" بے وجہ ہی ڈھونڈتا ھوں "
از" مہوش منیر"
قسط 1تا2
ہائی وے پر ایک بے یار و
مددگار لیکن چہرے پر بلا کی مسکراہٹ اور تسلی بخش اثرات لیے اپنی گندمی مائل رنگت
لیکن پر کشش نقوش اور خوبصورت بھوری آنکھوں کے ساتھ نہایت سست روی سے اپنا بڑا سا
بیگ ساتھ ساتھ گھسیٹے ہوئے بلیو جینز ،کرتے اور بہترین طریقے سے اوڑھے گئے
سکارف کے ساتھ وہ یکسر ممتاز لگ رہی
تھی.اور اسکے چہرے پر پھیلی مسکراہٹ اور پر اعتماد چال اسے سب سے منفرد بنا رہی
تھی.
ٹیکسی پر بیٹھتے ہوئےاس
نے ڈرائیور کو ایرپورٹ چلنے کا اشارہ کیا گاڑی اپنے مذکورہ راستوں پر دوڑتی گئ اور
وہ شہر کا سر سری جائزہ لیتی ہوئی ایرپورٹ جا پہنچی.
عون اپنے تمام کام چھوڑ
کر چند اہم فون کالز کرنے کے بعد اپنا موبائل آف کرکے ایرپورٹ روانہ ہوگیا. پہلی
فلائیٹ سے عون پاکستان کی حدود میں داخل ہوا اور دوسری فلایٹ سے ایمان ضیاء
پاکستان پہنچ گئ.
وہ اکیلی تھی کوئی اسے
لینے کے لیے نہیں آیا تھا .وہ اسی مسکراہٹ اور دلفریبی کے ساتھ ٹیکسی کا انتظار کرنے
لگی اور فٹ پاتھ پر چل پڑی.
مخالف سمت سے چلتا ہوا
عون غیر دانستہ اسکی طرف بڑھ رہا تھا.اسکے ہاتھ میں ایک انگھوٹھی تھی وہ ہاتھ کبھی
کھولتی اور بند کرتی چلتی جا رہی تھی.عون جیسے کہ کچھ کھو گیا ہو اور اسے ڈھونڈتا
پھرتا ہو .پریشان حال،حالات و واقعات سے بے خبر نجانے وہ کس ڈگر پر جل رہا تھا.صبح
سے ہی کالی گھٹاؤں نے آسمان کو گھیر رکھا تھا.
وہ آسمان پر نگاہ دوڑاتے
ہوئے سوچ رہا تھا.
"کیا
بات ہے میرے مالک!تو نے ابر رحمت سے میرا پرتپاک اسقتبال کیا،تیرا ہر رنگ دوسرے سے
الگ اور نرالا ہے.
"
آسمان پر پھیلی ہوئی
رنگوں کی تر نگ میں ایک چہرہ بہت خوشنما سا ،ہنستا مسکراتا سب سے بے نیاز اور سب
سے منفرد آسمان کی نیلگو حدود میں نظر آرہا تھا.وہ آسمان کو بہت محبت سے گھورتا
ہوا ہلکی ہلکی بارش کا لطف لینے لگا اور اسے اس بارش کو محسوس کرنے کےلئے اپنی
گاڑی سے نکالنا پڑا تھا.
اپنے خیالوں کی وادیوں
میں چلتے ہوئے کبھی مٹھی کھولتی اور بھینچتی اسی طرف آتی ایمان اچانک ایک شخص کو
دیکھ کر ٹھہر گئ.
"میں
جانتی ہوں اسے،کہاں دیکھا تھا اسے. ہمم، اسٹیٹ میں ایک دفعہ اور شاید پہلے بھی
یہیں کہیں."
بارش سے بچنے کی
صورت میں وہ تیز تیز چل رہی تھی کہ وہ ساکت ہوگئ اسکے سامنے وہی شخص جو کسی بھی
ٹین ایجر کو پاگل کرنے کے لیے کافی تھا ،سینے پر ہاتھ باندھے اسے حیرت زدہ ہوکر
اسے دیکھ رہا تھا.
اسکے قدم پانی میں
جم گئے اس نے فورا"اپنا ہاتھ پیچھے کی طرف کھینچ کر اپنی انگوٹھی کو ہاتھ میں
بند کر لیا.وہ دونوں ایک ہی فطرت کے مالک تھے.دل و جان سے محبت کرنے والے،ناک کی
سیدھ پر چلنے والے،غیر محسوس طریقے سے ایک دوسرے کی طرف بڑھنے والے.
وہ اسکے پاس آکر
پوچھ رہا تھا.. "excuse me,can I help you? "
اس نے نفی میں سر
ہلادیا. .
"it's too much bad weather ."
وہ اسے یقین کروانا چاہ
رہا تھا کہ اسے مدد کی ضرورت ہے.
وہ بس اسے دیکھ رہی تھی
،کچھ تھا اس شخص میں بہت خاص،کچھ لوگ واقعی خاص ہوتے ہیں مگر وہ ان سے بھی نایاب
تھا.
"میں
آپکو ڈراپ کر سکتا ہوں اگر آپ کو مناسب لگے تو."
وہ اس تیز بارش میں
یقینا" اسکے ساتھ بھیگ چکا ہوتا اگر وہ باتوں باتوں میں اسے شاپنگ مال کی
بیسمنٹ کے سامنے نہ لے آتا.
"نہیں
میں چلی جاوں گی".اسکے کے لیے اب مزید اس شخص کے چہرے پر نظریں جمائے رکھنا
مشکل ہو رہا تھا.
"ٹھیک
ہے جیسے آپکی مرضی مادام،مگر آپ مجھ پر یقین کر سکتی تھی."وہ اب یقینا
"وہاں سے جانے لگا تھا.
وہ جارہا تھا اس نے پیچھے
مڑ کے بھی نہ دیکھا وہ اسے اب بھی دیکھ رہی تھی ،وہ جس رفتار سے سڑک کے اس پار گیا
تھا اسی برق رفتاری سے واپس پلٹ آیا .
اب اسکے ہاتھ میں ایک
چھتری تھی اور کوئی کھانے والی چیز تھی وہ واپس وہیں آکر اسے وہ دونوں چیزیں دے رہا
وہ مکمل بھیگ چکا تھا.
"یہ
بارش سے حفاظت کے لیے اور یہ اگر آپکو یہاں کھڑے کھڑے بھوک لگ جائے تو."وہ
سنجیدگی سے اسے کہہ رہا تھا.
اور وہ بمشکل اپنی ہنسی
روک رہی تھی.
مگر میں......""
" کوئی
اگر مگر نہیں ساتھ نہیں چلنا تو کوئی بات نہیں، مگر یہ پکڑو."وہ اسے اپنایت
سے کہہ رہا تھا.
"اور
یہ میرا نمبر ہے ضرورت پڑے تو ایک بار ضرور یاد کرنا."وہ اسے ایک اور چیز
تھما رہا تھا.
" ok thanks, knows
u can go ."
وہ اسے جانے کا کہہ رہی
تھی.
"میں
نمبر اس لیے دے رہا ہوں کہ شاید کبھی میری ضرورت پڑ جائے. "وہ اسکے چہرے کو
دیکھ کر اسکے سوال پوچھے بغیر ہی بتا رہا تھا.
وہ چلا گیا اور وہ اسکی
دی ہوئی چیزوں کو دیکھ رہی تھی اور اسکی ریورس میں جاتی ہوئی گاڑی کو دیکھ رہی تھی
جہاں اسکا دھیان بھی اسی کی طرف تھا اور اسکے دیکھنے کا انداز ایسا تھا کہ پھر
ملیں گے.
وہ کئ سالوں کے بعد واپس
آئی تھی،اور اسے اپنوں کے درمیان آکر اچھا محسوس ہو رہا تھا .کیونکہ زندگی نے کئ
موڑ بدل لیے تھے،راستے جدا ہوگۓ،
راہیں کھو گئ اور زندگی پھر سے اپنے بے رحم راستوں پر نہایت سفاکی کے ساتھ چل پڑی.
...........................................
ایمان اذان فجر کے ساتھ اٹھ
گئ وہ آجکل قرآن کی قراءت سیکھ رہی تھی.
"وانیہ
آپی میرا جوتا ،دیر ہوگئی آج پہلے ہی."وہ آج واقعی مدرسے سے آتے ہوئے لیٹ
ہوگئی تھی.
"یہ
لو آیندہ سے شوز ریکس میں رکھا کرو کرو گی تم جوتے سمجھ گئ"
وہ اسے ڈانٹنے کے موڈ میں
تھیں.
"
یہ ایئر رنگز اچھے لگ رہے
ہیں نا"
وہ انکی ڈانٹ کا کوئی اثر
لے یہ ممکن تھا بھلا.
"ہاں
بہت اچھے لگ رہے ہیں ،بہت پیاری لگ رہی ہو تم،دنیا کی سب سے خوبصورت لڑکی پتا کون
ہے؟"
" کون؟؟؟"
اس نے بھنویں سکیڑتے ہوئے
پوچھا.
" ایمان
ضیاء. "
اوہ ،واوء، تھینکس؛"
وہ انکے گلے لگ گئ.
" اب
آ جاو ناشتہ تیار ہوگیا ہے".
"
بیٹھ جاو ،بیٹھ کر ناشتہ
کرتے ہیں."
"
نہیں اماں ایسے ہی ٹھیک
ہے."
اس نے پاس بیٹھے ہوئے
شرجیل کی پلیٹ سے ایک نوالہ لیتے ہوئے کہا.
" آہ
! ابا .یہ شرجیل میری پونی کھینچ رہا ہے."
"اور
تم جو میرا کھانا کھا رہی ہو وہ... "اس نے اسکی ٹیل خراب کر دی.
"چلو
اب اسکو ٹھیک کرو . "وہ اسکے پاس ہی بیٹھ گئ.
"ویسی
ہی ہونی چاہیے.
"
"
اس سے زیادہ اچھی کروں گا."
اس نے اتراتے ہوئے کہا.
"ارے
واہ ! یہ تو بہت اچھی کردی تم نے. "وہ سراہے بغیر نہ رہ سکی.
"تم
لیڈیز پارلر جوائین کرلو."
ایمان کے اس مشورے پر سب
مسکرا رہے تھے.
وہ اب گیراج میں کھڑی تھی.
"ابا
آ بھی جائیں ،باقی کی با تیں آفس سے آکر کر لیجئے گا."
"چلو
چلو.
ناشتہ اچھے سے کیا نا."
وہ گاڑی میں بیٹھتے ہوئے
پوچھ رہے تھے.
"جی
جی ابا ،آپ فکر نہ کریں کھانا میں بہت دھیان سے کھاتی ہوں."
"Good girl"
وہ اسکے چہرے پر پھیلی
معصومیت کو دیکھتے رہ گئے .
"تمہاری
اسٹڈی اچھی جا رہی ہے نا."
" جی
ابا بہت اچھی جا رہی ہے."وہ کتاب کے ورق گردان رہی تھی.
"کونسی
بک کا ٹیسٹ ہے."
"سمیسٹر
میں بہت سی بکس پڑھا دیتے ہیں ابا،"وہ انہیں دیکھ کر مسکرا رہی تھی.
اچھی "
بات ہے نا زیادہ علم ملتا
ہے."
"جی
یہ تو ہے،ویسے آج میتھس کا ٹیسٹ ہے. "
"
تیاری اچھی ہے تمہاری
."وہ اسٹیئرنگ پر ہاتھ رکھے پوچھ رہے تھے.
"ابا
آپکو معلوم ہے نا میں کتنی جینئس ہوں میں مینج کر لیتی ہوں سب. "اسے خود پر
یقین تھا وہ یقین جو ہر لڑکی کو خود پر ہونا چاہیے.
"زندگی
بہت کم موقع دیتی ہے کہ آپکی محنتوں اور محبتوں کا لگایا پودا ،تنا ور درخت کی
صورت میں آن کھڑا ہو."
"دیتی
تو ہے نا موقع اور میں اس موقعے کو ضائع نہیں کروں گی. "
لو آگئ یونیورسٹی. وہ یونیورسٹی کے سامنے کھڑے تھے.
"
فی امان اللہ ".
"
یہ تم نے مدرسے سے سیکھا".
وہ خوشی سے پوچھ رہے تھے.
اس نے اثبات میں سر ہلا
دیا.
........................................
تہمتیں تو لگتی ہیں
روشنی کی خواہش میں
گھر سے باہر آنے کی کچھ
سزا تو ملتی ہے
لوگ لوگ ہوتے ہیں
ان کو کیا خبر جاناں !
کہ ارادوں کی خوبصورت
آنکھوں میں
بسنے والے خوابوں کے
رنگ کیسے ہوتے ہیں
دل کی گود،آنگن میں پلنے
والی باتوں کے
زخم کیسے ہوتے ہیں،کتنے
گہرے ہوتے ہیں
لوگ...
کب یہ سوچ سکتے ہیں،ایسی
بے گناہ آنکھیں
گھرکے کونے کھدروں میں
چھپ کے کتنا روتی ہیں
تہمتیں تو لگتی ہیں؛
سیکنڈ کے دس لاکھویں حصے
میں اسے خبر ہوئی یہ وہی تو تھا جسکی وجہ سے وہ یہاں سے گئ تھی.
"یارب
یہ کیا ماجرہ ہے،کبھی تیری رحمت، کبھی میری زندگی کی ہر کڑی اسی شخص کے ساتھ جڑتی
ہوئی محسوس ہوتی ہے اور ہر بار یا یہ کہیں کھو جاتا ہے یا پھر میں...."
"عون
تم کہاں چلے گئے تھے ،اب کیوں واپس آگئے ہو.یقینا" تم میرے لیے نہیں آئے
ہوگے. "اسکے ایک ہاتھ میں اسکی دی ہوئی چھتری تھی اور ایک میں اسکا بیگ وہ
بہت تیزی سے چل رہی تھی.
وہ اسے دیکھ کر ایسے
مسکرا رہا تھا جیسے برسوں پرانا رشتہ ہو ،جیسے کہ وہ اپنی مرضی سے یہاں نہیں
آیا،لیکن کوئی پر اسرار طاقت، کوئی ان دیکھی کشش اسے یہاں کھینچ لائی ہو.جیسے اسکی
تلاش کا حاصل یہی لڑکی ہو.
.........................................
پراجیکٹ پر کام کرتے
ہوئےسالار ایمان کو نو ٹس کر رہا تھا.
"تم
مجھے باہر کیوں لے کر آئے."وہ اسکے ساتھ کلاس روم سے باہر نکلتے ہوئے پوچھ
رہی تھی.
"تمہارا
دھیان کام پر نہیں تھا،خیریت ہے نا. "
"اف
خدایا ! کوئی بات نہیں ہےreally".
وہ گہرا سانس لیتے ہوئے
بولی.
"ہماری
دوستی کو تین سال ہو رہے ہیں مگر تم شاید مجھ پر یقین نہیں کرتی."
"نہیں
کوئی بات نہیں ہے،بس میں چاہتی ہوں کہ میں ابا کے بزنس کی جگہ باہر جا کر کام
کروں."وہ دونوں اب بینچ پر بیٹھے ہوئے تھے.
"تو
مسئلہ یہ ہے،تم اپنے ابا سے بات کرو ویسے بھی ابھی
تین کم از کم ایک سال ہے پھر تم سپیشلائزیشن کرنا اور
باہر چلی جانا.
"
وہ بظاہر شریرلہجے میں
اسے مشورہ دے رہا تھا ،لیکن وہ اسکی باتوں کو لےکر پلیننگ کر رہی تھی کے اسے کب
کیا کرنا ہے.
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
دوسری
قسط:
اس کی طرف سے مکمل خاموشی تھی وہ اب
کی بار اسکی آنکھوں اور منہ کے بدلتے ہوئے زاویوں کو بغور دیکھ رہا تھا.
ایمان کوئی اور بات بھی ہے نا."
"نہیں
تو بس یہی بات تھی."
وہ خود کو پرسکون ثابت کرنے کی کوشش
کر رہی تھی
" تمہارے
گھر پر سب ٹھیک ہے نا ،مجھے تم بھی پریشان لگ رہے ہو."بات کا رخ اس نے سالار
کی طرف موڑ دیا.
"بظاہر
تو سب ٹھیک ہے بس
ایسے ہی آجکل شہریار بھائی زیادہ بزی ہیں تو
انسے مل نہیں پاتا اس لیے."
وہ جس انداز سے بتارہا تھا واضح تھا
وہ شہریار سے زیادہ محبت کسی کو نہیں کرتا.
"ایمان تم سے ایک بات پوچھوں.
"
اس نے اثبات میں سر ہلایا.
" اگر کوئی خوشبو سے نا آشنا
رہنا چاہے تو اسے عطردان میں ڈبو دیا جاتا ہے."یہ کس چیز کی خوبی ہے."محبت کی."جواب حاضر
تھا."
"definition?
?. "
ام.....وہ سوچنے لگی.
"محبت بہت پاکیزہ اور معصوم سی شے
ہے،دنیا کی سب سے عمدہ،اعلی و ارفع، نفع و نقصان سے بالاتر ،یہ انسان کو گندہ نہیں
ہونے دیتی. "
" تم لڑکیاں کافی تجربہ کار ہو
کافی ریسرچ ہے محبت پر. "وہ اسے تنگ کر رہا تھا.
وہ اسکی
شکل پر پھیلی ہوئی ناراضگی کو دیکھ کر محظوظ ہورہا تھا.
"بدتمیز. "وہ اٹھ کر چلی گئ.
" میں تمہیں تنگ کر رہا تھا،سنو تو سہی. "
"دفعہ ہو جاو. "
" ارے یار ! رکو تو سہی."
"بھار میں جاو تم بھی. "وہ موقع ڈھونڈ رہی تھی اپنی بھراس
نکالنے کا.
" بلاوجہ غصہ کیوں ہو رہی ہو
،بتاو کیا بات ہے. "وہ اسکا رستہ
کاٹ کر کھڑا ہوگیا.
" مدرسہ جا رہی ہوں تو دین کے
بارے میں اور اپنے رویے کے بارے میں سوچ کر دکھ ہوتا ہے کہ ہم کیا کرتے ہیں،کیسے
مسلمان ہیں.کسی کی رائےدہی ،انکا رائٹ کوئی معنی ہی نہیں رکھتا. "
" دراصل ہم لوگوں کو اپنا رائٹ
یوز نہیں کرنا آتا اور لوگ بہت آسانی سے بے و قوف بن جاتے ہیں یا بنا دیتے
ہیں. "
"بے وقوف بنا دیتے ہیں. "وہ غصیلے انداز میں بولی.
"لیکن اس میں ہمارا ہی قصور ہوتا
ہےنا ہم موقع دیتے ہی کیوں ہیں کسی کو اپنے ساتھ ایسا کرنے کا. "
وہ خاموش رہی،اسکی خاموشی طویل ہورہی
تھی.
" اب بتاؤ گی کیوں پریشان ہو
تم. "وہ ذرا بگڑتے ہوئے بولا.
"بتاوں گی بعد میں . "
وہ دونوں ساتھ چلنے لگے.
" سالار. "وہ ساتھ چلتے ہوئے بولی.
" ہم... "
" تمہاری کوئی بہن ہے. "
" نہیں. "
"ایک بات پوچھوں. " وہ اب رک گئ.
" بالکل پوچھو."
"اگر تمہاری بہن ہوتی تو تم اس
کے لیے کیا کرتے. "
" میں... "وہ سوچ میں پڑ گیا.
"ہاں تم،سالار عباسی اپنی بہن کے
لیے کیا کرتا. "وہ کوریڈور تک پہنچ
چکے تھے.
" میں اپنی بہن کی ہمیشہ حفاظت
کرتا،وہ جس چیز کی خواہش کرتی میں جان پر کھیل کے اسے لا کر دیتا،ہر قدم پر اسکا
ساتھ دیتا،اسکے حق کے لیے کسی بھی حد تک چلا جاتا. "
" اور....
"وہ اسکے چہرے پر آئی ہوئی چمک دیکھ رہی تھی.
" اور اگر وہ مجھے کہتی سالار
گہری کھائی میں کود جاو تو میں ذرا دیر نہ لگاتا.
"
" تم واقعی کود جاتے. "وہ اسکے جواب پر حیران تھی.
" ہاں، بہن بہت انمول ہوتی ہے
،بھائی سوچتے ہیں وہ انکی حفاظت کرتے ہیں جبکہ بہن کی محبت اسکی دعا اپنے بھائی کو
اتنی طاقت دے رہی ہوتی ہے کہ وہ بلا خوف و خطر اسکی حفاظت کرسکے. "
"
کاش میرا بھی بھائی ہوتا اور بالکل تم جیسا ہوتا."اسکے لہجے میں حسرت
تھی.
" میں ہوں نا تمہارا بھائی. مجھے
بھی اگر اللہ بہن دیتا تو وہ تم جیسی ہوتی.
"
" آہ-ہ-م،،آج سے میں تمہاری
بہن."
" really. "
وہ خوشگوار حیرت میں مبتلا ہو ا.
" Hmmmm. "
"اب تو لڑکے پیٹیں گے میرے
ہاتھوں جو تمہیں دیکھیں گے. "ہاتھ کا
مکہ بنا کر اس نے دوسرے ہاتھ کی ہتھیلی پر مارا.
" جان سے مارو تو مانوں. "
" تم چاہتی ہو میں پھر ساری زندگی چکی
پیستے ہوئے گزاروں،نہ بھئ نہ. "وہ
منکررہا تھا.
"تمہارا بھائی بچا لے گا
تمہیں. "
" میرا خیال ہے جو غلطی کرے اسے سزا ملنی چاہئے
."
وہ اب سنجیدہ ہوا.
"اور کوئی گناہ کرے تو. "
" گناہ کی سزا تو رب متعین کرتا
ہے. "
باتیں کرتے وہ کیفے ٹیریا پہنچ گئے.
"ہمیں اپنے توڑ پر بھی تو کچھ
کرنا چاہیے. "
"ایسے شخص کی پھیلا ئ ہوئی برائی کو اپنے توڑ پر ختم کرکے اپنی نیکی کو رب
کے سپرد کر دینا چاہئے. "
وہ اچانک خود کو اتنا ہی محفوظ سمجھنے
لگی جتنی وہ اس وقت اپنے حقیقی بھائی کے ساتھ ہوتی.
.................................
اس وجیہہ کی پر اسرار مسکراہٹ اور
عقابی نگا ہیں ابھی بھی اسے خود پر محسوس ہو رہی تھی.
سرکتی ہوئی سڑک قیاس آرائیاں کرتی
ہوئی گزرتی جارہی تھی.گزرےہوئے سالوں کا ایک ایک لمحہ ایک چبھن اختیار کر چکا تھا.
"مان لو ہماری بات خود بھی خوش رہو اور
ہمیں بھی رہنے دو ."
" میں
ابھی ان معاملات سے دور رہنا چاہتی ہوں میرے لیے میرا کرئیر فی الحال زیادہ اہم
ہے. "وہ نارمل انداز میں جواب دے رہی تھی.
" ہاں تو تم سب ساتھ ساتھ لے کر
چلنا. "وہ جیسے کسی چھوٹے بچے کو اسکی ضد سے ہٹانے کی کوشش کررہے تھے.
"تمہارے ابا بالکل ٹھیک کہہ رہے
ہیں ایمان. "تایاابا بھی اب بول
پڑے.
" تایا ابا اس پورشن سے اس پورشن
میں جانا ہے،آپ لوگ سمجھ ہی نہیں رہے. "
"اب تم ہمیں سمجھاو گی،
بس میں نے جو کہہ دیا وہ ہوگا. "
ان کا لہجہ انکے پختہ ارادے کو ظاہر
کر رہا تھا.
"اگر آپ لوگوں نے مجھ پر مزید
دباؤ ڈالا تو میں کہیں چلی جاؤں گی.
"آخر انہی کی بیٹی ٹھہری.
" چٹاخ. "
"ہمت دیکھو اس لڑکی کی ،بڑوں کے
آگے زبان چلانا بھی سیکھ گئ. "تایا
ابا کسی صورت پیچھے نہ ٹھہرے.
" چٹاخ. "ایک اور تھپڑ رسید کیا گیا.
اب کی بار وہ اس حملے کے لیے تیار نہ
تھی.وہ زمین پر دھرم سے گر گئ.
اسکے منہ سے چینخ نکلی تو ضیاء کو خبر
ہوئی وہ اپنی گڑیا کو توڑ چکے تھے.
وہ نیم دراز آنکھوں سے انہیں دیکھے
جارہی تھی کہ اسکی کس بات پر اس قدر مزاحمت کی گئ.
وہ ایک جھڑپے سے اٹھی،اسکی نگاہوں میں
کچھ تھا.وہ مان ٹوٹ گیا تھا جسکی بنا پر وہ آج تک جیتی آئی تھی.
آج سے پہلے اسے اپنا وجود بے وقعت
کبھی نہ لگا تھا.
ٹیکسی کی سیٹ کے ساتھ سر ٹکائے اسے ماضی کے پردوں سے
آوازیں بازگشت کرتی محسوس ہو رہی تھیں.
جب گاڑی ایک وسیع و عریض مکان کے آگے
رکی.اسکی آنکھوں میں ایک چمک تھی وہ اپنے آشیانے کو کئ سالوں بعد دیکھ رہی تھی.
وہ باہر نکلی سڑک بالکل ویران تھی ،وہ
ڈیفینس ایریا تھا عموما" لوگوں کی چہل پہل کم ہوتی تھی.
اسکا ہاتھ دروازے پر تھا وہ اس لمحے
گھر کے اندر ہوتی لیکن چوکیدار رکاوٹ بن گیا.
" آپ کون محترمہ. "
" میں..... "وہ سوچ میں
پڑ گئ.
"ایمان ضیاء، ضیاء صدیقی کی بیٹی.
"آج سے پہلے اسے کبھی اپنا تعارف اپناکروانے میں شرمندگی نہ
ہوئی، کم از کم اپنے گھر جانے کے لیے کبھی کسی ملازم کی اجازت کی ضرورت نہ پڑی تھی.
"اچھا آپ امریکہ سے آئی
ہیں. "چوکیدار تبدیل ہو چکا تھا.
اس نے اثبات میں سر ہلایا.
" معاف کیجیئے گا بی بی
صاحبہ. "چوکیدار نے معذرت کرتے ہوئے دروازہ کھول دیا.
"میں کن الفاظ کی تمہید باندھوں
گی،ابا مجھے کبھی معاف نہیں کریں گے.
"وہ دیواروں کو غور سے دیکھنے لگی.
"تم..... "وہ کچن سے نکل رہا تھا.
" کہاں سے آئی ہو. "
ایمان نے دروازے کی طرف انگلی کر دی.
" اف خدایا ! میں خواب دیکھ رہا ہوں. "وہ بے یقینی کی کیفیت میں تھا.
"نہیں. "
اس نے ایمان کے ہاتھ سے بیگ لے لیا
.اور اسکے آگے چل پڑا.
"امی، چچی،تنزیل ، وانیہ آپی دیکھیں تو کون آیا ہے."
اس نے پے در پے کئ آوازیں دی.
"آنی.
"وہ بھاگتا ہوا آیا اور اسکی ٹانگوں کے ساتھ لپٹ گیا.
وہ اس معصوم سے بچے کو پہلی بار دیکھ
رہی تھی ،مگر وہ اسے پہچانتا تھا.مگر کیسے وہ سوچ میں پڑ گئ.اگر وہ اسے آنی نہ
کہتا وہ قطعا" نہ پہچانتی.
اس نے نیچے جھک کر اسے اٹھا لیا.
"تنزیل آپکو کیسے پتا میں آپکی
آنی ہوں. "
"کیوں کہ میں نے آپکو دیکھا تھا
. "وہ بہت مہارت سے اپنی آنکھیں اسی
کے انداز میں گھما رہا تھا.
"کب؟ "وہ واقعی حیران تھی.
"تصویروں میں..میرے پاس بہت
کولیکشن ہے آپکی تصویروں کی. "وہ
اپنے ہاتھوں کو پھیلاتے ہوئےکہہ رہا تھا.
"آپ نے ایک سیکنڈ میں مجھے پہچان
لیا ،کیسے؟ "وہ حیرانگی سے پوچھ رہی
تھی.
" میں نے کھڑکی سے آپکو دیکھا
پھر آپکی تصویر دیکھی پھر مجھے پتا چل گیا. "
سب گھر والے ایمان کو دیکھ رہے
تھے اسکی پشت تھی اس طرف وہ سب سے بے خبر تنزیل کو دیکھے جارہی تھی.
کس قدر خوبصورت تھا وہ،اسکا ہئیر
کٹ،اسکے چھوٹے چھوٹے ہونٹ،اور اسکی میموری.
وہ حیران تھی .
" ایمان..."اماں کی آواز پر
وہ مڑی.
" اماں...."وہ ان کے گلے لگ
گئ.
" کہاں چلی گئ تھی تم ."
وہ کچھ نہیں بولی اسکی آنکھوں میں بس
آنسو تھے.
" میں نے کچھ پوچھا ہے تم سے،اور ماں ہونے کے
ناطے میرا حق ہے یہ. "
"وہ میں امریکہ گئ تھی
کیونکہ.... "
"کیونکہ تمہیں اپنے ماں باپ اور
اپنے خاندان کی عزت کا خیال نہیں تھا.
"وہ اسکی بات کاٹتے ہوئے بولیں.
" اماں... "اس نے بہت دکھ سے انکو پکارا.
"تمہیں احساس ہے ہم نے کتنی
ملامت اٹھائی ہے تمہارے جانے کے بعد.
"
"میں نے کوئی ایسا کام نہیں کیا
اماں جس سے میری،آپکی یا ابا کی عزت پر کوئی حرف آئے. "
وہ مضبوط
لہجے میں بولی.
"ایسی بھی کیا ضرورت آن پڑی تھی
کہ تم یوں اچانک سب چھوڑ چھاڑ کے چلی گئ تھی.
"
" وہ میری نہیں وقت کی ضرورت
تھی. "اسکے آنسو خشک ہو رہے تھے.
"اس کا مطلب تھا کہ تم ماں باپ
کو ذلیل کردیتی ،ہمارے اعتماد کا فائدہ اٹھاتی وہ بھی ناجائز. "
انکا غصہ ساتویں آسمان پر تھا.
" میں نے کچھ غلط نہیں کیا کم از کم آپ تو مجھے
سمجھیں. "ایک بار پھر اسکے ضبط کا پیمانہ لبریز ہوگیا.
وہ پاس پڑے صوفےپر گر گئ.
سب کی آنکھوں میں سوال اور تاسفات تھے
اور وہ برف کی گڑیا بنی بس ہوا ملنے پر برف ہی کی طرح پانی بنتی جارہی تھی.
اسکی آنکھوں میں فقط آنسو تھے جو اس
بات کا واضح ثبوت تھے کہ اسکے پاس اپنی صفائی پیش کرنے کے لیے ایک لفظ بھی نہیں .
"با با "اچانک اسکی زبان سے یہ لفظ پھسلا.
اگلے ہی لمحے وہ دوڑتی ہوئی اس باوقار
وجود سے لپٹ گئ.اور کچھ لمحات کےلیے خود سے بے خبر وہ کسی چھوٹے بچے کی طرح روتی
ہی چلی گئ.
"آگئی میری بیٹی "اسکا سر
تھپکتے ہوئے بہت شفقت سے پوچھ رہے وہاں کوئی شکوہ، کوئی ناراضگی نہیں تھی.
" جی ابا... "وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دی.
" رو مت مجھے تکلیف ہوتی ہے تمھارے رونے سے. "
"مجھے معاف کردیں ابا. "وہ انکے سینے سے لگی ہوئی تھی.
"میں نے تو تمہیں بہت پہلے معاف کردیا تھا ایمان. "انہوں نے اسکا منہ اوپر اٹھایا.
"میں آپکو سب بتاوں گی بس میرا
یقین کریں میرا طریقہ شاید غلط تھا مگر میں نہیں،آپ پر کبھی کوئی حرف نہیں آنے
دیا."
" مجھے تم پر
یقین ہے اور رہے گا،میری ایمان غلط نہیں ہوسکتی. "
انکے لہجے میں اس کے لیے یقین تھا
محبت تھی.
پھر بھی وہ دل مسوس کر رہ گئ.
شام ہو رہی تھی وہ تھک گئ تھی.وانیہ
آپی اسکے ساتھ اسکے کمرے تک آئیں.
وہ کمرا آج بھی ویسا ہی تھا.اسکی پسند
کے پردے،ہم رنگ بیڈ شیٹ،گلاسری، ڈیکوریشن پیسز، سائیڈ ٹیبل پر پڑی ہوئی اسکی
تصویریں .
سب وہیں رکا ہوا تھا بس وہ منظر سے
غائب ہوگئ تھی.
" تم ریسٹ کرو ،رات کو کھانے پر
ملتے ہیں. "وانیہ آپی اسکے کمرے کی
کلرفل لائیٹس آن کرکے کمرے سے جانے لگی تھیں.
" آپی، میرے پاس تو بیٹھیں میں کتنا یاد کرتی تھی آپکو ،سب کو بہت یاد کیا
میں نے."وہ انکا ہاتھ پکڑ کر کھڑی تھی.
" مجھے تنزیل کو دیکھنا ہے میں
بعد میں میں آتی ہو تمہارے پاس ."
" آپی آپ مجھ سے کیسے ناراض
ہوسکتی ہیں."
"جیسے تم مجھے چھوڑ کے جاسکتی
ہو. "انہوں نے اسکی آنکھوں میں
دیکھتے ہوئے کہا.
"آپی اگر میں اس وقت نہ جاتی تو
آج میں بس شرجیل کی بیوی ہوتی اور کچھ نہ ہوتی. "
"ایمان ہوسکتا ہے تم ٹھیک کہہ
رہی ہو مگر کوئی اسطرح کیسے کرسکتا ہے. "وہ اب نرم پڑ چکی تھیں.
" جی."اسکی آنکھوں میں نمی آگئ.
" کم از کم مجھے ہی اعتماد میں
لے لیتی،ٹھیک ہے نہ لیتی اعتماد میں ،کبھی مجھ سے رابطہ تو کرلیتی. "
"میں نے ایک دو بار سوچا تھا کہ آپ سے
رابطہ کروں مگر میں نہیں کر سکی،معاف کر دیں مجھے . "وہ ملتجی لہجے میں بولی.
"اچھا اب تم آرام کرو ،سالوں سے
چلتی ہوئی تھک گئ ہوگی. "انہوں نے
گہرا سانس خارج کیا.
"تھکن تو شاید قسمت میں لکھی
ہے. "
"انشاءاللہ ہوگی دور ایک دن،اور وہ دن کمال ہوگا. "
"مجھے نہیں لگتا. "
مایوسی کی انتہا پر وہ پہنچ رہی تھی.
"جب خدا پر کامل یقین ہو تو ہر
انشاءاللہ، الحمداللہ بن جاتا ہے. "
"آپکی انہی باتوں کو تو میں مس
کرتی تھی. "
" میں بھی."
" آپی تنزیل مجھے کیسے جانتا
ہے."
"جیسے تم اسکو نہیں جانتی
تھی. "
" یہی تو میں بھی سوچ رہی ہوں کے
وہ مجھے کیسے جانتا ہے اس نے تو آج پہلی بار مجھے دیکھا ہے اور میں نے بھی. "
" ایک بار اس نے تمہاری تصویر دیکھی تھی ،پھر وہ
مجھ سے روز تمہارا پوچھتا تھا. "
" کیا پوچھتا تھا. "وہ یکدم پرجوش ہوگئ.
"یہی کہ آنی کہاں ہے،مجھ سے کیوں
نہیں ملتی،انکو کیا پسند ہے ،وغیرہ وغیرہ .
"
"ہاہاہا اچھا.....ویسے بہت پیارا
ہے آپ کا بیٹا،اور بہت ذہین بھی."اسکا موڈ اب پہلے سے بہتر ہورہا تھا.
" ماشاااللہ . "انکے لہجے میں اپنے بیٹے کے
لیے فخر تھا.
" چلو ٹھیک ہے اب تم آرام
کرو."
وانیہ کے جانے کے بعد اسکا دماغ گھوم
پھر کر پھر اماں کی باتوں کی طرف چلا گیا.
کتنی دیر وہ یونہی گھٹنوں میں سر دیے
بیٹھی رہی.
آدھی رات ہوچکی تھی نیم تاریکی میں بھی
اسے تھا یوں بیٹھے ہو ئے دیکھا جا سکتا تھا.
وہ بمشکل اپنی جمائیاں روک رہی تھی.
اچانک ایمان کی موبائل اسکرین روشن
ہوئی.
" yes
I have reached and I know my duty goodly.
"
مسیج سینڈ ہوتے ہی اس نے موبائل آف
کیا اور تکیے کے نیچے رکھ کر سو گئ.
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
جاری ہے
Comments
Post a Comment