"آغا جان !مجھے آپ کی بات کا بہت پاس ہے۔مگر جو آپ کہہ رہے ہیں وہ میرے لئے ناقابلِ قبول ہے۔نہ آج ،نہ کبھی آئندہ۔۔۔یہ ناممکن ہے!“ آغا ولی خان کی بات سن کر اس نے صاف لفظوں میں انکار کر دیا تھا۔وہ ان کی بات پر حیران تھا۔اور حیران ہونے سے زیادہ غصہ تھا۔ایسی بات وہ سوچ بھی کیسے سکتے ہیں۔وہ ہوش میں تو تھے۔یہ تو وہ جانتا تھا کہ اس حویلی کی ریت کے مطابق۔۔۔کسی عورت کا بیاہ خاندان سے باہر نہیں ہونا تھا۔پھر چاہے وہ چودہ سالہ بچی ہو یا چالیس سالہ عورت!اسے رہنا اسی گھرانے میں تھا۔اپنی ذات کی نفی کر کے اس خاندان کی جائیداد کو محفوظ رکھنا تھا۔وہاج حیدر خان کے لئے یہ سب ناقابلِ قبول تھا مگر وہ کر کچھ نہیں سکتا تھا۔اس نے عزم کیا تھا کہ وہ
اس گھٹیا رواج کو ختم کر کے ہی دم لے گا۔اپنی اتنے سال کی تعلیم کی یوں ضائع نہیں ہونے دے گا۔مگر وہ تو۔۔۔آج پہلی ہی سیڑھی پر منہ کے بل گِر پڑا تھا۔
اس کی اپنی ذات سے ایک
کمسن لڑکی کو قیدکرنے کا سوچا جا رہاتھا۔اور لڑکی بھی وہ جو اسے خود سے بڑھ کر
عزیز تھی۔کیا وہ خود سے بارہ سالہ چھوٹی لڑکی کو اپنے حقوق کا پابند کر کے اس کی
خوشیاں اس سے چھین سکتا تھا؟ نہیں! بالکل نہیں۔۔بات کچھ قابلِ قبول ہوتی بھی اگر
وہ لڑکی ہانیہ حیدر خان نہ ہوتی تو! اسی لئے وہ آغا جان کو صاف صاف انکار کر کے
چلا آیا تھا۔
*****************************
وہاج حیدر خان کی زندگی کے پیمانے بہت وسیع تھے مگر ان سب سے پہلے اگر کسی کی اہمیت تھی تو ”ہانیہ حیدر خان“ کی تھی۔وہ اس کے چچا کی بیٹی تھی۔اسے یاد تھا وہ ایک سنہرا دن تھا جب سکول سے آکر اس نے حویلی میں ہلچل محسوس کی اور
*****************************
وہاج حیدر خان کی زندگی کے پیمانے بہت وسیع تھے مگر ان سب سے پہلے اگر کسی کی اہمیت تھی تو ”ہانیہ حیدر خان“ کی تھی۔وہ اس کے چچا کی بیٹی تھی۔اسے یاد تھا وہ ایک سنہرا دن تھا جب سکول سے آکر اس نے حویلی میں ہلچل محسوس کی اور
اس ننھی سفید گلاب سے پری
کو دیکھ کر اس کے اندر تک ایک سکون کی لہر دوڑ گئ۔اسے دیکھ اسے خوشی محسوس ہوتی
تھی۔سکون محسوس ہوتا تھا۔وہ اسے اپنی روح کا حصہ معلوم ہوتی تھی۔بچپن سے اب تک وہ
اس کے لاڈ اٹھاتا آیا تھا۔وہ ”وہاج بھائی“ کہتی نہ تھکتی تھی۔اس کی فرمائشیں پوری
کرنا اس پر فرض تھا جیسے۔اس کے چہرے پہ مسکراہٹ لانا اس کا مقصد تھا مگر آج۔۔۔۔آج
اس نے اس کی آنکھوں سے سارے خواب، ساری خوشیاں نوچ ڈالی تھیں۔وہ
ایسا کبھی نہیں چاہتا
تھا۔کبھی بھی نہیں۔مگر آغا جان کے کھیل کے آگے وہ کچھ نہیں کر سکتا تھا۔ چچی ماں
کے آنسوٶں نے اسے بےبس کر دیاتھا۔آغا جان نے اس کے سامنے دو آپشن رکھے تھے۔۔عبداللہ
خان اور احمد خان ! اسے ہانیہ کے لئے کسی ایک کا انتخاب کرنا تھا۔عبداللہ خان ان
کے پھپھو ماں کے سسرال کا ایک فرد تھا۔اسے فرد سے زیادہ بزرگ کہنا ٹھیک تھا۔وہ عمر
کے آخری حصے میں تھا۔وہ ہانیہ کو دیکھے کنویں میں نہیں دھکیل سکتا تھا۔اور احمد
خان۔۔وہ اس کے چھوٹے چچا کا بیٹا تھا۔دو سالہ بیٹا! انہوں نے بہت سوچ سمجھ کر اس کے
سامنے سوال رکھا تھا۔وہ اس سے ہارنے والے نہیں تھے۔اور وہ ہارے نہیں تھے۔ہانیہ
حیدر خان اسی رات ہانیہ وہاج حیدر بن گئی تھی۔
*******************************
رات آدھے سے زیادہ بیت چکی تھی۔اور وہ سر ہاتھوں میں تھامے بیٹھا تھا۔
”وہاج بھائی ایک بات تو بتائیں۔۔؟“وہ چہرہ مٹھی پہ ٹکائے اس سے مخاطب تھی۔وہ دونوں اس وقت سٹڈی روم میں تھے۔
”ہاں پوچھو!“اس نے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔وہ پوری طرح اس کی جانب متوجہ تھا۔
"میڈیکل میں جانے کے لئے مجھے ایف ایس سی میں کتنے مارکس چاہئے؟“ وہ بہت سنجیدگی سے پوچھ رہی تھی۔اس نے جواب دیا تھا مگر اب اس کا جواب کوئی معنی نہیں رکھتا تھا۔وہ چھوٹی سی لڑکی اس کے لئے سب سے اہم تھی۔ہماری زندگی میں کوئی نہ کوئی ایسا ضرور ہوتا ہے جسے دیکھ کر روح تک شانت ہو جاتی ہے، زندگی خوبصورت لگنے لگتی ہے ، اور ہم اس احساس کو کوئی نام نہیں دے پاتے۔وہاج کے لئے وہ" کوئی" ہانیہ تھی۔جس کی خوشی اسے سب سے عزیز تھی۔وہ اس کے خواب کچلنے کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا مگر اب وہ اس کی وجہ سے اس حویلی میں اب ہی سے قید ہو گئی تھی۔
اس پھول سی لڑکی کو وہ مرجھانے نہیں دے گا۔وہاج حیدر ہانیہ کے لئے ہمیشہ سے ہی خوشی کا باعث رہا تھا اور آئندہ بھی رہے گا۔حویلی والوں کو اپنے کچھ اصول بدلنے پڑیں گے۔۔۔وہ ہانیہ حیدر کو ٹوٹنے نہیں دے گا۔ہرگز نہیں !
********************************
*******************************
رات آدھے سے زیادہ بیت چکی تھی۔اور وہ سر ہاتھوں میں تھامے بیٹھا تھا۔
”وہاج بھائی ایک بات تو بتائیں۔۔؟“وہ چہرہ مٹھی پہ ٹکائے اس سے مخاطب تھی۔وہ دونوں اس وقت سٹڈی روم میں تھے۔
”ہاں پوچھو!“اس نے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔وہ پوری طرح اس کی جانب متوجہ تھا۔
"میڈیکل میں جانے کے لئے مجھے ایف ایس سی میں کتنے مارکس چاہئے؟“ وہ بہت سنجیدگی سے پوچھ رہی تھی۔اس نے جواب دیا تھا مگر اب اس کا جواب کوئی معنی نہیں رکھتا تھا۔وہ چھوٹی سی لڑکی اس کے لئے سب سے اہم تھی۔ہماری زندگی میں کوئی نہ کوئی ایسا ضرور ہوتا ہے جسے دیکھ کر روح تک شانت ہو جاتی ہے، زندگی خوبصورت لگنے لگتی ہے ، اور ہم اس احساس کو کوئی نام نہیں دے پاتے۔وہاج کے لئے وہ" کوئی" ہانیہ تھی۔جس کی خوشی اسے سب سے عزیز تھی۔وہ اس کے خواب کچلنے کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا مگر اب وہ اس کی وجہ سے اس حویلی میں اب ہی سے قید ہو گئی تھی۔
اس پھول سی لڑکی کو وہ مرجھانے نہیں دے گا۔وہاج حیدر ہانیہ کے لئے ہمیشہ سے ہی خوشی کا باعث رہا تھا اور آئندہ بھی رہے گا۔حویلی والوں کو اپنے کچھ اصول بدلنے پڑیں گے۔۔۔وہ ہانیہ حیدر کو ٹوٹنے نہیں دے گا۔ہرگز نہیں !
********************************
کمرے کا دروازہ کھولتے ہی
کوئی چیز اس کے جوتے سے ٹکرائی تھی۔اس نے قدم پیچھے کئے۔اندر بالکل اندھیرا
تھا۔تمام لائٹس بند تھیں۔اسے معاملے کی سنگینی کا اندازہ ہوا۔ہانیہ لائٹس آف نہیں
کرتی تھی۔اسے اندھیرے سے ڈر لگتا تھا۔مگر آج۔۔۔۔خود پر تف بھیجتے ہوئے اس نے
احتیاط سے کمرے میں آکر لائٹس آن کر دیں۔ایک حیرت کا جھٹکا لگا تھا اسے۔کچھ پل
حیران سا وہ وہیں کھڑا رہ گیا۔پورا کمرا
بکھرا پڑا تھا۔ہر چیز نیچے فرش پہ ٹوٹی پڑی تھی۔یہاں تک کہ دولہن کے آج کے زیورات بھی
قالین پر بکھرے اس کا منہ چڑا رہے تھے۔سب سے نظریں ہٹا کر اس نے ہانیہ کی تلاش میں
نگاہ دوڑائی۔۔وہ ایک طرف نیچے قالین پر بیٹھی تھی اور اس کا چہرہ رونے کی
شدت سے سرخ ہو رہا تھا۔لہنگا بھی اپنے ہونے پر آنسو بہا رہا تھا۔وہ بار بار اپنی
آنکھیں صاف کرتی تھی۔دودھ سے سفید چہرے پر کالا کاجل اپنی لکیر کھینچ چکا تھا۔اسے
دیکھ کر ایک بار پھر اسے خود سے نفرت محسوس ہوئی۔اس نے قدم آگے بڑھائے۔
”ہانی۔۔۔“ وہ اس کے سامنے بیٹھی تھی اور وہ مجرم بنا کھڑا تھا۔پکار پر ہانیہ نے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔۔۔۔اور وہاج حیدر نے خود کے فناہونے کی دعا مانگ لی!وہ اس سے نگاہیں نہیں ملا پایاتھا۔جن نظروں میں اپنے لیے احترام، محبت اور اعتبار دیکھنے کی عادت ہو ۔۔۔ان میں خود کے لئے حقارت، نفرت اور بے اعتباری دیکھنا دنیا کا مشکل ترین کام ہوتا ہے۔اور وہاج حیدر اس فعل سے گزر رہا تھا۔
”ہانی۔۔۔“ وہ اس کے سامنے بیٹھی تھی اور وہ مجرم بنا کھڑا تھا۔پکار پر ہانیہ نے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔۔۔۔اور وہاج حیدر نے خود کے فناہونے کی دعا مانگ لی!وہ اس سے نگاہیں نہیں ملا پایاتھا۔جن نظروں میں اپنے لیے احترام، محبت اور اعتبار دیکھنے کی عادت ہو ۔۔۔ان میں خود کے لئے حقارت، نفرت اور بے اعتباری دیکھنا دنیا کا مشکل ترین کام ہوتا ہے۔اور وہاج حیدر اس فعل سے گزر رہا تھا۔
"آپ۔۔۔۔آپ کی ہمت
کیسے ہوئی کہ آپ میرے سامنے چلے آئے۔۔۔“ غصہ اور حقارت سے وہ اس پر چلائی تھی۔اسے
برا نہیں لگا تھا۔وہ اس کا حق رکھتی تھی۔
”آپ کی وجہ سے۔۔۔صرف آپ کی وجہ سے۔۔۔“وہاج نے سر ہاتھوں میں تھاما۔۔اذیت سی اذیت تھی۔
”آپ ایک دھوکے باز اور فراڈ انسان ہیں۔وعدہ خلاف اور دوغلے شخص! آپ نے کہا تھا ایسا کچھ نہیں ہوگا۔۔اور اب۔۔۔۔“
”کتنے اچھے اداکار ہیں آپ وہاج حیدر۔۔۔دوست کے روپ میں میرے سب سے بڑے دشمن نکلے آپ۔۔!میری خوشیاں چھین لیں آپ نے مجھ سے۔۔۔میری زندگی ختم کر دی۔۔“
”آپ۔۔خدارا۔۔جائیں یہاں سے۔۔آپ جیسے گھٹیا شخص کی صورت بھی نہیں دیکھنا چاہتی میں۔۔۔میری زندگی برباد کر دی آپ نے! جائیں یہاں سے۔۔۔چلے جایئں!“
وہ ناچاہتے ہوئے بھی کمرے سے نکل گیا تھا۔
************************
اس کی آنکھ ایک مخصوص آواز سے کھلی تھی۔کوئی اس کا کندھا ہلا کر اسے اٹھانے کی کوشش کر رہا تھا۔پوری طرح حواس میں آکر وہ بوکھلا کر اٹھ بیٹھی تھی۔اس کی چھوٹی ماں جی اس کے قریب بیٹھی تھیں۔وہ غائب دماغی سے انہیں دیکھنے لگی۔کل کے واقعات ذہن میں آتے ہی اس نے فوراً رخ موڑ لیا۔
”اب اور کتنا ناراض رہو گی ہانی۔۔جو ہونا تھا ہو گیا۔۔تم بھی تو اس گھر کی اصولوں سے واقف ہو۔“ اس نے افسوس سے اپنی ماں کو دیکھا۔وہ ہمیشہ ہی اس گھر کے اصولوں اور لوگوں سے تائب رہتی تھیں۔اس نے اتنی محنت اس شادی کے لئے تو نہیں کی تھی۔۔۔کتنا کہا تھا اس نے ماں جی سے۔۔۔ابا میاں سے۔۔۔کہ اسے پڑھنا ہے۔وہ اس کے لئے آواز اٹھائیں۔اس کے حق کے لئے لڑیں۔مگر۔۔۔سب بے سُدھ۔۔سب خاموش تماشائی بنے آغا جان کی ہاں میں ہاں ملاتے رہے تھے۔اور وہ وہاج بھا۔۔بھائی تو اب وہ نہیں رہے تھے۔وہ تو سب سے بڑے گناہگار تھے اس کے۔انہیں تو سب پتا تھا۔وہ تو اس کے سب سے اچھے دوست تھے مگر پھر بھی انہوں نے اس کی پیٹھ میں چھرا گونپا تھا۔اس نے وعدہ لیا تھا ان سے کہ وہ اسےمیڈکل میں بھیجیں گے۔۔ہر حال میں اس کی خواہش پوری کریں گی۔۔۔اور اب انہوں نے ہی اس پر ہر دروازہ بند کر دیا۔۔۔وہ کسی کو معاف نہیں کرے گی۔اور وہاج حیدر کو تو کبھی بھی نہیں۔۔۔
”آپ کی وجہ سے۔۔۔صرف آپ کی وجہ سے۔۔۔“وہاج نے سر ہاتھوں میں تھاما۔۔اذیت سی اذیت تھی۔
”آپ ایک دھوکے باز اور فراڈ انسان ہیں۔وعدہ خلاف اور دوغلے شخص! آپ نے کہا تھا ایسا کچھ نہیں ہوگا۔۔اور اب۔۔۔۔“
”کتنے اچھے اداکار ہیں آپ وہاج حیدر۔۔۔دوست کے روپ میں میرے سب سے بڑے دشمن نکلے آپ۔۔!میری خوشیاں چھین لیں آپ نے مجھ سے۔۔۔میری زندگی ختم کر دی۔۔“
”آپ۔۔خدارا۔۔جائیں یہاں سے۔۔آپ جیسے گھٹیا شخص کی صورت بھی نہیں دیکھنا چاہتی میں۔۔۔میری زندگی برباد کر دی آپ نے! جائیں یہاں سے۔۔۔چلے جایئں!“
وہ ناچاہتے ہوئے بھی کمرے سے نکل گیا تھا۔
************************
اس کی آنکھ ایک مخصوص آواز سے کھلی تھی۔کوئی اس کا کندھا ہلا کر اسے اٹھانے کی کوشش کر رہا تھا۔پوری طرح حواس میں آکر وہ بوکھلا کر اٹھ بیٹھی تھی۔اس کی چھوٹی ماں جی اس کے قریب بیٹھی تھیں۔وہ غائب دماغی سے انہیں دیکھنے لگی۔کل کے واقعات ذہن میں آتے ہی اس نے فوراً رخ موڑ لیا۔
”اب اور کتنا ناراض رہو گی ہانی۔۔جو ہونا تھا ہو گیا۔۔تم بھی تو اس گھر کی اصولوں سے واقف ہو۔“ اس نے افسوس سے اپنی ماں کو دیکھا۔وہ ہمیشہ ہی اس گھر کے اصولوں اور لوگوں سے تائب رہتی تھیں۔اس نے اتنی محنت اس شادی کے لئے تو نہیں کی تھی۔۔۔کتنا کہا تھا اس نے ماں جی سے۔۔۔ابا میاں سے۔۔۔کہ اسے پڑھنا ہے۔وہ اس کے لئے آواز اٹھائیں۔اس کے حق کے لئے لڑیں۔مگر۔۔۔سب بے سُدھ۔۔سب خاموش تماشائی بنے آغا جان کی ہاں میں ہاں ملاتے رہے تھے۔اور وہ وہاج بھا۔۔بھائی تو اب وہ نہیں رہے تھے۔وہ تو سب سے بڑے گناہگار تھے اس کے۔انہیں تو سب پتا تھا۔وہ تو اس کے سب سے اچھے دوست تھے مگر پھر بھی انہوں نے اس کی پیٹھ میں چھرا گونپا تھا۔اس نے وعدہ لیا تھا ان سے کہ وہ اسےمیڈکل میں بھیجیں گے۔۔ہر حال میں اس کی خواہش پوری کریں گی۔۔۔اور اب انہوں نے ہی اس پر ہر دروازہ بند کر دیا۔۔۔وہ کسی کو معاف نہیں کرے گی۔اور وہاج حیدر کو تو کبھی بھی نہیں۔۔۔
”آج تک تمہاری ہر بات پوری کی ہے ہم نے۔۔یہاں تک کہ تمہیں کالج جانے کی اجازت بھی دی۔۔صرف وہاج کی وجہ سے تم نے کالج کی صورت بھی دیکھ لی۔۔۔اس نے ہمیشہ ایک اچھے دوست کی طرح تمہارا ساتھ دیا ہے۔۔اب تمہاری باری ہے کہ تم اس کی بیوی بن کر اپنے تمام فرائض پورے کرو۔۔۔“ وہی نصیحتیں جو وہ اسے کل سے اب تک سو بار تو کر ہی چکی تھیں۔۔کوئی شک نہیں تھا کہ وہاج نے ہر بار اس کا ساتھ دیا تھا۔اس نے کہا اسے وہاج کے سکول جانا ہے اور وہاج اسے اپنے سکول لے گیا۔اس نے کہا اسے وہاج جیسا ہی الگ بڑا روم چاہئے، وہاج نے وہ بھی کر ڈالا۔۔اس نے کہا اسے سائنس پڑھنی ہے۔۔سب کی مخالفت کے باوجود اس نے سائنس پڑھ لی۔۔۔اس نے کہا کہ اسے وہاج کے ہی کالج جانا ہے۔۔اور وہ اسے اسی کالج میں داخل کروا کر آیا۔۔۔وہاج بھائی اس کے مہربان تھے۔۔مگر اب۔۔!!
اس کی طبیعت نہ جانے باقی سب سے کچھ الگ کیوں تھی۔۔اسے حویلی کے اصولوں سے بیر تھا۔اس کے مزاج میں خود سری تھی۔اسے جو ٹھیک لگتا تھا وہ وہی کرتی تھی۔نڈر اور نرم دل فطرت پائی تھی اس نے۔مگراس سب کامظاہرہ بس وہاج اور باقی لوگوں کے سامنے ہوتا تھا۔بڑی ماں، وہاج کی والدہ کی وہ جتنی بھی لاڈلی سہی۔۔۔ان کے سامنے بات کرنا مشکل تھا۔اور آغا جان۔۔وہ تو کسی اور دنیا کی مخلوق تھے، جن کے کوئی جذبات نہیں تھے اور اس بات کا اظہار وہ سب سے کرتی تھی سوائے آغا جان کے۔۔۔وہ اس دنیا کے بادشاہ تھے۔اور ہانیہ انہیں فرعون بادشاہ کہتی تھی۔
”آپ کا وہ کھڑوس بھتیجا کدھر ہے؟“ اس نے وہاج کے متعلق پاچھا۔
”یہ کس انداز میں مخاطب ہو تم۔اب وہ تمہارا شوہر ہے۔اس کی عزت کرنا سیکھو۔شوہر اس طرح کے القابات برداشت نہیں کرتے۔بیوی کی لمبی زبان کھینچ کر ہاتھ میں پکڑاتے ہیں۔دو تھپڑ پڑیں گے تو خود ہی عقل آجائے گی تمہیں۔“وہ ہکا بکا انہیں دیکھ رہی تھی۔تو اب وہ اس پر ہاتھ بھی اٹھائے گا۔۔۔نہیں۔۔ وہ وہاج بھا۔۔۔لیکن اب وہ بھائی نہیں تھا۔ہاتھ اٹھا سکتا تھا۔اب اسے اس سے کوئی امید نہیں تھی۔
”وہ صبح ہی شہر کے لئے نکل گیا۔رات بھی وہ باہر ہی بیٹھا رہا۔۔میرا دل بہت پریشان ہے۔پتا نہیں اب کب واپس آئے۔بس اب وہ تمہیں بھی اپنے پاس شہر لے جائےتو اچھا ہے۔میں ناشتا بنواتی ہوں۔۔اٹھ جاٶاب۔۔“
”اللہ کرے وہ کبھی واپس نہ آئے۔“وہ کمبل ہٹا کر اٹھ گئی تھی۔
****************************
اس کی دعا قبول نہیں ہوئی تھی۔ٹھیک دو دن بعد وہاج حویلی میں تھا۔وہ اسے ساتھ لینے آیا تھا۔لاہور شہر میں بزنس وہی دیکھتا تھا۔اور وہ اپنی بیوی کو اپنے ساتھ رکھنا چاہتا تھا۔کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہوا تھا۔
”میں آپ کی صورت دیکھنے کی روادار نہیں اور آپ مجھے ساتھ لے جانے آئے ہیں !“
الفاظ دوٹوک تھے۔
”ہم اچھے دوست بھی تو ہیں ہانی۔۔جو ہوا وہ ایک طرف۔۔میں مجبور ہو گیا تھا۔۔مجھے احساس ہے کہ۔۔“بات مکمل نہیں ہو پائی تھی۔
”احساس۔۔؟آپ تو احساس کی بات نہ ہی کریں تو اچھا ہے۔جس طرح آپ نے میرے ہر احساس کو ختم کیا ہے۔۔۔آپ کے لئے نفرت کا لفظ بھی چھوٹا پڑتا ہے۔“سفاکی کی انتہا تھی۔وہاج نے بے بسی سے اسے دیکھا۔
”میں ماتنا ہوں کہ میں تمہارا مجرم ہوں۔۔میں اپنی بات پوری نہیں کر سکا۔۔لیکن بعض اوقات انسان اپنوں کے ہاتھوں ہی مجبور ہو جاتا ہے۔۔۔“
”مجبوری کی بات مجھ سے مت کیجئے۔۔!آپ تو وہ ہیں جن کے اشارے پر آغا جان اپنی جان بھی قربان کر دیں۔۔ان کے پہلے بیٹے کے پہلے وارث ہیں آپ۔۔۔میں مان ہی نہیں سکتی کہ اس کھیل میں آپ شامل نہیں ۔۔۔“وہ سوچ پر ششدر تھا۔وہ اسے ہمیشہ سےجانتی تھی۔اور اسے دعویٰ تھا کہ وہ اسے سب سے زیادہ جانتی تھی۔اس کا جاننا کس قدر ناکارا ثابت ہوا تھا۔
”جو ہو چکا اس پر میں کیا وضاحت دوں؟۔۔۔تب حالات بس سے باہر تھے۔۔مگر اب حالات ہاتھ میں ہیں۔۔تم مجھ پر اعتبار رکھو۔۔میں تمہیں ضائع نہیں ہونے دوں گا۔۔ایک بار میرے ساتھ چلو پھر سب بہتر ہو جائےگا۔“وہ اسے کچھ کہہ نہیں پا رہا تھا کیوں کہ جانتا تھا کہ ابھی وہ بالکل یقین نہیں کرے گی۔آخر بچپن کا ساتھ اتنی مزاج آشنائی تو عطا کر ہی سکتا ہے۔زندگی میں پہلی بار وہ ہانیہ کو خود پر اعتبار دلا تھا اور اس وقت وہاج حیدر کو پتا چلا تھا کہ زندگی کس قدر عجیب کھیل کھیلتی ہے۔اس کا داٶ بڑے بڑوں کو گرا دیتا ہے۔کبھی آسمان سے تو کبھی کسی کی نظر سے۔۔اور زندگی کا پر اذیت ترین کام خود کو اپنے بہت پیارے کی نظروں میں گرا ہوا دیکھنا ہے۔وہ بھی اس اذیت سے گزر رہا تھا۔
”مجھے آپ کے ساتھ نہیں جانا۔۔میرا اور آپ کا اب بس ایک ہی رشتہ ہے ۔۔۔نفرت کا رشتہ!“
ہانیہ کا جواب صاف تھا۔ابھی اسے کچھ بھی سمجھانا
بے سدھ تھا۔وہ اس کی رگ رگ سے واقف تھا۔اسی لئےخاموشی سے وہاں سے چلا آیا
تھا۔اور اب وہ گاڑٰی کی فرنٹ سیٹ پہ اس کے ساتھ بیٹھی تھی۔آغاجان کے سامنے
انکار کرنا ناممکن تھا۔منہ پھلائے وہ باہر کے نظارے دیکھنے میں مگن تھی۔گاڑی کب
گھر کے سامنے رکی اسے پتا ہی نہیں چلا۔ہوش تب آیا جب اسے مخاطب کیا گیا۔”اترو نیچے
!“وہ دروازہ کھول کر نیچے اتر آئی۔گھر بڑا اور خوبصورت تھا۔وہاج کی قیادت میں وہ
اندر کی طرف بڑھی۔ہر چیز چمکتی تھی۔اس نے اندازہ لگایا کہ گھر یقیناً نیا لیا گیا
تھا۔ورنہ شہر کے گھر میں وہ ایک بار آ چکی تھی۔مگر یہ گھر اس سے زیادہ خوبصورت
تھا۔سیڑھیاں چڑھ کر وہ ایک کمرے میں داخل ہوئے تھے۔وہاج رک گیا تھا۔وہ جو ہر چیز
کو پرکھتی نگاہوں سے دیکھ رہی تھی اس کی بات پر چونکی۔
”یہ ہمارا روم ہے۔“ وہ ہاتھ سے گھڑی اتار رہا تھا۔
ہمارا۔۔۔؟کیا مطلب؟میں آپ کے ساتھ ایک روم میں نہیں رہوں گی۔“اس نے دوٹوک لفظوں میں انکار کر دیا تھا۔اس کی بات ہر وہاج نے کچھ حیرت سے اسے دیکھا۔وہ یہ بول رہی تھی! ہاں۔۔! کیونکہ وہ ”اسے“ یہ بول رہی تھی۔اور وہ بس اسے ہی ایسے بول سکتی تھی۔یہ
”یہ ہمارا روم ہے۔“ وہ ہاتھ سے گھڑی اتار رہا تھا۔
ہمارا۔۔۔؟کیا مطلب؟میں آپ کے ساتھ ایک روم میں نہیں رہوں گی۔“اس نے دوٹوک لفظوں میں انکار کر دیا تھا۔اس کی بات ہر وہاج نے کچھ حیرت سے اسے دیکھا۔وہ یہ بول رہی تھی! ہاں۔۔! کیونکہ وہ ”اسے“ یہ بول رہی تھی۔اور وہ بس اسے ہی ایسے بول سکتی تھی۔یہ
مان،یہ حق،اس نے خود ہی
اسے دیا تھا۔وہ سب سے عزیز اور سب سے کمسن دوست تھی۔۔۔تھی!
”کیوں۔۔کیا پرابلم ہے اس میں۔۔ہم اچھے دوست ہیں ہانی!“اس نے نظریں اس پر جماتے ہوئے کہا۔گہری بھوری آنکھیں۔۔۔
”ہم دوست تھے۔۔اب نہیں ہیں۔“وہاج نے مسکرا کر بازو باندھے۔وہ بچوں کی طرح روٹھے لہجے میں کہہ رہی تھی۔کیوٹ!
”اچھا۔۔۔لیکن اب ہم میں دوستی سے زیادہ مضبوط اور ایک شرعی رشتہ بن چکا ہے۔تم میری بیوی ہو۔۔اور میں تمہارا شوہر۔۔!“وہ اسے یہ بات سمجھا دینا چاہتا تھا۔وہ جتنی جلدی یہ سب قبول کرے گی اتنا ہی اچھا رہے گا۔
”ٗاچھا۔۔۔مجھے تو پتا ہی نہیں تھا۔“اس نے خاص انداز میں طنزً ا کہا۔وہاج کے لئے قہقہہ روکنا مشکل ہو گیا تھا۔اور اس نے کوئی کوشش بھی نہیں کی تھی۔وہ سچ میں اس سے بہت چھوٹی تھی۔کہنے کو اٹھارہ سالہ دوشیزہ تھی مگر معصومیت اس میں آٹھ سالہ بچی جیسی تھی۔اس سب کے بعد بھی وہ اپنے مخصوص انداز میں اس سے بات کر رہی تھی۔
”کیوں۔۔کیا پرابلم ہے اس میں۔۔ہم اچھے دوست ہیں ہانی!“اس نے نظریں اس پر جماتے ہوئے کہا۔گہری بھوری آنکھیں۔۔۔
”ہم دوست تھے۔۔اب نہیں ہیں۔“وہاج نے مسکرا کر بازو باندھے۔وہ بچوں کی طرح روٹھے لہجے میں کہہ رہی تھی۔کیوٹ!
”اچھا۔۔۔لیکن اب ہم میں دوستی سے زیادہ مضبوط اور ایک شرعی رشتہ بن چکا ہے۔تم میری بیوی ہو۔۔اور میں تمہارا شوہر۔۔!“وہ اسے یہ بات سمجھا دینا چاہتا تھا۔وہ جتنی جلدی یہ سب قبول کرے گی اتنا ہی اچھا رہے گا۔
”ٗاچھا۔۔۔مجھے تو پتا ہی نہیں تھا۔“اس نے خاص انداز میں طنزً ا کہا۔وہاج کے لئے قہقہہ روکنا مشکل ہو گیا تھا۔اور اس نے کوئی کوشش بھی نہیں کی تھی۔وہ سچ میں اس سے بہت چھوٹی تھی۔کہنے کو اٹھارہ سالہ دوشیزہ تھی مگر معصومیت اس میں آٹھ سالہ بچی جیسی تھی۔اس سب کے بعد بھی وہ اپنے مخصوص انداز میں اس سے بات کر رہی تھی۔
”آپ اگر کسی بھول میں ہیں تو آنکھیں کھولئے۔۔آپ کی وجہ سے میری زندگی کا سب پڑا خواب مٹی ہوا ہے۔۔۔آپ کے ساتھ رہنا کیا۔۔۔آپ کو سامنے برداشت کرنا میرے لئے بہت مشکل ہے۔۔آپ کی وجہ سے میری سب۔۔“
غصے سے اس کاسانس پھول گیا تھا۔
”آپ کو اندازہ نہیں ہے کہ آپ نے کیا کیا ہے۔۔۔بالکل اسی طرح جیسے آپ کو یہ اندازہ نہیں کہ مجھے آپ کس قدر برے لگتے ہیں۔۔“وہاج نے لب کھولے تھے مگر اس نے بات جاری رکھی۔
”آپ نے جو کرنا تھا کر لیا۔۔۔۔مگر اگر اب آپ نے مجھے مزید اذیت دی۔۔تو میں کچھ بھی کرنے سے باز نہیں آٶں گی۔۔کچھ بھی مطلب کچھ بھی۔۔“ یہ کہہ کر وہ رکی نہیں تھی۔وہاج نے ایک گہرا سانس لیا۔
****************************
وہاج نے تو کہہ دیا مگر وہ اسے تنگ نہیں کرنا چاہتا تھا۔بس ماحول کو معمول پر لانے کی ایک کوشش تھی۔لیکن وہ کوشش بہت سنگین ثابت ہوئی تھی۔اس کی ذرا سی بات کواس نے کیا
سمجھا۔۔۔اور کیا کچھ
کہا۔۔وہ ایک طرف۔۔مگر وہ اس کے مزاج سے خائف تھا۔اسے ڈر تھا کہ ہانیہ ان حالات
میں کسی اپنےکو کھو نہ دے۔کچھ ایسا ویسا نہ کر دے۔ وہ ایک جذباتی اور معصوم لڑکی
تھی۔اس بات پیشِ نظر بیڈ روم کے ساتھ ملحقہ سٹدی روم میں رہنا اس کے لئےمشکل نہیں
تھا۔صبح آفس اور شام میں گھر۔۔۔وہ اس سے بات کرنے کی ذرا سی کوشش کرتا مگر وہ تو
گویا عہد کئے بیٹھی تھی۔ہانیہ نے کبھی اس کی بات کا جواب نہیں دیا تھا۔صرف کام کی
بات میں وہ کچھ ذرا سا بول دیتی۔۔وہاج اس کے رویے سے پریشان بھی تھا۔وہ جانتا تھا
کہ اس نے کیا کھویا ہے۔
”اف اللہ۔۔۔ڈاکٹرز کی لائف کتنی زبردست ہوتی ہے نا۔۔۔اور وائٹ کوٹ ! کتنا اچھا لگتا ہے وہ۔۔۔اور سب سے بڑھ کر ایک با مقصد زندگی ! دوسروں کے کام آنے سے بھی اچھا کچھ ہو سکتا ہے کیا۔!“
بچپن سے اب تک ڈاکٹر بننے کا خواب دیکھا تھا اس نے اور اب۔۔ہانیہ کو یہ بات جننا چاہیے تھی کہ اس گھر کی لڑکیاں صرف گاٶں کے سکول تک ہی پڑھتی تھیں۔یہ بدلاٶ بھی بہت مشکل سے ہی آیا تھا۔۔ ۔۔وہ پہلی لڑکی تھی جو کالج تک گئی تھی۔۔۔مگر وہاں جاکر
”اف اللہ۔۔۔ڈاکٹرز کی لائف کتنی زبردست ہوتی ہے نا۔۔۔اور وائٹ کوٹ ! کتنا اچھا لگتا ہے وہ۔۔۔اور سب سے بڑھ کر ایک با مقصد زندگی ! دوسروں کے کام آنے سے بھی اچھا کچھ ہو سکتا ہے کیا۔!“
بچپن سے اب تک ڈاکٹر بننے کا خواب دیکھا تھا اس نے اور اب۔۔ہانیہ کو یہ بات جننا چاہیے تھی کہ اس گھر کی لڑکیاں صرف گاٶں کے سکول تک ہی پڑھتی تھیں۔یہ بدلاٶ بھی بہت مشکل سے ہی آیا تھا۔۔ ۔۔وہ پہلی لڑکی تھی جو کالج تک گئی تھی۔۔۔مگر وہاں جاکر
جیسے اس کی یہ خواہش اور
پختہ ہو گئی تھی۔۔وہاج حیدر اس کا واحد دوست تھا جو اس کی ہمت افزائی کرتا
تھا۔پڑھائی کے لئے جب وہ ملک سے باہر گیا تو وہ فون پر اس کا دماغ کھاتی اور تب
بھی وہ ہر سال صرف اس کے لئے اپنے گھر آتا تھا۔۔کیونکہ ہانی ایسا چاہتی تھی۔۔۔اور
اب وہ اس سے بات کرنے کی روادار نہیں تھی۔۔بلکہ وہ تو کسی سے بھی بات نہیں کرنا
چاہتی تھی۔۔اور نہ ہی کرتی تھی۔۔۔وہ اداس تھی۔۔بہت اداس !
*************************
”بی بی! آپ کا فون ہے۔“ رفعت بوا نے آکر اسے اطلاع دی تھی۔سستی سے قدم اٹھاتے اس نے ریسور اٹھایا۔
”ہیلو۔۔!“
”کونگرچیولیشنز ہانی۔۔۔!“دوسری طرف وہاج تھا۔اسے پہچاننے میں دیر نہیں لگی۔
”کس لئے۔۔؟“اس نے جمائی روکتے ہوئۓ پوچھا۔
”میڈم نے بورڈ میں پوزیشن لے لی۔۔اور پوچھ رہی ہے کس لئے۔۔؟اس کی بات پر وہ سوئے سے جاگی تھی گویا۔۔یہ وہ کیا سن رہی تھی۔اس کی خاموشی پر وہ خود ہی بتانے لگا تھا۔
*************************
”بی بی! آپ کا فون ہے۔“ رفعت بوا نے آکر اسے اطلاع دی تھی۔سستی سے قدم اٹھاتے اس نے ریسور اٹھایا۔
”ہیلو۔۔!“
”کونگرچیولیشنز ہانی۔۔۔!“دوسری طرف وہاج تھا۔اسے پہچاننے میں دیر نہیں لگی۔
”کس لئے۔۔؟“اس نے جمائی روکتے ہوئۓ پوچھا۔
”میڈم نے بورڈ میں پوزیشن لے لی۔۔اور پوچھ رہی ہے کس لئے۔۔؟اس کی بات پر وہ سوئے سے جاگی تھی گویا۔۔یہ وہ کیا سن رہی تھی۔اس کی خاموشی پر وہ خود ہی بتانے لگا تھا۔
”ایف ایس سی میں ضلع بھر میں تھرڈ پوزیشن لی ہے تم نے۔۔۔بہت بہت مبارک ہو!“ اس کی خوشی کی انتہا نہیں رہی تھی۔اس کی آنکھیں بے احتیار بھیگ گیئں۔مگر اگلے ہی لمحے۔۔۔اس کا دل اداس ہو گیا۔
”ریڈی رہو۔۔۔ابھی تمہاری کامیابی سیلیبریٹ کریں گے۔“وہ فون رکھ چکا تھا۔ہانیہ گم سم سی آ کر صوفہ پر بیٹھ گئی تھی۔کتنی محنت کی تھی! کتنی دعائیں کی تھیں! اور اب۔۔۔اس نے بے بسی سے چار دیواری پر نگاہ دوڑائی۔آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے تھے۔
”تم ابھی تک یوں ہی بیٹھی ہو۔میں نے بتایا بھی تھا کہ ہم باہر جا رہے ہیں۔“ وہاج آتے ہی اس سے پوچھنے لگا تھا۔وہ اس کا چہرہ نہیں دیکھ سکا تھا۔
”ہانیہ۔۔۔“ اس نے اس کے قریب جا کر اسے پکارا۔اس کے لئے لائے گفٹس۔۔بکے وہ ایک طرف رکھ چکا تھا۔
”مجھے کہیں نہیں جانا۔۔۔!“اس کا لہجہ بھیگا تھا۔وہاج کے دل کو کچھ ہوا۔
ہانی۔۔دیکھو۔۔“
”میں نے کہا نا۔۔۔مجھے کہیں نہیں جانا۔۔نہیں کرنا کچھ بھی سیلیبریٹ۔۔یہ نمبر۔۔۔یہ
پوزیشن۔۔۔بھاڑ میں گیا
سب۔۔۔میں نے محنت آپ سے شادی کرنے کے لئے نہیں کی
تھی۔۔۔جانتے تھے آپ کہ
مجھے پڑھنا تھا۔۔سب جانتے تھے آپ۔۔پھر بھی آپ نے آغا جان کی بات مان لی۔۔۔آپ کی
وجہ سے ہوا ہے سب۔۔مجھے نفرت ہے آپ سے۔۔آپ انتہائی گھٹیا اور دھوکے باز شخص ہیں۔۔“
وہاج ساکت سا اسے اوپر اپنے کمرے کی طرف جاتے دیکھتا رہا تھا۔
***************************
دن یونہی گزر رہےتھے۔وہاج نے اب اس سے بات کرنے کی کوشش نہیں کی تھی اور نہ ہی ہانیہ نے ایسا کچھ کہا تھا۔وہ بس اپنے ہی گرد گھومتی چلی جاتی تھی۔اس کا دل، اس کے خواب، اس کی خواہشیں اور بس! گھر میں ان کا سامنا نہ ہونے کے برابر تھا۔وہاج صبح کا گیا رات دیر سے آنے لگا تھا۔وہ بھی اس کی طرف سے بے فکر تھی۔۔۔بھاڑ میں جائے میری طرف سے! پورا دن وہ پاگلوں کی طرح گھر میں اکیلی گھومتی رہتی۔باہر آنے جانے کی وہ شوقین نہیں تھی۔کتابیں پڑھنا بھی اس نے چھوڑ رکھا تھا۔سارا دن ابا میاں، ماں جی اور وہاج کو کوستے ہی گزر جاتا۔اس وقت بھی وہ ٹی وی دیکھ رہی تھی جب اکرم بابا نے آکر اسے ایک فائل تھمائی۔
وہاج ساکت سا اسے اوپر اپنے کمرے کی طرف جاتے دیکھتا رہا تھا۔
***************************
دن یونہی گزر رہےتھے۔وہاج نے اب اس سے بات کرنے کی کوشش نہیں کی تھی اور نہ ہی ہانیہ نے ایسا کچھ کہا تھا۔وہ بس اپنے ہی گرد گھومتی چلی جاتی تھی۔اس کا دل، اس کے خواب، اس کی خواہشیں اور بس! گھر میں ان کا سامنا نہ ہونے کے برابر تھا۔وہاج صبح کا گیا رات دیر سے آنے لگا تھا۔وہ بھی اس کی طرف سے بے فکر تھی۔۔۔بھاڑ میں جائے میری طرف سے! پورا دن وہ پاگلوں کی طرح گھر میں اکیلی گھومتی رہتی۔باہر آنے جانے کی وہ شوقین نہیں تھی۔کتابیں پڑھنا بھی اس نے چھوڑ رکھا تھا۔سارا دن ابا میاں، ماں جی اور وہاج کو کوستے ہی گزر جاتا۔اس وقت بھی وہ ٹی وی دیکھ رہی تھی جب اکرم بابا نے آکر اسے ایک فائل تھمائی۔
”وہاج بابا نے بھیجی ہے! یہ فون بیٹا !“ انہوں نے فون اسے تھمایا۔
”یہ میڈیکل کالج کافارم ہے۔فل کر کے اکرم بابا کو ہی دیے دینا۔ضروری چیزوں کے لئے بھی بابا سے ہی کہنا۔اب فون دو انہیں!“ سپاٹ،دوٹوک انداز۔ایک پل کے لئے وہ شل سی رہ گئی۔وہ اس خشک لہجے کی عادی نہیں تھی۔کم سے کم وہاج حیدر کی طرف سے۔۔! سب بدل گیا تھا۔ایک دم سے سب بدل گیا تھا۔اس کا بہت اپنا شخص اس سے میلوں کے فاصلے پر تھا۔آخر کیوں۔۔؟کاش آپ ایسا نہ کرتے وہاج حیدر خان!
*************************
فارم جمع کروا دیا تھا اور اب ایک ماہ بعد اس کا میڈیکل کالج کا ٹیسٹ تھا۔وہ بہت زیادہ مصروف تھی۔گھر میں بات کرنا اس نے کب کابند کر رکھا تھا۔وہاں سے کسی کی کال آتی بھی تووہ سننے سے انکار کر دیتی۔زندگی میں پر کسی پر ایک ایسا موڑ ضرور آتا ہے جب انسان خود کو تنہا اور بے بس محسوس کرتا تھا۔ہر دروازہ بند اور ہر کڑی مقفل محسوس ہوتی ہے۔ایسے وقت میں ہمارا رویہ ہم پر ہماری ہی حقیقتیں واضح کر دیتا ہے۔اور ہانیہ خان کی حقیقت بہت کڑوی ثابت ہو رہی تھی جس کا اسے اندازہ بھی نہیں تھا۔
ٹیسٹ ہو گیا تھا اور وہ بہت پر سکون تھی۔اسے پوری امید تھی کہ اس کا ایڈمیشن اس کے پسندیدہ کالج میں ہی ہوگا۔اور ہوا بھی یہی تھا۔اس کا نام کنگ ایڈورڈ میں آیا تھا۔اس کی خوشی کی انتہا نہیں تھی۔وہ فوراً باہر بھاگی تھی۔
”بوا۔۔۔آپ کے وہاج بابا کہاں ہیں؟“ کچن میں بوا کام میں مصروف تھیں۔اس نے پھولے سانس درست کرتے ان سے پوچھا۔
”وہاج بابا تو ہفتہ دس دن سے ملک سے باہر گئے ہیں۔“ اس کی مسکراہٹ سمٹ گئی۔اس نے حیرانی سے انہیں دیکھا۔وہ اتنے دن سے گھر میں کیا، اس ملک میں نہیں تھا اور وہ۔۔اسے خبر تک نہیں تھی۔وہ اس کے ساتھ ایسا رویہ کیسے اپنا سکتا تھا؟ کیا اسے بالکل ہی بھول گیا تھا؟انہیں پتا تھا کہ آج میرٹ لسٹ آؤٹ ہوگی۔۔پھر بھی۔۔ایک کال تک نہیں کی۔اس کی اتنی بڑی خوشی میں وہ اجنبی بن گیاتھا۔اپنی وہ خوشی اسے بہت پھیکی سی لگی تھی۔
**************************
اس کا کالج شروع ہونے سے ٹھیک ایک دن پہلے اس نے وہاج کو صبح کھانے کی میز پر دیکھا تھا۔اس نے سفید شلوار سوٹ زیبِ تن کر رکھا تھا۔قمیض کے بازو فولڈ تھے۔ہلکی ہلکی داڑھی
میں چہرے کا رنگ اجلا
اجلا تھا۔بلاشبہ وہ ایک مکمل مرد تھا۔کوئی بھی لڑکی اس پر مر مٹتی۔اور ہانیہ
حیدر۔۔وہ تو محض سترہ سالہ دوشیزہ تھی۔۔وہ اس کی وجاہت سے نظریں چرا سکتی تھی، نظر
انداز نہیں کر سکتی تھی وہ بھی تب۔۔جب وہ اس کا شوہر تھا۔لیکن ناراضی اپنی جگہ
تھی۔اس کا قصور چھوٹا نہیں تھا۔وہ اس کا مجرم تھا۔لیکن بات کرنا ضروری تھا۔
”کل سے میرا کالج ہے۔“اس نے چور نگاہوں سے اسے دیکھا۔وہ پوری طرح ٹوسٹ پر مکھن لگانے میں مصروف تھا۔
“ہمم۔۔آئی نو!“ بس۔۔! اتنی سی بات۔۔۔!
”کل سے میرا کالج ہے۔“اس نے چور نگاہوں سے اسے دیکھا۔وہ پوری طرح ٹوسٹ پر مکھن لگانے میں مصروف تھا۔
“ہمم۔۔آئی نو!“ بس۔۔! اتنی سی بات۔۔۔!
”کل پہلا دن ہے کالج میں
ہانی۔۔فرسٹ امپریشن از لاسٹ امپریشن!ٹیچرز تم سب سے تعارف لیں گے۔کوئی فضول بات،
بڑھا چڑھا کر اپنے کارنامے بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ٹیچر کی ہر بات پورے دھیان سے
سننا۔بس اتنا بتاٶ جتنا پوچھا جائے۔اور ہر ایک لڑکی سے مسکرا کر اچھے بات کرنا مگر ہر کسی
سے زیادہ فری ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔“ اسے اپنا ایف ایس سی کا پہلا دن شدت سے یاد
آیاتھا۔اسے پرانا وہاج حیدر شدت سےیاد آیا تھا۔ایک ایسا شخص جسے آپ کے سوا کچھ دکھتا نہ ہو۔۔جو آپ کے ہر دن
اور ہر پل کو آپ کے لئے خاص الخاص بنا
دے۔۔جس کی خوشی آپ کی ہنسی سے مشروط ہو۔۔اس کا ایکدم اجنبی ہو جانا روح تک
چھلنی کر دیتا ہے۔ ہمت کر کے اس نے دوبارہ بات شروع کی۔
”آپ چلیں گے میرے ساتھ؟“اللہ۔۔۔۔اب وہ کیا کہے گا۔
”آپ چلیں گے میرے ساتھ؟“اللہ۔۔۔۔اب وہ کیا کہے گا۔
”چلوں گا ہی نہیں ۔۔۔واپس پک بھی کروں گا۔“
(پلیز کچھ بول دو )
”نہیں۔۔! میں بزی ہوں۔“ وہ صاف انکار کرتے ہوئے اٹھ گیا تھا۔ہانیہ کے اندر کچھ ٹوٹا تھا۔۔شاید دل !
***********************
کالج شروع ہوئے چار ماہ ہوگئے تھے۔وہ بہت خوش تھی۔بہت زیادہ۔لیکن ایک عجیب سی بے چینی تھی جسے وہ کوئٰی نام نہیں دے پاتی تھی۔بے سکونی سی بے سکونی تھی۔دل عجیب سا اداس تھا۔وجہ جانتے ہوئے بھی وہ انجان بنی بیٹھی تھی۔آج تک اس نے کبھی وہاج کو ناراض نہیں کیا تھا۔مگر سچ یہ تھا کہ وہ کبھی اس سے ناراض ہوا ہی نہیں تھا۔تب بھی نہیں جب اس نے اس کا سب سے پسندیدہ پودا برباد کر دیا۔تب بھی نہیں جب اس نے اس کی کالج کی مکمل تیار اسائنمنٹ غلطی سے چائے سے بھر دی۔تب بھی نہیں جب اس نے اسکا فیورٹ تھری پیس ٹرائے کرنے
”نہیں۔۔! میں بزی ہوں۔“ وہ صاف انکار کرتے ہوئے اٹھ گیا تھا۔ہانیہ کے اندر کچھ ٹوٹا تھا۔۔شاید دل !
***********************
کالج شروع ہوئے چار ماہ ہوگئے تھے۔وہ بہت خوش تھی۔بہت زیادہ۔لیکن ایک عجیب سی بے چینی تھی جسے وہ کوئٰی نام نہیں دے پاتی تھی۔بے سکونی سی بے سکونی تھی۔دل عجیب سا اداس تھا۔وجہ جانتے ہوئے بھی وہ انجان بنی بیٹھی تھی۔آج تک اس نے کبھی وہاج کو ناراض نہیں کیا تھا۔مگر سچ یہ تھا کہ وہ کبھی اس سے ناراض ہوا ہی نہیں تھا۔تب بھی نہیں جب اس نے اس کا سب سے پسندیدہ پودا برباد کر دیا۔تب بھی نہیں جب اس نے اس کی کالج کی مکمل تیار اسائنمنٹ غلطی سے چائے سے بھر دی۔تب بھی نہیں جب اس نے اسکا فیورٹ تھری پیس ٹرائے کرنے
کے چکر میں پورا خراب کر دیا۔وہاج حیدر خان کو
ہانیہ حیدر خان سے ناراض ہونا آتا ہی نہیں تھا۔مگر اب۔۔۔وہ اس سے ٹھیک سے بات کرنے
کا روادار نہیں تھا۔صرف اس لئے کہ وہ ایسا چاہتی تھی۔اس کی خوشی کے لئے وہ اس سے
ناراض ہونا بھی سیکھ گیا تھا۔ہانیہ کو سارا قصور اس کادکھائی دیتا تھا۔اس عرصے میں
وہ ایک بار بھی گاٶں نہیں گئی اور نہ ہی وہاج نےاسے جانے کے لئے کہا۔وہ بری طرح اپنے آپ
میں مگن تھی۔حویلی میں ناجانے سب کیسے ہونگے۔۔؟ماں جی، ابا میاں۔۔اور باقی سب۔۔کبھی
ان کا خیال آبھی جاتا تو وہ اسے اپنے ذہہن سے جھٹک دیتی۔ایک خوف تھا کہ اگر وہ
کمزور پڑگئی۔۔اور ان سے راضی ہو گئی تو وہ اسے حویلی میں قید کر دیں گے۔۔اس کی
پڑھائی۔۔اور یہی بات۔۔۔اور اسی بات پر آکر وہ غصے سے سر جھٹک دیتی تھی۔اگر کسی کو
اس کی خوشی عزیز نہیں تو وہ بھی کسی کا خیال کیوں کرے آخر۔۔سب کو اپنی آن بان اور
جائیداد کی پڑی ہے تو اسے بھی بس اپنی ہی پرواہ ہونی چاہئے۔وہ بدگمانی کے بہت گہرے
کنویں میں گری تھی۔
************************
”میں توآپ پر حیران ہوں ہانیہ۔۔۔یقین نہیں آتا کہ یہ آپ ہو۔۔ہماری ہانی! اس قدر سفاک
************************
”میں توآپ پر حیران ہوں ہانیہ۔۔۔یقین نہیں آتا کہ یہ آپ ہو۔۔ہماری ہانی! اس قدر سفاک
اور سخت دل کیسے بن
گئی؟اتنے دن اپنی ماں سے ناراض کیسے رہ سکتی ہو آپ؟وہ وہاں آپ کی یاد میں
آنسو بہانے میں لگی ہیں اور آپ کو سوائے اپنے کچھ دکھائی ہی نہیں دے رہا۔۔۔“ ماں
جی اس کی کلاس لینے کا ارادہ کر کے آئیں تھیں۔انہوں نے ہانیہ کی ماں کی حالت سے
مجبور ہو کر یہاں آنے کا فیصلہ کیا تھا ورنہ وہ اپنے بیٹے پر پورا اعتماد کرتی
تھیں۔انہیں یقین تھا کہ ہانیہ کے غصے اور جذپاتی پن کے سامنے وہ اپنی نرم مزاجی
اور صلح جوئی سے اسے جلد ہی سنبھال لے گا۔وہ آج ہی آئیں تھیں اور کالج کے بعد سے
ہانیہ ان کے کمرے میں تھی۔وہ سر جھکائے سب سن رہی تھی۔ماں جی اس کی تائی تھیں مگر سب
انہیں ماں جی ہی کہتے تھے۔پوری حویلی میں ان کا رعب تھا۔آغا جان کے بعد اگر حویلی
میں کوئی کچھ حیثیت رکھتاتھا تو وہ ماں جی تھیں، ان کی زوجہ! ہانیہ ان سے
قریب سہی مگر ان کا ڈر، رعب اس پر بھی تھا۔وہ ان کی باتیں دھیان سے سن رہی تھی اور
ایک کان سے سن کر دوسرےکان سے نکال رہی تھی۔تبھی دروازہ کھلا اور کوئی اندر داخل
ہوا۔
”اسلام علیکم ماں جی !“ آنے والا ان کے دل کا سکون، ان کا وہاج تھا۔ان کے سامنے جھک کر اس نے پیار لیا۔
”وعلیکم اسلام!“ انہوں نے محبت سے اسے دیکھتے ہوئے جواب دیا۔ان کا چہرہ کھل اٹھا تھا مگر دوسرے ہی لمحے وہ بالکل سنجیدہ ہو گئیں۔
”کیسی ہیں آپ۔۔؟سفر میں کوئی تکلیف تو نہیں ہوئی؟“اس نے ہمیشہ کی طرح فکرمندی سے پوچھا تھا۔وہ جانتی تھیں ان کا بیٹا ان پر جان چھڑکتا تھا مگر ابھی وہ اس سے ناراض تھیں۔
”اللہ کا کرم ہے۔۔نہیں سفر میں تو نہیں مگر منزل پر پہنچ کر تکلیف ہوئی ہے مجھے۔“ان کی بات گہری تھی۔شاید وہ کسی اور بارے میں بات کر رہی تھیں۔ہانیہ نے خاموش نظروں سے وہاج کو دیکھا۔وہ ان کی بات سمجھ چکا تھا اور اب چہرہ جھکائے مسکراہٹ چھپا رہا تھا۔کھڑوس کہیں کے۔۔۔ویسے تو مسکراتے دانت دُکھتے ہیں ان کے اور اب فضول میں ہی۔۔۔!خود پر نگاہیں محسوس کر کے وہاج نے سر اٹھا کر ٹھیک اس کی آنکھوں میں دیکھا تھا۔اس نے فوراً رُخ موڑ لیا۔
”ہانیہ۔۔آپ بوا سے کہیے کہ کھانا لگا دیں۔“ ماں جی کا حکم سنتے ہی وہ بھاگ گئی تھی۔
**************************
”بوا۔۔۔بوا۔۔“ وہ کالج سے آکر اپنے کمرے میں گئی تھی مگر پھر فوراً ہی نیچے آنا پڑا۔کچن کے دروازے پہ کھڑی وہ غصے سے پاگل ہو رہی تھی۔اس کا کمرہ اس کی چیزوں سے خالی تھا۔
”اسلام علیکم ماں جی !“ آنے والا ان کے دل کا سکون، ان کا وہاج تھا۔ان کے سامنے جھک کر اس نے پیار لیا۔
”وعلیکم اسلام!“ انہوں نے محبت سے اسے دیکھتے ہوئے جواب دیا۔ان کا چہرہ کھل اٹھا تھا مگر دوسرے ہی لمحے وہ بالکل سنجیدہ ہو گئیں۔
”کیسی ہیں آپ۔۔؟سفر میں کوئی تکلیف تو نہیں ہوئی؟“اس نے ہمیشہ کی طرح فکرمندی سے پوچھا تھا۔وہ جانتی تھیں ان کا بیٹا ان پر جان چھڑکتا تھا مگر ابھی وہ اس سے ناراض تھیں۔
”اللہ کا کرم ہے۔۔نہیں سفر میں تو نہیں مگر منزل پر پہنچ کر تکلیف ہوئی ہے مجھے۔“ان کی بات گہری تھی۔شاید وہ کسی اور بارے میں بات کر رہی تھیں۔ہانیہ نے خاموش نظروں سے وہاج کو دیکھا۔وہ ان کی بات سمجھ چکا تھا اور اب چہرہ جھکائے مسکراہٹ چھپا رہا تھا۔کھڑوس کہیں کے۔۔۔ویسے تو مسکراتے دانت دُکھتے ہیں ان کے اور اب فضول میں ہی۔۔۔!خود پر نگاہیں محسوس کر کے وہاج نے سر اٹھا کر ٹھیک اس کی آنکھوں میں دیکھا تھا۔اس نے فوراً رُخ موڑ لیا۔
”ہانیہ۔۔آپ بوا سے کہیے کہ کھانا لگا دیں۔“ ماں جی کا حکم سنتے ہی وہ بھاگ گئی تھی۔
**************************
”بوا۔۔۔بوا۔۔“ وہ کالج سے آکر اپنے کمرے میں گئی تھی مگر پھر فوراً ہی نیچے آنا پڑا۔کچن کے دروازے پہ کھڑی وہ غصے سے پاگل ہو رہی تھی۔اس کا کمرہ اس کی چیزوں سے خالی تھا۔
اس کی کوئی چیز وہاں نہیں
تھی۔
”جی بی بی۔۔۔“
”میرا سامان کہا ں ہے۔۔میرا کمرہ خالی کیسے ہو گیا؟
”آپ کا سامان وہیں ہے جہاں ہونا چاہئے تھا۔“جواب بوا نہیں دیاتھا۔آواز کہیں اور سے آئی تھی۔اس نے پلٹ کر دیکھا۔ماں جی اسے ہی دیکھ رہیں تھیں۔ناسمجھی سے انہیں دیکھتے وہ مزید کچھ بولتی ، ماں جی نے اپنی بات جاری رکھی۔
” آپ وہاج کی بیوی ہو ہانی۔۔اور آپ کو اس کے کمرے میں اس کے ساتھ رہنا چاہئے۔آغا جی نے آپ کی شادی اس لئے تو نہیں کی تھی کہ آپ دونوں اس طرح رہو۔میں نے آپ کا سارا سامان وہاج کے کمرے میں سیٹ کروا دیا ہے۔آپ اب وہیں رہیں گی۔“وہ ہکا بکا ان کی بات سن رہی تھی۔یہ بھی ہونا تھا؟اُف خدایا۔۔پریشانی نے اچانک ہی اس کے چہرے کا احاطہ کیا تھا۔جو کہ ماں جی اپنی زیرک نگاہوں سے جانچ چکی تھیں۔
”لیکن میں وہاں پڑھ نہیں پاٶں گی بڑی ماں۔۔اور پھر میری وجہ سے انہیں بھی مشکل ہوگی۔“ایک ادنیٰ سی کوشش!
”ابھی تو بس میں نے وہاں شفٹ کیا ہے بیٹا۔۔۔ورنہ خود سوچو۔۔۔اگر آپ کے آغا جان کو آپ کی اِن ”پڑھائیوں“ کا پتا چلا تو کیسے پڑھیں گی آپ !“ بہت پیار سے خون خشک کیا گیا تھا۔ہانیہ کو ان کی بات کچھ سمجھ میں آئی اور کچھ نہیں۔۔۔مگر وہ چپ چاپ وہاں سے چلی گئی تھی۔
***************************
رات کے گیارہ جب رہے تھے اور وہ تھکن سے چوُر تھا۔پورا دن آفس میں بہت مصروف گزرا تھا۔اس نے کافی کام نبٹائے تھے کہ اب ماں جی کے لئے وہ زیادہ وقت گھر پر گزار سکے۔اگے چند دن کا شیڈول ترتیب دیتے اس نے اپنے کمرے کا دروازہ کھولا اور ایک حیرت کا جھٹکا لگا تھا اسے۔کمرے میں بہت روشنی تھی اور ایک طرف ہانیہ صوفہ پہ بیٹھی ٹی وی دیکھ رہی تھی۔اس سے نظر ملی تو وہ پھر سے ٹی وی میں گُم ہو گئی۔وہاج نے خود کو نارمل رکھتے ہوئے آگے قدم بڑھائے۔اس کا رخ ڈریسنگ روم کی طرف تھا۔کپڑے بدل کر جب وہ آیا تو وہ تب بھی ٹی وی کے سامنے ہی بیٹھی تھی۔سفید شلوار قیض کے بازو فولڈ کرتے ہوئے وہ اسے بھی ایک نظر دیکھ لیتا تھا۔ہانیہ کا رواں رواں چونکنا تھا۔کچھ ڈر اور کچھ بے حسی۔۔۔اس کا سارا دھیان وہاج پر تھا۔
”اگر آپ برا نہیں منانیں تو میں پوچھ سکتا ہوں کہ آپ اس وقت میرے روم میں کیا کر رہی ہیں؟ اس نے اچانک سوال کیا تھا۔اب بھی وہ اپنے بیڈ کی ایک طرف کھڑا دراز میں اپنی چیزیں رکھ رہا تھا۔لہجہ ہموار تھا مگر ہانیہ کو تیر کی طرح لگی تھی یہ بات۔وہ اس پر طنز کر رہا تھا !!
”مجھے کوئی شوق نہیں ہے یہاں آنے کا۔۔بڑی ماں نے زبردستی مجھے یہاں بھیج دیا۔“دوٹوک جواب تھا۔ایسی زبان وہ ماں جی کے سامنے نہیں چلا سکتی تھی۔
”اچھا۔۔۔تو آپ کا سامان کہاں ہیں۔۔؟“ اب وہ فراغت سے اس سے مخاطب تھا۔
”سامان۔۔؟ سب کچھ ماں جی نے ہی سیٹ کروایا ہے۔“اس نے پھر سے ماں جی کا سہارا لیا۔
”لیکن شاید ماں جی کو یہ نہیں پتا تھا کہ آپ کے سامان میں ایک عدد بستر بھی شامل ہے۔۔ آفٹرآل۔۔آپ میرے ساتھ ایک بیڈ پر تو نہیں سو سکتیں۔“اس کی بات پر وہ حیران سی اسے دیکھنے لگی۔وہ اس کی کہی بات اسےلوٹا رہا تھا۔مگر وہ ہانیہ تھی۔۔!وہاج اس کے جواب کا منتظر تھا مگر کچھ کہنے کی بجائے وہ آہستہ آہستہ چلتی ہوئی بیڈ تک آئی۔۔پھر آرام سے بیڈ کے درمیان سلیقے سے بیٹھ گئی۔وہاج اس کی ساری کارروائی دیکھ رہا تھا لیکن سمجھ اسے بعد میں آئی تھی۔
”یہ میرا بیڈ ہے۔۔۔آپ اپنے لئے جگہ ڈوھونڈ لیں۔“اب حیران ہونے کی باری وہاج کی تھی۔وہ خاموش سا اسے دیکھنے لگا۔پر سوچ انداز !اس کا دیکھنا ہانیہ کو مشکل میں ڈال رہا تھا۔ مگر پھر اسے حیرت نے آگھیرا۔۔وہاج بہت سکون سے بیڈ کی دائیں طرف تھوڑی سے جگہ پر لیٹ چکا تھا۔اور اس نے روشنی کی وجہ سے دایاں بازو بھی آنکھوں پر رکھ لیا تھا۔ہانیہ نے فوراً فاصلہ بڑھایا۔وہ بیڈ سے نیچے اتر گئی تھی۔اسے اس کی حرکت پر غصہ آیا تھا۔
”آپ کا دماغ تو ٹھیک ہے۔۔۔یہ کیا حرکت ہے۔۔۔۔میرا بیڈ تھا۔۔۔یہاں سے اٹھیں مسٹر وہاج !“اس کا کہنا بے اثر ثابت ہوا تھا۔
”آپ سن رہے ہیں۔۔؟اٹھیں یہاں سے۔۔۔“ وہ اس کے سر پر کھڑی چلا رہی تھی۔
“میرا دماغ مت کھاٶ ہانیہ۔۔۔“ وہاج ایک دم اٹھ بیٹھا تھا۔وہ چپ سی رہ گئی۔
”مجھے نیند آئی ہے۔۔اور میں ایک پرسکون نیند لینا چاہتا ہوں۔تمہارے سونے یا نہ سونے سے مجھے کوئی سروکار نہیں ہے۔یہ میرا روم ہے۔۔۔اور یہاں آپ میری دسترس میں ہیں۔ اب کوئی آواز مت آئے!“سخت لہجے میں کہتا وہ دوبارہ لیٹ چکا تھا۔ہانیہ کی سماعت میں اب تک اس کے الفاظ گونج رہے تھے۔وہ، وہ شخص نہیں تھا جسے وہ ابتک جانتی تھی، یہ تو کوئی اور تھا جو اس پر چلا رہا تھا۔آنسو پونچھتی وہ کمرے سے باہر نکل گئی تھی۔
***************************
”جی بی بی۔۔۔“
”میرا سامان کہا ں ہے۔۔میرا کمرہ خالی کیسے ہو گیا؟
”آپ کا سامان وہیں ہے جہاں ہونا چاہئے تھا۔“جواب بوا نہیں دیاتھا۔آواز کہیں اور سے آئی تھی۔اس نے پلٹ کر دیکھا۔ماں جی اسے ہی دیکھ رہیں تھیں۔ناسمجھی سے انہیں دیکھتے وہ مزید کچھ بولتی ، ماں جی نے اپنی بات جاری رکھی۔
” آپ وہاج کی بیوی ہو ہانی۔۔اور آپ کو اس کے کمرے میں اس کے ساتھ رہنا چاہئے۔آغا جی نے آپ کی شادی اس لئے تو نہیں کی تھی کہ آپ دونوں اس طرح رہو۔میں نے آپ کا سارا سامان وہاج کے کمرے میں سیٹ کروا دیا ہے۔آپ اب وہیں رہیں گی۔“وہ ہکا بکا ان کی بات سن رہی تھی۔یہ بھی ہونا تھا؟اُف خدایا۔۔پریشانی نے اچانک ہی اس کے چہرے کا احاطہ کیا تھا۔جو کہ ماں جی اپنی زیرک نگاہوں سے جانچ چکی تھیں۔
”لیکن میں وہاں پڑھ نہیں پاٶں گی بڑی ماں۔۔اور پھر میری وجہ سے انہیں بھی مشکل ہوگی۔“ایک ادنیٰ سی کوشش!
”ابھی تو بس میں نے وہاں شفٹ کیا ہے بیٹا۔۔۔ورنہ خود سوچو۔۔۔اگر آپ کے آغا جان کو آپ کی اِن ”پڑھائیوں“ کا پتا چلا تو کیسے پڑھیں گی آپ !“ بہت پیار سے خون خشک کیا گیا تھا۔ہانیہ کو ان کی بات کچھ سمجھ میں آئی اور کچھ نہیں۔۔۔مگر وہ چپ چاپ وہاں سے چلی گئی تھی۔
***************************
رات کے گیارہ جب رہے تھے اور وہ تھکن سے چوُر تھا۔پورا دن آفس میں بہت مصروف گزرا تھا۔اس نے کافی کام نبٹائے تھے کہ اب ماں جی کے لئے وہ زیادہ وقت گھر پر گزار سکے۔اگے چند دن کا شیڈول ترتیب دیتے اس نے اپنے کمرے کا دروازہ کھولا اور ایک حیرت کا جھٹکا لگا تھا اسے۔کمرے میں بہت روشنی تھی اور ایک طرف ہانیہ صوفہ پہ بیٹھی ٹی وی دیکھ رہی تھی۔اس سے نظر ملی تو وہ پھر سے ٹی وی میں گُم ہو گئی۔وہاج نے خود کو نارمل رکھتے ہوئے آگے قدم بڑھائے۔اس کا رخ ڈریسنگ روم کی طرف تھا۔کپڑے بدل کر جب وہ آیا تو وہ تب بھی ٹی وی کے سامنے ہی بیٹھی تھی۔سفید شلوار قیض کے بازو فولڈ کرتے ہوئے وہ اسے بھی ایک نظر دیکھ لیتا تھا۔ہانیہ کا رواں رواں چونکنا تھا۔کچھ ڈر اور کچھ بے حسی۔۔۔اس کا سارا دھیان وہاج پر تھا۔
”اگر آپ برا نہیں منانیں تو میں پوچھ سکتا ہوں کہ آپ اس وقت میرے روم میں کیا کر رہی ہیں؟ اس نے اچانک سوال کیا تھا۔اب بھی وہ اپنے بیڈ کی ایک طرف کھڑا دراز میں اپنی چیزیں رکھ رہا تھا۔لہجہ ہموار تھا مگر ہانیہ کو تیر کی طرح لگی تھی یہ بات۔وہ اس پر طنز کر رہا تھا !!
”مجھے کوئی شوق نہیں ہے یہاں آنے کا۔۔بڑی ماں نے زبردستی مجھے یہاں بھیج دیا۔“دوٹوک جواب تھا۔ایسی زبان وہ ماں جی کے سامنے نہیں چلا سکتی تھی۔
”اچھا۔۔۔تو آپ کا سامان کہاں ہیں۔۔؟“ اب وہ فراغت سے اس سے مخاطب تھا۔
”سامان۔۔؟ سب کچھ ماں جی نے ہی سیٹ کروایا ہے۔“اس نے پھر سے ماں جی کا سہارا لیا۔
”لیکن شاید ماں جی کو یہ نہیں پتا تھا کہ آپ کے سامان میں ایک عدد بستر بھی شامل ہے۔۔ آفٹرآل۔۔آپ میرے ساتھ ایک بیڈ پر تو نہیں سو سکتیں۔“اس کی بات پر وہ حیران سی اسے دیکھنے لگی۔وہ اس کی کہی بات اسےلوٹا رہا تھا۔مگر وہ ہانیہ تھی۔۔!وہاج اس کے جواب کا منتظر تھا مگر کچھ کہنے کی بجائے وہ آہستہ آہستہ چلتی ہوئی بیڈ تک آئی۔۔پھر آرام سے بیڈ کے درمیان سلیقے سے بیٹھ گئی۔وہاج اس کی ساری کارروائی دیکھ رہا تھا لیکن سمجھ اسے بعد میں آئی تھی۔
”یہ میرا بیڈ ہے۔۔۔آپ اپنے لئے جگہ ڈوھونڈ لیں۔“اب حیران ہونے کی باری وہاج کی تھی۔وہ خاموش سا اسے دیکھنے لگا۔پر سوچ انداز !اس کا دیکھنا ہانیہ کو مشکل میں ڈال رہا تھا۔ مگر پھر اسے حیرت نے آگھیرا۔۔وہاج بہت سکون سے بیڈ کی دائیں طرف تھوڑی سے جگہ پر لیٹ چکا تھا۔اور اس نے روشنی کی وجہ سے دایاں بازو بھی آنکھوں پر رکھ لیا تھا۔ہانیہ نے فوراً فاصلہ بڑھایا۔وہ بیڈ سے نیچے اتر گئی تھی۔اسے اس کی حرکت پر غصہ آیا تھا۔
”آپ کا دماغ تو ٹھیک ہے۔۔۔یہ کیا حرکت ہے۔۔۔۔میرا بیڈ تھا۔۔۔یہاں سے اٹھیں مسٹر وہاج !“اس کا کہنا بے اثر ثابت ہوا تھا۔
”آپ سن رہے ہیں۔۔؟اٹھیں یہاں سے۔۔۔“ وہ اس کے سر پر کھڑی چلا رہی تھی۔
“میرا دماغ مت کھاٶ ہانیہ۔۔۔“ وہاج ایک دم اٹھ بیٹھا تھا۔وہ چپ سی رہ گئی۔
”مجھے نیند آئی ہے۔۔اور میں ایک پرسکون نیند لینا چاہتا ہوں۔تمہارے سونے یا نہ سونے سے مجھے کوئی سروکار نہیں ہے۔یہ میرا روم ہے۔۔۔اور یہاں آپ میری دسترس میں ہیں۔ اب کوئی آواز مت آئے!“سخت لہجے میں کہتا وہ دوبارہ لیٹ چکا تھا۔ہانیہ کی سماعت میں اب تک اس کے الفاظ گونج رہے تھے۔وہ، وہ شخص نہیں تھا جسے وہ ابتک جانتی تھی، یہ تو کوئی اور تھا جو اس پر چلا رہا تھا۔آنسو پونچھتی وہ کمرے سے باہر نکل گئی تھی۔
***************************
ماں جی کیا آئیں تھیں ہانیہ کے اوسان خطا ہونے لگے تھے۔انہوں نے اسے حویلی فون پربات کرنے کو کہا تھا اور بہت بار کہا تھا مگر وہ نہیں چاہتی تھی۔ایک بار بات کرلی تو ۔۔۔سب نارمل ہو جانا تھا اور یہ وہ نہیں چاہتی تھی۔حویلی والوں کو پتا چلنا چاہئے کہ انہوں نے کیا کیا تھا۔ماں جی اسے صرف سمجھاتی تھیں، اب تک ذیادہ سختی انہوں نے نہیں کی تھی۔وہ چاہتی تھیں کہ ہانیہ خود سب سمجھ کر، سب کی محبت میں سب سے بات کرے۔۔نا کہ کسی کے زبردستی کہنے پر۔۔ہاں یہ تھا کہ وہ جب کالج سے واپس آتی تو ماں جی اسے وہاج کے کپڑوں اور دوسرے چیزوں کی خبر رکھنے کو کہتیں اور بعد میں اس سے پوچھتیں۔وہ اسے بہت غیر محسوس طریقے سے اس کی چیزوں،اس کے سامان کو اپنا سمجھنے کی عادت ڈال رہی تھیں۔ان کے مطابق وہ سمجھتی تھیں کہ ہانیہ کی پڑھائی بہت مشکل ہے۔۔۔مگر اس کے ساتھ اسے اپنے شوہر کا دھیان بھی رکھنا چاہئے کہ یہ اس کا فرض ہے۔وہ سارا کام ملازمہ سے ہی کرواتیں تھیں مگر وہاج کی چیزوں کی خبر اسے ہی رکھنا تھی۔
ہانیہ ان کی روز روز کی ایسی باتوں سے بہت چڑتی تھی مگر اس کے پاس اور کوئی چارا نہیں تھا۔وہ ماں جی کے سامنے اونچا نہیں بول سکتی تھی۔۔وہ وہاج نہیں تھیں جو اس کی بدتمیزیاں برداشت کرتیں، اسے اس بات کا اندازہ تھا ! وہ جانتی تھی کہ وہ چاہتیں ہیں کہ وہاج ایک خوش حال شادی شدہ زندگی گزارے، وہ دونوں خوش رہیں۔۔۔مگر اس سب میں وہ کوئی کردار ادا کرنے کی روادار نہیں تھی۔اور پھر اس رات والے واقعہ کے بعد تو وہ اس سے اور بھی ناراض تھی۔وہ اس سے ایسے بات کر رہے تھے جیسے وہ کوئی اجنبی ہو ! بالکل انجان ! الفاظ تو تھے مگر دل لہجے نے چھلنی کیا تھا۔خیر اسے کیا۔۔اسے اپنا خواب پورا کرنا تھا اور پھر وہاج حیدر جیسے دوغلے شخص سے وہ کیوں بنا کر رکھے!!وہ ماں جی کے جانے کی دعائیں کرنے لگی تھی مگر یہ دعائیں اتنی آسانی سے پوری نہیں ہونے والی تھیں۔
*************************
اس رات کے بعد اس کی ہانیہ سے کوئی بات نہیں ہوئی تھی۔ان دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کر خاموشی اختیار کر لیتے تھے۔ناشتے کی میز پر بھی اس سے سامنہ نہیں ہو پایاتھا کہ وہ ناشتہ ہی دیر سے کرتی تھی کبھی گھر پر تو کبھی کالج۔اس نے اس کی خوشی پر دل ہار دیاتھا۔نا چاہتے ہوئے بھی خود کو اس سے بیگانہ کر لیا تھا۔اس کی وجہ سے ہانیہ صوفہ پر ہی سوتی تھی۔ابھی وہ کمرے میں اکیلا تھا۔فریش ہو کر ناشتہ اس نے ماں جی کے ساتھ ہی کیا تھا۔اور اب آفس کی تیاری تھی۔مگر حیرت سے وہ وہیں مجسمہ بنا کھڑا رہ گیا تھا جب اس کی گناہ گار آنکھوں نے ہانیہ کو اپنی الماری میں
مصروف دیکھا۔اس نے اس کا
ایک سوٹ نکالا تھا، اور اب ٹائی میچ کرنے میں مگن تھی۔۔وہ اس قدر بری طرح گم تھی
کہ اسے وہاج کے قریب آنے کی کچھ خبر نہیں ہو پائی تھی۔
”یہ اچھی ہے!“ ہانیہ نے ایک ڈارک بلیو ٹائی پر ہاتھ رکھا تھا اس سے پہلے کہ وہ اس سے دوسری ٹائی دیکھتی، وہاج نے اس کی مشکل آسان کر دی تھی۔اس کے یوں بولنے پر وہ اس کی جانب متوجہ ہوئی تھی۔وہ اس کے پیچھے کھڑاتھا۔ذرا سے فاصلے پر۔اس طرح کہ اس کے کلون کی مہک اسے محسوس ہو رہی تھی۔کچھ پل کو ساکت سی کھڑی رہ گئی۔پھر ایکدم جانے کی غرض پلٹی مگر۔۔پھر رکنا پڑا تھا۔وہ راستہ روکے بالکل قریب کھڑاتھا۔اس نے ہاتھ میں پکڑا ہینگر اپنے اور وہاج کے درمیان ترچھا کر کے پکڑ لیاتھا۔اس کی یہ حرکت اس سے پوشیدہ نہیں رہی تھی۔ایک دھیمی مسکراہٹ نےاس کے لبوں کا احاطہ کیاتھا۔
”راستہ چھوڑیں۔۔!“لہجے کو مضبوط رکھنے کی کوشش کی گئی تھی۔
”پوچھ سکتا ہوں کہ آج یہ انقلاب کیسے آگیا؟ جہاں تک میرا خیال ہے شوہر کے یہ کام اس طرح تو اس کی محبت میں ڈوبی بیوی کیاکرتی ہے جبکہ آپ۔۔۔“اس نے دانستہ جملہ ادھورا چھوڑا تھا۔
”آپ کی محبت میں ڈوبنے سے اچھا ہے کہ میں کسی دریا میں ڈوب کر جان دے دوں۔۔۔اور یہ
”یہ اچھی ہے!“ ہانیہ نے ایک ڈارک بلیو ٹائی پر ہاتھ رکھا تھا اس سے پہلے کہ وہ اس سے دوسری ٹائی دیکھتی، وہاج نے اس کی مشکل آسان کر دی تھی۔اس کے یوں بولنے پر وہ اس کی جانب متوجہ ہوئی تھی۔وہ اس کے پیچھے کھڑاتھا۔ذرا سے فاصلے پر۔اس طرح کہ اس کے کلون کی مہک اسے محسوس ہو رہی تھی۔کچھ پل کو ساکت سی کھڑی رہ گئی۔پھر ایکدم جانے کی غرض پلٹی مگر۔۔پھر رکنا پڑا تھا۔وہ راستہ روکے بالکل قریب کھڑاتھا۔اس نے ہاتھ میں پکڑا ہینگر اپنے اور وہاج کے درمیان ترچھا کر کے پکڑ لیاتھا۔اس کی یہ حرکت اس سے پوشیدہ نہیں رہی تھی۔ایک دھیمی مسکراہٹ نےاس کے لبوں کا احاطہ کیاتھا۔
”راستہ چھوڑیں۔۔!“لہجے کو مضبوط رکھنے کی کوشش کی گئی تھی۔
”پوچھ سکتا ہوں کہ آج یہ انقلاب کیسے آگیا؟ جہاں تک میرا خیال ہے شوہر کے یہ کام اس طرح تو اس کی محبت میں ڈوبی بیوی کیاکرتی ہے جبکہ آپ۔۔۔“اس نے دانستہ جملہ ادھورا چھوڑا تھا۔
”آپ کی محبت میں ڈوبنے سے اچھا ہے کہ میں کسی دریا میں ڈوب کر جان دے دوں۔۔۔اور یہ
کام بڑی ماں جی کے کہنے
پر ہو رہے ہیں۔اب راستہ چھوڑیں۔۔!“جواب بالکل دوٹوک تھا۔وہ اسے کسی خوش فہمی میں
نہیں رکھنا چاہتی تھی۔
”اور اگر نہ چھوڑوں تو۔۔۔!“اس نے سکون سے کہا۔وہ اسے زچ کرنے کے در پہ تھا۔ہانیہ نے خفا سی نظریں اٹھا کر اسے دیکھا۔وہ نظریں اٹھانے پر پچھتائی تھی۔وہ بہت محبت سے پوری طرح متوجہ تھا۔اور محبت۔۔محبت تو جادو کر دیتی ہے۔۔باندھ دیتی ہے۔۔۔وہ بندھنا نہیں چاہتی تھی۔
”ہٹیں یہاں سے۔۔۔!“اس نے دھکا دیا تھا اسے۔وہاج دو قدم پیچھے لڑکھڑایا تھا۔ہانیہ فوراً دروازے کی طرف بڑھ گئی تھی۔
”آپ بہت فضول انسان ہیں!“جاتے جاتے وہ اسے کوسنا نہیں بھولی تھی۔وہاج مصنوعی سر کھجاتا مسکرا دیا۔
***************************
”کھانا کھائیں گے آپ؟“انداز روکھا تھا۔وہاج نے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔وہ خفا خفا سی کلائی پہ پہنا برسلیٹ گھما رہی تھی۔ہلکے آسمانی سوٹ میں اس کا گلابی رنگ کھِل رہا تھا۔بال بھی کھول
”اور اگر نہ چھوڑوں تو۔۔۔!“اس نے سکون سے کہا۔وہ اسے زچ کرنے کے در پہ تھا۔ہانیہ نے خفا سی نظریں اٹھا کر اسے دیکھا۔وہ نظریں اٹھانے پر پچھتائی تھی۔وہ بہت محبت سے پوری طرح متوجہ تھا۔اور محبت۔۔محبت تو جادو کر دیتی ہے۔۔باندھ دیتی ہے۔۔۔وہ بندھنا نہیں چاہتی تھی۔
”ہٹیں یہاں سے۔۔۔!“اس نے دھکا دیا تھا اسے۔وہاج دو قدم پیچھے لڑکھڑایا تھا۔ہانیہ فوراً دروازے کی طرف بڑھ گئی تھی۔
”آپ بہت فضول انسان ہیں!“جاتے جاتے وہ اسے کوسنا نہیں بھولی تھی۔وہاج مصنوعی سر کھجاتا مسکرا دیا۔
***************************
”کھانا کھائیں گے آپ؟“انداز روکھا تھا۔وہاج نے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔وہ خفا خفا سی کلائی پہ پہنا برسلیٹ گھما رہی تھی۔ہلکے آسمانی سوٹ میں اس کا گلابی رنگ کھِل رہا تھا۔بال بھی کھول
رکھے تھے، جو سلیقے سے چہرے کے گرد گِرے
تھے۔سارے دن کی تھکن اتر گئی تھی۔ صبح کا قصہ یاد آیا تو بے اختیار ایک مسکراہٹ ہونٹوں پہ دوڑ
گئی۔
”یہ بھی ماں جی نے ہی کہا ہوگا۔“وہ بازو سینے پہ باندھے اس کی طرف متوجہ تھا۔
”جی، بالکل۔۔!“پھیکا سا لہجہ تھا۔
”وہی تو۔۔وہی تو میں نے سوچا کہ ہانیہ اتنی ویل مینرڈ کیسے ہو سکتی ہے!“وہ دکھی سی صورت بنائے کہہ رہا تھا۔ہانیہ نے غصے سے سے دیکھا۔
”جی بالکل۔۔گڈ مینرز کے سب ریکارڈ تو آپ پر ختم ہیں نا۔۔!“اس کی بات سے زیادہ دلچسپ اس کا انداز تھا۔وہاج کھل کر مسکرا دیا۔
”یہ زبان باقی سب کے سامنے کہاں چلی جاتی ہے؟اگر بتاٶ تو میں واپس لانے میں کچھ ہیلیپ کرا دوں۔“اسے غصے دلانے میں نانے کیوں مزا آرہا تھا۔اس کے چہرے کے زاویے بہت دلچسپی سے بدلتے تھے۔اب بھی اس کے خفگی سے اسے گھورا۔
”آپ بس میری اتنی ہیلپ کر دیں کہ میری جان چھوڑ دیں۔آزادی دے دیں مجھے اس قید سے۔بہت مہربانی ہوگی آپ کی!“الفاظ تھے اور بہت پر اذیت تھے۔وہ اتنی بڑی بات کیسے کہہ
”یہ بھی ماں جی نے ہی کہا ہوگا۔“وہ بازو سینے پہ باندھے اس کی طرف متوجہ تھا۔
”جی، بالکل۔۔!“پھیکا سا لہجہ تھا۔
”وہی تو۔۔وہی تو میں نے سوچا کہ ہانیہ اتنی ویل مینرڈ کیسے ہو سکتی ہے!“وہ دکھی سی صورت بنائے کہہ رہا تھا۔ہانیہ نے غصے سے سے دیکھا۔
”جی بالکل۔۔گڈ مینرز کے سب ریکارڈ تو آپ پر ختم ہیں نا۔۔!“اس کی بات سے زیادہ دلچسپ اس کا انداز تھا۔وہاج کھل کر مسکرا دیا۔
”یہ زبان باقی سب کے سامنے کہاں چلی جاتی ہے؟اگر بتاٶ تو میں واپس لانے میں کچھ ہیلیپ کرا دوں۔“اسے غصے دلانے میں نانے کیوں مزا آرہا تھا۔اس کے چہرے کے زاویے بہت دلچسپی سے بدلتے تھے۔اب بھی اس کے خفگی سے اسے گھورا۔
”آپ بس میری اتنی ہیلپ کر دیں کہ میری جان چھوڑ دیں۔آزادی دے دیں مجھے اس قید سے۔بہت مہربانی ہوگی آپ کی!“الفاظ تھے اور بہت پر اذیت تھے۔وہ اتنی بڑی بات کیسے کہہ
گئی تھی۔بار بار ایک ہی بات کیوں کرتی تھی وہ۔جو
ہونا تھا سو ہو گیا۔وہ کیوں سب سمجھنا نہیں چاہتی تھی۔
”یہ کام تو اب ناممکن ہے۔“وہ ایکدم سے اس کے قریب آیا تھا۔وہ اس کے محبت بھرے حصار میں قید تھی۔خود کو چھڑانے کی ناکام کوشش کرتے وہ بے حد کنفیوز ہو رہی تھی۔
”جس طرح شادی کے لئے خاندان کا قانون ہے اسی طرح طلاق کے لئے بھی ہے۔فار یور کائیڈ انفامیشن مائی ڈئیر وائف !ہمارے ہاں طلاق نہیں ہوا کرتی۔“وہ اس کے چہرے کے گرد سے بال ہٹاتے ہوئے سخت لہجے میں بولا تھا۔ہانیہ کی سانس سوکھ گئی تھی۔
”اور اب تو اگر آغا جان بھی آپ کی آزادی کا کہیں گے نا تو میں تب بھی آپ کو آزاد نہیں کروں گا۔۔۔آئی پرامس!“میٹھے لہجے میں کہتے وہ اس کے چہرے پر جھکا تھا۔ سرگوشی نہیں تھی ، صور تھا۔۔جس نے ہانیہ کی جان نکالی تھی۔وہ اس کے اتنا قریب تھا کہ اس کی دھڑکن اسے اپنے دل میں محسوس ہوئی تھی۔مسکراتے ہوئے وہ اسے وارن کر رہا تھا۔اس سے پہلے کہ وہ مزید کچھ کہتا۔۔۔دروازے پہ دستک ہوئی تھی۔
*******************************
”یہ کام تو اب ناممکن ہے۔“وہ ایکدم سے اس کے قریب آیا تھا۔وہ اس کے محبت بھرے حصار میں قید تھی۔خود کو چھڑانے کی ناکام کوشش کرتے وہ بے حد کنفیوز ہو رہی تھی۔
”جس طرح شادی کے لئے خاندان کا قانون ہے اسی طرح طلاق کے لئے بھی ہے۔فار یور کائیڈ انفامیشن مائی ڈئیر وائف !ہمارے ہاں طلاق نہیں ہوا کرتی۔“وہ اس کے چہرے کے گرد سے بال ہٹاتے ہوئے سخت لہجے میں بولا تھا۔ہانیہ کی سانس سوکھ گئی تھی۔
”اور اب تو اگر آغا جان بھی آپ کی آزادی کا کہیں گے نا تو میں تب بھی آپ کو آزاد نہیں کروں گا۔۔۔آئی پرامس!“میٹھے لہجے میں کہتے وہ اس کے چہرے پر جھکا تھا۔ سرگوشی نہیں تھی ، صور تھا۔۔جس نے ہانیہ کی جان نکالی تھی۔وہ اس کے اتنا قریب تھا کہ اس کی دھڑکن اسے اپنے دل میں محسوس ہوئی تھی۔مسکراتے ہوئے وہ اسے وارن کر رہا تھا۔اس سے پہلے کہ وہ مزید کچھ کہتا۔۔۔دروازے پہ دستک ہوئی تھی۔
*******************************
”کہاں جانا ہے؟“
وہ دونوں گاڑی میں تھے۔اتوار کا دن تھا اور شام میں ماں جی نے وہاج کو ہانیہ کو شاپنگ پر لے جانے کا کہا تھا۔موسمِ گرما کی آمد آمد تھی۔وہ منہ پھلائے اس کے ساتھ فرنٹ سیٹ پر بیٹھی تھی، جب وہاج کی آواز اس کے سماعت سے ٹکرائی۔
”کہیں نہیں۔۔۔۔“اس نے اداسی سے جواب دیا۔دل بوجھل تھا۔وہاج نے ایک نظر اسے دیکھا۔لائٹ پرپل شلوار قمیض پہ بڑا سا ہم رنگ دوپٹہ اوڑھے وہ بہت ”کیوٹ“ لگ رہی تھی۔وہاج نے بروقت نظریں ہٹا لیں۔
”تو پھر ہم آئے کیوں ہیں؟“وہ اس سے سوال کرنے لگا۔
”ماں نے کہا تھا ۔۔اس لئے۔“پھر سے اداس سے لہجے میں جواب دیا گیا تھا۔
”ہانیہ۔۔۔“وہاج کی بوجھل آواز پر اس نے گردن گھما کر اسےدیکھا۔لائٹ براٶن شلوار قیمض میں۔۔گہری نظروں سے اسے دیکھتا وہ بہت اچھا لگ رہا تھا۔بلاشبہ وہ ایک پرکشش مرد تھا۔اب وہ اپنے گود میں رکھے ہاتھوں کو دیکھنے لگی تھی۔وہ اس ماحول سے بہت کنفیوز ہو رہی تھی۔گاڑی سڑک کے ایک طرف روک دی گئی تھی۔اس نے ذرا حیران سا اسے
دیکھا۔۔اور پھر توکوئی حال ہی نہ رہا جب وہاج
نےاس کا ہاتھ پکڑ لیا۔وہ رخ موڑے اس کے دونوں نرم ہاتھوں کو اپنے مضبوط ہاتھوں میں
تھامے ہوئے تھا۔ہانیہ کی دھڑکن ایک پل کو رک گئی۔
”کیا پرابلم ہے ہانی۔۔!جو ہوا سو ہوا۔اب سب ٹھیک ہو رہاہے۔تم اداس بالکل بھی اچھی نہیں لگتی۔“اسکی آنکھوں میں بغور دیکھتے بہت نرم لہجے میں کہاگیا تھا۔ہانیہ نے نظریں جھکا لیں۔وہ جانتی تھی کہ اس کا چہرہ گلابی سے سرخ ہورہا ہے۔۔مگر ایسا نہیں ہونا چاہئے تھا۔
”ہمارا رشتہ بدلہ ضرور ہے۔۔۔ختم نہیں ہوا۔ہم اب بھی بہت اچھےدوست ہیں۔۔تم میری بہت اچھی دوست ہو!“وہ پل بھر کو رکا۔ہانیہ کے ہاتھ ابھی بھی اس کے ہاتھوں میں تھے۔
”سب سے اچھی دوست۔۔ایسی دوست جو میرےلئے پوری دنیا میں سب سے ذیادہ اہم ہے۔“گھمبیر خوبصورت آواز میں بہت خوبصورت بات کہی گئی تھی۔ہانیہ کو یقین تھا۔پورا یقین۔۔وہ سچ کہہ رہا تھا مگر۔۔۔ہانیہ نےایک دم سے اپنے ہاتھ چھڑائے تھے۔
”ہم دوست نہیں ہیں۔۔۔اور اب نہ ہی کبھی ہو سکتے ہیں۔۔رشتہ بدلہ ہے اور بہت مشکل ہوگیا ہے۔۔۔“وہ سنجیدگی سے سخت لہجے میں کہہ رہی تھی۔وہاج بنا کسی تاثر کا چہرہ لئے اسے دیکھ رہا
”کیا پرابلم ہے ہانی۔۔!جو ہوا سو ہوا۔اب سب ٹھیک ہو رہاہے۔تم اداس بالکل بھی اچھی نہیں لگتی۔“اسکی آنکھوں میں بغور دیکھتے بہت نرم لہجے میں کہاگیا تھا۔ہانیہ نے نظریں جھکا لیں۔وہ جانتی تھی کہ اس کا چہرہ گلابی سے سرخ ہورہا ہے۔۔مگر ایسا نہیں ہونا چاہئے تھا۔
”ہمارا رشتہ بدلہ ضرور ہے۔۔۔ختم نہیں ہوا۔ہم اب بھی بہت اچھےدوست ہیں۔۔تم میری بہت اچھی دوست ہو!“وہ پل بھر کو رکا۔ہانیہ کے ہاتھ ابھی بھی اس کے ہاتھوں میں تھے۔
”سب سے اچھی دوست۔۔ایسی دوست جو میرےلئے پوری دنیا میں سب سے ذیادہ اہم ہے۔“گھمبیر خوبصورت آواز میں بہت خوبصورت بات کہی گئی تھی۔ہانیہ کو یقین تھا۔پورا یقین۔۔وہ سچ کہہ رہا تھا مگر۔۔۔ہانیہ نےایک دم سے اپنے ہاتھ چھڑائے تھے۔
”ہم دوست نہیں ہیں۔۔۔اور اب نہ ہی کبھی ہو سکتے ہیں۔۔رشتہ بدلہ ہے اور بہت مشکل ہوگیا ہے۔۔۔“وہ سنجیدگی سے سخت لہجے میں کہہ رہی تھی۔وہاج بنا کسی تاثر کا چہرہ لئے اسے دیکھ رہا
تھا۔
”اب کچھ ٹھیک نہیں ہوگا۔۔کبھی بھی نہیں۔۔آپ نے اچھا نہیں کیا۔آپ کو کوئی حق نہیں تھا کہ آپ مجھ سے پوچھے بنا میری زندگی کا اتنا بڑا فیصلہ کرتے اور وہ بھی تب۔۔۔جب کہ اس کا وقت بھی نہیں تھا۔مجھے آپ اچھے نہیں لگتے۔کیونکہ آپ ایک بزدل اور خودغرض انسان ہیں۔مجھے بزدل لوگوں سے نفرت ہے۔“وہ بنا رکے اس پر حقیقت واضح کر رہی تھی۔وہ حقیقت جو وہ سوچتی تھی۔
”ہمارے درمیان اب کبھی بھی کچھ بھی نارمل نہیں ہو سکتا۔اور یہ سب صرف اور صرف آپ کی وجہ سے ہے۔۔۔۔“وہاج خاموش تھا۔اسے اس کا جواب چاہئے بھی نہیں تھا۔گاڑی میں مکمل خاموشی تھی۔
”اب گھر چلیں۔۔۔!“کچھ دیر بعد ہانیہ نے چڑ کر کہا تھا۔وہ اسی خاموشی سے گھر آ گئے تھے۔
*************************
وہاج نے اسے پریشان کر دیا تھا۔وہ اس کے وریے سے بہت الجھ گئی تھی۔ایسے کیسے وہ بدل گیا؟کہاں وہ اس سے بات کرنے کا رواں دار نہیں تھا اور اب اسے دھمکی بھی دے ڈالی۔۔۔یہ
”اب کچھ ٹھیک نہیں ہوگا۔۔کبھی بھی نہیں۔۔آپ نے اچھا نہیں کیا۔آپ کو کوئی حق نہیں تھا کہ آپ مجھ سے پوچھے بنا میری زندگی کا اتنا بڑا فیصلہ کرتے اور وہ بھی تب۔۔۔جب کہ اس کا وقت بھی نہیں تھا۔مجھے آپ اچھے نہیں لگتے۔کیونکہ آپ ایک بزدل اور خودغرض انسان ہیں۔مجھے بزدل لوگوں سے نفرت ہے۔“وہ بنا رکے اس پر حقیقت واضح کر رہی تھی۔وہ حقیقت جو وہ سوچتی تھی۔
”ہمارے درمیان اب کبھی بھی کچھ بھی نارمل نہیں ہو سکتا۔اور یہ سب صرف اور صرف آپ کی وجہ سے ہے۔۔۔۔“وہاج خاموش تھا۔اسے اس کا جواب چاہئے بھی نہیں تھا۔گاڑی میں مکمل خاموشی تھی۔
”اب گھر چلیں۔۔۔!“کچھ دیر بعد ہانیہ نے چڑ کر کہا تھا۔وہ اسی خاموشی سے گھر آ گئے تھے۔
*************************
وہاج نے اسے پریشان کر دیا تھا۔وہ اس کے وریے سے بہت الجھ گئی تھی۔ایسے کیسے وہ بدل گیا؟کہاں وہ اس سے بات کرنے کا رواں دار نہیں تھا اور اب اسے دھمکی بھی دے ڈالی۔۔۔یہ
بھی ضرور ماں جی کی ہی
کوئی خواہش ہوگی۔اس دن کے بعد سے وہ بہت محتاط ہو گئی تھی۔اپنی بات اسے سنا کر وہ
مطمئن تو تھی مگر اب اس سے بات کرتے بھی کوسوں دور رہتی تھی۔۔۔اور لہجہ بھی مزید
کڑوا ہوگیا تھا۔وہ اس کی ہر خوش فہمی مٹا دینا چاہتی تھی۔لیکن وہ ایسا نہیں چاہتی
تھی۔۔۔کبھی کبھی تو وہ پرانے وقت میں کھو سی جاتی تھی۔جب وہ اسے نخرے دکھاتی تھی
اور وہ اس کے ناز اٹھاتا نہیں تھکتا تھا۔مگر تب رشتہ اور تھا۔۔۔ایک کزن۔۔بھائیوں
جیسا کزن !جسے بھائی کہتے وہ تھکتی نہیں تھی۔اور وہ بھی تواسے بہنوں جیسا پیار
دیتا تھا۔اسے یاد نہیں پڑتا تھا کہ کبھی وہاج سے ملتے بے احتیاتی ہوئی ہو۔۔۔وہ بڑے
بھائیوں کی طرح اس کے سر پر ہاتھ رکھتا تھا۔وہ چھوٹی بہنوں کی طرح اسے دوسری کزز
کے نام لے لے کر تنگ بھی تو کرتی تھی۔۔مگر اب۔۔۔بہن بھایئوں جیسا وہ خوبصورت رشتہ
کہیں گم ہو گیا تھا۔۔اس نے کبھی ایسا نہیں سوچا تھا۔پتا نہیں ہمارے بڑے کیا سوچ کر
اپنے فیصلے سنا دیتے ہیں۔۔۔کیا بھائی سے شوہر تک کا رشتہ ایسا تھا جسے اتنی آسانی
سے قبول کر لیا جاتا۔ہمیشہ جسے بھائی کہا تھا اسے شوہر تسلیم کرنا اتنا آسان نہیں
ہوتا۔۔!
اسکے لئےبھی آسان نہیں تھا۔مگر کوئٰی سمجھے تب ہے نا۔۔۔!” اور چھوٹی ماں کہتی
اسکے لئےبھی آسان نہیں تھا۔مگر کوئٰی سمجھے تب ہے نا۔۔۔!” اور چھوٹی ماں کہتی
تھیں کہ لڑکیاں تو ہوتی ہی
نادان ہیں۔۔۔وقت کے ساتھ ساتھ ٹھیک ہو ہی جاتی ہیں۔۔ماحول میں ڈھل جاتی ہیں۔۔اور وہ
کہتی تھی کہ ٹھیک نہیں ہوتی۔۔بس مجبور ہو جاتی ہیں!“
*****************************
”ہانیہ۔۔۔ادھر آٶ بیٹا۔۔! دیکھوں علینہ آئی ہے۔“وہ کالج سے آئی ہی تھی کہ ماں جی کی پکار پر ان کی طرف چلی آئی۔وہ جس ہستی سے اسے ملوا رہی تھیں وہ اس کے لئے بالکل غیر متوقع اور ناقابلِ برداشت تھی۔علینہ، چھوٹی پھپھو کی بیٹی تھی۔اور ہانیہ سے پانچ سال بڑی تھی۔مگر اس کے باوجود وہ غیر شادی شدہ تھی۔۔کیوں!خدا کے بعد یہ صرف علینہ اور اس کی والدہ ہی جانتی تھیں۔ہانیہ کی اس سے نہیں بنتی تھی کیونکہ وہ وہاج کے علاوہ کسی سے بنا کر نہیں رکھتی تھی۔
”کھڑی کیوں ہو ہانی۔۔۔آٶ بہن سے ملو۔“ بہن !سب سے بڑی دشمن تھی وہ۔۔!
”اسلام علیکم !“اس نے ہاتھ ملانے کے لئۓ بڑھایا تھا اور علینہ نے ایک مسکراہٹ کے ساتھ ہاتھ ملایا تھا۔
*****************************
”ہانیہ۔۔۔ادھر آٶ بیٹا۔۔! دیکھوں علینہ آئی ہے۔“وہ کالج سے آئی ہی تھی کہ ماں جی کی پکار پر ان کی طرف چلی آئی۔وہ جس ہستی سے اسے ملوا رہی تھیں وہ اس کے لئے بالکل غیر متوقع اور ناقابلِ برداشت تھی۔علینہ، چھوٹی پھپھو کی بیٹی تھی۔اور ہانیہ سے پانچ سال بڑی تھی۔مگر اس کے باوجود وہ غیر شادی شدہ تھی۔۔کیوں!خدا کے بعد یہ صرف علینہ اور اس کی والدہ ہی جانتی تھیں۔ہانیہ کی اس سے نہیں بنتی تھی کیونکہ وہ وہاج کے علاوہ کسی سے بنا کر نہیں رکھتی تھی۔
”کھڑی کیوں ہو ہانی۔۔۔آٶ بہن سے ملو۔“ بہن !سب سے بڑی دشمن تھی وہ۔۔!
”اسلام علیکم !“اس نے ہاتھ ملانے کے لئۓ بڑھایا تھا اور علینہ نے ایک مسکراہٹ کے ساتھ ہاتھ ملایا تھا۔
”کیسی ہو ہانیہ۔۔؟“سوال غیر متوقع تھا۔ان کے درمیان اتنے اچھے ”تعلقات“ تو کبھی نہیں رہے تھے۔
”بہت خوش !“ ہانیہ نے مسکرا کر کہا۔ماں جی کھانے کا کہہ کر اٹھ گئیں تھیں۔
”اور وہاج کیسے ہیں ؟“ ہانیہ کو اس کی مسکراہٹ زہر لگی تھی۔اس نے کرارا سا جواب دینا چاہا۔
”او معاف کرنا۔۔۔تمہیں کیسے پتا ہوگا کہ وہ کیسے ہیں ! وہ تمہیں اور تم انہیں زہر لگتی ہو نا اب۔۔!“علینہ نے تپانے والی مسکراہٹ لبوں پہ سجا کر کہا تھا۔وہ اس پر طنز کر رہی تھی۔اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتی ملازمہ کھانے کا اندیہ لے کر آگئی تھی۔
******************************
وہاج سے اس کا سامنا اگلی رات کے کھانے پر ہی ہواتھا۔وہ شہر سے باہر گیا تھا۔شام میں ہی لوٹا تھا۔علینہ کی وجہ سے ماں جی نے احتتام کروایاتھا۔زیادہ تر ڈشرز اس کے پسند کی تھیں بلکہ وہاج کے پسند کی۔۔۔کیونکہ جو وہاج کو پسند تھا وہی علینہ کو بھی پسند تھا۔وہاج نے اس سے چھوٹی موٹی باتیں پوچھ کر کھانے پہ دھیان رکھا تھا۔ہانیہ ناچاہتے ہوئے علینہ کو نوٹس کر رہی تھی۔وہ بار بار وہاج سے کوئی نہ کوئی بات کرتی۔۔کبھی فورٹرس تو کبھی بادشاہی مسجد۔۔۔اسے ابھی پورا لاہور
دیکھنا تھا وہ بھی وہاج کی میزبانی میں۔ہانیہ
خاموشی سے کھانا کھانے میں مگن تھی۔جو کہ کھایا ہی نہیں جا رہا تھا۔اور حیرانی تو
اسے ماں جی پر تھی وہ کیسے خاموش بیٹھیں تھیں جبکہ اس کی ایسی بے تکلفی انہیں پسند
نہیں تھی۔
کھانے کے بعد وہ سٹڈی میں چلی گئی تھی۔ماں جی اور وہاج علینہ کے ساتھ لاٶنج میں چائے پینے میں مصروف ہو گئےتھے۔مگر سٹڈی میں بھی اس کا دھیان نہیں لگ رہا تھا۔برسوں کی دشمنی تھی انکی۔۔جسے اب نظر انداز کرنا ناممکن سا تھا۔وہ پہلے بھی وہاج کی وجہ سے سب سے، خاص طور پرعلینہ سے بیر لےلیتی تھی اور اب تو۔۔۔کتاب بند کرتے ہوئےوہ لاٶنج کی طرف چل پڑی۔ماں جی اب وہاں نہیں تھیں۔وہاج اور علینہ ہی تھے۔علینہ کچھ کہہ رہی تھی اور وہاج دھیما سا مسکرا رہا تھا۔مسکراہٹ تھی یا آگ کا شعلہ۔۔۔ہانیہ بھری طرح جلی تھی۔غصے سے سر جھٹک کر وہ اندر کی جانب بڑھ گئی۔ ”میری بلا سے جتنی باتیں کرنی ہیں کریں! فضول انسان۔۔پہلے کبھی اس کاخیال آیا نہیں اور اب۔۔باتیں ہی ختم نہیں ہو رہیں۔۔خیر مجھے کیا۔۔بھاڑ میں جائیں دونوں !“
وہ اپنے کام میں مگن ہو گئی تھی۔
کھانے کے بعد وہ سٹڈی میں چلی گئی تھی۔ماں جی اور وہاج علینہ کے ساتھ لاٶنج میں چائے پینے میں مصروف ہو گئےتھے۔مگر سٹڈی میں بھی اس کا دھیان نہیں لگ رہا تھا۔برسوں کی دشمنی تھی انکی۔۔جسے اب نظر انداز کرنا ناممکن سا تھا۔وہ پہلے بھی وہاج کی وجہ سے سب سے، خاص طور پرعلینہ سے بیر لےلیتی تھی اور اب تو۔۔۔کتاب بند کرتے ہوئےوہ لاٶنج کی طرف چل پڑی۔ماں جی اب وہاں نہیں تھیں۔وہاج اور علینہ ہی تھے۔علینہ کچھ کہہ رہی تھی اور وہاج دھیما سا مسکرا رہا تھا۔مسکراہٹ تھی یا آگ کا شعلہ۔۔۔ہانیہ بھری طرح جلی تھی۔غصے سے سر جھٹک کر وہ اندر کی جانب بڑھ گئی۔ ”میری بلا سے جتنی باتیں کرنی ہیں کریں! فضول انسان۔۔پہلے کبھی اس کاخیال آیا نہیں اور اب۔۔باتیں ہی ختم نہیں ہو رہیں۔۔خیر مجھے کیا۔۔بھاڑ میں جائیں دونوں !“
وہ اپنے کام میں مگن ہو گئی تھی۔
****************************
کچھ دن کے لئے تو نظر انداز کر دیاتھا اس نے۔۔۔رات کے کھانے کے بعد چائے ساتھ میں ہی پی جاتی۔اب وہ بھی ان کے ساتھ ہی چائے پینے لگی تھی۔مگر ان دونوں کی باتیں ختم نہیں ہوتی تھیں۔بلکہ علینہ کی باتیں ختم نہیں ہوتی تھیں۔وہ خاموشی سے وہاج کو اس کی ہاں میں ہاں ملاتے اور علینہ کو اپنی رائے جھاڑتے ہوئےدیکھتی رہتی۔اور پھر وہ صبح کی واک پر بھی اس کے ساتھ جانے لگی۔۔۔۔وہاج اسے اتنی چھوٹ کیوں دے رہاتھا،ہانیہ سمجھنے سے قاصر تھی۔اور اس دن تو حد ہی ہو گئی تھی۔۔۔
”علینہ کہاں ہے بوا ؟“کالج سے آکر اس نے علینہ کاپوچھا تھا۔ماں جی اپنے کمرے میں تھیں اور علینہ نہیں دکھ رہی تھی۔
”وہ جی۔۔۔بابا کے ساتھ گھومنے کے لئے گئی ہیں۔۔! ابھی ہی نکلے ہیں دونوں۔“
تو اب وہاج اسے اس طرح گھمائے
گا بھی۔۔۔!!
”وہاج۔۔!“
وہ اور وہاج گاڑی کے پاس کھڑے تھے جب علینہ اندر سے تقریباً بھاگتی ہوئی آئی تھی۔وہ باہر
”وہاج۔۔!“
وہ اور وہاج گاڑی کے پاس کھڑے تھے جب علینہ اندر سے تقریباً بھاگتی ہوئی آئی تھی۔وہ باہر
جانے کا ارادہ رکھتے
تھے۔آج وہاج نے اسے امرود کے باغ دکھانے کا وعدہ کیا تھا۔۔کہ
”اف اللہ ۔۔اب تو ہوگئی سیر!“ہانیہ نے اسے دیکھتے ہی سر پر ہاتھ مارا۔وہاج نے مسکراتی نظروں سے اسے دیکھا۔
علینہ انکے پاس آچکی تھی۔
”ماں جی کہہ رہی ہیں کہ تم لوگوں کےساتھ مجھے بھی جانا چاہئے۔۔!چلیں۔۔!“وہ گاڑی کا درازہ پکڑ کر کھڑی تھی۔
”میرا خیال ہے علینہ کہ ۔۔آپ کپڑے چینج کر آئیں تو بہتر رہے گا۔۔کیوں ہانی!“وہاج نے اسے اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا۔وہ اس کی بات سمجھتے ہوئی بولی۔
”جی بالکل۔۔آپ کا ڈریس کلر کچھ ڈل سا ہے اور جوتے ۔۔۔۔“ہانیہ نے علینہ کاجائزہ لیتے ہوئے کہا جو کہ پنک کلر کی شلوار قیمض اور ساتھ وائٹ جوتوں میں اچھی لگ رہی تھی۔
”اچھا۔۔۔ڈل ہے؟“علینہ نے پریشانی سے باری باری انہیں دیکھا۔وہ اپنے بارے میں بہت خود پسند تھی۔۔۔جس کادونوں کو خوب اندازہ تھا۔
”کافی ڈل ہے۔۔آئی تھنک چینج کر لینا چاہئے آپ کو۔۔اگر نہیں تو اٹس اوکے۔۔ہم نکلتے ہیں۔“
”اف اللہ ۔۔اب تو ہوگئی سیر!“ہانیہ نے اسے دیکھتے ہی سر پر ہاتھ مارا۔وہاج نے مسکراتی نظروں سے اسے دیکھا۔
علینہ انکے پاس آچکی تھی۔
”ماں جی کہہ رہی ہیں کہ تم لوگوں کےساتھ مجھے بھی جانا چاہئے۔۔!چلیں۔۔!“وہ گاڑی کا درازہ پکڑ کر کھڑی تھی۔
”میرا خیال ہے علینہ کہ ۔۔آپ کپڑے چینج کر آئیں تو بہتر رہے گا۔۔کیوں ہانی!“وہاج نے اسے اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا۔وہ اس کی بات سمجھتے ہوئی بولی۔
”جی بالکل۔۔آپ کا ڈریس کلر کچھ ڈل سا ہے اور جوتے ۔۔۔۔“ہانیہ نے علینہ کاجائزہ لیتے ہوئے کہا جو کہ پنک کلر کی شلوار قیمض اور ساتھ وائٹ جوتوں میں اچھی لگ رہی تھی۔
”اچھا۔۔۔ڈل ہے؟“علینہ نے پریشانی سے باری باری انہیں دیکھا۔وہ اپنے بارے میں بہت خود پسند تھی۔۔۔جس کادونوں کو خوب اندازہ تھا۔
”کافی ڈل ہے۔۔آئی تھنک چینج کر لینا چاہئے آپ کو۔۔اگر نہیں تو اٹس اوکے۔۔ہم نکلتے ہیں۔“
وہاج نے بہت سنجیدگی سے
کہتے ہوئے گاڑی کادروازہ کھولا۔
”نہیں۔۔۔صرف دو منٹ۔۔میں کپڑے چینج کر کے آتی ہوں۔۔اوکے۔دو منٹ بس!“وہ کہتے ہوئے اندر کو چل دی۔
”اور جوتے بھی۔۔۔“ہانیہ نے پیچھے سے آواز لگائی تھی۔اور گاڑی کادروازہ کھول کر بیٹھ گئی تھی۔وہاج بھی فوراً سے پہلے گاڑی میں بیٹھا تھا۔
”چلیں۔۔جلدی نکلیں۔۔وہ آجائے گی!“ہانیہ نے جلدی کا شور مچایا تھا اور اگلے بیس منٹ میں وہ اپنی منزل پر تھی۔
”ہانیہ بی بی۔۔آکر کھانا کھالیں۔“
ماضی میں کھوئی اسے وقت کا احساس نہیں رہا تھا۔رات کے آٹھ بج رہے تھے اور وہ دوپہر سے سٹڈی روم میں یوں ہی بیٹھی تھی۔اداس اور مضطرب۔۔!بیتا وقت شدت سے یاد آیا تھا۔کسی اپنے کا ایکدم انجان بن جانا، روح تک چلنی کر دیتا تھا۔اسے وہاج اور اپنا رشتہ واپس چاہئے تھا۔وہ اسے بھول گیا تھا۔ پوری طرح فراموش کر گیا تھا۔علینہ سے اب وہ لڑ نہیں سکتی تھی۔اسے شوہر کہنا آسان نہیں تھا۔وہ کبھی بھی اس تعلق کو قبول نہیں کرے گی۔اور علینہ یہ بات جانتی تھی۔۔
”نہیں۔۔۔صرف دو منٹ۔۔میں کپڑے چینج کر کے آتی ہوں۔۔اوکے۔دو منٹ بس!“وہ کہتے ہوئے اندر کو چل دی۔
”اور جوتے بھی۔۔۔“ہانیہ نے پیچھے سے آواز لگائی تھی۔اور گاڑی کادروازہ کھول کر بیٹھ گئی تھی۔وہاج بھی فوراً سے پہلے گاڑی میں بیٹھا تھا۔
”چلیں۔۔جلدی نکلیں۔۔وہ آجائے گی!“ہانیہ نے جلدی کا شور مچایا تھا اور اگلے بیس منٹ میں وہ اپنی منزل پر تھی۔
”ہانیہ بی بی۔۔آکر کھانا کھالیں۔“
ماضی میں کھوئی اسے وقت کا احساس نہیں رہا تھا۔رات کے آٹھ بج رہے تھے اور وہ دوپہر سے سٹڈی روم میں یوں ہی بیٹھی تھی۔اداس اور مضطرب۔۔!بیتا وقت شدت سے یاد آیا تھا۔کسی اپنے کا ایکدم انجان بن جانا، روح تک چلنی کر دیتا تھا۔اسے وہاج اور اپنا رشتہ واپس چاہئے تھا۔وہ اسے بھول گیا تھا۔ پوری طرح فراموش کر گیا تھا۔علینہ سے اب وہ لڑ نہیں سکتی تھی۔اسے شوہر کہنا آسان نہیں تھا۔وہ کبھی بھی اس تعلق کو قبول نہیں کرے گی۔اور علینہ یہ بات جانتی تھی۔۔
مگر وہاج وہ اس لڑکی پر اپنا وقت صرف کر ہا تھا۔
اس پر صرف ہانیہ حیدر کا حق تھا ۔کوئی کیسے ان کے درمیان آکر اس کی جگہ لے سکتا
ہے۔مگر جگہ تو وہ خود دےرہی تھی۔۔۔مگریہ بات ہانیہ حیدر کو کون سمجھائے۔۔۔کون
سمجھائے ہاں۔۔! آخر کون۔۔!کون !!
**************************
”وہاج۔۔۔“وہاج اور علینہ لان میں بیٹھے تھے جب ہانیہ ان کے پاس آئی۔اس کی پکار پر جہاں وہاج نے حیرت سے سر اٹھایا وہیں علینہ نے منہ بنایا۔
”مجھے مارکیٹ جانا ہے۔“انداز سادہ تھا۔علینہ نے بغور وہاج کودیکھا۔
”خاتم اپنے کواٹر میں ہے۔۔میں اسے بلا دیتاہوں۔“وہاج نے اپنا موبائل نکالتے ہوئے کہا۔علینہ نے ایک مسکراہٹ ہانیہ پر اچھالی۔ طنزیہ مسکراہٹ! ہانیہ نے اسے یکسر نظر انداز کیا تھا۔
”میری ذمہ داری آپ پر ہے۔۔۔خاتم پر نہیں۔“وہاج نے کچھ پل اسے دیکھا۔وہ نظریں چرا گئی تھی۔پھر وہ خاموشی سے اٹھ گیا۔علینہ بھی ساتھ ہی اٹھی تھی۔
”علینہ آپ بھی آئیں۔۔ کمپنی رہے گی۔“وہاج نے مسکراتے ہوئے علینہ سے کہا۔شفاف
**************************
”وہاج۔۔۔“وہاج اور علینہ لان میں بیٹھے تھے جب ہانیہ ان کے پاس آئی۔اس کی پکار پر جہاں وہاج نے حیرت سے سر اٹھایا وہیں علینہ نے منہ بنایا۔
”مجھے مارکیٹ جانا ہے۔“انداز سادہ تھا۔علینہ نے بغور وہاج کودیکھا۔
”خاتم اپنے کواٹر میں ہے۔۔میں اسے بلا دیتاہوں۔“وہاج نے اپنا موبائل نکالتے ہوئے کہا۔علینہ نے ایک مسکراہٹ ہانیہ پر اچھالی۔ طنزیہ مسکراہٹ! ہانیہ نے اسے یکسر نظر انداز کیا تھا۔
”میری ذمہ داری آپ پر ہے۔۔۔خاتم پر نہیں۔“وہاج نے کچھ پل اسے دیکھا۔وہ نظریں چرا گئی تھی۔پھر وہ خاموشی سے اٹھ گیا۔علینہ بھی ساتھ ہی اٹھی تھی۔
”علینہ آپ بھی آئیں۔۔ کمپنی رہے گی۔“وہاج نے مسکراتے ہوئے علینہ سے کہا۔شفاف
مسکراہٹ۔۔ دل میں اترتا
انداز ! ہانیہ نے بمشکل اپنی زبان پر قابو پایا۔
”ہاں ۔۔۔میں چلوں تو ۔۔مگر ہانیہ کو برا نہ لگ جائے؟“اس نے بڑی معصومیت سے ہانیہ کو دیکھتے ہوئے کہا تھا۔وہاج نے بھی ہانیہ پر نگاہ ٹکائی۔
”اب یہ تو کامن سینس کی بات ہے علینہ آپی۔۔جب ہزبینڈ وائف ساتھ ہوں تو کسی تیسرے کاہونا۔۔کباب میں ہڈی جیسا ہی ہوتا ہے۔“نرم لہجے میں، چہرے پر سادہ سی مسکراہٹ لئے بہت صاف جواب دیا گیا تھا۔علینہ اپنے چہرے کے زویے نہیں چھپا پائی تھی۔وہاج ہانیہ کو دیکھتے، حیران دکھ رہا تھا۔
”چلیں وہاج۔۔!“اس نے مسکراتے ہوئے وہاج کی طرف دیکھا۔وہاج نے ناسمجھی سے اسے دیکھا ۔۔پھر علینہ کو دیکھا۔۔معذرتانہ مسکرایا اور گاڑی کی طرف قدم بڑھا دیے۔۔۔۔
”یہ کیا تھا ہانیہ؟“ گاڑی مین روڈ پر لاتے ہی وہاج نے پوچھا۔اسے اس کا انداز بہت عجیب لگا تھا۔اور حیرانی میں وہ کچھ بول بھی نہیں پایاتھا۔ہانیہ نے گود میں رکھے ہاتھ آپس میں ملائے۔۔اور اس سے ذرا سی ڈر رہی تھی۔اگر وہ غصہ کر گیاتو۔۔؟
”کیا کیا تھا؟“اس نے معصومیت سے پوچھا۔
”ہاں ۔۔۔میں چلوں تو ۔۔مگر ہانیہ کو برا نہ لگ جائے؟“اس نے بڑی معصومیت سے ہانیہ کو دیکھتے ہوئے کہا تھا۔وہاج نے بھی ہانیہ پر نگاہ ٹکائی۔
”اب یہ تو کامن سینس کی بات ہے علینہ آپی۔۔جب ہزبینڈ وائف ساتھ ہوں تو کسی تیسرے کاہونا۔۔کباب میں ہڈی جیسا ہی ہوتا ہے۔“نرم لہجے میں، چہرے پر سادہ سی مسکراہٹ لئے بہت صاف جواب دیا گیا تھا۔علینہ اپنے چہرے کے زویے نہیں چھپا پائی تھی۔وہاج ہانیہ کو دیکھتے، حیران دکھ رہا تھا۔
”چلیں وہاج۔۔!“اس نے مسکراتے ہوئے وہاج کی طرف دیکھا۔وہاج نے ناسمجھی سے اسے دیکھا ۔۔پھر علینہ کو دیکھا۔۔معذرتانہ مسکرایا اور گاڑی کی طرف قدم بڑھا دیے۔۔۔۔
”یہ کیا تھا ہانیہ؟“ گاڑی مین روڈ پر لاتے ہی وہاج نے پوچھا۔اسے اس کا انداز بہت عجیب لگا تھا۔اور حیرانی میں وہ کچھ بول بھی نہیں پایاتھا۔ہانیہ نے گود میں رکھے ہاتھ آپس میں ملائے۔۔اور اس سے ذرا سی ڈر رہی تھی۔اگر وہ غصہ کر گیاتو۔۔؟
”کیا کیا تھا؟“اس نے معصومیت سے پوچھا۔
”وہی۔۔جو کچھ دیر پہلے آپ نے کیا۔“وہاج نے الفاظ چبا کر کہا تھا۔
”کیا کیا میں نے؟“وہ بالکل نا سمجھی سے اس سے پوچھ رہی تھی۔وہاج اس کے انداز سے زچ ہونےلگاتھا۔مجال ہے جو یہ لڑکی سیدھا جواب دے دے۔
”یہ تو آپ بہت اچھے سے جانتی ہیں۔۔!“اب کے لہجہ سخت تھا۔ہانیہ کا دل ذراسا کانپا۔
” اور میں کیا بہت اچھے سے جانتی ہوں؟“وہ ہارنے ماننے والوں میں سے نہیں تھی۔وہاج نے غصے سے اسے دیکھا وہ اسے ہی دیکھ رہی تھی۔
””علینہ کو یوں انسلٹ کیوں کیا ہاں؟ مہمان سے اس طرح بات کرتے ہیں؟“گاڑی آہستہ کر دی گئی تھی۔وہ اس کی خبر لینا چاہتاتھا۔
”پہلی بات تو یہ کہ میں نے انہیں انسلٹ نہیں کیا۔انہیں اتنا تو پتا ہونا چاہئے کہ ہزبینڈ وائف کی کچھ تو پرائیویسی ہوتی ہے۔اور دوسری بات کہ ساری میزبانی تو آپ نبھا ہی رہے ہیں سو میری طرف سے ایسا کوئی فرق نہیں پڑتا۔“صاف گوئی کی عادت تھی یا پھر کم عقلی۔۔اپنی بات مکمل کر کے اسے اپنی نادانی کا احساس ہوا تھا۔وہاج کاقہقہہ بے ساختہ تھا۔کتنا دلچسپ انداز تھا اس کا، بچوں جیسی کیوٹ نِیس تھی۔خالص اور شفاف باتیں۔
”اچھا۔۔۔تو ہم ہزبینڈ وائف ہیں۔۔ ؟ ویسے کچھ دن پہلے مجھے کسی نے کہاتھا وہ اس رشتے کو کبھی ایکسپٹ نہیں کر سکتی۔۔۔تو اب یہ انقلاب کیسے آ گیا؟“مسکراہٹ دباتے وہ اسے اس کی بات یاد دلا رہا تھا۔ہانیہ بول کر پچھتائی تھی۔
”وہ بات بھی۔۔ ٹھیک ہے۔۔۔لیکن اب۔۔۔!“کیا کہے۔۔۔اس سے آگے تو کچھ سوچا ہی نہیں تھا۔
”آپ کہاں جا رہے ہیں۔۔۔ہمیں امپوریم جانا ہے۔۔۔واپس لیں ۔“راستہ دیکھتے ہی اس نے شور مچا دیاتھا۔اور اپنی بات گھول کرنے کے کئے شور مچانے کا نسخہ بہت کارآمد ہوتا ہے۔ہانیہ یہ اچھے سے جاتی تھی۔
*************************
”رات کے کھانے کے لئے میں نے بوا سے کہہ دیا ہے بڑی ماں۔“ماں جی اور علینہ ٹی وی لاٶنج میں بیٹھی تھیں جب ہانیہ نے آ کر بتایا۔آج سے پہلے اس نے کبھی دھیان نہیں دیاتھا کہ کھانے میں کیا کچھ بنتا ہے۔۔اسے کھانے پینے سے اتنی رغبت نہیں تھی بس میٹھا وہ خاص کہہ کر کبھی بھی بنوا لیتی تھی۔ماں جی نے آکر کچن پر دھیان دیا تھا۔پڑھائی کیوجہ سے
وہ اسے گھر کے کاموں کا
نہیں کہتی تھیں۔مگر آج تو اس نے خود ہی ۔۔۔یہ بھی یونہی نہیں تھا۔وہ دیکھ رہی تھی
کہ علینہ نے آکر وہاج نے ساتھ ساتھ گھر میں بھی دلچسپی لینا شروع کر دی ہے۔ رات کا
کھانا علینہ کی فرمائش کا۔۔دوپہر میں کہیں باہر کا کھانا، ویسے بھی وہ زیادہ تر
گھومنے کے چکر میں رہتی تھی۔اور ناشتہ کے لئے اس کی ٹائمنگ ان سے میچ نہیں ہوتی
تھی۔گر اتنا تو یقین تھا اسے کہ علینہ وہاج کے ساتھ اس کی پسند کا ناشتہ ہی کرتی
ہو گی۔اسی لئے بس آج ذرا خیال آگیا تھا۔
”گریٹ۔۔۔آج تو پورا مینیو ہی چنیج ہے۔مزا آ گیا۔“ رات کھانے کی میز پر وہاج نے خوش دلی سے کہا تھا۔کافی دن سے پاکستانی کھانےتھے جبکہ آج چائنیز اور اٹالین بھی تھے۔اور سب اس کی پسند کے تھے۔
”آج کامینیو ہانیہ نے ترتیب دیاہے نا۔۔۔اچھا تو ہوگا ہی۔“ماں جی نے محبت سے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔وہاج نے ایک پل کو اسے دیکھا۔گلابی چہرہ مسکرا رہا تھا۔انقلاب پہ انقلاب ۔۔۔۔۔وہ حیران نہ ہوتا تو کیاکرتا۔۔!
”اچھا تو ہے ماں جی۔۔۔مگر میری طبیعت کچھ ٹھیک نہیں ہے۔اتنا الٹا سیدھا کھاٶں گا تو اچھا
”گریٹ۔۔۔آج تو پورا مینیو ہی چنیج ہے۔مزا آ گیا۔“ رات کھانے کی میز پر وہاج نے خوش دلی سے کہا تھا۔کافی دن سے پاکستانی کھانےتھے جبکہ آج چائنیز اور اٹالین بھی تھے۔اور سب اس کی پسند کے تھے۔
”آج کامینیو ہانیہ نے ترتیب دیاہے نا۔۔۔اچھا تو ہوگا ہی۔“ماں جی نے محبت سے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔وہاج نے ایک پل کو اسے دیکھا۔گلابی چہرہ مسکرا رہا تھا۔انقلاب پہ انقلاب ۔۔۔۔۔وہ حیران نہ ہوتا تو کیاکرتا۔۔!
”اچھا تو ہے ماں جی۔۔۔مگر میری طبیعت کچھ ٹھیک نہیں ہے۔اتنا الٹا سیدھا کھاٶں گا تو اچھا
نہیں رہے گا۔“نقاہت زدہ لہجے
میں کہا گیا تھا۔
”طبیعت ٹھیک نہیں ہے بیٹا۔۔! ڈاکٹر کو دکھایا آپ نے؟کیا ہوگیا ؟“ماں جی پریشان سے پوچھنے لگی تھیں۔ہانیہ اور علینہ بھی متفکر ہوئیں۔
”نہیں۔۔کچھ نہیں ہوا ماں جی۔۔بس ذرا آرام کروں گا تو اچھا ہو جاٶں گا۔“وہ ان کاہاتھ تھامے کہہ رہا تھا۔
”ہانیہ ۔۔۔تمہیں وہاج کا خیال رکھنا چاہئے۔مگر تمہیں تو اپنی پڑھائی کے سوا کچھ دکھتا ہی نہیں ہے۔بالکل پرواہ نہیں تمہیں ان کی۔“علینہ نے سخت لہجے میں ہانیہ پر اپنا غصہ نکالا۔ کل شام والی بات کی بھڑاس بھی اسی میں تھی۔ہانیہ سانس روکے اسے دیکھنے لگی۔اسے اپنا دل ڈوبتا ہوا محسوس ہوا۔
”نہیں، ایسی بات نہیں ہے۔۔میری ہانی تو بہت اچھی ہے۔اتنی مشکل پڑھائی کے ساتھ بھی سب کا خیال رکھتی ہے۔ ۔۔بس یہ ہی لاپرواہ ہے۔“ماں جی کی آواز نے اس میں نئی جان پھونکی تھی۔ وہ پھیکا سا مسکرا دی۔علینہ ایک گہرا سانس لے کر رہ گئی تھی۔
”چلو وہاج۔۔ کمرے میں جا کر آرام کرو آپ۔۔۔ہانی اپنے میاں کا خیال رکھو۔میں کچھ ہلکا بنواتی
”طبیعت ٹھیک نہیں ہے بیٹا۔۔! ڈاکٹر کو دکھایا آپ نے؟کیا ہوگیا ؟“ماں جی پریشان سے پوچھنے لگی تھیں۔ہانیہ اور علینہ بھی متفکر ہوئیں۔
”نہیں۔۔کچھ نہیں ہوا ماں جی۔۔بس ذرا آرام کروں گا تو اچھا ہو جاٶں گا۔“وہ ان کاہاتھ تھامے کہہ رہا تھا۔
”ہانیہ ۔۔۔تمہیں وہاج کا خیال رکھنا چاہئے۔مگر تمہیں تو اپنی پڑھائی کے سوا کچھ دکھتا ہی نہیں ہے۔بالکل پرواہ نہیں تمہیں ان کی۔“علینہ نے سخت لہجے میں ہانیہ پر اپنا غصہ نکالا۔ کل شام والی بات کی بھڑاس بھی اسی میں تھی۔ہانیہ سانس روکے اسے دیکھنے لگی۔اسے اپنا دل ڈوبتا ہوا محسوس ہوا۔
”نہیں، ایسی بات نہیں ہے۔۔میری ہانی تو بہت اچھی ہے۔اتنی مشکل پڑھائی کے ساتھ بھی سب کا خیال رکھتی ہے۔ ۔۔بس یہ ہی لاپرواہ ہے۔“ماں جی کی آواز نے اس میں نئی جان پھونکی تھی۔ وہ پھیکا سا مسکرا دی۔علینہ ایک گہرا سانس لے کر رہ گئی تھی۔
”چلو وہاج۔۔ کمرے میں جا کر آرام کرو آپ۔۔۔ہانی اپنے میاں کا خیال رکھو۔میں کچھ ہلکا بنواتی
ہوں۔۔“ماں جی نے اٹھتے
ہوئے کہا تھا۔وہاج کےساتھ ہانیہ بھی کمرے کی طرف چل دی تھی۔
********************
وہاج کمرے میں آتے ہی بیڈ پر آرام کی غرض سے لیٹ گیا تھا۔ہانیہ چپ چاپ سٹڈی روم میں چلی آئی تھی۔وہ رونا چاہتی تھی۔بہت زیادہ۔۔۔۔دل تھا کہ بھر بھر آرہا تھا۔زندگی کس طرف چل نکلی تھی۔۔قالین پر بیٹھے وہ بے آواز آنسو بہانے لگی۔
وہ کوشش تو کر رہی تھی کہ علینہ پر اپنا آپ ثابت کر سکے۔ایک اچھی زندگی کا تاثر دے سکے اسے۔۔۔لیکن یہ اتنا آسان نہیں تھا۔
ایک طرف وہاج تھا۔جس سے بات کرنا بہت مشکل لگتا تھا۔ناچاہتے ہوئے بھی وہ اپنا آپ نہیں بدل پا رہی تھی۔ہمیشہ سے اسے بھائیوں جیسا سمجھا تھا۔۔عزت کی تھی، احترام کیا تھا۔اس کی طرف سے بھابھی کے خواب دیکھے تھے۔اور اب۔۔بھائیوں دوست تھا وہ اس کا۔۔۔۔لیکن نہیں۔۔۔بھائی بھائی ہوتا ہے اور دوست دوست ہوتا ہے۔بھائیوں جیسا دوست کچھ نہیں ہوا کرتا۔۔کیوں کہ اللہ اس کی اجازت نہیں دیتا۔بھائی بھائی کہہ دینے سے کوئی بھائی بن تھوڑا ہی جاتا ہے۔بھائی تو وہ ہی ہوتا جو اللہ آپ کےدے۔۔اور جب اللہ بھائی دےدیتا ہے تو پھر ہم
********************
وہاج کمرے میں آتے ہی بیڈ پر آرام کی غرض سے لیٹ گیا تھا۔ہانیہ چپ چاپ سٹڈی روم میں چلی آئی تھی۔وہ رونا چاہتی تھی۔بہت زیادہ۔۔۔۔دل تھا کہ بھر بھر آرہا تھا۔زندگی کس طرف چل نکلی تھی۔۔قالین پر بیٹھے وہ بے آواز آنسو بہانے لگی۔
وہ کوشش تو کر رہی تھی کہ علینہ پر اپنا آپ ثابت کر سکے۔ایک اچھی زندگی کا تاثر دے سکے اسے۔۔۔لیکن یہ اتنا آسان نہیں تھا۔
ایک طرف وہاج تھا۔جس سے بات کرنا بہت مشکل لگتا تھا۔ناچاہتے ہوئے بھی وہ اپنا آپ نہیں بدل پا رہی تھی۔ہمیشہ سے اسے بھائیوں جیسا سمجھا تھا۔۔عزت کی تھی، احترام کیا تھا۔اس کی طرف سے بھابھی کے خواب دیکھے تھے۔اور اب۔۔بھائیوں دوست تھا وہ اس کا۔۔۔۔لیکن نہیں۔۔۔بھائی بھائی ہوتا ہے اور دوست دوست ہوتا ہے۔بھائیوں جیسا دوست کچھ نہیں ہوا کرتا۔۔کیوں کہ اللہ اس کی اجازت نہیں دیتا۔بھائی بھائی کہہ دینے سے کوئی بھائی بن تھوڑا ہی جاتا ہے۔بھائی تو وہ ہی ہوتا جو اللہ آپ کےدے۔۔اور جب اللہ بھائی دےدیتا ہے تو پھر ہم
کیوں دوسروں کو بھائی
بناتے رہتے ہیں!جبکہ جانتے ہیں کہ بھائی کہنے سے کوئی بھائی نہیں بن جاتا۔رشتہ
نہیں بدلتا۔۔۔اور اگر کسی کو بھائی بول دیا تو کیا اس سے بہنوں جیسا پیش آنا ضروری
ہے۔۔!کیاکسی کو بھائی کہہ دینےسے وہ محرم بن جاتا ہے!نہیں۔۔۔ایسا نہیں ہوتا۔۔۔پھر
ہم کیوں اپنی حدود بھول جاتے ہیں۔۔!کیوں ہمیں اللہ یاد نہٰیں رہتا۔۔!وہ تو ہر جگہ
موجود ہے۔۔وہاں بھی جہاں ہم اپنے ”بھائی“ کا ہاتھ تھامتے ہیں۔۔وہاں بھی جہاں ہم
اپنے ”بھائی“ کےساتھ تنہا ہوتے ہیں۔۔۔پھر کیسے اس کی حدود کی بھول جاتے ہیں
ہم؟اتنے انجان ، نادان کیسے بن جاتے ہیں؟
ہوش سنبھالتے ہی اس نے ایک شخص کو اپنے قریب پایا تھا اور وہ وہاج تھا۔ہانی رو رہی ہے۔۔ وہاج چپ کرائے گا! ہانی کو بھوک لگی ہے۔۔وہاج کھانا کھلائے گا! ہانی کو باہر جانا ہے۔۔وہاج لےکر جائے گا اور پھر وہاج اس کی عادت بن گیا۔سب کو یہ دکھائی دیتا تھا کہ وہ اس سے بارہ سال چھوٹی ہے، یہ کوئی نہیں دیکھتا تھا کہ وہ اتنی بھی چھوٹی نہیں رہی۔۔!
اور اب۔۔۔وہ بارہ سال کہیں غائب کر کے اسے اس کی دولہن بنا دیا گیا تھا۔قسمت تھی یا کچھ اور۔۔۔ اسے زندگی بری لگنے لگی تھی۔اور آج۔۔۔وہاج اس کےلئے کچھ نہیں بولا۔وہ
ہوش سنبھالتے ہی اس نے ایک شخص کو اپنے قریب پایا تھا اور وہ وہاج تھا۔ہانی رو رہی ہے۔۔ وہاج چپ کرائے گا! ہانی کو بھوک لگی ہے۔۔وہاج کھانا کھلائے گا! ہانی کو باہر جانا ہے۔۔وہاج لےکر جائے گا اور پھر وہاج اس کی عادت بن گیا۔سب کو یہ دکھائی دیتا تھا کہ وہ اس سے بارہ سال چھوٹی ہے، یہ کوئی نہیں دیکھتا تھا کہ وہ اتنی بھی چھوٹی نہیں رہی۔۔!
اور اب۔۔۔وہ بارہ سال کہیں غائب کر کے اسے اس کی دولہن بنا دیا گیا تھا۔قسمت تھی یا کچھ اور۔۔۔ اسے زندگی بری لگنے لگی تھی۔اور آج۔۔۔وہاج اس کےلئے کچھ نہیں بولا۔وہ
علینہ کی بات پر خاموش رہا۔۔اس
کی اداس صورت، سفید پڑتا چہرہ دیکھ کر بھی وہ کچھ نہیں بولا۔۔۔وہ اس کےساتھ ایسا
کیسے کر سکتا تھا۔کسی اور کے لئے اسے کیسے بھول سکتا تھا۔اور وہ کہتا تھا کہ وہ
دنیا میں اسے سب سے زیادہ عزیز ہے!! اسے اکیلا چھوڑ دیا تھا اس نے۔اور وہ اکیلی ہو
گئی تھی۔ماں کی یاد آئی تھی اور تب آئی تھی جب اپنا دل رو رہا تھا۔۔۔ہائے یہ
اولاد۔۔۔ماں کا دل روئے تو دیکھنا گوارا نہیں تھا اور خود ہر آنسو پر صرف اسی کو پکارتے
ہیں۔۔اسے بھی ماں کی شدت سے یاد آئی تھی۔آنسو روانی سے جاری تھے۔
***************************
”ماں جی آپ کو ناشتے کے لئے بلا رہی ہیں۔“صبح کے آٹھ بج رہے تھے جب ہانیہ نے اسے آکر اطلاع دی۔صبح سے اسےدیکھا نہیں تھا، وہ سمجھا کہ وہ کالج گئی ہے مگر اب وہ اس کے سامنے تھی۔وہاج نے بغور اس کا چہرہ دیکھا۔رات بھر رونے کی وجہ سے آنکھیں سوج رہی تھیں۔ایک گہرا سانس بھر کر اس نے کمرے کا دروازہ کھولا۔پھر ایک پل کو رُکا۔
”تم نہیں آٶ گی؟“نا چاہتے ہوئے بھی وہ پوچھ بیٹھا۔اس سے لاتعلق رہنے کا عہد کرنے کے باوجود وہ اس سے بات کئے بنا نہیں رہ سکتا تھا۔
***************************
”ماں جی آپ کو ناشتے کے لئے بلا رہی ہیں۔“صبح کے آٹھ بج رہے تھے جب ہانیہ نے اسے آکر اطلاع دی۔صبح سے اسےدیکھا نہیں تھا، وہ سمجھا کہ وہ کالج گئی ہے مگر اب وہ اس کے سامنے تھی۔وہاج نے بغور اس کا چہرہ دیکھا۔رات بھر رونے کی وجہ سے آنکھیں سوج رہی تھیں۔ایک گہرا سانس بھر کر اس نے کمرے کا دروازہ کھولا۔پھر ایک پل کو رُکا۔
”تم نہیں آٶ گی؟“نا چاہتے ہوئے بھی وہ پوچھ بیٹھا۔اس سے لاتعلق رہنے کا عہد کرنے کے باوجود وہ اس سے بات کئے بنا نہیں رہ سکتا تھا۔
”نہیں۔۔“یک لفظی جواب۔وہ چلتے ہوئے سٹڈی روم کے دروازے تک جاچکی تھی۔
”وجہ۔۔؟“اس سے سننے کا ایک اور بہانا۔
”میں ناشتہ کر چکی ہوں۔۔۔اور ویسے بھی۔۔آپ کو اس سے کیا ۔۔علینہ تو ہے نا اُدھر۔۔۔آپ کو کمپنی مل ہی جائے گی۔“
”ہاں یہ تو ہے۔۔جب علینہ وہاں ہے تو تمہارے ہونے یا ہونے سے کیا مطلب۔۔!“وہاج نے ایک خوبصورت مسکراہٹ چہرے پہ سجاکر کہا تھا۔۔اور بنا اسے سنے ہی باہر نکل گیا تھا۔ہانیہ نے غصے سے اپنے آنسو پونچھے تھے۔
دل کا ایک حصہ اسے چاہتا تھا تو دوسرا حصہ اس سے انکاری تھا۔وہ اپنے آپ کو سمجھنے میں پوری طرح ناکام ہو رہی تھی۔سمجھ نہیں آرہا تھا کہ آخر مسلہ کہاں تھا۔اگر اس سے لاتعلقی کا ارادہ کر لیا تھا تو اس کے یوں انجانے رویے پر تکلیف کیوں تھی؟اس رشتے کی کشش تھی یا کچھ اور۔۔۔وہ وہاج حیدر کو کھونے سے ڈرتی تھی۔
******************************
خود کے اندر یہ تبدیلیاں اس کے لئے بھی حیرانی کا باعث تھیں۔وہ ماں جی سے کھانے کا پوچھتی۔
ان کی خوراک اور دواٶں کا پہلے سے
زیادہ خیال رکھتی۔شام کی چائے بھی ان کے ساتھ پینے لگی تھی۔علینہ بھی وہیں تھیں
مگر وہ اسے خود پر حاوی نہیں کرنا چاہتی تھی۔ہانیہ نے اسے بھی ایک مہمان کی حیثیت
دے دی تھی۔البتہ علینہ کو اس کا انداز اچھا نہیں لگ رہا تھا۔جس کا اظہار وہ اپنے
رویے سے کر رہی تھی۔وہاج کےساتھ بھی اب تلخ کلامی کم ہو گئی تھی۔وہ اسے مخاطب نہیں
کرتا تھا۔اور اگر وہ اس سے بات کرتی تو ضرورت کے چند الفاظ ہی کہتا۔اس کے دماغ میں
کیا چل رہا تھا وہ سمجھنے سے قاصر تھی۔مگر اتنا تھا کہ اب وہ خود اور حالات کو
سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی۔کالج میں چھٹیاں چل رہی تھیں، کچھ اس وجہ سے بھی سکون
تھا۔اب بھی وہ ماں جی کو چائے کا پوچھنے جا رہی تھی جب کمرے میں اپنا نام سن کر رک
گئی۔
” ہانیہ ابھی پڑھ رہی ہے عصمت۔۔۔اور ابھی تو صرف آٹھ ماہ ہوئے ہیں وہاج کی شادی کو۔۔ آغا میاں بھی ہر بات میں جلدی مچا دیتے ہیں۔“وہ اس کی ماں سے فون پر بات کر رہی تھیں۔ ہانیہ کا دل بے احتیار پگھلا۔اس نے اتنے عرصے سے اپنے اس سب سے قریبی رشتے سے بات نہیں کی تھی۔
”علینہ بچی تو اپنی ہے مگر ۔۔۔مجھے نہیں لگتا کہ وہاج دوسری شادی پر اتنی جلدی راضی ہوگا۔“
” ہانیہ ابھی پڑھ رہی ہے عصمت۔۔۔اور ابھی تو صرف آٹھ ماہ ہوئے ہیں وہاج کی شادی کو۔۔ آغا میاں بھی ہر بات میں جلدی مچا دیتے ہیں۔“وہ اس کی ماں سے فون پر بات کر رہی تھیں۔ ہانیہ کا دل بے احتیار پگھلا۔اس نے اتنے عرصے سے اپنے اس سب سے قریبی رشتے سے بات نہیں کی تھی۔
”علینہ بچی تو اپنی ہے مگر ۔۔۔مجھے نہیں لگتا کہ وہاج دوسری شادی پر اتنی جلدی راضی ہوگا۔“
وقت ٹھہرا تھا یا
دھڑکن۔۔وہ اندازہ نہیں لگا پائی تھی۔روح فنا ہوئی تھی یا امر۔۔سمجھ نہیں
آیاتھا۔ایسے کیسے۔۔؟ آنسو بھی کتنی بڑی نعمت ہیں۔ہر دُکھ ، تکلیف خود میں سمو لیتے
ہیں۔ہر اذیت خود میں سمیٹ کر انسان کا دل ہلکا کر دیتے ہیں۔اگر یہ آنسو نہ ہوتےتو
کوئی بھی سلامت نہ رہتا۔دل دردِزیست سے پھٹ جاتا۔اور جب دل سلامت نہ رہے تو وجود
کی کیا اوقات !
*************************
دل اداس تھا اور بہت اداس تھا۔آنسو تھمنے میں نہیں آتے تھے۔جانتے ہوئے بھی وہ انجان تھی کہ آخر اتنی بے چینی اور تکلیف کیوں تھی؟ جب سے ماں جی کی باتیں سنی تھیں تب سے پریشانی سے برا حال تھا۔پچھلے چند دن سے اسے اپنی بھی خبر نہیں رہی تھی۔۔۔اور وہاج وہ ٹھیک تھا۔۔وہ اندازہ نہیں لگا پائی کہ وہ اس سب باتوں سےواقف ہے یا نہیں ۔۔! ان کا رشتہ ایک سوالیہ نشان تھا جس پر اب آخری کیل ٹھونکی جانا تھی۔وہاج سے جتنی بھی نارضی سہی۔۔۔مگر اس پر کسی اور کا حق دیکھنا بہت مشکل تھا۔وہ اس کا ہمیشہ کا ساتھی رہا تھا۔ہر بار، ہر بار۔۔۔اس کے آنسو بہانے پر وہی تو اس کے چہرے پر پھر سے مسکان سجا دیتا تھا۔
اور ہانیہ حیدر کو احساس ہو رہا تھا کہ اگر اللہ نے اس کی قسمت میں وہاج حیدر کا ساتھ لکھا تھا تو
*************************
دل اداس تھا اور بہت اداس تھا۔آنسو تھمنے میں نہیں آتے تھے۔جانتے ہوئے بھی وہ انجان تھی کہ آخر اتنی بے چینی اور تکلیف کیوں تھی؟ جب سے ماں جی کی باتیں سنی تھیں تب سے پریشانی سے برا حال تھا۔پچھلے چند دن سے اسے اپنی بھی خبر نہیں رہی تھی۔۔۔اور وہاج وہ ٹھیک تھا۔۔وہ اندازہ نہیں لگا پائی کہ وہ اس سب باتوں سےواقف ہے یا نہیں ۔۔! ان کا رشتہ ایک سوالیہ نشان تھا جس پر اب آخری کیل ٹھونکی جانا تھی۔وہاج سے جتنی بھی نارضی سہی۔۔۔مگر اس پر کسی اور کا حق دیکھنا بہت مشکل تھا۔وہ اس کا ہمیشہ کا ساتھی رہا تھا۔ہر بار، ہر بار۔۔۔اس کے آنسو بہانے پر وہی تو اس کے چہرے پر پھر سے مسکان سجا دیتا تھا۔
اور ہانیہ حیدر کو احساس ہو رہا تھا کہ اگر اللہ نے اس کی قسمت میں وہاج حیدر کا ساتھ لکھا تھا تو
ٹھیک لکھا تھا۔رب کا یہ
احسان بہت بڑا تھا۔آخر وہ اس کے ساتھ تو تھا۔۔ہمیشہ کے لئے۔۔ایک جائز اور مقدس رشتے
میں بندھے۔۔۔اگر وہاج حیدر نہ ہوتا تو ہانیہ حیدر بھی نہ ہوتی۔وہ اس کی عادت بن
چکا تھا۔اسے دیکھنا، اس سے بات کرنا، بہت ضروری تھا۔بہت زیادہ۔۔سانس لینے جیسا
ضروری۔۔دل دھڑکنے جیسا ضروری۔۔!!
”ایک بات اپنے اس چھوٹے سے دماغ میں بٹھا لو ہانی۔۔میں کبھی بھی ہمارے درمیان کسی تیسری کو نہیں آنے دوں گا۔آئی پرامس!“
وہ انگلیڈ سے بہت سی چیزوں کےساتھ اس کے لئے ایک بریسلیٹ بھی لے کر آیا تھا۔وائٹ گولڈ کا وہ خوبصورت بریسلٹ ہانیہ نے بہت فرمائش کر کے منگوایا تھا۔مگر پھر وہی بریسلیٹ علینہ کو بھی اچھا لگا۔اور ماں جی اور پھپھو کے زور دینے پر ہانیہ نے رونی صورت لئے وہ بریسلیٹ علینہ کی طرف اچھال دیا تھا۔بعد میں وہاں کیا ہوا۔۔وہ نہیں جانتی تھی۔بس علینہ ناراض ہو کر اپنے گھر چلی گئی تھی۔اور وہاج کچھ دیر بعد اس کے پاس آیا تھا۔اسے بریسلیٹ پہنانے!
”اس لئے کسی اور کی وجہ سے مجھ سے خفا ہونے کی غلطی مت کرنا۔میرے لئے سب سے تکلیف دہ چیز تمہاری ناراضگی ہے۔!“
”ایک بات اپنے اس چھوٹے سے دماغ میں بٹھا لو ہانی۔۔میں کبھی بھی ہمارے درمیان کسی تیسری کو نہیں آنے دوں گا۔آئی پرامس!“
وہ انگلیڈ سے بہت سی چیزوں کےساتھ اس کے لئے ایک بریسلیٹ بھی لے کر آیا تھا۔وائٹ گولڈ کا وہ خوبصورت بریسلٹ ہانیہ نے بہت فرمائش کر کے منگوایا تھا۔مگر پھر وہی بریسلیٹ علینہ کو بھی اچھا لگا۔اور ماں جی اور پھپھو کے زور دینے پر ہانیہ نے رونی صورت لئے وہ بریسلیٹ علینہ کی طرف اچھال دیا تھا۔بعد میں وہاں کیا ہوا۔۔وہ نہیں جانتی تھی۔بس علینہ ناراض ہو کر اپنے گھر چلی گئی تھی۔اور وہاج کچھ دیر بعد اس کے پاس آیا تھا۔اسے بریسلیٹ پہنانے!
”اس لئے کسی اور کی وجہ سے مجھ سے خفا ہونے کی غلطی مت کرنا۔میرے لئے سب سے تکلیف دہ چیز تمہاری ناراضگی ہے۔!“
پھر کیسےکوئی تیسرا اس کی جگہ لے سکتا تھا۔ لیکن پہلے وہ اس کی دوست تھی، سب سے خاص دوست۔۔جس کی جگہ کوئی نہیں لے سکتا تھا مگر اب وہ اس کی بیوی تھی جس کی جگہ کوئی بھی اور عورت لے سکتی تھی۔۔!آخر خاندان کی روایت کا سوال تھا۔ہر مرد کی طرح وہاج کو بھی دو سے تین شادیاں ہی کرنی تھیں اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو۔۔۔خاندان کی جائیداد بھی تو مخفوظ رکھنی تھی۔ وہ بے بس تھی بہت بے بس۔!
***********************
”ہانیہ۔۔۔!“
”ہانیہ۔۔۔!“
اپنے نام کی پکار پر اس نے چونک کر ٹی وی سے نظریں ہٹائیں۔وہاج اسے پکار رہا تھا۔رات کے گیارہ بج رہے تھے اور وہ ایک گھنٹے سے صوفہ پہ بیٹھی ٹی وی دیکھ رہی تھی۔وہاج بیڈ پر بیٹھا لیپ ٹاپ گود میں رکھے کسی کام میں مصروف تھا۔وہ اس سے بے خبر نہیں تھا۔بے خبر رہ ہی نہیں سکتاتھا۔پچھلے چند دن سے اس کا رویہ اسے الجھا رہا تھا۔وہ بہت گم سم اور اداس دکھائی دیتی تھی۔وہ اس کے لئے پریشان تھا۔اتنی اداس تو وہ شادی کے وقت بھی نہیں تھی۔پھر
اب ایسا کیا ہوگیا تھا کہ
اسے اپنا بھی ہوش نہیں رہا تھا۔اور اب ۔۔۔وہ پچھلے پندرہ منٹ سے اسےاسی حالت میں
بیٹھے دیکھ رہا تھا۔اس کے کئی بار پکارنے پر اس نے اس کی جانب دیکھا۔
اس کے دیکھنے پر وہاج نے لیپ ٹاپ ایک طرف رکھا اور اٹھ کر اس کے پاس چلا آیا۔صوفٹ صوفا قریب کیا اور اس کے سامنے بیٹھ گیا۔ہانیہ خالی خالی نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی۔کالی شلوار قمیض میں وہ بہت اچھا لگا رہا تھا۔اسے تو ہمیشہ ہی اچھا لگتا تھا۔قمیض کے بازو ہمیشہ کی طرح کہنیوں تک اوپر چڑھا رکھے تھے۔وہ بغور اس کی آنکھوں میں دیکھ رہا تھا۔نیلی اداس آنکھیں۔۔ اس کی آنکھیں بہت خوبصورت تھیں۔موٹی نیلی گہری۔۔۔لوگ کہتے ہیں حسین آنکھیں اداسی میں اور بھی زیادہ حسین لگتی ہیں۔۔۔غلط کہتے ہیں۔۔۔وہاج علی حیدر کو تو دنیا میں ہانیہ میر حیدر کی اداس آنکھوں سے زیادہ برا کچھ نہیں لگتا تھا۔۔! سادہ کالے لباس میں اس کی رنگت اور بھی روشن دکھتی تھی۔چہرہ ہمیشہ کی طرح گلابی سا تھا۔بلاشبہ وہ بہت خوبصورت تھی۔اور اسے تو اس سے زیادہ خوبصورت کچھ نہیں لگتا تھا۔اس کے مسلسل دیکھنے پر ہانیہ نے نظریں جھکا لیں تھیں۔
”کیسی ہو۔۔؟“اسے لگا اس نے یہ لہجہ صدیوں بعد سنا ہے۔وہی میٹھا لہجہ۔۔مگر سوال وہ نہیں
اس کے دیکھنے پر وہاج نے لیپ ٹاپ ایک طرف رکھا اور اٹھ کر اس کے پاس چلا آیا۔صوفٹ صوفا قریب کیا اور اس کے سامنے بیٹھ گیا۔ہانیہ خالی خالی نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی۔کالی شلوار قمیض میں وہ بہت اچھا لگا رہا تھا۔اسے تو ہمیشہ ہی اچھا لگتا تھا۔قمیض کے بازو ہمیشہ کی طرح کہنیوں تک اوپر چڑھا رکھے تھے۔وہ بغور اس کی آنکھوں میں دیکھ رہا تھا۔نیلی اداس آنکھیں۔۔ اس کی آنکھیں بہت خوبصورت تھیں۔موٹی نیلی گہری۔۔۔لوگ کہتے ہیں حسین آنکھیں اداسی میں اور بھی زیادہ حسین لگتی ہیں۔۔۔غلط کہتے ہیں۔۔۔وہاج علی حیدر کو تو دنیا میں ہانیہ میر حیدر کی اداس آنکھوں سے زیادہ برا کچھ نہیں لگتا تھا۔۔! سادہ کالے لباس میں اس کی رنگت اور بھی روشن دکھتی تھی۔چہرہ ہمیشہ کی طرح گلابی سا تھا۔بلاشبہ وہ بہت خوبصورت تھی۔اور اسے تو اس سے زیادہ خوبصورت کچھ نہیں لگتا تھا۔اس کے مسلسل دیکھنے پر ہانیہ نے نظریں جھکا لیں تھیں۔
”کیسی ہو۔۔؟“اسے لگا اس نے یہ لہجہ صدیوں بعد سنا ہے۔وہی میٹھا لہجہ۔۔مگر سوال وہ نہیں
تھا۔یہ سوال اس کے لئے
نیا تھا۔وہاج کو کبھی پوچھنے کی ضرورت نہیں پڑی تھی۔۔وہ اس کے حال سے یونہی واقف
رہتا تھا۔اس کے چہرے کی ہر ہر جنبش جانتا تھا۔
”ٹھیک ہوں۔۔!“جواب بھی نیا تھا۔وہ ایک گہراسانس لے کر رہ گیا۔
”کیابات ہے ؟۔۔۔کوئی مسئلہ ہے ہانیہ ؟“فکر مند لہجہ ۔
”مسئلہ ۔!تم تو یہ مت پوچھو ۔۔ہمیشہ کی طرح اب بھی بنا کہے سمجھ جاٶ۔۔ہر بات۔۔ہر مسئلہ۔۔“وہ صرف سوچ کر رہ گئی۔کہہ نہیں پائی۔
”نہیں ۔۔۔کوئی مسئلہ نہیں ہے۔“بمشکل الفاظ ادا ہوئے تھے۔آنسو کا پھندا سا سینے میں اٹکا تھا۔تو کچھ دن بعد یہ شخص میرا نہیں رہے گا۔۔!!
”نہیں ۔۔۔تم ٹھیک نہیں ہو۔۔!“وہاج نے اب کےپر یقین لہجے میں کہتے ہوئے اس کے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں تھام لئے۔اور پھر چند پل وہ اسے دیکھتا رہا۔۔۔حیرت اور تکلیف۔۔بیک وقت دو محسوسات اس پر واضع ہوئے تھے۔اس کے ہاتھ گرم تھے۔۔اے سی کی ٹھنڈک میں بھی تپ رہے تھے۔۔۔نبض بھی آہستہ سے چلتی تھی۔ناجانے اسے کب سے بخار تھا اور۔۔۔اسے خبر ہی نہیں ہوئی۔۔وہ اس سے اتنا غافل کیسے رہ سکتا تھا؟
”ٹھیک ہوں۔۔!“جواب بھی نیا تھا۔وہ ایک گہراسانس لے کر رہ گیا۔
”کیابات ہے ؟۔۔۔کوئی مسئلہ ہے ہانیہ ؟“فکر مند لہجہ ۔
”مسئلہ ۔!تم تو یہ مت پوچھو ۔۔ہمیشہ کی طرح اب بھی بنا کہے سمجھ جاٶ۔۔ہر بات۔۔ہر مسئلہ۔۔“وہ صرف سوچ کر رہ گئی۔کہہ نہیں پائی۔
”نہیں ۔۔۔کوئی مسئلہ نہیں ہے۔“بمشکل الفاظ ادا ہوئے تھے۔آنسو کا پھندا سا سینے میں اٹکا تھا۔تو کچھ دن بعد یہ شخص میرا نہیں رہے گا۔۔!!
”نہیں ۔۔۔تم ٹھیک نہیں ہو۔۔!“وہاج نے اب کےپر یقین لہجے میں کہتے ہوئے اس کے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں تھام لئے۔اور پھر چند پل وہ اسے دیکھتا رہا۔۔۔حیرت اور تکلیف۔۔بیک وقت دو محسوسات اس پر واضع ہوئے تھے۔اس کے ہاتھ گرم تھے۔۔اے سی کی ٹھنڈک میں بھی تپ رہے تھے۔۔۔نبض بھی آہستہ سے چلتی تھی۔ناجانے اسے کب سے بخار تھا اور۔۔۔اسے خبر ہی نہیں ہوئی۔۔وہ اس سے اتنا غافل کیسے رہ سکتا تھا؟
”تمہیں تو بہت تیز بخار ہے۔۔۔“پست لہجہ! وہ شرمندہ تھا۔ناجانے کیوں !
”اور تم نے کسی کو نہیں بتایا۔۔۔۔!“ہانیہ نے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔ایک منظر نظروں میں لہرایا تھا۔
”ہانیہ چلو۔۔۔اپنے روم میں۔۔جاکر آرام کرو۔۔“وہ جھولا جھول رہی تھی اور وہاج اس کے سر پر کھڑا کہہ رہا تھا۔
”لیکن کیوں۔۔۔؟مجھے ابھی جھولا جھولنا ہے۔۔میں نہیں جا رہی !“اس نے منہ پھلاکر کہا۔
”تمہیں بخار ہے۔۔۔ڈاکٹر کو بلایا ہے میں نے۔۔۔اندر جآ کر آرام، ورنہ طبیعت اور بگڑجائے گی۔“
”بخار۔۔اور مجھے۔۔۔!نہیں تو۔۔۔بالکل نہیں ہے۔۔ایسے موسم میں ماتھا واتھا گرم ہو جاتا ہے۔“اس نے اپنی پیشانی چھوتےہوئے لاپرواہی سے کہا۔
”تم اٹھ رہی ہو یا میں یہ جھولا اتار دوں۔۔!“ وہ اسے دھمکی دیتے ہوئے بولا۔
”آپ بھی نا۔۔۔کبھی کبھی تو مجھے لگتاہے جیسے چھوٹی ماں نہیں۔۔ بلکہ آپ میری ماں ہیں۔!“وہ اسے گھورتے ہوئے اندر کی جانب چل دی تھی۔
”چلو اٹھو۔۔۔بیڈ پر چلو۔۔میں ڈاکٹر کو کال کرتا ہوں۔“وہاج کی آواز پر وہ حال میں واپس لوٹی۔وہ اس کے ہاتھ تھامےاسے صوفہ سےاٹھا رہا تھا۔اس کے ہاتھوں میں ہاتھ دیے وہ آہستہ قدموں سے چلتی ہوئی بیڈ تک آئی۔وہاج نے اس پر کمبل اوڑھایا تھا اور پھر موبائل تھامے کمرے سےباہر نکل گیا تھا۔
*************************
”وہ کچھ پریشان ہے۔کوئی چیز اسے بہت بری طرح ڈسٹرب کر رہی ہے۔وہ اندر ہی اندر گھل رہی ہے اور یہ تکلیف بخار کی صورت سامنے آ گئی ہے۔وہ شدید دباٶ میں ہے۔۔“ڈاکٹر کی باتٰیں مسلسل اس کے ذہن میں گونج رہی تھیں۔ڈاکٹر عاکف اس کے ایک دوست کے والد تھے۔
”تم بہتر سمجھتے ہوگے کہ کیا مسئلہ ہو سکتا ہے۔۔دوائی تو میں نے لکھ دی ہے مگر کوشش کرو کہ اس کا زیادہ سے زیادہ خیال رکھو۔اسے وقت دو۔۔خوش رکھو۔۔تاکہ وہ اپنے دل کی بات شئیر کرے اور اس کا من ہلکا ہو جائے!“
آخر اب ایسی کون سی بات تھی جو ہانیہ کو اس قدر تکلیف پہنچارہی تھی۔شادی کو کافی وقت گزر
گیاتھا اور اس دوران اس
کی حالت ٹھیک رہی تھی۔یہ وجہ تو نہیں ہوسکتی تھی۔وہ اس ماحول میں ایڈجسٹ ہو رہی
تھی۔اس سے لاتعلق ہی سہی مگر وہ اپنے حال میں خوش تو تھی۔پھر پچھلے چند دن
سے۔۔۔۔۔۔۔۔
ہانیہ کے رویے پر اس نے خود کو سمجھا لیا تھا۔وہ اسے بچپن سے جانتاتھا۔۔سو پیچھے ہٹ گیاتھا۔وہ چاہتی تھی کہ وہ اس سے دور رہے۔۔۔سو اس وہ اس سے انجان رہنے لگا تھا مگر غافل نہیں۔۔! اور پھر علینہ کے آنے پر اس نے ایک نئی بات نوٹ کی۔۔اور وہ تھی ہانیہ کی بے چینی اور اداسی۔۔! اسے دو دن میں پورا اندازہ ہو گیا تھا کہ ہانیہ علنیہ سے بری طرح جیلس ہے۔اسے علینہ کا آنا اچھا نہیں لگا۔اور تو عام بات تھی۔۔۔اسے علینہ پسند نہیں تھی، وہ ہمیشہ سے اسے کباب میں ہڈی کہا کرتی تھی۔اور اس بات کا اظہار وہ کئی بار وہاج سے کر چکی تھی۔مگر اب۔۔وہ سوائے جلنے کڑھنے کے کچھ نہیں کرتی تھی۔اور وہاج کو اس کا ایسا چہرہ دیکھ کر مزا آنے لگا تھا۔ آخر اسی بہانے سہی۔۔۔وہ اسے تھوڑی سی اہمیت تو دے رہی تھی۔نا جانے کیسا تعلق تھا۔۔ ہانیہ کے زہر اگلنے کے بعد بھی وہ اس کے لئے سکون کا باعث تھی۔اس کی مسکراہٹ اسے جینا سیکھاتی تھی۔۔۔اس کاہ ہونا اس کے لئے زندگی کی علامت تھا۔۔۔محبت تھی یا اس سے
ہانیہ کے رویے پر اس نے خود کو سمجھا لیا تھا۔وہ اسے بچپن سے جانتاتھا۔۔سو پیچھے ہٹ گیاتھا۔وہ چاہتی تھی کہ وہ اس سے دور رہے۔۔۔سو اس وہ اس سے انجان رہنے لگا تھا مگر غافل نہیں۔۔! اور پھر علینہ کے آنے پر اس نے ایک نئی بات نوٹ کی۔۔اور وہ تھی ہانیہ کی بے چینی اور اداسی۔۔! اسے دو دن میں پورا اندازہ ہو گیا تھا کہ ہانیہ علنیہ سے بری طرح جیلس ہے۔اسے علینہ کا آنا اچھا نہیں لگا۔اور تو عام بات تھی۔۔۔اسے علینہ پسند نہیں تھی، وہ ہمیشہ سے اسے کباب میں ہڈی کہا کرتی تھی۔اور اس بات کا اظہار وہ کئی بار وہاج سے کر چکی تھی۔مگر اب۔۔وہ سوائے جلنے کڑھنے کے کچھ نہیں کرتی تھی۔اور وہاج کو اس کا ایسا چہرہ دیکھ کر مزا آنے لگا تھا۔ آخر اسی بہانے سہی۔۔۔وہ اسے تھوڑی سی اہمیت تو دے رہی تھی۔نا جانے کیسا تعلق تھا۔۔ ہانیہ کے زہر اگلنے کے بعد بھی وہ اس کے لئے سکون کا باعث تھی۔اس کی مسکراہٹ اسے جینا سیکھاتی تھی۔۔۔اس کاہ ہونا اس کے لئے زندگی کی علامت تھا۔۔۔محبت تھی یا اس سے
کچھ زیادہ۔۔۔۔عشق تھا یا اس
سے کچھ کم۔۔۔مگر وہاج کے لئئے ہانیہ بہت ضروری تھی۔۔۔جیسے پھول کے لئے خوشبو۔۔۔ جیسے آنکھ کے لئے بینائی۔۔!
**************************
”آپ نےتو جان ہی نکال دی ہماری ہانی بیٹا۔۔۔؟“ماں جی اس کے پاس بیڈ پر بیٹھی تھیں۔پوری رات اور اگلا دن وہ غنودگی میں رہی تھی۔شام کا وقت تھا اور ماں جی اور علینہ اس کے کمرے میں تھیں۔وہاج کہاں تھا؟دماغ بس اسی سوچ پر اٹکا تھا۔
”کیا کر لیا طبیعت کو۔۔ذرا جو خیال ہو آپ کوکسی کا۔۔اتنی اجنبیت بھی برتتا ہے کوئی۔۔آخر کسی کو تو بتانا چاہئے تھا۔۔!“ماں جی اس کا ہاتھ تھامے غصہ نکال رہیں تھیں۔علینہ بھی قریبی کرسی پر بیٹھی تھی۔اس کا موڈ آف تھا۔
”میں ٹھیک ہوں بڑی ماں۔۔!“
”اب تو ٹھیک ہونا ہی تھا تم نے۔۔۔ٹھیک کیسے نہیں ہوتی۔۔آخر پورے چوبیس گھنٹے وہاج کو گھن چکر بنائے رکھا تم نے۔۔۔اسے تو اپنا ہوش بھی نہیں رہی تھی۔۔!“علینہ نے جل کر اس پر طنز کرنا چاہا تھا مگر اس بات نے ہانیہ کو حیرت کے ساتھ ساتھ ایک انجانی سی خوشی بھی دی تھی۔وہ
**************************
”آپ نےتو جان ہی نکال دی ہماری ہانی بیٹا۔۔۔؟“ماں جی اس کے پاس بیڈ پر بیٹھی تھیں۔پوری رات اور اگلا دن وہ غنودگی میں رہی تھی۔شام کا وقت تھا اور ماں جی اور علینہ اس کے کمرے میں تھیں۔وہاج کہاں تھا؟دماغ بس اسی سوچ پر اٹکا تھا۔
”کیا کر لیا طبیعت کو۔۔ذرا جو خیال ہو آپ کوکسی کا۔۔اتنی اجنبیت بھی برتتا ہے کوئی۔۔آخر کسی کو تو بتانا چاہئے تھا۔۔!“ماں جی اس کا ہاتھ تھامے غصہ نکال رہیں تھیں۔علینہ بھی قریبی کرسی پر بیٹھی تھی۔اس کا موڈ آف تھا۔
”میں ٹھیک ہوں بڑی ماں۔۔!“
”اب تو ٹھیک ہونا ہی تھا تم نے۔۔۔ٹھیک کیسے نہیں ہوتی۔۔آخر پورے چوبیس گھنٹے وہاج کو گھن چکر بنائے رکھا تم نے۔۔۔اسے تو اپنا ہوش بھی نہیں رہی تھی۔۔!“علینہ نے جل کر اس پر طنز کرنا چاہا تھا مگر اس بات نے ہانیہ کو حیرت کے ساتھ ساتھ ایک انجانی سی خوشی بھی دی تھی۔وہ
حیران سی اس کا چہرہ دیکھ
رہی تھی۔کیا وہاج نے اتنا خیال رکھا تھا۔۔میری اتنی بدتمیزی کے بعد بھی! وہ اس شخص
کو نہیں پائی تھی۔جب سمجھی تھی غلط سمجھی تھی۔جو تعلق ٹوٹا تھا وہ کہیں سے پھر
ابھرآیا تھا۔دل کے تعلق بھی بھلا یوں ٹوٹتے ہیں۔
”بہت بے آرام کیا تم نے وہاج کو۔۔۔اپنا خیال رکھنا چاہئے تھا تمہیں!“علینہ کا غصہ اترنے میں نہیں آ رہا تھا۔اس کا بس نہیں چلتا تھا کہ وہ ہانیہ کو کہیں غائب کر دے۔اتنی مشکل سے وہاج اس سے اچھے سے پیش آنے لگا تھا اور اب پھر سے وہی ڈرامے شروع ہو گئے تھے۔وہ اب تک وہاج کے انتظار میں بیٹھی تھی اور وہاج شادی کے لئے مانتا ہی نہیں تھا۔اس کے لئے آئے رشتے دوستی میں ڈھل کر وہیں کے وہیں رہ گئے تھے۔مگر اب تو بس بازی کچھ ہی دن میں اس کے نام ہوجانی تھی پھر یہ بدشگونی کیوں ہوگئی آخر۔۔۔آج وہ وہاج کا رویہ دیکھ کر پریشان ہوئی تھی۔وہ ایک سکینڈ کے لئے بھی ہانیہ کو اکیلا نہیں چھوڑنا چاہتا تھا۔اس کے چہرے پر جو فکر، بے چینی، اذیت تھی۔۔اور شاید محبت تھی۔۔۔وہ بہت خاص تھی!وہ ان جذبوں سے ڈر رہی تھی۔آخر محبت میں بدگمانی کتنا عرصہ رہ سکتی ہے!اور اب وہ ہانیہ کو سنا رہی تھی۔
”وہاج ہانی کاشوہر ہےعلینہ۔۔۔اور وہاج کا فرض بنتا ہےکہ وہ ہانی کا خیال رکھے۔۔کوتاہی اس
”بہت بے آرام کیا تم نے وہاج کو۔۔۔اپنا خیال رکھنا چاہئے تھا تمہیں!“علینہ کا غصہ اترنے میں نہیں آ رہا تھا۔اس کا بس نہیں چلتا تھا کہ وہ ہانیہ کو کہیں غائب کر دے۔اتنی مشکل سے وہاج اس سے اچھے سے پیش آنے لگا تھا اور اب پھر سے وہی ڈرامے شروع ہو گئے تھے۔وہ اب تک وہاج کے انتظار میں بیٹھی تھی اور وہاج شادی کے لئے مانتا ہی نہیں تھا۔اس کے لئے آئے رشتے دوستی میں ڈھل کر وہیں کے وہیں رہ گئے تھے۔مگر اب تو بس بازی کچھ ہی دن میں اس کے نام ہوجانی تھی پھر یہ بدشگونی کیوں ہوگئی آخر۔۔۔آج وہ وہاج کا رویہ دیکھ کر پریشان ہوئی تھی۔وہ ایک سکینڈ کے لئے بھی ہانیہ کو اکیلا نہیں چھوڑنا چاہتا تھا۔اس کے چہرے پر جو فکر، بے چینی، اذیت تھی۔۔اور شاید محبت تھی۔۔۔وہ بہت خاص تھی!وہ ان جذبوں سے ڈر رہی تھی۔آخر محبت میں بدگمانی کتنا عرصہ رہ سکتی ہے!اور اب وہ ہانیہ کو سنا رہی تھی۔
”وہاج ہانی کاشوہر ہےعلینہ۔۔۔اور وہاج کا فرض بنتا ہےکہ وہ ہانی کا خیال رکھے۔۔کوتاہی اس
سے ہوئی ہے سو مداوا بھی
اسے ہی ادا کرنا ہے۔۔۔۔!“ماں جی کو علینہ کی بات اچھی نہیں لگی تھی۔وہ اسے یہیں
روک دینا چاہتی تھیں۔
”اور پھر یہ تو اس رشتے کہ خوبصورت رنگ ہوتے ہیں۔۔محبت بھرے خوبصورت رنگ!“وہ ہانیہ کی طرف دیکھ کر مسکرائیں۔وہاج اور ہانیہ کو لے کر وہ بھی باقی سب کی طرح یہی سمجھتی آئیں تھیں کہ وہ اسے بچوں کی طرح چاہتا ہے۔مگر اب۔۔وہ جانتی تھیں کہ یہ تعلق روح کا روح تھا۔ دل کا دھڑکن سے۔۔۔بدن کا سانس سے۔۔۔انمول اور شفاف جذبہ۔۔۔جسے ”محبت“ کہتے ہیں۔
*************************
”ہانیہ۔۔۔“وہ چہرے پر بازو رکھے لیٹی تھی جب وہاج کی پکار سنائی دی۔اس نے بازو نہیں ہٹائے۔وہاج نے ایک بار پھر اسے پکارا۔ہنوز وہی جواب۔وہ ویسے ہی پڑی رہی۔
”میں جانتا ہوں تم سو نہیں رہی۔۔اس لئے اچھے بچوں کی طرح اٹھو اور میڈیسن لو!“وہاج نے اس کا بازو چہرے سے ہٹاتے ہوئے کہا۔اس کا جسم تپ رہا تھا۔اس کے کہنےپر وہ اٹھ کر بیٹھ گئی۔وہ اس کے دائیں طرف کھڑا اسے دوائی پکڑانے لگا۔
”اور پھر یہ تو اس رشتے کہ خوبصورت رنگ ہوتے ہیں۔۔محبت بھرے خوبصورت رنگ!“وہ ہانیہ کی طرف دیکھ کر مسکرائیں۔وہاج اور ہانیہ کو لے کر وہ بھی باقی سب کی طرح یہی سمجھتی آئیں تھیں کہ وہ اسے بچوں کی طرح چاہتا ہے۔مگر اب۔۔وہ جانتی تھیں کہ یہ تعلق روح کا روح تھا۔ دل کا دھڑکن سے۔۔۔بدن کا سانس سے۔۔۔انمول اور شفاف جذبہ۔۔۔جسے ”محبت“ کہتے ہیں۔
*************************
”ہانیہ۔۔۔“وہ چہرے پر بازو رکھے لیٹی تھی جب وہاج کی پکار سنائی دی۔اس نے بازو نہیں ہٹائے۔وہاج نے ایک بار پھر اسے پکارا۔ہنوز وہی جواب۔وہ ویسے ہی پڑی رہی۔
”میں جانتا ہوں تم سو نہیں رہی۔۔اس لئے اچھے بچوں کی طرح اٹھو اور میڈیسن لو!“وہاج نے اس کا بازو چہرے سے ہٹاتے ہوئے کہا۔اس کا جسم تپ رہا تھا۔اس کے کہنےپر وہ اٹھ کر بیٹھ گئی۔وہ اس کے دائیں طرف کھڑا اسے دوائی پکڑانے لگا۔
”مجھے نہیں کھانی۔۔“روٹھا لہجہ! اسے میڈیسن فوبیا تھا۔
”میڈیسن نہیں کھاٶ گی تو ٹھیک کیسے ہوگی!“وہ اس کے فکر مندتھا۔
”مجھے نہیں ٹھیک ہونا۔۔!“اب آنکھیں بھی بھیگ گئیں تھیں۔وہ کیوں اس کا خیال رکھتا تھا؟ جب یہ سب بس کچھ دن کا کھیل تھا توکیوں اس کے لئے خود بے آرام تھا؟آغا جان اپنا فیصلہ نہیں بدلیں گے!اور وہ۔۔۔وہ اسے کھو دے گی۔
”کیوں نہیں ٹھیک ہونا؟"وہ اس کے قریب بیڈ پر بیٹھ گیا۔اس کی آنکھوں میں دیکھتے سوال کر رہا تھا۔گلابی چہرہ کچھ اور گلابی ہوا۔۔۔ہانیہ نے نظریں جھکا لیں۔
”تم میرا اتنا خیال کیوں رکھتے ہو۔۔؟کیوں مجھ جیسی بدتمیز لڑکی کو برداشت کرتے ہو؟میں نے تمہیں اتنا انسلٹ کیا اور تم پھر بھی۔۔؟میرے ٹھیک ہونے سے تم پھر سے اجنبی بن جاٶ گے۔۔ تو مجھے ٹھیک نہیں ہونا۔۔کبھی بھی نہیں !“بھیگی آنکھیں لئے وہ بس سوچ کر رہ گئٰ۔کہہ کچھ نہ سکی۔
”ہانیہ۔۔!“وہاج نے اس کے اسے پکارا اوراس کا پکارنا گویا آخری زخم ثابت ہوا۔۔۔
وہ چہرے پر ہاتھ رکھ کر بچوں کی طرح رو دی۔۔۔وہاج پریشان سا اسے دیکھ رہا تھا۔اس کا دل
تکلیف سے چور چور ہوا۔
”ہانیہ۔۔۔!“اس کے ہاتھ چہرے سے ہٹاتے وہ پریشانی سے اسے پکارنے لگا۔درد ِدل آنکھوں سے بہہ رہا تھا۔وہاج نے آہستہ سے اس کا سر اپنے سینے سے لگایا۔اس کی سفید قمیض اس کے آنسوٶں سے بھیگنے لگی تھی۔اسے اپنی محبت کے حصار میں لئےوہ اس کا سر تھپتھپانے لگا۔کچھ دیر میں اس کے آنسو تھم گئے۔اس کے سینے سر رکھے وہ اس کی دھڑکن سن سکتی تھی۔اس کے حصار کا احساس ہوتے اس نے سر اٹھا کر اپنا چہرہ صاف کیا۔البتہ آنسو اب بھی بہہ رہےتھے مگر رفتاردھیمی تھی۔وہاج اسے ہی دیکھ رہاتھا۔تکلیف سے۔۔دکھ سے۔۔ محبت سے۔۔۔!ہانیہ اس سے نظریں نہیں ملا نہیں تھی۔وہاج نے اس کے ہاتھ تھام لئے۔اسے ایک اچھے دوست کی ضرورت تھی۔
”اب میڈیسن لیں؟“بالکل غیر متوقع سوال !ہانیہ نےاثبات میں سر ہلادیا۔اسے میڈیسن کھلا کر وہ اس کے پاس اس کا ہاتھ تھامے بیٹھا تھا۔ہانیہ سونے کی کوشش کرنے لگی تھی۔
***********************
”ہانی۔۔۔بیٹا کیا بات ہے۔۔آپ اتنی اداس کیوں ہو؟کوئی پریشانی ہے تو مجھے بتاٶ۔۔ماں ہوں
”ہانیہ۔۔۔!“اس کے ہاتھ چہرے سے ہٹاتے وہ پریشانی سے اسے پکارنے لگا۔درد ِدل آنکھوں سے بہہ رہا تھا۔وہاج نے آہستہ سے اس کا سر اپنے سینے سے لگایا۔اس کی سفید قمیض اس کے آنسوٶں سے بھیگنے لگی تھی۔اسے اپنی محبت کے حصار میں لئےوہ اس کا سر تھپتھپانے لگا۔کچھ دیر میں اس کے آنسو تھم گئے۔اس کے سینے سر رکھے وہ اس کی دھڑکن سن سکتی تھی۔اس کے حصار کا احساس ہوتے اس نے سر اٹھا کر اپنا چہرہ صاف کیا۔البتہ آنسو اب بھی بہہ رہےتھے مگر رفتاردھیمی تھی۔وہاج اسے ہی دیکھ رہاتھا۔تکلیف سے۔۔دکھ سے۔۔ محبت سے۔۔۔!ہانیہ اس سے نظریں نہیں ملا نہیں تھی۔وہاج نے اس کے ہاتھ تھام لئے۔اسے ایک اچھے دوست کی ضرورت تھی۔
”اب میڈیسن لیں؟“بالکل غیر متوقع سوال !ہانیہ نےاثبات میں سر ہلادیا۔اسے میڈیسن کھلا کر وہ اس کے پاس اس کا ہاتھ تھامے بیٹھا تھا۔ہانیہ سونے کی کوشش کرنے لگی تھی۔
***********************
”ہانی۔۔۔بیٹا کیا بات ہے۔۔آپ اتنی اداس کیوں ہو؟کوئی پریشانی ہے تو مجھے بتاٶ۔۔ماں ہوں
آپ کی!“وہ بڑی ماں کی گود میں سر رکھے لیٹی
تھی۔آج اسے اپنے کمرے میں، اس بستر پر پڑے چوتھا روز تھا۔وہاج آج پہلے دن آفس
گیاتھا۔وہ پچھلے تین دن سے اس کے پاس ہی تھا۔
”کچھ نہیں۔۔!“وہ اداسی سے گویا ہوئی۔جب بڑی ماں کچھ کر ہی نہیں سکتیں۔۔پھر انہیں پریشان کیوں کرنا۔وہ نہیں جانتیں تھیں کہ ہانیہ ان کی اس دن کی باتیں سن چکی ہے۔سو اس نے چپ رہنےکا ہی سوچا۔
”جانتی ہو ۔چھوٹی سی تھی آپ۔۔جب میں نے عصمت سے کہا کہ اتنی پیاری پری تو میرےوہاج کے لئے ہی بنی ہے۔“وہ محبت سے کہہ رہی تھیں۔
”مگر پھر میں نے محسوس کیا کہ وہاج کا دل تو بالکل کورا ہے۔وہ تو آپ کے لئے بہت پاکیزہ جذبات رکھتا ہے۔نا جانے کیسا رشتہ تھا آپ دونوں کا۔۔۔ایک دوسرے کی روح سے واقفیت تھی۔“وہ اس کے بال درست کرنے لگیں۔ہانیہ ان کی بات پر مسکرا دی۔ہاں۔۔۔ایسا ہی تو تھا۔
”سب کہنے لگے کہ اب ہانیہ بڑی ہو گئی ہے۔۔اتنی دوستی اچھی نہیں!مگر آپ دونوں دوست تو ایک دوسرے کے لئے سانس کی طرح لازم تھے۔“ہاں۔۔۔یہ تو تھا۔۔نہیں!اب بھی ایسا ہی ہے۔ہانیہ خوبصورت وقت میں کھو گئی۔
”کچھ نہیں۔۔!“وہ اداسی سے گویا ہوئی۔جب بڑی ماں کچھ کر ہی نہیں سکتیں۔۔پھر انہیں پریشان کیوں کرنا۔وہ نہیں جانتیں تھیں کہ ہانیہ ان کی اس دن کی باتیں سن چکی ہے۔سو اس نے چپ رہنےکا ہی سوچا۔
”جانتی ہو ۔چھوٹی سی تھی آپ۔۔جب میں نے عصمت سے کہا کہ اتنی پیاری پری تو میرےوہاج کے لئے ہی بنی ہے۔“وہ محبت سے کہہ رہی تھیں۔
”مگر پھر میں نے محسوس کیا کہ وہاج کا دل تو بالکل کورا ہے۔وہ تو آپ کے لئے بہت پاکیزہ جذبات رکھتا ہے۔نا جانے کیسا رشتہ تھا آپ دونوں کا۔۔۔ایک دوسرے کی روح سے واقفیت تھی۔“وہ اس کے بال درست کرنے لگیں۔ہانیہ ان کی بات پر مسکرا دی۔ہاں۔۔۔ایسا ہی تو تھا۔
”سب کہنے لگے کہ اب ہانیہ بڑی ہو گئی ہے۔۔اتنی دوستی اچھی نہیں!مگر آپ دونوں دوست تو ایک دوسرے کے لئے سانس کی طرح لازم تھے۔“ہاں۔۔۔یہ تو تھا۔۔نہیں!اب بھی ایسا ہی ہے۔ہانیہ خوبصورت وقت میں کھو گئی۔
”اور دیکھ لو۔۔۔اس سے پہلے کہ کوئی باتیں سناتا۔۔اللہ نے کتنا خوبصورت راستہ نکال دیا آپ دونوں کو ساتھ رکھنے کے لئے۔۔کتنا مہربان ہے وہ۔۔!"ان کی بات پر ہانیہ چونکی۔یہ کون سا پہلو دکھا رہیں تھیں وہ؟
”آپ دونوں کو ایک دوسرے کا دائمی ساتھ نصیب کر دیا۔ہمیشہ کے لئے ایک خوبصورت رشتے میں باندھ دیا کہ اب دوستی پاکیزہ ہو گئی ہے۔۔ اب کوئی انگلی نہیں اٹھ سکتی آپ دونوں کے ساتھ پر۔۔۔مجھےتو فکر تھی کہ آپ دونوں ایک دوسرے کے بنا کیسے رہو گے! مگر وہ اللہ ہے۔۔اس نے دور کر دیں میری فکریں۔“
ہاں۔۔ٹھیک ہی تو کہہ رہی تھیں بڑی ماں۔۔کچھ عرصہ بعد اگر وہاج کی بیوی آتی تو کیا وہ اسے وہاج سے ایسے بات کرنے دیتی؟ نہیں!کوئی بھی بیوی اپنے شوہر کے ساتھ کسی اور کو برداشت نہیں کرتی۔۔پھر چاہے وہ بچپن کی چھوٹی سی دوست ہی کیوں نہ ہو۔۔اس بات پر اس نے پہلے کیوں نہیں سوچا!
”اور پھر دیکھ لو۔۔آپ دونوں ہی اس شادی پر راضی نہیں تھے۔مگر اللہ نے آپ دونوں کو آغا جان کے ذریعے ایسا مجبور کیا کہ شادی ہو گئی۔“بڑی ماں اسے شادی کا قصہ سنا رہی تھیں اور وہ
حیرانی سے ہونق بنی انہیں
سن رہی تھی۔اسے تو ایسا کچھ علم نہیں تھا۔وہاج نے اس کے لئے اس سے شادی کی۔۔اور
وہ۔۔وہ اسے کیا سمجھتی رہی۔۔ورنہ وہ تو جانتی تھی کہ وہ کبھی بھی خاندان میں شادی
کرنے پر رضامند نہیں تھا۔اسے نفرت تھی خاندان کے شادی کے رواج سے!کوئی جب بھی اس
بارے میں بات کرتا وہ صاف صاف انکار کر دیتا تھا کہ اسے قربانی کا بکرا نہیں
بننا۔۔دولت کے لئے وہ شادی جیسے رشتے کو مذاق نہیں بنا سکتا۔کسی کی زندگی نہیں
بگاڑ سکتا۔وہ ٹھیک کہتا تھا۔وہ کسی کی زندگی نہیں بگاڑ سکتا تھا۔اس نے تو ہانیہ
میر حیدر کو ایک نئی زندگی دی تھی۔کیا وہ اس قابل تھی کہ سے وہاج حیدر جیسا
خوبصورت دل رکھنےوالا شخص دےدیا جاتا۔ اللہ نے اس پر احسان کیا تھا۔بہت بڑا
احسان۔۔احساس ہو گیاتھا۔عقل آگئی تھی۔وہ شخص اس کے لئے انعام تھا۔
**************************
”میں تمہیں خدا حافظ کہنے آئی ہوں ہانیہ۔۔!“علینہ اس کے سامنے کھڑی ایک ادا سے کہہ رہی تھی۔ہانیہ نے ایک گہرا سانس بھرا۔وہ نہیں جانتی تھی کہ اسے ہمیشہ سے علینہ سے اتنی چڑھ کیوں تھی۔کچھ اس کی حرکتیں ایسی تھیں مگر ہانیہ نے کبھی کسی کو ناپسند نہیں کیا تھا۔وہ اس کے
**************************
”میں تمہیں خدا حافظ کہنے آئی ہوں ہانیہ۔۔!“علینہ اس کے سامنے کھڑی ایک ادا سے کہہ رہی تھی۔ہانیہ نے ایک گہرا سانس بھرا۔وہ نہیں جانتی تھی کہ اسے ہمیشہ سے علینہ سے اتنی چڑھ کیوں تھی۔کچھ اس کی حرکتیں ایسی تھیں مگر ہانیہ نے کبھی کسی کو ناپسند نہیں کیا تھا۔وہ اس کے
لئے دل میں بغض نہیں
رکھتی تھی کیونکہ بغض اللہ کو پسند نہیں تھا۔مگر علینہ سے ایک عجیب سے بیزاریت
تھی۔
”خدا حافظ۔۔۔آپ کا سفر اچھا رہے !“ہانیہ نے سادہ سے انداز میں کہاتھا۔وہ چاہتی وہ جلدی سے وہاں سے چلی جائے۔
”خدا حافظ نہیں۔۔۔خوش آمدید کہو۔۔کچھ دنوں میں تمہارے پاس ہی آ جاٶں گی، ہمیشہ کے لئے !“علینہ مسکرا کر کہا۔ہانیہ کا چہرہ بے تاثر تھا۔علینہ کو اپنی بات پھیکی سی لگی۔
”وہاج کی بیوی بن کر۔۔۔!“اس کی آنکھوں میں دیکھتے وہ اسے غصہ دلانا چاہتی تھی۔
”دوسری بیوی۔۔۔!“ہانیہ نے اضافہ کیا۔علینہ نے کچھ کہنے کے لئے لب واں کئے۔
”اور بیوی بننا تو آسان ہے۔۔۔محبت بننا مشکل ہے۔“ہانیہ اسے غصے میں سلگتے چھوڑ کر کمرے سے باہر نکل گئی تھی۔
***************************
”آپ کہاں جا رہے ہیں۔۔؟علینہ کو وہاں چھوڑ کر وہ ماں جی کے پاس آئی تھی جب پتہ چلا کہ وہاج علینہ کو چھوڑنے جا رہا ہے۔اسے لگا کہ وہ ڈرائیور کے ساتھ جائے گی۔لیکن بڑی ماں کے
”خدا حافظ۔۔۔آپ کا سفر اچھا رہے !“ہانیہ نے سادہ سے انداز میں کہاتھا۔وہ چاہتی وہ جلدی سے وہاں سے چلی جائے۔
”خدا حافظ نہیں۔۔۔خوش آمدید کہو۔۔کچھ دنوں میں تمہارے پاس ہی آ جاٶں گی، ہمیشہ کے لئے !“علینہ مسکرا کر کہا۔ہانیہ کا چہرہ بے تاثر تھا۔علینہ کو اپنی بات پھیکی سی لگی۔
”وہاج کی بیوی بن کر۔۔۔!“اس کی آنکھوں میں دیکھتے وہ اسے غصہ دلانا چاہتی تھی۔
”دوسری بیوی۔۔۔!“ہانیہ نے اضافہ کیا۔علینہ نے کچھ کہنے کے لئے لب واں کئے۔
”اور بیوی بننا تو آسان ہے۔۔۔محبت بننا مشکل ہے۔“ہانیہ اسے غصے میں سلگتے چھوڑ کر کمرے سے باہر نکل گئی تھی۔
***************************
”آپ کہاں جا رہے ہیں۔۔؟علینہ کو وہاں چھوڑ کر وہ ماں جی کے پاس آئی تھی جب پتہ چلا کہ وہاج علینہ کو چھوڑنے جا رہا ہے۔اسے لگا کہ وہ ڈرائیور کے ساتھ جائے گی۔لیکن بڑی ماں کے
بتانے پر وہ فوراَ ہی اس
کے پاس چلی آئی۔وہ اسے چھوڑنے کیوں جا رہا تھا؟ تو کیا اتنی جلدی کوئی اور انکے
درمیان آجائے گا؟
”علینہ کو ڈراپ کرنے۔ کیوں۔۔؟“کوٹ کے بٹن بند کرتے وہ اس کی طرف پلٹا۔سفید لباس میں گلابی چہرہ بہت کھِل رہا تھا۔مگر اداسی برقرارتھی۔
”کیوں جارہے ہیں آپ اسے چھوڑنے؟۔۔ڈرائیور بھی تو جا سکتا ہے۔“ایک دم سے وہ اپنے ازلی انداز میں لوٹی تھی۔خفا خفا لہجہ۔۔حق جتاتا انداز۔وہاج مسکراہٹ دباتے اس کی طرف بڑھا۔
”لیکن میرے جانے میں کیا برائی ہے؟وہ کزن ہے میری، مہمان آئی تھی اور اب میں اسے اس کے گھر چھوڑنے جا رہا ہوں۔سِمپل!“وہ اس کے سامنے کھڑا مزے سے بولا۔
”اِٹس ناٹ سو سِمپل۔۔!وہ صرف آپ کی کوئی کزن نہیں ہے۔اور یہ آپ بھی جانتے ہیں!“ اب ضبط کرنا بہت مہنگا پڑ سکتا تھا۔ہاں۔۔مان لی تھی اس نے ہار۔۔وہ جو دعویٰ کرتی تھی کہ اسے اس سے نفرت ہے۔۔۔اس تعلق سے نفرت ہے۔۔۔وہ سب بیکار تھا!جھوٹ تھا! وہ کبھی بھی اس سے نفرت نہیں کر سکتی تھی۔
”اچھا ۔۔۔!کزن نہیں ہے تو کیا ہے؟“ وہاج نے اب کہ مسکرا کر پوچھا۔کچھ جتاتی ہوئی
”علینہ کو ڈراپ کرنے۔ کیوں۔۔؟“کوٹ کے بٹن بند کرتے وہ اس کی طرف پلٹا۔سفید لباس میں گلابی چہرہ بہت کھِل رہا تھا۔مگر اداسی برقرارتھی۔
”کیوں جارہے ہیں آپ اسے چھوڑنے؟۔۔ڈرائیور بھی تو جا سکتا ہے۔“ایک دم سے وہ اپنے ازلی انداز میں لوٹی تھی۔خفا خفا لہجہ۔۔حق جتاتا انداز۔وہاج مسکراہٹ دباتے اس کی طرف بڑھا۔
”لیکن میرے جانے میں کیا برائی ہے؟وہ کزن ہے میری، مہمان آئی تھی اور اب میں اسے اس کے گھر چھوڑنے جا رہا ہوں۔سِمپل!“وہ اس کے سامنے کھڑا مزے سے بولا۔
”اِٹس ناٹ سو سِمپل۔۔!وہ صرف آپ کی کوئی کزن نہیں ہے۔اور یہ آپ بھی جانتے ہیں!“ اب ضبط کرنا بہت مہنگا پڑ سکتا تھا۔ہاں۔۔مان لی تھی اس نے ہار۔۔وہ جو دعویٰ کرتی تھی کہ اسے اس سے نفرت ہے۔۔۔اس تعلق سے نفرت ہے۔۔۔وہ سب بیکار تھا!جھوٹ تھا! وہ کبھی بھی اس سے نفرت نہیں کر سکتی تھی۔
”اچھا ۔۔۔!کزن نہیں ہے تو کیا ہے؟“ وہاج نے اب کہ مسکرا کر پوچھا۔کچھ جتاتی ہوئی
مسکراہٹ ! ہانیہ چند پل
کے لئے چپ رہ گئی۔مگر ابھی چپ رہنا اچھا نہیں تھا۔وہ اپنی آخری جنگ خود لڑ لینا
چاہتی تھی۔
”وہ جو بھی ہے۔۔۔۔آپ کے آس پاس نہیں دِکھنی چاہئے۔اور اگر آپ اس کے آس پاس دِکھ گئے نا تو۔۔۔“وہ بات مکمل نہیں کر پائی تھی۔وہاج اس کے قریب چلا آیا تھا۔وہ بغور اس کی آنکھوں میں دیکھ رہا تھا۔نیلی آنکھیں کچھ الجھن کا شکار ہوئیں، پھر جھک گئیں۔
”تو۔۔۔؟“سرگوشی کی گئی تھی۔ہانیہ کا سانس رک گیا۔وہ جواب کا منتظرتھا۔مگر اب بولتا تو کون!!
”تو۔۔۔؟“ہانیہ نے خود کے یہاں آنے پر خود کو کوسا۔
”تو.. یہ کہ میں تو اس کے آس پاس کیا۔۔اس کے ساتھ رہوں گا مائی ڈئیر وائف...!“ہانیہ نے جھکا سر اٹھا کر اسے دیکھا۔حیرت، صدمہ، دکھ۔۔۔۔وہاج اپنی بات کہہ کر مزے سے اسے دیکھ رہا تھا۔اس کی مسکراہٹ اسے زہر لگ رہی تھی۔
”ان چند دنوں میں میں جان گیا ہوں کہ وہ مجھ پر کس قدر فِدا ہے۔اور ایسی محبت ٹھکرانا تو۔۔۔ بہت ناشکری ہے۔“وہ مسکراتے ہوئے اسے بتا رہا تھا۔وہ خفگی سےاسے دیکھ رہی تھی۔نیلی
”وہ جو بھی ہے۔۔۔۔آپ کے آس پاس نہیں دِکھنی چاہئے۔اور اگر آپ اس کے آس پاس دِکھ گئے نا تو۔۔۔“وہ بات مکمل نہیں کر پائی تھی۔وہاج اس کے قریب چلا آیا تھا۔وہ بغور اس کی آنکھوں میں دیکھ رہا تھا۔نیلی آنکھیں کچھ الجھن کا شکار ہوئیں، پھر جھک گئیں۔
”تو۔۔۔؟“سرگوشی کی گئی تھی۔ہانیہ کا سانس رک گیا۔وہ جواب کا منتظرتھا۔مگر اب بولتا تو کون!!
”تو۔۔۔؟“ہانیہ نے خود کے یہاں آنے پر خود کو کوسا۔
”تو.. یہ کہ میں تو اس کے آس پاس کیا۔۔اس کے ساتھ رہوں گا مائی ڈئیر وائف...!“ہانیہ نے جھکا سر اٹھا کر اسے دیکھا۔حیرت، صدمہ، دکھ۔۔۔۔وہاج اپنی بات کہہ کر مزے سے اسے دیکھ رہا تھا۔اس کی مسکراہٹ اسے زہر لگ رہی تھی۔
”ان چند دنوں میں میں جان گیا ہوں کہ وہ مجھ پر کس قدر فِدا ہے۔اور ایسی محبت ٹھکرانا تو۔۔۔ بہت ناشکری ہے۔“وہ مسکراتے ہوئے اسے بتا رہا تھا۔وہ خفگی سےاسے دیکھ رہی تھی۔نیلی
آنکھیں نمی سے چمکنے لگی
تھیں۔وہاج مسکرا دیا۔
”اچھا میں نکلتا ہوں۔۔۔ہمیں دیر ہو رہی ہے۔“ہانیہ وہیں کی وہیں کھڑی رہ گئی تھی۔وہ اتنی آسانی سے اسے چھوڑ کے جا رہا تھا۔اب کے جائے گا تو کسی اور کا ہو کر لوٹے گا۔دل کے رشتے جتنے اہم ہوتے ہیں ان سے امیدیں بھی اتنی ہی زیادہ ہوتیں ہیں۔اور امیدیں ٹوٹنے پر جو دکھ ہوتا ہے وہ دل ہی نہیں روح بھی چھلنی کر دیتی ہیں۔اس کی امید بھی ٹوٹ گئی تھی۔وہ جو سمجھتی تھی کہ وہاج کبھی بھی اس خاندان کی روایات کے آگے ہتھیار ڈال کر کسی کے ساتھ زیادتی نہیں کرے گا۔۔۔تو وہ غلط تھی۔وہ اسے چھوڑ تو نہیں رہا تھا مگر اب ساتھ بھی نہیں رہنے والا تھا۔
***************************
وہاج چلا گیاتھا اور وہ تنہا رہ گئی تھی۔
قسمت نے اسکےساتھ کیا کیاتھا۔اسے سمجھ آرہاتھا کہ اس نے کیا کیا ، کہاں کہاں غلط کیاتھا۔اسے شروع دن سےعقل سےکام لینا چاہئے تھا اور جذبات سے سب کچھ بگاڑتی چلی گئی۔وہاج کی شادی میں کوئی خواہش نہیں تھی۔۔اسے لگا اس نے خود اس کا انتخاب کیا ہے۔وہ اسے شہر صرف اس کا خواب پورا کرنے کے لئے لایا۔۔۔اسے لگا وہ شہر کا عادی اپنی بیوی کو شہر میں رکھنا چاہتا ہے۔
”اچھا میں نکلتا ہوں۔۔۔ہمیں دیر ہو رہی ہے۔“ہانیہ وہیں کی وہیں کھڑی رہ گئی تھی۔وہ اتنی آسانی سے اسے چھوڑ کے جا رہا تھا۔اب کے جائے گا تو کسی اور کا ہو کر لوٹے گا۔دل کے رشتے جتنے اہم ہوتے ہیں ان سے امیدیں بھی اتنی ہی زیادہ ہوتیں ہیں۔اور امیدیں ٹوٹنے پر جو دکھ ہوتا ہے وہ دل ہی نہیں روح بھی چھلنی کر دیتی ہیں۔اس کی امید بھی ٹوٹ گئی تھی۔وہ جو سمجھتی تھی کہ وہاج کبھی بھی اس خاندان کی روایات کے آگے ہتھیار ڈال کر کسی کے ساتھ زیادتی نہیں کرے گا۔۔۔تو وہ غلط تھی۔وہ اسے چھوڑ تو نہیں رہا تھا مگر اب ساتھ بھی نہیں رہنے والا تھا۔
***************************
وہاج چلا گیاتھا اور وہ تنہا رہ گئی تھی۔
قسمت نے اسکےساتھ کیا کیاتھا۔اسے سمجھ آرہاتھا کہ اس نے کیا کیا ، کہاں کہاں غلط کیاتھا۔اسے شروع دن سےعقل سےکام لینا چاہئے تھا اور جذبات سے سب کچھ بگاڑتی چلی گئی۔وہاج کی شادی میں کوئی خواہش نہیں تھی۔۔اسے لگا اس نے خود اس کا انتخاب کیا ہے۔وہ اسے شہر صرف اس کا خواب پورا کرنے کے لئے لایا۔۔۔اسے لگا وہ شہر کا عادی اپنی بیوی کو شہر میں رکھنا چاہتا ہے۔
وہ اس کی زندگی کے ہر موڑ پر اس کے ساتھ کھڑا تھا۔ہانیہ صحیح ہے تب بھی۔۔ہانیہ غلط ہےتب بھی۔۔۔وہاج حیدر ہمیشہ سے اس کے ساتھ رہاتھا۔۔پھر اس نے کیسے سوچ لیا کہ اب وہ اسے کوئی تکلیف دے سکتا ہے۔وہ کیوں نہیں سمجھ پائی کہ اس کا سب سے اچھا دوست، اس کے حق میں کبھی بھی کچھ بھی غلط نہیں کر سکتا۔
اور کیا ہوا جو وہ اس کے ایک کزن سے، ایک دوست سے اس کا جیون ساتھی بن گیاتو۔۔۔مانا کہ یہ سب اس کے لئے بہت عجیب اور ناقابلِ قبول تھا مگر جو اللہ نےلکھ دیاتھا اسے قبول کرنے میں کیا مضائقہ۔۔! کیوں ہم اپنی ہی تقدیر پہ اپنے اس رب سے لڑنے لگتے ہیں جو ہمارےلئے ہم سے بہتر فیصلے کرتا ہے! قسمت کا ایک کھیل ہم پر ہماری اصلیت واضع کر دیتا ہے۔اور ہم اللہ کو خدا بنا دیتے ہیں۔اس سے اس چیز پر شکوے کرنے لگتے ہیں جو ہماری اوقات سے بڑھ کر وہ ہمیں عطا کر دیتا ہے۔۔۔آخر انسان اتنا ناشکرا کیوں ہے! وہ رب کی حکمت نہیں سمجھ پائی تھی۔کتنا بےعزت کیا تھا اس نے وہاج کو۔۔۔اور وہاج ۔۔اس نے اسے برداشت کیا۔اس کے کہنے پر اس سے خود کو الگ کر لیا۔اور اب جب وہ۔۔۔۔وہ سچ میں اس سے الگ ہو رہا تھا تو تکلیف کم ہونے میں نہیں آرہی تھی۔وہ اسے کسی اور کے ساتھ نہیں دیکھ سکتی۔۔۔اس پر کسی اور کا حق دیکھنا جان
نکلنےجیساتھا۔دنیا میں سب
سے اچھا کام ”محبت “ بانٹنا ہے۔۔اور دنیا کا سب سے تکلیف دِہ کام ”اپنی“ ”محبت“
بانٹنا ہے۔یہ تکلیف دہ کام اس کی قسمت میں تھا۔اسے بھی اپنی محبت کو کسی اور کی
جھولی میں ڈالنا تھا۔
***************************
”معاف کیجیے گا آغا جان۔۔۔!مگر یہ بات ماننا میرے لئے ناممکن ہے۔۔!“آغا امان حیدر خان کے سامنے بیٹھے وہاج حیدر نے صاف الفاظ میں اپنا فیصلہ سنایا تھا۔
”اور ناممکن ناممکن ہی رہے گا۔“ اس کا مطلب وہ سمجھ گئے تھے۔مگر یہاں بھی آغا خان تھے۔ وہ اپنے معاملات اپنے طریقے سے سنبھالتے تھے۔وہ پہلے بھی اپنے اس پوتے سے جیت چکے تھے اب پھر جیتنے کے لئے تیار تھے۔
”علینہ ہمارے ہی گھر کی بچی ہے۔ہمارا دین مرد کو چار شادیوں کی اجازت دیتا ہے۔اگر تم اسے نکاح میں نہیں لو گے تو ۔۔“
”اسے کوئی بھی نکاح میں لے سکتا ہے آغا جان۔۔۔!“وہاج نے ان کی بات کاٹی تھی۔لہجہ نرم اور مضبوط تھا۔
***************************
”معاف کیجیے گا آغا جان۔۔۔!مگر یہ بات ماننا میرے لئے ناممکن ہے۔۔!“آغا امان حیدر خان کے سامنے بیٹھے وہاج حیدر نے صاف الفاظ میں اپنا فیصلہ سنایا تھا۔
”اور ناممکن ناممکن ہی رہے گا۔“ اس کا مطلب وہ سمجھ گئے تھے۔مگر یہاں بھی آغا خان تھے۔ وہ اپنے معاملات اپنے طریقے سے سنبھالتے تھے۔وہ پہلے بھی اپنے اس پوتے سے جیت چکے تھے اب پھر جیتنے کے لئے تیار تھے۔
”علینہ ہمارے ہی گھر کی بچی ہے۔ہمارا دین مرد کو چار شادیوں کی اجازت دیتا ہے۔اگر تم اسے نکاح میں نہیں لو گے تو ۔۔“
”اسے کوئی بھی نکاح میں لے سکتا ہے آغا جان۔۔۔!“وہاج نے ان کی بات کاٹی تھی۔لہجہ نرم اور مضبوط تھا۔
”وہ ایک اچھی لڑکی ہے اور اس کے لئے کوئی بھی اچھا لڑکا مل سکتا ہے۔“آغا خان نے ایک گہرا سانس لیا۔نا جانے انہیں اپنے اس پوتے سے اتنی محبت کیوں تھی!
”خاندان کے لڑکوں میں تم ہی سب سے بڑے ہو وہاج خان۔۔۔اور تم اچھے سے جانتے ہو کہ جب تک تمہاری عمر کی لڑکیاں ایک طرف نہیں ہو جاتیں۔۔تمہیں ان سے نکاح کرنا ہی پڑے گا۔“ہمیشہ جیسا دوٹوک لہجہ۔۔وہاج نے کچھ پل ان کی آنکھوں میں دیکھا۔
”زندگی میں جائیداد اور شادی سے زیادہ ضروری خوشیاں ہوا کرتی ہیں آغا جان۔۔۔اور آپ کے طرز عمل سے کوئی بھی خوش نہیں رہ سکتا۔“
”جب پیسہ نہ رہے تو خوشیاں بھی نہیں رہتیں برخوردار۔۔!“
”ہوس پیسے کی نہیں ہے آغا جان۔۔ہوس تو اس بادشاہت کی ہے۔۔۔جو اصولوں کے ٹوٹنے سے بکھر جائے گی۔“
”وہاج خان۔۔تم اپنی حد سے بڑھ رہے ہو۔۔!“
”آپ کا یہ انوکھا قانون اب میں برداشت نہیں کرونگا آغا خان۔۔ہمارا مذہب محبت کا مذہب ہے۔تکلیف، اذیت سے دور دور تک واسطہ نہیں۔پھر ایک ساتھ تین انسانوں کی زندگی جہنم
کیسے بنا سکتے ہیں
ہم۔۔۔“وہ ایک پل سانس لینے کو رکا۔
”آپ خدا نہیں ہیں آغا جان۔۔مگر پھر بھی میں آپ سے ڈرتا ہوں۔۔مجھے ڈر لگتا ہے کہ میں آپ کی عزت میں کوئی گستاخی نہ کر دوں، آپ کو تکلیف نہ دے دوں، آپ کا دل نہ دکھا دوں۔ کیونکہ آپ میرے بڑے ہیں اور مجھے آپ سے بہت محبت ہے۔“آغا خان سرخ چہرے کے ساتھ اسے سن رہے تھے۔
”مگر جس خدا نے ہمیں پیدا کیا ہے مجھے اس سے بھی ڈر لگتا ہے۔ڈر لگتا ہے کہ وہ مجھ سے ناراض نہ ہو جائے۔کیونکہ وہ میرا مالک ہے۔میں اس کے بندوں کو تکلیف پہنچا کر اسے کیسے راضی رکھ سکتا ہوں! اگر دین ہمیں چار شادیوں کی اجازت دیتا ہے تو ان چار بیویوں میں انصاف کرنے کا حکم بھی دیتا ہے۔۔۔اور میں خود کو اتنا منصف نہیں پاتا۔“وہ اب خاموش تھا۔آغا خان نے بہت تحمل سے سنا تھا۔
”تم اپنی بات کہہ چکے تو سن لو ۔۔۔تم نے ہانیہ سے شادی کرتے ہوئے بھی بہت تنگ کیا تھا۔تم اسے شہر لے گئے۔۔ہم نے کچھ نہیں کہا۔۔تم نے اسے ڈاکٹر بنانے کے لئے بھیجا، ہم نے کچھ نہیں کہا۔۔مگر اب۔۔۔یہاں تمہاری من مانی نہیں چلے گی۔یہاں رہنے کے لئے تمہیں اس
”آپ خدا نہیں ہیں آغا جان۔۔مگر پھر بھی میں آپ سے ڈرتا ہوں۔۔مجھے ڈر لگتا ہے کہ میں آپ کی عزت میں کوئی گستاخی نہ کر دوں، آپ کو تکلیف نہ دے دوں، آپ کا دل نہ دکھا دوں۔ کیونکہ آپ میرے بڑے ہیں اور مجھے آپ سے بہت محبت ہے۔“آغا خان سرخ چہرے کے ساتھ اسے سن رہے تھے۔
”مگر جس خدا نے ہمیں پیدا کیا ہے مجھے اس سے بھی ڈر لگتا ہے۔ڈر لگتا ہے کہ وہ مجھ سے ناراض نہ ہو جائے۔کیونکہ وہ میرا مالک ہے۔میں اس کے بندوں کو تکلیف پہنچا کر اسے کیسے راضی رکھ سکتا ہوں! اگر دین ہمیں چار شادیوں کی اجازت دیتا ہے تو ان چار بیویوں میں انصاف کرنے کا حکم بھی دیتا ہے۔۔۔اور میں خود کو اتنا منصف نہیں پاتا۔“وہ اب خاموش تھا۔آغا خان نے بہت تحمل سے سنا تھا۔
”تم اپنی بات کہہ چکے تو سن لو ۔۔۔تم نے ہانیہ سے شادی کرتے ہوئے بھی بہت تنگ کیا تھا۔تم اسے شہر لے گئے۔۔ہم نے کچھ نہیں کہا۔۔تم نے اسے ڈاکٹر بنانے کے لئے بھیجا، ہم نے کچھ نہیں کہا۔۔مگر اب۔۔۔یہاں تمہاری من مانی نہیں چلے گی۔یہاں رہنے کے لئے تمہیں اس
حویلی کے اصول ماننے پڑیں
گے۔“آغا خان نے سخت لہجے میں تنبہہ کی۔وہ ان کی اتنے برسوں پرانی ساکھ ، ان کے
خاندان کی عزت پر سوال اٹھا رہا تھا۔
”یہ گھر میرا بھی ہے آغا جان۔۔اور مجھے اس گھر کی خوشیاں بہت عزیز ہیں۔اس گھر کے اصول قابلِ احترام ہیں مگر جن اصولوں سے انسانی دل خون کے آنسو روئیں ان کا ختم ہو جانا ہی بہتر ہوتا ہے۔علینہ کی شادی ہوگی۔۔اور اچھے شریف لڑکے سے ہوگی۔۔جو اس کے قابل ہو۔جس کے ساتھ اس گھر کی لڑکی خوش رہ سکے۔“وہ آغا خان کے قدموں میں بیٹھا کہہ رہا تھا۔دل جیتنا تو کوئی وہاج حیدر سے سیکھتا۔وہ دلوں کو قید کرنا جانتا تھا۔
*******************************
گاڑی تیز رفتاری سے اپنی منزل کی جانب گامزن تھی۔سوچوں کا سلسلہ بھی رواں دواں تھا۔آغا خان سے بات کر کے اس نے اپنا فیصلہ سنا دیا تھا۔وہ اسے اسی کنویں مین دھکیلنا چاہتے تھے جس میں وہ برسوں سے اپنے ہی لوگوں کو ڈوبتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔ایسا نہیں تھا کہ اس نے پہلے کبھی اس قانون کو بدلنا نہیں چاہا تھا۔لڑائی جھگڑا ہر بار ایک طوفان مچاتا مگر کوئی اچھا نتیجہ نہ نکلتا تھا۔ہر بار اس نے اچھائی کو ہارتے دیکھا تھا مگر کھیل مختلف انداز میں کھیلنا تھا۔اگر وہ آغا خان تھے تو وہ
”یہ گھر میرا بھی ہے آغا جان۔۔اور مجھے اس گھر کی خوشیاں بہت عزیز ہیں۔اس گھر کے اصول قابلِ احترام ہیں مگر جن اصولوں سے انسانی دل خون کے آنسو روئیں ان کا ختم ہو جانا ہی بہتر ہوتا ہے۔علینہ کی شادی ہوگی۔۔اور اچھے شریف لڑکے سے ہوگی۔۔جو اس کے قابل ہو۔جس کے ساتھ اس گھر کی لڑکی خوش رہ سکے۔“وہ آغا خان کے قدموں میں بیٹھا کہہ رہا تھا۔دل جیتنا تو کوئی وہاج حیدر سے سیکھتا۔وہ دلوں کو قید کرنا جانتا تھا۔
*******************************
گاڑی تیز رفتاری سے اپنی منزل کی جانب گامزن تھی۔سوچوں کا سلسلہ بھی رواں دواں تھا۔آغا خان سے بات کر کے اس نے اپنا فیصلہ سنا دیا تھا۔وہ اسے اسی کنویں مین دھکیلنا چاہتے تھے جس میں وہ برسوں سے اپنے ہی لوگوں کو ڈوبتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔ایسا نہیں تھا کہ اس نے پہلے کبھی اس قانون کو بدلنا نہیں چاہا تھا۔لڑائی جھگڑا ہر بار ایک طوفان مچاتا مگر کوئی اچھا نتیجہ نہ نکلتا تھا۔ہر بار اس نے اچھائی کو ہارتے دیکھا تھا مگر کھیل مختلف انداز میں کھیلنا تھا۔اگر وہ آغا خان تھے تو وہ
بھی وہاج حیدر خان تھا۔وہ انہیں اپنا فیصلہ بتا
آیا تھا۔
”اب اور نہیں آغا جان۔۔۔کیا آپ نے کبھی نہیں سوچا کہ آخر کیا بات ہے جو اس حویلی میں ہزاروں منتوں مرادوں سے کسی کی جھولی بھرتی ہے۔۔۔آخر اللہ ہم سے کیوں ناراض ہے جو لاکھ التجاٶں سے بیٹا جنم لیتا ہے۔۔۔آخر وہ ہمیں کس بات کی تنبیہہ کر رہا ہے جو بیٹے عطا کر کے واپس لے لیتا ہے۔“ آغا خان آنکھیں پھیلائے اسے دیکھ رہے تھے۔وہ انہیں کون سی حقیقت بتا رہا تھا؟کن حقائق سے پردہ اٹھا رہا تھا؟
”صدیوں سے چلے آرہے اس اندھے اصول کی بھینٹ کتنی زندگیاں چڑھیں گے۔۔۔کوئی شمار ہے آپ کے پاس کہ چھوٹی پھپھو جیسی کتنی معصوم چار پانچ سال کے شوہر کھو کر خود کو اندھیروں کے سپرد کر چکی ہیں۔۔۔۔اللہ کسی طرح تو اپنے بندوں کو صحیح راستے پر لائےگا ہی۔۔۔کیوں سب جانتے ہوئے بھی آپ انجان بن رہے ہیں۔۔۔؟“آغا خان مجسمِ آگاہی بنے اسے سن رہےتھے۔وہ ٹھیک ہی تو کہتا تھا۔۔وہ سب کہہ رہا تھا۔اس خاندانی عزت و روایت نے کتنی ہی معصوم زندگیاں تباہ کیں تھیں۔اوپر موجود خالق کسی طرح تواپنے بندوں کی پکڑ کرتا ہی ہے کہ شاید وہ پلٹ آئیں۔۔پھر وہ کیوں نہیں سمجھ پائے۔۔!
”اب اور نہیں آغا جان۔۔۔کیا آپ نے کبھی نہیں سوچا کہ آخر کیا بات ہے جو اس حویلی میں ہزاروں منتوں مرادوں سے کسی کی جھولی بھرتی ہے۔۔۔آخر اللہ ہم سے کیوں ناراض ہے جو لاکھ التجاٶں سے بیٹا جنم لیتا ہے۔۔۔آخر وہ ہمیں کس بات کی تنبیہہ کر رہا ہے جو بیٹے عطا کر کے واپس لے لیتا ہے۔“ آغا خان آنکھیں پھیلائے اسے دیکھ رہے تھے۔وہ انہیں کون سی حقیقت بتا رہا تھا؟کن حقائق سے پردہ اٹھا رہا تھا؟
”صدیوں سے چلے آرہے اس اندھے اصول کی بھینٹ کتنی زندگیاں چڑھیں گے۔۔۔کوئی شمار ہے آپ کے پاس کہ چھوٹی پھپھو جیسی کتنی معصوم چار پانچ سال کے شوہر کھو کر خود کو اندھیروں کے سپرد کر چکی ہیں۔۔۔۔اللہ کسی طرح تو اپنے بندوں کو صحیح راستے پر لائےگا ہی۔۔۔کیوں سب جانتے ہوئے بھی آپ انجان بن رہے ہیں۔۔۔؟“آغا خان مجسمِ آگاہی بنے اسے سن رہےتھے۔وہ ٹھیک ہی تو کہتا تھا۔۔وہ سب کہہ رہا تھا۔اس خاندانی عزت و روایت نے کتنی ہی معصوم زندگیاں تباہ کیں تھیں۔اوپر موجود خالق کسی طرح تواپنے بندوں کی پکڑ کرتا ہی ہے کہ شاید وہ پلٹ آئیں۔۔پھر وہ کیوں نہیں سمجھ پائے۔۔!
”جب اللہ مہلت دے رہا ہے تو دیر نہیں کرنی چاہئے آغا جان۔اور کتنے آنسو بہیں گے!ایسے اصول اب نہیں۔۔۔علینہ کی شادی میری ذمہ داری ہے۔آپ اس کے لئے پریشان مت ہوں۔میں جلد ہی اچھی خبر لاٶں گا۔“ آغا خان مانے تھے یا نہیں البتہ وہ خاموش رہے تھے۔ان کی آنکھوں کے سامنے اس خاندان کے سپوتوں نے دم توڑا تھا۔انہوں نے راتوں کو اٹھ اٹھ کر اس خاندان کے وارثوں کی سلامتی کے لئے دعائیں مانگیں تھیں۔اور انکی دعائیں پلٹ آئیں تھیں۔ایک دنیا دیکھ کر بھی وہ یہ سب سمجھ نہیں پائے تھے ! اور اب۔۔ ان سے عمر میں کہیں سال چھوٹا ان کا پوتا انہیں وہ بات سمجھا گیا تھا۔وہ چپ رہے تھے یا اپنے دل کو آنسو آنسو ہونے سے روک رہے تھے البتہ اگر ”ہاں“ نہیں کہا تھا تو ”نہ“ بھی نہیں کہا تھا۔
مگر وہاج کو پورا یقین تھا کہ وہ اس کی بات سمجھنے کے ساتھ ساتھ جلد ہی اس پر عمل بھی کریں گے۔اب تک وقت ان پر بہت کچھ واضع کر چکا تھا۔وہ نرم دل انسان تھے اور اب تو پریشان بھی تھے۔سب ٹھیک ہو جانا تھا۔تھوڑا وقت لگے گا مگر سب ٹھیک ہو جائے گا۔۔۔ٹھیک۔۔۔!ہاں ٹھیک! جیسے وہ پاگل لڑکی ٹھیک ہو گٰئی تھی۔اس کا خیال آتے ہی ایک مسکراہٹ اس کے چہرے پر چھا گئی۔
شادی کے وقت بھی اس نے اس کے بارے میں ہی سوچا تھا۔اس کا ارادہ اس کے خواب پورے کرنے کاتھا۔شادی کے بعد وہ اسے شہر لے آیا کہ وہ اپنی تعلیم جاری رکھ سکے۔مگر ایڈمیشنز سے پہلے ہی اس نے اس پر سب واضح کر دیا۔وہ چھوٹی لڑکی اس سے بری طرح بدگمان تھی۔اس نے اسے سمجھانے کی بہت کوشش تھی پھر وہ خاموش ہوگیا۔وہ اس پر کچھ بھی تھوپنے سے قاصر تھا۔وہ اسے پرسکون اور خوش دیکھنا چاہتا تھا۔اس لئے اس نے وہی کیا جو وہ چاہتی تھی۔اس نے خود کو اس سے الگ کر لیا۔کیوں کہ وہ ایسے ہی خوش تھی۔
وہ جانتا تھا کہ اس کے لئے یہ سب بہت مشکل ہے۔مشکل تو اس کے لئے بھی تھا۔اس نے کبھی بھی اس کے بارے میں ایسا نہیں سوچا تھا۔وہ اس سے چھوٹی تھی اور وہ ایک میچیور مرد تھا۔اپنی بیوی کو لے کر اس نے بھی کچھ سوچ رکھا تھا۔اس کی ہم خیال، ایک سمجھدار، میچیور لڑکی۔۔ جو اس کی طبیعت سے میل کھائے۔اس کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چل سکے۔مگر قسمت نے اس کے لئے کچھ اور ہی سوچ رکھا تھا۔ہانیہ سے شادی کے بعد بھی وہ اپنی ایک اچھی زندگی جی سکتا تھا۔مگر بات ہانیہ کی تھی۔۔۔وہ اچھی زندگی کیسے جیئے گی؟اور وہاج حیدر کے لئے اس کی اچھی زندگی سے اہم کچھ بھی نہیں تھا۔اور اس کی اچھی زندگی اب وہاج کے ساتھ ہی جڑی تھی۔بات
صرف اس کےسجھنے کی
تھی۔اور پھر آخر وہ سمجھ ہی گئی۔لاکھ ناراضی اور خفگی کے بعد بھی آخر وہ سمجھ گئی۔
پہلے اس نے اس کی آنکھوں میں الجھن دیکھی۔۔پھر اداسی۔۔۔اور پھر محبت ! محبت تھی یا کچھ اور۔۔۔ عجیب سا احساس تھا۔جس میں صرف ایک دوسرے کا خوش رہنا ہی کافی تھا۔اور اب تو وہ خوش تھے۔۔۔اہہمم وہ خوش تھا۔دکھی سی۔۔۔بیچاری سی ہانیہ کو خوش کرنا باقی تھا جو کہ اس کی دوسری شادی کے غم میں مرجھا رہی تھی۔وہاج نے مسکراتے ہوئے سر جھٹکا۔
****************************
وہ ٹیرس پہ بیٹھی تھی جب وہاج کی گاڑی کا ہارن سنائی دیا۔اس کا دل تھم گیا۔وہ آج تین دن بعد واپس آیا تھا۔شاید کسی کو اپنے تمام تر حقوق و فرائض دے کرساتھ بھی لایا تھا۔ہانیہ نے آنسو پونچھے اور خود کو اس کا سامنا کرنے کے لئے تیار کرنے لگی۔پچھلے تین دن سے وہ وہی تو کر رہی تھی۔
”اسلام علیکم ڈئیر وائف۔۔!“کچھ دیر بعد اس نے وہاج کی آواز سنی۔خود پر قابو پاتے وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔وہاج اس کے سامنے کھڑا تھا۔
پہلے اس نے اس کی آنکھوں میں الجھن دیکھی۔۔پھر اداسی۔۔۔اور پھر محبت ! محبت تھی یا کچھ اور۔۔۔ عجیب سا احساس تھا۔جس میں صرف ایک دوسرے کا خوش رہنا ہی کافی تھا۔اور اب تو وہ خوش تھے۔۔۔اہہمم وہ خوش تھا۔دکھی سی۔۔۔بیچاری سی ہانیہ کو خوش کرنا باقی تھا جو کہ اس کی دوسری شادی کے غم میں مرجھا رہی تھی۔وہاج نے مسکراتے ہوئے سر جھٹکا۔
****************************
وہ ٹیرس پہ بیٹھی تھی جب وہاج کی گاڑی کا ہارن سنائی دیا۔اس کا دل تھم گیا۔وہ آج تین دن بعد واپس آیا تھا۔شاید کسی کو اپنے تمام تر حقوق و فرائض دے کرساتھ بھی لایا تھا۔ہانیہ نے آنسو پونچھے اور خود کو اس کا سامنا کرنے کے لئے تیار کرنے لگی۔پچھلے تین دن سے وہ وہی تو کر رہی تھی۔
”اسلام علیکم ڈئیر وائف۔۔!“کچھ دیر بعد اس نے وہاج کی آواز سنی۔خود پر قابو پاتے وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔وہاج اس کے سامنے کھڑا تھا۔
”وعلیکم اسلام !“ہانیہ نے مدھم آواز میں کہا۔کالے تھری پیس میں وہ بہت اچھا لگ رہا تھا۔وہ اس کے چہرے پر نظریں جمائے اسے دیکھ رہا تھا۔
”تو یہ دن کیسے رہے؟“سادہ سا انداز تھا۔نگاہیں اسی پر تھی۔وہ گلابی چہرہ اداس دکھتا تھا۔وہاج کے لئے مسکراہٹ روکنا محال تھا۔
”ٹھیک رہے۔۔!“مختصر جواب۔چند پل خاموشی چھائی تھی۔ہانیہ کے پاس تو بولنے کو کچھ نہیں تھا سو وہاج ہی بول پڑا۔
”میرے ساتھ کوئی بہت خاص بھی آیا ہے۔۔۔جاٶ مل لو ان سے۔“ تو اب وہ اسے اس طرح بھی تعارف کروائے گا اس سے! کیا اس دوسری عورت کا سامنا کرنا اتنا ہی آسان تھا ! نہیں ۔۔وہ کبھی بھی اس کاسامنا نہیں کرے گی۔زیادہ اذیت سے کم اذیت بہتر ہوتی ہے۔
”میں نہیں جا رہی۔۔۔آپ کے مہمان ہیں۔آپ ہی ملئیے۔“اس نے صاف الفاظ میں اپنی بات پہنچائی۔آخر اتنا تو وہ کر ہی سکتی تھی!وہ اس کی جانب نہیں دیکھ رہی تھی۔
”وہ میری مہمان نہیں ہیں۔۔بلکہ وہ مہمان ہے ہی نہیں ہیں۔ان کا اپنا گھر ہے یہ۔“وہاج نے
مسکراتے ہوئے اسے
بتایا۔اس کی بات پر ہانی نے گھور کر اسے دیکھا۔نیلی آنکھوں میں پانی بھرا تھا۔وہاج
نے دیکھ کر بھی انجان بننا چاہا۔
”میں نہیں مل رہی کسی سے۔۔وہ جہاں سے آئی ہے آپ اسے ابھی واپس بھیج کر آئیں۔“اب وہ مزید ضبط نہیں کر سکتی تھی۔بہتے آنسوٶ ں کے ساتھ اس نے چلا کر کہا تھا۔وہاج اب بھی پُرسکون تھا۔
”وہ مجھے بہت عزیز ہیں ہانی۔۔تم ان کے بارے میں اس طرح بات نہیں کر سکتی۔“وہ بھی اس کی ہٹ دھرمی برداشت کرنے کے موڈ میں نہیں تھا۔ہانیہ نے آنسو پونچھے۔
”عزیز ہے تو پہلے سوچتے نا۔۔۔اب کیوں اسے یہاں لے کر آئے ہیں آپ۔ابھی واپس چھوڑ کر آئیں اس چڑیل کو۔۔!“وہ غصے میں تھی اور جو من میں آرہا تھا بول رہی تھی۔بہتے آنسوٶں کے ساتھ وہ اپنے لئے لڑ رہی تھی۔
”ہانیہ۔۔۔۔!“وہاج نے اسے چپ کرانا چاہا۔اس نے اس کا ہاتھ جھٹک دیا۔
”اس آفت کو ابھی کے ابھی اس کی جگہ واپس بھجیں۔مجھے وہ یہاں نہیں چاہئے۔آپ کے ساتھ وہ چڑیل رہے گی یا میں۔۔!“اس نے اسے چھوڑنے کی دھمکی دی۔وہ اس کے ساتھ ایسا نہیں کر
”میں نہیں مل رہی کسی سے۔۔وہ جہاں سے آئی ہے آپ اسے ابھی واپس بھیج کر آئیں۔“اب وہ مزید ضبط نہیں کر سکتی تھی۔بہتے آنسوٶ ں کے ساتھ اس نے چلا کر کہا تھا۔وہاج اب بھی پُرسکون تھا۔
”وہ مجھے بہت عزیز ہیں ہانی۔۔تم ان کے بارے میں اس طرح بات نہیں کر سکتی۔“وہ بھی اس کی ہٹ دھرمی برداشت کرنے کے موڈ میں نہیں تھا۔ہانیہ نے آنسو پونچھے۔
”عزیز ہے تو پہلے سوچتے نا۔۔۔اب کیوں اسے یہاں لے کر آئے ہیں آپ۔ابھی واپس چھوڑ کر آئیں اس چڑیل کو۔۔!“وہ غصے میں تھی اور جو من میں آرہا تھا بول رہی تھی۔بہتے آنسوٶں کے ساتھ وہ اپنے لئے لڑ رہی تھی۔
”ہانیہ۔۔۔۔!“وہاج نے اسے چپ کرانا چاہا۔اس نے اس کا ہاتھ جھٹک دیا۔
”اس آفت کو ابھی کے ابھی اس کی جگہ واپس بھجیں۔مجھے وہ یہاں نہیں چاہئے۔آپ کے ساتھ وہ چڑیل رہے گی یا میں۔۔!“اس نے اسے چھوڑنے کی دھمکی دی۔وہ اس کے ساتھ ایسا نہیں کر
سکتا تھا۔کسی بھی عورت کو
اس کے سر پر کیسے بٹھا سکتا تھا وہ !
”ہانیہ ۔۔پلیز یار۔۔۔۔تم اپنی ہی ماں کو چڑیل کیسے کہہ سکتی ہو !“وہاج نے بلند آواز میں کہاتھا۔ایک پل کو وہ ساکت رہ گئی تھی۔شاید اس نے غلط سنا تھا۔
”تم اپنی ہی ماں کو ایسا کیسے کہہ سکتی ہو ہانی یارا ۔۔تھوڑی سی شرم کر لو !“وہاج نے مسکراہٹ دباتے ہوئے کہا۔ہانیہ ابھی تک ہونق بنی اسے دیکھ رہی تھی۔اسے سمجھ نہیں آیا تھا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے۔
”مطلب کیا ہے آپ کا؟“ وہاج نے اس کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر اسے اپنے مقابل کیا۔وہ ساکت نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی۔
”پُرسکون رہو۔۔۔میرے ساتھ تمہاری ماں جی آئیں ہیں۔۔۔۔اب اگر تم انہیں چڑیل سمجھتی ہو تو۔۔۔“اسے یقین دلاتے اپنی بات کے آخر میں وہ مسکرا کر بات ادھوری چھوڑ گیا۔ہانیہ نے بے یقینی سے اسے دیکھا۔وہ علینہ کو نہیں بلکہ۔۔۔ماں جی کو اپنے ساتھ لایا تھا۔
”تو آپ ماں جی کو لے کر آئےہیں؟“ اس نے حیرانی سے پوچھا۔
”جی مس سٹوپڈ۔۔۔آپ کی والدہ محترمہ کو لے کر آیا ہوں۔۔تمہیں تو ان کا خیال آیا نہیں سو
”ہانیہ ۔۔پلیز یار۔۔۔۔تم اپنی ہی ماں کو چڑیل کیسے کہہ سکتی ہو !“وہاج نے بلند آواز میں کہاتھا۔ایک پل کو وہ ساکت رہ گئی تھی۔شاید اس نے غلط سنا تھا۔
”تم اپنی ہی ماں کو ایسا کیسے کہہ سکتی ہو ہانی یارا ۔۔تھوڑی سی شرم کر لو !“وہاج نے مسکراہٹ دباتے ہوئے کہا۔ہانیہ ابھی تک ہونق بنی اسے دیکھ رہی تھی۔اسے سمجھ نہیں آیا تھا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے۔
”مطلب کیا ہے آپ کا؟“ وہاج نے اس کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر اسے اپنے مقابل کیا۔وہ ساکت نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی۔
”پُرسکون رہو۔۔۔میرے ساتھ تمہاری ماں جی آئیں ہیں۔۔۔۔اب اگر تم انہیں چڑیل سمجھتی ہو تو۔۔۔“اسے یقین دلاتے اپنی بات کے آخر میں وہ مسکرا کر بات ادھوری چھوڑ گیا۔ہانیہ نے بے یقینی سے اسے دیکھا۔وہ علینہ کو نہیں بلکہ۔۔۔ماں جی کو اپنے ساتھ لایا تھا۔
”تو آپ ماں جی کو لے کر آئےہیں؟“ اس نے حیرانی سے پوچھا۔
”جی مس سٹوپڈ۔۔۔آپ کی والدہ محترمہ کو لے کر آیا ہوں۔۔تمہیں تو ان کا خیال آیا نہیں سو
میں انہیں یہاں لے
آیا۔“وہاج مزے سے اسے بتا رہا تھا۔تو اس نے علینہ سے شادی نہیں کی تھی۔
”تو آپ۔۔۔آپ نے علینہ سے شادی نہیں کی؟“وہ بے ساختہ من کی بات زبان پر لے آئی۔
”ارادہ تو تھا لیکن۔۔۔۔“اس نے مصنوعی انداز میں بات ادھوری چھوڑدی۔ہانیہ نے سوالیہ نے نظروں سے اسے گھورا۔
”لیکن۔۔۔“وہ پوری بات جاننا چاہتی تھی۔
”لیکن پھر میں نے سوچا کہ تم جیسی فضول لڑکی جب مل ہی گئی ہے تو مجھے بس گزارا کر لینا چاہئے۔ ایسا نہ ہو کہ تمہارے آنسوٶں کے دریا میں رہی سہی خوشیاں بھی چل بسیں۔“وہاج نے سر کجھاتے ہوئے کہا۔وہی ازلی انداز۔۔۔اسے چڑانے کے ہربے۔۔تنگ کرنے کی کوشش۔۔ لیکن ابھی ہانیہ نے اس کی بات پر غور ہی کب کیا تھا جو تنگ ہوتی۔اسے تو بس خوشی تھی کہ علینہ کو ساتھ نہیں لایا تھا۔کسی اور عورت کو اس کے ساتھ کھڑا نہیں کیا تھا۔کسی کو خود پر حق نہیں دیا تھا۔وہ بھیگی آنکھوں سے مسکرا دی۔
”مجھ جیسی فضول لڑکی ہی ہے جو آپ جیسے فضول کو اب تک اتنا برادشت کر رہی ہے۔ورنہ آپ
”تو آپ۔۔۔آپ نے علینہ سے شادی نہیں کی؟“وہ بے ساختہ من کی بات زبان پر لے آئی۔
”ارادہ تو تھا لیکن۔۔۔۔“اس نے مصنوعی انداز میں بات ادھوری چھوڑدی۔ہانیہ نے سوالیہ نے نظروں سے اسے گھورا۔
”لیکن۔۔۔“وہ پوری بات جاننا چاہتی تھی۔
”لیکن پھر میں نے سوچا کہ تم جیسی فضول لڑکی جب مل ہی گئی ہے تو مجھے بس گزارا کر لینا چاہئے۔ ایسا نہ ہو کہ تمہارے آنسوٶں کے دریا میں رہی سہی خوشیاں بھی چل بسیں۔“وہاج نے سر کجھاتے ہوئے کہا۔وہی ازلی انداز۔۔۔اسے چڑانے کے ہربے۔۔تنگ کرنے کی کوشش۔۔ لیکن ابھی ہانیہ نے اس کی بات پر غور ہی کب کیا تھا جو تنگ ہوتی۔اسے تو بس خوشی تھی کہ علینہ کو ساتھ نہیں لایا تھا۔کسی اور عورت کو اس کے ساتھ کھڑا نہیں کیا تھا۔کسی کو خود پر حق نہیں دیا تھا۔وہ بھیگی آنکھوں سے مسکرا دی۔
”مجھ جیسی فضول لڑکی ہی ہے جو آپ جیسے فضول کو اب تک اتنا برادشت کر رہی ہے۔ورنہ آپ
جیسے سڑیل شخص کے ساتھ
کوئی نہیں چل سکتا۔“وہ بھی اب لوٹ آئی تھی۔وہی دوستانہ انداز۔وہاج اس کی بات پر بے
ساختہ ہنس دیا۔
”اور مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں ہے کہ میں اپنی پوری زندگی اسی فضول لڑکی کے ساتھ گزارنا چاہتا ہوں۔۔۔۔“اس نے ہانیہ کے ناک کو پکڑا اور پھر چھوڑ دیا۔
” لیکن بس ایک شرط ہے۔۔!“وہاج نے بات جاری رکھی۔ہانیہ کی مسکراہٹ کچھ سمٹی۔اس نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔
”کیسی شرط۔۔۔!“وہ پوچھے بنا نہیں رہ پائی تھی۔
”یہی کہ آئندہ اپنے اس چھوٹے سے دماغ سے فضول سوچنے کی بجائے مجھ سے سیدھا سا سوال کر لیا کرنا۔ڈائن کی طرح منہ پھلانے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔۔“وہ اس کی کوتاہی پر اسے سمجھا رہا تھا۔ہاں، اسے پتا تھا اس نے غلط کیا تھا۔مگر ابھی یہ ماننا ضروری نہیں تھا۔
”اور اگر ایسا نہ کروں تو۔۔“اس نے چیلنج کرتے ہوئے کہا۔وہاج نے تھوڑی پر ہاتھ رکھ کر کچھ پل سوچا۔۔۔اداکاری !
تو۔۔۔۔“دو قدم پیچھے ہٹتے ہوئے وہ بولا۔ہانیہ اس کے جواب کی منتظر تھی۔
”اور مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں ہے کہ میں اپنی پوری زندگی اسی فضول لڑکی کے ساتھ گزارنا چاہتا ہوں۔۔۔۔“اس نے ہانیہ کے ناک کو پکڑا اور پھر چھوڑ دیا۔
” لیکن بس ایک شرط ہے۔۔!“وہاج نے بات جاری رکھی۔ہانیہ کی مسکراہٹ کچھ سمٹی۔اس نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔
”کیسی شرط۔۔۔!“وہ پوچھے بنا نہیں رہ پائی تھی۔
”یہی کہ آئندہ اپنے اس چھوٹے سے دماغ سے فضول سوچنے کی بجائے مجھ سے سیدھا سا سوال کر لیا کرنا۔ڈائن کی طرح منہ پھلانے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔۔“وہ اس کی کوتاہی پر اسے سمجھا رہا تھا۔ہاں، اسے پتا تھا اس نے غلط کیا تھا۔مگر ابھی یہ ماننا ضروری نہیں تھا۔
”اور اگر ایسا نہ کروں تو۔۔“اس نے چیلنج کرتے ہوئے کہا۔وہاج نے تھوڑی پر ہاتھ رکھ کر کچھ پل سوچا۔۔۔اداکاری !
تو۔۔۔۔“دو قدم پیچھے ہٹتے ہوئے وہ بولا۔ہانیہ اس کے جواب کی منتظر تھی۔
”تو میں ماں جی بتا دوں گا کہ تم انہیں ”چڑیل“ کہتی ہو۔“وہ مزے سے کہتا ماں جی کی طرف چل دیا۔
”وہاج۔۔۔!“وہ اسے پکارتی ہوئی اس کے پیچھے دوڑی۔
چاند نے انہیں مسکراتے ہوئے دیکھا تھا اور مسکراتے رہنے کی دعا دی تھی۔قسمت نے انہیں ہمیشہ ایک دوسرے کا ساتھ دیا تھا۔اور اب کا ساتھ دائمی تھا۔دوستی کا وہ رشتہ جو ہمیشہ سے ان کے ساتھ رہا تھا اب ایک مقدس تعلق میں بندھ گیا تھا۔ایسا تعلق جس میں دوستی کی مہک اور محبت کی چاشنی تھی۔اور محبت ختم ہو بھی جائے تو ہو جائے، یہ دوستی ہمیشہ رہنے والی تھی۔
*****************************
bhot pyara
ReplyDeleteNyc yaar bohot awlla
ReplyDeleteAuthor ka name????
Writter name is "Hooraey Unsia"
Delete