Khushboo dhanak ki Episode 1 novel by Komal Ahmed

Khushboo dhanak ki Episode 1 novel by Komal Ahmed


ناول "خوشبو دھنک کی"
(Surprise)

Episode #1..
سنُو جاناں۔۔۔
 کچھ دیر تو ٹھہرو
مری سانسوں کو اپنی 
سب دُعاوں کی 
دھنک خوشبو 
زرا محسوس کرنے دو
مری آنکھوں کو اپنا رُوپ 
پڑھنے دو
مرے ہونُٹوں کو
اپنا نام جپنے دو



مرے ہاتھوں کو 
اپنے ہاتھ میں لے کر
سہارا دو
مری آنکھوں کو 
جینے کا اشارہ دو
مری سانسوں کی
کِشتی کو کنارہ دو
مری خواہش ہے جب بھی
میں اس دنیا سے جاؤں تو
تمہارے ساتھ رہنے کا 
حسیں احساس
مرے ساتھ ہی جائے 
سنو ۔۔۔۔۔۔
کچھ دیر باقی ہے
فقط کچھ دیر تو ٹھہرو ,,
"کیسا لگ رہا ہے تمہارے نکاح کا جوڑا"؟  ثانیہ نے پیار سے سرخ اور گرین جوڑے کو دیکھتے کہا اور چھوٹی بہن جیسی نند کو چھیڑا جو جوابا غصے سے لال بھبو ہوگئی اب ثانیہ بھابی کو کیا علم انشراح شرم سے نہیں غصے سے" لال ٹماٹر" ہو  رہی ہے وہ تو بس چھیڑ چھاڑ کر رہی تھیں اچانک انشراح چہرہ ہاتھوں میں لئے رو دی۔ ثانیہ بھابھی حیران پریشان تھیں کہ آخر ہوا کیا ہے پھر اسے سمجھاتے بولی "انشراح ہم صرف تمہارا نکاح کر رہے ہیں رخصتی تمہاری پڑھائی مکمل ہونےکے بعد ہو گی۔
ابھی تو بہت وقت ہے" 
انشراح نے اپنے رخسار صاف کئے "وہ بات نہیں بھابی مجھے مستقبل کا خوف ستاتا ہے" انشراح نے کہا۔ جانے وہ کونسا دکھ تھا جو اپنے اندر چھپائے بیٹھی تھی۔
 بھابھی نے کارنر سے پانی کا گلاس اٹھایا اور انشراح کو دیا۔
 "احد بھائی بہت اچھے ہیں انشراح تمہیں بہت خوش رکھیں گے۔ تم تو بچپن سے جانتی ہو انکو پھر اس طرح کیوں سوچ رہی ہو۔؟ اور احد بھائی کا نام تو تم نے خود لیا تھا۔پھر کیسا ڈر اور کیسا خوف ؟
انشراح اچھے دوست زیادہ اچھے جیون ساتھی بھی ہوتے ہیں۔ کیونکہ وہ ایک دوسرے کے دل کو بہت اچھے سے جانتے ہیں۔
یہ بہت اچھا ہے کہ تم احد بھائی کی بہت اچھی دوست ہو دیکھنا تم خود پر کتنا ناز کرو گی۔ 
شوہر اگر اچھا دوست ہو تو زندگی حسین سے حسین تر ہو جاتی ہے۔ عام طور پر مشکلات میں ہمیں شوہر سے بات کرنے میں ڈر یا خوف محسوس ہوتا ہے۔مگر جب میاں بیوی دوست ہوں تو ڈر اور خوف کا نہیں بلکہ وہ رشتہ عزت اور محبت کا ہو جاتا ہے۔"
انشراح نے پانی کا گلاس دوسری طرف رکھا اور نکاح کا شرارہ الماری میں رکھتے ہتمی انداز میں بولی۔ "نہیں کرنی مجھے کوئی شادی یا نکاح انشراح نے دھماکہ کیا۔ کسی سے بھی کروا دیں مگر اس احد سکندر سے بلکل نہیں۔"
ثانیہ بھابی چونک گئیں اور پریشان کن لہجے میں بولیں "انشراح ہم احد بھائی کے گھر والوں کو کیا کہیں گے؟ اور نبیل وہ کیا سوچیں گے وہ کیسے اس بات کو فیس کریں گے۔ پلیز ٹھنڈے دماغ سے سوچو احد بھائی میں کوئی برائی نہیں ہے۔ اور ہر لڑکی کی شادی ہوتی ہے سب کو خوف ہوتا ہے مگر کوئی اس طرح نہیں کرتا۔ تم تو میری پری جیسی ہو۔ انشراح اگر کوئی بات ہے تو بتاؤ۔ ہو سکتا ہے میں تمہاری ہیلپ کردوں۔"
انشراح کے سامنے کل شام کا منظر ایک بار پھر گھوم گیا۔ اس نے کرب سے آنکھیں موندلیں وہ اس حقیقت سے منہ نہیں موڑنا چاہتی تھی۔اسکی زندگی بھر کا معاملہ تھا وہ کیسے چوک جاتی۔
احد سکندر انشراح کا بہترین دوست تھا اسکے سکھ دکھ کا ساتھی اسکا آئیڈیل ہر بات بے جھجک ایک دوسرے سے کر لیتے تھے مگر کل شام کا منظر نا قابل فراموش تھا۔ محبت میں شرک نہیں ہوتا تو انشراح جیسی لاڈوں میں پلی محبتوں سے گندھی لڑکی کیسے اس شرک کو سہہ لیتی۔    
کل شام وہ شاپنگ پہ گئی تھی وہ احد سے نکاح پر بے حد خوش تھی۔
اتنی کے لفظ خوشی اسکی خوشی بیان کرنے کے لئے ناکافی تھا۔ ابھی نکاح میں پندرہ دن باقی تھے مگر احد چونکہ آرمی میں تھا تو ہر تیاری مکمل کرلی گئی تھی تاکہ کہیں کوئی ایمرجنسی کی صورت میں پروگرام میں تبدیلی ہی نہ آ جائے اور احد ہی کے کہنے پر اس نکاح کو پوشیدہ رکھا گیا تھا۔
واپسی پر اسے موحد کی کال آئی جو کہ احد کا چھوٹا بھائی ہے۔ اسی کے جیسے نقش نین اور قد کاٹھ اسی کی طرح انشراح کا دوست.. دونوں بھائیوں میں صرف آنکھوں کے رنگ کا فرق تھا۔ مگر وہ بھی احد اور موحد کی جان بوجھ کر گلاسز لگانے والی عادت کی وجہ سے بعض دفعہ چھپ جاتا۔ اکثر موحد شرارت سے احد بن جاتا اور انشراح کو تنگ کرتا۔
موحد نے بتایا کے وہ قریب ہی ہے دونوں نے آئسکریم پارلر جانے کا پروگرام بنالیا اور ٹھیک آدھے گھنٹے بعد وہ وہاں تھی مگر یہ کیا وہاں احد سکندر موجود تھا نہ صرف موجود تھا بلکہ ایک نہایت ماڈرن طراح دار حسینہ کے ساتھ خوش گپیوں میں مصروف تھا۔ باتوں کے درمیان اس حسینہ کا ہاتھ احد کے ہاتھ میں تھا جبھی اس نے ایک ادا سے بال جھٹکتے احد کے ہاتھ پر  بوسہ لیا۔احد کے چہرے پر بہت دلکش مسکراہٹ تھی۔ انشراح کے سر پہ آسماں گرا یا پیروں تلے زمین پھٹ گئی تھی اسکا وہ اندازہ نہ کر سکی۔
 بس اسکے اعتبار کا خون ہوا تھا۔ اور خون کرنے والا کوئی اور نہیں احد سکندر تھا۔ وہ لہرا کے گر جاتی اگر موحد اسے سنبھال نہ لیتا۔  وہ ڈبڈبائی آنکھوں اور لرزتی آواز میں بولی "موحد وہ دیکھو احد" اسکی انگلی کے تعاقب میں موحد نے دیکھا تو دنگ رہ گیا۔ اسکا بھائی بڑا صاف اور شفاف شخصیت کا مالک تھا پھر اب ایسا بھی کیا ہوا تھا جو وہ زندگی کے اس موڑ پہ رستہ بدل گیا تھا۔ موحد نے اسے سہارا دیا۔ اور دوسری جگہ لے گیا۔ اور رات تک سے تسلیاں دیتا رہا۔ سمجھاتا رہا مگر وہ پتھر بنی ان سنی کر گئی۔ اسکا ایک ہی فیصلہ تھا اب وہ احد سکندر کو زندگی میں شامل نہیں کرے گی۔ اگر احد رستہ بدلنا چاہتا ہے تو اسے کوئی اعتراض نہیں"۔موحد نے بمشکل وعدہ لیا کہ "وہ اس بارے میں ابھی نبیل یا گھر کے کسی فرد کو نا بتائے وہ خود احد سے بات کرے گا۔ میں کوئی بات نہیں کروں گی مگر مجھے گھر چھوڑ دو" وہ بے رخی سے بولی۔ موحد نے لب بھنچے اور خاموشی سے اس کو گھر ڈراپ کر دیا۔ 
انشراح کا کسی طور ارادہ نہ تھا کہ وہ احد کی بے وفائی اس قدر خاموشی سے سہہ لے مگر وہ نہ چاہتے ہوئے بھی خاموش تماشائی بنی رہی۔ وہ بس تکیہ بھگوتی رہی اور اللہ سے شکوہ کرتی رہی۔
ثانیہ نے چند منٹ خاموشی سے تکیے میں منہ چھپائے انشراح کو دیکھا۔ ثانیہ کو لگا کہ وہ سو چکی ہے اس لئے اس پر کمبل اڑاتی باہر نکل آئیں۔ انشراح نے اپنی سسکی اندر ہی دبا لی۔ 
                                **********   
اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ دن بھی آ گیا جب اسے احد سکندر سے منسوب ہونا تھا۔  احد جمعہ کی نماز کے بعد آیا سب لوگ خوش گیپوں میں مصروف تھے۔ صرف انشراح ہی موجود نا تھی۔  سفید کلف دار شلوار سوٹ پہنے مہرون چنری کا ڈپٹہ ڈالے ہلکی فرنچ داڑھی ذہانت سے چمکتی سرمئی آنکھوں والا ڈیسنٹ سہ دلہا کوئی بھی اسے دیکھ کر نہ کہہ سکتا تھا یہ ڈبل رول بھی کر سکتا ہے یا اس کے اندر بے وفائی پنپ رہی ہے۔ "چلو بھئی دلہن کو بلائیں مجھے دیر ہو رہی ہے۔" احد کے جملے پر بے ساختہ ہنسے اور ثانیہ بھابی انشراح کو لینے اس کے کمرے میں گئیں۔   
           **********
سرخ ٹماٹر جیسے اور باٹر گرین شرارے جس کے بارڈر پر سلور کام تھا۔ہلکے میک اپ میں سوگوار سی دلہن بنی انشراح بیٹھی تھی۔ پھپھو امی بھابھی سب نے بار بار نظر اتاری تھی مگر کیا فائدہ نظر تو لگ چکی تھی اور بہت بری لگی تھی۔
قاضی صاحب نے آکر نکاح پڑھانا شروع کیا۔
تو ہر بار جواب میں خاموشی تھی۔ سب ایک دم پریشان اور حیران تھے۔ نبیل کو لگا وہ سہم چکی ہے۔ نبیل نے آہستگی سے اپنی لاڈلی بہن کو ساتھ لگا کر دلاسہ دیا۔ "انشراح بچے ہاں بولو۔ دیکھو سب انتظار کر رہے ہیں۔" انشراح نے نظر اٹھا کر سامنے صوفے پر موجود احد کو دیکھا۔ جس کی آنکھیں مسکراہٹ سے چمک رہی تھیں وہ اسکی خاموشی کو شرم و گھبراہٹ سمجھ رہا تھا۔ انشراح کو خود پر غصہ آیا وہ چپ رہ کر ایک ہرجائی کو جیتنے نہیں دے سکتی تھی۔ 
تیسری بار نکاح پڑھوایا جا رہا تھا۔
"انشراح جبران ولد جبران حاکم آپکو احد سکندر ولد سکندر رحمان اپنے نکاح میں قبول ہیں"؟ 
اس بار جواب تو آیا مگر نفی میں، "نہیں مجھے احد سکندر باحیثیت شوہر قبول نہیں ہیں۔" کمرے میں موت سہ سکوت پھیل گیا۔ بے یقینی سی بے یقینی تھی احد نے انشراح کی طرف دیکھا۔ 
"انشراح بچے آپ کیا بول رہی ہیں؟ یہ نکاح آپ کو پوچھ کر ہی رکھا تھا نا؟" نبیل نے نرمی سے پوچھا۔ 
"مگر بھائی اب مجھے احد نہیں چاہئیے " وہ ضدی بچی کی طرح بولی۔ جیسے احد نہیں کوئی کھلونا ہو۔ جو اب اسے پسند نہیں رہا۔
آسیہ جبران جو کہ انشراح کی ماں تھیں شرمندگی اور غصے سے اٹھیں۔ انکو انشراح نے شرم سار کر دیا تھا۔ وہ قدرے غصے سے بازو دبوچ کر انشراح سے پوچھنے لگیں۔ "آیا کہ تمہیں کس سے نکاح کرنا ہے اگر احد قبول نہیں تو کون قبول ہے۔"؟
احد ششد سہ بیٹھا تھا اس کے پاس تو الفاظ ہی نہ تھے۔ اسکی بہترین دوست اسکے ساتھ یہ سب کرے گی اس کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔ یہ انکار یہ نفی اسکی انا پر کی گئی تھی اسکی انا پر کاری ضرب تھی۔ یہ اسکے وجود کی نفی تھی اسکی مردانگی پر اٹھا حرف تھا۔
انشراح نے اپنا بازو چھڑوایا۔انشراح نے شکوے سے بھری پانی سے لبریز سرمئی آنکھیں اٹھائیں اور انگشت شہادت اٹھا کے بولی" اس سے"۔  
سب نے چونک کے پیچھے دیکھا تو وہاں کوئی اور نہیں احد سکندر کا چھوٹا بھائی موحد سکندر تھا۔۔ اور سب اس قدر حیران تھے۔ اگر کوئی سوچتا تھا کہ انشراح کسی بات پر خفا ہے اور یہ سب بچپنے میں بول رہی ہے تو اسکی غلط فہمی ختم ہو چکی نبیل تو خود انشراح کی ضد پر ششد رہ گیا۔
 موحد سب کے اسطرح دیکھنے پہ گڑبڑا گیا۔
اور "احد " نے جس نظر سے موحد کو دیکھا اس پہ اسکی رنگت میں ذردی گھلنے لگی۔ وہ بھائی سے نظر ملانے کے قابل نہ رہا تھا۔ 
سب سے پہلے ہوش آسیہ جبران کو آیا۔ انہوں نے ایک تھپڑ انشراح کے خوبصورت گال پہ جڑ دیا۔ یہ انشراح کو اپنی زندگی میں لگا پہلا تھپڑ تھا۔
اور وہ اپنی ماں کے اس عمل پہ پتھرا گئی کسی نے اس سے صفائی نہیں مانگی تھی۔ سب نے اپنی ہی کی تھی۔ کسی ایک نے بھی اس سے نا پوچھا وہ اس وقت کیوں انکاری ہے۔
احد نے ایک پر شکوہ نگاہ انشراح پہ ڈالی جو اسے ہی دیکھ رہی تھی۔ اسکے دیکھنے پہ نظروں کا زاویہ بدل لیا۔ سب لوگ اب انشراح سے اس حرکت کی وضاحت مانگ رہے تھے ثانیہ بھابی نے موحد سے بھی پوچھا اس نے لاعلمی سے کندھے اچکا دیے۔ وہ کس طرح احد کی وہ بات سرے عام بتا دیتا جس سے سب کچھ ختم ہو جائے۔
باپ نے اپنی شفقت اور تینوں بھائیوں نے اپنی محبت کے حصار میں لے کر انشراح سے وضاحت مانگی مگر اب اسے کوئی وضاحت نہ دینی تھی اسے زندگی میں پہلا تمانچہ ایک ہرجائی کی وجہ سے مارا گیا تھا۔ جس نے اسکے اعتبار اسکی پوشیدہ محبت کا قتل کیا تھا۔ ہر طرح کی تسلی محبت اور  کافی ہنگامے کے بعد بھی وہ کچھ نہ بولی تو مما نے حکم دیا۔
"سچ بولو نہیں تو چپ چاپ نکاح پڑھوالو اور انشراح وہ حیران اور ششد تھی کہ وہ کیوں اس بے وفا کا سچ نہیں بتا پا رہی۔ وہ کیوں نہیں بول دیتی کہ محبت میں شرک نہیں ہوتا۔
جانے نبیل کا جھکا سر تھا یا دل میں چھپی محبت انشراح نے نکاح کی حامی بھر لی۔ 
"آپ نے مجھے تھپڑ مارا ہے نا مما تو میری زندگی کی تباہی اس تھپڑ کی سزا ہوگی۔ "
نکاح دوبارہ پڑھایا گیا اور اس بار قبول کر لیا گیا۔ بہت ہی خاموشی بھرے ماحول میں سب نے کھانا کھایا احد نکاح ہوتے ہی چلا گیا۔ سب نے سوچا فل وقت اس کا چلے جانا ہی بہتر ہوگا۔
                      *******
 رات وہ کھڑکی میں کھڑی چاند پر لگا داغ دیکھتی رہی احد بھی تو ایسا تھا چاند سہ مگر داغ کے ساتھ.. کیا کوئی چاند بنا داغ کے ہو سکتا ہے انشراح نے اپنے حنائی ہاتھ پھیلا کر ان پر سوگوار حنا دیکھی۔
رات قطرہ قطرہ ڈھل رہی تھی۔ مگر نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ 
                  ********   
 سویا تو کوئی اور بھی نہ تھا ساری رات وہ سگریٹ پھونکتا رہا اسکی تصویر سامنے رکھ کے پھر غصے میں جلتی سگریٹ اسکی مسکراتی تصویر پر بجھا دی۔ جیسے لاشعوری طور پر اسکا خوبصورت چہرہ جلا رہا ہو۔ تب بھی اسکی انا کو سکون نہ ملا تو فوٹو فریم ایک ہی جھٹکے سے دور اچھال دیا۔ بہت سے ٹکڑوں میں تقسیم فوٹو فریم سے تصویر نکل چکی تھی۔ احد نے تصویر جھک کر اٹھائی اور بہت سے ٹکڑے ٹکڑے کر کے پھینک دی۔
"نہیں تھا قبول میرا ساتھ تو کہہ دیتیں یہ اتنے تماشے کی کیا ضرورت تھی۔کیوں مجھے خوش فہمی دی کہ میری بیسٹ فرینڈ مجھ سے محبت کرتی ہے"۔ احد ان ٹکڑوں پر چیخا ۔
تم تمہیں بہت بری سزا ملے گی انشراح تم نے میری مردانگی پر حرف اٹھایا ہے۔
                 ********
 کار فل سپیڈ سے روڈ پہ رواں تھی میوزک پلئیر اون تھا۔ صبح کے پانچ بج رہے تھے ٹریفک نہ ہونے کے برابر تھی۔
 آدھے گھنٹے کی ڈرائیو کے بعد کار ایک خوبصورت بنگلے کے سامنے رکی احد نے انگلی کے اشارے سے  چوکیدار کو بلایا جس نے پاس آتے اسے سلام کیا سر کے اشارے سے سلام کا جواب دیتے احد نے کچھ کہا۔ اور پیکٹ دیا۔۔
                        ******** 
 صبح کے نو بج رہے تھے۔ انشراح کالج جانے کو تیار تھی نبیل آج ضرورت سے زیادہ خاموش تھا وجہ انشراح کے چہرے پر چھائی پثمردگی اور سوگواریت تھی۔ بے دلی میں کارنفلیکس کے دو ہی چمچ لئے تھے، اور باؤل سامنے سے ہٹاتی اٹھی۔ "چلیں بھائی دیر ہو رہی ہے مجھے ڈراپ کر دیں۔" انشراح نے کہا۔ 
"پہلے ٹھیک سے کچھ کھالو" ثانیہ نے نرمی اور محبت سے کہا۔ عمر اور حارث نے بھی چونک کر دیکھا۔ "میں کھا چکی ہوں جو کھانا تھا"۔ انشراح نے جتا کر کہا۔ اس کا اشارہ کل آسیہ سے کھائے تھپڑ کی طرف تھا۔ نبیل نے بے ساختہ اسے روکا۔
"میری بیٹی میرے ہاتھ سے بھی نہیں کھائے گی کیا؟" نبیل نے لقمہ بھر کر اسکے سامنے کیا۔ چند لمحے وہ اپنی سرمئی آنکھوں سے لقمہ دیکھتی رہی نبیل نے لقمہ واپس رکھا۔ "میرا بھی دل نہیں ہے بریک فاسٹ کو" کہتے وہ اٹھا۔" مجھے بھی بھوک نہیں ہے۔" عمر بھی کھڑا ہوا۔ "میں نے کل کچھ زیادہ کھا لیا تھا ابھی بلکل موڈ نہیں" حارث نے کہا۔ "مجھے بھی آفس ڈراپ کردو" جبران صاحب نے کہا۔   
"مجھے بھوک لگی ہے" سب کو بھوکے پیٹ اٹھتے دیکھ انشراح نے کہا آواز میں نمی گھلی تھی۔ " مجھے کھلا دیں بھائی " انشراح نے کسی بچے کی طرح کہا۔ انشراح نے منہ کھولا تو باری باری تینوں بھائی اسے کھلاتے گئے، ان تینوں کے ساتھ ہنستی وہ اپنی زندگی کی تلخ حقیقت کو کچھ پل بھول ہی چکی تھی۔ ثانیہ نے شکر کیا وہ ہنسی تو ورنہ کل سے بھوکی پیاسی خاموشی سے کمرے میں بند تھی۔ انشراح ہی تو اس گھر کی رونق انکی جان تھی۔
آسیہ کی نظر دروازے میں ایستادہ احد پر گئی۔ وہ بے ساختہ بولیں۔ "آؤ نا احد وہاں کیوں کھڑے ہو" آسیہ کی بات پر انشراح کی ہنسی چند پل میں غائب ہو گئی مسکراتے لب سکڑ گئے۔ اسکی سرمئی آنکھوں میں خواب ٹوٹنے کا درد تھا۔ " چلیں بھائی" وہ کتابیں سمیٹتی احد کی طرف دیکھے بنا بولی۔ "انشراح ابھی رک جاؤ" آسیہ نے سخت لہجے میں کہا۔"مجھے لیٹ ہو رہا ہے چلیں بھائی۔"
احد نے ایک خفا نظر انشراح پر ڈالی اور نبیل سے مخاطب ہوا۔ " نبیل بھائی آپ کی اجازت ہو تو انشراح کو میں ڈراپ کردوں" اس غیر متوقع بات پر انشراح کا تن بدن سلگ اٹھا۔
"میں آپ کے ساتھ نہیں جا سکتی۔" وہ جتا کر بولی۔           
انشراح کی بات پر سب شرمندہ ہو گئے۔ سب سے زیادہ شرمندگی نبیل کو ماں کی آنکھیں دیکھ کر ہوئی تھی۔ انشراح نبیل سے پندرہ سال چھوٹی تھی اور گھر کا سب سے چھوٹا فرد تھی اس لئے وہ سب کی بے حد لاڈلی  تھی۔کچھ وہ نخریلی تھی۔ شائد ہی کوئی ایسی نند ہو جو بھابی کی گود میں چڑھ کر پیار وصول کرتی ہو۔ انشراح ہر کسی کی لاڈلی تھی مگر نبیل کے لئے وہ اسکی بیٹی تھی۔ پری کے پیدا ہونے کے بعد بھی وہ انشراح کواپنی بڑی بیٹی سمجھتا تھا۔ اسکی محبت اور خلوص میں کوئی فرق نہ آیا تھا۔ 
نا ہی ثانیہ کو کبھی انشراح سے کوئی جلن یا حسد ہوا۔ وہ خود بھی اسے بیٹی اور دوست کی طرح محبت کرتی۔
نبیل نے انشراح کی طرف دیکھا جس کی آنکھوں میں التجا تھی۔ وہ بس رو دینے کو تھی اور نبیل سے کب اسکے آنسو دیکھے جاتے تھے۔      
نبیل ایک دم کھڑا ہو گیا۔ تم بیٹھو احد بریک فاسٹ کرو میں انشراح کو ڈراپ کر دوں گا۔
" مگر نبیل بھائی آپکو نہیں لگتا انشراح اب آپ کی نہیں میری ذمہ داری ہے۔ " 
نبیل نے چونک کر انشراح کی خفا سرمئی آنکھوں اور پھر احد کے مسکراتے لبوں کو دیکھا۔ وہ اس طرح کیوں رویہ اختیار کئے تھا جیسے کل کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ کیا واقع سب کچھ نارمل تھا۔ کیا اسے اس بے عزتی سے فرق نا پڑتا تھا جو انشراح کے نفی نے اسکی ذات پر سوال بن کر کی تھی۔ 
"ٹھیک ہی ہے نا احد ہی انشراح کو لے جائے گا وہ اب اسی کی امانت ہے" آسیہ نے انشراح کو جتایا کہ وہ اپنی زندگی پر اب اکیلی حق نہیں رکھتی۔ 
انشراح نے کسی بھی طرف دیکھے بنا سپاٹ چہرے سے جھک کر باپ اور بھائیوں سے پیار لیا۔
"دھیان سے جانا کچھ بھی ہو مجھے فورا کال کرنا۔" نبیل نے اسکی پیشانی پر پڑے بل دیکھ کر کہا۔ 
"میں کوئی غیر تو نہیں دھیان سے لے کر جاؤں گا نا انشراح کو" احد نے کہا۔ انداز استحقاق سے بھرپور تھا۔ " مسز کالج جانے کے لئے اور کتنا ملو گی بھائی سے واپس ابھی یہیں آنا ہے بھگا کر یا رخصت کروا کے نہیں لے جا رہا" 
انشراح پہ اسکے اتنے بے باک رویے پے گھڑوں پانی پڑ گیا۔۔اسے کم سے کم احد سے ایسی تفریحی کی امید نہ تھا۔ وہ غم وغصے سے سرخ ہو گئی۔ اسے احد کا مسز کہنا توہین آمیز لگا۔ 
                        ******
 "آپ کو آئندہ کسی کے سامنے مجھ سے بے ہودہ گفتگو کرنے کی ضرورت نہیں آپ شائد کسی خوش فہمی کا شکار ہوں مگر میں ہرگز نہیں ہوں۔"کار میں بیٹھتے انشراح نے کہا۔ 
احد کے چہرے پر بے ساختہ مسکراہٹ آ گئی۔ "یعنی اکیلے میں بے ہودہ گفتگو کر سکتے ہیں؟" احد نے اس کی بات سے مطلب نکالا۔
انشراح اسکی بات پر سلگ کر بولی۔" مائنڈ یو میجر صاحب انشراح جبران کی طرف کوئی آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھ سکتا آپ حد سے زیادہ خوش فہمی کا شکار ہیں۔"
احد یک دم قہقہہ لگاتے ہنس دیا۔ " میں خوش فہمی کا شکار ہوں یا مسز آپ خوش فہمی کا شکار ہیں جنگل میں رہ کر شیر سے دشمنی مول نہیں لیتے۔" کار ایک جھٹکے سے کالج کے سامنے رکی انشراح کی پیشانی ڈیش بورڈ کے ساتھ ٹکرائی وہ کراہتی سیدھی ہوئی۔ خون کی ننھی بوند ڈیش بورڈ پر تھی انشراح نے اپنی انگلیوں کی پوروں سے پیشانی چھو کر دیکھا تو خون کی چند بوندیں نکل رہی تھیں۔  احد نے ٹشو باکس سے دو ٹشو نکال کر بنا اسکی طرف دیکھے سامنے کئے۔ "میرا خیال ہے اب آپ سمجھ چکی ہیں کہ ہم دونوں کسی خوش فہمی کا شکار نہیں ہیں۔"
انشراح اس کا ہاتھ جھٹکتی کار سے نکلی۔اور بر خستہ بولی"آپ کسی خوش فہمی کا شکار ہوں یا نا ہوں۔ مگر میں کسی غلط فہمی کا شکار ہر گز نہیں ہوں یہ تو وقت ہی بتائے گا کون شیر ہے اور گیدڑ" انشراح بول رہی تھی مگر احد کی نظر کالج کے گیٹ کی طرف تھی جہاں ایک لڑکی کھڑی مسکراتے اسی کی طرف دیکھ رہی تھی۔ انشراح نے اسکی نظر کے تعاقب میں دیکھا تو سلگ اٹھی وہ احد کے سامنے ہارنا نہیں چاہتی تھی وہ اپنے آنسو پیتی اندر کی طرف چلی گئی سر کا درد مزید بڑھنے لگا۔
                 *******  
Episode#2
خوشبو دھنک کی 
صبح سے ہی حنا کالج میں انشراح کی مستقل خاموشی نوٹ کر رہی تھی، "کیا یہ مجھ سے خفا ہے مگر کیوں؟حلانکہ خفا مجھے ہونا چاہیئے تھا۔"
 اجب تیسرے پیریڈ تک بھی انشراح خاموش رہی تو حنا کا صبر جواب دے گیا۔ "تم مجھ سے کیونکر خفا ہو انشراح نکاح تم نے چھپ چھپا کر کیا ایک بار بھی اپنی بچپن کی بسٹ فرئنڈ کو نہ بتایا اب ہو گیا ہے تو بتا کر اس طرح چپ ہو جیسے کسی کے جنازے کا اعلان تھا کیا ہو گیا ہے ٹھیک ہے میں نہیں ناراض ہونگی تم اسی ڈر سے چپ ہو نا؟" اپنی طرف حنا دور کی کوڑی لائی تھی۔ 
"انشراح تم بہت خوش نصیب ہو تمہاری زندگی میں وہی ہے جس کی ہمیشہ تم نے چاہ کی تھی۔ ناراض تو مجھے ہونا چاہیئے مگر ایسا لگ رہا ہے میں نہیں تم ناراض ہو۔،
میں نے تم جیسا نا شکرا انسان نہیں دیکھا، اگر تمہاری جگہ میرا نکاح ہوا ہوتا اور میں انشراح ہوتی تو یقین مانو میں تو خوشی سے پاگل ہو جاتی۔"
حنا کی بات پر انشراح نے کچھ دیر کے لئے اپنا جھکا سر کتاب سے اٹھایا اور لکچر دیتے سر جنید کو دیکھا۔
 "تم بھی ان خوش نصیبوں میں شامل ہو جاو۔ اور اللہ کا شکر ادا کرو!۔  کہو تو ابھی سر سے بات کروں" انشراح نے دانت پیستے کہا۔
حنا شرارت سے مسکرائی، اور بولی۔ "نیکی اور پوچھ پوچھ ہائے مر ہی نہ جاوں تمہاری سادگی پر" حنا مصنوعی شرماتے کتاب میں منہ چھپانے لگی۔ 
سر جنید کا دھیان انشراح کی طرف گیا وہ لکچر لکھنے میں مصروف تھی اور اس کے ساتھ بیٹھی حنا منہ چھائے بیٹھی تھی۔
 " انہیں کیا ہوا ہے"؟ سر جنید کی بے حد سنجیدہ آواز کلاس میں گونجی۔
 سر جنید کی بات پر حنا کو کرنٹ سہ لگا، اسکا جھکا سر مزید جھک گیا۔
جبکہ انشراح نے حیرت زدہ تاثرات چہرے پر لاتے  جھک کر تشویش سے حنا کو دیکھا۔ اور دو سیکنڈ بعد سیدھی ہوتی بولی سر یہ تو رو رہی ہے۔!
"ہیں؟؟؟ کیا کہہ رہی ہو انشراح کی بچی کہاں پھنسا رہی ہو۔" حنا نے اندر حیرانگی سے سوچا۔
"آپ کیوں رو رہی ہیں کیا لکچر سمجھ نہیں آ رہا؟" سر جنید نے لکچر کی کتاب بند کرتے سنجیدگی سے کہا۔ 
حنا کو سچ مچ رونا آیا۔
"لعنت ہو تم پر انشراح تم دوستی کے قابل ہی نہیں ہو۔" حنا نے آنسو پیتے دل میں کہا۔
"سر وہ دراصل حنا کو اپنا منگیتر پسند نہیں وہ کسی اور سے منگنی کرنا چاہتی ہے، بچاری بہت افسردہ ہے۔" انشراح نے ہمدردی بھرے لہجے میں کہا۔ 
 سر جنید کا چہرہ چند سیکنڈ کے لئے دھواں دھار ہو گیا۔ وہ چند منٹ حنا کے جھکے سر کو گھورتے رہے پھر کتاب زور سے ٹیبل پر مار کر حنا کے پاس گئے۔
"مس حنا آپ کالج کا ماحول خراب مت کریں اپنے پرسنل ایشو گھر چھوڑ کر آیا کریں۔ یہ باتیں دوستوں سے نہیں اپنے والدین سے کرنے کی ہیں۔ میری کلاس میں تو بلکل بھی اپنے پرنسل نہ لایا کریں، آپ جیسی زہین سٹوڈنٹ سے مجھے ایسی حرکت کی امید نہ تھی پتہ نہیں کیا ہو گیا ہے آج کی جنریشن کو پیار محبت عشق منگنی شادی بچے انکے علاوہ کچھ رہ ہی نہیں گیا انکی لائف میں۔ اگر منگیتر نہیں پسند تو یہ خالص آپ کا ذاتی معاملہ ہے ناکہ انشراح کا یا ہم سب کا، مہربانی کریں پہلے اپنی ذاتی مسائل سے نکل آئیں پھر پڑھائی کی طرف توجہ دیں۔" سر جنید کی بات جاری تھی۔۔۔
حنا یک دم اٹھی اسکا چہرہ مارے توہین کے سرخ ہو رہا تھا اور آنکھیں کی سمندر کی طرح بہہ رہی تھی۔ وہ کتابیں اٹھا کر کسی بھی طرف دیکھے بنا کلاس سے باہر نکل گئی۔ 
 یک دم سر جنید اسکی غیر اخلاقی حرکت دیکھتے ہوئے حیرانگی سے چپ ہوئے۔ کلاس میں موت سی خاموشی تھی۔
جبکہ انشراح پریشان ہو گئی وہ نہیں جانتی تھی بات اس قدر بڑھ جائے گی۔ "سر وہ" انشراح نے کچھ کہنا چاہا۔
مگر سر جنید نے ٹوک دیا۔
دس منٹ بعد مجھے یہ لڑکی پرنسپل آفس میں ملے ۔"  
سر جنید کی بات پر انشراح پیشانی پر ہاتھ مار کر رہ گئی۔۔" اللہ کہاں پھنس گئی میں ہر غلط کام مجھ سے ہی کیوں ہوتا ہے۔اب میں کس منہ سے سر کو سچ بتاؤں گی۔ "
                          *********   
پرنسپل کے آفس میں انشراح اکیلی آئی تھی۔ دو بار حنا کو کہنے پر بھی وہ ٹس سے مس نہ ہوئی تو انشراح ارادہ تھا کہ وہ سر کے سامنے اپنی غلطی مان کر معافی مانگ لے پھر جو بھی ہوئی دیکھی جائے گی۔
"آپ کی دوست نہیں آئی اصولی طور پر تو انکو آنا چاہیئے تھا۔"   سر جنید نے پوچھا۔
 "سر وہ۔۔۔۔۔"
 انشراح نے زبان سے تھوک نگلا، اور چہرے سے چند آوارہ لٹئیں ہٹائی۔ 
"یہ آپکی پیشانی پر کیا ہوا ہے؟" 
 یک دم جنید کو ہلکا سہ زخم نظر آیا وہ تفکر سے اٹھے۔
 "وہ صبح زرا سہ لگ گیا تھا۔" انشراح اتنا ہی کہہ سکی۔
"آج کل کی لڑکیاں اپنا بلکل دھیان نہیں رکھی یہ ٹیوب لگا لیں۔"پرنسپل کے دراز سے ٹیوب نکالتے انہوں نے دی۔
"تھنک یو سر" انشراح نے ٹیوب کھول کر اپنی پیشانی پر لگانی چاہی 
"یہاں سے تھوڑا اس طرف" سر جنید نے کہا۔ 
"یہاں" انشراح نے انگلی گھما کر کہا "مگر درد تو یہاں ہے۔" سر جنید اسکی بات سے مسکرائے۔
"سر میں چوٹ لگے تو درد کہیں بھی نکل آتا ہے بچے لائیں میں لگا دیتا ہوں" سر جنید نے کہا۔
"نہیں اٹس اوکے سر مجھے اب درد بھی نہیں" انشراح نے ٹیوب ٹیبل پر رکھتے کہا۔
"میں کھا نہیں رہا آپکو، آپ میری چھوٹی بہن کی طرح ہیں۔اور استاد روحانی باپ بھی تو ہوتا ہے۔" سر جنید نے ٹیوب کھول کر لگانی شروع کی۔ 
حنا کے ساتھ مزاق میں ہی سہی مگر زیادتی ہوئی جو بھی تھا وہ بد تمیز تو نہ تھی۔ کم سے کم ایک ٹیچر کی بات تو سن ہی سکتی تھی۔احساس ہونے پر وہ انشراح کے پیچھے پرنسپل آفس میں داخل ہوئی۔ یک دم انشراح کے چہرے جنید کو جھکے دیکھ کر حنا کی سانس اٹک گئی۔ ایک صدمے سے بھرپور چیخ حنا کی نکلی۔
 "ہائے میں مر گئی اللہ"
 انشراح ڈر کر پیچھے دیکھنے لگی۔ مگر حنا دونوں ہاتھ منہ پر رکھے نفی میں سر ہلا رہی تھی۔ "میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی میری بسٹ فرئنڈ اور آپ۔۔۔" حنا نے انگلی سر جنید کی طرف کر کے کہا۔
"حنا آپ غلط سمجھ رہی ہیں" جنید نے گڑبڑا کر کہا۔
 مگروہ بات سنے بغیر اچانک بھاگ گئی۔
 انشراح کو افسوس نے ان گھیرا وہ شرمندہ سی اپنی شرارت جنید سر کو بتا رہی تھی البتہ حنا کی پسندیدگی والی بات وہ گول کر گئی۔ 
"اوہ تو یہ آپکی شرارت تھی" سر جنید نے منہ گول کرتے کہا اور انشراح کو گھورا۔
"آپ کو ایسا نہیں کرنا چاہئے تھا حنا کو کس قدر انسلٹ فئیل ہوئی ہو گی میں نے سب کے سامنے بہت زیادہ سنا دی ۔"
"اٹس اوکے سر وہ تو مزاق تھا وہ سمجھتی ہے مگر ابھی جو ہوا" انشراح نے کچھ سوچتے کہا۔
 "آپ جا سکتی ہیں یک دم رخ پلٹتے سر نے کہا انشراح حیران ہوتی باہر آ گئی۔
                         *********  
اپنے لئیر کٹ سلکی بھورے بالوں کی اونچی پونی کئے، ہونٹ مہرون لپ اسٹیک سے رنگے ہونے آنکھوں میں بھر بھر کر کاجل لگایا کر وہ گلاس ونڈ سے نظر آتی برسات دیکھ رہی تھی۔ بھاپ اڑاتی کافی کب کی سرد ہو چکی تھی سفید جنیز پر ریڈ سیلو لیس ٹوپ پہنے وہ سرد موسم میں آج بھی جل رہی تھی آنکھوں میں اس قدر خفگی کہ ابھی وہ کچھ کر لے گی۔ 
اپنے مہرون لپ سٹیک سے رنگے ہونٹ وہ بار کچلتی اسے لگتا وہ بارش کی طرح ابھی برسنے لگ جائے گئی۔ اسے باہر سے اپنا شوہر آتا دیکھائی دیا وہ کافی کا مگ رکھتی بھاگ کر اسکے شانے سے جا لگی۔
 "اب آ رہے ہو"؟  وہ اسکا چہرہ اپنے ہاتھوں میں لئے پوچھ رہی تھی۔ "ساری بارش ختم ہو گئی۔" وہ شکوہ کر رہی تھی یا محبت جتا رہی تھی وہ سمجھ نہ سکا۔ 
"وہ انشراح کو پکوڑے پسند ہیں تو وہی دینے گیا تھا۔" انشراح کے نام پر روبیل کی پیشانی پر بل پڑ گئے۔ " انشراح، انشراح، انشراح اس انشراح کا کانٹا ہماری زندگی سے کب نکلے گا۔؟ مجھے بھی تو پکوڑے پسند ہیں اور میں بیوی ہوں تمہاری! کہاں پکوڑے؟" 
روبیل نے اسکے ہاتھ کھول کر دیکھے روبیل کا شوہر اسے گھورنے لگا۔
"میں نے جس وقت نکاح کیا تھا تمہیں پہلے ہی کہہ دیا تھا یہ نکاح صرف تمہاری ضد تھی میں انشراح سے محبت کرتا ہوں اور اب تو تم اسے کوئی بات کرنے کا حق نہیں رکھتی کیونکہ وہ اب میری۔۔۔"
وہ بات مکمل نہیں کر پایا تھا روبیل نے اسکی بات کاٹ دی۔ 
"اٹس اوکے میں ہمارے لئے آڈر کرتی ہوں۔" وہ  اسکا غصہ ختم کرنے کو بولی۔" روبیل کے شوہر نے گھر میں نظر دوڑائی سارا گھر خالی تھا۔ جب کوئی نظر نہ آیا تو روبیل سے پوچھا "ساس کہاں ہیں میری زرا ان سے بھی مل لوں"۔
 روبیل نے فون پکڑ کر فوڈ سٹریٹ کا نمبر ملایا اور سرسری سہ بولی۔" ممی گھر نہیں کام سے گئی ہیں۔"
"اور میری بیٹی؟" وہ صوفے پر گرتے پوچھ رہا تھا۔
"سو رہی ہے۔" روبیل نے مسکرا کر کہا۔ 
                            ******* 
حنا نے بیڈ پر ٹیک لگا ایف ایم اون کیا ایف ایم پر روشنی کی خوبصورت آواز گونج رہی تھی۔ " تمہیں دل لگی بھول جانے پڑے گی۔ کبھی دل کسی سے لگا کر تو دیکھ۔ آنسوؤں کی برسات جاری تھی۔ 
بار بار اسکے سامنے پرنسپل آفس کا وہ منظر آتا۔ 
"آئی ہیٹ یو انشراح تم ایسی ہو گئی سوچا بھی نہ تھا، اب سمجھی تم احد بھائی سے نکاح پر کیوں خوش نہیں تھی۔ تمہیں ڈاکا ڈالنے کے لئے میری ہی محبت ملی تھی۔ تم تو کہتی تھی تم احد بھائی کو لائک کرتی ہو۔اور سر کو دیکھو کیسے مجھے سب کے سامنے کیا کیا بول دیا۔" 
حنا نے کشن اٹھا کر غصے سے دروازے کی طرف پھینکا اور اندر آتے کسی کے منہ پر لگا۔ 
"ہائے اللہ یہ کیا ہو گیا۔ ابا کا بھتیجا جمع نیا نویلا منگیتر، " حنا نے آنے والے کو دیکھ کر بڑبڑاتے کہا۔ فورا ہینڈ فری اتاری اور واش روم کی طرف بھاگی ناک سہلاتے آنے والے نے باتھروم کے بند دروازے کو گھورا۔ 
"پاگل لڑکی اس طرح اپنے کمرے میں منگیتر کا ویلکم اس طرح کرتے ہیں۔ ناک ہی توڑ دی میری۔" 
                              *******
"انشراح نہیں کھانے پر آئی؟" سب کے بیٹھنے کے بعد نبیل نے پوچھا۔
"میں دیکھتی ہوں" ثانیہ نے کہا۔ 
"نہیں پری اور شہاب کو کھلا دو اور آپ سب کھانا شروع کریں میں اپنی گڑیا کو دیکھتا ہوں" نبیل نے کہا اور اٹھ کر انشراح کے کمرے میں گیا۔
انشراح چت لیٹے چھت کو گھور رہی تھی۔ دکھ اور سوچ کی پرچھائیاں اسکے چہرے پر پھیل رہی تھی۔ "میرے بچے کو بھوک نہیں لگی؟" نبیل نے اسکے پاس بیٹھتے کہا۔
 "بھائی آپ کھانا چھوڑ کر کیوں آ گئے؟ میں آنے ہی والی تھی،" انشراح نے اٹھ کر بیٹھتے کہا اور چہرے پر جھوٹی مسکراہٹ سجائے جھوٹ بولا۔
"پہلے کبھی اپنے بچے کے بنا کھایا ہے؟ جو آج کھا لیتا؟۔"
 بیڈ سے اٹھتے نبیل نے ہاتھ انشراح کے سامنے پھیلایا اور انشراح نے ہاتھ نبیل کے ہاتھ میں دیا۔ 
"ایم سوری بھائی آئندہ خیال رکھوں گی۔" انشراح نے بال دوسرے ہاتھ سے سمیٹے جبھی نبیل کو اسکی پیشانی پر داغ نظر آیا۔ "یہ کیا ہوا ہے گڑیا اور مجھے کیوں نہیں بتایا ؟"
وہ یک دم پریشان ہوا اور انگلی سے زخم چھوا۔ "سسی مت کریں۔" انشراح نے درد سے کہا۔ 
"چلو ڈاکٹر کے پاس چلتے ہیں۔" نبیل نے کہا۔ 
"میں ٹھیک ہوں بھائی بس زرا پیر موڑ جانے سے گر گئی تھی،کریم لگائی تھی اب ٹھیک ہوں۔" انشراح نے بھر پور تسلی دی۔ مگر نبیل نے اسکی ایک نہ سنی اور ڈاکٹر کے پاس لے گیا۔
                               ********
روبیل نے اپنے شوہر کو کال ملائی مگر نمبر مسلسل بزی آ رہا تھا۔
اسکی ماں نے روبیل کو دیکھتے کہا۔
"مت کرو کال کون جانے وہ انشراح کے ساتھ ہو۔ تبھی تو فون نہیں اٹھا رہا، ایسی بھی کیا مصروفیات انسان بیوی کا فون ہی نہ پک کر سکے۔؟" 
اپنی ماں کی بات پر اشتعال میں آتے روبیل نے اپنا فون سامنے دیوار پر دے مارا۔ 
"وہ انشراح کے پاس نہیں جا سکتا آپ نے سنا ؟ وہ میرا ہے! اور میرا ہی رہے گا۔! سمجھی آپ؟" انگلی اٹھا کر وہ تنبیہ کرتی اپنے کمرے میں گئی۔ "ہونہہ خوش فہمی تو میڈم کی دیکھو " روبیل کی ماں نے بند دروازے کو گھورتے کہا۔
                            *********
"یار کو کیا کہیں ایسی بے رخی پر۔
اس پر ججتی ہے بے رخی۔
اس پر ججتا ہے غرور۔
وہ حق رکھتا ہے منہ موڑنے کا۔
دل جلانے کا۔
دل توڑنے کا۔"
ایف ایم پر روشنی کی درد بھری آواز گونجی۔
رومیو نے کال ملائی۔
"ویلکم ٹو مائے شو یور ہوسٹ از روشنی" وہ اپنی ازلی زندہ دلی سے مخاتب تھی۔
" مجھے میری وائف کو سونگ ڈیڈیکیٹ کرنا ہے۔" دوسری طرف کچھ بے زاری سے کہا گیا۔
" تو جلدی سے اپنا نام اپنی وائف کا نام اور سونگ بتائیے تاکہ آپکا محبت بھرا پیغام آپکی پیاری مسز تک پہنچ جائے،
"ہوں میرا نام رومیو ہے میری وائف کا نام جیولیٹ ہے اور لمبی جدائی سوئنگ پلے کرنا ہے۔" 
رومیو کی فرمائش پر روشنی نے کالر کو مائیک سے گھورا جیسے وہ اس مائیک میں ہو۔ اور سوئنگ پلے کرنے لگی۔ سوئنگ ختم ہو گیا اگلی کال آ رہی تھی۔
"ہاں جی تو نیکسٹ کالر ہیں ہمارے ساتھ  تو کون ہیں اور کہاں سے کہاں سے کیا فرمائش ہے آپکی۔" روشنی نے کہا۔ 
"میں رومیو مجھے میری وائف جولیٹ کے لئے سوئنگ پلے کروانا ہے۔" ایک دفعہ پھر رومیو کی آواز سن کر روشنی نے دانت پیسے۔ 
" آپ کی جولٹ آپکی گرل فرینڈ نہیں وائف ہے گھر جا کر تمام سوئنگ رو بہ رو سنا دیں" روشنی نے کہا۔
"جی مجھے لمبی جدائی پلے کروانا ہے" رومیو نے ایسے کہا جیسے روشنی نے سوئنگ کا نام ہی پوچھا تھا۔
"سٹوپڈ پاگل آدمی لگتا ہے" سوئنگ لگاتے روشنی نے کال ڈسکنکٹ کی۔
                              ********
"رومیو" آفسر عبدللہ نے گہری سوچ میں ڈوبے رومیو کو پکارا 
 "جی سر؟" رومیو نے فون سے گیلری بند کرتے کہا۔
" تم اس میشن پر جانے کے لئے ذہنی طور پر تیار نہیں ہو؟ تم نے گھر بات کر لی اپنی ماں اور بیوی سے؟" آفسر عبدللہ نے پوچھا۔
" میری ماں بہت مظبوط عورت ہے سر وہ میرے باپ میرے بڑے بھائی کو اس ملک کے لئے قربان کر چکی ہے وہ جب بھی زندہ ہے صبر کر چکی ہے!، میرے علاوہ میرا ایک بھائی اور بھی ہے اسکے کے جینے کی وجہ وہ پھر سے صبر کر لے گی، اور ہو سکتا ہے مجھے شہادت ہی نہ ملےمیں لوٹ آؤں؟" رومیو نے بات ہی ختم کر دی۔
" رومیو وہاں سے زندہ واپس آنا ناممکن سہ ہے کوئی معجزہ ہی تمہیں واپس لا سکتا ہے، اور تمہیں اپنی بیوی کو سب بتانا ہوگا" آفسر عبدللہ نے کہا۔
" ہاں میں بات کرلوں گا ابھی تو جانے میں بہت وقت ہے تقریبا چھ مہینے یا اس سے بھی زیادہ وقت جب تک ہماری تمام کاروائی مکمل نہیں ہوتی میں کیسے جا سکتا ہوں اور ہم یہ نہیں جانتے کب ہماری تیاری مکمل ہو۔ پھر ہی میشن پر جاوں گا۔ اتنی دیر پہلے اسے کیوں مشکل میں ڈالوں کے دن رات مجھے موت کی طرف بڑھتا دیکھ اسکی وطن سے محبت ختم ہو جائے گی" افسردگی سے رومیو نے کہا۔
" ایک مجاہد اور محافظ کی بیوی کو کبھی وطن سے نفرت نہیں ہو سکتی ایسا ممکن ہی نہیں اسکے دل میں اس جگہ کی محبت نہ ہو! جہاں کی مٹی سے محبت کرتے اس کی سب سے قیمتی متع حیات کھو جائے۔" آفسر عبدللہ کی بات پر رومیو اثبات میں سر ہلاتے اٹھا۔ 
"میں بات کرلوں گا مگر جانے سے پہلے میں یہ ریسک نہیں لے سکتا کہ میرا 'روس' جانا لیک ہو جائے اور خطرہ مزید بڑھ جائے" آفسر عبدللہ جانتے تھے وہ کافی ڈھیٹ طبعیت کا بندہ ہے۔اور اسکی بیوی سوفٹ ہارٹ۔ اس لئے "تمہاری مرضی" بول کر خاموش ہو گئے۔ رومیو اٹھ کر اندر چلا گیا۔ 
"بہت غلط کر رہے ہو ان سب کو اندھیرے میں رکھ کر رومیو کبھی یہی غلطی مجھ سے ہوئی تھی میں تو غازی بن گیا مگر میرا بیٹا اور بیوی؟ وہ چلے گئے ہمیشہ کے لئے، جہاں مجھے جانا تھا اب صرف پچھتاوا باقی ہے۔ چلے جانے والے تو واپس نہیں آتے مگر ہمارے لئے عبرت چھوڑ جاتے ہیں مگر ہم لوگ پھر بھی عبرت نہیں پکڑتے۔، جانے تم میں میری عادتیں کیسے آ گئی حلانکہ میری تو گود میں تم اتنا کھیلے بھی نہیں۔ بہت دیر ہو گئی مجھے گھر بد ہوئے شائد تم چار سال کے تھے۔" عبداللہ سوچوں کے  بھور میں کھونے لگا۔
                        *******
عمر آفس میں بیٹھا کام کر رہا تھا جبھی ایک خوبصورت لڑکی آفس میں داخل ہوئی۔ 
فائل سامنے رکھتے وہ تھوڑی کے نیچے ہاتھ جمائے عمر کی توجہ ملنے کی منتظر تھی۔" کچھ کہنا ہے آپ کو مس عالیہ؟" وہ دیکھے بنا مصروف سے انداز میں بولا۔
"میرے گھر والے میری شادی کر رہے ہیں میری خالہ کینیڈا سے واپس آ چکی ہیں۔" ایک ہی سانس میں موضع بیان کیا گیا۔ اور عمر کی کی بورڈ پر چلتی انگلیاں رک گئی۔ وہ عالیہ کی طرگ دیکھنے لگا۔ عالیہ مسکرائی۔ ایسے مت دیکھو تمہیں کارڈ بھیجوا دوں گی۔"
عمر نے بےیقینی سے دیکھا۔ "عالیہ میں نے تمہیں منع کیا تھا اور پھر تم چاہتی تھی پہلے انشراح کی شادی ہو پھر ہی تم منگنی کی ہامی بھرو گی۔ میں صرف تمہاری اس ڈیمانڈ کی وجہ سے رشتہ نہیں بھیجا اور اب تم میرے ساتھ یہ کر رہی ہو؟ پچھلے پانچ سال سے ہم ریلیشن میں ہیں تم اپنی مرضی سے اب تک اپنے پرینٹس کے گھر تھی۔" 
عالیہ مسکرائی عمر تم چاہتے تو انشراح کی رخصتی بھی ہو جاتی مگر تم لوگوں نے اسکا صرف نکاح کر دیا۔ اور میں ثانیہ بھابی جیسی بیوقوف عورت نہیں ہوں۔ میرا شوہر میرے سامنے اکلوتی بہن کو اپنے ہاتھ سے کھلائے اس کے ناز نخرے اٹھائے اسے گود میں لئے لئے پھرے یہ بات کوئی عورت نہیں برداشت کرتی میں انشراح کی دشمن نہیں ہوں۔ مگر روایتی بھابی بھی نہیں ہوں۔ میں سسرالیوں کی خدمت کرتی رہوں یہ اولڈ ورژن مجھے فیسی نیٹ نہیں کرتا۔ میرا نہیں خیال ایسی کوئی احادیث ہے کہ بیوی کو اگنور کر کے بہن کو کھلانا اسکے بوسے لینا یہ کسی قسم کی عبادت فرض یا عقیدت ہے۔ میں اپنی زندگی کسی ڈریم ورلڈ کی طرح جینا چاہتی ہوں ساس نند ان کے نخرے میرے بس کی بات نہیں۔ تم جانتے ہو میری خالہ کا اکلوتا بیٹا ہے۔"
عالیہ کی پوری بات عمر نے تحمل سے سنی۔ 
"عالیہ انشراح نہ ہی روائتی نندوں جیسی ہے نا میری ماں روائتی ساس۔! اور ثانیہ بھابی بیوقوف تو بلکل نہیں ہیں وہ بہت اچھی نیچر کی دھیمے مزاج کی لڑکی ہیں۔ اور نبیل بھائی جیسے لوئنگ بندے کے لئے بیسٹ بھی ہیں۔ وہ انہیں اور ہمارے گھر کو سوٹ کرتی ہیں۔ اور رہی بات رخصتی کی تو انشراح ابھی صرف اٹھارہ سال کی ہے۔ بچی ہے وہ ہم تینوں بھائیوں کی بیٹی کی طرح ہم لوگ اسکا بچپن خراب نہیں کر سکتے نا ہی اسکی معصومیت خراب کر سکتے ہیں۔ تمہیں تمہارا ڈرئم ورلڈ تمہیں مبارک ہو تم چاہو تو خود کارڈ دینے آ جانا۔ میں ایسی عورت کو غلطی سے دل میں جگہ تو دے سکتا ہوں، جو میری بیٹی جیسی بہن سے نفرت کرے مگر اسے اپنے گھر میں جگہ نہیں دے سکتا کیونکہ وہ گھر مجھ سے پہلے انشراح کا ہے اور وہ چلی جائے تب بھی اسی کا رہے گا۔ " بے رخی سے کہتے عمر نے دھیان دوبارہ کی بورڈ کی طرف کیا۔ چند منٹ عالیہ نے لب کاٹے اور عمر کی ٹیبل پر رکھی انشراح کی تصویر کو نفرت سے گھورا، "ایک دفعہ میری عمر سے شادی ہو جائے یہ انشراح نام کا پتہ نہ کاٹا تو میں بھی عالیہ نہیں۔ " وہ عمر کے سرخ چہرے کی طرف متوجہ ہوئی اور کھڑی ہوتے آہستگی سے بولی۔" ایم سوری عمر انشراح میری بھی بہن ہے مگر میں تمہیں کھونے سے ڈر رہی ہوں۔ تم کل اپنے پیرنٹس کو بھیج دینا" بنا عمر سے نظر ملائے عالیہ کہتی باہر نکل گئی۔
                    ***********   
انشراح آج بھی کالج جانے کے لئے تیار تھی جیسے ہی وہ کمرے سے باہر آئی سامنے احد بیٹھا نبیل سے دھیمی آواز میں بات کر رہا تھا اسے دیکھتے انشراح کو ایک بار پھر وہ منظر یاد آیا تو انشراح کا دھیان سیدھا احد کے اس ہاتھ تک گیا انشراح کو اس لڑکی لمس احد کے ہاتھ پر نظر آیا۔ انشراح کو اپنے گھر والے اپنے دشمن لگے۔ وہ تلخی سے وہاں کسی کو بلائے بنا گزرتی باہر کی طرف چلی گئی۔ 
"انشراح گڑیا نبیل فورا اسکے پیچھے گیا، بریک فاسٹ کے بنا جا رہی ہو اور وہ بھی اکیلی؟" نبیل خفا ہوا۔ 
" تو آپ کو کیا آپ باتیں کریں جس سے مرضی آپ کو میرا احساس تھا؟"وہ یہاں کیوں آئے ہیں ،وہ مجھے بہت برے لگتے ہیں ،زبردستی نکاح کر لیا اب تو وہ میری جان چھوڑ دیں" وہ کہتے ہوئے روہانسی ہو گئی۔ 
نبیل کو اپنی پیاری سی گڑیا پر بے حد ترس آیا۔ 
"میری مجبوری ہے گڑیا احد کو کچھ نہ کہنا۔ اس سے بات کرنا یہ جانتے ہوئے بھی کہ میری گڑیا کو احد بلکل پسند نہیں کیونکہ اب وہ صرف ہماری پھوپھو کا بیٹا نہیں میری گڑیا کا مستقبل بھی ہے اس لئے اسے پیار سے ڈیل کرتا ہوں۔" نبیل نے نرمی سے سمجھایا۔
مجھے وہ بلکل اچھے نہیں لگتے بھائی ان سے کہہ دیں مت آیا کریں۔" انشراح نے باہر آتے احد کو گھورتے کہا۔
جاری ہے۔
      

Comments