" بے وجہ ہی ڈھونڈتا ھوں "
از" مہوش منیر"
پارٹ 2
وہ سونے کی کوشش کررہی تھی ،ایک سکون تھا اپنے گھر کی
چھت تلے سونے کا ،تحفظ کا احساس تھا.
سائیڈ ٹیبل پر اسکا کلچ پڑا ہوا تھا.ایمان نے اسے کھولا
وہ جو ڈھونڈنا چاہ رہی تھی اسے نظر نہیں آیا اسکی نیند اڑ گئ.
اس نے ساری چیزیں بیڈ پر پھیلا دی ہاتھ ادھر ادھر مار
کر اسے وہ نمبر مل ہی گیا.
اس نے گہرا سانس لیا.وہ فون پر نمبر ملانے لگی ،کچھ دیر
ٹائپ ہوئے نمبر کو دیکھتے رہنے کے بعد کال ملانے کی بجائے اس نے فون پھر آف کردیا.
اب نیند کسے
آنی تھی،وہ کروٹیں بدلتی رہی اسکا دھیان پھر جھپاکے کی طرح اسکی طرف چلا گیا،وہ
اسے سوچ رہی تھی وہ اسے ہی سوچتی آئی تھی،اسے سوچتے رہنا کتنا اہم کام تھا .وہ شخص
بہت خاص تھا جس سے وہ خاموش محبت کرتی تھی. کچھ تھا اس میں بہت خاص ،کچھ تو تھا،جو
ہٹ کے تھا اس شخص کو دیکھتے ہی اسے احساس ہوتا تھا جیسے وہ اسکو جانتی ہو بات کرتی
ہو اسکی آواز کچھ ملتی جلتی تھی مگر کس سے وہ یہ سمجھنے سے قاصر تھی.
عورت
کے اندر ہر مرد کے ساتھ رہنے کی طلب نہیں جاگتی لیکن جسکے ساتھ رہنے کی طلب جا گے
پھر کسی اور کا سایہ بھی خود پر برداشت نہیں کرتی.
جب اسکو بھی خود پر کسی اور کا سایہ محسوس ہوا ،وہ ہر
چیز کا محافظ خدا کو بنا کر چلی گئ.
کچھ لمحے سخت پتھر کے ساتھ ٹکڑا جانے والی بازگشت جیسے
ہوتے ہیں دھونکنی کے ذریعے جسم میں داخل
ہوکر سارے جسم کو جلا ڈالنے والے.
رات کافی گہری اور روشن تھی،مگر چاندنی کبھی اداس کر دینے والی تھی،کبھی کچھ بہت خاص
لمحے کو روح میں منتقل کردینے والی.
ایمان اٹھ کر
کمرے کی بالائی طرف چلی گئ جہاں سے اسے اپنا لان نظر آرہا تھا .
اسکے عین اوپر ایمان کا کمرا تھا بھینی بھینی خوشبو
لیکن بہت کم اس تک پہنچ رہی تھی .وہ لمبے لمبے سانس لے کر اس خوشبو کو اپنے اندر
اتار رہی تھی.
وقت گزرنے کا نام نہیں لے رہا تھا.ایک ایک لمحہ مشکل سے
گزرہاتھا.
ایمان جن دروازوں کو اپنی طرف سے ہمیشہ کے لیے بند کرکے
گئ تھی وہ تو ابھی تک کھلے ہوئے تھے.
کبھی کبھی بے خبری کتنی خوشگوار ثابت ہوتی ہے وہ اس بات
کا اندازہ لگا چکی تھی.
" ایسا کیا ہے اس شخص میں جو میں اسکو دیکھنے کے
بعد کسی کو دیکھ نہیں پائی".
اب پھر وہ اسے
دیکھ چکی تھی اسکے دل میں واقعی اسے دیکھنے کی طلب تھی مگر کیوں ........
اتنے عرصے میں وہ اسے بھول نہیں پائی، وہ بھی بس ایک دو
بار دیکھنے پر.
کوئی یونہی کیسے کسی کو ایک نظر میں سب قربان کر دینے
پر مجبور کرسکتا ہے.
اگر وہ خود کو احمق بھی سمجھ لیتی تو اس میں کوئی برائی
نہیں تھی.
تہجد کا وقت ہوگیا ،اسے یاد آیا وہ اسے (تہجد ) تو بھول
ہی گئ تھی.اسے یوں لگا جیسے اسکی روح ، اسکی عبادتیں اسکی رضایتیں اسی کمرے میں رہ
گئ تھی.
وہ ایک جھٹکے سے اٹھی،واش روم میں گھس گئ.کچھ دیر بعد
وہ جائے نماز پر کھڑی تھی.
اسکا دل رعب و ہیبت سے بھر گیا،اس رب سے خوف آرہا تھا
جسے وہ اپنے مقصد کے حصول کے لیے بھول چکی تھی ،کیا وہ اسے بھول سکتا تھا.
" ہرگز نہیں. "
اسے یہی لگ رہا تھا کہ وہ اپنے رب سے دور تھی،حالانکہ
وہ نماز روزے کی اسی طرح پابند تھی بس تہجد چھوٹ گئ تھی.
" نماز کے لیے کھڑے ہوتے وقت تم اعتراف کرتی ہو
کہ"االلہ سب سے بڑا ہے؛تمہاری ہر
مصروفیت ہر ضروری کام سے بڑا ہے .جب اسکی اذان آگئ تو تم چھوٹی ہوگئ اور اسکی
بڑائی تسلیم کرکے مصلے پر آ کھڑی ہوئی . "
اس نے ہاتھ سینے پر باندھ لیے.
سبحانک الھم؛
اےااللہ
پاک ہے ہے تو اپنی تعریف کے ساتھ اور با برکت ہے تیرا
نام اور بہت بلند ہے تیری شان اور تیرے
علاوہ کوئی دوسرا معبود نہیں ہے -
جب نماز کی پکار آتی ہے تو تم کسی نہ کسی کام یا کسی
مسئلے میں الجھی ہوتی ہو مگر پھر تم اٹھتی ہو ساری مصروفیات ترک کرکے
رب کے سامنے آتی ہو اور االلہ سے مخاطب ہوتے ہوئے کہتی
ہو کہ :"االلہپاک ہے ہر عیب سے ،انسانوں کی طرح میرا رب دھوکہ نہیں دیتا اور کبھی کوئی تیرے
لیول تیرے رتبے تک پہنچ نہیں سکتا تو ایک
واحد و یکتا نور ہے، میرے دل میں بھی اپنا
نور اتار دے."
اس نے گھٹنوں پر ہاتھ رکھ لیے.
سبحان رب العظیم؛
" میں االلہ علاوہ کبھی کسی کے سامنے نہیں جھکوں
گی نہ کسی انسان کے سامنے اور نہ حالات کے سامنے،میرے لیے سب سے بڑا تیرا ہی
نام ہے."
اسکے چہرے پر شرمندگی تھی جو اسکے خشوع خضوع میں اضافہ
کررہی تھی.
سبحان رب الاعلی؛
"سجرے کے کلمات پڑھتے ہوئے تمہیں چاہیے کہ اپنے
گناہوں کو یاد کرو اور اس یقین کے ساتھ کہ وہ تمہارا رب ہے اور وہ بہت بلند
ہے،گناہوں کو ڈھانپنے والا. "
وہ خاموشی سے انکو ڈھانپ لے گا لوگوں کو نہیں بتائے گا
،تم اسے ایک بار کہو گی نا کہ آپ پلیز کسی کو پتہ نہ لگنے دیجیئے گا وہ کسی کو پتہ
نہیں لگنے دے گا ،اور اگر کسی کو پتہ لگ بھی جائے نا تو وہ خود اسکا منہ بند کر لے
گا-اس سے کہہ کر تو دیکھو کبھی.
آخری رکعت کے جب سجدے
میں وہ گئ اسکے پاؤں انگلیوں پر اندر کی طرف کیے ہوئے کھڑے تھے اسکی کہنیاں
زمین سے تھوڑے فاصلے پر تھیں،ناک اور پیشانی زمین کے ساتھ لگی تھی.اسکا سجدہ طویل
ہوگیا.رات کے اس پہر کچھ لوگ انسانیت کی
حدیں توڑ دیتے ہیں انہیں رب سے ملنے کی امید نہیں ہوتی،لیکن کچھ بہت ہی مقرب لوگ
اس پہر میں اس رب کے آگے جھک جاتے ہیں ان گناہوں
پر بھی پشیمان ہورہے ہوتے ہیں جن کے سرزد ہونے کا انہیں اندیشہ ہو.
جب تم ساری انا اور غرور بھلا کر رب کے سامنے اپنے ہی قدموں کے لیول پر
اپنا سر رکھتی ہو وہاں تم صرف معافی نہیں مانگ رہی ہوتی بلکہ شکر بھی ادا کر رہی
ہوتی ہو.
" شکر.... "
"ہاں بالکل شکر بھی. ..... "
وہ اسکا منہ تک رہی تھی.
"تمہاری بری عادتیں چھڑوانے کا شکر، اپنے گناہ ڈھانپنے
کا شکر،تمہیں دنیا کی ہر نعمت دینے کا شکر اور تمہیں اپنے سامنے سجدہ کرنے کی
توفیق کا شکر---یہ شکر کی نعمت ہر کسی کو نہیں ملتی اور نہ کبھی اتنی آسانی سے
ملتی ہے."
الحیات اللہ والصلوت و اطیابات؛
(میری ساری
قولی اور مالی عبادات صرف االلہ کے لیے خاص ہیں.)
اے نبی آپ پر االلہ
کی رحمت، سلامتی اور برکتیں ہوں -
اور ہم پر اور نیک بندوں پر بھی سلامتی ہو.میں گواہی
دیتی ہوں کہ االلہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد(صہ)خدا کے بندے اور رسول ہیں .
"تم اب سلامتی بھیج رہی ہو....االلہ کے نبی
پر....اور تم ان کو گویا مخاطب کرکے کہتی ہو....سلام ہو آپ پر یا نبی....کیونکہ یہ
وہی نبی ہیں جنہوں نے نماز سکھائی ہے-یہ وہی ہیں جو تمہارے لیے معراج پر بار بار
واپس گئے تھے اور نمازوں کی تعداد کم کروائی تھی.یہ وہی ہیں جو آخری سانس تک
فرماتے رہے کہ نماز نماز نماز.....یہ وہی یہ ہیں جو تیئس سال تمہارے لیے ہر کسی سے لڑتے تھے تمہارے
لیے انہوں نے اسٹینڈ لیا تمہارے لیے وہ
روئے اور روز قیامت بھی تمہارے لیے---ہماری امت کے لیے آواز بلند کریں گے---اور ہم
لوگ کہتے کہ فلاں چیز صرف سننت ہی تو ہے
،فرض تھوڑی ہے اور حدیث کا کیا ہے ،پتہ نہیں سچ ہو یا نہیں ."
پھر تم درود پڑھتی ہو ،محمد (صہ)پر درود اور سلام
بھیجتے ہی تم نبی کی آل کا ذکر کرتی ہو -کیوں کرتی ہو ان کو سلام کیوں دعاؤں میں
ان کے وسیلےسے مانگتی ہو کیونکہ وہ خدا سے اور خدا ان سب سے بہت محبت کرتا ہے.
"کیا اس نے کبھی تمہیں تمہاری پکار پر لبیک نہیں
کہا ایمان. ؟"
ایمان نے سر ہلا دیا.
"پھر اب بھی مانگو رب سے اور درود پڑھنا شروع کردو
کیونکہ اس میں ایک بہت ہی اہم نقطہ ہے اپنے رب کو نہ کھونے کا اس پر غور
کرنا،تمہاری زندگی بدل جائے گی. "
وہ زیر لب "رب اجعلنی "پڑھ رہی تھی.
"اور اب تم ابراہیم (عہ) والی دعا مانگ رہی ہو. االلہ کو ان کی دعائیں
اتنی پسند ہیں کہ انہیں قرآن اور نماز میں محفوظ کردیا."
تم کہہ رہی ہو"
اے میرے رب مجھے نماز کا پابند بنایئے اور میری اولاد کو بھی،اے ہمارے رب
ہماری دعائیں قبول فرمائیں. اے ہمارے رب ہمیں معاف کردیں اور ہمارے والدین کو بھی
اور تمام مومنوں کو حساب کے کھڑا ہونے کے دن. "
سلام پھیرتےہی اس نے سجدے میں سر اطاعت جھکا کر دعا مانگی.
تسبیحات کے بعد اس نے دونوں ہاتھ اپنے کندھوں کے برابر
اٹھا لیے.
" اللھم
رب جبرآئیل و میکآئیل و اسرافیل فاطر السموت
والارض عالم الغیب والشھادة انت تحکم بین عبادک فیما کانو فیه یختلفون
اھدنی لما اختلف فیه من الحق باذنک انک تھدی من تشآء الی صراط مستقیم. "
ترجمہ:
"اے االلہ
! جبرائیل اور میکائیل اور اسرافیل کے رب
! پیدا کرنے والے آسمانوں اور زمینوں کے
! جاننے والے غیب اور حاضر کے ! آپ
فیصلہ کریں گے اپنے بندوں کے درمیان میں جن باتوں میں وہ اختلاف کررہے ہیں آپ
دکھائیں مجھے ان اختلاف کی باتوں میں جو حق ہے اپنی توفیق سے،بے شک تو چلا دیتا ہے
جسے چاہتا ہے سیدھی راہ کی طرف. "
دعائے استفتاح کے بعد ہاتھ مزید اوپر اٹھا لیے اور اسکا
سر اور جھک گیا.
" یا
رب !میں ایک مٹی کا کھلونا ہوں جو تیرے
'کن 'سے تخلیق ہوا-تیرے کرم نے مجھے ذی
روح کیا،تیرے حکم سے سانسیں چلتی ہیں،تیرے فضل سے ہستی قائم ہے،میرے سارے رنگ اتار
دے،مجھے اپنا رنگ دے دے. "
اسکے آنسو آخری دعا کے ساتھ ہی ہچکیوں میں بدل گئے آج
وہ وہاں سے اٹھنا نہیں چاہتی تھی.
وہ اسی طرح بیٹھی رہی اسکے جسم میں چیونٹیاں دور رہی
تھی مگر وہاں پروا کسے تھی.
رات بیت رہی تھی وہ رات بہت پرسکون تھی پچھلی کئ راتوں
کی نسبت، کون کہتا ہے االلہ نظر نہیں آتا
ایک وہی تو نظر آتا ہے جب کوئی دوسرا نظر نہیں آتا.
وہ سونا نہیں چاہتی تھی مگر اب تک وہ مسلسل رو رو کر
تھک چکی تھی جائے نماز پر بیٹھے ہوئے ہی اس نے ٹیک لگا لی اسکے سر میں درد کی ہلکی
ہلکی ٹیسیں اٹھ رہی تھی.وہ مزید کچھ دیر
کے لیے اپنی آنکھیں نہیں کھول سکتی تھی اس نے آنکھیں بند کر لی وہ سجدے والی جگہ پر جھکتی جارہی تھی وہ جگہ
ماں کی گود سے بھی ستر گنا زیادہ سکون والی تھی مگر لمس وہی تھا ماں کی گود والا.
وہ بہت میٹھی نیند سوتی رہی اسکا چہرہ چمک رہا تھا ،ایک
نور ایک کشش تھی اس لڑکی میں جو قرب الہی کی دلیل تھی.
صبح ہوتے ہی وہ اپنے بستر پر آگئ.اس نے نماز کے اسٹائل
سے باندھا ہوا ڈوپٹا اب کندھوں پر پھیلا کر ایک بار پھر آنکھیں موندھ لیں.
اسکے کمرے میں سب سے پہلے آنے والا تنزیل تھا.
وہ قرآن
پڑھنے کے لیے آیا تھا.
"مما اٹھیں کب تک سوتی رہیں گی."وہ وانیہ کو
ہلا رہا تھا.
" تنزیل ابھی سو جاو فجر ابھی ہوئی نہیں تم اٹھ
گئے."
" الصلوتہ خیر من النوم. " کیا آپ نے اذان کے
ساتھ یہ آواز نہیں سنی .
ابھی تو انکی آنکھ لگی تھی تنزیل کی بات سنتے ہی وہ اٹھ
کر بیٹھ گئ.
" تنزیل تمہیں اذان کے اس جملے کا مطلب کیسے
پتا. "وہ حیرت سے اسکا منہ تکے جارہی
تھی.
"کل مسجد میں قاری صاحب نے بتایا. "
"اہ -ہم ! شاباش تنزیل ". وہ اپنے بیٹے کے
بڑھتے ہوئے جنرل نالج پر کچھ دنوں سے واقعی حیران ہوگئ انہوں نے تنزیل کو اپنے ساتھ لگا کر اسکے ماتھے پر
بہت محبت سے بوسہ دیا.
وہ واقعی اپنے
بیٹے کی باتوں سے متاثر ہورہی تھی.
" اذان دینے والے کو کیا کہتے ہیں. "
"مؤذن.
"
"اسلام کے پہلے مؤذن کون تھے. "
"حضرت بلال( رضہ). "
"کیا وہ اذان مسجد میں دیتے تھے. "
"نہیں ،خانہ کعبہ کی چھت پر چڑھ کے. "
وہ بغیر کسی لڑکھڑاہٹ کے ہر سوال کا جواب دے رہا تھا.
"just last question Tanzeil."
"قرآنی پنجتن کے نام بتاو . "
وہ ذرا سوچ میں پڑ گیا.
" Mama just wait a minute.
"
اس نے آنکھیں بند کی.
1.
حضرت محمد
(صلی االلہ
علیہ وآلہ وسلم )
2.
حضرت ابوبکر صدیق (رضہ)
3.
حضرت عمر فاروق
(رضہ )
4.
حضرت عثمان غنی
(رضہ )
5.
حضرت مو لی علی
(رضہ )
" ماشاااللہ
".
تنزیل وانیہ کو دیکھ کر مسکرا رہا تھا.
" any
other question."
"yes. "
آسمانی پنجتن کے نام بتاو.
1.
حضرت محمد
(صلی االلہ علیہ وآلہ وسلم)
2.
حضرت جبرائیل (عہ )
3.
حضرت میکائیل (عہ )
4.
حضرت اسرافیل (عہ )
5.
حضرت عزرائیل (عہ
)
وانیہ نے ایک لمحہ بھی پلکیں نہیں جھپکی.
وہ ایک ایک لمحہ یاد کرنے لگی ایک سات سال کا بچہ ہر
سوال کا جواب بغیر کچھ یاد کیے دے رہا تھا.
یہ وہ باتیں تھی جو اسے وانیہ نے نہیں سکھائی تھی اس نے یہ سکول سے بھی نہیں سیکھا تھا.
اسے خوشگوار حیرت ہورہی تھی وہ بالکل ایمان جیسا تھا
وہی آنکھیں وہی نقوش اسکی طرح ہر بات پر جواب دینے کی عادت اور اسی کی طرح یاداشت،
وہ واقعی حیران تھی.
" آج سے میں آنی کے پاس سیپارہ پڑھوں گا. "
" نہیں آپکو قاری صاحب کے پاس ہی پڑھنا ہے. "
" ما ما مجھے وہ اچھے نہیں لگتے . "
"کیوں.
"
" پتہ نہیں،بس میں نہیں جارہا انکے پاس . "
وہ جانتی تھی ،اس سے بحث کرنا فضول تھا.
" ٹھیک ہے آنی کو پھر زیادہ تنگ مت کرنا. "
" اوکے ماما.
"
وہ خوشی سے اسکے ساتھ لگ گیا اور اپنے چھوٹے چھوٹے بازوں کا ہار بنا کر
وانیہ کے گلے میں ڈال دیا.
ابھی آسمان پر نیلاہٹ سے بھرپور ایک تہہ چھائی ہوئی تھی
اس میں سیاہ رنگ کی بھی آمیزش تھی.
" ماما ،آنی اب تو نہیں جائیں گی نا. "
" نہیں بیٹا.
"وہ اسکے ساتھ ابھی تک لگا ہوا تھا.
"وہ پہلے کیوں گئ تھیں یہاں سے. "
" پتہ نہیں، اسکو کچھ بہت اہم کام تھا اس لیے گئ
تھی. "
" آپکو واقعی نہیں پتہ ماما. "
وہ اب اس سے دو ہاتھ کے فاصلے پر ہوگیا.
" مجھے نہیں پتہ تنزیل آپ آنی سے خود پوچھ
لینا. "
" All right,its too
better. "
سحر کی تاریکی چھٹ جانے سے کچھ دیر پہلے ایمان بیڈ پر آکر لیٹی تھی.اسے خود پر کسی کی نگاہوں
کا ارتکاز محسوس ہوا .
تنزیل اسکے بالوں کو دیکھے جارہا تھا جو آدھے بیڈ پر پھیلے ہوئے تھے.
وہ اٹھ کر بیٹھ گئ .اسکے چہرے پر اسے دیکھتے ہی مسکراہٹ
دوڑ گئ.
"آپ اتنی صبح اٹھ
گئے تنزیل. "
" جی آنی.
"
" آپ آج مدرسے کیوں نہیں گئے. "
"کیونکہ مجھے آپ سے پڑھنا ہے. "
" اوکے.
"
وہ اٹھی اور اسے بیٹھا کر وضو کرنے کے لیے چلی گئ.
"الم¤ذلک الکتاب لاریب فی "اندر آتی وانیہ کے قدم رک گئے کتنی اچھی
آواز تھی تنزیل کی.
اور وہ کتنی روانی سے پڑھ رہا تھا.اسکی آواز میں کوئی
لڑکھڑاہٹ اور الفاظ کی ادائیگی میں کہیں
جھول نہیں تھا.
وہ اسکے پاس آکر بیٹھ گئ تنزیل اسے دیکھتے ہی خاموش
ہوگیا اور سیپارہ اس کی طرف بڑھا دیا.
ایمان اسے پڑھا رہی تھی وہ ایک لفظ کو جسطرح ادا کررہی
تھی وہ بھی اسی طریقے سے پڑھ رہا تھا.وہ اسے آدھے گھنٹے سے دو ہی آیات پڑھا رہی
تھی اسکا خیال تھا وہ اکتا جائے گا مگر وہ ہر بار اک الگ انداز سے پڑھ رہا تھا.
"آنی آئیں ناشتہ کرتے ہیں بھوک لگ گئ ہے."
وہ سیپارہ بند کرتے ہوئے بولا.
"اوکے آپ جاو میں آتی ہوں. "
"آپ کی آواز بہت اچھی ہے آنی."وہ جاتے جاتے
اسے کہہ رہا تھا.
وہ اس کے انداز پر مسکرا کر رہ گئ.
*******************
جاری ہے
Comments
Post a Comment