انشراح اسکے پیچھے
کھڑی پوری آنکھیں کھولے اسے دیکھ رہی تھی جیسے کوئی نیا احد دیکھ لیا ہو۔
"کیا دیکھ رہی ہو پہلے کبھی نہیں دیکھا ایسا خوبصورت شوہر؟ مسکراتے ہوئے احد
نے کہا۔ اور ڈریس اسے پکڑایا۔
"کیوں کر رہیں ہیں آپ یہ سب اچھا بننا
اور محبت دیکھانا کیونکہ میرے بھائی سے وعدہ کیا ہے آپ نے، ڈرتے ہیں ان سے یہی وجہ
ہے نا؟" انشراح کی معصومیت پر احد تادیر مسکرایا پھر اسکی غلط فہمی دور کرنے
کو اس پر جھکا اور اسے قریب کیا۔ "ڈرتا تو میں کسی سے بھی نہیں ہوں مسز احد،
بس کچھ ہو گیا ہے مجھے" بے خودی میں کہتے احد مزید جھکا، اس سے پہلے وہ کوئی
گستاخی کرتا اسے بری طرح دھتکارتے انشراح کا ہاتھ اٹھا تھا۔ احد اسکے جنون پر ساکت
رہ گیا۔ "نفرت ہے مجھے آپ سے، زیر لگتے ہیں مجھے ، خبردار جو مجھے ہاتھ بھی
لگایا کراہیت محسوس ہوتی ہے مجھے۔۔۔۔۔" انشراح جنونی انداز میں بول رہی تھی
اسکی طبعیت پھر سے نہ بگڑ جائے اس لئے احد خاموشی سے چلا گیا۔
**************
جاری ہے
Episode 6.
"انشراح کی طبعیت کچھ بہتر ہوئی؟"
احد رات گئے واپس آیا تو لاوئج میں کھڑی اپنی ماں سے
پوچھا۔ موحد نے نظر اٹھا کر احد کے ستے ہوئے چہرے کو دیکھا۔ اور اسکی ماں نے چبتی نظر احد پر ڈالی۔
"احد پانچ دن سے بچی کو بخار ہے وہ
چرچڑی ہوئی ہے تم صبح صبح نکل جاتے ہو رات گئے آتے ہو۔نئی شادی جیسا کوئی چارم
مجھے ہمارے گھر نظر کیوں نہیں آتا۔ آخر کیا پوری آرمی تمہاری سر پر چل رہی ہے؟
موحد بھی تو ہے۔ وہ تو اس طرح نہیں کرتا بہت مشکل سے اسے کچھ کھلایا ہے۔ چند دن
میں کملا کر رہ گئی ہے میری بچی۔"
احد تھکے ماندے چہرے سے ہلکا سہ مسکرایا۔
"میری پیاری ماں آپ کی بچی اپنے بھائی
کے عشق میں بیمار ہے۔ آپ اسے سمجھاتی نہیں اور مجھے ڈانٹتی رہتی ہیں، ابھی خبر لوں
اسکی تو رونے لگ جائے گی کہا بھی ہے اسے سر پر مت چڑائیں جس قدر اسے پیار سے
سمجھائیں گی وہ اسی قدر بیمار رہے گی اور ہم سب کی نرمی کا فائدہ اٹھائے گی انسان
کو کسی پر اتنا انحصار نہیں کرنا چاہیئے کہ اسکے بنا سانس لینا بھی مشکل ہو
جائے۔کوئی بھی کبھی بھی ہمیشہ ساتھ نہیں رہتا رشتے، انسان سب ایک نہ ایک دم ختم ہو
جاتے ہیں ہمیں اتنا عادی صرف خود کا ہونا چاہیئے"
احد کی مما نے گہری سانس لی۔
"احد اتنی جلدی تو کسی کی کوئی عادت
نہیں جاتی۔ تم بہت سختی برت رہے ہو۔"
"اچھا میری پیاری ماں اس وقت آپ میری
ماں کم اور انشراح صاحبہ کی پھوپھو زیادہ لگ رہی ہیں۔ صبح بات ہوتی ہے ابھی بہت
تھک گیا ہوں۔" اپنی ماں کے شانے دباتے احد اپنے روم کی طرف گیا۔
*******
بار بار نمبر ملانے پر بھی نمبر بزی آ رہا تھا۔ مطلب وہ نمبر کاٹ رہا تھا۔
چوتھی بار جھلا کر فون پھنکنے ہی والی تھی کہ فون آ گیا۔
"کہاں تھے تم کب سے فون ملا رہی ہوں۔
اگر تمہیں میری پروا نہیں اور کہنا چاہتے ہو میں بھاڑ میں جاوں تو کہہ دو میں کچھ
کھا کر مر جاتی ہوں، یا کسی کار ٹرک کے
نیچے آ جاتی ہوں۔"
روبیل کی خفا غصے سے بھر پور آواز سن کر اسکا شوہر ہنسا
اور ہنستے ہنستے دھرا ہو گیا۔
"بس کرو روبی تم تو ہر وقت تیز مرچ
کھائے رہتی ہو۔"
"سچ بتاو کہاں تھے تم اس انشراح کے پاس
تھے نا۔؟"
روبیل کی اس بات پر اسکے شوہر کے مسکراتے لب بھنچ
گئے۔
"روبی میں نے بہت بار کہا جب ہم بات کر
رہے ہوں تو انشراح کو بیچ میں مت لایا کرو وہ میری لئے جس قدر قابل عزت ہے اسی قدر
تم بھی، تمہاری میری زندگی میں اپنی جگہ ہے مگر اسکا ایک الگ مقام۔۔ ہاں اگر تب
بھی تم انشراح ہی کی بات کرنا چاہتی ہو کرو مجھے کوئی اعتراض نہیں مگر اچھے الفاظ
میں بات کرو۔"
بے حد سنجیدگی سے سمجھائی گئی بات روبیل کو اپنے منہ پر
تماچے کی طرح لگی وہ سلگ اٹھی۔ اگلی بات اس سے بھی غیر متوقع تھی۔
"تم مجھے اپنی ماں سے کب ملوا رہے ہو کب
بتا رہے ہو انہیں کہ انکی ایک پوتی بھی ہے؟"
"ایکسکیوزمی؟" اس کی شوہر نے چونک
کر پوچھا
"تمہارے اور میرے درمیان کب یہ بات ہوئی
تھی کہ میں تمہیں اپنی ماں سے ملواؤں گا۔؟ تم شائد بھول رہی ہو تم نے یہ نکاح خود
خوفیا رکھا تھا اور اب اتنے سال تمہارے سال گزارنے کے بعد میں اپنے گھر والوں کو
یہ دھچکا دے دوں؟ یہ انکے ساتھ بلکل نا انصافی ہو گی۔ اس وقت میں نے تمہیں کہا تھا
انشراح سے پہلے اس گھر کی بہو کوئی نہیں بن سکتی تو تم نے اس نکاح کو خوفیا
رکھا۔ اب اس بات کا کیا مطلب ہے؟"
"میں کچھ نہیں جانتی مجھےتمهارے گھر میں
وہی درجہ چاہیے جو اُس انشراح کا ہے ورنہ تم دیکھنا میں کرتی۔" دھمکاتے ہوئے
روبیل نے فون بے حد غصے میں دور اچھال دیا۔۔۔
********
"اپنا خیال کیوں نہیں رکھتی میری
گڑیا؟" نبیل نے پریشانی سے اسکا مرجھایا چہرہ دیکھتے پوچھا۔
"اب تم صرف میری گڑیا تھوڑی رہی ہو۔
میری لاڈو پر اب بہت سی ذمے داریاں ہیں احد کی اور فائنل ایگزئمز کی تمہارا اے لیو
ہو جائے تو کسی اچھے سے سبجیکٹ میں گریجوئشن کرنا"
"مجھے نہیں پڑھنا۔" لیپ ٹوپ کی
سکرین کو دیکھتے انشراح نے خفگی سے کہا۔
نبیل کے سامنے اپنے نہ رکنے والے آنسو بمشکل قابو کئے
تھے۔
"ایسے نہیں پڑھنا میری بے عزتی کروا گی
لوگ کیا کہیں گے نبیل جبران کی اکلوتی بہن ان پڑھ ہے۔۔"
"مجھے بچی سمجھ کر مت سمجھائیں بھائی بس
ابھی میرا دل نہیں کرتا جانے کو۔"
"تم مجھے ستا رہی ہو۔ ایسے کرو گی تو
میں اس پرموشن کو چھوڑ کر آ جاؤں گا۔"
دروازہ واہ ہونے کی آواز پر انشراح نے دروازے کی طرف
دیکھا احد کو اندر آتا دیکھ اسکی پیشانی پر تفکر کی لکیریں پھیل گئی۔
"احد آ گیا کیا؟" نبیل نے اسے اپنی
طرف متوجہ نہ دیکھ کر کہا۔
"جی" انشراح نے جرم کا اعتراف کرنے
والے انداز میں کہا۔
"بات کروانا میری،" نبیل کی بات پر
انشراح نے لیپ ٹوپ گود سے اٹھا کر سائڈ پر رکھا اور خود دوسری طرف ہو گئی کافی دیر
نبیل سے بات کرنے کے بعد احد کو جب لگا نبیل کچھ کہنا چاہتا ہے اور انشراح کی
موجودگی کی وجہ سے کہہ نہیں پا رہا تو احد نے مسکراہٹ چہرے پر لاتے انشراح کی طرف
دیکھا۔ یہ مسکراہٹ نبیل کو دیکھانے کے لئے تھی ورنہ اس دن کے تھپڑ کے بعد احد اسکی
طرف دیکھنے سے بھی گریز کرتا تھا۔ اسے محبت میں بھی یہ بے رخی گوارہ نہ تھی۔
"جاناں ایک کپ چائے ملے گی؟"
بمشکل خود کو کچھ کہنے سے روک کر انشراح کمرے سے نکل
گئی جسم بخار سے ٹوٹ رہا تھا احد کو تو احساس تک نہیں، مگر نبیل کے سامنے وہ خوشی
والی شادی شدہ زندگی کا ڈرامہ ہی دیکھانا چاہتی تھی پردیس میں بیٹھا اسکا ماں جایا
جس کی جان ہی انشراح میں تھی وہ کیسے اسے ذہنی اذیت دیتی کی وہ سب چھوڑ کر واپس آ
جائے۔ اسے بھنک بھی پڑ جاتی کہ وہ کس فراق میں جل رہی ہے تو وہ احد کی دنیا تہس
نہس کر دیتا۔ یہی سوچتے وہ کچن کی طرف چلی گئی۔
*******
"آپ کچھ کہنا چاہتے ہیں؟" انشراح
کے نکلتے احد نے پوچھا۔
"ہوں،" نبیل اسکی سمجھداری پر ہلکا
سہ مسکرایا۔ پھر لفظوں کا چناو کرتا بہم سہ بولا۔ "احد مجھے تمہیں کہنے کی
ضرورت تو نہیں، تم بہت سمجھدار ہو اور جانتے ہوں انشراح کو میں نے کس ناز سے پالا
ہے۔ وہ میرے لئے میری بیٹی ہے۔ میرے وجود کا حصہ ہے۔ میں نے اسے ہر خوشی دی، اسکی
ہر خواہش پوری کی پھر بھی آج جانے کیوں لگا کہیں کوئی کمی رہ گئی میں اسے حالات کا
مقابلہ کرنا نہیں سیکھا سکا۔ وہ آج ضد کر رہی تھی وہ اب پڑھے گی نہیں شائد اسکا دل
اٹھ چکا ہے یا پھر وہ تمہیں اور تمہارے گھر کو وقت دینا چاہتی ہے۔، مگر میں چاہتا
ہوں انشراح کی پڑھائی نہ رکے وہ کسی بھی طرح اپنی پڑھائی مکمل کر لے اور مجھے اس سب
میں تمہارا ساتھ چاہیئے۔"
"آپ کو یہ سب کہنے کی ضرورت تھی؟"
احد کا لہجہ کچھ روٹھا ،روٹھا کچھ خفا ،خفا تھا۔
"وہ میری وائف ہے میں تو صرف اس لئے
اسکا لحاظ کئے تھا کیونکہ اسکی طبعیت ٹھیک نہیں تھی۔ اور پھر شادی کو دن ہی کتنے
ہوئے ہیں اگر میں نے کہا پڑھائی کرو تو وہ میری جان ہی نکال دے۔ پہلے ہی منہ پھلا
کر گھمتی ہے جیسے آپ کے جانے میں میرا ہاتھ ہو۔"
احد کی بات پر نبیل نے قہقہہ لگایا اور پھر کچھ مزید
باتیں کر کے لیپ ٹوپ بند کر دیا۔
احد فریش ہو کر نکلا تو انشراح کے چیخنے کی آواز پر کچن
کی طرف لپکا سامنے ہی وہ آگ سے جلتا آنچل خود سے ہٹانے کی ناکام کوشش کر رہی
تھی۔ اس سے پہلے کے احد اس تک
پہنچتا۔ کچن کی راہداری سے گزرتا موحد
جلدی سے اندر کی طرف گیا اور اسکا جلتا ریشمی آنچل کھینچ کر دور اچھال دیا موحد کے
ساتھ لگی وہ سہمی سہمی سی سسکیاں لے رہی تھی احد کا خون خول اٹھا اس نے اپنا غصہ
دبانے کو مٹھیاں بھنچی، وہ بھول چکا تھا چند سیکنڈ پہلے اسکی زندگی آگ کی لپٹوں
میں جل جاتی، اگر جو موحد اسکے جلتے آنچل سے اپنے مظبوط ہاتھ نہ جلاتا۔۔ وہ سہمی
سی ہرن کے بچے کی رو رہی تھی۔"مم مجھے نبیل بھائی کے پاس جانا ہے۔ "
کانپتے ہوئے وہ خوف کے زیرے اثر کہہ رہی تھی۔
"انشراح سب ٹھیک ہے تم کچن میں کیوں آئی
کچھ چاہیئے تھا تو کسی سے کہہ دیا ہوتا۔"
بے حد نرمی اور محبت بھرے لہجے میں کہتے موحد نے اسکا
ہاتھ دیکھا جو جل چکا تھا۔
اس سے پہلے کہ موحد کچھ کرتا ضبط ختم ہوتے احد نے
انشراح کو اسی جلے ہاتھ سے پکڑ کر اپنی طرف کھنچا اور وہ کچی ڈور کی طرح اس طرف
چلی آئی۔
"چلو کمرے میں۔" انشراح کے
روتےسسکتے وجود کو گھسٹتے وہ اندر کے گیا موحد وہی حیران سہ احد کا جارحانہ رویہ
دیکھتا رہ گیا اسکا نرم مزاج بھائی کیا سے کیا بن گیا تھا۔
"چھوڑیں میرا ہاتھ جل رہا ہے۔" انشراح
نے چلا کر کہا۔
"میں بھی جل رہا ہوں۔ کیا میں انسان
نہیں؟ ایک ہفتے سے میڈم کے نخرے اٹھا رہا ہوں حد ہوتی ہے برداشت کی بھی ہنس کر بات
کر لو تو تمہیں ڈرامہ لگتی مسکرا کر دیکھ لو تو تمہیں مسکراہٹ طنز لگتی ہے۔ اگر
ہاتھ لگا لو تو تمہیں کراہیت آتی ہے۔ آخر تم چاہتی کیا ہو؟ میرے ہاتھ لگانے سے
کراہیت آتی ہے مگر جو کچن میں ہوا اس سے کراہیت نہیں آتی؟رشتہ کیا ہے تمہارا، اُس
سے دیور بھابی کا؟ کزن کا؟ اور میں، میں تمہارا شوہر ہوں۔تم پر اسکا نہیں میرا حق
ہے سمجھی۔!"
"شرم آتی ہے مجھے آپ کو اپنا شوہر کہتے
ہوئے اس قدر گھٹیا اور گری ہوئی سوچ آپ کے مالک ہیں!
'یہ میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔"
"یہی گرا ہوا شخص تمہاری بے وفائی کے
باوجود تمہیں مان عزت محبت دینا چاہتا تھا جو تم نے جھٹک دیا۔" احد نے تنفکر
سے کہا۔
"ہوں، محبت" انشراح نے ہنکارہ
بھرا۔ "سب جانتی ہوں میں آپکی محبت کو، بٹی ہوئی محبت کسی اور کے ساتھ
آئسکرئم پالر بیٹھ کر اس سے بوسے لینے کی محبت اپنی بسٹ فرینڈ کو دوکھا دینے کی محبت۔، اگر آپکی زندگی میں وہ
لڑکی تھی تو مجھ سے نکاح کے لئے ہاں کیوں کی؟ منع کر دیتے آپ میں ہمت نہیں تھی تو
مجھے کہا ہوتا میری زندگی تو نہ تباہ ہوتی۔ آپ بھی خوش رہتے اور میں بھی، میں نے
صرف اپنی محبت ہی نہیں سب سے اچھا دوست بھی کھویا ہے میرے حصے میں نارسائی زیادہ
ہے۔ ! جانتے بھی ہیں کس قدر کرب ناک ہوتا ہے اپنی محبت کو کسی اور کے ساتھ اس طرح
دیکھنا۔" احد کے لئے یہ انکشاف حیران کن تھا وہ ششد رہ گیا۔
"اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے میں نے محبت
کو وہاں اس شام ذلیل اور رسوا ہوتے ہوئے۔"
"انشراح تم اس لئے ناراض تھی، ریکلس
مائے گرل! میں سمجھاتا ہوں وہ اس دن میرے ساتھ۔۔۔"
"مجھے کچھ نہیں سمجھنا۔" جو سمجھنا
سمجھانا تھا وہ میں اسی دن سمجھ چکی تھی ایسی ہی محبت تھی تو مجھے اس حالت میں کچن
بھیجا جب میں خود آپ پر ڈیپنڈ کرتی تھی یہ ہے آپکی محبت ؟" انشراح نے جلی ہتھیلی پھیلائی۔
انشراح اور بھی کچھ کہہ رہی تھی احد سنے بنا باہر نکل
گیا اور چند منٹ بعد ایک ٹیوب لایا انشراح کا ہاتھ پکڑ کر زبردستی اسے لگانے لگا
انشراح نے احد کے ہاتھ میں اپنے دوسرے ہاتھ سے ناخن گاڑے
"روکو جنگلی بلی ابھی بتاتا ہوں۔"
احد ناجانے کیوں مسکرا رہا تھا۔ انشراح کو حیرت ہوئی اور غصہ بھی آیا اپنا بھانڈا
پھوٹ جانے کے بعد وہ مسکراتا ہی جا رہا تھا نا شرمندگی کے کوئی اثار تھے نہ پکڑے
جانے کا خوف،
انشراح کے ہاتھ پر بینڈچ کرتے احد نے اسکی کلائی کو
چوما۔
انشراح کے اندر کرنٹ لگا اس نے بے ساختہ اپنی کلائی
چھڑوانی چاہی۔
"یہ محبت کا مرہم ہے دنیا کا سب سے جلدی
اثر کرنے والا مرہم،" انشراح کی تھوڑی اٹھائے وہ محبت سے بتا رہا تھا۔ پہلے
والی نرمی یک دم لوٹ آئی تھی۔
"بلاوجہ ناراض ہو، لیکن تم جیلس ہو یعنی
مجھ سے بہت محبت کرتی ہو اور نکاح والے دن موحد کا نام تم نے مجھے جلانے کے لئے
لیا تھا۔ میں تمہیں بتاوں مجھے تم سے کتنی محبت ہے میں اپنے کس عمل سے تم پر محبت
جتاوں؟" کہتے ہوئے احد اس پر جھکنے لگا جب وہ اسے دھکیل کر کھڑی ہوئی اور کسی
طوفان کی طرح پھٹ پڑی۔
"محبت ہے نہیں تھی! محبت مر چکی اسی دن
جب آپکی بے وفائی دیکھی آپکا دوغلا پن دیکھا۔اسی دن وہی پر ہماری دوستی بھی ختم ہو
گئی تھی مجھے آپ سے نفرت کا رشتہ بھی نہیں رکھنا۔"
انشراح کی بات پر احد زور سے ہنسا اور ہنستے ہنستے بستر
پر گرا۔
"مجھے نہیں پتہ تھا میری چھوٹی سی معصوم
سی دوست مجھے اتنا چاہتی ہے میں تو تمہیں بچی ہی سمجھتا تھا یہ تمہارا شدید ری
ایکشن شدید والی محبت کی گواہی ہے۔" احد نے اُسے چھیڑا۔ "میرے پاس بیٹھو
گی تو اپنی صفائی میں کچھ کہوں گا۔" احد نے اسکی کلائی تھامی،
"ڈونٹ ٹچ می خبرادرا جو آپ نے مجھے ہاتھ
لگایا تا عمر میں سوچتی رہی ایک فوجی دھنک کی خوشبو کی طرح ہوتا ہے۔ جس کو سانسوں
میں اتارنا زمین والوں کے نصیب میں نہیں، خود کو دنیا سے منفرد لڑکی بنانا چاہتی
تھی مگر آپ ؟" انشراح پل بھر کو رکی
اور احد کی مسکراتی سرمئی آنکھوں میں دیکھا جہاں پہلے والی دلکشی اور شرارت لوٹ
آئی تھی۔
"میں کیا؟" احد نے اُکسایا۔
"آپ احد ، آپ ہماری پاک آرمی میں فوج کے
نام پر دھبہ ہیں۔ آپ جیسے بے غیرت رکھولے ہوں تو چوروں کی کیا ضرورت گلی گلی نکر
نکر میں پان چھالیہ کھا کر اور سگرٹ پی کر موبائل پر سستے پیکج کر کے عشق لڑانے
والوں اور آپ میں کوئی فرق نہیں"
"بس انشراح خاموش!" یک دم احد کا
ہاتھ اٹھا اور وہ چہخا انشراح اسکی تیز آواز پر کانپ اٹھی اور بے ساختہ ہاتھ گال
پر رکھا مگر احد کا تھپڑ مارتا ہاتھ ہوا میں ہی رکا تھا اس نے ضبط سے مٹھیاں بھنچی
انشراح نے احد کی طرف دیکھا جس کی سرمئی شرارتی آنکھوں میں دکھ ہلکورے لے رہا تھا
وہ اس دکھ کو سمجھ نہ پائی کیا وہ سچ سن کر دکھی ہو رہا تھا کہ وہ پکڑا کیسے گیا؟
"سب کچھ سننے کو تیار ہوں مگر میری
عقیدت پر حرف مت اٹھانا انشراح میں نے آج تک اپنے مُلک کے لئے جو بھی کیا بہت خلوص
اور بے لوث محبت میں کیا" احد پلٹا اور باہر جانے لگا دروازہ کھولا تو باہر
پھوپھو اور موحد کھڑے تھے۔ احد کی خوبصورت آنکھیں جھکیں تھی۔۔
"میں نے بہت کوشش کی مما مگر میں اس
قابل ہی نہیں کہ میری وائف مجھ سے میری چند لفظی صفائی ہی مانگ لے جو بھی دیکھا اس
کا فیصلہ اور سزا وہ منتخب کر چکی ہے بہتر یہی ہے وہ میرے بنا ہی رہے۔۔۔"
" احد تم بتاو، کون تھی وہ لڑکی مجھے
موحد نے بتا دیا تھا اور آج انشراح کی باتیں سن کر مجھے دکھ ہو رہا ہے کاش میں تم
سے پہلے ہی پوچھ لیتی تو آج یہ سب نہ ہوتا۔"
"مجھے کوئی صفائی نہیں دینی مجھے اس وقت
جانے دیں پلیز!" احد نے التجائیا لہجے میں کہا۔
" کوئی صفائی ہو گی تو دیں گے یہ صرف اس
وقت یہاں سے جا کر سچے ہونا چاہتے ہیں" انشراح پھنکاری غصے اور بخار سے اسکی
رنگت سرخ ہو چکی تھی جسم سے آگ کی تپش نکل رہی تھی۔ چند دن میں وہ بے حال ہو چکی
تھی۔
احد نے چند منٹ ماں اور بیوی کی بے یقین آنکھوں میں
دیکھا اور کمرے میں پلٹا اپنے لاکر کو کھول کر احد نے چند تصویریں بستر پر
اچھالی۔اور چبتی ہوئی نظر سے موحد کو دیکھا۔
"تم جانتے ہو نہ میں چائلڈ ابیوز پر کام کر رہا ہوں؟"
موحد نے اثبات میں سر ہلایا۔
"یہ لڑکی چائلڈ ابیوز گینگ کی ممبر ہے
بھولی بھالی چھوٹی چھوٹی معصوم بچیوں کو ورغلا کر انہیں ایکسپورٹ کرتی ہے۔ یہ لڑکی
پچھلے چھ مہینے سے میری گرل فرینڈ ہے، مطلب اُسے ایسا لگتا ہے کہ وہ میری گرل
فرینڈ ہے مگر اصل میں مجھے آڈر ہے اس پر چوبیس گھنٹے چیک رکھنے کا مجھے اکثر اس سے
ملنا پڑھتا ہے اور میں اُسے اُس کے کسی عمل سے روک کر شک میں مبتلا نہیں کرنا
چاہتا۔کہ اس سے میرا تعلق مطلبی ہے۔
آپ کی بھتیجی نے مما ایک بار مجھے صفائی کا موقعہ نہیں
دیا کیا اس نے دیکھا میں نے اسکا ہاتھ پکڑا تھا؟ کیا وہ میری گرفت میں تھی؟
نہیں مما بلکہ میرا ہاتھ اُس لڑکی کی گرفت میں تھا! ان
دونوں سچوئیشنز میں بہت فرق ہے مما کسی کا
ہاتھ پکڑنا یا کوئی آپکا پکڑے،
مجھے دکھ تو صرف اس بات کا ہے میرا ایک بار بھی اعتبار
نہیں کیا گیا محبت نہ سہی دوستی کے تعلق سے ہی یہ مجھ سے لڑ لیتی جھگڑتی میرے اس
عمل کی وضاحت مانگتی مگر یہ۔۔۔"احد نے پلٹ کر زرد ہوتی انشراح کی طرف دیکھا۔
"یہ تو مجھے اپنی زندگی سے ہی نکالنے والی تھی۔ میں کیا گلا کروں میری اپنی
ماں اور بھائی نے مجھ سے وضاحت نہ مانگی تو باقی کیا رہ جاتا ہے۔ مجھے صرف اس بات
کا دکھ ہے کہ میں آپ میں سے کسی کی محبت اور اعتبار کے قابل نہ تھا۔کیا میں اس قدر
ناقابل اعتبار تھا۔" بنا رکے احد باہر کی طرف لمبے لمبے ڈگ بھرنے لگا۔
"احد پلیز رک جائیں احد مجھے معاف
کردیں۔" انشراح بھاگتی ہوئی اسکے قدموں سے قدم ملانے کی کوشش کر رہی تھی مگر
وہ مرد تھا اسے چھوڑ کر اگے نکل گیا۔
"پھوپھو جان ، موحد روکیں انہیں وہ مجھے
چھوڑ کر جا رہے ہیں۔" دہلیز پر گری انشراح چیخ رہی تھی وہ اپنی محبت کے روٹھ
جانے پر ماتم کناں تھی۔
"بچے مت رو آ جائے گا جب غصہ ٹھنڈا
ہوگا۔۔ وہ ابھی غصے میں ہے مگر لوٹ کر تو یہیں آئے گا۔" پھوپھو نے اسے خود سے
لگا کر سنبھالا۔
" مجھے ان کو روکنا ہے وہ خفا ہیں مجھ
سے موحد آپ لے آئیں ان کو۔"
انشراح کا رونا تیز ہوا تو موحد اور پھوپھو سے اسے
سنبھالنا مشکل ہو گیا۔ احد کا نمبر مسلسل بزی آ رہا تھا اور بند آنے لگا۔ جس قدر
احد سے محبت شدید تھی احد نے ہاتھ بڑھانے کے بعد دھتکار کر جھٹکا بھی شدید دیا تھا
اور اس شدید ترین جھٹکے کا نتیجہ بھی شدید آیا۔
******
انشراح کو ہوا شدید قسم کا برین ہمریج صرف احد کی فیملی
کا ہی نہیں، انشراح کی فیملی کے بھی حواس اڑا گیا۔۔ وقت گزرتا جا رہا تھا مگر نہ
انشراح کو ہوش آ رہا تھا نہ خطرہ کم ہو
رہا تھا خطر ناک حد تک بی پی شوٹ کر چکا تھا۔ اور دل کی رفتار بہت دھیمی ہو چکی
تھی سب کا رو رو کر برا حال تھا تو احد کا نمبر چار گھنٹے گزرنے کے بعد بھی بند
تھا۔۔۔رات دونوں گھروں نے انگاروں پر گزاری تھی صبح چھ بجے کے قریب انشراح کو نیم
ہوش آیا تو وہ احد کو پکارنے لگی۔
"ا ح حد"،
"ماں قربان جائے اپنی پری سے احد بھی آ
جائے گا میری جان تم تو آنکھیں کھولو۔" آسیہ جبران نے بھیگی ہوئی نم آواز میں
کہا۔
انشراح نے آہستہ سے سوجے پاپوٹوں والی آنکھیں کھولی اور
اسی وقت پلکیں گرا لی۔
موحد کی تقلید میں ڈاکٹر اندر داخل ہوئی۔ اور انشراح کا
چیک اپ کرنے لگی۔
"شی بی فائن یہ ہوش میں ہیں مگر ہلکی سی
نیند میں ہیں آپ سب لوگ آہستہ آواز میں باتیں کریں انکو جگائیں اور ہنسانے کی کوشش
کریں خطرے کی اب کوئی بات نہیں"۔ ڈاکٹر نے پیشہ ورانہ مسکراہٹ سے کہا اور
باہر چلی گئی۔
عمر اور حارث نے بہت پیار اور محبت سے اسے اٹھایا اور
اسکی بچپن کی شرارتوں کو یاد کروانا شروع کردیا۔۔ غلط فہمیاں دور ہو چکی تھی
دھندلے جھٹ چکے تھے اب صرف انشراح کو اپنے روٹھے ہوئے پیا کو منانا تھا جو جانے
خفا ہو کر کہاں تھا اور رات کس اذیت میں گزاری تھی۔ ہوسپٹل کی بستر پر لیٹی ہلکی
ہنسی اور مسکراہٹ کے ساتھ اپنے دونوں بھائیوں کی باتوں پر وہ دھیمے سے ہنستی بار بار وارڈ کے دروازے کو تکتی احد کے انتظار
میں تھی۔۔ "مجھے ایسا کیوں لگتا ہے احد میرے آس پاس ہیں۔"
انشراح نے سوچا اور موحد کی طرف دیکھا جو ہوبہ ہو احد
کا پرتو تھا رنگ نین نقش کسی میں کوئی فرق نہ تھا ایک ہی سانچے میں بنے دو مظبوط
سراپے ایک دوجے کے ساتھ ہی آئے تھے۔
"اس بچارے کو، کیا سمجھ کر اسے دیکھ رہی
ہو ؟ خوامخو موحد کو گھسیٹ کر پہلے تم نے احد کو جلتے انگاروں پر ڈالا تھا اب تو
اسے دیکھنا بند کرو۔" عمر کی بات پر جھنپ کر دوسری طرف دیکھنے لگی۔ وہ بے وجہ
اپنے ڈریپ لگے ہاتھ کو گھورنے لگی جب حارث نے موبائل پر کچھ دیکھ کر کمرے سے نکلتے
موحد کی طرف اشارہ کیا۔
"آپ مجھے تنگ کریں گے تو میں نبیل بھائی
کو شکایت کروں گی۔" انشراح نےعمر کو دھمکایا۔
"اب میں تنگ نہیں کروں گا۔ مگر جب تک
نبیل بھائی نہیں آتے تم سب کی مجھے شکایت لگا سکتی ہو۔" عمر نے مسکراتے کہا۔
انشراح نے حیرانگی سے اسکی طرف دیکھا۔
ٹرسٹ می یار بھائی ہوں تمہارا سگھا والا تنگ نہیں کروں
گا۔ ایک بار نبیل بھائی والی دوستی کرکے تو دیکھو۔"
"نبیل بھائی جیسا تو کوئی نہیں۔ پاپا
بھی نہیں،" انشراح نے رکے بنا کہا۔
"تم نہ بہت احسان فراموش ہو چھوٹی۔۔
وہاں باہر بیٹھا تمہارا سگھا بھائی اس وقت میٹھی نیند میں خواب وخروش کے مزے لے
رہا ہے اور ہم جو گزری شب روتے رہے ہماری کوئی ویلیو نہیں چلو ہماری چھوڑو پاپا نے
تو کل رات سے پانی کا گھونٹ بھی منہ کو نہ لگایا تھا وہ تو مجھے زندگی میں پہلی
بار لگا بوڑھے ہو چکے ہیں۔" انشراح نے نظر اٹھا سامنے بیٹھے اپنے باپ کی طرف
دیکھا جو اپنی بہن سے جانے کس بحث میں تھے۔ انکی آواز انشراح کو نہین پہنچ رہی
تھی۔ پھر عمر کی طرف دیکھا۔
"مجھ سے غلطیاں ہو جاتی ہیں بھائی، میں
جانے انجانے میں سب کو دکھ دے دیتی ہوں میں بہت بری ہوں۔"
بہت ہی تھکے ہوئے لہجے میں کہتے انشراح کی انکھیں
بھیگی۔
"یہ پھر رونے لگ گئی۔" کہتے ہوئے
عمر نے انشراح کو گدگدی شروع کر دی ہنس ہنس کر پاگل ہوتی وہ اسے ہٹا رہی تھی جب
اندر آتی آسیہ نے عمر کو ڈانٹا۔
"بس کردو میری بچی کو مت ستاو اتنا بھی نہیں ہنسانا تھا۔"
حارث عجیب چہرہ لئے اندر آیا اور آتے ہی انشراح کو اپنے
حصار میں لینے لگا۔۔ حارث کے شانے پر سر لگائے وہ عمر کو منہ چڑا رہی تھی۔ مگر
جانے عمر کو کیوں لگا وہ کسی بات پر ضبط کر رہا ہے یا ابھی رو دے گا اسے اپنا وہم
سمجھتے عمر نے سر جھٹکا۔
"مما مجھے فون دیں نا میں احد کو کال
کروں۔"
پھولے ہوئے سانس کے ساتھ انشراح نے کہا۔
"یہ لو۔" حارث نے پہلے ہی اپنا فون
سامنے کر دیا۔
حارث سے فون لیتے انشراح نے فون کیا۔
فون کا نمبر بلکل ریسپوئنڈ میں نہیں تھا۔
"میں باہر جا کر بات کر لوں؟"
انشراح نے فون بند کر کے کہا۔
"ہاں شیور عمر بہن کو لے جاو آرام سے
چلنا چندا ابھی تم پوری طرح سے ٹھیک نہیں ہوئی۔" آسیہ نے تاکید کی۔
عمر کے ساتھ وہ باہر آئی اور کوریڈور میں کھڑی فون
ملانے لگی۔ ہوسپٹل میں یک دم گھما گھمی
مچتی اسے نظر آئی۔
"یہاں کیا ہو رہا ہے؟" موحد کو
پریشانی کے عالم میں کسی فوجی اور دو ڈاکٹرز سے وہاں الجھتے دیکھ انشراح نے عمر سے
پوچھا۔
"پتہ نہیں شائد کہیں بلاسٹ وغیرہ ہوا
ہے۔ اور وہ اس وقت وہ اون ڈیوٹی ہے۔"
"مگر ابھی تو یہ اندر تھے ہمارے ساتھ
ابھی یہ بنا یونیفارم کے ڈیوٹی پر ہیں؟" انشراح نے حیرانگی سے پوچھا۔
"اس کے پاس وقت نہیں ہو گا نا یونیفارم
کا اور بلاسٹ کی وجہ سے کافی ٹریفک جام ہے عالیہ بھی بچاری گھر میں پھنسی ہے ورنہ
تم سے ملنے آنا چاہتی تھی۔" عمر اسکو
بتا رہا تھا مگر اسی وقت موحد نے کسی ڈاکٹر کا گریبان پکڑا اور زور زور سے چلانے
لگا۔
" بھائی ایک بار ہمیں چل کر دیکھنا
چاہیئے مجھے کہیں سے بھی اس وقت موحد آفیشل نہیں لگ رہے۔"
" تم اندر چلو میں دیکھتا ہوں موحد کی
مزید بلند ہوتی آوازوں کو سور سنتے عمر پریشانی سے اسکی طرف گیا۔
"آپ کا پیشنٹ مردہ حالت میں ہی لایا گیا
ہے آپ چاہے تو پوسٹ مارٹم کروا لیں۔ ہمارا اس میں کوئی قصور نہیں ڈاکٹر بھی انسان
ہوتے ہیں، وہ بھی صرف چند ایک کو بچا پاتے ہیں۔ اگر کسی انسان کی زندہ بچنے کی رتی
بھر بھی امید ہو تو ہم لوگ اپنی جان لگا دیتے ہیں مگر سر مردہ انسان کو زندہ کرنے
کا ہنر سائنس نے ابھی تک نہیں دیا۔" ڈاکٹر نے اپنا گریبان چھڑوا کر کہا۔
"کونسا پیشنٹ کیا ہوا ہے موحد سب ٹھیک
ہے؟" عمر نے تشویش سے پوچھا۔
" جی آرمی آفیسر احد سکندر کی حادثاتی
موت واقع ہو گئی ہے ان کو ہی مردہ لایا گیا تھا۔۔ رات کو جس جگہ بلاسٹ ہوا وہ اس
وقت جائے حادثہ پر اون ڈیوٹی تھے اس وجہ سے وہ شہید ہو چکے ہیں۔ اب یہ ہیں کہ ہم
سے لڑ رہے ہیں۔ ہم کیونکر ایک جوان فوجی کو جان بوجھ کر مردہ کہیں گے۔" ڈاکٹر
نے عمر کے حواسوں پر بم پھوڑا۔ وہی موحد چیخا
"خبردار جو میرے بھائی کو مردہ
کہا۔" ایک بار پھر موحد نے چیخ کر ڈاکٹر کو دھکا دیا۔ موبائل کے گرنے کی آواز
پر عمر پلٹا اس کے عین پیچھے انشراح کھڑی تھی۔
ساکت جامد منمجد بلکل بت کی مانند اسکی آنکھوں میں اس
قدر وحشت تھی کہ عمر دنگ رہ گیا۔ ہاتھ بڑھا کر عمر نے فورا اسے خود میں بھنچ لیا
مگر انشراح اس طرح جامد تھی کہ کوئی پتھر کا بت ہو جس میں کبھی جان ڈلی ہی نہ ہو۔
********
جاری ہے
Episode 7
بے خبر اے جہان
بے خبر اے آسمان
چھین لی زمین میری
چھین لی ہر سانس میری۔
"میرے احد کو کچھ نہیں ہو سکتا کچھ نہیں
ہو سکتا بھائی جھوٹ ہے یہ سب بکواس ہے میں مان ہی نہیں سکتی وہ مجھ سے خفا ہو کر چلے
جائیں۔۔" عمر کے سینے سے لگی وہ گہرے صدمے میں تھی۔ وہ احد کی دیوانی کیسے مان
لیتی اس کی محبت اس سے روٹھ چکی ہے۔
"کچھ نہیں ہوا احد کو میں جانتا ہوں تم پریشان
نہ ہو،" انشراح کو ساتھ لگاتے عمر اسی ہوسپٹل کے کمرے میں واپس لایا اور اور اسکے
سرد پڑتے وجود کو اپنی ماں کے آنچل میں دیا۔۔۔
آسیہ کا دل انشراح کی حالت دیکھ کر گھبرانے لگا۔ خالی کمرہ
دیکھ کر انہیں لگا اب وہ خود ہی ڈاکٹر کو بلا لائیں وہ مستقل نفی میں سر ہلاتی انسراح
مو چھوڑ کر کمرے سے نکل گئی باہر کا منظر دیکھ کر وہ انشراح کو بھول گئی۔۔۔
"مما احد چلا گیا ہماری انشراح بکھر گئی
مما۔۔" اپنی ماں کے شانے میں سر ٹکاتے حارث بے ٹوٹے لہجے میں کہا۔۔
"احد چلا گیا۔۔؟ اتنی جلدی ابھی تو میری
بیٹی کی مہندی کا رنگ بھی پھیکا نہیں ہوا کجا کہ کوئی خوشی دیکھنا" اندر انشراح
کسی نفسیاتی مریض کی طرح بستر کی چادر کو نوچ
رہی تھی تو کبھی اپنے الجھے بال مٹھی میں جکڑ کر چھوڑتی ہونٹ نیلے ہوتے کپکپا رہے تھے۔اس
سے پہلے وہ ڈاکٹر کو بلاتی باہر سے احد کی مما کے رونے کی آواز آنے لگی۔۔۔۔۔!
********
"کسی شہید پر روتے نہیں ہوتے پلیز اپنی یہ
آنکھیں پونچھ لو مان لو اسکا اور ہمارا بس یہی ساتھ تھا۔" جبران حاکم موحد اور
اپنی بہن کو شانے سے لگائے سہرا دے رہے تھے آسیہ کی آنکھیں بھگتی چلی گئی۔
"کوئی کسی
کو زبردستی نہیں روک سکتا کل رات گھر سے جانا اور جاتے ڈیوٹی جوائن کرنا یہ سب تقدیر
کا کھیل تھا، ہم اسے کچھ اور ہی سمجھتے رہے۔۔"
"بھائی ہماری لاڈو رل گئی میں بہت شرمندہ
ہوں آپ سے، میں نے آپ کی کلی سی بیٹی کو جانتے بوجھتے اپنے باغی بیٹے سے باندھ دیا،
میں جانتی تھی وہ اپنے ملک کے لئے کس قدر حساس ہے،وہ جنون رکھتا تھا اور اسکا جنون
اسے لے جائے گا، یہ میرا دل کہتا تھا مگر بھائی میں نے دن رات اپنے دونوں بیٹوں کے
لئے بہت دعائیں کیں مگر میری دعائیں قبول ہی نہ ہوئی، نہ ہی تب ہوئی تھی جب احد کے
پاپا مجھے چھوڑ کر گئے۔ میں نے زندگی اپنے بیٹوں کی خاطر گزار لی مگر انشراح وہ تو
بچی ہے بہت چھوٹی ہے، وہ کیا کرے گی، کیسے خود کو سنبھالے گی۔"
آسیہ بیٹی کے دکھ سے سر تھامے وہیں زمین پر گرتی بکھرنے
لگی۔۔ایک طرف انکے ہاتھوں میں پل کر جوان ہوا احد تھا جو جانے کتنی اذیت کے بعد سب
سے خفا ہوتے چلا گیا تھا تو دوسری طرف اکلوتی بیٹی کی زندگی اجڑی تھی۔۔۔
"اللہ وارث ہے اس کے نصیب میں یہی سب تھا
اور نصیبوں سے تو ولی بھی نہ لڑ سکے ہم تو معمولی سے انسان ہیں۔ جی لے گی وہ، جیسے
سب جیتے ہیں۔۔۔ "
سب ایک دوسرے کو سنبھالنے میں لگے تھے۔ ایسے میں سب انشراح
کے بارے میں بھول گئے۔۔۔وہ کمرے میں اکیلی ہے۔۔
********
تین مہینے بعد
"اب آپکی طبعیت کیسی ہے۔؟" نرس نے انشراح
کے سے مسکراتے لہجے میں پوچھا، انشراح کی خاموش آنکھیں پل بھر کو چھت سے ہٹ کر نرس
کی طرف گئی اور ہر بار کیا جانے والا سوال دھرایا۔۔
"میں گھر کب جاؤں گی۔؟"
"بہت جلد مگر پہلے آپکو بتانا ہوگا آپ کیسی
ہیں۔۔ ؟" نرس نے ہلکی سی مسکراہٹ کے کہا۔ جواب نہ ملنے پر نرس نے مایوسی سے صوفے
پر بیٹھے نبیل اور حارث کی طرف دیکھتے کہا۔ اور پھر ثانیہ کی طرف دیکھا جو انشراح کے
قریب ہی چیئر پر بیٹھی تھی۔۔
کمرے میں موجود
ہر ذی نفس کو انشراح کے رونے سوال کرنے کا انتظار تھا مگر وہ نہ کچھ بولتی تھی نہ روتی
تھی ایسا لگتا تھا وہ سب کو یکسر بھول چکی ہے
نہ ہی کسی بات پر وہ کوئی ری ایکٹ کرتی تھی۔۔نہ چھپ کر روتی تھی نہ ہی نارمل
انسان کی طرح کھاتی تھی۔۔ سب کو لگتا تھا وہ پاگل ہو رہی ہے اور اندر ہی اندر گھل رہی
ہے۔۔۔
بہت سے سائیکولوجیسٹ آئے سب کا یہی کہنا تھا وہ "مینٹلی
ڈساوڈر" کا شکار ہو چکی ہے۔ یعنی کسی ممکن بات کو دماغ اور دل کی ریجکشن کے بعد
آنکھوں سے دیکھنا اور سمجھنا مگر آنکھیں وہ پیغام دل اور دماغ تک نہیں پہنچا سکتی تھی
وہ اب بھی تصور میں اسے دیکھ سکتی تھی ڈاکٹرز کے حساب سے انشراح کے دماغ کا مین آرگن
ایک ہی بات کو بار بار رپیٹ کر رہا تھا جس طرح ٹی وی دیکھتے اکثر ڈسک اٹک جاتی ہے اور
بار بار وہی دو سیکنڈ کے سین کو دکھاتی ہے اور یہی سین انشراح کی مستقل چپ تھا۔ وہ
بار بار ایک ہی لمحے کو جی رہی تھی یعنی اسے لگتا تھا احد گھر میں اسکے کمرے میں موجود
ہے اور اسے گھر ہی جانا تھا۔۔ نبیل اسے اپنے گھر لے تو لایا تھا اور دو نرسز بھی رکھ
لی تھی مگر انشراح کو نہ اب کسی ضرورت تھی نہ ہی کوئی خواہش اسے بس احد کے گھر جانا
تھا جہاں احد موجود تھا۔
*******
تیسری بیل پر روبیل نے فون اٹھایا اور اپنے شوہر کی خفا
آواز سنتے ہنسنے لگ گئی۔۔۔
"جناب میں آپکی بیٹی کو کھانا کھلا رہی تھی،
میڈم نے میرے سب کپڑے خراب کر دیئے، ابھی فریش ہو کر آئی ہوں پہلے کیسے اٹھاتی۔؟"
"میں کب سے باہر کھڑا ہوں پہلے دروازہ کھولو،
گھر میں کوئی ذی نفس زندہ بھی ہے کیا؟" وہ غصے سے دھاڑا۔۔
"اچھا اچھا آئی بابا ابھی۔" روبیل فون
چھوڑ کر باہر کو بھاگی اور پھولے ہوئے سانس سے دروازہ کھولا۔ اپنے شوہر کی غصے سے لال
بھبو ہوئی شکل دیکھ کر وہ ہنسنے لگی اور ہنستے ہنستے اسکے گریبان میں منہ چھپانے لگی۔
روبیل کے نم بالوں کو سہلاتے وہ کچھ نرم ہوا۔
"آج بہت اچھے موڈ میں ہو؟ بہت سال بعد اس
طرح ہنستی ملی ہو۔" وہ بھی مسکرانے لگا ۔
"انشراح جو ہماری زندگی سے نکل گئی ہے۔ ہمیشہ
ہمیشہ کے لئے تو کیوں نہ خوش رہوں؟" اپنے دل میں روبیل اپنے شوہر سے مخاطب ہوئی
اور بظاہر ہنستے ہوئے نفی میں سر ہلاتے اسے اندر لائی۔
"ہماری گڑیا کہاں ہے بھئی وہ بھی کہیں گئی
ہے؟" روبیل کے شوہر نے پوچھا۔ اسی وقت اسکا فون بجا اور فون سنتے ہی گھر سے نکل
گیا۔۔
"اف ایک تو یہ آرمی والے ہر وقت ہوا کے گھوڑے پر سوار
رہتے ہیں۔" ہنس کر اپنے شوہر کے لئے دعا کرتے وہ واپس اندر پلٹ گئی۔۔۔
********
"رومیو بھابی کا فون آیا تھا تم جانتے ہو
وہ سب کیا کرنے جا رہے ہیں؟" عبدللہ نے دکھ سے کہا۔
"میری روشنی سے بات ہو چکی ہے۔ وہ جانتی
ہے اسے کیا کرنا ہے۔" رومیو نے اپنی بیوی کا نام لیا۔
"روشنی جانتی ہے کہ تم؟ سیکرٹ سروس میں ہو
اور میرے ساتھ ہو؟ اور تم کب ملے اس سے؟،،"
"ہاں بالکل جانتی ہے ہم مل چکے ہیں چاچو
یقین کریں بیوی کی مرضی کے خلاف آدمی تھوک بھی نہیں سکتا۔۔"
"گھٹیا آدمی سب تیری بیوی کو ورغلا رہے ہیں
اور تو یہاں مٹی میں کیا دبا رہا ہے؟" دانت کچکچاتے عبدللہ نے کہا۔
"میں کچھ نہیں دبا رہا، چلیں یہاں سے، کوئی
آ رہا ہے۔!" رومیو نے اٹھتے کہا اور جنگل کے قدرے ایک جھاڑیوں والے کونے میں چھپ
گیا۔ پیروں کی آواز قریب آ رہی تھی، کوئی بے دری سے سوکھے پتے کچلتے نزدیک سے نزدیک
تر آ رہا تھا۔ ساتھ ہی رومیو کو ریوالور کی
لگام کسنے کی آواز آئی رومیو نے عبدللہ کی طرف دیکھا جس کی رنگت اڑ چکی رومیو مسکرایا
اور درخت کی طرف اسے اشارہ کیا۔
"پاگل ہو تم خود بھی مرو گے مجھے بھی مروا
گے۔"
"اوہو نہیں مرتے ہم 'چاچو' آپ اوپر چلے جائیں
مگر بنا آواز کے۔" اشاروں سے سمجھاتے رومیو نے کہا۔
"رومیو تم۔۔" عبدللہ کی بات منہ میں
تھی جب رومیو نے اسکے کانوں میں کچھ لگا دیا۔
ابھی وہ کچھ سمجھ پاتا تبھی سامنے جس جگہ مٹی میں رومیو
کچھ دبا رہا تھا وہاں وہ آدمی کھڑا ہو گیا۔ جو رومیو کی تلاش میں وہاں آیا تھا۔ اور
جیسے ہی اس نے پیر اٹھایا چھوٹا سا دھماکہ ہوا اور دشمن کی ٹانگ کی چھچھڑے بن کر اڑ
گئے۔ وہ روز دار چیخوں سے چلاتا وہیں گر گیا۔۔ رومیو نے آفیسر عبدللہ کو آگے بڑھ کر
اسے اپنی گرفت میں لینے کا ارادہ دیکھتے روکا، وہ حیرانگی سے دیکھنے لگے۔
"رومیو یہ اگر ہمت دیکھائے تو ایک ٹانگ سے بھی بھاگ
سکتا ہے، یہ اسے پکڑنے کا اچھا موقعہ ہے۔"
"ابھی تماشہ دیکھیں۔۔۔" رومیو نے آنکھ
سے اشارہ کرتے کہا۔۔
سامنے پڑے دشمنِ ملک نے اپنی پاکٹ سے فون نکالا اور کسی
کو فون کرنے لگا۔ وہ کسی اور ہی زبان میں بات کر رہا تھا وہ اور کچھ چیختے کہہ رہا
تھا۔
"رومیو کیا فائدہ ہمیں تو سمجھ ہی نہیں آنی۔۔یہ
تو اپنی زبان بول رہا ہے۔" کہتے ہوئے عبدللہ سر نے رومیو کی طرف دیکھا جو وہیں
درخت کے نیچے بیٹھا پیٹ کی ٹینکی خالی کرنے میں مصروف تھا۔
"کہاں سے یہ ہم نے سپیشل پیس اٹھایا تھا۔"
دانت پیستے عبدللہ نے اسے وہیں چھوڑا اور سامنے روسی آدمی کو اپنی ملٹری کے قبضے میں
لیا۔۔
********
" کون ہے تمہارا باس اور تم بچوں کا کیا
کرتے ہو۔؟"آفیسر عبدللہ نے برف جیسا پانی روسی آدمی پر پھنکتے پوچھا۔
"میں مر تو سکتا ہوں مگر اپنی زبان کبھی
نہیں کھولوں گا۔"
روسی آدمی کو اردو بولتے دیکھ عبدللہ نے جبڑے بھنچ لئے۔
اور کرارا جھانپڑ اسے رسید کیا۔
"بولو تم لوگ
کیا کرتے ہو ہمارے بچوں کا۔"
"بزنس" وہ ہنستے ہوئے بولا۔
"کیسا بزنس؟" عبدللہ نے ضبط سے پوچھا۔۔
"کم آن مین تم بچے نہیں ہو تم نے چائلڈ ابیوز
سائڈز دیکھی ہونگی اور ان سب کے لئے پاکستان اس لئے کیونکہ تم لوگوں کے بچے دیکھنے
میں بہت معصوم اور پیارے لگتے ہیں۔۔"
چٹاخ
چٹاخ چٹاخ رومیو نے یک دم روسی کے منہ پر تابڑ توڑ تھپڑ لگائے اسکے منہ پر تھوکتے وہ
بے لگام ہو کر اسے مارنے لگا۔
"رومیو اسے مت مارو اس کا باس کون ہے یہ
صرف وہی بتا سکتا ہے۔"
"تم جتنا چاہے مار لو میں کبھی نہیں بتائے
گا۔!" روسی نے اپنے ہونٹ سے خون صاف کرتے حتمی لہجے میں کہا۔
جبھی رومیو نے اپنا
بھاری بوٹ اسکے "مین پوائنٹ" پر مارا اور روسی بلبلا اٹھا۔ اس کے پیٹ پر
بوٹ رکھے رومیو نے اپنی پاکٹ سے ریکارڈر نکالا اور سنانے لگا یہ وہی کال تھی جو کچھ
دیر پہلے اس روسی نے اپنے باس کو کی تھی۔ روسی کے چہرے کی رنگت بدلنے لگی۔
"پکڑ اپنا فون بلا اپنے باس کو تو نے اس
کے لئے بہت پیارے پیارے بچے ایکسپورٹ کئے ہیں! لیکن اس کے لئے اسے یہاں آنا ہوگا۔"
رومیو نے فون روسی کے سینے پر پھینکا۔
جہاں روسی آدمی
بری طرح پھنس چکا تھا وہیں عبدللہ حیران تھا کہ رومیو کو روسی لینگویج آتی ہے۔
؛**********
جاری ہے
Comments
Post a Comment